Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Meem Maroof Ashraf's Photo'

میم معروف اشرف

1999 | رام پور, انڈیا

میم معروف اشرف کے اشعار

1
Favorite

باعتبار

جب بھی چوما ہے ترے ہونٹوں کو

جسم سے ان کو جدا جانا ہے

ابھی آغاز الفت ہے چلو اک کام کرتے ہیں

بچھڑ کر دیکھ لیتے ہیں بچھڑ کر کیسا لگتا ہے

مزے جو تیری قربت کے تھے سارے بھول بیٹھے ہیں

مزا فرقت میں تیری ہم کو اتنا آ گیا جاناں

عقل کہتی ہے کہ سودا ہے زیاں کا

اور تجھے دل بے تحاشا چاہتا ہے

تب جا کے کہیں ضابط و مضبوط ہوئے ہیں

ہم سال کئی آتش دوزخ میں جلے ہیں

ترے ہونٹوں کی سرخی دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے

چبایا ہے کسی عاشق کا دل ہندہ مزاجی سے

اول اول جو دیکھتی تھیں تم

وہ ہی درکار ہے نظر ہم کو

سوچتا ہوں کیا مرا بنتا خدا کے سامنے

گر نہ ہوتا یا رسول اللہ سہارا آپ کا

بات آتی ہے دوستوں کی جب

مجھ کو دشمن عزیز لگتے ہیں

بہت آسان لفظوں میں یہ اس نے کہہ دیا ہم سے

نہیں تم سے محبت جاؤ جو کرنا ہے سو کر لو

یہ کس طرح کا ستم ہے خدا ترا مجھ پر

مرے نصیب کوئی حادثہ نہیں رکھا

دیکھا جمال یار تو مخمور ہو گئے

بے خود ہیں بے پیے ہی یہ ایسی شراب ہے

سر کٹا کر ہی سرخ روئی ہے

عشق بھی کربلا کا میداں ہے

تم کو پانا نہیں مرا مقصد

اب فقط تم کو بھول جانا ہے

گذشتہ سال بھی اشرفؔ یہی امید تھی ہم کو

کہ یہ جو سال آیا ہے خوشی کی گھڑیاں لائے گا

اسے بھی تھا مجھے برباد کرنا

مجھے بھی اک فسانہ چاہیے تھا

دیں گے یہ اہل جرم کو راحت

بے قصوروں کو پھانسیاں دیں گے

دیکھو مرے شریر میں کچھ بھی نہیں رہا

دیکھو تمہارا عشق مرا کھا گیا بدن

ابھی تو اور بڑھے گی یہ تشنگی دل کی

ابھی تو اور بھی زیادہ وہ یاد آئیں گے

تمہیں کو چاہیں گے زندگی بھر کسی سے الفت نہیں کریں گے

جو کہہ دیا ہے سو کہہ دیا ہے نئی محبت نہیں کریں گے

کب خبر تھی کہ حیات اشرفؔ

تیری زلفوں میں الجھ جائے گی

اول اول تو بہت عقل سے الجھے گا دل

بعد پھر آپ ہی دل آپ کو سمجھائے گا

ایک ہی شخص ابتدا ہے مری

ایک ہی شخص اختتام مرا

دوریاں قربتوں کا باعث ہیں

قربتیں دوریاں بڑھاتی ہیں

لڑی ہے آنکھ مری جب سے تیری آنکھوں سے

سوائے تیرے مجھے کچھ نظر نہیں آتا

مجھ سے کہتی ہے آج تم شاعر

ہو اگر تو مری بدولت ہو

بنت حوا کو بھول جائیں ہم

یہ نہیں آتا ابن آدم کو

بڑھتے ہی جا رہے ہیں طوفان خواہشوں کے

ہوتی ہی جا رہی ہے مجھ میں کمی تمہاری

اور تو قاصد نہیں کچھ ان سے کہنے کے لئے

ان سے بس تو اتنا کہنا یاد آنا چھوڑ دیں

ارادہ پھر کسی سے کر لیا اس نے محبت کا

سو اب یہ دیکھنا ہے کون ہے زد میں تباہی کے

کسی کے یاد کرنے کا اگر ہوتی سبب ہچکی

مرا محبوب ہو کر کے پریشاں مر گیا ہوتا

کل ابن آدم ان پہ قربان ہو نہ جائیں

توبہ وہ ان کے جلوے اللہ وہ نظارے

افسوس مجھ کو چھوڑ کے جانے سے پیشتر

وہ جا چکا تھا مجھ کو خبر بعد میں ہوئی

وہی سب لوگ اشرفؔ آستیں کے سانپ نکلے ہیں

جنہیں شامل سمجھتے تھے تم اپنے خیر خواہوں میں

جتنا جاتے ہیں دور وہ مجھ سے

اور اتنا قریب ہوتے ہیں

ایک ہم ہیں کہ وہیں ہیں کہ جہاں بچھڑے تھے

ایک تو ہے کہ کبھی یاں تو وہاں ہوتا ہے

ایک بس ہم نے تجھ کو چاہا تھا

اور کیا ہم نے تجھ سے چاہا تھا

میں تم سے دور رہ کر کس طرح یہ تم کو سمجھاؤں

کہ مجھ سے دور رہ کر کس قدر ہو تم اکیلی

آج تصویر اس کی دیکھی ہے

آج پھر نیند کا زیاں ہوگا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے