Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایوارڈ

محمد ہمایوں

ایوارڈ

محمد ہمایوں

MORE BYمحمد ہمایوں

    دلچسپ معلومات

    "حکومت پاکستان کسی خاص اور قابل قدر شخصیت کو ایوارڈ دینا چاہتی ہے ۔ سن ترپن کے نوازیدہ مملکت خداداد کے معاشرے کے تناظر میں ۔۔۔

    صدیقی صاحب یہ دعوت نامے گنے چنے لوگوں کو بھیجے گئےہیں اور سمجھ میں نہیں آ رہا کہ حکومت کس کو ایواڑد دینا چاہتی ہے۔۔شاید کسی بہت ہی خاص آدمی کو ۔۔۔مزے کی بات یہ کہ اس دوڑ میں آپ بھی شامل ہیں

    یہ سب مجھے نعمت خاں صاحب نے بتایا اور یہ سلسلہ تب شروع ہوا جب سن ترپن کے اواخر میں میرے گھر بذریعہ ڈاک ایک خط موصول ہوا ۔۔ ایک دعوت نامہ ۔۔ایک کارڈ۔۔جسے میں مذاق سمجھ بیٹھا لیکن جیسے مجھ پر بعد میں حقیقت کھلی وہ تو ایک انہونا قسم کا دعوت نامہ تھا۔

    ٹہریئے میں آپ کو اس کہانی کی سب سے دلچسپ بات بتانے سے پہلے یہ بتا تاہوں کہ یہ سب ہوا کیسے۔جب یہ خط آیا تو میں نے کھول کر دیکھا۔ سفید، تقریبا چوکور کارڈ نما سخت کاغذ جس پر لکھا ہوا تھا

    دعوت نامہ

    محترم جناب اور بیگم سعیدصدیقی صاحبہ

    آپ دونوں کو دعوت دی جاتی ہے۔۔۔

    میں نے اس کے بعد کچھ نہیں پڑھا ۔ مغرب کی آذان شروع ہوگئی۔

    میں ، وہ لفافہ ،جو اب کھلا ہوا تھا،کچن میں کھانے کی میز پر چھوڑ کر مسجد چلا گیا۔ واپس آیا تو اسے تقریبا بھول چکا تھا کہ میری بیگم ،جو کچوریاں تل رہی تھیں، میرے پاس گھبرائی ہوئی آئیں

    سنیئے جی !مجھے یہ دعوت نامہ کچن میں پڑا ملا ہے۔ غلطی سے اس پر سالن گر گیا ہے۔ اب پڑھا نہیں جا رہاآپ نے پڑھا ہے؟

    ہاں لیکن تم اتنی حواس باختہ کیوں ہو؟

    آپ نے شاید غور سے نہیں پڑھا ہوگا، اس کو ذرا برقی روشنی میں دیکھیں

    یہ کہتے ہوئے بیگم نے مجھے وہ کارڈ تھما دیا جس کے درمیان میں اب سالن کا دھبہ تھا ۔

    میں نے اسے قمقمےکی زردی مائل سنہری روشنی میں دیکھا تو مجھے کچھ ہیولا سا نظر آیا جسے میں نے عینکیں لگا کر دوبارہ دیکھا تو میری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ اس کاغذ میں پاکستان کے ریاستی علامت کا شائبہ نظر آ رہا تھا۔ میں نے دھڑکتے دل سے اس کاغذ پر ہاتھ پھیرا تو میرا شک یقین میں تبدیل ہوا۔ اس سفید کاغذ کے اندر، جس پر سالن کا دھبہ میرا منہ چڑا رہا تھا، ریاست پاکستان کا مونوگرام ابھرے مہر کی صورت میں موجود تھا۔

    شمسہ بیگم تم بھی کمال کرتی ہو، یعنی اتنے اہم اور خصوصی کاغذ کو لتھیڑ کے رکھ دیا ہے۔ جانتی ہو یہ سرکاری دعوت نامہ ہے، کسی بڑی تقریب کا ہے جس میں ہمیں خاص مہمان کے طور پر بلایا گیا ہے اور آپ نے اسےسالن میں ڈبو دیا۔۔ یعنی اب میں کیا کہوں؟

    ہاں ہاں دیجئے الزام مجھے۔ میں نے ہی تو اسے کچن میں بے دھیانی سے رکھ چھوڑا تھا ۔۔۔

    اچھا ٹھیک ہے اب مجھے اسے پڑھنے دو۔

    پورا دعوت نامہ چار صفحوں کا تھا۔ کارڈ والے حصے کے اندر سالن اتنا سرائیت کر چکا تھا کہ اس کی تحریر اب پڑھنے کے قابل نہیں رہی تھی لیکن چونکہ باقی تین صفحے میز سے نیچے گر گئے تھے اس لئےوہ اس

    کی زد میں نہیں آئے۔

    ان میں ایک پر تقریب کے لباس کے متعلق ہدایات تھیں جو جناح کیپ اور شلوار قمیص تھی اور یا دوسری صورت میں انگریزی لباس یعنی کوٹ پتلون ٹائی سمیت۔ اگلے صفحے پر پارکنگ کے متعلق ہدایات تھیں اور آخری صفحہ نشست و برخاست اور خصوصی طور پر ہال میں کس نشست پر بیٹھنا ہے اس کے متعلق تھا۔

    مونو گرام دیکھ کر یہ تو پتہ چل گیا کہ یہ کسی سرکاری تقریب کا خط ہے لیکن مجھے کوئی کسی اہم سرکاری تقریب میں بیگم سمیت کوئی کیوں بلانے لگا؟ اس سوال کا میرے پاس جواب نہ تھا۔

    آپ اتنی محنت جو کرتے ہیں، اخبار میں کالم لکھتے ہیں اورحکومت پر تنقید کرتے نہیں گھبراتے۔ آخر کو ارباب اختیار کو آپ کی سچائی ۔۔

    شمسہ ایسی بات ہر گز نہیں ہے، مجھ سے بہتر کام کرنے والے بہت ہیں اور جو تنقید میں حکومت پر کرتا ہوں وہ مجھ حکومت ہی پہلے سے لکھ کے دیتی ہے۔۔ میرا مطلب ہے مجھے اس کا معاوضہ ملتا ہے۔۔ یہ مجھے کچھ اور بات لگتی ہے

    اگلے دن میں اپنے دفترگیا اور نعمت خان صاحب کو پوری بات بتا دی۔ وہیں پر سراج الدین صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے ناصحانہ نداز میں بتایا

    یہ ایک اشارہ ہے اور اگر آپ یہ ریاستی مہر دیکھیں۔۔ ذرا مجھے دکھائیں

    انہوں نے کارڈ ہاتھ میں لیا اوران کے لہجے میں طنز عود کر آیا

    اس مہر میں جوٹ کا پودا آپ دیکھ رہے ہیں؟ یہ ہمارے بنگال کی پیداوار ہے جسے مغربی پاکستان کھا رہا

    ہے یعنی ہماری پیداوار، ہمارا کسان اور مزے اڑائے کوئی اور پھر یہ بھی کہے کہ زبان بھی ہماری بولو، یعنی حد ہوتی ہے استعمار کی

    یہ کہ کر وہ کمرے سے باہر چلے گئے اور میں اور نعمت خان صاحب کندھے اچکاتے رہ گئے۔

    یہ سراج الدین صاحب بھی ویسےعجیب آدمی ہیں ۔ کل مجھے کہہ رہے تھے کہ سارا ملک آپ پنجابیوں کی وجہ سے تباہ ہورہا ہے اور یہ ملک کی سالمیت کے لئے اچھی بات نہیں۔ میں نے اسے بتایا بھائی میں پنجابی نہیں ہوں اور دوسری بات جتنے بنگالی پس رہے ہیں اتنے ہی پنجابی، پٹھان ، سندھی ہم مہاجر اور باقی سب پس رہے ہیں۔ یہ بنگالی اور پنجابی کی بات ہی نہیں ہے مسئلہ کہیں اور ہے لیکن انہوں نے میری ایک بھی نہیں سنی۔۔ اپنی ہی سناتے رہے۔۔ خیر آپ کا مسئلہ بھی عجیب ہے

    پھر جیسے چونک سے گئے اور مسکرائے

    قبلہ صدیقی صاحب! لگتا ہے آپ کی لاٹری لگ گئی ہے، ایک بیگھہ زمین اور سرکاری مراعات الگ

