Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Moid Rahbar Lakhnavi's Photo'

معید رہبر لکھنوی

1985 | لکھنؤ, انڈیا

معید رہبر لکھنوی کے اشعار

181
Favorite

باعتبار

ہم مسافر ہیں کہاں گھر کی طرف دیکھتے ہیں

ہر گھڑی میل کے پتھر کی طرف دیکھتے ہیں

انا پرست ہوں مل جاؤں خاک میں لیکن

خرید سکتا نہیں کوئی مال زر سے مجھے

گر کچھ نہیں ہے یار ترے پاس غم تو ہے

تو خوش نصیب ہے کہ تری آنکھ نم تو ہے

رہو گھر میں زیادہ تو سفر آواز دیتا ہے

سفر میں جب نکل جاؤ تو گھر آواز دیتا ہے

آج دیکھا انہیں جب زمانے کے بعد

آنکھ نم ہو گئی مسکرانے کے بعد

پہلے یہ سوچتا رہتا تھا کہ تنہا ہو جاؤں

آج تنہا ہوں تو تنہائی سے ڈر لگتا ہے

لاکھ تبدیلیاں بازاروں میں آئیں رہبر

میں وہ سکہ ہوں جو ہر دور میں چل جاؤں گا

خون کا گھونٹ کبھی زہر پیا ہے میں نے

زندگی تجھ کو بہر حال جیا ہے میں نے

بکھر گیا ہوں میں رشتوں کی ڈور سے کٹ کر

کوئی تو آ کے سمیٹے ادھر ادھر سے مجھے

جب سامنے نظر کے ہو اک حسن بے پناہ

ایسے میں خود کو ہوش میں رکھنا کمال ہے

مر کے بھی تجھ کو نئی فکر کے پہلو دوں گا

تو مجھے قتل بھی کر دے گا تو خوشبو دوں گا

زندگی تو مجھے کس موڑ پہ لے آئی ہے

کیا کوئی اور بھی گزرا ہے ادھر سے پہلے

لوگ اوروں کے گریباں پہ نظر کرتے ہیں

ہم یہی کام بہ انداز دگر کرتے ہیں

ہم نے کردار سے بدلا ہے چلن دنیا کا

ہم سے سیکھے کوئی تہذیب رواداری کی

میری آواز مرے جسم میں یوں گونجتی ہے

جیسے صحرا میں کوئی درد کی ماری آواز

کہکشاں چاند ستارے ہیں فقط نقش قدم

دیکھتے جاؤ کہاں تک ہے رسائی میری

حالات ہم سے شہر کے یوں پوچھتے ہیں لوگ

جیسے ہم آدمی نہیں اخبار ہو گئے

انجام ہجر کیا ہے یہ تم خود ہی دیکھ لو

ہم انتظار یار میں پتھر کے ہو گئے

یہ روز روز کا جھگڑا فساد ٹھیک نہیں

میں چاہتا ہوں کہ اب عین شین قاف کروں

سب تعلق دھرے کے دھرے رہ گئے

ایک تار نفس ٹوٹ جانے کے بعد

مسرتوں کے بہت آس پاس بھی نہ رہے

خدا کا شکر مگر ہم اداس بھی نہ رہے

جس کو دیکھو وہ بڑھا جاتا ہے سوئے منزل

کس کو فرصت جو مرے پاؤں کے چھالے دیکھے

شریفانہ رکھو کردار لیکن

شرافت بزدلی ہونے نہ پائے

یہ دنیا ہے یہاں کچھ بھی ہو لیکن

وہاں شرمندگی ہونے نہ پائے

اللہ نے بخشی ہے مجھے ایسی بصیرت

دریا بھی ہوا جاتا ہے قطرہ مرے آگے

زیر اثر نہیں ہے کسی رہنما کے ہم

مالک اسی لیے ہیں خود اپنی رضا کے ہم

دل ہی ٹوٹا ہو کچھ عجب تو نہیں

اشک آنکھوں میں بے سبب تو نہیں

سر افلاک ہوگی روح مٹی میں بدن ہوگا

کریں گے قدر اک دن یوں زمین و آسماں میری

اس کی طرف سے میری طرف آ رہے ہیں لوگ

آہٹ یہ لگ رہی ہے کسی انقلاب کی

یہ اس سے ربط و ضبط بڑھانے کا ہے صلہ

اس کی خطا کو میری خطا مانتے ہیں لوگ

جب صدا صور کی گونجے گی زمانے بھر میں

اک فرشتے میں سمٹ آئے گی ساری آواز

ہمیں پہ ختم ہے معیار گلشن ہستی

ہمارے بعد نہ خوشبو چمن سے آئے گی

جب عرش معلےٰ پہ مرے نقش قدم ہیں

کیا چیز ہے پھر اوج ثریا مرے آگے

ہر طرف بکھری ہیں ارمانوں کی لاشیں دور تک

زندگی اک جنگ کا میدان ہو کر رہ گئی

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے