Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بساط بھر دنیا

نعیم بیگ

بساط بھر دنیا

نعیم بیگ

MORE BYنعیم بیگ

    پہاڑوں سے اچھلتا جھاگ پھیلاتا نیچے کی طرف گول گول چکنے پتھروں پر بہتا شفاف پانی جب پرسکون ندی میں آن ملتا ہے، تو میرے خیال میں اسے خود بھی پرسکون ہوجانا چاہیے، لیکن میں نے ایسا کم ہی د یکھا ہے۔ اس شوریدہ سر بہتے پانی کو پرسکون میدانی فضا میں ندی کی دھیمی اور بے آواز روانی کبھی راس نہ آئی۔ اس نے ہمیشہ بغاوت کی کوشش کی، اور اگر کچھ نہ ہوسکا تو کناروں سے اچھل اچھل کر نزدیکی آبادیوں کو اپنے جنون کا پیغام بھیجنا، اس کی دیوانگی نہیں تو اور کیا کہی جاسکتی ہے۔

    وہ تھی تو برسات کی رات ’پر بات بے بات دل دہلا دینے میں اسے مہارت تھی۔ الفت میں بھٹکی ہوئی ان سونی سونی راہوں کی مانند یادیں‘ برسوں کی پیاس لیے مجھے آج بھی بے چین کرجاتی ہے۔

    اچھا ٹھہریے! یوں شاید اپنی بات سمجھا نہ پاؤں گا۔ آئیے اِس بوتہ خاک کو ابتدا سے دیکھتے ہیں۔

    اس دن نفیسہ بہت خوش تھی۔ لہرا لہرا کر میرے کلوں پر انگلیوں سے نقش بناتی۔ میرے بالوں میں پیار سے انگلیاں پھیرتے ہوئے بالوں کو یک لخت بکھیر دیتی اور خوب ہنستی۔ میں نے وفورِ جذبات میں جب اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور اس کی انگلیاں چٹخانے لگا، تو وہ بیک وقت درد اور ہنسی میں اپنے دوسرے ہاتھ سے مجھے نوچنے لگی۔

    ’’چھوڑو۔۔۔ چھوڑو نا! بدتمیز انسان۔۔۔‘‘

    وہ ہنستی ہنستی اچانک خاموش ہوگئی۔ میں نے اس کے چہرے پر کرب کے سائے دیکھے۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی۔

    میں بول اٹھا۔ ’’کہو! نفیسہ۔۔۔ تم کچھ کہنا چاہ رہی ہو؟‘‘

    تب اس نے مجھ سے بنا کسی جھجھک اپنی خواہش کا اظہار کیا تو میرے جسم میں جان نہ رہی۔ میرے وہم و گمان میں بھی کبھی ایسا نہ تھا۔ میں اس کی بات سن کر اندر سے ہل سا گیا۔ کیا ایسا ممکن ہے میرے لیے؟

    یہ کیا کہہ رہی ہے؟

    اچھا اب آپ پوچھیں گے کہ یہ نفیسہ کون ہے؟

    رکیے، میں تفصیل سے اس پورے معاملے کو آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ نفیسہ میری دوسری بیوی ہے۔ بے حد خوبصورت ہے۔ سچ پوچھیے کہ تخلیق کار نے اس کی تراش خراش اور رنگ و روپ میں ممکنہ حد تک مبالغے سے کام لیا ہے۔ ممکن ہے وہ اس پری چہرہ کو صرف اپنے لیے مختص کرنا چاہتا ہو، لیکن وہی بنیادی غلطی کہ اسے خود اپنی غلطی کا احساس ہوچکا تھا۔ اب اپنے ہاں اس نے اپنی تخلیقی مہارت اور بجھارت کو استعمال میں کہاں لانا تھا۔ سارا پروگرام ہی نابدل جاتا۔ سوآدم کے سرمونڈھ دی۔

    خیر کہانی کی طرف لوٹتے ہیں۔ میری پہلی بیوی عارفہ اپنے بچوں کے ساتھ رہتی ہے۔ میں بھی انہی کے ساتھ ہی رہتا ہوں۔ لیکن کبھی کبھار الگ ہوجاتا ہوں۔ بس وہ الگ کیا ہے؟ یوں سمجھیے کہ ہم اپنے اپنے انتظامی یونٹس میں رہتے ہیں۔

