قیصر الجعفری
غزل 66
نظم 19
اشعار 28
تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے
میں ایک شام چرا لوں اگر برا نہ لگے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
گھر لوٹ کے روئیں گے ماں باپ اکیلے میں
مٹی کے کھلونے بھی سستے نہ تھے میلے میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
زندگی بھر کے لیے روٹھ کے جانے والے
میں ابھی تک تری تصویر لیے بیٹھا ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
ہوا خفا تھی مگر اتنی سنگ دل بھی نہ تھی
ہمیں کو شمع جلانے کا حوصلہ نہ ہوا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے
ہم بھی پاگل ہو جائیں گے ایسا لگتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
تصویری شاعری 8
بستی میں ہے وہ سناٹا جنگل مات لگے شام ڈھلے بھی گھر پہنچوں تو آدھی رات لگے مٹھی بند کئے بیٹھا ہوں کوئی دیکھ نہ لے چاند پکڑنے گھر سے نکلا جگنو ہات لگے تم سے بچھڑے دل کو اجڑے برسوں بیت گئے آنکھوں کا یہ حال ہے اب تک کل کی بات لگے تم نے اتنے تیر چلائے سب خاموش رہے ہم تڑپے تو دنیا بھر کے الزامات لگے خط میں دل کی باتیں لکھنا اچھی بات نہیں گھر میں اتنے لوگ ہیں جانے کس کے ہات لگے ساون ایک مہینے قیصرؔ آنسو جیون بھر ان آنکھوں کے آگے بادل بے_اوقات لگے
تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانا لگے میں ایک شام چرا لوں اگر برا نہ لگے تمہارے بس میں اگر ہو تو بھول جاؤ مجھے تمہیں بھلانے میں شاید مجھے زمانہ لگے جو ڈوبنا ہے تو اتنے سکون سے ڈوبو کہ آس_پاس کی لہروں کو بھی پتا نہ لگے وہ پھول جو مرے دامن سے ہو گئے منسوب خدا کرے انہیں بازار کی ہوا نہ لگے نہ جانے کیا ہے کسی کی اداس آنکھوں میں وہ منہ چھپا کے بھی جائے تو بے_وفا نہ لگے تو اس طرح سے مرے ساتھ بے_وفائی کر کہ تیرے بعد مجھے کوئی بے_وفا نہ لگے تم آنکھ موند کے پی جاؤ زندگی قیصرؔ کہ ایک گھونٹ میں ممکن ہے بد_مزہ نہ لگے