aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "ڈاڑھی"
نارائن بابا نے اپنی ڈاڑھی کی کھچڑی پکاتے ہوئے کہا، ’’اس لیے کہ سیتا ان کی اپنی پتنی تھی۔ سندر لال ! تم اس بات کی مہانتا کو نہیں جانتے۔‘‘’’ہاں بابا‘‘ سندر لال بابو نے کہا، ’’اس سنسار میں بہت سی باتیں ہیں جو میری سمجھ میں نہیں آتیں۔ پر میں سچا رام راج اسے سمجھتا ہوں جس میں انسان اپنے آپ پر بھی ظلم نہیں کرسکتا۔ اپنے آپ سے بے انصافی کرنا اتنا ہی بڑا پاپ ہے، جتنا کسی دوسرے سے بے انصافی کرنا۔ آج بھی بھگوان رام نے سیتا کو گھر سے نکال دیا ہے۔اس لیے کہ وہ راون کے پاس رہ آئی ہے۔اس میں کیا قصور تھا سیتا کا؟ کیا وہ بھی ہماری بہت سی ماؤں بہنوں کی طرح ایک چھل اور کپٹ کی شکار نہ تھی؟ اس میں سیتا کے ستیہ اور اَستیہ کی بات ہے یا راکشش راون کے وحشی پن کی، جس کے دس سر انسان کے تھے لیکن ایک اور سب سے بڑا سر گدھے کا؟‘‘
بہتیرا جی چاہا کہ اس دفعہ ان سے پوچھ ہی لوں کہ، ”قبلہ کونین اگر آپ کو بر وقت اطلاع کرا دیتا تو آپ میرے ملیریا کا کیا بگاڑ لیتے؟“ان کی زبان اس قینچی کی طرح ہے جو چلتی زیادہ ہے اور کاٹتی کم۔ ڈانٹنے کا انداز ایسا ہے جیسے کوئی کودن لڑکا زور زور سے پہاڑے یاد کر رہا ہو۔ مجھے ان کی ڈانٹ پر ذرا غصہ نہیں آتا۔ کیونکہ اب اس کا مضمون ازبر ہو گیا ہے۔ یوں بھی اس کینڈے کے بزرگوں کی نصیحت میں سے ڈانٹ اور ڈاڑھی کو علیحدہ کر دیا جائے یا بصورت نقص امن ڈانٹ میں ڈنک نکال دیا جائے تو بقیہ بات (اگر کوئی چیز باقی رہتی ہے) نہایت لغو معلوم ہوگی۔
’’سید علی الجزائری اپنے زمانہ کے نامی گرامی شعلہ نفس خطیب تھے۔ پر ایک زمانہ ایسا آیا کہ انہوں نے خطاب کرنا یکسر ترک کر دیا اور زبان کو تالا دے لیا۔ تب لوگوں میں بے چینی ہوئی۔ بے چینی بڑھی تو لوگ ان کی خدمت میں عرض پرداز ہوئے کہ خدارا خطاب فرمائیے۔ انہوں نے فرمایا کہ اچھا ہمارا منبر قبرستان میں رکھا جائے۔ اس نرالی ہدایت پر لوگ متعجب ہوئے۔ خیر۔۔۔ منب...
گوڈر کے گھر میں اس روزِسعید کی مہینوں سے تیاری تھی خدشہ تھا تو یہی کہ کہیں بیٹی نہ ہوجائے۔ نہیں تو پھر وہ ہی بندھا ہوا روپیہ اور وہی ایک ساڑھی مل کر رہ جائے گی۔ اس مسئلہ پر میاں بیوی میں باربار تبادلہ خیالات ہوچکا تھا۔ شرطیں لگ چکی تھیں۔ گوڈر کی بہو کہتی تھی کہ اگر اب کے بیٹانہ ہوا تو منہ نہ دکھاؤں۔ ہاں ہاں۔ منہ نہ دکھاؤں اور گوڈر کہتا تھا کہ دیکھو...
ہم اس، نبوہ پر آفات پر غور سے نظر کر رہے تھے اور اس عالم ہیولائی کی ایک ایک بات کو تاک تاک کر دیکھ رہی تھے۔ جو سلطان افلاک کی بارگاہ سے حکم پہنچا کہ اب سب کو اختیار ہے جس طرح چاہیں اپنے اپنے رنج و تکلیف تبدیل کر لیں، اور اپنے اپنے بوجھ لے کر گھروں کو چلے جائیں۔ یہ سنتے ہی میاں وہم پھر مستعد ہوئے اور پھر بڑی ترت پھرت کے ساتھ اس انبار عظیم کے بو جھ ب...
