aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "गुमनाम"
شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیےہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں
خود کو جانا جدا زمانے سےآ گیا تھا مرے گمان میں کیا
کتنا اچھا تھا کہ ہم بھی جیا کرتے تھے فرازؔغیر معروف سے گمنام سے پہلے پہلے
جب زلف کی کالک میں گھل جائے کوئی راہیبدنام سہی لیکن گمنام نہیں ہوتا
تاریخ میں محل بھی ہے حاکم بھی تخت بھیگمنام جو ہوئے ہیں وہ لشکر تلاش کر
مجھ گمنام سے پوچھتے ہیں فرہاد و مجنوںعشق میں کتنا نام کمایا جا سکتا ہے
یہ پر پیچ گلیاں یہ بے خواب بازاریہ گمنام راہی یہ سکوں کی جھنکار
اک فرصت گناہ ملی وہ بھی چار دندیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
’’بس بس۔‘‘ کلثوم تھک گئی۔ ’’بس بس۔‘‘مسعود کو ایک دم شرارت سوجھی۔ وہ پلنگ پر سے نیچے اترنے لگا تو اس نے کلثوم کی دونوں بغلوں میں گدگدی کرنا شروع کردی۔ ہنسی کے مارے وہ لوٹ پوٹ ہوگئی۔ اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ مسعود کے ہاتھوں کو پرے جھٹک دے۔ لیکن جب اس نے ارادہ کرکے اس کے لات جمانی چاہی تو مسعود اچھل کر زد سے باہر ہوگیا اور سلیپر پہن کر کمرے سے نکل گیا۔
راوی، غالب آگرے میں رونق افروز ہیں۔ دیوان سنگھ راجہ کے یہاں غالب کے اعزاز میں ایک مخصوص غیرطرحی مشاعرہ ہے۔ افہام الدین ساحر، احمد شیون، زین العابدین شورش، غلام غوث بے خبر، شریک ہیں۔ غالب باتیں کر رہے ہیں۔ غالب، بھئی ہم کو ابتدائے شباب میں ایک مرشد کامل نے نصیحت کی تھی کہ زہد و ورع منظور نہیں۔ تاہم قانع فسق و فجور ہیں۔ پیو۔ کھاؤ۔ مزے اڑاؤ۔ مگر یہ یاد رہے کہ مصری کی مکھی بنو، شہد کی مکھی نہ بنو۔ سو میرا اس نصیحت پر عمل رہا ہے۔ میں جب بہشت کا تصور کرتا ہوں اور سوچتاہوں کہ اگر مغفرت ہوگئی اور ایک قصر ملا اور ایک حور ملی۔ اقامت جاودانی ہے اور اسی ایک نیک بخت کے ساتھ زندگانی ہے۔ اس تصور سے جی گھبراتا ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ہے ہے وہ حور جیرن ہوجائے گی۔ طبیعت کیوں نہ گھبرائے گی۔ وہی زمردیں کاخ اور وہی طوبیٰ کی ایک شاخ، چشم بدور، وہی ایک حور۔
مرزا صاحب کھانا کھارہے تھے۔ چھٹی رسان نے ایک لفافہ لاکردیا۔ لفافے کی بے ربطی اور کاتب کے نام کی اجنبیت سے ان کو یقین ہوگیا کہ یہ کسی مخالف کا ویسا ہی گمنام خط ہے، جیسے پہلے آچکے ہیں۔ لفافہ پاس بیٹھے شاگرد کو دیا کہ اس کو کھول کر پڑھو۔ سارا خط فحش اور دشنام سے بھرا ہوا تھا۔ پوچھا کس کا خط ہے؟ اور کیا لکھا ہے؟ ‘‘شاگرد کو اس کے اظہار میں تامل ہوا۔ فوراًاس کے ہاتھ سے لفافہ چھین کر خود پڑھا۔ اس میں ایک جگہ ماں کی گالی بھی لکھی تھی ۔ مسکراکر کہنے لگے کہ ’’الو کو گالی دینی بھی نہیں آتی۔ بڈھے یا ادھیڑ عمر آدمی کو ماں کی نہیں بیٹی کی گالی دیتے ہیں تاکہ اس کو غیرت آئے۔ جو ان کو جو روکی گالی دیتے ہیں کیونکہ اس کو جورو سے زیادہ تعلق ہوتا ہے۔ بچے کو ماں کی گالی دیتے ہیں کہ وہ ماں کے برابر کسی سے مانوس نہیں ہوتا۔ یہ جو بہتر برس کے بڈھے کو ماں کی گالی دیتا ہے، اس سے زیادہ کون بیوقوف ہوگا؟‘‘
