معید رہبر لکھنوی کے اشعار
انا پرست ہوں مل جاؤں خاک میں لیکن
خرید سکتا نہیں کوئی مال زر سے مجھے
زندگی تو مجھے کس موڑ پہ لے آئی ہے
کیا کوئی اور بھی گزرا ہے ادھر سے پہلے
یہ روز روز کا جھگڑا فساد ٹھیک نہیں
میں چاہتا ہوں کہ اب عین شین قاف کروں
ہم مسافر ہیں کہاں گھر کی طرف دیکھتے ہیں
ہر گھڑی میل کے پتھر کی طرف دیکھتے ہیں
گر کچھ نہیں ہے یار ترے پاس غم تو ہے
تو خوش نصیب ہے کہ تری آنکھ نم تو ہے
بکھر گیا ہوں میں رشتوں کی ڈور سے کٹ کر
کوئی تو آ کے سمیٹے ادھر ادھر سے مجھے
یہ اس سے ربط و ضبط بڑھانے کا ہے صلہ
اس کی خطا کو میری خطا مانتے ہیں لوگ
لوگ اوروں کے گریباں پہ نظر کرتے ہیں
ہم یہی کام بہ انداز دگر کرتے ہیں
لاکھ تبدیلیاں بازاروں میں آئیں رہبر
میں وہ سکہ ہوں جو ہر دور میں چل جاؤں گا
آج دیکھا انہیں جب زمانے کے بعد
آنکھ نم ہو گئی مسکرانے کے بعد
ہم نے کردار سے بدلا ہے چلن دنیا کا
ہم سے سیکھے کوئی تہذیب رواداری کی
سب تعلق دھرے کے دھرے رہ گئے
ایک تار نفس ٹوٹ جانے کے بعد
رہو گھر میں زیادہ تو سفر آواز دیتا ہے
سفر میں جب نکل جاؤ تو گھر آواز دیتا ہے
کہکشاں چاند ستارے ہیں فقط نقش قدم
دیکھتے جاؤ کہاں تک ہے رسائی میری
زیر اثر نہیں ہے کسی رہنما کے ہم
مالک اسی لیے ہیں خود اپنی رضا کے ہم
مسرتوں کے بہت آس پاس بھی نہ رہے
خدا کا شکر مگر ہم اداس بھی نہ رہے
پہلے یہ سوچتا رہتا تھا کہ تنہا ہو جاؤں
آج تنہا ہوں تو تنہائی سے ڈر لگتا ہے
انجام ہجر کیا ہے یہ تم خود ہی دیکھ لو
ہم انتظار یار میں پتھر کے ہو گئے
مر کے بھی تجھ کو نئی فکر کے پہلو دوں گا
تو مجھے قتل بھی کر دے گا تو خوشبو دوں گا
خون کا گھونٹ کبھی زہر پیا ہے میں نے
زندگی تجھ کو بہر حال جیا ہے میں نے
ہمیں پہ ختم ہے معیار گلشن ہستی
ہمارے بعد نہ خوشبو چمن سے آئے گی
اللہ نے بخشی ہے مجھے ایسی بصیرت
دریا بھی ہوا جاتا ہے قطرہ مرے آگے
جب سامنے نظر کے ہو اک حسن بے پناہ
ایسے میں خود کو ہوش میں رکھنا کمال ہے
حالات ہم سے شہر کے یوں پوچھتے ہیں لوگ
جیسے ہم آدمی نہیں اخبار ہو گئے
اس کی طرف سے میری طرف آ رہے ہیں لوگ
آہٹ یہ لگ رہی ہے کسی انقلاب کی
میری آواز مرے جسم میں یوں گونجتی ہے
جیسے صحرا میں کوئی درد کی ماری آواز
جس کو دیکھو وہ بڑھا جاتا ہے سوئے منزل
کس کو فرصت جو مرے پاؤں کے چھالے دیکھے
دل ہی ٹوٹا ہو کچھ عجب تو نہیں
اشک آنکھوں میں بے سبب تو نہیں
یہ دنیا ہے یہاں کچھ بھی ہو لیکن
وہاں شرمندگی ہونے نہ پائے
جب عرش معلےٰ پہ مرے نقش قدم ہیں
کیا چیز ہے پھر اوج ثریا مرے آگے
ہر طرف بکھری ہیں ارمانوں کی لاشیں دور تک
زندگی اک جنگ کا میدان ہو کر رہ گئی
سر افلاک ہوگی روح مٹی میں بدن ہوگا
کریں گے قدر اک دن یوں زمین و آسماں میری
جب صدا صور کی گونجے گی زمانے بھر میں
اک فرشتے میں سمٹ آئے گی ساری آواز