aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "हिचकी"
زندگی بھر کے شکوے گلے تھے بہت وقت اتنا کہاں تھا کہ دہراتے ہمایک ہچکی میں کہہ ڈالی سب داستاں ہم نے قصے کو یوں مختصر کر لیا
آخری ہچکی ترے زانوں پہ آئےموت بھی میں شاعرانہ چاہتا ہوں
آخری ہچکی ترے زانو پہ آئےموت بھی میں شاعرانہ چاہتا ہوں
آخری ہچکی لینی ہے اب آ جاؤبعد میں تم کو کون بلانے والا ہے
نسیم صبح گلشن میں گلوں سے کھیلتی ہوگیکسی کی آخری ہچکی کسی کی دل لگی ہوگی
ہندوستانی اساطیری روایات کے حوالے سے ہچکی کا سبب یہی سمجھا جاتا ہے کہ کوئی یاد کررہا ہے ۔ اس قسم کے تصورات سچ اور جھوٹ سے ماورا ہوتے ہیں ۔ شاعروں نے بھی ہچکی کو اس کے اسی تناظر میں برتا ہے ۔ کچھ اشعار کا انتخاب ہم آپ کے لئے پیش کر رہے ہیں ۔
हिचकीہچکی
the hiccough, convulsive, sobbing or breathing
وہ رشک غیر پر رو رو کے ہچکی میری بندھ جانافریبوں سے وہ تیرا شک مٹانا یاد آتا ہے
انسان کے متعلق یہ تازہ خبر سن کر مرزا مجھے تخلیے میں لے گئے۔ دراصل تخلیے کا لفظ انھوں نے استعمال کیا تھا، ورنہ جس جگہ وہ مجھے دھکیلتے ہوئے لے گئے، وہ زنانے اور مردانے کی سرحد پر ایک چبوترہ تھا، جہاں ایک میراثن گھونگھٹ نکالے ڈھولک پر گالیاں گارہی تھی۔ وہاں انھوں نے اس شغف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جو مرحوم کو اپنی موت سے تھا، مجھے آگاہ کیا کہ یہ ڈرام...
کر دیا تیرے تغافل نے ادھورا مجھ کوایک ہچکی اگر آ جائے تو پورا ہو جاؤں
میرے لئے جو تین عدد سیب لائے تھے وہ کھا چکنے کے بعد جب انہیں کچھ قرار آیا تو وہ مشہور تعزیتی شعر پڑھا جس میں ان غنچوں پرحسرت کا اظہار کیا گیا ہے جو بن کھلے مرجھا گئے۔میں فطرتاً رقیق القلب واقع ہوا ہوں اور طبیعت میں ایسی باتوں کی سہاربالکل نہیں ہے۔ ان کے جانے کے بعد ”جب لاد چلے بنجارا“ والا موڈ طاری ہو جاتا ہے اور حالت یہ ہوتی ہے کہ ہر پرچھائیں بھوت اور ہر سفید چیز فرشتہ دکھائی دیتی ہے۔ ذرا آنکھ لگتی ہے تو بے ربط خواب دیکھنے لگتا ہوں۔ گویا کوئی ”کامک“ یا باتصویر نفسیاتی افسانہ سامنے کھلا ہوا ہے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ڈاکٹر میری لاش پر انجکشن کی پچکاریوں سے لڑ رہے ہیں اور لہولہان ہو رہے ہیں۔ ادھر کچھ مریض اپنی اپنی نرس کو کلوروفارم سنگھا رہے ہیں۔ ذرا دور ایک لا علاج مریض اپنے ڈاکٹر کو یاسین حفظ کرا رہا ہے۔ ہر طرف ساگودانے اور مونگ کی دال کی کھچڑی کے ڈھیر لگے ہیں۔آسمان بنفشی ہو رہا ہے اور عناب کے درختوں کی چھاؤں میں، سناکی جھاڑیوں کی اوٹ لے کر بہت سے غلمان ایک مولوی کو غذا بالجبر کے طور پر معجونیں کھلا رہے ہیں۔ تا حد نظر کافور میں بسے ہوئے کفن ہوا میں لہرا رہے ہیں۔ جا بجا لوبان سلگ رہا ہے اور میرا سر سنگ مرمر کی لوح مزار کے نیچے دبا ہوا ہے اوراس کی ٹھنڈک نس نس میں گھسی جا رہی ہے۔ میرے منہ میں سگرٹ اور ڈاکٹر کے منہ میں تھرمامیٹر ہے۔ آنکھ کھلتی ہے تو کیا دیکھتا ہوں کہ سر پر برف کی تھیلی رکھی ہے۔ میرے منہ میں تھرمامیٹر ٹھنسا ہوا ہے اور ڈاکٹر کے ہونٹوں میں سگرٹ دبا ہے۔
مری بے ساختہ ہچکی مجھے کھل کر بتاتی ہےترے اپنوں کو گاؤں میں تو اکثر یاد آتا ہے
نکیر، میں سمجھا نہیں۔ منکر، تم کو یاد نہیں، انہوں نے ایک شعر کہا تھا جس کے کراماً کاتبین اکثر چرچے کیا کرتے تھے،
ہچکی تھمتی ہی نہیں ناصرؔآج کسی نے یاد کیا ہے
’’کہو کہو۔‘‘ مولوی ابل نے شمیم احمد کے کندھے کو تھپکا اور پھر چونک کر اس کے دوسرے کندھے پر بھی ہاتھ رکھ دیا۔ شمیم احمد کے کندھے کی ہڈی پر گوشت کی اتنی بڑی گیندیں سی رکھی تھیں۔’’کہو نا عزیزم۔‘‘
نزع میں ہچکی نہیں آئی مجھےبھولنے والے خدارا یاد کر
شام ہوئی اور سورج نے اک ہچکی لیبس پھر کیا تھا کوسوں تک سناٹا تھا
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books