    نفیسہ ابھی تک ماں کے ساتھ رہتی ہے۔ ہم دونوں نے اپنی شادی کو اپنے اپنے خاندان سے خفیہ رکھا ہوا ہے۔ مجھے شادی کے لیے چند دوستوں کو بتانا پڑتا تھا۔ اس نے تو سرے سے کسی کو شامل حال ہی نہ کیا۔ صرف اِس کی ماں جانتی ہے کہ وہ میری منکوحہ ہے۔

    ملاپ کے لیے ہم اکثر طویل سفر پر نکل جاتے اور چند دن ایک ساتھ گزار کر واپس اپنی اپنی دنیا میں لوٹ جاتے۔ شادی کو خفیہ رکھنے کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ نفیسہ کا موقف ہے، کہ اسے اپنی شادی کو اس لیے اس وقت تک خفیہ رکھنا ہے جب تک اس کی چھوٹی بہن کی شادی نہ ہوجائے اور وہ خود بھی اپنے پروفیشن میں کسی مقام پر نہ پہنچ جائے۔ دراصل وہ ایک مقامی کالج میں استاد ہے۔ ادب و آرٹ سے پیار کرتی ہے، بے حد باذوق ہے۔ اس کا خیال ہے کہ وہ جلد ہی پروفیسر کے عہدہ پر ترقی پاجائے گی۔

    مجھے تو آپ سب جانتے ہی ہیں۔ میں اسی شہر کا جانا پہچانا سائکارٹسٹ ہوں۔ وہی روٹین کی پیسے بنانے والی مشین کہہ لیں یا ڈاکٹر۔ میرے لیے اس شہر میں ہرشخص اپنی نوعیت کا ذہنی مریض ہے۔ جب وہ کسی خاص مسئلے کے تحت مجھ سے رابطہ کرتا ہے تو تین چار سیشن میں ان کی خوب خدمت کرتاہوں۔ اگر کچھ مزید دینے کے قابل نہ ہو تو میں برا نہیں مناتا، بس اسے طویل عرصے کے لیے نسخہ دے کر چھوڑ دیتا ہوں، تاکہ وہ اپنی زندگی میں خوش رہے۔ آپ سمجھ رہے ہیں نا!

    نفیسہ میری ا سٹوڈنٹ تھی، جب وہ مجھ پر مرمٹی تھی۔ آج ملاپ ہوئے سات برس گزرچکے ہیں۔ اس نے قصداً اولاد سے اجتناب برتا، اور خود مجھے بھی اولاد کی کوئی خاص تمنا نہ تھی، کہ پہلی بیوی سے میری اولاد ہے اور وہ سب اپنی اپنی دنیا میں مست اور خوشحال ہیں۔

    اب چند دنوں سے نفیسہ کچھ بے چین سی لگ رہی تھی۔ شادی سے پہلے دو برس اور بعد ازاں اگلے پانچ برسوں میں ہم نے جسمانی تعلق کو بہت اہم سمجھا تھا۔ لیکن سچ پوچھیے تو میں نفیسہ کی محبت اور جسم دونوں میں گرفتار ہوں۔ وہ عادت کی بہت اچھی ہے۔ ہمیشہ کم پرومائز کرنا، ہمبل رہنا اورمحبت میں اظہار کو محبت کی بنیادی کلید سمجھنا، اس کے لیے بہت اہم ہے۔ وہ سگمنڈ فرانڈ کی قائل نہ ہے، جس نے عورت کو ہمیشہ تبدیلی سے عاری سمجھا اور ایک حد تک غیرفعال (پیسوؤ) کہا۔ لیکن حقیقت یہ کہ وہ اپنے باطن میں فرانڈ کی ’’پینس انوائے‘‘ کی لغوی مثال ہے۔

    یہ سب کچھ میں نے اس کے ساتھ جسمانی تعلق یا یوں کہہ لیں شادی کے بعد جانا۔ وہ جسمانی اور ذہنی طور پر اس قدر پرجوش اور بے چین تھی کہ میرے پورے جسم کو اپنے اندر اتارلینا چاہتی تھی۔ وہ اپنے جسم میں عضوِ تناسل کی کمی کو علامتی سطح پر منفیت کانشانہ بناتی اور جوابی طور پر اپنی میرے وجود کو کسی عورت کاجسم سمجھتی تھی۔ اس بات کااظہار لاشعوری طور پر ان ہیجان خیز لمحات میں خوب کرتی، جس میں مجھے کبھی کبھار فزیکل تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا۔ خیر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم نے ایک دوسرے کے وجودی امکانات کی عمیق گہرائیوں اور شعوری طور پر محبت کے اظہار کو زبان دے کر زندگی کا خوب لطف اٹھایا۔ ابتدائی چندبرس تو چٹکیوں میں گزرگئے۔ تب رفتہ رفتہ ہم دونوں کو یہ احساس ہونے لگا کہ ہم تنہا ہوتے جارہے ہیں اور کہیں کہیں اپنی اپنی ذمے داریوں سے چشم پوش بھی۔ پھر یہ ہوا کہ ہماری گفتگو کا محور یہی موضوع رہنے لگا۔

    بظاہر اس دوسری شادی کے بعد میرا کچھ بھی سٹیک پر نہ تھا، بل کہ میں قدرے بہتر پوزیشن میں تھا۔ تاہم نفیسہ کے اندر ایک عجیب سی بے چینی ابھرتی نظر آنے لگی۔ کبھی کبھار تو وہ اِس خفیہ شادی کے تعلق پر پڑھی لکھی ہونے کے باوجود مباح کی بحث میں بھی الجھ جاتی۔ جو میرے لیے سوہان روح ہوتا۔ آپ کی منکوحہ جب گناہ کی دہلیز سے آواز دے تو مرد کے لیے مشکل تو ہوجاتی ہے۔ چونکہ میں اِس کے نفسیاتی خلا کو سمجھتا تھا، سو نظرانداز کردیتا۔ بحیثیت نفسیات دان مجھے نفیسہ کے اندر جلتے ہوئے الاؤ کے پیش نظر یہ احساس ہونے لگا کہ شاید وہ مجھے ایک مبِرّد کے طور پر اپنی زندگی میں لائی ہے۔ ایک آئس برگ جو جلتے الاؤ کو رفتہ رفتہ ٹھنڈا کرتاجائے۔ اس الاؤ کو مسلسل آگ بجھانے والے ایک آلے کی ضرورت تھی، ورنہ وہ سماجی زندگی سے یوں نہ الگ تھلک رہتی۔ میں اکثر اس کاسائکو انلائسس کرتا، اور بالآخر خود کو سمجھا بجھاکر خاموش ہوجاتا۔

    میں نے اسے کئی بار مشورہ دیا کہ آؤ! اب نئی زندگی کی ابتدا سماج کی ایک ذمہ دار اکائی کی صورت کرتے ہیں۔ تم کچھ نہیں کھوؤگی۔ معاشرے میں شادی شدہ ہونے کے ناتے سے تمہیں جو عزت ملے گی اس کا تم سوچ بھی نہیں سکتی، لیکن اس کے سر پر سوار ایک ہی دھن ہے۔ مجھے ابھی اپنی شناخت کو برقرار رکھنا ہے۔ چونکہ میں خود بھی ان سوالات سے بچنا ہی چاہتاتھا، سو اس کی ہاں میں ہاں ملاکر خاموش ہوجاتا۔

    جس دن ہماری آخری ملاقات ہوئی، وہ کوئی طے شدہ آخری ملاقات نہ تھی۔ وہ حسبِ معمول ایک تفریحی ملاقات تھی۔ ہم شہر سے دور تفریح پر دو روز کے لیے ایک وسیع و عریض فارم ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ زندگی کی ہرسہولت وہاں موجود تھی۔ فارم ہاؤس کے مالک میرے دوست تھے۔ انہی کی دعوت پر میں پہلی بار نفیسہ کو لے کر وہاں گیا تھا۔ وہاں ایک فیملی اور بھی ٹھہری ہوئی تھی۔ جن کے دو ننھے منے بچے اکثر ہمیں باہر وسیع و عریض لان میں بھاگتے دوڑتے نظرآتے۔

