شو رتن لال برق پونچھوی کے اشعار
محبت کو بہت ہوتی ہے غیرت
خطا ان کی ہے میں شرما رہا ہوں
کوئی ہم سے خفا سا لگتا ہے
ورنہ دل کیوں بجھا سا لگتا ہے
ساتھ تیرا رہا نہیں باقی
ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی
اک دائمی سکوں کی تمنا ہے رات دن
تنگ آ گئے ہیں گردش شام و سحر سے ہم
وہ نکلے ہیں سراپا بن سنور کر
قیامت آئے گی یہ آج طے ہے
چاہے دیوانہ کہیں یا لوگ سودائی کہیں
آ گئے ہم سر کو لے کر پتھروں کے شہر میں
ہجر میں یوں بہتے ہیں آنسو
جیسے رم جھم برسے ساون
پتھرائی آنکھوں میں دیکھو کیا کیا رنگ دکھاتا آنسو
ٹھہر گیا تو اک قطرہ سا بہہ نکلا تو دریا آنسو
کہیں آنسوؤں سے لکھا ہوا کہیں آنسوؤں سے مٹا ہوا
لوح دل پہ جس کے نشان ہیں وہی ایک نام قبول ہے
سکوں افزا بہت ہے درد الفت
قرار اب عمر بھر آئے نہ آئے