مخفی لکھنوی کے اشعار
مرا آنا جہاں میں منحصر تھا تین باتوں پر
جفا سہنا وفا کرنا اور اس کے بعد مر جانا
عشق کی فطرت نے یوں بدلا مذاق زندگی
جتنے غم بڑھنے لگے اتنی خوشی ہونے لگی
جلا آشیاں جب سے دل مطمئن ہے
نہ بجلی کا خطرہ نہ دھڑکا خزاں کا
پردہ ہے اک بقا کا راز فنا نہ پوچھو
مر کر بھی ساتھ ہم سے چھوٹا نہ زندگی کا
وہ چھپنا ترا پردۂ رنگ و بو میں
وہ ہر رنگ میں میرا پہچان جانا
بہت جستجو کی بہت خاک چھانی
کدھر ہے تو اے جلوۂ لا مکانی
یوں منظر ہستی پہ تری چھا گئیں آنکھیں
اک کیف سا ہر چیز پہ برسا گئیں آنکھیں
یوں بے حجاب ہیں کہ ہیں جیسے حجاب میں
اس بزم میں کسی کو مجال نظر کہاں
خدا کے بھروسے پہ چھوڑی ہے کشتی
نہ گرداب دیکھا نہ طوفان جانا
ہر بات کا احساس مرے دل سے مٹا دے
زندہ مجھے رکھنا ہے تو دیوانہ بنا دے
وفا ابتدا ہے وفا انتہا ہے
خلاصہ ہے بس یہ مری داستاں کا