    نفیسہ اچانک ان بچوں کو دیکھ کر بدک گئی اور اپنے آپ کو چھپانے لگی۔ میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ وہ ان بچوں کو پہچانتی ہے۔

    ’’میں تمہیں بتارہی ہوں ظفر! وہ نمیرہ کے بچے ہیں۔ میں نے اِن سے باتوں باتوں میں ان کی مما کا نام بھی کنفرم کرلیا ہے۔‘‘

    نفیسہ نے بے چینی سے کہا۔ ’’نمیرہ میری بچپن کی سہیلی ہے۔ میں اس کی فیملی اور بچوں کی تصویریں دیکھ چکی ہوں۔ یہ تو اچھا ہوا کہ بچوں نے مجھے نہیں پہچانا۔ نمیرہ کو اچانک یہ سب دیکھ کر صدمہ پہنچے گا۔‘‘

    ’’تو کیا ہوا؟ اچھا ہے آج یونہی یہ راز کھلنے دو۔ اسے قطعاً صدمہ نہیں پہنچے گا۔ یہ تمہارا خوف ہے جو تمہیں روکتا ہے۔ یقین کرو کہ وہ خوش ہوجائے گی، کیونکہ تمہاری سہیلیوں کو اکثر تمہاری شادی کی فکر رہتی ہے اور تم سے پوچھتی بھی رہتی ہیں۔ تم فکر نہ کرو۔ میں ڈاکٹر ہوں۔ معاملے کو خوش اسلوبی سے سنبھال لوں گا۔‘‘

    دراصل میرے اندر کے دباؤ نے مجھے اکسایا کہ یہی وقت ہے معاملے کو کھلنے دو تاکہ ہمہ وقت اِن خفیہ ملاقاتوں سے ان کی جان چھٹ جائے۔ مجھے نفیسہ کا بے حد خیال تھا۔ میرے تئیں نفیسہ اپنی سماجی زندگی میں جس مصنوعی طریقے سے رہ رہی ہے وہ اس کے لیے اور میرے لیے قطعی سودمند نہیں۔

    دوسری طرف مجھے ایک اطمینان اور بھی تھا کہ میں نے عارفہ سے جب ایک روز اتفاقاً خوشگوار موڈ میں بات کرتے ہوئے پوچھا، کہ اگر میں دوسری شادی کرلوں تو تمہارا ردِعمل کیا ہوگا؟

    تو اس پر وہ بولی ’’مجھے کیا؟ آپ بھلے چار شادیاں کرلیں، بس میرے بچوں کی مالی معاملات کو محفوظ کردیں۔ آپ جو چاہیں کریں۔‘‘

    بات اچھی خاصی کھٹکنے والی تھی، لیکن میں نظرانداز کرگیا۔

    لیکن سچ جانیں، عارفہ کی اس بات نے مجھے ذاتی طور پر بہت سہارا دیا تھا۔ وہ الگ بات کہ یہ احساس شدید کرب پہنچا گیا کہ اب عارفہ بھی اس ٹھہرے ہوئے سماج میں میری طرح کی ایک ذمہ دار ’اکائی‘ بن چکی ہے جہاں انسانی قدروں کی نمورک چکی ہو۔ میرے لبوں پر ایک طنزیہ سی مسکراہٹ ابھر آئی۔

    ’اب نظام کو کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے۔‘

    مجھے جب بھی اپنے آپ کو سماجی کٹہرے میں لانا پڑا، میں اپنی حیثیت کافائدہ اٹھاکر فوراً آنکھ بچاکر نکل گیا۔ سوال یہ تھا کہ کیا میں اپنے آپ کاسامنا کرسکتا ہوں؟ یہ سوال بہت مشکل ہے اور آپ جانتے ہیں کہ میں کبھی ایسے مشکل کاموں میں ہاتھ نہیں ڈالتا۔ ازلی سہل پسند جو ٹھہرا۔

    یہاں پہنچ کر یہ احساس بارِگراں کی طرح میرے کندھوں پر آن پڑا کہ کہانی تو رک چکی ہے۔ کہانی کا رجان بوجھ کر اسے طویل کر رہا ہے۔ اِسے کوئی اور کردار نہیں مل رہا جسے وہ صیغۂ واحد متکلم راوی سے ٹکرادے۔ جس صداقت پر کہانی کھڑی کرکے وہ یہاں پہنچا ہے۔ وہ بات تو اب تک میرے شعور نے چھپارکھی ہے اور کہانی کار وجہ بے وجہ ان تینوں کرداروں کی نفسیات بیان کرنے پر تلا ہوا ہے۔

