آبشار
کہانی کی کہانی
’’دو ایسے افراد کی کہانی ہے جو ایک ہی لڑکی سے باری باری محبت کرتے ہیں، لیکن دونوں میں سے کوئی بھی اسے حاصل نہیں کر پاتا۔ وہ لڑکی ایک پٹھان کے ساتھ گھر سے بھاگ کر آئی تھی۔ پٹھان اسے جھرنے کے پاس بنے اس بنگلے میں ٹھہراتا ہے اور خود پیسوں کا انتظام کرنے چلا جاتا ہے۔ کئی ہفتے گزر جانے کے بعد بھی وہ لوٹ کر نہیں آتا۔ اسی درمیان وہاں کالج کا ایک نوجوان آتا ہے اور لڑکی اس میں دلچسپی لینے لگتی ہے وہ نوجوان بھی اسے چھوڑ کر چلا جاتا ہے تو لڑکی جھرنے میں کود کر جان دے دیتی ہے۔‘‘
اگر کبھی دہرہ دون جانے کا اتفاق ہو تو آپ کا میزبان آپ کو سنسل دھارا نامی مقام دیکھنے کی دعوت ضرور دےگا اور آپ انکار ہر گز نہ کیجئےگا۔
سنا ہے کہ اب وہاں بسیں جانے لگی ہیں، لیکن پہلے دہرہ دون سے راجپور قصبے تک کوئی آٹھ میل کا سفر لاری میں طے کر پڑتا تھا اور سنسل دھارا تک پہنچنے کے لیے راجپور سے بھی آگے چند پہاڑیوں کے نشیب و فراز سے گزرنا پڑتا تھا۔
منزل کے آخری حصے میں چند جھونپڑیوں پر مشتمل ایک چھوٹا سا گاؤں واقع ہے۔ دائیں بائیں اونچی اونچی پہاڑیاں ہیں۔ ان کے بیچوں بیچ ایک ندی بہتی ہے۔ ندی کے کنارے کنارے آگے بڑھیے تو گاؤں سے ڈیڑھ دو فرلانگ پرے وہ مقام ہے جسے سنسل دھارا کہتے ہیں۔
ندی کے کنارے پر ایک چھوٹا سا مسافر خانہ بنا ہوا ہے۔ قریب ہی گندھک کے پانی کا چشمہ ہے۔ جس کا پانی پینے اور اس میں اشنان کرنے کے لیے لوگ دور دور سے آیا کرتے ہیں۔ ندی پار دائیں ہاتھ کو ایک گپھا دکھائی دیتی ہے جس کے اندر پہاڑ کی چھت سے ہر دقت پانی ٹپکتا رہتا ہے اور بائیں ہاتھ کو ایک چھوٹا سا قدیم مند ردکھائی دیتاہے۔ مندر تک جانے کے لیے ایک اونچا سا لوہے کا پل بھی بندھا ہے۔ ہر چہار جانب ہریالی ہی ہریالی، پانی ہی پانی خنکی ہی خنکی ہے۔ الغرض ان صفات کے باعث یہ تفریح کا مقام بن گیا ہے۔ جہاں بچے، بوڑھے، مرد عورتیں اکٹھا ہوتے ہیں۔ سب گندھک کے چشمے یاندی میں نہاتے ہیں یا گپھاؤں میں آنکھ مچولی کھیلتے پھرتے ہیں۔
اس پار پل کے قریب کھڑے ہو کر سامنے کی جانب نگاہ دوڑائیں تو مندر کے بائیں طرف پہاڑی کے اوپر سے نیچے تک آپ کو ایک طویل و عریض لکیر دکھائی دےگی۔ بہت اوپر پہنچ کر یہ لکیر جھاڑیوں میں گھل مل جاتی ہے۔ پہلے اس جگہ ایک آبشار تھا۔ جیتا جاگتا، بےتاب اور بےچین۔ تڑپتا اور کف اڑاتا ہوا آبشار۔۔۔ لیکن اب اسی مقام پر نشان باقی رہ گیا ہے۔ ایک بتک بڑے گھاؤ کے مانند۔
