ضمیر اترولوی کے اشعار
خون کے جو رشتے تھے بن گئے عذاب جاں
ہم کو دل کے رشتوں سے استفادہ پہنچا ہے
اذن سورج کی کرن کو نہیں جانے کا جہاں
میری تخئیل کا شاہین وہاں بھی پہنچا
غریبی نام ہے جس کا عذاب جان ہوتی ہے
مگر دولت کی کثرت مہلک ایمان ہوتی ہے
کوئی بھوکا جو فرط ضعف سے کچھ لڑکھڑا جائے
تو دنیا طنز کستی ہے اسے مد مست کہتی ہے
ہزاروں ظلم ہوں مظلوم پر تو چپ رہے دنیا
اگر مظلوم کچھ بولے تو دہشت گرد کہتی ہے
عمر بھر جس نے کسی کا حکم مانا ہی نہیں
نفس کا اپنے مگر وہ شخص کارندہ رہا