جمال عباس فہمی کے اشعار
تجھ سے ملنے کا بہانہ تو کوئی چاہئے تھا
ہم نے وہ ایک بہانہ کبھی ڈھونڈا ہی نہیں
دوستی اک دن دشمن سے ہو سکتی ہے
سوچ کے یہ لڑنے کا ارادہ چھوڑ دیا
ٹھکرا کے چلے آئے خوددار طبیعت ہے
ہم ان کی عنایت کو خیرات سمجھتے ہیں
کوئی تو ایسا ہو جس سے میں دل کی بات کروں
سو اپنے آپ سے ہی بات کرتا رہتا ہوں
نہیں یہ مہندی نہیں ہے تمہارے ہاتھوں پر
کسی کا خون تمنا لگائے بیٹھے ہو
جب ختم ہوئی دل سے ایثار کی گنجائش
آنگن میں نکل آئی دیوار کی گنجائش
تم اپنا دریا یہاں سے سمیٹ لو ورنہ
ہماری پیاس کی گرمی اسے جلا دے گی
تذکرے ہیں تو فقط قتل کے انداز کے ہیں
شہر میں قتل کا میرے کوئی چرچا ہی نہیں
میری خود فراموشی اب یہاں تک آ پہونچی
پوچھتا ہوں لوگوں سے تم نے مجھ کو دیکھا ہے
کوئی دست مسیحائی کرم انداز ہونے تک
نمک پاشی کا زخموں کو مزہ بھی لگ چکا ہوگا