aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "जुमले"
ظ انصاری
1925 - 1991
مصنف
سید جملے شاہ
غیر محسوس طریقے سے وہ چونکا ہوگاایک جملے کو کئی بار سنایا ہوگا
دہلی آنے سے پہلے وہ انبالہ چھاؤنی میں تھی جہاں کئی گورے اس کے گاہک تھے۔ ان گوروں سے ملنے جلنے کے باعث وہ انگریزی کے دس پندرہ جملے سیکھ گئی تھی، ان کو وہ عام گفتگو میں استعمال نہیں کرتی تھی لیکن جب وہ دہلی میں آئی اوراس کا کاروبار نہ چلا تو ایک روز اس نے اپنی پڑوسن طمنچہ جان سے کہا، ’’دِس لیف۔۔۔ ویری بیڈ۔‘‘ یعنی یہ زندگی بہت بری ہے جبکہ کھانے ہی کو ...
یا بھاگ جاؤں''کچھ اکھڑے اکھڑے، کٹے ہوئے سے عجیب جملے،
پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا۔ مگر اس کے متعلق جو تصور وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا۔ بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہو جائے گا۔ اور اس کو یقین تھا کہ اس کی آمد پر جو چیزیں نظر آئیں گی ان سے اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچے گی۔آخر کار مارچ کے اکتیس دن ختم ہو گئے اور اپریل کے شروع ہونے میں رات کے چند خاموش گھنٹے باقی رہ گئے۔ موسم خلافِ معمول سرد تھا۔ اور ہوا میں تازگی تھی۔ پہلی اپریل کو صبح سویرے استاد منگو اٹھا اور اصطبل میں جاکر گھوڑے کو جوتا اور باہر نکل گیا۔ اس کی طبیعت آج غیر معمولی طور پر مسرور تھی۔۔۔ وہ نئے قانون کو دیکھنے والا تھا۔
ہمیں اپنی روز مرہ کی زندگی میں کسی نہ کسی عزیز اور دل کے قریب شخص کا استقبال کرنا ہی پڑتا ہے۔ لیکن ایسے موقعے پر وہ مناسب لفظ اور جملے نہیں سوجھتے جو اس کی آمد پر اس کے استقبال میں کہے جاسکیں۔ اگر آپ بھی کبھی اس پریشانی اور الجھن سے گزرے ہیں یا گزر رہے ہیں تو استقبال کے موضوع پر کی جانے والی شاعری کا ہمارا یہ انتخاب آپ کے لیے مدد گار ثابت ہوگا۔
انسان کے اپنے یوم پیدائش سے زیادہ اہم دن اس کے لئے اور کون سا ہو سکتا ہے ۔ یہ دن باربار آتا ہے اور انسان کو خوشی اور دکھ سے ملے جلے جذبات سے بھر جاتا ہے ۔ ہر سال لوٹ کر آنے والی سالگرہ زندگی کے گزرنے اور موت سے قریب ہونے کے احساس کو بھی شدید کرتی ہے اور زندگی کے نئے پڑاؤ کی طرف بڑھنے کی خوشی کو بھی ۔ سالگرہ سے وابستہ اور بھی کئی ایسے گوشے ہیں جنہیں شاید آپ نہ جانتے ہوں ۔ ہمارے اس انتخاب کو پڑھئے ۔
जुमलेجملے
sentences
خالد بن ولید
جملوں کی بنیاد
کمار پاشی
ڈرامہ
تمہارا میں ہوں مرے تم ہو اچھے جملے ہیںمگر یہ بات بہت دور ہے صداقت سے
علی الصبح میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے اپنے دستِ مبارک سے کاغذ پر شکل کھینچ کر سمجھانا شروع کیا لیکن جہاں مجھے الجھن ہوئی تھی وہیں حضرت مولانا کی طبع رسا کو بھی کوفت ہوئی۔ فرمانے لگے، ’’چنت رام اب ہم تم کو نہیں پڑھا سکتے۔ جب استاد اور شاگرد کا علم ایک سا ہو جائے تو شاگرد کو کسی اور معلم کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔‘‘ میں نے جرأت کر کے کہہ د...
