ذیشان نیازی کے اشعار
مدتوں خود سے ملاقات نہیں ہوتی ہے
رات ہوتی ہے مگر رات نہیں ہوتی ہے
فضائیں رقص میں ہیں اور برس رہی ہے شراب
کسی نے جام سوئے آسماں اچھالا ہے
ایک چہرہ ترا دیکھنے کے لیے
کتنے چہروں سے ہم کو گزرنا پڑا
سو بار ٹوٹنے پہ بھی ہارا نہیں ہوں میں
مٹی کا اک چراغ ہوں تارا نہیں ہوں میں
اپنے ہونے کا ہے احساس ترے ہونے سے
غیر ممکن ہے مرا تجھ سے جدا ہو جانا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مرا سایہ بھی مجھ سے دور ہے اور تیری یادیں بھی
میں اب اس سے زیادہ اور تنہا ہو نہیں سکتا
میں دن کے اجالے میں تجھے سوچ رہا ہوں
محسوس یہ ہوتا ہے کہ کچھ روشنی کم ہے
اب بھی روشن ہیں بزرگوں کی حویلی کے چراغ
ہم کسی نقش کو دھندلا نہیں ہونے دیتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
عشق کی کون سی منزل پہ جنوں لایا ہے
ہوش خود آ کے یہ کہتا ہے مجھے ہوش نہیں
احسان خاک صحرا پہ مجنوں کا ہے بہت
ورنہ فلک پہ اس کا پہنچنا محال تھا
گلوں کی طرح مہکتے ہیں باغ میں کانٹے
عجیب رنگ میں دور بہار آیا ہے