صفر شرما کے اشعار
اب کہاں جائیں گے اے دلی تجھے ہم چھوڑ کر
تیری خاطر سب گلی کوچوں کا دل توڑ آئے ہیں
کانوں میں گونجتی ہے وہ آواز دم بہ دم
اک ہاتھ رہ گیا ہے کہیں ہاتھ چھوڑ کر
کہتے ہیں ایسے وقت میں واجب ہے جھوٹ بھی
تو جھوٹ کوئی بول کہ دل پھر سے جی اٹھے
شمشیر بکف ہوں نہ کوئی جسم میں جنبش
میں کس کے مقابل ہوں کہ مارا نہیں جاتا
نشۂ ہوش چڑھا جاتا ہے رفتہ رفتہ
زندگی پھر سے ہوئی جاتی ہے مبہم مبہم
دل زمینیں عشق کے موسم میں خالی ہو گئیں
اگ رہی ہیں ان پے اب بے موسمی تنہائیاں
کوئی نہیں جو انگلیوں سے درد کھینچتا
اپنا ہی ہاتھ پھیر لیا سر پے بارہا
ہم راہی اکلوتے تھے اور وقت کی پیٹھ پے بیٹھے تھے
دن نکلے تک منزل پا لی شام تلک رخ موڑ لیا
اب تو وہاں ہیں جس کا بیاں بھی ہے لا وجود
صدموں پے ہائے ہائے کرے اب وہ دل کہاں
شوق میں پہنی تھی بس زنجیر کیا معلوم تھا
بیڑیوں کی شکل لے لے گی یہ ناگن ایک دن