آنندی رونے لگی۔ جیسے عورتوں کا قاعدہ ہے۔ کیونکہ آنسو ان کی پلکوں پر رہتا ہے۔ عورت کے آنسو مرد کے غصے پر روغن کا کام کرتے ہیں۔ سری کنٹھ کے مزاج میں تحمل بہت تھا۔ انہیں شاید کبھی غصہ آیا ہی نہ تھا۔ مگر آنندی کے آنسوؤں نے آج زہریلی شراب کا کام کیا۔ رات بھر کروٹیں بدلتے رہے۔ سویرا ہوتے ہی اپنے باپ کے پاس جا کر بولے، ’’دادا اب میرا نباہ اس گھر م...
بی اماں کی منھ بولی بہن کا نسخہ کام آ گیا اور راحت نے دن کا زیادہ حصہ گھر ہی میں گزارنا شروع کر دیا۔ بی آپا تو چولھے میں پھکی رہتیں۔ بی اماں چوتھی کے جوڑے سیا کرتیں۔ اور راحت کی غلیظ آنکھیں تیز بن کر میرے دل میں چبھا کرتیں۔ بات بے بات چھیڑنا۔ کھانا کھلاتے وقت کبھی پانی تو کبھی نمک کے بہانے سے اور ساتھ ساتھ جملہ بازی میں کھسیا کر بی آپا کے پاس جا بی...
رسل کی طنزیات سے قطع نظر، یہ بات واضح ہے کہ چھتری کے نیچے کھڑا کانٹ جو یہ محسوس کر رہا ہے کہ وہ بھیگ نہیں رہا ہے، اس فرضی شخص سے مختلف نہیں ہے جو اگر کسی چیز کو حسین کہتا ہے تو گویا سب کے لیے یہ فیصلہ کرتا ہے، کیوں علم بالادراک میں سب کا حصہ ہے۔ وہ علم بالادراک جو کانٹ کو بتاتا ہے کہ وہ بھیگ نہیں رہا ہے۔ میں نے کانٹ کی جمالیات کو ذرا تفصیلی جگہ اس ...
اب بیان کرنے سے کیا فائدہ کہ مجھ پہ کیا گذری؟ یہ بتانا بھی بیکار ہے کہ میں نے کیا کیا کیا۔ میں ایک ایسا بدنصیب تھا جسے زندگی دوبھر ہو گئی ہو۔ انسانوں کی صحبت سے بھاگ کر میں جنگلوں میں مارا مار پھرنے لگا۔ دنوں نہ کچھ کھایا نہ پیا اور جب کھایا بھی تو نوالہ حلق میں اٹکنے لگا۔ رات گیے چوروں کی طرح اپنے کمرہ میں گھستا اور صبح ہوتے ہی پھر نکل کھڑا ہوتا، ...
یہ تراشے ہوئے حسیں جملےجیسے ہیروں کی کان ہے اردو
منہ میں کچھ کھوکھلے بے معنی سے جملے رکھ لومختلف ہاتھوں میں سکوں کی طرح گھستے رہو
ادھر سرتاج کا وجود ساری کلاس میں ایسے تھا جیسے عشاء کی نماز میں وتر۔ کلاس میں ملی جلی بھی اور سب سے الگ تھلگ بھی۔۔۔باقی گدھے رنگی لڑکیوں میں اس کی رنگت کچے ناریل کی طرح دودھیا نظر آتی۔ بڑی بڑی تیلیاں مونگیا آنکھیں جن پر شوں شاں کرتی پردہ پوش پلکیں۔ صد برگ جیسا کھلا کھلا چہرہ، شفاف انار دانوں سے بھرا ہوا چھوٹا سا دہن۔ وہ تو سچے سچے سراندیپ کی سروپ ن...
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books