سلام سندیلوی کے اشعار
خوشی کے پھول کھلے تھے تمہارے ساتھ کبھی
پھر اس کے بعد نہ آیا بہار کا موسم
شبنم نے رو کے جی ذرا ہلکا تو کر لیا
غم اس کا پوچھئے جو نہ آنسو بہا سکے
سو بار آئی ہونٹوں پہ جھوٹی ہنسی مگر
اک بار بھی نہ دل سے کبھی مسکرا سکے
کٹے گی کیسے گل نو کی زندگی یارب
کہ اس غریب کا خانوں میں گھر ابھی سے ہے
بہت امید تھی منزل پہ جا کر چین پائیں گے
مگر منزل پہ جب پہنچے تو نظم کارواں بدلا
یہ تو معلوم ہے ان تک نہ سدا پہنچے گی
جانے کیا سوچ کے آواز دیئے جاتا ہوں
ہمیشہ دور کے جلوے فریب دیتے ہیں
ہے ورنہ چاند بیاباں کسی کو کیا معلوم
آئے جو چند تنکے قفس میں صبا کے ساتھ
میں نے انہیں کو اپنا نشیمن سمجھ لیا
ہوئی صبح جام کھنک اٹھے ہوئی شام نغمے بکھر گئے
وہ حسین دن بھی تھے کس قدر جو تمہارے ساتھ گزر گئے
کیا اسی کو بہار کہتے ہیں
لالہ و گل سے خوں ٹپکتا ہے
بجلی گرے گی صحن چمن میں کہاں کہاں
کس شاخ گلستاں پہ مرا آشیاں نہیں
دل کی دھڑکن بھی ہے ان کو ناگوار
ان سے کچھ کہنے کی جرأت کیا کریں
رہ حیات چمک اٹھے کہکشاں کی طرح
اگر چراغ محبت کوئی جلا کے چلے
گلوں کے روپ میں بکھرے ہیں ہر طرف کانٹے
چلے جو کوئی تو دامن ذرا بچا کے چلے
یوں باغباں نے مہر لگا دی زبان پر
روداد غم نصیب کے مارے نہ کہہ سکے
مجھ کو تو خون دل ہی پینا ہے
دست ساقی میں گر ہے جام تو کیا
گل و غنچہ اصل میں ہیں تری گفتگو کی شکلیں
کبھی کھل کے بات کہہ دی کبھی کر دیا اشارا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
چند تنکوں کے سوا کیا تھا نشیمن میں مرے
برق ناداں کو سمجھ آئی بہت دیر کے بعد
ہے تشنہ لبی لیکن ہم کیوں اسے زحمت دیں
اپنا ہی لہو پی لیں ساقی کو جگائیں کیا
تیرہ و تار فضاؤں میں جیا ہوں اب تک
نکہت و نور کے ایام کی حسرت ہی رہی
متاع غم مرے اشکوں ہی تک نہیں محدود
انہیں میں ٹوٹے ستاروں کو بھی شمار کرو