Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Nishant Shrivastava Nayab's Photo'

نشانت شری واستو نایاب

1977 | ممبئی, انڈیا

نشانت شری واستو نایاب کے اشعار

904
Favorite

باعتبار

دھوپ جھمکے پہ جب پڑی اس کے

ڈر کے سورج نے پھیر لی آنکھیں

چوڑیاں کیوں اتار دیں تم نے

صبحیں کتنی اداس رہتی ہیں

کوئی ایسی دوا دے چارہ گر

بھول جاؤں میں آشنا چہرے

ہم اداسی کے پرستار سہی

ہنستے چہروں کو دعا دیتے ہیں

حفاظت ہر کسی کی وہ بڑی خوبی سے کرتا ہے

ہوا بھی چلتی رہتی ہے دیا بھی جلتا رہتا ہے

رات اب اپنے اختتام پہ ہے

احتراماً دیے بجھا دیجے

میں ایک پل میں اندھیرے سے ہار جاؤں گا

تمام عمر چراغوں کے بیچ گزری ہے

سوا اس کے نہ کوئی اور میرا دوست بن پائے

وہ اس ڈر سے زمانہ میں مجھے بدنام کرتا ہے

چھاتے مطلب کھو دیتے ہیں

کیوں اتنی بارش ہوتی ہے

میرے غم مجھ سے یہ پوچھا کرتے ہیں

گھر میں پنکھا ہے تو رسی بھی ہوگی

ایک بھی پتھر نہ آیا راہ میں

نیند میں ہم عمر بھر چلتے رہے

جس کی دستک میں بے یقینی ہو

ایسے مہمان سے نہیں ملنا

جنوں کو ڈھال بنایا تو بچ گئے ورنہ

یہ زندگی ہمیں مجبور کر بھی سکتی تھی

دھوپ بستر تلک چلی آئی

پھر بھی تکیے پہ ہے نمی باقی

کھلتے کھلتے مجھ پہ کھلا یہ

میں بھی دنیا کے جیسا ہوں

وہ چاہتے ہیں کہ منزل کا ذکر تو آئے

مگر کہانی سے رستہ ہٹا لیا جائے

یہ عشق ہی تھا جس سے ملی شہرتیں تمہیں

ورنہ تمہارا شہر تمہیں جانتا نہ تھا

بظاہر دشت کی جانب تو بڑھتا جا رہا ہے

مگر سب راستے بھی یاد کرتا جا رہا ہے

Recitation

بولیے