    اچھا یہ ابھی طے کرنا باقی ہے کہ وہ صداقت ہے یا ایک انجان سی کسک یا خوف جواِسے جینے نہیں دیتا؟

    مجھے معلوم ہے کہ راوی نے زندگی کو کبھی شر اور خیر کے حوالوں سے نہیں دیکھا بلکہ انسان کو اس کی فطری جبلت کے حوالے سے دیکھا ہے جو مظاہر میں اعمال کانتیجہ ہے۔ جس نے پہلے نفیسہ کو دباؤ میں رکھا پھر کہانی کار کو۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس نے اپنے کردار نفسیات داں ڈاکٹر کو بھی نچوڑ کر رکھ دیا۔

    میرے لیے یہاں یہ بھی طے کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ نفیسہ اپنے موقف پر درست ہے یا عارفہ۔ دوسری طرف مجھے نفسیات داں کردار سے بھی اختلاف ہے۔ تاہم میرا خیال ہے کہ کہانی کار جانتا ہے کہ راوی کو معلوم ہے کہ کن سچائیوں کو سامنے لانا ہے اور کہاں ڈنڈی مارنی ہے۔ وہ خود بھی تو اسی سماج کی اکائی ہے، اوپر سے توٹپکا نہیں کہ ہر بات آفاقی اور مربوط ہو۔ زمین کی پیداوار ہے۔ ہم سب کو سماجی ارتقا یہاں تک لایا ہے۔ آگے کہاں تک انسان کو جانا ہے اسے خود معلوم نہیں۔ ایسی صورت میں تیسراراوی یعنی میں ہوں کون جو سچ کو عیاں نہیں ہونے دیتا؟

    کہانی کار کے اندر اچانک ایک سرگوشی ابھری۔ اگر راوی نہیں کہے گا تو پھر کون کہے گا۔ کہنے کے لیے کیا کوئی اوپر سے ٹپکے گا؟

    ’’ہوں۔ یہ ٹھیک ہے۔ چلیے! میں مان لیتا ہوں۔‘‘ کہانی کار نے فوراً سرگوشی کے سامنے ہتھیار پھینک دیے۔ ’’لاؤ میرا قلم مجھے واپس دو، مجھے کہانی مکمل کرنے دو۔‘‘

    جی تو میں کہہ رہا تھا کہ میں سماج میں دوسرے انسانوں کی طرح ہی سہل پسند ٹھہرا ہوں۔ مشکل کاموں میں ہاتھ نہیں ڈالتا، لیکن اب سوچ رہا ہوں کہ چلو یوں بھی کرلیتے ہیں۔ کچھ انسان سخت جان بھی ہوں گے، لیکن مجھے ان سے کیا لینا دینا۔ آخر نفیسہ میرے دل میں بستی ہے جس کی میں نے اپنے ہاتھوں سے آبیاری کی ہے۔ اگر وہ چاہے تو سب کچھ ہوسکتا ہے۔ آخر ہو ہی رہا ہے نا؟

    وہ جس شدت سے مجھے پیار کرتی ہے مجھے کچھ تو اسے واپس لوٹانا ہے۔

    پیار کے بدلے پیار۔

    پیار کے بدلے زندگی۔

    پیار کے بدلے ہر وہ شے جسے وہ اس دنیا میں برتنا چاہتی ہے۔

    میں نے نفیسہ کی طرف دیکھا وہ مسلسل اپنے ناخن کتر رہی تھی۔ اس کی ازلی معصومیت اس کے چہرے پر شفق کی طرح جھلملارہی تھی۔

    میں نے دھیرے سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس کی اور میری آنکھیں ایک ساتھ ڈبڈبا گئیں۔

    ’’ہاں نفیسہ! تم دوسری شادی کرسکتی ہو۔ جاؤ اپنی بساط بھر دنیا بساؤ۔ میں یہیں کہیں آس پاس تمہیں زندگی کے سفر میں ملتا رہوں گا۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے