میم معروف اشرف کے اشعار
ابھی آغاز الفت ہے چلو اک کام کرتے ہیں
بچھڑ کر دیکھ لیتے ہیں بچھڑ کر کیسا لگتا ہے
کسی کے یاد کرنے کا اگر ہوتی سبب ہچکی
مرا محبوب ہو کر کے پریشاں مر گیا ہوتا
جب بھی چوما ہے ترے ہونٹوں کو
جسم سے ان کو جدا جانا ہے
بہت آسان لفظوں میں یہ اس نے کہہ دیا ہم سے
نہیں تم سے محبت جاؤ جو کرنا ہے سو کر لو
سوچتا ہوں کیا مرا بنتا خدا کے سامنے
گر نہ ہوتا یا رسول اللہ سہارا آپ کا
ترے ہونٹوں کی سرخی دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے
چبایا ہے کسی عاشق کا دل ہندہ مزاجی سے
ابھی تو اور بڑھے گی یہ تشنگی دل کی
ابھی تو اور بھی زیادہ وہ یاد آئیں گے
لڑی ہے آنکھ مری جب سے تیری آنکھوں سے
سوائے تیرے مجھے کچھ نظر نہیں آتا
تمہیں کو چاہیں گے زندگی بھر کسی سے الفت نہیں کریں گے
جو کہہ دیا ہے سو کہہ دیا ہے نئی محبت نہیں کریں گے
اسے بھی تھا مجھے برباد کرنا
مجھے بھی اک فسانہ چاہیے تھا
ایک بس ہم نے تجھ کو چاہا تھا
اور کیا ہم نے تجھ سے چاہا تھا
مزے جو تیری قربت کے تھے سارے بھول بیٹھے ہیں
مزا فرقت میں تیری ہم کو اتنا آ گیا جاناں
عقل کہتی ہے کہ سودا ہے زیاں کا
اور تجھے دل بے تحاشا چاہتا ہے
افسوس مجھ کو چھوڑ کے جانے سے پیشتر
وہ جا چکا تھا مجھ کو خبر بعد میں ہوئی
گذشتہ سال بھی اشرفؔ یہی امید تھی ہم کو
کہ یہ جو سال آیا ہے خوشی کی گھڑیاں لائے گا
دیکھا جمال یار تو مخمور ہو گئے
بے خود ہیں بے پیے ہی یہ ایسی شراب ہے
دیکھو مرے شریر میں کچھ بھی نہیں رہا
دیکھو تمہارا عشق مرا کھا گیا بدن
وہی سب لوگ اشرفؔ آستیں کے سانپ نکلے ہیں
جنہیں شامل سمجھتے تھے تم اپنے خیر خواہوں میں
ایک ہم ہیں کہ وہیں ہیں کہ جہاں بچھڑے تھے
ایک تو ہے کہ کبھی یاں تو وہاں ہوتا ہے
میں تم سے دور رہ کر کس طرح یہ تم کو سمجھاؤں
کہ مجھ سے دور رہ کر کس قدر ہو تم اکیلی
کل ابن آدم ان پہ قربان ہو نہ جائیں
توبہ وہ ان کے جلوے اللہ وہ نظارے
بڑھتے ہی جا رہے ہیں طوفان خواہشوں کے
ہوتی ہی جا رہی ہے مجھ میں کمی تمہاری
اور تو قاصد نہیں کچھ ان سے کہنے کے لئے
ان سے بس تو اتنا کہنا یاد آنا چھوڑ دیں
ارادہ پھر کسی سے کر لیا اس نے محبت کا
سو اب یہ دیکھنا ہے کون ہے زد میں تباہی کے
اول اول تو بہت عقل سے الجھے گا دل
بعد پھر آپ ہی دل آپ کو سمجھائے گا
یہ کس طرح کا ستم ہے خدا ترا مجھ پر
مرے نصیب کوئی حادثہ نہیں رکھا
تب جا کے کہیں ضابط و مضبوط ہوئے ہیں
ہم سال کئی آتش دوزخ میں جلے ہیں
کب خبر تھی کہ حیات اشرفؔ
تیری زلفوں میں الجھ جائے گی
دیں گے یہ اہل جرم کو راحت
بے قصوروں کو پھانسیاں دیں گے