aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "ممبئی"
رضا اکیڈمی، ممبئی
ناشر
تاج آفس محمد علی روڈ، ممبئی
رخشندہ کتاب گھر، ممبئی
ادارہ فن و شخصیت، ممبئی
رضا آفسیٹ، ممبئی
بمبئی یونیورسٹی پبلی کیشنز، ممبئی
منظور ناڈکر اینڈ سنز، ممبئی
ڈی۔ بی۔ بکڈپو، ممبئی
مطبع رحیمی، ممبئی
آر، کے، پبلیکیشن، ممبئی
کتابستان پبلشرز، ممبئی
حافظ پبلی کیشنز، ممبئی
پرلیک پرکاشن پرائیویٹ لمیٹڈ، ممبئی
مطبع نیر، ممبئی
مصنف
مطبع مصطفائی, ممبئی
تارا بائی کی آنکھیں تاروں کی ایسی روشن ہیں اور وہ گرد وپیش کی ہر چیز کو حیرت سے تکتی ہے۔ در اصل تارا بائی کے چہرے پر آنکھیں ہی آنکھیں ہیں۔ وہ قحط کی سوکھی ماری لڑکی ہے۔ جسے بیگم الماس خورشید عالم کے ہاں کام کرتے ہوئےصرف چند ماہ ہوئے ہیں۔ اور وہ اپنی مالکن کے شاندار فلیٹ کے ساز وسامان کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ دیکھتی رہتی ہےکہ ایسا عیش و عشرت اسے پہلے...
حقیقت، ظاہر ہے کہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ لیکن اردو کی بقا کے لیے سب سے زیادہ تعاون اور قربانیاں غریب غربا کی طرف سے یا پھر ان علاقوں سے آئی ہیں جنہیں ہم یو۔ پی والے اردو کے علاقے نہیں سمجھتے اور وہاں کے اردو بولنے والوں کو ’’اہل زبان‘‘ نہیں تصور کرتے۔ اردو کے لیے سعی اور جہد سب سے زیادہ بہار میں کی گئی اور کی جا رہی ہے۔ پھر مہاراشٹرا میں، جہاں اردو ...
دل پونا سے ممبئی تک بھی جائے تورستے میں دلی کلکتہ ہوتا ہے
روہنی اب حسنِ ظاہر وباطن میں اپنے مدرسہ کی ناک تھی۔ اندازوں میں دلفریب متانت باتوں میں نغمہ کی دل آویزی اورنغمہ میں روحانی لطافت تھی۔ لباس میں رنگین سادگی کاجلوہ، آنکھوں میں مروت اور حیا۔ خیالات میں پاکیزگی، شباب تھا مگرغرور اورتصنع اورشوخی سے پاک۔ اس یکسوئی کے ساتھ جواونچے ارادوں سے پیداہوئی ہے وہ نسوانی کمالات کی منزلیں طے کرناچاہتی تھی۔ سیٹھ جی کے بڑے بیٹے نروتم داس کئی سال تک امریکہ اورجرمنی کی یونیورسٹیوں کی خوشہ چینی کے بعد انجینئرنگ کے صیغہ میں کمال حاصل کرکے واپس آئے تھے۔ امریکہ کے سب سے ممتاز کالج میں انہوں نے رتبہ اعزازحاصل کیاتھا۔ امریکہ کے اخبارات ایک ہندوستانی نوجوان کی اس شاندارکامیابی پرمتحیرتھے انہیں کاخیرمقدم کرنے کے لئے ممبئی میں ایک بڑاجلسہ کیاگیاتھا۔ اس تقریب میں شریک ہونے کے لئے لوگ دوردور سے آئے تھے۔ سرسوتی، سرسوتی پاٹ شالا کو بھی نوید ملا۔ اور روہنی کوسیٹھانی جی نے خاص طورپردعوت دی۔ مدرسہ میں ہفتوں تیاریاں ہوئیں۔ روہنی کوایک دم کے لئے بھی چین نہ تھا۔ یہ پہلاموقع تھاکہ اس نے اپنے لئے پرتکلف کپڑے بنوائے اوررنگوں کے انتخاب میں وہ ملاحت تھی، وضع میں وہ پھیس جس سے اس کاحسن چمک اٹھا۔ سیٹھانی کی کوشلیادیوی اسے لینے کے لئے ریلوے اسٹیشن پرموجودتھی۔ روہنی گاڑی سے اترتے ہی ان کے پیروں کی طرف جھکی لیکن انہوں نے اسے چھاتی سے لگالیا اوراس طرح پیار کیاا گویاوہ ان کی بیٹی ہے۔ وہ اسے باربار دیکھتی تھیں اورآنکھوں سے فخر اورشوق ٹپکاپڑتا تھا۔
