افتخار حیدر کے اشعار
بے خطا ہے تو پھر بھی ڈر اے دوست
بے خطا ہی نہ دھر لیا جائے
جتنی فرصت ہے زندگی میں نصیب
اتنی فرصت میں میں سے تو ہو جا
ترے بغیر گزارا نہیں کسی صورت
اسے یہ بات بتانے سے بات بگڑی ہے
شام ہوتے ہی تیرے ہجر کا دکھ
دل میں خیمہ لگا کے بیٹھ گیا
امیدیں باندھ رکھی ہیں ترے لطف و کرم سے
سیہ اعمال ہوں تو گوشوارہ کون دیکھے
یہ جو تم موت سے ڈراتے ہو
زندگی سب کا مسئلہ نہیں ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سو طرح کے وبال ہیں لیکن
پھر بھی زندہ ہیں آن بان کے ساتھ
میر کے کچھ اشعار ملا کر راشد کی کچھ نظموں میں
وحشت کی آمیزش کر کے اک اسلوب بنانا ہے
ایسوں ویسوں کے قصیدے نہیں لکھے جاتے
شعر لکھ لیتا ہوں سہرے نہیں لکھے جاتے
تیرے قدموں میں آ کے گرنا ہے
جس بلندی پہ بھی اچھال مجھے
بجلی گئی تو وہ بھی ہمارے مکان کی
بجلی گری تو وہ بھی ہمارے مکان پر
عجیب درد سا اس لمحۂ وصال میں تھا
کہ زخم سے بھی بڑا کرب اندمال میں تھا
سیٹی کی آواز سنی اور سارا ماضی لوٹ آیا
پس منظر میں ریل نہیں ہے پورا ایک افسانہ ہے
شہر میں تھی ناساز طبیعت بیٹے کی
گاؤں میں بیٹھی ماں نے کھانا چھوڑ دیا