چھمو
کہانی کی کہانی
امیر گھرانوں میں ملازماؤں کے جنسی استحصال کی کہانی ہے۔ چھمو ایک معصوم سی لڑکی ہے جو خود بھی استحصال کا نتیجہ ہے۔ چھمو پر نواب زادے نظر التفات کرتے ہیں اور اس کا استحصال کرتے ہیں۔ چھمو ان سے امیدیں وابستہ کر لیتی ہے اور جب امیدیں ٹوٹتی ہیں تو وہ بستر سے لگ جاتی ہے اور اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔
میں نے اسے پہلی بار بیگم صاحبہ کے ساتھ ہی دیکھا تھااور بیگم صاحبہ سےمیری ملاقات ایک دن اتفاقاً ہوگئی تھی۔ رات کا وقت تھا۔ ہم سب سونے کی تیاری کر رہے تھے۔ گرمیوں میں یہ تیاریاں بڑی طول طویل ہوتی ہیں۔ بستر باہر نکالے جاتے ہیں۔ گھڑوں میں پانی بھرا جاتا ہے۔ پنکھوں کی تلاش ہوتی ہے۔ مسہریاں تانی جاتی ہیں اور پھر بھی نیند ہے کہ کسی خوش قسمت ہی کی آنکھوں میں بسرام کرتی ہوگی۔
میں اپنا دوپٹہ بانہوں پر لپیٹے پڑی تھی کیونکہ مچھروں کا دستہ بار بار یورش کر رہا تھا اور گرمی کا یہ عالم تھا کہ چادر اور مسہری میں دم گھٹتا تھا۔ امی قریب ہی جائے نماز بچھائے نماز پڑھ رہی تھیں۔ وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد پنکھی اٹھا لیتیں۔ دوپٹے سے گردن پوچھتیں اور پھر بڑی بددلی سے سر جھکا کر نماز پڑھنے لگتیں۔۔۔یہ وقت کسی کو ملنے کا نہ تھا لیکن کبھی کبھی اچانک کسی ایسے انسان سے ملاقات ہو جایا کرتی ہے جیسے کوئی سیارہ گھومتا پھرتا آپ کے محور پر آ نکلا ہو۔
کار کی بتیاں پھاٹک پر لہرائیں، پھر انجن بند ہوگیا اور پھر اپنا آپ دھکیلتی ہوئی کار پورچ میں کھڑی ہو گئی۔ میں اپنا پھٹا ہوا دوپٹہ بازو پر لپیٹے ہوئے اٹھی اور سیلی لان پر آہستہ آہستہ چلتی پورچ کی طرف چل دی۔ آپی کار سے باہر نکل کر کھڑی تھیں لیکن ابھی تک وہ شیشے میں منہ دیے اندر کسی سے باتیں کیے جا رہی تھیں۔ ان کامتوازن، بھرا ہوا جسم ساڑھی میں نمایاں نظر آ رہا تھا اور اونچی ایڑی کے باعث وہ بہت لمبی لگ رہی تھیں۔
’’بالی! دیکھو تمہیں کون ملنے آیا ہے؟‘‘
’’کون آیا ہے۔۔۔؟‘‘ میں نے سرگوشی کی۔ کار سے کوئی بھی بر آمد نہ ہوا اور چونکہ شیشوں پر سبز پردے تھے اس لیے میں کچھ بھی اندازہ نہ کر سکی کہ اندر کون ہو سکتا ہے؟
’’بالی۔۔۔! پہلے پردہ کروا لو۔ پھر یہ نکلیں گی۔‘‘ آپی بولیں۔
’’لو بھئی آپی! یہاں کون ہے۔ کمال کرتی ہیں آپ بھی!‘‘ میں نے ادھر ادھر نظر دوڑا کر کہا۔
’’پھر بھی دیکھ لو۔ کوئی نوکر بھی نہ ہو۔‘‘
میں نے کار کا دروازہ کھولا اور اندھیرے میں ایک ہیولے سے بولی، ’’بے فکر رہیے یہ جگہ آدم بو سے پاک ہے۔‘‘ اندر سے کپڑے سرسرانے کی آواز آئی تو بے چارہ ڈرائیور منہ لٹکا کر چل دیا۔ میں نے ایک نظر اس پر ڈالی۔ اس میں کوئی ایسی بات نہ تھی کہ عورتوں کے قلب کی حرکت بڑھ جاتی!