    یہ کہتے ہوئے انہوں نے اس کارڈ نما کاغذ کو ہوا میں جھنڈے کی طرح لہرایا

    وہ کیسے نعمت بھائی، سمجھ نہیں آئی بات

    یزدانی صاحب، جن کو بھی آپ کی طرح ایک خط موصول ہوا ہے ، کل کہہ رہے تھے حکومت ایک خاص تقریب میں کسی بہت ہی خاص شخص کو کوئی ایوارڈ دینا چاہتی ہے، ایسا شخص جس کا کام بہت ہی نمایاں طور پر قابل ذکر ہو اور اس کے ساتھ یہ مراعات بھی

    میں نے یہ سنا تو دل کی دھڑکن تیز ہوگئی لیکن پھر سوچا یہ ایوارڈ تو مجھے ملناہی نہیں کیونکہ میں بھلا کیسے خاص آدمی ہو سکتا ہوں۔ملک میں اتنے بڑے لوگ موجود ہیں جن کا نام آسمان میں ستاروں کی طرح

    روشن ہے۔ میں نے بھلا چھ سال پہلے بنے اس نئے اسلامی ملک کے لئے کیا کیا ہے؟

    شام کو میں، نعمانی صاحب، رفیقی صاحب ، فاروقی صاحب ، نقوی بھائی اور نعمت خاں صاحب مل بیٹھے اور اندازے لگانا شروع کئے۔

    صدیقی صاحب یہ دعوت نامے گنے چنے لوگوں کو بھیجے گئےہیں اور سمجھ میں نہیں آ رہا کہ حکومت کس کو ایواڑد دینا چاہتی ہے۔۔شایدکسی بہت ہی خاص آدمی کو ۔۔اس دوڑ میں آپ بھی شامل ہیں

    آپ بڑے ادیب ہیں ، عین ممکن ہے قرعہ آپ کے نام نکلے

    قرعہ میرے نام بھلا کیوں نکلنے لگا مجھ سے ہزار درجہ بڑے لکھنے والےاس میدان میں موجود ہیں جیسے فیض صاحب، قاسمی صاحب، ابن انشاء صاحب ۔۔ میں تو ان کے قدموں کی خاک۔۔۔

    فیض صاحب کو تو آپ چھوڑ ہی دیجئے گا ، روالپنڈی سازش کیس میں زیر عتاب ہیں آج کل۔سنا ہے منٹگمری جیل میں ہیں۔ شاعری اچھی کرتے ہیں لیکن جنرل اکبر اور سجاد ظہیر کے بہکا وے میں آ کر خوامخوا سیاست میں کود پڑے۔ سنا ہے کوئی کمیونسٹ انقلاب لانا چاہتے تھے کفر کا۔۔ لیکن۔۔

    نہیں صاحب شریف آدمی ہیں وہ ، کافر وافر نہیں ہیں ۔۔ بیچارے مفت میں دھر لئے گئے۔ ویسے مجھ سے پوچھیں تو میرا خیال ہے یہ ایوارڈ منٹو صاحب کو ملے گا؟

    منٹو ؟ نہیں بھائی وہ تو ایک فحش نگا ر ہے۔۔ عدالتوں سے سزا یافتہ فحش نگار۔۔ یہ ایک اسلامی ریاست ہے بھائی، اسلام کے نام پر بنی ہے، میرا نہیں خیال ایسے لچر اور بیہودہ لکھاری کو ، جسے اردو بھی لکھنا نہیں آتی ادیب بھی کہنا چاہیئے ۔۔۔ زبان تو ٹکسالی ہے ہی نہیں سالے کی، کشمیری جو ہوا ۔۔ ایسے کسی بھی شخص کو یہ ایوارڈ نہیں ملنا چاہئے۔۔ اور نہ ہی ملے گا انشاءاللہ

    یہ کہہ کر فاروقی صاحب نے اپنی اچکن جھاڑی اور اٹھ کر چلے گئے

    وہ فحش نگار ہیں یا نہیں وہ الگ بات ہے لیکن وہ سزا یافتہ ہرگزنہیں ۔۔ بری ہو گئے تھے اور ان کی اردو اچھی کاصہ ٹکسالی ہے۔۔ ہم اہل زبانوں سے کہیں بہتر۔۔ ریکارڈ کی درستگی کے لئے کہہ دوں۔

    لیکن سنا ہےان کی صحت رو بہ تنزل ہے۔ جگر کا کوئی عارضہ ہے ان کو ۔ عام خیال ہے کہ کثرت شراب نوشی سے ان کی یہ حالت ہوئی ہے۔ حقیقت اللہ کو معلوم۔۔ ان کو ایوارڈ ملے کچھ علاج معالجہ ہو تو ہماری زبان کا یہ تابندہ ستارہ زندہ رہے۔ خاصی کسمپرسی میں ہیں ویسے ۔

