ظہور چوہان کے اشعار
میں اپنے آپ میں تقسیم ہونے لگتا ہوں
اسے کہو کہ مرے سامنے نہ آیا کرے
آخری بار ملاقات تو کر لی ہے مگر
سلسلہ اپنی محبت کا کہاں آخری ہے
پوری ہو جاتی اگر کوئی کہانی ہوتی
یہ محبت ہے میاں اس میں کسک رہتی ہے
میں روز دانہ نہیں ڈالتا پرندوں کو
کہ بھول جاؤں تو وہ چھت پہ بیٹھے رہتے ہیں
انہی جھکے ہوئے پیڑوں سے گفتگو ہے مری
جناب میرے بزرگوں سے گفتگو ہے مری
سخن کے آخری در پر صدا لگاتا ہوں
ظہورؔ اگلے زمانوں سے گفتگو ہے مری
شاعری اپنا لہو اس لئے دیتا ہوں تجھے
جانتا ہوں کہ تو زندہ مجھے کر سکتی ہے
زندگی کتنے سلیقے سے گزارا ہے تجھے
مسکراتے بھی رہے زخم بھی کھاتے رہے ہم
ہجر سے وصل کی اتنی تھی مسافت یارو
رنگ تبدیل ہوا بہتے ہوئے پانی کا
شہر کے چوراہے میں آنکھیں رکھ دی ہیں
بچ کر وہ اس بار کدھر سے نکلے گا
اس کی پلکوں پہ جو چمکے تھے ظہورؔ
میرے ہاتھوں میں وہ تارے ٹوٹے
ہمیں نہ دفن کرو کچی پکی قبروں میں
ہم اہل علم ہیں مر کر بھی جو نہیں مرتے
نئے گھر میں ہر اک شے بھی نئی ہے
مگر خوشبو اسی کی آ رہی ہے
کبھی کبھی تو مرا گھر بھی مجھ سے پوچھتا ہے
کہ اس جہاں میں کوئی تیرا گھر بھی ہے کہ نہیں
چھاؤں دیتا دھوپ اٹھاتا رستے میں
میں نے دیکھا ایک شجر درویشی میں
کسی کے ساتھ ملا ہوں بڑی محبت سے
کبھی کبھار جو ملتے ہیں اچھے رہتے ہیں
شعر کہہ کر کبھی دیکھو تو کھلے گا تم پر
اتنا آساں نہیں جتنا یہ ہنر لگتا ہے