یہ آبشار ختم کیوں کیا گیا۔ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ جن دنوں آبشار موجود تھا ان دنوں پہاڑی کی بلندی پر آبشار کے قریب ہی ایک بنگلہ بھی دکھائی دیتا تھا۔ پہاڑی کی چوٹی پر جگہ کم و بیش ہموار تھی جو چوڑی کم لیکن لمبی کافی تھی۔ اس کے چاروں طرف چھوٹی بڑی پہاڑیوں کا جمگھٹا تھا، دور اونچے پہاڑ پر بسا ہوا شہر مسوری اور پرے کوہ ہمالیہ اور کوہ شوالک کے سلے کا میلوں دور تک پھیلے ہوئے تھے اس جگہ کھڑے ہو کر دیکھئے تو قدرت کے بیسیوں مناظر دل کو موہ لیتے تھے۔ یہ مناظر شب و روز کے مختلف حصوں میں نئی کیفیتیں پیش کرتے تھے۔
جہاں تک بنگلے کا تعلق ہے، وہ پرانی طرز کی ہلکی پھلکی چھوٹی سی دو منزلہ عمارت تھی۔ چند کمرے نیچے اور چند اوپر والی منزل پر تھے۔ کسی زمانے میں یہ بنگلہ خوبصورت رہا ہوگا، لیکن اب تو اس کی حالت خستہ تھی۔ اس سے سرائے یا ہوٹل کا کام لیا جا رہا تھا۔ وہاں تک پہنچنے والوں کی تعداد زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ لیکن بعض منچلے تفریح کی خاطر وہاں جا پہنچتے تھے۔ پینے پلانے کا معقول انتظام تھا۔ گرمیوں کے موسم میں بعض اوقات خاصی چہل پہل ہو جاتی تھی۔ ایک ہی آدمی تھا وہاں، جو مالک، مینجر، باروچی اور بیرا وغیرہ سبھی کچھ تھا۔ اس نے اپنا ہاتھ بٹانے کے لیے دو تین پہاڑی لونڈے رکھ چھوڑے تھے۔ اس کا نام تھا کالے۔ اس کی عمر پینسٹھ سے تجاوز کر چکی تھی۔ وہ اکہرے سے بدن کا قدرے کبڑا سا شخص تھا۔ اس کے چہرے پر گہرے خطوط کا جال سا بنا ہوا تھا۔ جب وہ ہنستا تو اگلے دو ٹوٹے ہوئے دانتوں کے باعث اس کی صورت مضحکہ خیز دکھائی دینے لگتی تھی۔ تقسیم ہند سے بہت پہلے موسم سرما کی ایک خوشگوار شام کو ادھیڑ عمر کا ایک مسافر وہاں وارد ہوا۔
اس کا قد چھوٹا، بدن کہرا، داڑھی خشخشی، لباس انگریزی، صورت متین، آنکھون پر چشمہ، سرمئی رنگ کا سوئٹر۔ پاؤں میں گم بوٹ جو اس کے گھٹنوں تک پہنچتے تھے۔ معلوم ہوتا کہ وہ راجپور سے پیدل آ رہا تھا اور راستے کی ندی نالوں کے بیچ میں سے ہوتا ہوا آیا تھا۔ اس کے پیچھے ایک پہاڑی قلی سامان اٹھائے تھا۔ بستر اور چمڑے کا ایک بڑا سا سوٹ کیس جس پر انگریزی حروف میں اے۔ احمد لکھا تھا۔
بنگلے کے سامنے بے تحاشہ اگی ہوئی گھاس کے لان پر وہ ٹانگیں قدرے پھیلا کر کھڑا ہو گیا اور خوابناک نظروں سے بنگلے کا جائزہ لینے لگا۔ اس کے دانتوں میں پائپ دبا ہوا تھا۔ اس کی مونچھوں کے بال دھواں کھا کھا کر بھورے ہو گئے تھے۔
کچھ دیر تک وہ بنگلے کو دیکھتا رہا پھر اس نے شانوں کو حرکت دے کر ارد گرد دور دور تک نگاہ دوڑائی اس کی نظریں گھوم پھر کر بنگلے کے قریب دانہ دنکا چگنے والی مرغیوں پر رک گئیں۔
اس وقت کالے، بنگلے کے ایک سرے پر بنے ہوئے باورچی خانے میں بڑے پتیلے میں کڑچھی گھما رہا تھا۔ پینے کی عادت پرانی تھی چنانچہ وہ سرور کے عالم میں انگریزی طرز پرلا، لاکی دھن اڑا رہا تھا اور ساتھ ہی بھونڈے پن سے کمر کو بھی ہلائے جا رہا تھا۔