’’وہی بیگم صاحبہ ہیں جن کا ذکر میں نے تم سے کیا تھا۔‘‘ آپی نے آواز لگا کر مجھ سے تعارف کروایا۔
’’اچھ آ۔۔۔آ۔۔۔‘‘ میں ذہن پر زور دیتے ہوئے بولی۔
بیگم صاحبہ نکلیں۔ ان کا ہجوم ان کی امارت کی گواہی دیتا تھا۔ ان کے کپڑوں میں نفاست تھی اور زیور گو پرانے فیشن کا تھا لیکن جس تکلف سے انہوں نے پہن رکھا تھا، یوں لگتا تھا گویا ابھی دکان سے آیا ہے۔ ان کی چال مدھم، لب و لہجہ شیریں اور گفتگو دھیمی تھی۔ آپی نے باہر ہی بیٹھنا مناسب سمجھا، سوہم سب بستروں کی طرف چل دیے۔ بیگم صاحبہ بڑے تکلف سے ایک کرسی پر بیٹھ گئیں اور ہم دونوں حسب عادت چارپائیوں پر نشست جما کر بیٹھ رہیں۔
چارپائیوں پر بیٹھنا ایک فن ہے۔ ہماری آدھی زندگی ان ہی پر گزرتی ہے اور جو آدھی باقی رہ جاتی ہے اس کا چوتھا حصہ بھی ہم ان ہی پر لیٹ کر، بیٹھ کر، کروٹیں بدل کر کاٹ دیتے ہیں۔۔۔چادروں پر سالن کے داغ ہوتے ہیں۔ سیاہی کے دھبے ہوتے ہیں۔ مٹی اور دھول کی افشاں ہوتی ہے اور تکیوں پر نہ صرف تیل ہی کا بڑا سا چٹاخ نظر آتا ہے بلکہ عموماً آنسوؤں کی ہلکی سی نمی بھی داغ چھوڑ جاتی ہے۔
چارپائیاں اور بسترے ہمارے کلچر کی ایسی رسیدیں ہیں جن پر ان گنت لوگ مہریں ثبت کرتے ہیں۔ ان پر بیٹھنا آسان نہیں ہوتا۔ پیٹ میں کئی بل پڑ جاتے ہیں۔ ٹانگیں تھوڑی دیر بعد یقیناً سو جاتی ہیں اور آدھ گھنٹے کی بیٹھک میں کئی پینترے بدلنے پڑتے ہیں۔ کندھے جھکے رہتے ہیں اور گردن میں خم پڑجاتا ہے۔۔۔لیکن جو چارپائیوں کے عادی ہیں انہیں کرسیوں میں کبھی سکھ نہیں ملا۔
’’بالی! بیگم صاحبہ کئی دن سے کہہ رہی تھیں لیکن آج جانے انہیں کیا سوجھی کہ ارادہ کرتے ہی چل پڑیں۔‘‘
’’بڑی نوازش ہے ان کی۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’نوازش کاہے کی؟ ہم تو آپ جیسے لوگوں کی زیارت کو بڑی دور دور سے آتے ہیں۔‘‘ بیگم صاحبہ بولیں۔ اس جملے میں نہ تو سچ تھا نہ ہی بناوٹ تھی۔ یوں لگتا تھا کہ انہیں ایسے جملے ادا کرنے کی عادت تھی۔
’’بالی! نواب صاحب سے اجازت لینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔‘‘ آپی نے ابرو اٹھا کر بات کی۔
’’نہیں جی۔۔۔! نواب صاحب تو کچھ نہیں کہتے۔ میں نے ہی کبھی اصرار نہیں کیا۔‘‘
’’چلیے۔ ہمارے ہی بھاگ بھلے ہیں کہ آپ نے زحمت گوارا کی۔‘‘
جب امی اٹھیں اور باتوں میں روانی آگئی تو میں نےبیگم صاحبہ کا غور سے جائزہ لیا۔۔۔! ان کی موٹی موٹی آنکھیں شربتی تھیں اور انہیں ان کے پھرانے اور ادا سے بند کرنے کا ڈھنگ آتا تھا۔ بات کرتے ہوئے بڑے آرام سے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتیں، نگاہوں کو جھکاتیں اور پھر ذرا سا گردن کو خم دے کر اپنے جملے کے آخری الفاظ بالکل مدھم کر دیتیں۔ بیگم صاحبہ اپنی جوانی میں بڑی قاتلہ ہوں گی۔ وہ چنت کیے ہوئے دوپٹے اوڑھتی ہوں گی۔ کمر پر کسی ہوئی پشوازیں پہنتی ہوں گی۔ ان کی چال میں ٹھوکریں اور ان کی باتوں میں حلاوی کھجوروں کارس ہوگا۔۔۔اب بھی جب کہ ان کا بڑا لڑکا فسٹ ایئر میں پڑھ رہا تھا اور چھوٹا لڑکا جاجی چوتھی میں تعلیم پا رہا تھا، ان کی آن بان ایسی تھی گویا کسی نئی نویلی دلہن کو اس کے شوہر کے بیجا لاڈ پیار نے بگاڑ رکھا ہو۔
شربت کا گلاس ہاتھ میں گھماتے ہوئے انہوں نے آپی سے کہا، ’’دیکھیے۔ میری نوکرانی اور اس کی بچی کار میں بیٹھی ہیں۔ انہیں بھی بلا لیجیے۔‘‘
