محمود احمد ہاشمی کے اشعار
بیٹیاں سب کے مقدر میں کہاں ہوتی ہیں
گھر خدا کو جو پسند آئے وہاں ہوتی ہیں
اک ترا ہجر جو بالوں میں سفیدی لایا
اک ترا شوق جو سینے میں جواں رہتا ہے
میں نہیں مانتا کاغذ پہ لکھا شجرۂ نسب
بات کرنے سے قبیلے کا پتہ چلتا ہے
اس کی بستی سے پہلے قبرستان
عاشقوں کے لیے اشارہ تھا
بارہ گھنٹوں کی ہے اک رات جو ٹلتی ہی نہیں
ہجر بھی عین دسمبر میں ملا ہے مجھ کو
میرے شعروں سے مری عمر کا اندازہ کر
مجھ سے مت پوچھ مرا یوم ولادت کیا ہے
شاعری علم و ہنر مذہب سیاست بعد میں
سب سے پہلے آدمی انسان ہونا چاہیے
بیٹے مصروف رہے مال کے بٹوارے میں
بیٹیاں باپ کی میت سے لپٹ کر روئیں
ظلم بھی شرما رہا ہے عدل کی میزان سے
کود جانا چاہیے مینار پاکستان سے
بیٹھے ہیں کب سکون سے عاشق مزاج لوگ
گرداب چاہئیں کبھی طوفان چاہئیں
کئی رنگ بدلتا ہے بھروسا نہیں اس کا
فی الحال وہ مخلص ہے مگر ذہن میں رکھنا
نئے کپڑے نئے جوتے نئے برتن خریدے گا
وہ اپنے سارے میڈل بیچ کر راشن خریدے گا
ایسا کہاں یہ ذائقہ گندم کے پاس ہے
روٹی میں ماں کے ہاتھ کی شامل مٹھاس ہے
تمہارے گھر کی فضا سازگار ہے شاید
تم اپنی عمر سے چھوٹے دکھائی دیتے ہو
وہ اس لیے کہ محبت کی رسم زندہ رہے
حسین لوگ بہ کثرت جہاں میں بھیجے گئے
مری وفا میں کمی ہے تو مجھ سے بات کرے
اسے کہو کہ وہ آئے مذاکرات کرے
کیا سوچتا ہے خود وہ کسی ماں کی موت پر
تخلیق کرنے والے سے میرا سوال ہے
زمیں کی گود میں مائیں بھی جا کے سوتی ہیں
زمین ماں کی بھی ماں ہے زمیں سے پیار کرو
اتنا سچا پھر نہ کسی نے پیار دیا
ماں کی موت نے مجھ کو آدھا مار دیا
دن اگر میرا پریشانی میں گزرے محمودؔ
ماں تسلی کے لیے خواب میں آ جاتی ہے
سب سے اچھی ہے یہ محمودؔ ادب کی دنیا
زندگانی کے سلیقے کا پتہ چلتا ہے
مرشد نہ چھوڑ ہم کو ہمارے نصیب پر
زرخیز کھیتیوں کو بھی دہقان چاہیے
پہلے سویا کرتا تھا محمودؔ لمبی تان کر
پھر شعور آتا گیا اور رت جگے بڑھتے گئے
چاہیے ایک ملاقات مہینے میں ضرور
تازگی حلقۂ احباب میں آ جاتی ہے
تجھے بھی پھولوں کے بستر پہ رت جگے ہی ملے
عروج تیرا بھی میرے زوال جیسا ہے
بارش جسے محمودؔ سمجھتا ہے زمانہ
انسان کے کردار پہ روتے ہیں فرشتے
ظاہر ہوا ہے مجھ پہ یتیمی کی پہلی رات
اب میرا جسم آدھا ہے آدھا نہیں رہا
کوئی مرتا نہیں ہے مر کے بھی
قبر سب کے لیے نہیں ہوتی
پہلے دو چار سخن ور ہی ہوا کرتے تھے
اب تو ہر شخص سخن ور ہے بچائے مولا
محمودؔ تم تو لوگوں کے ہو کر ہی رہ گئے
اپنے لیے بھی وقت نکالا کرو کبھی
کچھ رنگ ترے روپ میں یوسف کی طرح ہیں
ورنہ میں ترے ہجر میں یعقوب نہ ہوتا
مری طرح سے شجر بھی ہیں باغیانہ مزاج
جہاں سے کاٹے گئے تھے وہیں سے اگ آئے
رائے کیا قائم کریں گے اجنبی اس شہر میں
رستہ بتلائے جہاں پر ایک اندھا آدمی
اب تو ناپید ہوتے جاتے ہیں
سوچ کر بات کرنے والے لوگ
رات کو اشک دئے خون دیا آہیں دیں
پھر کہیں جا کے یہ محمودؔ اجالے ہوئے ہیں
اک رات اس کے ہاتھ پہ آنسو گرا کے دیکھ
محمودؔ تیرا چاند ستارہ شناس ہے
اسم اعظم بھی مرے ساتھ سفر کرتا ہے
میری کشتی میں جو بیٹھے گا اماں پائے گا
عشق وہ گیت جو عمروں کی ریاضت مانگے
کون اس گیت کو آسانی سے گا سکتا ہے
آ کہ مضبوط کریں پیار کی بنیادوں کو
گھر شکستہ ہو تو برسات میں بٹ جاتا ہے
میں کھول اٹھا دیکھ کے دریا کا تکبر
یوں پیاسا پلٹنا مرا مقصود نہیں تھا
بہت ہی سوز بہت ہی گداز ہے اس میں
تمہارا ہجر اذان بلال جیسا ہے
جل رہے ہیں چاروں اپنے اپنے آتش دان میں
سردیوں کی شب ستارے خشک ایندھن اور میں
آج محمودؔ کے سر پر نہیں سایہ کوئی
ماں سفر پر مجھے کرتی تھی روانہ مرے دوست
کئی چکور مرے حسن کے حصار میں ہیں
بر آب سندھ بچھی چاندنی کا بیٹا ہوں
تالاب کے پانی میں روانی نہیں ہوتی
یہ بات مری زندگی بھر ذہن میں رکھنا
گمنامیوں کے بیچ اترنا نہیں مجھے
محمودؔ جسم مرنا ہے مرنا نہیں مجھے