Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بند مٹھی میں جگنو

منشایاد

بند مٹھی میں جگنو

منشایاد

MORE BYمنشایاد

    کہانی کی کہانی

    افسانہ ایک ایسی لڑکی کے داستان کو بیان کرتا ہے جو زندگی کی تنہائی سے بیزار ہو گئی ہے۔ یکبارگی اسے پڑوس میں عورتوں کے لڑنے کی آواز سنائی دیتی ہے اور وہ اسے دیکھنے چھت پر چلی جاتی ہے۔ اس جھگڑے کو دیکھ کر جب وہ چھت سے اترتی ہے تو اسے زندگی بند مٹھی میں جگنو کی طرح نظر آنے لگتی ہے۔

    جب پڑوس میں عورتوں کی لڑائی شروع ہوئی وہ گھر میں اکیلی تھی۔ وہ شہر سے اپنے ساتھ کوئی کتاب یا رسالہ نہیں لائی تھی۔ وہ کتابوں اور رسالوں سے اکتا گئی تھی۔ لیکن وہ شریف کی آٹھویں جماعت کی پھٹی پرانی کتابوں کو صبح سے کئی بار جھاڑ پونچھ چکی تھی۔

    شریف اور ببلو صبح سے شریفاں کو لینے چچا کے گاؤں گئے ہوئے تھے۔ لیکن اسے گھر کی ہر چیز سے شریفاں کے بدن کی خوشبو آ رہی تھی۔ شریفاں گھر میں نہیں تھی لیکن لگتا تھا ہر جگہ ہر چیز میں موجود ہے اور وہ؟ وہ موجود تھی لیکن یوں لگتا تھا جیسے کہیں نہیں ہے۔

    تھوڑی دیر پہلے، کھیتوں کو روٹی لے کر جاتے وقت، پھوپھی اس پر تنہائی کا ٹوکرا رکھ گئی تھی۔ اگر پڑوس میں عورتوں کی لڑائی شروع نہ ہوتی تو اسے خود کو بار بار ٹٹول کر دیکھنا پڑتا کہ وہ ہے یا نہیں ہے۔

    تنہائی کے ٹوکرے کے نیچے پڑے پڑے اسے بدبو کے بھبوکوں نے گھیر لیا تھا کہ پڑوس کے آنگن میں بادل سے گرجے اور چپ کے کھڑے پانیوں میں آوازوں کے پرنالے گرنے لگے۔

    یہ جولائی کے آخری دن تھے۔

    سچ مچ کے بادلوں اور اصلی دھوپ میں آنکھ مچولی ہو رہی تھی۔ سورج لمبی لمبی زبانیں نکال کر سرمئی بادلوں کے نحیف جسموں سے نمی چاٹ رہا تھا۔

    بچپن میں اس کا خیال تھا کہ آسمان پر ہزاروں لاکھوں سورج ہیں اور ہر روز نیا سورج طلوع ہوتا ہے۔ وہ ایک عرصہ تک یہی سمجھتی رہی کہ ہر شام ایک سورج بجھ جاتا ہے اور اگلی صبح ویسا ہی یا موسم کے لحاظ سے چھوٹا بڑا سورج طلوع ہو جاتا ہے۔ اسے سارے سورج اچھے لگتے تھے۔ زندہ اور دہکتے ہوئے بھی اور بجھ کر ڈوب جانے والے بھی۔۔۔ شاید ان بجھے ہوئے ٹوٹے پھوٹے سورجوں کے ڈھیر سے بھی اکثر کار آمد ٹکڑے مل جاتے تھے جنہیں فرشتے چمکا کر راتوں کو چاند کے روپ میں طلوع کر دیتے تھے۔ مگر اب اسے پتہ تھا کہ ایک ہی پرانا سورج اور ایک ہی تھکا ہارا چاند ہر روز استعمال ہوتے ہیں۔

    پرانی چیزوں سے اس کا جی اُوب گیا تھا۔

    تازگی کا عالم گیر قحط پڑا ہوا تھا۔ ہر صبح بوسیدگی کی دبلی گائیں تازگی کی فربہ گایوں کو ہڑپ کر جاتی تھیں۔

    تازگی کو سورج کی شعاعوں سے بچا کر فریج میں کئی کئی دن تک رکھا جاتا تھا۔ تازگی آٹھ آٹھ دن کی مری ہوئی مچھلیوں کی صورت بکتی تھی۔ جسموں کی بوسیدگی کو ڈھانپنے کے لئے نئے فیشن رائج ہوتے تھے اور آؤٹ آف ڈیٹ نظریات پر لفظوں کا ملمع چڑھایا جاتا تھا۔