جب نوکرانی آئی تو ساتھ رینگتی ہوئی چھمو بھی آئی۔ اگر بیگم صاحبہ ہمارے ہاں نہ آتیں تو میں اس چھمو کو کبھی نہ مل سکتی جسے دیکھ کر احساس ہوتا تھا، نسوانیت نے بچپن کا روپ دھار رکھا ہے۔ چھمو چار سال کی بچی ہوگی۔ اس کی آنکھیں گرد و پیش کا جائزہ لیتے ہوئے بھی کچھ نہ سمجھ رہی تھیں۔ اس کا دہن یوں کھلا تھا، جیسے کوئی ٹرنک بند کرنا بھول گیا ہے۔۔۔یہ دہن شاید ہمیشہ ہی سے کھلا تھا۔ دونوں جانب ہونٹ لٹکے ہوئے بہنگی کے سرے بوجھ سے بوجھل۔ اس کی چال میں بچوں کی بے سمجھی نہ تھی بلکہ نسوانیت کا سا عزم تھا۔ میں نے بہت سی بچیاں دیکھی ہیں لیکن چھمو چھموہی تھی۔ میں نے معصومیت اور پکے پن کا ایسا مجموعہ پھر کبھی نہیں دیکھا۔
اس نے بوسیدہ امریکن فراکوں میں سے بنایا ہوا لمبا کرتا پہن رکھا تھا جو ٹخنوں تک پہنچ کر کونوں سے یوں اٹھا ہوا تھا کہ دونوں جانب فراک نما گولائیاں ابھر آئیں تھیں۔ اس کے ناخنوں پر پرانی پالش تھی۔ بالوں میں ربن کی جگہ ایک کترن سی اٹکی ہوئی تھی اور کانوں میں ذرا ذرا سی سونے کی بالیاں تھیں۔ چھمو کو دیکھ کر کسی ایسی بچی کی گڑیا کا خیال آتا جس پر اپنی گڑیا کو سنوارنے کے دورے پڑتے ہوں۔ یوں لگتا تھا کبھی تو چھمو پر نوازشوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں اور کبھی وہ محض سبو نوکرانی کی لڑکی بن کر کونے کھدروں میں چھپتی پھرتی ہے۔
وہ ایک ہی ماحول میں رہنے کے باوجود کچھ جھنجھوڑی ہوئی سی نظر آتی تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ آج تو وہ بیگم صاحبہ کی گود میں ہمکتی ہے اور کل میرا ثن کی گندی بچی کے ساتھ باسی ٹکڑوں پر پھینک دی جاتی ہے۔ شاید اسی قسم کے رویے نے اس کی آنکھوں میں ایک مستقل سوال چھپا رکھا تھا۔ وہ آنکھیں جنہیں دیکھ کر ایسا تالاب یاد آتا جو پاتال تک گہرا ہو اور جس میں دور تک درخت ہی درخت کانپتے ہوئے نظر آئیں۔ ان ہی آنکھوں کو پورا کھول کر وہ پوچھتی تھی میں کون ہوں۔۔۔؟ بولو نا۔ میں کون ہوں؟
سبو نوکرانی تو بالکل بے لیپ کا کوٹھا نظر آئی۔ چھمو کو اپنی گود میں لے کر بیٹھ گئی۔ میں نےمسکرا کر اسے بلایا تو وہ مارے باندھے اٹھ کھڑی ہوئی۔ میں نے ہاتھ پھیلایا تو وہ میری طرف رینگنے لگی۔ شاید وہ التفات کے معنی جانتی تھی۔
’’کہو چھمو! پڑھتی ہو؟‘‘ میں نے اس کے گرد آلود سنہری بالوں پر ہاتھ پھیر کر کہا۔ چھمو نے دائیں بائیں بڑا سا سر ہلا کر نفی میں جواب دیا۔
’’کیا نام ہے چھمو؟‘‘ چھمو نے پہلے ماں کی جانب دیکھا۔ پھر بیگم صاحبہ کی طرف اپنی نگاہیں اٹھا کر سر جھکا لیا۔
’’کیا نام ہے چھمو۔ بتاؤ ناں نسیم بانو۔۔۔‘‘ سبو بولی۔
مردار مچھلی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
’’نسیم بانو نام ہے کیا؟‘‘ میں نے چھمو سے پوچھا۔ اس نے نگاہیں اٹھا کر میری طرف دیکھا اور پھر نظریں جھکا کر اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’نسیم بانو اس کا نام میں نے رکھا ہے۔ اس سبو نے تو زینب بی بی رکھا تھا لیکن میں نے کھیل پکار دیکھا تو تب سے میری تمنا تھی کہ کسی لڑکی کا نام نسیم بانو رکھوں۔۔۔مجھے تو اللہ میاں نے لڑکی دی نہیں، اسی لیے میں نے اس کا نام رکھ لیا ہے۔ کیوں بالی! ہے نا وہی صورت؟‘‘ بیگم صاحبہ نے پوچھا۔
’’جی! بڑی پیاری صورت ہے۔‘‘ میں نے بیگم صاحبہ کا جی رکھنے کی خاطر کہہ دیا لیکن میں چھمو کی صورت سے متاثر نہ ہوئی۔ چھمو اگر خوب صورت بچوں میں گھری ہوتی تو بھی قابل توجہ ہوتی۔ اس کی وجہ اس کے بھورے بال نہ تھے۔ اس کی وہ آنکھیں نہ تھیں جن میں قدرتی سرمے کی تحریریں کجلا رہی تھیں بلکہ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ چھمو، اپنے لیے ایک معمہ تھی اور وہ یہ معمہ ہر ملنے والے کو اسی خلوص سے پیش کرتی تھی جس خلوص سے وہ حیات کی ڈگر پر گامزن تھی۔۔۔وہ بیگم صاحبہ کی کائنات میں اپنا مقام پیدا کرتی ہوئی الجھ گئی تھی اور اسی لیے پوچھتی پھرتی۔۔۔میں کون ہوں۔۔۔؟ میں کون ہوں؟ اس کا وجود مجسم سوال بن کر پوچھتا اور دہن مایوس ہو کر لٹک جاتا اور کہتا۔۔۔کوئی نہیں جانتا۔۔۔! کوئی نہیں جانتا!
