شارق کیفی
غزل 175
نظم 66
اشعار 65
بھیڑ میں جب تک رہتے ہیں جوشیلے ہیں
الگ الگ ہم لوگ بہت شرمیلے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
سب آسان ہوا جاتا ہے
مشکل وقت تو اب آیا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
کہیں نہ تھا وہ دریا جس کا ساحل تھا میں
آنکھ کھلی تو اک صحرا کے مقابل تھا میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
کتاب 6
تصویری شاعری 6
انتہا تک بات لے جاتا ہوں میں اب اسے ایسے ہی سمجھاتا ہوں میں کچھ ہوا کچھ دل دھڑکنے کی صدا شور میں کچھ سن نہیں پاتا ہوں میں بن کہے آؤں_گا جب بھی آؤں_گا منتظر آنکھوں سے گھبراتا ہوں میں یاد آتی ہے تری سنجیدگی اور پھر ہنستا چلا جاتا ہوں میں فاصلہ رکھ کے بھی کیا حاصل ہوا آج بھی اس کا ہی کہلاتا ہوں میں چھپ رہا ہوں آئنے کی آنکھ سے تھوڑا تھوڑا روز دھندلاتا ہوں میں اپنی ساری شان کھو دیتا ہے زخم جب دوا کرتا نظر آتا ہوں میں سچ تو یہ ہے مسترد کر کے اسے اک طرح سے خود کو جھٹلاتا ہوں میں آج اس پر بھی بھٹکنا پڑ گیا روز جس رستے سے گھر آتا ہوں میں
کہیں نہ تھا وہ دریا جس کا ساحل تھا میں آنکھ کھلی تو اک صحرا کے مقابل تھا میں حاصل کر کے تجھ کو اب شرمندہ سا ہوں تھا اک وقت کہ سچ_مچ تیرے قابل تھا میں کس احساس_جرم کی سب کرتے ہیں توقع اک کردار کیا تھا جس میں قاتل تھا میں کون تھا وہ جس نے یہ حال کیا ہے میرا کس کو اتنی آسانی سے حاصل تھا میں ساری توجہ دشمن پر مرکوز تھی میری اپنی طرف سے تو بالکل ہی غافل تھا میں جن پر میں تھوڑا سا بھی آسان ہوا ہوں وہی بتا سکتے ہیں کتنا مشکل تھا میں نیند نہیں آتی تھی سازش کے دھڑکے میں فاتح ہو کر بھی کس درجہ بزدل تھا میں گھر میں خود کو قید تو میں نے آج کیا ہے تب بھی تنہا تھا جب محفل محفل تھا میں
ممکن ہی نہ تھی خود سے شناسائی یہاں تک لے آیا مجھے میرا تماشائی یہاں تک رستہ ہو اگر یاد تو گھر لوٹ بھی جاؤں لائی تھی کسی اور کی بینائی یہاں تک شاید تہہ_دریا میں چھپا تھا کہیں صحرا میری ہی نظر دیکھ نہیں پائی یہاں تک محفل میں بھی تنہائی نے پیچھا نہیں چھوڑا گھر میں نہ ملا میں تو چلی آئی یہاں تک صحرا ہے تو صحرا کی طرح پیش بھی آئے آیا ہے اسی شوق میں سودائی یہاں تک اک کھیل تھا اور کھیل میں سوچا بھی نہیں تھا جڑ جائے_گا مجھ سے وہ تماشائی یہاں تک یہ عمر ہے جو اس کی خطاوار ہے شارقؔ رہتی ہی نہیں باتوں میں سچائی یہاں تک