    ٹیلی ویژن اور فلموں کی نقلی لڑائیاں، سنے سنائے لطیفوں کی طرح بور لگتی تھی۔ گاؤں کی عورتوں کی لڑائی میں اور جینلٹی کا تصور کر کے اس نے اپنے آپ کو چپ کے ٹوکرے سے نکالا اور ایک ایک کر کے سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ بڑے گھمسان کا رن پڑا تھا۔

    آوازوں کے ہوائی گولے فضا میں دور دور جا کر پھٹنے لگے تھے۔

    ٹھاہ۔۔۔ ٹھاہ۔۔۔ ٹھاہ۔۔۔

    وہ آخری سیڑھی پر بیٹھ گئی۔ اس نے اطمینان کا لمبا سانس لیا۔ اسے آزادی اور تازگی کا احساس ہونے لگا اور جی چاہنے لگا کہ وہ مرغیوں کے ڈربے پر کھڑی ہو کر ان دور افتادہ لوگوں کو آواز دے جو اپنے اپنے انڈوں میں زندہ چوزوں کی طرح باہر نکلنے کے لیے ٹھونگے مار رہے تھے۔

    لڑنے والیوں کے چہروں پر آگ کے شعلے تھے، نفرت کے مکروہ جالے نہیں تھے۔ ان کی آوازوں میں بجلی کی کڑک تھی، سانپوں کی پھنکار نہیں تھی۔ ان میں سے وہ نوراں اور مہراں کو پہچانتی تھی۔ شریفاں اکثر ان دونوں کا ذکر کرتی تھی اور کل شام وہ اسے ملنے بھی آئی تھیں۔ مگر اب پتہ چلا کہ وہ دونوں پھپھے کٹنیاں ہیں۔

    کاش وہ بھی پھپھے کٹنی ہوتی۔

    آدمی ایک ہی نام سے اور ایک ہی حیثیت میں رہتے رہتے کتنا اکتا جاتا ہے۔ اس کے جسم پر چکنائی اور میل کے دھبے پڑ جاتے ہیں اور اس کی روح کو یکسانیت کی دیمک چاٹنے لگتی ہے۔

    ابا عید کی نماز پڑھنے ایک راستے سے جاتے اور دوسرے سے واپس آتے کہ نئے راستے پر چلنے سے زیادہ ثواب ملتا تھا۔ کاش لکیر کے فقیروں کی سمجھ میں یہ بات آ سکتی!

    وہ خود بھی ہر روز جس راستے سے کالج جاتی اسی راستے سے واپس آتی۔ ہر سال وہی پرانے نوٹس، پرانی باتیں اور دہرائے ہوئے لیکچرز دہراتی۔ اسے عظیم مفکروں کے زریں اقوال دہراتے ہوئے شرم آنے لگتی جیسے وہ کلاس کو دونی کا پہاڑا یاد کرا رہی ہو۔ کبھی کبھی دونی کا پہاڑہ پڑھتے پڑھتے آواز اس کے حلق میں پھنس جاتی، کندھوں پر سر کی جگہ چکی کا پاٹ رکھا محسوس ہوتا اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگتا۔ اکثر متلی ہو کر طبیعت بحال ہو جاتی ورنہ ہوش آنے پر پتہ چلتا کہ اسے دورہ پڑا تھا۔

    اس نے خود ہی اپنے آپ کو مشورہ دیا تھا کہ کچھ روز شریفاں کے پاس چلی جائے۔ جب سے کالج بند ہوا تھا اس کے ذہن میں ہر وقت چھوٹی چھوٹی بھنبھیریاں اپنے آپ چلتی رہتی تھیں۔ وہ سوچنا نہ چاہتی تو بھی سوچ کی سخت جان اور بد شکل چھچھوندر اس کے دماغ میں تھوتھنی ڈالے مسلسل چیختی رہتی۔

    لڑنے والیاں دیورانی اور جٹھانی واضح گروپوں میں تقسیم تھیں۔

    دونوں جانب ایک ایک بڑی اور تین تین چار چار چھوٹی عورتیں تھیں۔ لیکن گھوڑسوار سے گھوڑسوار اور پیادے سے پیادہ لڑ رہا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے چھوٹیاں بڑے بڑے خوابوں کے رسوں سے جکڑی ہوئی ہیں۔

    خواب؟

    معدے کی گرانی؟

    واہمے؟

    لاشعور میں چھپی ہوئی خواہشات۔

    ایک بار اس نے دیکھا وہ چائے بناتے بناتے خود کیتلی میں بند ہو گئی ہے۔ وہ چیختی چلاتی ہے مگر کوئی ڈھکنا نہیں اٹھاتا یہاں تک کہ اس کا دم گھٹ جاتا ہے اور وہ مر جاتی ہے۔