’’منہ بند کرو چھمو رانی۔۔۔‘‘ میں نے اس کے دہن کو دونوں انگلیوں سے بند کرتے ہوئے کہا۔ چند لمحے اس کے ہونٹ آپس میں پیوست رہے اور پھر آپی آپ بغیر گوند کے لفافہ کی طرح کھل گئے۔
’’منہ بند رکھ ناں۔۔۔‘‘ سبو للکاری۔
’’پتہ نہیں اس کا منہ کیوں کھلا رہتا ہے۔۔۔پتہ ہے آپی! یہ پچھلے سال گر گئی تھی۔ سر سے گھنٹوں لہو جاری رہا۔ میرا خیال ہے اسی کی وجہ سے سر کمزور ہو گیا ہے۔ باتیں تو بہت کرتی ہے لیکن وہ پہلی سی تیزی نہیں رہی۔۔۔‘‘ بیگم صاحبہ بولیں۔
’’ہاں سائیں! کبھی کبھی مجھے بھی شبہ ہوتا ہے کہ بات سمجھ نہیں رہی۔‘‘ سبو نے ماں کے تردد بھرے لہجے میں کہا۔
’’خیر ڈاکٹر کے پاس کل بھجوائیں گے۔۔۔لیکن کیسی جیتی جاگتی آنکھیں ہیں۔۔۔‘‘ آپی بولیں۔
یہ چھمو سے میری پہلی ملاقات تھی۔ دراصل یہ ملاقات بیگم صاحبہ کے طفیل ہوئی، اس کاذکر میں پہلے بھی کر چکی ہوں اور بیگم صاحبہ سے ملنا آپی کی بدولت ہوا۔ آپی اور ان کا بہت گہرا بہناپا تھا۔ اسی لیے انہیں مجھے دیکھنے کا اشتیاق ہوا اور میں انہیں ملنے کی مشتاق ہوئی۔ بیگم صاحبہ اپنے کالے کلوٹے نواب صاحب کی چہیتی بیوی تھیں۔ ان کے حرم میں اَن گنت نوکرانیاں تھیں۔ ان کے سکھ کے لیے ہر ایک ہاتھ باندھے پھرتی تھی۔ صحن میں نواب صاحب نے بجلی کا پنکھا لگوا رکھا تھا۔ سارا سارا دن چھڑکاؤ ہوتا۔ ذرا وہ کروٹ بدلتیں۔ ہائے کرتیں تو ڈاکٹر کے لیے گاڑی روانہ کردی جاتی۔۔۔ذرا ان کا جی پریشان ہوتا تو نواب صاحب دبے پاؤں قریب آتے۔ پھر پاس بیٹھ کر پہروں درود پڑھتے اور پانی دم کر کے بس ایک گھونٹ پی لینے پر اصرار کرتے نظر آتے۔
انہیں اپنی چہیتی بیوی سے بہت محبت تھی۔ یہ اور بات ہے کہ کبھی کبھی سبو اور کبھی میراثن کے ہاتھوں میں اچانک سونے کی انگوٹھیاں جھلملانے لگتیں۔ ان کے بدن پر ریشمی بنیانیں اور بالوں میں پلاسٹک کے کلپ جگمگاتے اور وہ کسی منہ زور گھوڑی کی طرح بے قابو ہوجاتیں۔۔۔لیکن ان گستاخیوں کے باوجود نواب صاحب بٹھا کر بیگم صاحبہ سے کہتے، ’’چلو اپنی رعیت ہے۔ گھر سے کیا نکالیں!‘‘ لیکن ایسے واقعات بہت کم ہوتے تھے اور ایسی بدنظمی عموماً تب پھیلتی جب بیگم صاحبہ میکے چلی جاتیں یاہسپتال میں ہوتیں ورنہ زنانے میں بیگم صاحبہ کا راج تھا۔ یہاں کے اصول وہی مرتب کرتی تھیں۔ یہاں نہ کوئی پردھان منتری تھا نہ صلاح کار۔ سب کچھ بیگم صاحبہ تھیں اور خوب تھیں۔
چند دنوں بعد آپی کے اصرار پر بیگم صاحبہ کے نیاز حاصل کرنے گئی۔ اونچی اونچی قلعے ایسی دیواروں کے پاس کار رک گئی۔ بڑا سا لکڑی کا پھاٹک آدھا کھلا تھا۔ دہلیز آمد و رفت کے باعث گھس چکی تھی اور کنڈی زنگ آلود تھی۔ آپی بے پروائی سے گزریں تو دہلیز میں لگے ہوئے ایک کیل میں ان کی ساڑھی الجھ گئی۔ پرانی عمارتیں اپنا آپ منوائے بغیر آگے جانے نہیں دیتیں۔ میں نے اس چھوٹی سی ڈیوڑھی پر نظر ڈالی۔ جگہ اندھیری تھی، سیلی تھی اور حبس اس کی دیواروں میں مقید تھا۔ چارپائی پر بیٹھی ہوئی ملازمہ کا چہرہ مکڑی کاجالا بن چکا تھا۔ اس کی ہنسلی کی ہڈی پھٹے ہوئے کرتے سے جھانک رہی تھی اور بوسیدہ کمزور ہاتھوں میں رعشہ تھا۔ اس نے آپی کی طرف دیکھا، مسکرائی اور بولی،
’’بیگم صاحبہ سے ملنا ہے سائیں؟‘‘
’’ہاں۔۔۔‘‘ آپی آگے بڑھتی ہوئی بولیں۔
’’میں ساتھ چلوں۔‘‘ اس نے پوچھا۔
’’نہیں۔ بیٹھی رہو۔‘‘