جب اس کی نگاہ اجنبی پر پڑی تو فوراً کڑچھی ایک لونڈے کے ہاتھ میں تھمادی اور خود جھاڑن سے ہاتھ پونچھتا ہوا نو وارد کی جانب بڑھا اور فخریہ لہجے میں بیروں کی سی انگریزی میں دریافت کیا۔
’’گڈ ایوننگ سر! یو وانٹ روم سر!‘‘
اجنبی کالے کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور اسے انگریزی میں بات کرتے دیکھ کر مسکرایا۔ ’’یس۔‘‘
نووارد اے۔ احمد کو بنگلے کے اوپر والی منزل کا ایک کمرہ پسند آیا۔ سامان وہاں رکھو اکر سب سے پہلے اس نے گرم گرم چائے پیالے کی خواہش کا اظہار کیا کالے سرپٹ بھاگا۔
مسافر نے کمر کی پیٹی ڈھیلی کی، بوٹ اتار کر الگ رکھے اور پاؤں کسلمندانہ انداز سے پھیلا دیے۔
وہ اس کمرے کی فضا سے مانوس رہ چکا تھا۔ لیکن اس طویل مدت میں یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کمرہ بھی بوڑھا ہو گیا ہو۔ صاف ستھرا لیکن پرانا فرنیچر۔ فرش پر بوسیدہ کوئر میٹنگ۔ صوفوں کے پھوسڑے اڑ چکے تھے۔ دیواروں پر یا اللہ یا اللہ لکھا ہوا۔ کچھ دیوی دیوتاؤں کی تصویریں۔ ایک تصویر ایڈورڈ ہشتم کی بھی تھی جو ان کی نوجوانی کی تھی۔ جبکہ وہ پرنس آف دیلز کہلاتے تھے۔ کھرکیوں پر بندروں سے بچاؤ کے لیے لگی ہوئی جالی بھی پرائے نام رہ گئی تھی۔
اس کھڑکی سے قریب ڈھائی فرلانگ پرے آبشار نیچے گرتا دکھائی دیتا تھا۔ اس وقت وہ یوں نظر آ رہا تھا جیسے کوئی عظیم الجثہ سفید اژدہا پہاڑیوں کی گود میں پھنکار رہا ہو۔ ہزاروں من پانی تیزی و تندی کے ساتھ کف اور چھینٹے اڑاتا سیکڑوں فٹ نیچے گر رہا تھا۔ اس گھائی میں گھومنے پھر والے انسان کیڑے مکوڑوں کے مانند دکھائی دیتے تھے۔
احمد نے آبشار پر چند ثانیون تک نگاہ جمائے رکھی اور سوچا کہ انسان کے جذبات کو بھی تو اس آبشار سے کس قدر مشابہت ہے۔ اس خیال کے آتے ہی اس کے ذہن میں ایک دل ربا صورت کے لطیف اور نرم و نازک خطوط ابھرے اور اس کا دل زخم خوردہ پرندے کی طرح پھڑکنے لگا۔
اسی اثناء میں کالے سرور کے باعث قدرے لڑکھڑاتا ہوا اندر داخل ہوا اور چائے کا پیالہ میز پر رکھتے ہوئے بولا۔
’’سر! پیالے کو منہ ذراسنبھل کر لگائیےگا۔‘‘
’’کیوں؟ آخر ماجرا کیا ہے؟‘‘
’’ماجرا کچھ نہیں، گرم ہے۔ کالے کی بنائی ہوئی چائے ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے داد طلب نگاہوں سے مہمان کی جانب دیکھا۔
اس پر احمد نے خوش طبعی سے جواب دیا، ’’بھئی قائل ہو گئے تمہاری استادی کے، کیوں نہ ہوں۔ آخر پرانے گھاگ ہو تم۔‘‘
کالے سر تسلیم خم کر کے جانے کو تھا کہ احمد نے دریافت کیا۔ بھئی کالے! ایک حسین لڑکی تھی یہاں۔بےحد حسین لڑکی۔۔۔ اس کے بارے میں جانتے ہو؟‘‘
کالے نے رک کر تامل کیا۔ بولا کچھ یاد نہیں آتا۔ ایک قدم چل کر رکا۔ ’’آپ کا مطلب میم صاحب کر لڑکی سے تو نہیں!‘‘