    ارے بہتان باندھا ہے لوگوں نے ۔۔ شرابی ہے۔۔ ہنہ۔۔کچھ بھی کہہ دیتے ہیں۔۔ ارے ان مور وملخ قسم کے لوگوں کو کیا علم کہ ادب کی کیا تعریف ہے، زبان کی باریکیاں کیا ہوتی ہیں، افسانہ کس بلا کا نام ہے، پلاٹ سے کیا مراد ہےاور کلائمکس ۔۔۔ ان سالوں کو تو جہاں بھی کوئی بھلا آدمی اردو کی خدمت کرنے ولا ملے ، اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہیں۔

    درست کہا آپ نے ۔ اپنی دلی کے خواجہ ناظم الدین صاحب کو ہی دیکھ لیں ، انہوں نے یہ بات بنگالیوں کے سامنے بر ملا کہی

    حضرت قائد اعظم نے فرمایا ہے کہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہوگی تو صرف یہی ہی پاکستان کی زبان ہوگی

    پھر اپنے عینک کی کمانی درست کرتے ہوئے کہا

    یہ انہوں نے کہہ تو دیا صاحب لیکن ہنگامے پھوٹ پڑے۔ گورنر جرنل صاحب بہادر کو بہانہ مل گیا۔ ان کو گھر بھیج دیا ۔ ایسےدیتے ہیں لوگ اپنی مادری زبان کے لئے قربانی ۔ خیر

    نعمانی صاحب آپ بھی کمال کرتے ہیں ۔ آپ کو کس نے بتایا ہے کہ خواجہ صاحب دلی کے ہیں؟ ساڑھے چھ سو سال قبل جناب خواجہ نظام الدین اولیا دلی کے ضرور تھے لیکن سابق وزیر اعظم ناظم الدین۔۔ ان کا نام ناظم الدین ہے نظام الدین نہیں ۔۔ ہاں وہ بنگالی آدمی ہیں ۔ اب اگلی سنیں ان کو اردو سے محبت وغیرہ کوئی نہیں۔۔ یہ سب سیاسی داو پیچ ہیں۔۔ اچھا ہوا وہ گھر بھیج دیئے گئے ورنہ پورا ملک فسادیوں نے یرغمال بنا رکھا تھا

    ہاں یہ سب سیاستدان اپنے مطلب ہی کی بات کرتے ہیں۔ اڑتی اڑتی سنی ہے کہ لاہور سے آگے روالپنڈی میں یا شاید پشاور میں نیا دارلخلافہ بنانے کا ارادہ ہے ان سیاستدانوں کا ۔۔ لگتا ہے وہاں سرکاری زمین پر پلاٹوں کی بندر بانٹ ہوگی۔ نتیجہ یہ کہ کراچی اب ایک عام سا شہر بن جائے گا

    یہ بھلی کہی آپ نے، یعنی کسی کو بجلی کا بل بھرنا ہے اور وہ سہلٹ میں ہے تو اسے پشاور جانا پڑے گا؟

    نہیں نہیں ایسا کوئی ارادہ نہیں کسی کا، کراچی بابائے قوم کا دارخلافہ ہے اور انشا اللہ تا ابدپاکستان کا دارلحکومت رہے گا۔۔ ہر اڑتی بات پر یقین نہیں کرتے ہوتے

    میں گھر واپس آیا تو میرے برادر نسبتی ، جو جماعت کے خاصے سر گرم رکن تھے، اس دعوت نامے کو غور سے دیکھ رہےتھے ۔ جماعت نئی نئی انتخابی سیاست میں کود چکی تھی اور اس وجہ سے اس کے تنظیمی ڈھانچےمیں دراڑیں بھی پڑ چکی تھی لیکن پھر بھی کراچی کی خاصی مقبول عام سیاسی قوت تھی۔ مجھے ایک طرح سے کوفت سی ہوئی کہ میری بیگم نے یہ دعوت نامہ اپنے بھائی کو کیوں دکھایا۔

    محمود بھائی میرا خیال ہے یہ ایوارڈ مودودی صاحب کو ملے گا۔ ان سے ذیادہ خدمات بھلا کس نے دیں ہونگیں اسلام اور پاکستان کے لئے

