Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Hafeez Hoshiarpuri's Photo'

حفیظ ہوشیارپوری

1912 - 1973

اپنی غزل ’ محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے‘ کے لئے مشہور جسے کئی گلوکاروں نے آواز دی ہے

اپنی غزل ’ محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے‘ کے لئے مشہور جسے کئی گلوکاروں نے آواز دی ہے

حفیظ ہوشیارپوری کے اشعار

18.3K
Favorite

باعتبار

محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے

تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے

دوستی عام ہے لیکن اے دوست

دوست ملتا ہے بڑی مشکل سے

زمانے بھر کے غم یا اک ترا غم

یہ غم ہوگا تو کتنے غم نہ ہوں گے

اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے

تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے

دنیا میں ہیں کام بہت

مجھ کو اتنا یاد نہ آ

دل سے آتی ہے بات لب پہ حفیظؔ

بات دل میں کہاں سے آتی ہے

تمام عمر ترا انتظار ہم نے کیا

اس انتظار میں کس کس سے پیار ہم نے کیا

تری تلاش ہے یا تجھ سے اجتناب ہے یہ

کہ روز ایک نئے راستے پہ چلتے ہیں

تمام عمر کیا ہم نے انتظار بہار

بہار آئی تو شرمندہ ہیں بہار سے ہم

ترے جاتے ہی یہ عالم ہے جیسے

تجھے دیکھے زمانہ ہو گیا ہے

نظر سے حد نظر تک تمام تاریکی

یہ اہتمام ہے اک وعدۂ‌ سحر کے لیے

دل میں اک شور سا اٹھا تھا کبھی

پھر یہ ہنگامہ عمر بھر ہی رہا

تری تلاش میں جب ہم کبھی نکلتے ہیں

اک اجنبی کی طرح راستے بدلتے ہیں

ہم کو منزل نے بھی گمراہ کیا

راستے نکلے کئی منزل سے

کہیں یہ ترک محبت کی ابتدا تو نہیں

وہ مجھ کو یاد کبھی اس قدر نہیں آئے

جب کبھی ہم نے کیا عشق پشیمان ہوئے

زندگی ہے تو ابھی اور پشیماں ہوں گے

یہ تمیز عشق و ہوس نہیں ہے حقیقتوں سے گریز ہے

جنہیں عشق سے سروکار ہے وہ ضرور اہل ہوس بھی ہیں

یہ دل کشی کہاں مری شام و سحر میں تھی

دنیا تری نظر کی بدولت نظر میں ہے

اب یہی میرے مشاغل رہ گئے

سوچنا اور جانب در دیکھنا

غم زمانہ تری ظلمتیں ہی کیا کم تھیں

کہ بڑھ چلے ہیں اب ان گیسوؤں کے بھی سائے

غم زندگانی کے سب سلسلے

بالآخر غم عشق سے جا ملے

آہ مرگ آدمی پر آدمی روئے بہت

کوئی بھی رویا نہ مرگ آدمیت کے لیے

یہ بات کہہ کے ہوا ناخدا الگ مجھ سے

یہ ہے سفینہ یہ گرداب ہے وہ ہے ساحل

جلوہ بے باک ادا شوخ تماشا گستاخ

اٹھ گئے بزم سے آداب نظر میرے بعد

Recitation

بولیے