اے دریغا وہ رند شاہد بازبے شک بعض لوگ اس شعر کو غالب کا نہیں گنتے۔ ایک بزرگ کے نزدیک یہ اسد اللہ خاں تمام کوئی دوسرے شاعر تھے۔ ایک اور محقق نے اسے غالب کے ایک گمنام شاگرد دریغا دہلوی سے منسوب کیا ہے لیکن ہمیں یہ دیوان غالب ہی میں ملا ہے۔ ٹیلی فون ڈائریکٹری بند کرکے ہم نے تھانے والوں کو فون کرنے شروع کیے کہ اس قسم کا کوئی شخص تمہارے روز نامچے یا حوالات میں ہو تو مطلع فرماؤ کیونکہ اتنا ہم نے سن رکھا ہے کہ کچھ مرزا صاحب کو اک گونہ بیخودی کے ذرائع شراب اور جوئے وغیرہ سے دلچسپی تھی اور کچھ کوتوال ان کا دشمن تھا۔ بہرحال پولیس والوں نے بھی کان پر ہاتھ رکھا کہ ہم آشنا نہیں، نہ ملزموں میں ان کا نام ہے نہ مفروروں میں، نہ ڈیفنس رولز کے نظربندوں میں، نہ اخلاقی قیدیوں میں، نہ تین میں نہ تیرہ میں۔
رہ طلب میں جو گمنام مر گئے ناصرؔمتاع درد انہی ساتھیوں کے نام کریں
قصہ میرے بھتیجے سے شروع ہوتا ہے۔ میرا بھتیجا یوں دیکھنے میں عام بھتیجوں سے مختلف نہیں۔ میری تمام خوبیاں اس میں موجود ہیں اور اس کے علاوہ نئی پود سے تعلق رکھنے کے باعث اس میں بعض فالتو اوصاف نظر آتے ہیں لیکن ایک صفت تو اس میں ایسی ہے کہ آج تک ہمارے خاندان میں اس شدت کے ساتھ کبھی رونما نہ ہوئی تھی۔ وہ یہ کہ بڑوں کی عزت کرتا ہے اور میں تو اس کے نزدیک بس علم وفن کا ایک دیوتا ہوں۔ یہ خبط اس کے دماغ میں کیوں سمایا ہے؟ اس کی وجہ میں یہی بتا سکتا ہوں کہ نہایت اعلیٰ سے اعلیٰ خاندانوں میں بھی کبھی کبھی ایسا دیکھنے میں آجاتا ہے۔ میں نے شائستہ سے شائستہ دودمانوں کے فرزندوں کو بعض وقت بزرگوں کا اس قدر احترام کرتے دیکھا کہ ان پر نیچ ذات کا دھوکا ہونے لگتاہے۔ایک سال میں کانگریس کے جلسے میں چلا گیا۔ بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ کانگریس کا جلسہ میرے پاس چلا آیا۔ مطلب یہ کہ جس شہر میں میں موجود تھا وہیں کانگریس والوں نے بھی اپنا سالانہ اجلاس منعقد کرنے کی ٹھان لی۔ میں پہلے بھی اکثر جگہ اعلان کرچکا ہوں اور اب بھی ببانگ دہل یہ کہنے کو تیار ہوں کہ اس میں میرا ذرا بھی قصور نہ تھا۔
مجھ ایسے کتنے ہی گمنام بچے کھیلے ہیںاسی زمیں سے اسی میں سپرد خاک ہوئے
یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیاغربت میں آ کے چمکا گمنام تھا وطن میں