दाढीڈاڑھی
beard
ڈاڑھی
صغیر رحمانی وارثی
افسانہ
لیکن ان حجاموں نے ان خامیوں کا زیادہ خیال نہ کیا۔ سچ یہ ہے، یہ بات ان کے وہم و خیال میں بھی نہ آسکتی تھی کہ ایک دن انہیں یہ سب سامان بنابنایا مفت مل جائے گا۔ اپنے وطن میں وہ اب تک بڑی گمنامی کی زندگی بسر کرتے رہے تھے۔ ان میں سے ایک جو عمر میں سب سے بڑا تھا اور استاد کہلاتا تھا، اس نے کچھ مستقل گاہک باندھ رکھے تھے جن کے گھر وہ ہر روز یا ایک دن چھوڑ ...
کلہ جبڑا بڑا زبر دست پایا تھا۔ چونکہ دہانہ بھی بڑا تھا اور پیٹ کے محیط نے سانس کے لیے گنجائش بڑھا دی تھی، اس لئے نہایت اونچی آواز میں بغیر سانس کھینچے بہت کچھ کہہ جاتے تھے۔ آواز میں گرج تھی مگر لوچ کے ساتھ، کوئی دور سے جو سنے تو یہ سمجھے کہ مولوی صاحب کسی کو ڈانٹ رہے ہیں۔ لیکن پاس بیٹھنے والا ہنسی کے مارے لوٹ رہا ہو۔ جوش میں آکر جب آواز بلند کرت...
اب قوم تھی اور اس کے سر پر جادو ئے فرنگ۔ ہر طرف سحر سامری کا دور دورہ، ہر سمت سے دجالی تہذیب کا حملہ۔ معیار کمال یہ ٹھہرا کہ انگریزی بولنا آ جائے۔ لب و لہجہ ’’صاحب‘‘ کا سا ہو جائے۔ ڈگریاں اور امتحانات سرکاری نصیب میں آ جائیں۔ اپنی زبان بگاڑ کر بولی جائے۔ اپنی زبان اپنے علوم، اپنے ہاں کے کھانے پینے، اپنے طرز کے پہننے اور رہنے، اپنی ساری معاشرت، اپ...
سچ یہ ہے انسان کو یورپ نے ہلکا کردیا ابتدا ڈاڑھی سے کی اور انتہا میں مونچھ لی
یادش بخیر! ایک صاحب تھے دیوندر ستیار تھی۔ تھے کیا، اب بھی ہیں اور اردو اور ہندی کے بہت بڑے ادیب ہیں۔ لوک گیتوں پر انگریزی میں بھی ایک کتاب چھپوا چکے ہیں۔ اسی زمانے میں وہ دلی آئے تو انہیں بھی افسانہ نگاری کا شوق چرایا۔ خاصے جہاں دیدہ آدمی تھے مگر باتیں بڑی بھولی بھولی کرتے تھے۔ بھاری بھرکم۔ قد آور آدمی، چہرے پر بہت زبردست داڑھی۔ دراصل انہوں نے اپنی...
انشورنس والے عموماً ہر اس جگہ جانے کےآرزومند رہا کرتے ہیں جہاں دوچار صورتیں مل بیٹھتی ہوں کہ شاید وہاں کوئی شکار ہاتھ آئے۔ اور بھٹناگر بھی فرخ بھابی کے ایک دوست کے ذریعے اس کے ہاں یہی مقصد لے کر پہنچا تھا، مگر یہاں اسے اپنے ڈھب کی کوئی آسامی تو نظر نہ آئی البتہ یہاں کاماحول اسے ایسا راس آگیا کہ یہ جگہ شام گزارنے کے لیے مستقل طور پر اس کاٹھکانہ بن گ...
