ضیا الدین احمد شکیب کے اشعار
دیوانۂ جستجو ہو گیا چاند
بادل سے گر کے کھو گیا چاند
عقل کچھ زیست کی کفیل نہیں
زندگی اتنی بے سبیل نہیں
مختصر بات چیت اچھی ہے
لیکن اتنا بھی اختصار نہ کر
عارض سے ترے صبح کی تہمت نہ اٹھے گی
زلفوں پہ تری شام کا الزام رہے گا
میری تجویز پر خفا کیوں ہو
بات کچھ عقل کے خلاف نہیں
ہمیں بھی ضرورت تھی اک شخص کی
یہ حسن تصادم بہت خوب ہے
اسی طرح باتیں کئے جائیے
یہ طرز تکلم بہت خوب ہے
یقیں گر کرو تم بہت خوب ہے
یہ بے جا تبسم بہت خوب ہے
اتنے نادم نہ ہوئیے آخر
اچھے اچھوں سے بھول ہوتی ہے
پڑتی نہیں ہے دل پہ ترے حسن کی کرن
کس سمت میرے چاند درخشاں ہے آج کل
ہم سے واعظ نے بات کی ہوتی
گمرہی اپنی بے دلیل نہیں
جب تک کہ محبت کا چلن عام رہے گا
ہر لب پہ مرا ذکر مرا نام رہے گا
گو انہیں راہ انحراف نہیں
پھر بھی امید اعتراف نہیں
جنوں شعلہ ساماں خرد شبنم افشاں
خدا جانے یہ جان جیتے کہ ہارے
گوش مشتاق صدائے نالۂ دل اب کہاں
شعر اگر دل کے لہو میں ڈوب کر نکلے تو کیا
پاس پندار طبیعت دل اگر رکھ لے تو کیا
ہے وجود درد محکم ضبط غم کر لے تو کیا