نشانت شری واستو نایاب کے اشعار
کوئی ایسی دوا دے چارہ گر
بھول جاؤں میں آشنا چہرے
دھوپ جھمکے پہ جب پڑی اس کے
ڈر کے سورج نے پھیر لی آنکھیں
چوڑیاں کیوں اتار دیں تم نے
صبحیں کتنی اداس رہتی ہیں
ہم اداسی کے پرستار سہی
ہنستے چہروں کو دعا دیتے ہیں
سوا اس کے نہ کوئی اور میرا دوست بن پائے
وہ اس ڈر سے زمانہ میں مجھے بدنام کرتا ہے
میں ایک پل میں اندھیرے سے ہار جاؤں گا
تمام عمر چراغوں کے بیچ گزری ہے
رات اب اپنے اختتام پہ ہے
احتراماً دیے بجھا دیجے
چھاتے مطلب کھو دیتے ہیں
کیوں اتنی بارش ہوتی ہے
حفاظت ہر کسی کی وہ بڑی خوبی سے کرتا ہے
ہوا بھی چلتی رہتی ہے دیا بھی جلتا رہتا ہے
میرے غم مجھ سے یہ پوچھا کرتے ہیں
گھر میں پنکھا ہے تو رسی بھی ہوگی
ایک بھی پتھر نہ آیا راہ میں
نیند میں ہم عمر بھر چلتے رہے
جنوں کو ڈھال بنایا تو بچ گئے ورنہ
یہ زندگی ہمیں مجبور کر بھی سکتی تھی
جس کی دستک میں بے یقینی ہو
ایسے مہمان سے نہیں ملنا
دھوپ بستر تلک چلی آئی
پھر بھی تکیے پہ ہے نمی باقی
کھلتے کھلتے مجھ پہ کھلا یہ
میں بھی دنیا کے جیسا ہوں
یہ عشق ہی تھا جس سے ملی شہرتیں تمہیں
ورنہ تمہارا شہر تمہیں جانتا نہ تھا
وہ چاہتے ہیں کہ منزل کا ذکر تو آئے
مگر کہانی سے رستہ ہٹا لیا جائے
بظاہر دشت کی جانب تو بڑھتا جا رہا ہے
مگر سب راستے بھی یاد کرتا جا رہا ہے