برسات ہی کا موسم ہے۔ گاؤں میں آموں کا باغ کبھی دھوپ کبھی چھاؤں، کوئل کوکتی ہے ہوا لہکتی ہے۔ گاؤں میں لڑکے لڑکیاں دھوم مچا رہی ہیں۔ کہیں کوئی پکا ہوا آم ڈال سے ٹوٹ کر گرتا ہے۔ سب کے سب جھپٹتے ہیں۔ جس کومل گیا وہ ہیرو بن گیا۔ جس کو نہ ملا اس پر سب نے ٹھٹھے لگائے۔ یہی لڑکے لڑکیاں جواس وقت کسی طرح قابل التفات نظر نہیں آتیں کسے معلوم آگے چل کر زمانہ اور زندگی کی کن نیرنگیوں کو اُجاگر کریں گے کتنے فاقے کریں گے کتنے فاتح بنیں گے کتنے ناموراورنیک نام کتنے گمنام و نافرجام اور یہ خاکسارایک کھری چارپائی پراس باغ میں آرام فرما رہا ہے۔ چارپائی باغبان کی ہے۔ باغ کسی اور کا ہے۔ لڑکے لڑکیاں گاؤں کی ہیں۔ میرے حصہ کا صرف آم ہے۔ ایسے میں جو کچھ دماغ میں نہ آئے تھوڑا ہے۔ یا جو تھوڑا دماغ میں ہے وہ بھی نکل جائےتو کیا تعجب!پھرعام تصورمیں ایسی کائنات تعمیر کرنے لگتا ہوں جوصرف میرے لیے ہے جو میرے ہی اشارے پر بنتی بگڑتی ہے مجھے خالق کا درجہ حاصل ہے۔ اپنے مخلوق ہونے کا وہم بھی نہیں گزرتا۔ نہ اس کا خیال کہ زمانہ کسے کہتے ہیں نہ اس کی پروا کہ زندگی کیا ہے۔ دوسروں کو ان کا اسیر دیکھ کر چونک پڑتا ہوں۔ پھر یہ محسوس کرکے کہ میں ان لوگوں سےاورخود زمانہ اورزندگی سےعلیحدہ بھی ہوں۔ اونگھنے لگتا ہوں۔ ممکن ہے اونگھنے میں پہلے سے مبتلا ہوں۔
شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیےہم اسی آگ میں گم نام سے جل جاتے ہیں
میں ہوں وہ گمنام جب دفتر میں نام آیا مرارہ گیا بس منشی قدرت جگہ واں چھوڑ کر
ایم۔ ایس۔ سی کے لیے میں پھر دلی آگئی۔ یہاں کالج میں میرے ساتھ یہی سب لڑکیاں پڑھتی تھیں۔ ریحانہ، سعدیہ، پر بھا، فلانی، ڈھماکی، مجھے لڑکیاں کبھی پسند نہ آئیں۔ مجھے دنیا میں زیادہ تر لوگ پسند نہیں آئے۔ بیش تر لوگ محض تضیع اوقات ہیں۔ میں بہت مغرور تھی۔ حسن ایسی چیز ہے کہ انسان کا دماغ خراب ہوتے دیر نہیں لگتی۔ پھر میں تو بقول شخصے لاکھوں میں ایک تھی۔ شیشے کا ایسا جھلکتا ہوا رنگ سرخی مائل سنہرے بال۔ بے حد شان دار ڈیل ڈول بنارسی ساری پہن لوں تو بالکل کہیں کی مہارانی معلوم ہوتی تھی۔یہ جنگ کا زمانہ تھا، یا شاید جنگ اسی سال ختم ہوئی تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد نہیں۔ بہرحال دلی پر بہار آئی ہوئی تھی۔ کروڑپتی کاروباریوں اور حکومت ہند کے اعلیٰ افسروں کی لڑکیاں۔۔۔ ہندو، سکھ، مسلمان۔۔۔ لمبی لمبی موٹروں میں اڑی اڑی پھرتیں نت نئی پارٹیاں، جلسے، ہنگامے، آج اندر پرستھ کالج میں ڈراما ہے، کل میرا نڈا ہاؤس میں، پرسوں لیڈی ارون کالج میں کونسرٹ ہے۔ لیڈی ہارڈنگ اور سینٹ اسٹیفن کالج۔۔۔ چیمسفرڈ کلب، روشن آرا، امپریل جم خانہ، غرض کہ ہر طرف الف لیلہ کے باب بکھرے پڑے تھے۔ ہر جگہ نوجوان فوجی افسروں اور سول سروس کے بن بیاہے عہدے داروں کے پرے ڈولتے نظر آتے۔ ایک ہنگامہ تھا۔
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books