حیدر الہ آبادی کے اشعار
تری یاد آئی تو کہتی ہیں آنکھیں
اب آنکھوں سے آنسو بہانا پڑے گا
چھت پہ آئی ہو آج برسوں بعد
دیکھ کر چاند ڈر نہ جائے کہیں
اپنے بستر پہ دم نہ توڑ دیں ہم
تیری باتوں کو یاد کر کر کے
تیرے جانے کے بعد دیکھ ذرا
کتنا برباد ہو گیا ہوں میں
کوئی بھی روبرو نہیں رہا اب
میرا مطلب ہے تو نہیں رہا اب
اپنی اس پاک نگاہوں سے ہمیں دیکھو تو
ہم کہیں اور نہیں دل میں ترے رہتے ہیں
ہار جاتا ہوں ان کی باتوں سے
جن کی باتوں سے جیت جاتا تھا
گھر سے میں نکلا وضو کر کے عبادت کے لئے
اس کی کھڑکی کھل گئی اور پھر اشارہ ہو گیا
جب سے تمہارے دید کی چاہت نکل گئی
دل ہے کہیں دماغ کہیں اور نظر کہیں
زمانہ جتنا بہکائے تمہارے ساتھ رہنا ہے
تمہیں اب کچھ بھی ہو جائے تمہارے ساتھ رہنا ہے
تیرا چہرہ تو دیکھ رکھا ہے
حد ہے تیری جبیں نہیں دیکھی
ہے محبت اسی لئے تو ابھی
تجھ سے ڈھارس لگائے بیٹھے ہیں
کب کہاں کون پلٹ جائے تمہیں کیا ہے خبر
اس سے بہتر ہے کہ تم اپنا ہی رستہ دیکھو