نسیم زاہد کے اشعار
آئی وہ رفتہ رفتہ تقدس کی راہ تک
پھر یوں ہوا کہ نیت ناصح بگڑ گئی
کردار رہنما کا مجھے لگ رہا ہے یوں
تلوار جیسے ہو کسی پاگل کے ہاتھ میں
میں صبر کر رہا ہوں تو ظالم ہے طعنہ زن
اس کو خبر نہیں کہ خدا میرے ساتھ ہے
مدتوں پہلے اڑا ہے وہ پرندہ لیکن
آج تک میری نظر سے کبھی اوجھل نہ ہوا
مجھے خبر ہے اسے ایسا درد ہے زاہدؔ
جسے دوا نہیں رشوت سکون دیتی ہے
ماں کے خلوص جیسا تھا موسم بہار کا
فصل خزاں ہے سر پھری اولاد کی طرح
بنا لیا ہے یہاں اس لیے مکاں میں نے
یہ وہ جگہ ہے جہاں مجھ سے کوئی بچھڑا تھا
یہ بے وقار سیاست کا ایک حصہ ہے
سروں کی فصل اگائی گئی ہے جلسے میں
یہ پیڑ ہے کسی کی محبت کی یادگار
اے آندھیو یہ تم سے گرایا نہ جائے گا
تعبیر کے پرندوں نے رخ ہی بدل لیا
جب سے ہمارے خواب ہوئے جال کی طرح
یہ آنسو پونچھ لیجیے اور مسکرائیے
چارہ نہیں ہے کوئی بھی رخصت کیے بغیر
دریا میں ڈبو دیں گے سبھی شکوے گلے ہم
ساحل پہ ملاقات ملاقات رہے گی
نہیں آتے مگر تم اجنبی بالکل نہیں ہو
ہمارے گھر کی دیواریں تمہیں پہچانتی ہیں