رخشندہ اس کے ساتھ آہستہ آہستہ چل رہی تھی اور ان کے قدموں کے نشان ریت پر ان کے پیچھے پیچھے بنتے جا رہے تھے اور بحیرۂ عرب کی نیلی نیلی ٹھنڈی موجیں ان کی جانب بڑھ رہی تھیں۔ رخشندہ رانی، چاند ہنس رہا ہے، تم بھی مسکرا دو۔۔۔ اوہ انکل ٹوبی۔۔۔ تم اتنے اچھے سے ہو۔ میں سچ مچ بے انتہا بے وقوف ہو گئی ہوں۔ کیونکہ اس نے سنا تھا کہ اس کا ہونے والا منگیتر ممبئی اسکول آف اکنومکس سے ڈگری لینے کے بعد گھر واپس جانے کے بجائے یہاں صرف اس لیے رہتا ہے کیونکہ یہاں اس کی ایک کیپ موجود ہے اور وہ ڈرنک بھی کرتا ہے اور موسم گرما کی چاندنی راتوں میں اپنے بوہیمین دوستوں کے ساتھ اپنی سرخ گرجتی ہوئی کار میں ورسووا اور جو ہو کی سڑکوں پر مارا مارا پھر تا ہے۔۔۔ اور آتشیں لڑکی نے چلا کر کہا تھا، اوہ تم کیسی پاگل ہو۔ اوہ خدا۔۔۔
मुंबईممبئی
a city of India
شمارہ نمبر-044
شاداب رشید
Mar, Oct 2015نیا ورق
کتابی سلسلہ-001
رام پنڈت
اعتراف
تصوف اور ہندوستانی معاشرہ
محی الدین ممبئی والا
تحقیق / تنقید
شمارہ نمبر۔ 006،007،008
افتخار امام صدیقی
Jun, Jul, Aug 1983شاعر، ممبئی
شمارہ نمبر-028
ساجد رشید
Oct, Dec 2007نیا ورق
ممبئی کے اردو اخبارات
ماجد قاضی
صحافت
Shumara Number-003,004
اعجاز صدیقی
Mar, Apr 1967شاعر، ممبئی
شمارہ نمبر-041،042
Mar, Oct 2014نیا ورق
کوکن اور ممبئی کے اردو لوک گیت
میمونہ دلوی
خواتین کی تحریریں
شمارہ نمبر-023
نیا ورق
شمارہ نمبر-018
Jan, Sep 2003نیا ورق
شمارہ نمبر-037
Jan, Mar 2012نیا ورق
شمارہ نمبر-038
Apr, Sep 2013نیا ورق
002
نیا ادب، ممبئی
شمارہ نمبر-004
علی جواد زیدی
Jun 1993العلم، ممبئی
ہمیں یقیں ہے کہ ہم ہی نشان فردا ہیں(جس غزل میں یہ شعر شامل ہے گفتگو ممبئی کے علاوہ دوسرے رسائل میں بھی چھپی تھی۔ ’’ادبی تبصرے‘‘ دہلی میں اس غزل پر تبصرہ بھی شائع ہوا تھا۔)
’’مدرسة النسواں‘‘ علی گڑھ (قیام، 1906ء) کا مجلّہ ’’خاتون‘‘ علی گڑھ، منشی محبوب عالم کا مُجلّہ ’’شریف بی بی‘‘ لاہور، بیگم شیخ محمد اکرام (مدیرہ) کا مُجلّہ ’’عصمت‘‘ دہلی (اجراء، 1908ء)، بیگم احتشام (قلمی نام، مسز خاموش) کا مُجلّہ ’’رسالہ پردہ نشین‘‘ آگرہ (اجراء، 1912ء)، راشد الخیری کا ہفتہ وار مُجلّہ ’’سہیلی‘‘ دہلی اور ’’بنات‘‘ دہلی (اجراء1915ء) اور...