بیگم صاحبہ ایک بڑے پلنگ پر بیٹھی تھیں۔ اوپر بجلی کا پنکھا چل رہا تھا اور پائنتی سبو بیٹھی ان کے پاؤں دبا رہی تھی۔ صحن کی دیواریں بہت اونچی تھیں۔ پھاندنے کے لیے تو بہت اونچی تھیں لیکن سر پھوڑنے کے لیے بہت موزوں۔۔۔پکی اینٹ اور سیمنٹ سے بنی ہوئی ان دیواروں کو دیکھ کر کسی ایسے ریچھ کی بانہوں کا خیال آتا تھا جو بستے گھر میں سے کسی عورت کو اٹھا کر لے جاتا ہے اور پھر اس کے پاؤں چاٹ چاٹ کر اسے محصور کرلیتا ہے۔ ان بانہوں کی گرفت سے چھٹکارا ممکن نہ تھا۔ محراب دار کمروں میں اندھیرا تھا۔ دروازوں میں کوئی شیشہ نہیں تھا۔ اونچے اونچے لکڑی کے تختے آپس میں یوں بھڑے ہوئے تھے گویا مرگی کے مریض کے دانت بھنچ کر رہ گئے ہوں۔ برآمدہ نما لمبے سےکمرے کے سامنے بیری کا درخت تھا جس کی پروان کسی آزاد فضا میں نہ ہوئی تھی بلکہ جسے کانٹ چھانٹ کر اس صحن کے قابل بنایا گیا تھا۔
پکے فرش، پکی دیواریں، پکے حجرے، پختہ دروازے، چھوٹی سی کانٹے دار بیری اور ان سب میں ملکہ وکٹوریہ ایسی عظیم بیگم صاحبہ، کوئی راہِ فرار نہیں۔ کوئی گریز کا راستہ نہیں۔ لیکن میں نے سنا ہے کہ پانی کا بہاؤ روک لو تو وہ اپنا رخ بدل لیتا ہے لیکن بہاؤ جاری رکھتا ہے۔ اسی حرم سے تین لڑکیاں بھاگ چکی تھیں اور اسی حرم کے متعلق سنا تھا کہ رات کے وقت عورتیں ڈولیوں میں بیٹھ کر چوری چوری حویلی سے نکلتیں اور صبح جب وہ پلٹتیں تو ان کے ہونٹوں پر پراسرار مسکراہٹ، جیبوں میں کھنکتے سکے اور آنکھوں میں ٹوٹی ہوئی نیند کا خمار ہوتا۔
بیگم صاحبہ کے پلنگ سے کچھ ہی دور اسی بیری تلے میں نے چھمو کو سر جھکائے دیکھا۔ وہ اپنے ہم عمر بچوں سے بہت دور الگ تھلگ کھڑی تھی۔ چھمو کو بچوں کے کھیلوں سے کوئی سروکار نہ تھا۔ وہ تو پاؤں کے انگوٹھے سےفرش رگڑتی ہوئی بہت دور کی سوچ رہی تھی۔ آج اس کے بال کسی نے بڑے تکلف اور پریت سے بنائے تھے اور ہونٹوں پر باسی لپ سٹک کی ہلکی سی تحریر باقی تھی۔
’’چھمو! نسیم بانو! دیکھو ہم تو اتنی دور سے صرف تمہارے لیے آئے ہیں۔‘‘ میں نے دلار سے پکارا۔
’’سائیں! یہ کرموں جلی ہے ہی ایسی۔۔۔جو دیکھتا ہے مرمٹتا ہے۔‘‘ سبو نے بظاہر چڑ کر کہا۔
’’اچھی صورت کا کون متوالا نہیں ہوتا۔۔۔‘‘ ایک بڑی بوڑھی نے لمبی سی سانس بھر کر بات کی۔ ان کی تسبیح کے دانے لمحے بھر کو رک گئے۔ جیسے ماضی کی بھول بھلیوں میں اپنے ساتھیوں کی تلاش میں نکلے ہوں۔
’’ہاں! سبھی اچھی صورت پر جان دیتے ہیں۔ آپی راجے کو دیکھا ہے ناں آپ نے؟ میرا بڑا لڑکا ہے بالی! وہ اس پرجان چھڑکتا ہے۔‘‘ بیگم صاحبہ بولیں۔
’’اب لڑکا کہاں لگتا ہے۔ اچھا خاصا معتبر بھائی بن گیا ہے۔‘‘ آپی نے کہا۔
’’جب بھی اندر آتا ہے چھمو سے باتیں شروع کر دیتا ہے۔ اس کےلیے ربن لاتا ہے۔ کلپ لاتا ہے اور جانے کیا کیا کرتا رہتاہے۔‘‘ بیگم صاحبہ نے کہا۔ سبومیز پر برف اور شربت سے لدا ہوا جگ رکھ رہی تھی۔ اس کا ہاتھ ذرا سا لرزا اور شربت چھلک کر میری جانب لپکا۔
’’شوہد سے کسی کام لائق نہیں ہوتے نالائق۔ آپ کے کپڑے تو خراب نہیں ہوئے!‘‘ بیگم صاحبہ نے قہر آلود نظروں سے سبو کی جانب دیکھ کر بڑی لجاحت سے کہا۔
’’نہیں نہیں۔‘‘ میں جلدی سے بولی۔ سبو نے تشکر آمیز نظروں سے میری جانب دیکھا اور پھر گیلا میزپوش گلاسوں کے نیچے سے نکالنے لگی۔
’’دیکھیے۔ ابھی پرسوں کی بات ہے راجا یہاں بیٹھا تھا۔ چھمو اس کے گھٹنے کے ساتھ لگی کھڑی تھی۔ راجے نے پوچھا، ’’بھلا میں تیرا کون ہوں چھمو۔۔۔؟‘‘ بیگم صاحبہ نے مسکرا کر بڑے انداز سے بات کی۔ سبو قریب ہی کھڑی شربت ڈال رہی تھی، یک دم بولی، ’’آ زینب! ذرا پانی ڈال۔ میرے سرمیں درد ہے۔۔۔آ۔۔۔‘‘
’’پھر۔۔۔؟‘‘ آپی نے پوچھا۔
’’چھمو بولی بابا۔‘‘ راجے نے ہلکی سی چپت ماری اور بولا، ’’یوں نہیں کہا کرتے۔ سنا۔ بول میں تیرا کون ہوں؟‘‘ چھمو پھر بولی۔ بابا!‘‘
’’اچھا۔ بابا کہتی ہے راجے کو۔‘‘ آپی نے مسکراکر کہا۔
’’ہاں۔ دیکھو تو سہی اور وہ تو آپ بچہ ہے ابھی۔ بھلا اس کا باپ کیونکر ہوا۔۔۔نواب صاحب قریب ہی بیٹھے تھے۔ کہنےلگے، رعیت اولاد ہی ہوتی ہے۔ پھر کیا ہوا۔ بابا کہتی ہے تو کہنے دو۔۔۔نواب صاحب بھی کبھی کبھی بڑی بھولی باتیں کرتے ہیں۔‘‘
