رانا گنوری کے اشعار
خود تراشنا پتھر اور خدا بنا لینا
آدمی کو آتا ہے کیا سے کیا بنا لینا
تمہاری راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھا ہوں
تمہارے آنے کی حالانکہ کوئی آس نہیں
ہمارا دل تو غم میں بھی خوشی محسوس کرتا ہے
وہی مشکل میں رہتے ہیں جو غم کو غم سمجھتے ہیں
ہر اک کی ہے پسند اپنی ہر اک کا ہے مزاج اپنا
وفا مجھ کو پسند آئی پسند آئی جفا اس کو
اب مجھے تھوڑی سی غفلت سے بھی ڈر لگتا ہے
آنکھ لگتی ہے کہ دیوار سے سر لگتا ہے
اے خدا میں سن رہا ہوں آہٹیں اس وقت کی
جب تری دنیا کا ہر بندا خدا ہو جائے گا
رہے خیال حقارت سے دیکھنے والو
حقیر لوگ بڑے آدمی نکلتے ہیں
تمہیں اے کاش کوئی راز یہ سمجھا گیا ہوتا
اگر سنتے تو کہنے کا سلیقہ آ گیا ہوتا
خوشی ہم سے کنارا کر رہی ہے
ہمیں غم کو بھی اپنانا پڑے گا
رکھو تم بند بے شک اپنی گھڑیاں
سمے تو رات دن چلتا رہے گا
ہر شخص یہاں صاحب ادراک نہیں ہے
ہر شخص کو تم صاحب ادراک نہ کہنا
ہم نے دنیا سے سلوک ایسا کیا ہے راناؔ
ہم نہ ہوں گے تو بہت یاد کرے گی دنیا
رکھنا ہمیشہ یاد یہ میرا کہا ہوا
آتا نہیں ہے لوٹ کے پانی بہا ہوا
مسئلے حل کرتے کرتے آدمی کا ذہن بھی
بے طرح الجھا ہوا اک مسئلہ ہو جائے گا
آج بار گوش ہے میری صدا اس کو مگر
میرے شعروں کو زمانہ دیر تک دہرائے گا