    اکثر اسے شک ہوتا کہ وہ خواب نہیں تھا اور وہ واقعی مر چکی ہے وہ اکثر خود کو ٹٹول ٹٹول کر دیکھتی رہتی کہ وہ ہے یا نہیں ہے؟

    بھرے پرے گھر میں بھی اس پر اداسی اور تنہائی کے تنبو ہر وقت تنے رہتے۔ کبھی کبھی وہ اپنے جسم کی ان پڑھی کتاب کھول کر خود ہی تصویریں دیکھنے بیٹھ جاتی، پھر میلی ہونے کے ڈر سے بند کر کے ایک طرف رکھ دیتی۔

    پھر جب دونی کا پہاڑا سینکڑوں مرتبہ دہرانا پڑتا، اسے ہر چیز باسی محسوس ہونے لگتی۔ اسے اپنا جسم۔۔۔ جس پر اسے خود بھی سونے کا پانی چڑھا ہوا لگتا تھا، سوکھا چمڑا نظر آنے لگتا۔ پسینے سے مردہ مچھلیوں کی بدبو آتی اور کتاب یا رسالہ کھول کر بیٹھتی تو جگہ جگہ مری ہوئی مکھیاں چپکی دکھائی دیتیں۔ بیٹھے بٹھائے اس کے ذہن میں سوچ کی مکروہ چمگادڑ چکر لگانے لگتی اور اسے ہر چیز سے گھن آتی۔ موسیقی مردہ کوے کی لاش پر سینکڑوں کوؤں کی کائیں کائیں معلوم ہوتی۔ انڈوں سے مرغی کی بیٹ، روٹی سے برادے اور سالن سے مردہ گوشت کی سڑاند آتی۔ بدبو کے بھبھوکے اسے چاروں طرف سے گھیر لیتے، اس کا جی متلانے لگتا اور وہ قے کرنے لگتی۔

    جیٹھانی گروپ کی عورتیں چڑیلیں، ڈائنیں اور پچھل پیریاں تھیں خون چوستی کلیجے چباتی اور بڑے ول چھل جانتی تھیں۔

    دیورانی گروپ کی عورتیں لچیاں لفنگیاں اور مشٹنڈیاں تھیں وہ آنکھ مٹکا کرتی، چن چڑھاتی اور ادھل جاتی تھیں۔۔۔ اسے ان پر رشک آ رہا تھا۔

    آنکھ مٹکا کرنے، ول چھل جاننے اور اپنے یار کے ساتھ ادھل جانے میں کتنی زندگی اور رومان تھا، اس میں اسے کہیں کھوٹ نظر نہ آتا تھا۔ سچ کی اس چلچلاتی دھوپ میں اسے اپنا آپ ابر آلود مطلع کی طرح لگا۔

    جیٹھانی کی مرغیوں کی عادت تھی کہ وہ دیورانی کے گھر انڈہ دیتیں اور کڑکڑ کرنے اپنے گھر آ جاتی تھیں مگر دیورانی کا بیان تھا کہ وہ فاحشہ مرغیاں اپنے بانجھ پن کو چھپانے کیلئے کڑکڑ کرتیں اور انڈوں کی بجائے مرغوں کی طرح اذانیں دیتی تھیں۔

    بعض باتیں اپنے مخصوص جغرافیائی اور مقامی حوالوں کی وجہ سے اس کے پلے نہیں پڑ رہی تھیں مگر موضوع بدلتے دیر نہیں لگتی تھی اور صنائع بدائع کا استعمال زبان و بیان کو دلچسپ اور متنوع بنا رہا تھا۔ خاص کر صنعت اغراق اور غلو کی ایسی نادر مثالیں کتابوں میں کہاں ملتی تھیں، البتہ تشبیہات کبھی کبھی زیادہ قریب الفہم ہونے کی وجہ سے درجہ بلاغت سے گر جاتیں۔

    گھر میں سب محتاط رہتے کہ اس کی طبیعت کے خلاف کوئی بات نہ ہو لیکن شہر کے لوگ اس امر سے بے خبر تھے کہ گھسی پٹی اور دہرائی ہوئی باتوں کی شناخت کے لئے ایک قد آدم آلہ ایجاد ہو چکا ہے جو متروک اور بانجھ چیزوں کی سو فیصد درست نشاندہی کرتا ہے۔

    لڑائی کے بہانے پچھلی سات پشتوں کا سرسری سا جائزہ بھی لیا جا رہا تھا۔ پتہ نہیں گڑے مردے اکھاڑنے کی کیا تک تھی۔ پتہ نہیں ہوں بھی کہ نہیں اور اگر ہوں تو ان کے تن پر کفن ہوں یا نہ ہوں۔ اسے قبرستانوں میں راتوں کو الاؤ کے گرد ناچتی ننگی عورتوں کے قصے یاد آئے۔ اس کا جی چاہا وہ بھی کسی رات چھپ کر قبرستان چلی جائے۔

