دنیش کمار کے اشعار
شام کی چائے ان کے ساتھ پیوں
دل کی حسرت بہت پرانی ہے
-
موضوع : چائے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مجھ کو سپھلتا بیٹھے بٹھائے نہیں ملی
میں نے گہر تلاشے ہیں دریا کھنگال کر
جڑا ہی رہتا ہے ممتا کی گربھنال سے وہ
وجود بیٹے کا ماں سے جدا نہیں ہوتا
دیکھو تو کام ایک بھی ہم نے کہاں کیا
پوچھو تو ایک پل کی بھی فرصت نہیں رہی
دیکھو درخت کاٹنے سے پہلے ایک بار
ان سبز ٹہنیوں پہ کوئی گھونسلہ نہ ہو
ہاٹ پہ کیا بکتا تھا ہم کو کیا مطلب
اپنی جیب میں بس خوابوں کے سکے تھے
درد دل کی انتہا تھی ضبط ٹوٹا اور پھر
آنسوؤں کا رنگ میری شاعری میں آ گیا
ننھے لبوں نے ہنس کے جو پاپا کہا مجھے
دن بھر کی میری ساری تھکاوٹ اتر گئی
شاعری نام تصور میں چھلکتی مے کا
مر ہی جاتے جو نہ پینے کی اجازت ہوتی
اندھیرا شہر میں بے خوف رقص کرتا رہا
چراغ سارے ہواؤں کے اختیار میں تھے
ملے گی آخری خانے میں موت ہی سب کو
بساط دہر پہ پیدل ہو یا ہو پھر وہ سوار
خود بہ خود چل کے سمندر ہی قریب آئے گا
ہو اگر پیاسے تو ہرگز نہ یہ سپنا دیکھو
میں تو مر کر بھی جیوں گا شان سے
میں نے غزلوں میں اتاری زندگی
دنیا میں مثل تاج نہایت حسیں تھا وہ
لیکن وفا کا رنگ اترنے سے پیشتر
جس کا نقش پا ہی میل کا پتھر ہے
کچھ تو خوبی ہوگی اس بنجارے میں
مرنے سے بھی گریز نہ مجھ جیسے رند کو
لیکن یہ ہو کہ مر کے مجھے مے کدہ ملے
مقرر کر رکھی ہے میں نے اپنے آنسوؤں کی حد
مرے دکھ درد کا پیکر مرا چہرہ نہیں ہوتا
گیلی مٹی ہے شاید جڑ پکڑ بھی لیں
میں آنکھوں میں سپنے بونا چاہتا ہوں