جب بیگم صاحبہ نے بقول ان کے زبردستی ہمیں دال ساگ کھانے کے لیے رکھ لیا اور ہمیں مرغن کھانوں سے لدے ہوئے میز پر لا بٹھایا تو میں نے دیکھا، چھمو بیگم صاحبہ کے پیروں کے پاس بلی کے ساتھ بیٹھی ہڈیاں چاٹ رہی تھی۔ شاید وہ ہمیشہ یہیں بیٹھتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں مفلس بچے کی بھوک نہ تھی۔ محروم بچے کی حرص نہ تھی۔ بس وہی ایک سوال تھا۔۔۔میں کون ہوں؟ میں کون ہوں؟
جب ہم واپس لوٹے تو رات کافی جا چکی تھی۔ گرمی اور حبس کے باوجود سارا شہر سو رہا تھا۔ گلی کےکتے بھی مارے آلکس کے ادھر ادھر لیٹے غرا رہے تھے۔ چاند ایک بادل کے چھوٹے سے ٹکڑے سے منہ پونچھتا ہوا نظر آتا تھا اور اونچے اونچے کھجور کے درخت اپنی لمبی لمبی انگلیاں پھیلا کر ہوا کے لیے جان توڑ رہے تھے۔ کار فراٹے بھرتی جا رہی تھی۔
’’توبہ۔ ان لوگوں کی زندگی بھی کیا ہے۔‘‘ آپی بولیں۔
’’ان کے لیے بہت خوب ہے آپی۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’وہ چھمو تمہیں بہت پسند آئی ہے؟‘‘ آپی نے پوچھا۔
’’وہ بچی ان دیواروں کے خلاف ایک ہلکی سی صدائے احتجاج ہے لیکن یہ صدا اتنی کمزور ہے کہ جلد ہی ڈوب جائےگی۔‘‘
’’اچھا پھر وہی افسانوی جملے۔۔۔ہاں پرسوں ان کی دعوت پر چل رہی ہو ناں؟‘‘
’’چل پڑیں کے۔۔۔‘‘ میں نے بددلی سے جمائی لے کر کہا۔
’’بھئی ضرور چلنا۔ تمہارے لیے تو میرا ثنیں بلائی جا رہی ہیں۔ مجرا ہو رہا ہے۔۔۔ان کی زندگی بھی خوب ہے۔ مجرے اور میراثنیں تو اب افسانوں کی باتیں لگتی ہیں لیکن ان کے ہاں ابھی وہی رنگ ڈھنگ ہیں۔ نواب صاحب بھی خوب رنگیلے ہیں اور اب راجا ان کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔‘‘
’’جی؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’بالی۔ میں نے سنا ہے چھمو راجے کی بیٹی ہے اور پھر یہ بھی سنا ہے کہ سبو میں نواب صاحب بھی۔۔۔لیکن خیر۔۔۔‘‘ آپی نے بڑی شرمساری سے کہا۔ وہ کسی کی بری بات بتاتے وقت خود مجرم سی بن جایا کرتی تھیں۔ میں نےان کی طرف نظر اٹھاکر نہیں دیکھا۔
بیگم صاحبہ کی ضیافت پر جانا ہی پڑا۔ اول تو ان کا خلوص بھرا اصرار ہی تھا۔ پھر اس چھمو کے بارے میں جو ایک کرید سی مجھے لگ گئی تھی وہ مجھے بار بار ان کے ہاں لے جاتی تھی، بڑی سخت گرمیاں تھیں۔ لو ہر طرف کسی دیوانی عورت کی طرح بھاگتی پھرتی تھی اور سورج کی آب و تاب تو ایسی تھی کہ ہر ایک چیز کندنی نظر آتی تھی۔ بیگم صاحبہ کے وسطی ہال میں پانچ چھ بڑے بڑے پلنگ بچھے تھے اور ان پر لحاف اور رضائی جیسی پھولی پھولی عورتیں بیٹھی تھیں۔ ان کا لباس قیمتی ضرور تھا لیکن اس پھوہڑپن سے پہن رکھا تھا کہ تمام کی تمام بزاز کے گٹھر لگتی تھیں۔ پتلی قمیصوں سے نیفے اور پیٹ کی جھلکیاں نظر آتی تھیں اور کھلے پائنچوں میں اڑسے ہوئے پیر پھٹے ہوئے اور غلیظ تھے۔
کچھ ہی فاصلے پر ایک چارپائی کے ساتھ چھمو چمٹی ہوئی ایک عورت کی باتیں منہ کھول کر سن رہی تھی۔ اس کی آنکھیں اور بھی کشادہ ہو گئی تھیں اور لب اور زیادہ لٹک رہے تھے۔ جس عورت میں چھمو اس قدر دلچسپی لے رہی تھی اس کا جسم متناسب اور رنگت سانولی تھی۔ بالوں کی پیٹیاں کانوں سے چمٹی ہوئی تھیں۔ پان کا لاکھا اور لپ سٹک لبوں پر جمی تھی اور سارے دانت پان کے استعمال کے باعث کتھئی نظر آتے تھے۔ اس کے کپڑے تو سادہ تھے لیکن باتوں میں سادگی نہ تھی کیونکہ جب وہ بات کرتی تو قریب ہی قہقہوں کا ننھا سا بھنور اٹھتا اور بڑے بڑے ہیولے ڈولنے لگتے۔ ان آنکھوں میں جسمانی بھوک اتنی دیر رہی تھی کہ اب پردے پڑنے ناممکن تھے۔ اس نےآنکھ مار کر چھمو سے پوچھا، ’’تیرا بابا کہاں سے چھمو۔۔۔!‘‘