    لڑنے والیاں اب طعنوں مہنوں کی دلدل سے نکل کر پلوتوں اور گالیوں کے گہرے پانیوں میں اتر چکی تھیں۔

    ایسی الف ننگی گالیاں اس نے زندگی میں پہلی بار سنی تھیں۔ انسانی اعضا کے نام سن کر اس کے ذہن کے پنجرے میں قید بے شمار چھوٹی چھوٹی چڑیاں یکبارگی پھر سے اڑ گئیں۔ اس کے بدن سے ہمیشہ سے چمٹی ہوئی جونکیں ایک ایک کر کے جھڑنے لگیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کے اندر ایک نیا سورج اُگنے لگا۔ اس کا سارا جسم اس کی کرنوں سے دمکنے لگا۔ لذیذ سی گرمی سے رخسار تمتمانے لگے۔ پسینے سے سارا جسم بھیگ گیا۔ اسے اپنے پسینے سے پہلی بار تازہ گلاب کی خوشبو آئی اور یوں لگا جیسے اس کا بدن ہلکا ہو کر زمین سے اوپر اٹھتا جا رہا ہو۔

    اسی لمحے شریفاں آ گئی۔

    شریفاں کا بپھرا ہوا جسم گھر بھر میں پھیل گیا وہ اس کے جسم کی کشش اور آواز کی ڈور کے سہارے زمین پر واپس آ گئی۔

    اچھی بھلی مزے کی لڑائی ہو رہی تھی کہ اچانک خطرے کا سائرن بجنے لگا۔ مرد گھروں میں داخل ہوئے اور دونوں طرف برچھیاں اور بلمیں چمکنے لگیں۔

    خوف سے اس کے ہاتھ پاؤں سن ہو گئے۔ مردوں کی لڑائی بہرحال سینما کی سکرین پر ہی اچھی لگتی تھی۔ اسی لمحے خدا نے رحمت کا فرشتہ بھیج دیا۔ ساٹھ ستر برس کا ایک با وقار بوڑھا جس کی چال میں متانت اور چہرے پر بے پناہ ذہانت تھی اندر آیا۔۔۔ اور فریقین کے درمیان صلح و امن کی دیوار بن کر کھڑا ہو گیا۔

    شریفاں نے اسے بتایا جسے وہ فرشتہ سمجھ رہی ہے وہ احمد دین تیلی ہے۔ اسے یقین نہ آیا مگر جب انہوں نے اسے دھکیل کر ایک طرف کر دیا تو اسے یقین آ گیا۔

    امن کی کوششیں ناکام ہوتی دیکھ کر خوف سے اس کا دل دھڑکنے لگا۔ پیٹ سے باہر لٹکتی آنتوں اور گردن کے بغیر تڑپتے دھڑوں کا تصور کر کے وہ لرز گئی۔ مگر اسی لمحے ایک عجیب بات ہوئی۔

    ایک چھوٹے قد کا مریل سا آدمی اندر آیا اور آتے ہی فریقین کو فحش گالیاں دینے لگا اسے دیکھتے ہی تنی ہوئی گردنیں اور اٹھی ہوئی بلمیں جھک گئیں۔ چھتوں پر کھڑی عورتیں اور بچے ایک ایک کر کے کھسکنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے میدان کار زار برف کی طرح ٹھنڈا ہو گیا۔

    شریفاں نے اسے بتایا، چھوٹے قد کا مریل سا وہ شخص بہت بڑا چودھری اور گاؤں کی ایک تہائی زمین کا مالک ہے۔ اس کی طبیعت متلانے لگی اور اسے اپنا آپ بند مٹھی میں جگنو کی طرح لگنے لگا۔۔۔ مکروہ خیالوں کی بد صورت چھچھوندریں اس کے ذہن میں تھوتھنی ڈال کر چیخنے لگیں۔

    گاؤں کے ننگ دھڑنگ سینکڑوں بچے اس کے گرد جمع ہو کر دونی کا پہاڑا پڑھنے لگے۔

    غلیظ مکھیاں چاروں طرف بھنبھنانے لگیں چربی جلنے کی سڑاند ہر طرف پھیل گئی۔ چکی کے پاٹ کے نیچے اس کا دم گھٹنے لگا اس نے تازہ ہوا میں سانس لینے کی کوشش کی مگر بہت ساری بھن بھناتی مکھیاں اس کے حلق میں پھنس کر رہ گئی تھیں، وہ قے کرنے لگی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے