Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Moid Rahbar Lakhnavi's Photo'

معید رہبر لکھنوی

1985 | لکھنؤ, انڈیا

معید رہبر لکھنوی کے اشعار

280
Favorite

باعتبار

انا پرست ہوں مل جاؤں خاک میں لیکن

خرید سکتا نہیں کوئی مال زر سے مجھے

زندگی تو مجھے کس موڑ پہ لے آئی ہے

کیا کوئی اور بھی گزرا ہے ادھر سے پہلے

یہ روز روز کا جھگڑا فساد ٹھیک نہیں

میں چاہتا ہوں کہ اب عین شین قاف کروں

ہم مسافر ہیں کہاں گھر کی طرف دیکھتے ہیں

ہر گھڑی میل کے پتھر کی طرف دیکھتے ہیں

گر کچھ نہیں ہے یار ترے پاس غم تو ہے

تو خوش نصیب ہے کہ تری آنکھ نم تو ہے

بکھر گیا ہوں میں رشتوں کی ڈور سے کٹ کر

کوئی تو آ کے سمیٹے ادھر ادھر سے مجھے

یہ اس سے ربط و ضبط بڑھانے کا ہے صلہ

اس کی خطا کو میری خطا مانتے ہیں لوگ

لوگ اوروں کے گریباں پہ نظر کرتے ہیں

ہم یہی کام بہ انداز دگر کرتے ہیں

لاکھ تبدیلیاں بازاروں میں آئیں رہبر

میں وہ سکہ ہوں جو ہر دور میں چل جاؤں گا

آج دیکھا انہیں جب زمانے کے بعد

آنکھ نم ہو گئی مسکرانے کے بعد

ہم نے کردار سے بدلا ہے چلن دنیا کا

ہم سے سیکھے کوئی تہذیب رواداری کی

سب تعلق دھرے کے دھرے رہ گئے

ایک تار نفس ٹوٹ جانے کے بعد

رہو گھر میں زیادہ تو سفر آواز دیتا ہے

سفر میں جب نکل جاؤ تو گھر آواز دیتا ہے

کہکشاں چاند ستارے ہیں فقط نقش قدم

دیکھتے جاؤ کہاں تک ہے رسائی میری

زیر اثر نہیں ہے کسی رہنما کے ہم

مالک اسی لیے ہیں خود اپنی رضا کے ہم

مسرتوں کے بہت آس پاس بھی نہ رہے

خدا کا شکر مگر ہم اداس بھی نہ رہے

پہلے یہ سوچتا رہتا تھا کہ تنہا ہو جاؤں

آج تنہا ہوں تو تنہائی سے ڈر لگتا ہے

انجام ہجر کیا ہے یہ تم خود ہی دیکھ لو

ہم انتظار یار میں پتھر کے ہو گئے

مر کے بھی تجھ کو نئی فکر کے پہلو دوں گا

تو مجھے قتل بھی کر دے گا تو خوشبو دوں گا

خون کا گھونٹ کبھی زہر پیا ہے میں نے

زندگی تجھ کو بہر حال جیا ہے میں نے

ہمیں پہ ختم ہے معیار گلشن ہستی

ہمارے بعد نہ خوشبو چمن سے آئے گی

اللہ نے بخشی ہے مجھے ایسی بصیرت

دریا بھی ہوا جاتا ہے قطرہ مرے آگے

شریفانہ رکھو کردار لیکن

شرافت بزدلی ہونے نہ پائے

جب سامنے نظر کے ہو اک حسن بے پناہ

ایسے میں خود کو ہوش میں رکھنا کمال ہے

حالات ہم سے شہر کے یوں پوچھتے ہیں لوگ

جیسے ہم آدمی نہیں اخبار ہو گئے

اس کی طرف سے میری طرف آ رہے ہیں لوگ

آہٹ یہ لگ رہی ہے کسی انقلاب کی

میری آواز مرے جسم میں یوں گونجتی ہے

جیسے صحرا میں کوئی درد کی ماری آواز

جس کو دیکھو وہ بڑھا جاتا ہے سوئے منزل

کس کو فرصت جو مرے پاؤں کے چھالے دیکھے

دل ہی ٹوٹا ہو کچھ عجب تو نہیں

اشک آنکھوں میں بے سبب تو نہیں

یہ دنیا ہے یہاں کچھ بھی ہو لیکن

وہاں شرمندگی ہونے نہ پائے

جب عرش معلےٰ پہ مرے نقش قدم ہیں

کیا چیز ہے پھر اوج ثریا مرے آگے

ہر طرف بکھری ہیں ارمانوں کی لاشیں دور تک

زندگی اک جنگ کا میدان ہو کر رہ گئی

سر افلاک ہوگی روح مٹی میں بدن ہوگا

کریں گے قدر اک دن یوں زمین و آسماں میری

جب صدا صور کی گونجے گی زمانے بھر میں

اک فرشتے میں سمٹ آئے گی ساری آواز

Recitation

بولیے