بابا کی تعریف
کہانی کی کہانی
افسانہ سماج اور خاندان میں بابا کے ہونے کی اہمیت کو بیان کرتا ہے۔ بابا وہ لوگ ہوتے ہیں، جو دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ بابا ہونے کے لیے ضروری نہیں کہ آپ سڑکوں پر پھریں، یا گیروا اور ہرا کپڑا پہن کر مانگنے کھانے کے لیے نکل جائیں۔ ایک عام شخص بھی بابا ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے مصنف نے اپنے کالج کے زمانے کے ایک دوست کا ذکر کیا ہے، جس نے اس دور میں کئی مصیبت زدہ لوگوں کی بنا کسی غرض کے مدد کی تھی اور ان لوگوں نے اسے جی بھر کر دعاؤں سے نوازا تھا۔
ہم زاویہ کے بیشتر پروگراموں میں بابوں کی بات کرتے ہیں، اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ بابوں کی Definition سے یا ان کی تعریف سے ہیئت ترکیبی سے آپ یقیناً بہت اچھی طرح واقف ہوں گے، لین میرا یہ اندازہ بالکل صحیح نہیں تھا۔ اب میں آپ کی خدمت میں یہ عرض کروں اور اس کی ایک چھوٹی سی تعریف بھی کروں، بابا کی۔
بابا وہ شخص ہوتا ہے جو دوسرے انسان کو آسانی عطا کرے، یہ اس کی تعریف ہے۔ آپ کے ذہن میں یہ آتا ہوگا کہ بابا ایک بھاری فقیر ہے۔ اس نے سبز رنگ کا کرتا پہنا ہوا ہے۔ گلے میں منکوں کی مالا ہے۔ ہاتھ میں اس کے لوگوں کو سزا دینے کا تازیانہ پکڑا ہوا ہے اور آنکھوں میں سرخ رنگ کا سرمہ ڈالا ہے۔ بس اتنی سی بات تھی۔ ایک تھری پیس سوٹ پہنے ہوئے اعلی درجے کی سرخ رنگ کی ٹائی لگائی ہے۔ بیچ میں سونے کا پن لگائے ہوئے ایک بہت اعلی درجے کا بابا ہوتا ہے۔ اس میں جنس کی بھی قید نہیں ہے۔ مرد عورت، بچہ، بوڑھا، ادھیڑ نوجوان یہ سب لوگ کبھی نہ کبھی اپنے وقت میں بابے ہوتے ہیں اور ہو گزرتے ہیں۔ لمحاتی طور پر ایک دفعہ کچھ آسانی عطا کرنے کا کام کیا اور کچھ مستقلاً اختیار کر لیتے ہیں اس شیوے کو اور ہم ان کا بڑا احترام کرتے ہیں۔ میری زندگی میں بابے آئے ہیں اور میں حیران ہوتا تھا کہ یہ لوگوں کو آسانی عطا کرنے کا فن کس خوبی سے کس سلیقے سے جانتے ہیں۔ میری یہ حسرت ہی رہی۔ میں اس عمر کو پہنچ گیا۔ میں اپنی طرف سے کسی کو نہ آسانی عطا کر سکا، نہ دے سکا اور مجھے ڈر لگتا ہے کہ نہ ہی آئندہ کبھی اس کی توقع ہے۔
جب ہم تھرڈایئر میں تھے تو کرپال سنگھ ہمارا ساتھی تھا۔ ہم اس کو کرپالا سنگھ کہتے تھے۔ بیچارہ ایسا ہی آدمی تھا جیسے ایک پنجابی فوک گانے والا ہوتا ہے۔ لال رنگ کا لباس پہن کے بہت ٹیڑھا ہو کے گایا کرتا ہے۔ ایک روز ہم لاہور کے بازار انارکلی میں جا رہے تھے تو سٹیشنری کی دکانوں کے آگے ایک فقیر تھا۔ اس نے کہا بابا اللہ کے نام پر کچھ دے تو میں نے کوئی توجہ نہیں دی۔ پھر اس نے کرپال سنگھ کو مخاطب کرکے کہا کہ اے بابا سائیں کچھ دے۔ تو کہنے لگا کہ بھاجی اس وقت کچھ ہے نہیں اور اس کے پاس واقعی نہیں تھا۔ تو فقیر نے بجائے اس سے کچھ لینے کے بھاگ کر اس کو اپنے بازوؤں میں لے لیا اور گھٹ کے چبھی (معانقہ) ڈال لی۔ کہنے لگا، ساری دنیا کے خزانے مجھ کو دیے، سب کچھ تو نے لٹا دیا۔ تیرے پاس سب کچھ ہے۔ تو نے مجھے بھاجی کہہ دیا۔ میں ترسا ہوا تھا اس لفظ سے۔ مجھے آج کسی نے بھا جی نہیں کہا۔ اب اس کے بعد کسی چیز کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