’’اپنے افسانوں کے سلسلے میں مجھ پر چار مقدمے چل چکے ہیں، پانچواں اب چلا ہے جس کی روداد میں بیان کرنا چاہتا ہوں۔ پہلے چار افسانے جن پر مقدمہ چلا، ان کے نام حسب ذیل ہیں، ’کالی شلوار ‘، ’دھواں ‘، ’ٹھنڈا گوشت‘، اور پانچواں ’اوپر نیچے اور درمیان۔ ‘ پہلے تین افسانوں میں تو میری خلاصی ہوگئی، کالی شلوار کے سلسلے میں مجھے دلی سے دو تین بار لاہور آنا پڑا۔ ’...
ایک بار ممبئی کے مشاعرے میں جوش ملیح آبادی اپنی تہلکہ مچادینے والی نظم ’’گل بدنی‘‘ سنارہے تھے ،بے پناہ داد مل رہی تھی۔ جب انہوں نے اس نظم کا ایک بہت ہی اچھا بند سنایا تو کنور مہندر سنگھ بیدی سحرنے والہانہ داد دی اور کہا کہ حضرات ملاحظہ ہو، ایک پٹھان اتنی اچھی نظم سنارہا ہے۔اس پر جوش صاحب بولے کہ ’’حضرات یہ بھی ملاحظہ ہو کہ ایک سکھ اتنی اچھی داد دے رہا ہے۔‘‘
مطلب یہ کہ اردو کے کئی نام تھے۔ مثلاً ہندوی، ریختہ، ہندوستانی، ہندی، اردو وغیرہ۔ ان میں سے صرف لفظ ’’اردو‘‘ باقی رہ گیا۔ باقی نام غیرمقبول ہوتے گئے۔ یہی بات ذہن میں بیٹھی ہوئی ہے۔ ’’اردو‘‘ بمعنی ’’شہر دہلی‘‘ تسلیم کرنے کے لیے شہادت درکار ہے۔ امید ہے آپ میرے طالب علمانہ استفسار کو اعتراض یا بحث نہ سمجھیں گے، خط کی اشاعت بھی مقصود نہیں ہے۔ بس اس گرہ ...
اس سے آگے کی کہانی مجھے کسی نے نہیں سنائی مگر اس بات کا منتظر رہا کہ اب اطہر اپنا الو سیدھا کرنے ممبئی لے جائےگا۔ جہاں کئی برسوں تک ٹھوکریں کھانے کے بعد میں تمہیں ایک دن کسی فلم میں دیکھوں گا۔ ہیروئن کے پیچھے، ایکسٹراؤں میں کولھے مٹکاتے ہوئے کوئی آوارہ سا گیت تمہارے لبوں پر ہوگا، جو تمہارے مصنوعی چہرے، چھاتیوں، پنڈلیوں اور کمر کی نمائش کرےگا۔ تم ای...
میں دیر تک بوسیدہ دیوار سے لگا، تانگے کے ڈھانچے کو دیکھتا رہا، جس کا ایک حصہ زمین میں دھنس چکا تھا اور دوسرا ایک سوکھے پیڑ کے ساتھ سہارا لیے کھڑا تھا، جس کی ٹُنڈ مُنڈ شاخوں پر بیٹھا کوا کائیں کائیں کر رہا تھا۔ کچھ راہ گیر سلام دعا کے لیے رُکے لیکن میری توجہ نہ پا کر آگے بڑھ گئے۔ مجھے اُس لکڑی کے پہیے اور بمبو کے ڈھانچے نے کھینچ کراچانک تیس سال پیچ...
غرض نواب مرزا کی اپنی پست مذاقی اور مبتذل نگاری کی سزا، مشرق کی معدلت گاہ سے ملی اور بجا طور پر ملی، لیکن وہ خود بھی آخر مشرقی ہی تھا، باوجود انتہائی بے حیائی کے یہ ناممکن ہوا کہ چوری کے جرم پر سینہ زوری کا بھی اضافہ کرے۔ لارڈ بائن اور آسکر وائلڈ کی سی یہ جرأت و جسارت کہاں سے لا سکتا تھا کہ گندہ نظم اور گندہ تر نثر کو شعر و ادب کا بہترین نمونہ ک...
ایک بارحیدرآباد میں مجاز اور فراق دونوں ایک ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے فراق نے مجاز سے مشورہ کے انداز میں کہا، ’’بمبئی چلے جاؤ، تمہارے گیت فلم والے بڑی قیمت دے کر خریدیں گے۔‘‘مجاز کہنے لگے، ’’بمبئی میں روپے کس کام آئیں گے؟‘‘
شہر ممبئیمجھے اس نے چنا ہے ہم سفر اپنا
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books