’’میم صاحب کون؟‘‘
’’انہیں کا یہ بنگلہ ہے جب وہ جوان تھیں تو بہت خوبصورت تھیں۔ کانسڑ والے چائے کے باغ کے مالک مسٹر ٹنڈل انہیں ولایت سے لائے۔ انڈیا میں ہی ان کی شادی ہوئی، لیکن بیچارے زیادہ جیے نہیں۔ یہ بنگلہ انہوں نے اپنی بیوی کے لیے بنوایا تھا، لیکن ان کے مرنے کے بعد میم صاحب کا دل اتنا کھٹا ہوا کہ انہوں نے اس جگہ کی طرف رخ تک نہیں کیا۔ وہ چائے کے باغوں میں رہتی ہیں۔ اب تو وہ سوچ رہی ہیں کہ باغ بیچ باچ کر ولایت چلی جائیں۔ انہیں کی لڑکی پچھلے مہینے ادھر آئی تھیں۔ میں سمجھا آپ کا اشارہ اسی طرف ہے۔‘‘
’’اوہ نہیں۔ اچھا تو یہ بنگلہ تمہارے سپرد ہے۔‘‘
’’جی ہاں میں ہی اس کی دیکھ بھال کرتا ہوں۔ ان کی اجازت سے آپ ایسے صاحب لوگوں سے پیٹ پالنے کو کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے۔‘‘
’’لیکن یہاں بتی کم لوگ آتے ہوں گے۔‘‘
’’جی ہاں۔ گرمی کے موسم میں رونق بڑھ جاتی ہے۔ اس وقت آپ سمیت تین مسافر ٹھہرے ہوئے ہیں۔ ان میں ایک تو بیاہا جوڑا ہے۔ وہ تو اوپر والے سرے کے کمرے میں بند رہتے ہیں۔ دین و دنیا سے انہیں کچھ غرض نہیں۔ اگر آپ کو گپ اڑانی ہو تو وہ دیکھئے سامنے کھڑکی میں سے بڑے صاحب۔۔۔
ہم انہیں بڑا صاحب ہے ہیں۔ ارے بہت بڑا ڈیل ڈول ہے ان کا۔ ہم آپ جیسے آدھ درجن شخص ملائے جائیں تب جا کے ایک بڑا صاحب بنے۔ لیکن جی بڑے خاندانی آدمی ہیں۔ بہت بڑے افسر معلوم ہوتے ہیں۔ ان کی سبھی چیزیں بڑی ہیں۔ رات کا کھانا اگر نیچے کھائیے توآپ کی ان سے ملاقات ہو جائےگی۔‘‘
’’یس سر! ضرور اور پھر اب تو پرسوں تک وہ واپس جانے والے ہیں۔ دوہفتے سے ٹکے ہوئے ہیں۔‘‘
کالے چلا گیا۔
احمد نے منہ ہاتھ دھویا کپڑے تبدیل کیے اور بستر پر نیم دراز ہو کر ریلوے بک اسٹال سے خریدے ہوئے ایک انگریزی رسالے کی ورق گردانی کرنے لگا۔ جوں جوں وقت گزرنے لگا۔ اس کے خوابوں کی لڑکی کی یاد تازہ ہونے لگی جو حسن کی تمام روایتی خوبیوں سے مالا مال تھی۔ کیسی عجیب لڑکی تھی وہ کس قدر والہانہ تھا اس کا عشق۔ کس قدر حدت تھی اس کے سینے میں۔ کیسی شدت تھی اس کے جذبات میں۔ کس قدر تیز و تند تھے اس کے احساسات۔ بالکل اس آبشار کی طرح بےچین، وحشی، طوفانی۔
لیکن اس واقعہ پر اب لگ بھگ چوتھائی صدی کی گر دجم چکی تھی۔ سچ مچ اس حسین لڑکی کے بارے میں کس قدر احمقانہ سوال کیا تھا اس نے کالے سے۔ جیسے کل کی بات ہو۔ اب تو اس کی یاد کی حیثیت ایک بھولے بسرے خواب سے بہتر نہیں کہی جا سکتی۔ اس وقت وہ جہاں کہیں بھی ہو گی بوڑھی ہو چکی ہوگی۔
اس کے دل میں ہواک سی اٹھی۔ حسن و شباب اور لطافت و تازگی کا مجسمہ اس ناپائیدار دنیا میں کس قدر جلد ساری خوبیاں کھو بیٹھتا ہے۔
وہ اٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ خود اس کی حالت قابل دید تھی۔ کبھی وہ یہیں ایک نوعمر طالب علم کی حیثیت سے آیا تھا۔ چہرے کی تازگی اور ہمواری کی جگہ خستگی اور گہرے خطوط نے لے لی تھی۔ بال پک گئے تھے۔ چہرے سے خشونت کا اظہار ہونے لگا۔
رات کے آٹھ بجے کالے آیا اور کہا کہ کھانا نیچے لگ رہا ہے۔ جب وہ نیچے آیا تو بڑے صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ جثے کے لحاظ سے جن دکھائی دیتا تھا۔ لیکن صورت کے اعتبار سے وہ خاصا حسین انسان تھا۔ رنگ سرخ سپید، آنکھیں بڑی بڑی، ناک اونچی، ہونٹ بھرپور۔ یہ بڑے بڑے ہاتھ۔ موٹی اور لمبی انگلیاں۔ بڑی بڑی نیچے کو لٹکی ہوئی مونچھیں۔ جنہوں نے اس کے اوپر والے ہونٹ کا بیشتر حصہ چھپا رکھا تھا۔
اس کی گفتگو سے شگفتگی اور سنجیدگی، حرکات و سکنات سے متانت اور وقار دونوں کا اظہار ہوتا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کوئی جلا وطن تاجدار ہو۔
احمد نے سوچا اچھا ہوا جو میں کھانا کھانے کے لئے نیچے چلا آیا۔ کیوں کہ علیک سلیک کے فوراً بعد ان کے مابین قہقہوں اور خوش گپیوں کا دور چلا اور یہ صحبت اس قدر کامیاب رہی کہ دوسرے دن صبح کا ناشتہ بھی انہوں نے ایک ساتھ ہی کیا۔
دوسرے دن شام کو دفعتاً ہر طرف دھند سی چھا گئی۔ آسمان میں بادلوں کے غول کےغول جمع ہو رہے تھے۔ برآمدے کے ایک گوشے میں احمد کرسی پر بیٹھا چائے کا انتظار کر رہا تھا۔ سامنے لان پر کالے پرانے گرم کپڑے پہنے مفلر لپیٹے اپنے ٹٹو پر کاٹھی کسنے کی فکر میں تھا۔ پھر وہ چلا کر پکار اٹھا۔
’’ابے لونڈے جلدی سے چائے لیا صاحب کے لئے۔‘‘
احمد نے کہا، ’’کوئی مضائقہ نہیں۔ ابھی تمہارے بڑے صاحب بھی تو لباس تبدیل کر کے نہیں آئے۔ ان کے بغیر چائے کا کیا لطف بھلا؟‘‘
’’اس وقت کہان کی تیاری ہے؟‘‘
’’راجپور تک جا رہوں۔‘‘
’’گھومنے یا کسی کام سے؟‘‘
’’صاحب دونوں باتیں ہیں۔ چینی، بسکٹ پیسٹری، انڈے، سبھی کچھ لانا ہے اور۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے صاحب کی طرف معنی نظروں سے دیکھا اور ممکن ہے کچھ اور بھی ہو جائے۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘ احمد نے دل چسپی کا اظہار کیا۔
اس پر کالے نے جھکی ہوئی کمر کو دفعتاً سیدھا کرتے ہوئے کہا۔
’’کیوں صاحب اگر میں شادی کر ڈالوں تو کیسی رہے۔‘‘
اس کی مضحکہ خیز صورت اور شادی اور پھر وہ بھی اس عمر میں؟ احمد نے ہنسی دباتے ہوئے پائپ میں تمباکو بھرنا شروع کیا۔
جواب نہ پاکر بھی کالے نے سلسلۂ کلام جاری رکھا۔
’’کیا بتاؤں صاحب۔ ایک بیوہ ہاتھ دھوکر میرے پیچھے پڑی ہے۔ کبھی سوچتا ہوں ثواب کا کام ہے کر ڈالوں۔‘‘ پھر اس نے کھٹ سے پتلیاں چڑھا کر آسمان کی جانب دیکھا اور مسکین لہجے میں کہا۔
’’اچھا جو اللہ کو منظور ہے سوہی ہوگا۔‘‘
پھر کالے نے دوسرا بورا ٹٹو کے آر پار پھینکا اور اس کی لگام کھینچ کر رکاب پر پیر رکھتے رکھتے دفعتاً رک گیا۔ ’’ہاں صاحب، خوب یاد آیا۔ آپ کل کس لڑکی کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ ارے آپ فیروزہ کے بارے میں تو نہیں دریافت کر رہتے تھے۔ لیکن وہ تو بہت پرانی بات ہے۔ آپ اس لڑکی کو تو نہیں جانتے ہوں گے۔‘‘
’’نہیں نہیں۔ میں جانتا نہیں۔ یوں ہی سنا ساتھا کچھ۔‘‘
’’ہاں ہاں، کیوں نہیں۔ ضرور سنا ہوگا۔ اتنے سال بیت گئے۔ پھر بھی اس لڑکی کے بارے میں بڑے بوڑھے باتیں کیا کرتے ہیں۔ کل میں کچھ نہیں سمجھا۔ اس لڑکی کے بارے میں کچھ خیال ہی نہیں آیا۔ بھلا میں یہ بات کیسے سمجھ سکتا تھا کہ اتنے برس پہلے والی لڑکی سے آپ کو کوئی دلچسپی ہو سکتی ہے۔‘‘
’’نہیں نہیں۔ دلچسپی نہیں۔ وہ تو میں۔۔۔‘‘
’’ٹھیک ہے آپ کو ضرور کسی نے کچھ بتایا ہوگا۔ لیکن جو باتیں میں بتاؤں گا وہ سولہ آنے سچ ہوں گی۔ بہت پہلے کی بات ہے۔ بائیس چوبیس برس پہلے کی بات۔ ہمارے صاحب کو مرے زیادہ مدت نہیں ہوئی تھی۔ میں نے یہی دھندا اس بنگلے میں شروع کر دیا تھا۔ انہیں دنوں ایک نوجوان پٹھان ادھر آ نکلا۔ اس کے ہمراہ ایک بےحد حسین لڑکی تھی، فیروزہ اس کا نام تھا۔ اس نوخیز لڑکی کے حسن کو کیوں کر بیان کروں لفظوں میں تو ایسا کر ناممکن نہیں، وہ تو صاحب! الف لیلہ کی دنیا کی کوئی شہزادی معلوم ہوتی تھی۔‘‘
اتنے میں چائے آ گئی۔ احمد نے چمچہ اٹھایا اور کالے نے اپنی کہانی جاری رکھی۔
وہ دونوں میرے اللہ واسطے کے مہمان بن گئے۔ یہ بات تو ظاہر تھی کہ وہ گھر سے بھاگے ہوئے تھے۔ ایک ہی رات رہنے کے بعد وہ جوان میرے پاس آیا اور میری ہتھیلی پر دس روپے رکھ کر بولا۔ اس لڑکی کو اپنی بییگ سمجھ کر اس کا خیال رکھو۔ میں جا رہا ہوں لیکن دو تین دن تک لوٹ آؤں گا۔ تمہیں انعام دوں گا اور اسے لے جاؤں گا۔
میرے خیال میں وہ روپے کا بندوبست کرنے گیا تھا۔ لیکن دو ہفتے بیت گئے نہ وہ خود آیا نہ کوئی خط لکھا۔ لڑکی آگ پر رکھی ہوئی کلی کے مانند اندر ہی اندر ہی اندر جلتی رہی۔ شب و روز رونے دھونے میں مصروف رہتی۔ میں نے اندازہ لگایا کہ اس کا تعلق کسی بھلے گھر سے ہے۔ میں نے اسے اس کے گھر واپس بھیجنے پر آمادگی ظاہر کی۔ لیکن اس نے تھرا کر انکار کر دیا۔ اسے اپنے ساتھی کی بےوفائی کا بےحد رنج تھا۔‘‘
احمد نے چمچے سے چائے میں شکر ہلاتے ہوئے پوچھا،
’’اچھا تو پھر!‘‘
اسی اثناء میں ہمارے یہاں کالج کا ایک لڑکا آکر ٹھہرا اور صاحب دوسرے ہی دن سے اس لڑکی کی حالت میں تبدیلی پیدا ہو گئی۔ میں فکر مند ہو رہا تھا۔ لیکن معاملے کو اس طرح سلجھتے دیکھ کر میں نے بھی دخل نہیں دیا۔ وہ دونوں شب و روز ایک ساتھ رہتے۔ لیکن آٹھ دس دن کے بعد وہ لڑکا بھی دفعتا غائب ہو گیا۔ اس کے چلے جانے کے بعد جو حالت اس لڑکی کی ہوئی اسے بیان کر میرے لیے ممکن نہیں۔ میں نے ہر ممکن طریقے سے اس کی ڈھارس بندھانے اور اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کی۔ لیکن اس لڑکی کی فطرت کچھ ایسی تیز و تند تھی کہ اس نے ایک نہ سنی۔ وہ نیم پاگل ہو گئی۔‘‘
اتنے میں بنگلے کے بازو والے کمرے کی کھڑکی کھلی اور نئے شادی شدہ نوجوان نے آواز دی۔
’’کالے! کسی لڑکے سے کہو کہ ہمارے کمرے میں چائے لے آئے اور پھر اس کی نوخیز حسین بیوی کا مکھڑا لمحہ بھر کو دکھائی دیا اور معاً کھڑکی بند ہو گئی۔
احمد اور کالے دونوں پر کچھ دیر کے لیے خاموشی طاری ہو گئی۔ تب کالے نے لونڈے کو چائے لے جانے کے لیے کہا۔ احمد کہانی سننے کے لیے بے چین تھا۔ چنانچہ کالے نے پھر کہنا شروع کیا۔
’’ایسی ہی ایک شام تھی۔ ہر طرف کہرا اور دھند۔ دور سے کالی گھٹاؤں میں بادل کی گرج سنائی دے رہی تھی۔ اسی روز نیچے گھاٹی کے گاؤں والوں کو آبشار کے شور میں نسوانی چیخوں کی آواز سنائی دی۔‘‘
احمد کا ہاتھ رک گیا اور چائے کا پیالہ وہیں کا وہیں رہ گیا۔ ’’تمہارا مطلب ہے وہ مر گئی۔‘‘
’’برسات کا موسم تھا۔ نالہ چڑھا ہوا تھا اس لیے اس کے جسم کا کوئی سراغ نہیں ملا۔
اتنے میں بڑے صاحب بھی آ گئے۔ اپنے لمبے نیوی بلیو رنگ کے اوورکوٹ میں وہ بڑے بھلے لگ رہے تھے۔ چھ فت اونچے دروازے سے بھی انہیں جھک کر گزرتا پڑتا۔ کالے نے بیڑی جلا کر دانتوں میں داب لی۔ احمد نے پوچھا، ’’اچھا تو پہلے عاشق صاحب کا پتہ بھی چلا۔‘‘
لڑکی کے مرنے کے دو دن بعد وہ بھی آ گیا۔ بڑا خوش تھا۔ اس نے بتایا کہ حالات نے مجبور کر دیا۔ اس لیے نہ وہ خود آ سکا نہ خط لکھ سکا۔ جب اسے لڑکی کی موت کا پتہ چلا تو وہ میرے سامنے نڈھال سا ہو کر زمین پر بیٹھ گیا۔ دو تین روز تک وہ آبشار کی جانب ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا رہا۔ مجھ سے کالج کے لونڈے کا حلیہ پوچھا اور چھرا بغل میں دبا کر اس کی تلاش میں روانہ ہو گیا۔ کہنے لگا، ’’سارا ہندوستان چھان ماروں گا۔‘‘
احمد بہت متاثر ہوا۔ کالے نے ٹٹو پر سوار ہوتے ہوئے کہا، ’’صاحب، یہ تو مشہور کہانی ہے۔ گاؤں کے بڑے بوڑھے اب تک یہ کہانی خوب مسالے لگا کر بیان کرتے ہیں۔‘‘
’’لیکن جو مسالے تم لگاتے ہو وہ شاید ہی کوئی اور لگاتا ہو۔‘‘ بڑے صاحب نے مسکرا کر کہا۔
’’لیجئے۔ انہیں بھی یہ قصہ سنا چکا ہوں۔‘‘
’’جب سے میں آیا ہوں۔ میں ے دیکھا ہے کہ تم ہر مسافر کو یہ داستان سناتے ہو۔‘‘
اس پر کالے نے ہنس کر ٹٹو کو ایڑ لگائی اور دیر تک اس کے ٹخ ٹخ کرنے کی آواز سنائی دیتی رہی۔
بڑے صاحب نے چائے کا پیالہ بھی ختم کر لیا۔
لیکن احمد اپنے خیالات میں ڈوب سا گیا۔ بڑے صاحب نے پیٹھ پر ہلکی سی تھپکی دے کر کہا۔
’’سیر کو نہیں چلیں گے۔‘‘
’’چلیے۔‘‘
دھند بڑھتی جا رہی تھی۔ پہاڑوں، چٹانوں اور جھاڑیوں کے خطوط بالکل مدھم ہو گئے تھے۔
دونون چپ تھے۔ بالآخر احمد نے مہر سکوت توڑی۔ کس، قدر دردناک سانحہ تھا۔
’’جی ہاں۔‘‘
احمد نے ادھر ادھر دیکھا۔ ’’واقعی وہ لڑکی یکتا تھی۔ اپنے حسن کے لحاظ سے اور اپنے تیز و تند جذبات کے اعتبار سے۔ اس مقام کے ایک ایک پتھر بلکہ ایک ایک ذرے سے اس کی یادیں وابستہ ہیں۔ اس کے تابناک حسن کی دعوت سے کوئی انسان منہ نہیں موڑ سکتا تھا اور نہ اس کے جذبات کی گرمی کا متحمل ہو سکتا تھا اور پھر اس وقت میں ایک معمولی لڑکا ہی تو تھا۔ بس گھبرا گیا۔‘‘
’’آپ۔‘‘ بڑے صاحب نے رک کر پوچھا۔
اس پر احمد نے مردانہ حسن کے اس مجسمے کے رو برو ذراتن کر کھڑے ہوتے ہوئے جواب دیا، ’’جی ہاں، آپ کے اس معمولی غلام ہی سے اس مہہ پارہ کو اس قدر والہانہ محبت ہوئی اور غلام ہی کی محبت کھو کر اس نے جان دے دی۔ مگر چوتھائی صدری گزرنے کو آئی، کالے مجھے پہچانتا بھی تو کیوں کر۔ میں اس لڑکی کو بھول سا گیا۔ لیکن نہ جانے کون سی کشش مجھے یہاں کھینچ لائی۔‘‘
وہ پھر آگے بڑھنے لگے۔ آبشار کی جانب۔وہ چپ تھے۔
رفتہ رفتہ بنگلے کی مرغیوں اور بطخوں کا شور مدھم ہوتا گیا اور آبشار کا شور بڑھتا گیا۔
آبشار کے قریب پہنچ کر وہ رک گئے۔ نیچے گھائی میں ’’دھند ہی دھند تھی۔ آبشار کا پانی کچھ دور تک گرتا دکھائی دیتا تھا۔ اس کے بعد پانی کی سفیدی دھند میں گھل مل جاتی تھی۔‘‘
’’اگر آپ کو اٹھا کر یہیں سے آبشار میں پھینک دیا جائے تو؟‘‘
احمد نے یہ الفاظ سن کر سر اوپر اٹھایا اور ساتھی کی طرف دیکھا۔ بڑے صاحب کے ماتھے پر ایک گہرا بل دکھائی دے رہا تھا۔ اس کی خوبصورت آنکھوں میں آبشار کی سی تیزی اور تندی دکھائی دے رہی تھی۔ احمد کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ اس نے مریل سا قہقہہ لگا کر دوستانہ انداز میں ساتھی کے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔ تو ساتھی نے اپنے مضبوط ہاتھ میں اس کا کمزور ہاتھ مضبوطی سے دبوچ لیا۔
احمد کی پیشانی پر پسینے کی بوندیں پھوٹ نکلیں۔ اس نے دھیمی آواز میں کہا، ’’آج کس قدر سردی ہے۔ میرا خیال ہے کہ واپس جاکر بستر میں گھس جاؤں۔‘‘
اس کی بات کے جواب میں اس کے ساتھی کی گرفت اور مضبوط ہو گئی۔ چند لمحوں کے لیے نہایت بھدی خاموشی طاری رہی۔ پھر بڑے صاحب کی بھاری آواز سنائی دی۔
’’اتنی لمبی مدت کے بعد کالے نے مجھے بھی نہیں پہچانا۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.