Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Mahmood Ahmad Hashmi's Photo'

محمود احمد ہاشمی

- 1914 | پاکستان

محمود احمد ہاشمی کے اشعار

396
Favorite

باعتبار

بیٹیاں سب کے مقدر میں کہاں ہوتی ہیں

گھر خدا کو جو پسند آئے وہاں ہوتی ہیں

اک ترا ہجر جو بالوں میں سفیدی لایا

اک ترا شوق جو سینے میں جواں رہتا ہے

میں نہیں مانتا کاغذ پہ لکھا شجرۂ نسب

بات کرنے سے قبیلے کا پتہ چلتا ہے

اس کی بستی سے پہلے قبرستان

عاشقوں کے لیے اشارہ تھا

بارہ گھنٹوں کی ہے اک رات جو ٹلتی ہی نہیں

ہجر بھی عین دسمبر میں ملا ہے مجھ کو

میرے شعروں سے مری عمر کا اندازہ کر

مجھ سے مت پوچھ مرا یوم ولادت کیا ہے

شاعری علم و ہنر مذہب سیاست بعد میں

سب سے پہلے آدمی انسان ہونا چاہیے

بیٹے مصروف رہے مال کے بٹوارے میں

بیٹیاں باپ کی میت سے لپٹ کر روئیں

ظلم بھی شرما رہا ہے عدل کی میزان سے

کود جانا چاہیے مینار پاکستان سے

بیٹھے ہیں کب سکون سے عاشق مزاج لوگ

گرداب چاہئیں کبھی طوفان چاہئیں

کئی رنگ بدلتا ہے بھروسا نہیں اس کا

فی الحال وہ مخلص ہے مگر ذہن میں رکھنا

نئے کپڑے نئے جوتے نئے برتن خریدے گا

وہ اپنے سارے میڈل بیچ کر راشن خریدے گا

ایسا کہاں یہ ذائقہ گندم کے پاس ہے

روٹی میں ماں کے ہاتھ کی شامل مٹھاس ہے

تمہارے گھر کی فضا سازگار ہے شاید

تم اپنی عمر سے چھوٹے دکھائی دیتے ہو

وہ اس لیے کہ محبت کی رسم زندہ رہے

حسین لوگ بہ کثرت جہاں میں بھیجے گئے

مری وفا میں کمی ہے تو مجھ سے بات کرے

اسے کہو کہ وہ آئے مذاکرات کرے

کیا سوچتا ہے خود وہ کسی ماں کی موت پر

تخلیق کرنے والے سے میرا سوال ہے

زمیں کی گود میں مائیں بھی جا کے سوتی ہیں

زمین ماں کی بھی ماں ہے زمیں سے پیار کرو

اتنا سچا پھر نہ کسی نے پیار دیا

ماں کی موت نے مجھ کو آدھا مار دیا

دن اگر میرا پریشانی میں گزرے محمودؔ

ماں تسلی کے لیے خواب میں آ جاتی ہے

سب سے اچھی ہے یہ محمودؔ ادب کی دنیا

زندگانی کے سلیقے کا پتہ چلتا ہے

مرشد نہ چھوڑ ہم کو ہمارے نصیب پر

زرخیز کھیتیوں کو بھی دہقان چاہیے

پہلے سویا کرتا تھا محمودؔ لمبی تان کر

پھر شعور آتا گیا اور رت جگے بڑھتے گئے

چاہیے ایک ملاقات مہینے میں ضرور

تازگی حلقۂ احباب میں آ جاتی ہے

تجھے بھی پھولوں کے بستر پہ رت جگے ہی ملے

عروج تیرا بھی میرے زوال جیسا ہے

بارش جسے محمودؔ سمجھتا ہے زمانہ

انسان کے کردار پہ روتے ہیں فرشتے

ظاہر ہوا ہے مجھ پہ یتیمی کی پہلی رات

اب میرا جسم آدھا ہے آدھا نہیں رہا

کوئی مرتا نہیں ہے مر کے بھی

قبر سب کے لیے نہیں ہوتی

پہلے دو چار سخن ور ہی ہوا کرتے تھے

اب تو ہر شخص سخن ور ہے بچائے مولا

محمودؔ تم تو لوگوں کے ہو کر ہی رہ گئے

اپنے لیے بھی وقت نکالا کرو کبھی

کچھ رنگ ترے روپ میں یوسف کی طرح ہیں

ورنہ میں ترے ہجر میں یعقوب نہ ہوتا

مری طرح سے شجر بھی ہیں باغیانہ مزاج

جہاں سے کاٹے گئے تھے وہیں سے اگ آئے

رائے کیا قائم کریں گے اجنبی اس شہر میں

رستہ بتلائے جہاں پر ایک اندھا آدمی

اب تو ناپید ہوتے جاتے ہیں

سوچ کر بات کرنے والے لوگ

رات کو اشک دئے خون دیا آہیں دیں

پھر کہیں جا کے یہ محمودؔ اجالے ہوئے ہیں

اک رات اس کے ہاتھ پہ آنسو گرا کے دیکھ

محمودؔ تیرا چاند ستارہ شناس ہے

اسم اعظم بھی مرے ساتھ سفر کرتا ہے

میری کشتی میں جو بیٹھے گا اماں پائے گا

عشق وہ گیت جو عمروں کی ریاضت مانگے

کون اس گیت کو آسانی سے گا سکتا ہے

آ کہ مضبوط کریں پیار کی بنیادوں کو

گھر شکستہ ہو تو برسات میں بٹ جاتا ہے

میں کھول اٹھا دیکھ کے دریا کا تکبر

یوں پیاسا پلٹنا مرا مقصود نہیں تھا

بہت ہی سوز بہت ہی گداز ہے اس میں

تمہارا ہجر اذان بلال جیسا ہے

جل رہے ہیں چاروں اپنے اپنے آتش دان میں

سردیوں کی شب ستارے خشک ایندھن اور میں

آج محمودؔ کے سر پر نہیں سایہ کوئی

ماں سفر پر مجھے کرتی تھی روانہ مرے دوست

کئی چکور مرے حسن کے حصار میں ہیں

بر آب سندھ بچھی چاندنی کا بیٹا ہوں

تالاب کے پانی میں روانی نہیں ہوتی

یہ بات مری زندگی بھر ذہن میں رکھنا

گمنامیوں کے بیچ اترنا نہیں مجھے

محمودؔ جسم مرنا ہے مرنا نہیں مجھے

Recitation

بولیے