Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Nasim Zahid's Photo'

نسیم زاہد

1977 | کویت

نسیم زاہد کے اشعار

172
Favorite

باعتبار

آئی وہ رفتہ رفتہ تقدس کی راہ تک

پھر یوں ہوا کہ نیت ناصح بگڑ گئی

میں صبر کر رہا ہوں تو ظالم ہے طعنہ زن

اس کو خبر نہیں کہ خدا میرے ساتھ ہے

کردار رہنما کا مجھے لگ رہا ہے یوں

تلوار جیسے ہو کسی پاگل کے ہاتھ میں

بڑے ارمان سے آیا ہوا تھا

وہ مجھ کو لوٹنے مہمان بن کر

اسے دولت کمانے کی ہوس تھی

نظر سے اب نظارہ ہو گئی ہے

دیکھ کے داغ اپنے چہرے پر

تم تو آئینہ صاف کرنے لگے

مدتوں پہلے اڑا ہے وہ پرندہ لیکن

آج تک میری نظر سے کبھی اوجھل نہ ہوا

مجھے خبر ہے اسے ایسا درد ہے زاہدؔ

جسے دوا نہیں رشوت سکون دیتی ہے

تجھ کو ہے ناقدین سے نفرت

تیرے کمرے میں آئینہ کیوں ہے

ماں کے خلوص جیسا تھا موسم بہار کا

فصل خزاں ہے سر پھری اولاد کی طرح

یہ آنسو پونچھ لیجیے اور مسکرائیے

چارہ نہیں ہے کوئی بھی رخصت کیے بغیر

بنا لیا ہے یہاں اس لیے مکاں میں نے

یہ وہ جگہ ہے جہاں مجھ سے کوئی بچھڑا تھا

نہیں آتے مگر تم اجنبی بالکل نہیں ہو

ہمارے گھر کی دیواریں تمہیں پہچانتی ہیں

مقدس اشک ہیں مجھ کو میسر

گناہوں کی سیاہی دھل رہی ہے

یہ پیڑ ہے کسی کی محبت کی یادگار

اے آندھیو یہ تم سے گرایا نہ جائے گا

تعبیر کے پرندوں نے رخ ہی بدل لیا

جب سے ہمارے خواب ہوئے جال کی طرح

دریا میں ڈبو دیں گے سبھی شکوے گلے ہم

ساحل پہ ملاقات ملاقات رہے گی

اف شب ہجر کی سیاہی آج

کفر کی تیرگی سے بڑھ کر ہے

یہ بے وقار سیاست کا ایک حصہ ہے

سروں کی فصل اگائی گئی ہے جلسے میں

اف رہبروں میں ایسا کوئی راہبر نہیں

جس کی نگاہ ذرے میں خورشید ڈھونڈ لے

Recitation

بولیے