ان دنوں ہم سارے ہوسٹل کے لڑکے چوری چھپے سینما دیکھنے جاتے تھے۔ تو لاہور بھاٹی کے باہر ایک تھیٹر تھا اس میں فلمیں لگتی تھیں۔ میں ارواند، غلام مصطفٰی، کرپال یہ سب۔ ہم گیے سینما دیکھنے، رات کو لوٹے تو انار کلی میں بڑی یخ بستہ سردی تھی، یعنی وہ کرسمس کے قریب کے ایام تھے سردی بہت تھی۔ سردی کے اس عالم میں کہرا بھی چھایا ہوا تھا۔ ایک دکان کے تختے پر پھٹا جو ہوتا ہے، ایک دردناک آواز آ رہی تھی ایک بڑھیا کی۔ وہ رو رہی تھی اور کراہ رہی تھی اور بار بار یہ کہے جا رہی تھی کہ ارے میری بہوتجھے بھگوان سمیٹے تو مر جائے نی، مجھے ڈال گئی، وہ بہو اور بیٹا اس کو گھر سے نکال کے ایک دکان کے پھٹے پر چھوڑ گیے تھے۔ وہ دکان تھی جگت سنگھ کواترا کی جو بعد میں بہت معروف ہوئے۔ ان کی ایک عزیزہ تھی امرتا پرتیم، جو بہت اچھی شاعرہ بنی۔ وہ خیر اس کو اس دکان پر پھینک گیے تھے۔ وہاں پر وہ لیٹی چیخ و پکار کر رہی تھی۔ ہم سب نے کھڑے ہو کر تقریر شروع کی کہ دیکھو کتنا ظالم سماج ہے، کتنے ظالم لوگ ہیں۔ اس غریب بڑھیا بیچاری کو یہاں سردی میں ڈال گیے۔ اس کا آخری وقت ہے۔
وہاں اروند نے بڑی تقریر کی کہ جب تک انگریز ہمارے اوپر حکمران رہےگا اور ملک کو سوراج نہیں ملےگا ایسے غریبوں کی ایسی حالت رہےگی۔ پھر وہ کہتے حکومت کو کچھ کرنا چاہیے۔ پھر کہتے ہیں اناتھ آشرم (کفالت خانے، مقیم خانے) جو ہیں وہ کچھ نہیں کرتے۔ ہم یہاں کیا کریں۔ تو وہ کرپال سنگھ وہاں سے غائب ہو گیا۔ ہم نے کہا، پیچھے رہ گیا یا پتا نہیں کہاں رہ گیا ہے۔ تو ابھی ہم تقریریں کر رہے تھے۔ اس بڑھیا کے پاس کھڑے ہو کے کہ وہ بایئسکل کے اوپر آیا بالکل پسینہ پسینہ سردیوں میں، فق ہوا، سانس اوپر نیچے لیتا آ گیا۔ اس کے ہوسٹل کے کمرے میں چارپائی کے آگے ایک پرانا کمبل ہوتا تھا جو اس کے والد کبھی گھوڑے پر دیا کرتے ہوں گے۔ وہ ساہیوال کے بیدی تھے۔ تو وہ بچھا کے نا اس کے اوپر بیٹھ کر پڑھتے وڑھتے تھے۔ بدبودار گھوڑے کو کمبل جسے وہ اپنی چارپائی سے کھینچ کر لے آیا بایئسکل پر اور لا کر اس نے بڑھیا کے اوپر ڈال دیا اور وہ اس کو دعائیں دیتی رہی۔ اس کو نہیں آتا تھا وہ طریقہ کہ کس طرح تقریر کی جاتی ہے۔ فنِ تقریر سے ناواقف تھا۔ بابا نور والے کہا کرتے تھے انسان کا کام ہے دوسروں کو آسانی دینا۔ آپ کا کوئی دوست تھانے پہنچے اور وہ تھانے سے آپ کو ٹیلی فون کرے کہ میں تھانے میں آ گیا ہوں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.