اصغر عباس ان کا اکلوتا لڑکا تھا اور اب پاکستانی فوج میں میجر تھا۔ نہ وہ ان کو خط لکھ سکتا تھا اور اگر مرجائیں تو مرتے وقت وہ اس کو دیکھ بھی نہ سکتے تھے۔ وہ تو کشوری کے لیے مصر تھا کہ وہ اس کے پاس راول پنڈی چلی آئے۔ لیکن ڈپٹی صاحب ہی نہ راضی ہوئے کہ انت سمے بٹیا کو بھی نظروں سے اوجھل کردیں۔ وہی کشوری تھی۔ جس کی ایسے بسم اللہ کے گنبد میں پرورش ہوئی تھی اور اب وقت نے ایسا پلٹا کھایا تھا کہ وہ جون پور کے گھرکی چار دیواری سے باہر مدتوں سے لکھنؤ کے کیلاش ہوسٹل میں رہ رہی تھی۔ ایم۔ اے۔ میں پڑھتی تھی اوراس فکر میں تھی کہ بس ایم۔ اے کرتے ہی پاکستان پہنچ جائے گی۔ اور ملازمت کرے گی اور ارے صاحب آزاد قوم کی لڑکیوں کے لیے ہزاروں باعزت راہیں کھلی ہیں۔ کالج میں پڑھائیے، نیشنل گارڈ میں بھرتی ہوجائے۔ اخباروں میں مضمون لکھئے، ریڈیو پر بولیئے، کوئی ایک چیز ہے، جی ہاں۔ وہ دن گن رہی تھی کہ کب دو سال ختم ہوں اور کب وہ پاکستان اڑنچھو ہو، لیکن پھر بابا کی محبت آڑے آجاتی۔ دکھیا اتنے بوڑھے ہوگئے ہیں۔ آنکھوں سے سجھائی بھی نہیں دیتا۔ کہتے ہیں بیٹا کچھ دن اور باپ کا ساتھ دے دو۔ جب میں مرجاؤں تو جہاں چاہنا جانا، چاہے پاکستان چاہے انگلینڈ اور امریکہ۔ میں اب تمہیں کسی بات سے روکتا تھوڑا ہی ہوں۔ بیٹا تم بھی چلی گئیں تو میں کیا کروں گا۔ محرم میں میرے لیے، سوز خوانی کون کرے گا۔ میرے لیے لو کی کا حلوہ کون بنائے گا۔ پوت پہلے ہی مجھے چھوڑ کر چل دیا۔ پھر ان کی آنکھیں بھر آتیں اور وہ اپنی سفید ڈاڑھی کوجلدی جلدی پونچھتے ہوئے یا علی کہہ کر دیوار کی طرف کروٹ کر لیتے۔
ادھر وکیل صاحب یہ دیکھ کر کہ یہ دکان محض ان کے گھر کے آسرے ہی پر لگائی گئی ہے، اس کی سرپرستی کرنا اپنا فرض سمجھنے لگے تھے۔ چنانچہ ماما اور نوکروں کو تاکید تھی کہ سب اسی سے سودا خریدیں اور اگر کچھ شکایت ہو یا چیزیں مہنگی معلوم ہوں تو ان کو اطلاع دیں۔ مگر سبحان کسی قسم کی شکایت کا موقع ہی نہ آنے دیتا۔ وہ نوکروں سے ہنسی مذاق کی باتیں کرکے اور ایک آدھ ...
نہیں معلوم کس گھڑی ہماری پیدائش ہوئی جو مسلمان گھر میں جنم لیا۔ آگ لگے ایسے مذہب کو۔ مذہب، مذہب روح کی تسلی، مردوں کی تسلی ہے! عورت بیچاری کو کیا! پانچ انگشت لانبی داڑھی لگاکے بڑے مسلمان بنتے ہیں۔ ٹٹی کی آڑ میں شکار کرتے ہیں۔ ہمارے تو جیسے جان تلک نہیں۔ آزادی کے لیے تو دیوارِ قہقہہ ہیں۔ ابا جان نے کس مصیبت سے اسکول میں داخل کیا تھا۔ مشکل سے آٹھویں ...
سن تو ٹھیک یاد نہیں، ہاں پندرہ سولہ سال ادھر کی بات ہے میں حسبِ معمول لاہور گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ‘‘نیرنگِ خیال’’ گر رہا تھا اور ‘‘ادبی دنیا’’ ابھر رہا تھا۔ کرشنؔ چندر، اور راجندرؔ سنگھ بیدی خوب خوب لکھ رہے تھے۔ صلاحؔ الدین احمد اور میراجیؔ کی ادارت میں ‘‘ادبی دنیا’’ اِس نفاست سے نکل رہا تھا کہ دیکھنے دکھانے کی چیز ہوتا تھا۔ میراجیؔ کی شاعری سے م...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books