روہت راہی کے اشعار
ہوں خفا سارے زمانے سے فقط تیرے لیے
عشق کی توحید میرے تو کبھی تو جانے گا
ان بہاروں کی ہواؤں کو شکایت ہم سے ہے
ہم کلی کو لمس سے گل کرتے ہیں جان جگر
پارسائی کا تجھے روہتؔ ملے گا کیا ثمر
کہتے ہیں دنیا جسے صدیوں سے بے ترتیب ہے
دیکھ کر عالم کا عالم کیا الم اب ہم کریں
جب خدا خود بھول بیٹھا کہہ کے کن روہتؔ میاں
دل کے ہر گوشے میں جگ اچھا نہیں
کچھ خلا بھی رکھ خدا کے واسطے
آرزو اک عشق کی لائی عدم سے دہر تک
کیفیت یہ پانے کو پیتا ہے آدم زہر تک
اس طرح دنیا سے میری ہے نباہ
آندھیوں میں دیپ گویا جلتا ہو