امتیاز احمد قمر کے اشعار
اس نے ہاتھوں کی لکیروں سے بغاوت کی تھی
اب جہاں ہوگا مری طرح وہ تنہا ہوگا
یوں تو قدم قدم پہ خدا سینکڑوں ملے
بندہ نہ مل سکا کوئی بندوں کے شہر میں
مجبور کا شکوہ کیا مجبور کی آہیں کیا
یہ آپ کی دنیا ہے بس آپ کی چلتی ہے
ہمارے گاؤں سے بارش خلوص کی لے جا
کہ تیرے شہر کا سب کچھ الاؤ پر ہوگا
جب شہر میں دشمن مرا کوئی بھی نہیں تھا
پھر کون یہ خنجر کی زباں بول رہا ہے
ضبط غم کا مرے اندازہ بھلا کیا ہوتا
میں اگر دشت نہ ہوتا بھی تو دریا ہوتا
غم گساری پیار ہمدردی وفا
یہ دکانیں شہر کے باہر لگا
پھر کوئی خنجر چلائے پھر کوئی کھینچے کماں
رفتہ رفتہ دل کا ہر اک زخم بھرتا جائے ہے
اس قمرؔ کو ہے خود اب اپنے ہی چہرے کی تلاش
جس کو دنیا نے کہا آج کا گیانی ہے یہی
برگ آوارہ کو اب اپنا پتہ یاد نہیں
کیا ہوا تیز ہواؤں کی پذیرائی میں
ہم نے خود بھر دیا پیمانے میں اپنا ہی لہو
جب بھی میخانے کی توقیر پہ آنچ آئی ہے
دور ہم کر نہ سکے کور نگاہی اپنی
وہ تھا پہلے بھی قریب رگ جاں آج بھی ہے
رخصت چشم تماشہ کا ہے ماتم ورنہ
اک خلش پہلو میں رہتی تھی جہاں آج بھی ہے
جل بجھی ہوگی کوئی آگ کسی دن اس میں
بے سبب ہی تو نہیں داغ قمرؔ میں آیا
جب ڈوب گئی کشتی یہ راز کھلا ہم پر
دریا کے تلاطم میں روپوش کنارے تھے
ایک شیشے کے مقابل تھے ہزاروں پتھر
ٹوٹ کر میرے بکھرنے کی کہانی ہے یہی
میں ہی کیا سچ بولتا تھا شہر میں
کیوں مجھے ہی آ کے یہ پتھر لگا
مرے ہی حصے میں عظمت صلیب و دار کی تھی
مجھے ہی عہد کا اپنے رسول ہونا تھا
سارے ماحول کی رگ رگ میں نشہ دوڑ گیا
مے کی برسات ہے یا آپ کی انگڑائی ہے