چھمو نے نگاہیں اٹھاکر اس دروازے کی طرف دیکھا جو مردانےمیں کھلتا تھا۔ کئی معنی خیز مسکراہٹیں ابھریں اور اسی عورت نے بڑی طرحداری سے کہا، ’’چھمو! کیوں اپنے بابا کے پاس کبھی گاؤں نہیں گئی کیا؟‘‘ مسکراہٹیں پھیل کر قہقہہ بن گئیں اور ایک بی بی بولیں، ’’سنا ہے سبو سے جھگڑا ہو گیا ہے اس کے شوہر کا۔‘‘
میں نے اس عورت کے متعلق بیگم صاحبہ سے پوچھا تو وہ بولیں، ’’اب تو کام چھوڑ دیا ہے لیکن پانچ سال پہلے اس کا بڑا کاروبار تھا اور جیسے ہماری ذاتیں ہوتی ہیں نا؟ اور سید ذات سردار ہوتی ہے بالکل ایسے ہی ان لوگوں کی بھی ذاتیں ہوتی ہیں۔ یہ بھی سردار قوم سے تعلق رکھتی ہے۔ یعنی ہزاروں والی ہے روپیہ اٹھنی والی نہیں۔۔۔سمجھیں بالی؟‘‘
ہم نے کھانا کھایا تو مجھے چھمو کی تلاش تھی لیکن ایسی افراتفری میں اس کا ڈھونڈنا مشکل تھا۔ میز پر سیروں بھنا ہوا گوشت دھرا تھا تو کرسیوں میں منوں من کچا گوشت لدا ہوا تھا۔ جب میں ہاتھ دھونے کے لیے اٹھی تو میں نے دروازے کے ساتھ چھمو کو ایک ہڈی چباتے ہوئے دیکھا۔ اس کے ساتھ ایک خوبصورت سا لڑکا سفید شلوار قمیض پہنے کھڑا تھا اور صرف بالشت بھر اس سے اونچا تھا۔ اس کے دونوں ہاتھ چھمو کے کندھوں پر تھے اور وہ بغیر باتیں کیے اس کی کشادہ آنکھیں دیکھ رہا تھا۔
وہی عورت پشواز پہن کر اٹھی تو پتہ لگا کہ رشیدہ بائی ہے اور اسی کا مجرا دکھانے کے لیے ہمیں بلایا گیا تھا۔ پاؤں میں گھنگھرو تھے۔ ہاتھوں میں سگریٹ تھا اور آنکھوں میں برسوں کا فنِ پذیرائی۔ قریب ہی فرش پر تین میراثنیں بیٹھی تھیں۔ ایک طبلے پر گیلا آٹا جما رہی تھی اور باقی دونوں آپس میں مشورہ کر رہی تھیں۔ رشیدہ بائی نے کان پر ہاتھ رکھا۔ سگریٹ کا گل جھاڑا اور زمین کو ٹھوکر لگا کر گانے لگی۔ اس کی آواز کھلی اور پاٹ دار تھی۔ ہلکی ہلکی مرکیاں وہ اس خوبی سے ادا کرتی تھی کہ بے ساختہ بڑے بڑے سر ہل جاتے اور عورتیں داد دینے لگتیں۔ میں نے نظر گھماکر اس طرف دیکھا جہاں چھمو کھڑی اب بھی ہڈی چبا رہی تھی۔ وہی چھوٹا سا لڑکا اس کی بانہہ گھسیٹ رہا تھا۔ چند لمحوں بعد یہ دونوں ہماری چارپائی کے ساتھ آکر کھڑے ہوگئے۔ بیگم صاحبہ نے بچے کے سر پر پیار دیا اور ہولے سے بولیں، ’’یہ محمود ایاز کی جوڑی ہے۔ یہ میرا لڑکا ہے بالی! چوتھی جماعت میں پڑھتا ہے خالہ جان کو سلام نہیں کیا جاجی؟‘‘ لڑکے نے میری جانب دیکھا۔ شرماکر آنکھیں جھکا لیں اور آہستہ سے بولا، ’’کیا تھا جی لیکن انہوں نے سنا نہیں۔‘‘
’’آؤ بیٹھو۔‘‘ میں نے اس کے لیے اپنے قریب جگہ بناتے ہوئے کہا۔ اس نے میری طرف دیکھا۔ پلنگ پوش درست کیا پھر چھمو کو اٹھاکر میرے ساتھ بٹھا دیا۔ چھمو نے ہولے سے میرے کندھے کے ساتھ اپنا سر لگا لیا اور چند لمحوں کے لیے اس کی آنکھوں میں معمولی بچوں کی سی معصومیت آ گئی۔ ہرحرم میں شاید دل بستگی کے وہی سامان ہوتے ہیں۔ یہاں سبھی لڑکیاں شادی سے پہلے گڑیاں کھیلتی ہیں۔ یہاں طوطے پلتے ہیں۔ ہرنیاں ملول پھرتی ہیں۔ ناچ گانا ہوتا ہے۔ مرغن غذائیں کھائی جاتی ہیں۔ ایک بانکی سی لڑکی نے میرا ہاتھ تھام کر کہا، ’’آؤ آپا میں تمہیں اپنی گڑیا کا جہیز دکھا کر لاؤں۔‘‘
جب میں بڑے تردد سے بنایا ہوا جہیز دیکھ کر پلٹی تو رشیدہ بائی کا رنگ خوب جم رہا تھا۔ محفل پر حال کی سی کیفیت طاری تھی لیکن کچھ ہی دور طوطے کے پنجرے کے پاس چھمو اور جاجی ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈالے کھڑے تھے اور جانے کیا سوچ رہے تھے۔ چھمو کا منہ کھلا تھا اور جاجی کی آنکھیں کشادہ ہو کر رہ گئی تھیں۔
یہ بڑا تھکا دینے والا دن تھا اور بڑی لمبی بور کرنے والی عورت تھی۔ اس کے بعد میں ایک مہینہ بیگم صاحبہ کے ہاں نہ گئی اور اس ماہ کے گزرتے ہی ابی نے ایک دن آکر یہ خبر سنائی کہ ان کا تبادلہ گجرات ہو گیا ہے۔ سامان بٹورتے باندھتے مجھے یہ بھی بھول گیا کہ کوئی بیگم صاحبہ بھی ہیں اور ان کے صحن میں ایک مجسم معمہ چھمو بھی رواں دواں ہے۔ کتنے سارے سال یونہی گزر گئے اور مجھے کبھی آپی کے پاس جانے کا اتفاق نہ ہوا۔ لیکن پچھلے سال پورے دس سال کے بعد میں آپی کے پاس چھٹیاں گزارنے گئی تو ایک دن وہ مجھے اپنی بیگم صاحبہ کے پاس لے گئیں۔
بیگم صاحبہ کا دیواروں سے گھرا ہوا حویلی نما مکان ویسا ہی تھا۔ اس میں نوکرانیوں کی چلت پھرت اسی طرح تھی۔ وہی مرغن کھانے، وہی بیری کا درخت تھا، وہی آنگن کا پنکھا تھا۔ صرف بیگم صاحبہ کے بال بیشتر سفید ہو چکے تھے اور وہ پلنگ پر لیٹی ہوئی تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے گلہ آمیز لہجہ میں کہا، ’’یہ آپ کی اچھی بہن ہے کبھی ہماری سار ہی نہیں لی۔‘‘
’’جی یہ ایسی ہی بھولن ہار لڑکی ہے، مجھے بھی تو خط تک نہیں لکھتی۔‘‘
معاً مجھے چھمو کا خیال آ گیا اور میری نگاہیں اسے تلاش کرنے لگیں لیکن صحن میں ویسی کوئی صورت نظر نہ آتی۔ کچھ ہی دور ایک پلنگ پر ہماری جانب پشت کیے ایک لڑکی لیٹی تھی لیکن اس نے منہ پر دوپٹہ لے رکھا تھا اور یوں لگتا تھا جیسے عرصہ سے اسی پلنگ پر اسی طرح لیٹی ہے۔ باتوں میں گھنٹہ یوں ہی گزر گیا اور شاید بہت سا وقت گزر جاتا اگر کراہنے کی آواز سنائی نہ دیتی۔ دھیرے دھیرے یہ کراہٹ بلند ہوتی گئی۔ پھر اسی لڑکی نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں اور کروٹیں بدلنے لگی۔ آہستہ آہستہ یہ کروٹیں لوٹنیاں بن گئیں اور اس کے لبوں سےایک ہی جملہ صدا بن کر نکلنے لگا، ’’ہائے میری ماں میں مرتی ہوں۔۔۔میری ماں میں مرتی ہوں اور تمہیں خبر بھی نہیں۔۔۔‘‘
اس کے بھورے بال تکیے پر بکھر گئے۔ آنکھوں کی پتلیاں پھیل گئیں اور وہ کسی دیوانی عورت کی طرح ہیبت ناک نظر آنے لگی۔ بیگم صاحبہ نے ناک بھوں چڑھائی اور پکاریں، ’’او سبو آ۔ اپنی لاڈو کو دیکھ۔‘‘ سبو آئی۔ میں نے دیکھا وہ عورت وقت سے بہت پہلے بوڑھی ہو چکی تھی۔ خوبصورت تو وہ کبھی تھی ہی نہیں لیکن اب تو کسی جلی ہوئی لکڑی کی یاد دلاتی تھی۔ وہ پلنگ کی پائنتی بیٹھ کر لڑکی کے پاؤں دبانے لگی۔
’’بالی! شاید آپ کو یاد نہ ہو۔ یہ چھمو ہے۔ اچھی بھلی لڑکی تھی۔ میں تو اپنے ایک مزارعے سے اس کی شادی بھی کرنے والی تھی۔ اب یہ بیمار ہو گئی ہے۔ ہسٹریا کے دورے پڑتے ہیں۔۔۔میں تو کہتی ہوں۔۔۔‘‘
’’ہائے ہائے۔۔۔‘‘ میں اٹھتے ہوئے بولی۔
’’میں نے راجا اور جاجی سے صلاح کی تھی۔ کہنے لگے ابھی چند سال پڑی رہنے دو۔ صحت اچھی ہوجائے گی تو بیاہ دینا۔ میں تو ان کی کبھی نہ مانتی لیکن نواب صاحب بھی کہنے لگے۔ پڑی رہنے دو، تمہارا کیا لیتی ہے۔ سب مکر ہے فریب ہے۔ میں جانتی ہوں یہاں سے نکلنا نہیں چاہتی مردار۔‘‘ بیگم صاحبہ کے ماتھے پر کئی شکستہ لکیریں پڑ گئیں۔
’’کیا جاجی اب بھی اس پر جان دیتا ہے؟ پتہ ہے آپ انہیں محمود ایاز کی جوڑی کہا کرتی تھیں۔‘‘ میں نے خواہ مخواہ پوچھ لیا۔ بیگم صاحبہ نے بڑے جلے ہوئے انداز میں کہا، ’’یہ کرم جلیاں ہمیشہ اونچی جگہ ہاتھ مارتی ہیں۔ آخر کوئی موری کی اینٹ کو چوبارے میں تو نہیں لگاتا نا؟‘‘
میں چھمو پر جھکی۔ میں نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ ماتھا ٹھنڈا تھا۔ نبضیں ٹھیک چل رہی تھیں۔۔۔میرے ہاتھ کے لمس کو محسوس کرتے ہی اس نے آنکھیں کھول دیں۔ یہ وہی آنکھیں تھیں جو پوچھے جا رہی تھیں،
’’میں کون ہوں۔۔۔؟ بولو نا میں کون ہوں۔۔۔؟‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.