    وہ جیل میں نہیں آج کل ؟ سنا ہے سزائے موت کا مقدمہ چل رہا ہے ان پر

    اگلے چند دن تک یہ بحث البتہ ہوتی رہی کہ ایوارڈ کا اصل حقدار کون ہے۔ ایک نام سہروردی صاحب کا بھی آیا لیکن ان کے بھی سیاسی نظریات کچھ عجیب سے تھے۔ ایک خیال یہ بھی پیش ہوا کہ یہ ایوارڈ فضل محمود صاحب کو ملے گا جو کرکٹ کے درخشاں ستارے تھے۔

    ارے نہیں کرکٹ گوروں کا کھیل ہے۔میں تو کہتا ہوں یہ ایوارڈ خاں صاحب لیاقت علی خاں کوملے گا، وہ ملک کے لئے شہید ہوئے ہیں اور امام کے راستے پر چل کر تا ابد زندہ رہیں گے

    وہ ٹھیک ہے نقوی بھائی لیکن یہ ایواڈ پس از مرگ یا شہادت پانے والوں کے لئے نہیں۔ نوبل انعام کی طرح وصول کنندہ کا بقید حیات ہونا ضروری ہے۔۔ اس ایوارڈ کے لئے

    آپ لوگ مانیں یا نہ مانیں یہ ایوارڈ اس جرنل کو ملے گا، بھلا سا نام ہے۔۔ہاں جرنل گریسی ۔ ۔ ہم آزاد ضرور ہیں لیکن جرنل صاحب گورے ہیں جو بہرحال ہم سے ذیادہ آزاد ہیں ۔ ا فسوس ہمارے دلوں سے خوئے غلامی نہیں گئی۔۔۔ مانو یا نہ مانو یہی ہوگا

    ارے نہیں اس کو نہیں ملنے لگا یہ ایوارڈ۔ سنا ہے وصول کنندہ کا پاکستانی شہری ہونا ضروری ہے۔ اس گورے سالے نے تو منہ پر حضرت قائد اعظم کی حکم عدولی کی تھی، اس کو بھلا تمغہ کیوں ملنے لگا؟ آپ بھی بس۔۔۔

    صاحب کسی بات پر اتفاق نہ ہوسکا۔۔آخر میں ہم نے مل کر جو اندازہ لگایا وہ یہ تھا کہ آدمی ملک کے لئے بہت ہی اہم ہوگا تو ہی اس خاص ایوارڈکا انتظام کیا گیا ہے

    تین ہفتے بعد یہ بات ڈھکی چھپی نہ رہی اور تمام نامیدہ لوگوں کی لسٹ ایک سرکلر کے زریعے ہمارے آفس میں آگئ۔ چونکہ اس سرکلر پر انگریزی میں ریسٹرکٹڈ لکھا ہوا تھا تو صرف نعمانی صاحب ہی اس کے پڑھنے کے مجاز تھے۔ انہوں نے اس کے مندرجات با وآز بلند پڑھنا شروع کئے تو میں نے ان کو انتہائی مودبانہ طریقے سے روکا

    اس جدول پر محدود اطلاعات کا اطلاق ہوتا ہے اور اس کو یوں افشا کرنا آفیشل سیکرٹ ایکٹ سن تئیس کی خلاف ورزی ہوگی۔

    ارے تو میں کونسے نام پڑھ ہا ہوں بھائی ۔صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کل ملا کر تئیس لوگ مغربی اور دو لوگ مشرقی پاکستان سے منتخب ہوئے ہیں۔۔ کل ملا کر پورے پچیس۔ دوسری بات یہ کہ سارے نام لکھے بھی نہیں گئے ہیں۔ چار جگہ صرف لفظ موصوف لکھا گیا ہے

    موصوف؟ یہ بھلا کیا بات ہوئی؟

    ارے یہ حکومت کا ایک ہتھکنڈہ ہے۔ آخری وقت میں کسی کو اس لسٹ میں داخل کروانا ہو تو اس کا نام موصوف کی جگہ ڈال دیتے ہیں

    پھر میری طرف دیکھا

    جناب سعید صدیقی صاحب آپ کا نام ویسے چوتھے نمبر پر ہے۔۔ صرف اطلاع کی غرض سے بتایا

    پچیس لوگوں میں اپنا نام چوتھے نمبر پر دیکھا تو میرا سینہ فخر سے پھول گیا اور خوشی کے مارے میرا چہرہ تمتمانے لگا۔ میں نے ان سے اب انتہائی احترام سے پوچھا۔

    کچھ یہ بتا سکتے ہیں آپ کہ کس قبیل کے لوگ ہیں اس ایوارڈ کے لئے؟

    چونکہ ان پر محدود اطلاعات کا اطلاق ہوتا ہے یہ تو میں نہیں بتا سکتا لیکن تقریب کا انعقاد کے-ایم-سی بلڈنگ میں کیا گیا ہے۔

    تقریب والے دن تک اس بات کا فیصلہ نہ ہوسکا کہ میں پاکستانی شلوار قمیص اور شیروانی پہنوں یا انگریزی لباس زیب تن کروں۔

    میرے برادر نسبتی نے مجھے مشورہ دیا۔

    دیکھئے محمود بھائی یہ ایوارڈ پاکستانیوں کا ہے اس لئے ہمیں قومی لباس پہننا چاہیئے، اپنا تشخص برقرار رکھنا چاہیئے ۔ ہمشیرہ ساڑھی پر مصر ہیں ۔۔آپ ہی کہہ دیجیئے کہ ساڑھی ہندوں کا لباس ہے، اسے ترک ہی کر دیں اور جلباب پہن لیں یا بکل ماریں۔۔ میری تو سنتی نہیں

    آپ کی ہمشیرہ محترمہ ویسےمیری بھی نہیں سنتی

    میری بیگم نے سنی ان سنی کی اور اپنی بھابھی کو بتانے لگیں

    میں تو جارجٹ کی ساڑھی پہنوں گی اور ساتھ میں میچنگ جوتے اور یہ نیکلس

    ہاں شمسہ پسند پسند کی بات ہے ۔۔ ویسےاس کا بلاوز بہت تنگ ہے لیکن بہت ہی جچتی ہے آپ کےاوپر۔۔ بالکل ایسے لگتی ہیں آپ ۔۔جیسے۔۔ سنگدل میں مدھو بالا۔

    میں نے بیچ میں لقمہ دیا

    شمسہ بیگم آپ دائیں بائیں سے ذرا سن گن لیں کہ فلمی زندگی سے باہر باقی بیگمات کا پہناوہ کیا ہے۔ ایسا نہ ہو جسے ہم قابل ستائش سمجھیں ہمارے لئے مصیبت بن جائے

    آپ رہنے ہی دیجئے میں وہی پہنوں گی جو میرے جی کو بھائے

    گھر سے نکلنے کا وقت ساڑھے چار بجے طے ہوا تھا اور ہوتے ہوتے چھ بج گئے۔ شمسہ نے اپنے ساڑھی

    کے انتخاب میں دس مرتبہ سوچا، کچھ کو پہن کر اتاراور آخر کار جارجٹ کی وہی ساڑھی پہنی جس کی چولی بہت تنگ تھی

    شام کو ہم نے ٹیکسی منگوائی اور اس میں بیٹھ کر ے-ایم-سی بلڈنگ کی طرف سفر شروع کیا۔ ہم وہاں آدھا گھنٹہ تاخیر سے پہنچے لیکن تقریب ابھی تک شروع نہیں ہوئی تھی کیونکہ گورنر جنرل صاحب ابھی تک نہیں آئے تھے۔ ہم سب اندر ہال میں جا کر بیٹھ گئے۔

    اندر گھپ اندھیرا تھا ، ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہ دے۔ لڑکھڑاتے ہوئے نشستیں ٹٹولتے ٹٹولتے اپنے لئے مختص نشستوں پر بیٹھ گئے اور ہمارے حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ہمارئ پہلو ہی میں یزدانی صاحب اور ان کی بیگم بیٹھی ہوئیں تھیں۔

    گھنٹہ اور انتظار ہوا اور پھر گورنر جنرل صاحب کی بجائے ان کا ایک نمائندہ تشریف لایا۔ہال پاکستان کےقومی ترانے سے گونج اٹھا۔ ہم سب احتراما کھڑے ہوگئے۔ میرے ذہن میں ایک خیال سرعت سے کوندامیں نے یزدانی صاحب سے آہستہ آواز میں کہا

    کہیں یہ ایواڑد جالندھری صاحب کو تو نہیں دینے لگے؟ سنا ہے جہاد کشمیر میں فوج کے شانہ بشانہ لڑے اور گولی بھی کھائی

    ارے نہیں بھائی قومی ترانے کے علاوہ ان کا کوئی دوسرا امتیازی وصف نہیں ہے۔ میرا خیال ہے اگر قومی ترانے پر ایوارڈ ملنے لگے تو پھر تو چھاگلہ صاحب ہی حقدار ٹہریں گےجنہوں نے دھن بنائی ہے

    میں نے سرگوشی سے انہیں بتایا

    وہ امسال فروری میں فوت ہو چکے ہیں ، شاید آپ کے علم میں یہ بات نہیں

    یکایک خاموشی چھا گئی اور سٹیج پر موجود ایک صاحب نے گورنر جنرل کو ان کی غیر موجودگی میں انگریزی میں خراج تحسین پیش کیا اور پھر ایک اور صاحب اردو میں تقریر کرنے لگے

    خواتین و حضرات آپ کو خوش آمدید ۔ اس ایوارڈ کا مقصد اس ہر دل عزیزشخصیت کا انتخاب ہے جس نے پاکستان اور پاکستانی عوام کے لئے سب سے زیادہ قربانی دی۔ ۔سیاستدانوں کو سیاست سکھائی اور اردوزبان اور لکھنے والوں کو جلا بخشی کہ صرف ان ہی کی وجہ سے اس ملک میں اردوکو پذیرائی ملی۔ ۔ کچھ لوگ کہتے ہیں ان کی وجہ سے فحاشی کو ترویج ملی لیکن ایسا نہیں ہے۔۔ لاہور سے متعلق اس شخصیت نے بلا شبہ اسلام کا نام روشن کیا۔ ۔ اس ملک میں لباس ، زبان کی درستگی اور اٹھنے بیٹھنے تک کا سلیقہ اسی شخصیت کا مرہون منت ہے۔ دل تھام کے بیٹھیں ۔۔ راس کماری سے خیبر تک مقبول اس شخصیت کا انتخاب محترم گورنر جنرل صاحب نے خود کیا

    میرے دماغ میں یکایک بجلی سی کوند گئی اور ایک ہی نام ذہن میں آیا

    سعادت حسن منٹو

    اب مجھے اپنے ایوارڈ نہ ملنے کا کوئی غم نہ تھا اور میری نظریں اس اندھیرے میں ڈوبے ہال میں اس عظیم ادیب کی تلاش میں سرگرداں تھیں جنہوں نے اردو زبان کو جلا بخشی اور جو باوجود اپنی علالت کے کراچی آئے تھے۔

    پردہ ہٹا

    یکایک سٹیج پر مس الف نموردار ہوئیں جو لاہور کی ایک طوایف زادی تھیں لیکن اب فلمی دنیا کا درخشندہ ستارہ تھیں ، جہان کا سرور تھیں اور عوام کے دلوں کی دھڑکن تھیں ۔ موصوفہ کے گلے میں سوز تھا، سیاستدانوں کو سیاست سکھاتی تھیں، اور کچھ بہت ہی کھلے اسلامی ذہن کی مالک تھیں اور صرف اسی کے لئے گانے لکھنے والے قلم کار اردو زبان کو مسلسل جلا بخش رہے تھے ۔

    لوگوں نے ،جو اب تک سانسیں روک کر خاموش بیٹھے تھے تالیں پیٹ پیٹ کر ان آسمان سر پراٹھا لیا۔ مس الف گجراتی طرز پر بندھی بغیر آستینوں کے تنگ اور چمکیلی ساڑھی میں ملبوس تھیں جس میں ان کا انگ انگ نمایاں تھا ۔ لہراتے ہوئے ، ایک ادا سے زرا جھک کر انہوں نےایوارڈ وصول کیا

    ایوارڈ ان کو دیا گیا تو میں نے اپنی بیگم کی طرف دیکھا جس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا

    اس اچھال چھکے کو ایوارڈ دے رہی ہے حکومت ؟

    مجھے بھی حیرت ہے یہ یہ ایوارڈ اس چھنال نے اچک لیا ؟۔ا رے میں کہتی ہوں یہ قوم ہے ہی اسی لائق کہ اس بیسوا کو ایواڑد دے، نہیں چاہیئے ہمیں ایسا ایوارڈ۔ شکر ہے اللہ نے ہماری عزت رکھی

    بیگم یزدانی نے دانت پیستے ہوئے کہا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے