Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

دو کھڑکیاں

محمد ہمایوں

دو کھڑکیاں

محمد ہمایوں

MORE BYمحمد ہمایوں

    کہانی کی کہانی

    لاہور کے ایک گھر کی ایک پرانی اور پر اسرار کھڑکی کا قصہ جو ایک آدمی کے لئے سوہان روح بن گئی تھی۔۔۔

    بقائی صاحب نے کئی مرتبہ آنکھیں مل کر دیکھا لیکن اس آدمی نے کفن ہی پہنا ہوا تھا اور وہ بہت رک رک کر حرکت کر رہا تھا جیسے کوئی فلمی سین اٹک اٹک کر چل رہا ہو۔

    یہ دیکھ کران کا گلا خشک ہوگیا لیکن وہ پھر بھی کھڑکی کے سامنے کھڑے رہے۔

    سنا یہ ہے کہ کھڑکی والے اس واقعے سے پہلے بقائی صاحب کراچی میں رہتے تھے لیکن جب نوے کی دہائی میں کراچی کے حالات مخدوش ہوئے اور جب بانوے میں کراچی اپریشن شروع ہوگیاتو ان کا کاروبار بھی اس کی لپیٹ میں آگیا اور یہ بوریا بستر سمیٹ کر لاہور چلے آئے اور لبرٹی میں سلے سلائے کپڑوں کاروبار شروع کیا اوردن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتے چلے گئے۔اس طرح لاہور آکر و ہ ایک طرح سے کراچی کے ہنگاموں سے تو بچ نکلے لیکن یہا ں ماڈل ٹاون کے جس گھر میں رہائش اختیار کی وہیں کی ایک کھڑکی سے نہ بچ سکے۔یوں کہیں تو بہتر ہوگا کہ کھڑکی ایک طرح سے ان کے لئے سوہان روح بن گئی۔

    ان کے متعلق آپ یہ وثوق سے کہ سکتے ہیں کہ وہ اپنی نوعیت کے واحد آدمی تھے جن پر زندگی میں کبھی بھی کوئی سختی نہیں گزری۔۔ وہ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے تھے اور تین سال کے تھے کہ والدین نے بمبئی سے کراچی ہجرت کی۔ یہاں آکر میمن برادری کے ساتھ مل کر کاروبار کھڑا کیا اور جاتے ہوئے سب کچھ بقائی صاحب کے لئے چھوڑ گئے۔ انہوں نے ساری عمر شادی نہیں کی کیونکہ ان کے بقول وہ اس قسم کے بکھیڑوں میں الجھنا نہیں چاہتے تھے لیکن پھر لاہور کے گھر کی وہ کھڑکی ان سے بری طرح سے الجھ گئی۔

    بقائی صاحب پہلی نظر میں تراش خراش سے بڑے خوش پوش قسم کے آدمی معلوم ہوتے تھے۔ اگرچہ ان کی عمر تقریبا پچاس کے قریب تھی لیکن وہ خاصے جوان دکھائی دیتے تھے۔ ہمیشہ مکمل سوٹ زیب تن کرتے تھے۔۔بغیر سلوٹوں کے۔۔ چمکتے جوتے پہنتے تھے اور ہمیشہ جدید ترین گاڑی ان کے زیر استعمال رہتی تھی۔

    جس گھر میں یہ کھڑکی تھی وہ بلاک سی میں تھا اور چونکہ سرکلر روڈ کے قریب تھا اس لئے ماڈل ٹاون باغ سے بھی دور نہیں تھا۔ آج کل کی طرح ان دنوں بھی ماڈل ٹاون خاصا گنجان آباد تھا۔

    جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ کراچی کے حالات مخدوش تھے لیکن اس کے بر عکس ملک کے دوسرے حصوں میں، خصوصاً لاہور میں، خاصا امن تھا۔ ہاں البتہ یہ ہے کہ چونکہ پنجاب میں حکومت مسلم لیگ کی تھی اور مرکز میں بی بی محترمہ کی، تو فضا میں ایک قسم کا سیاسی تناو ضرور تھا اگرچہ یہ صرف زبانی کلامی ہی بات تھی اور اس کا کاروبار اور معیشت پر بہت کم اثر تھا۔

    لاہور میں کاروباری سرگرمیاں خاصی عروج پر تھیں اور بڑے تجارتی مراکز جیسے لبرٹی، فورٹریس اور مال روڈ پر کھوئے سے کھوا چھلتا تھا۔

    کھڑکی والابنگلا اگرچہ بہت بڑانہیں تھا لیکن اس کا لان بہت وسیع تھا۔ بقائی صاحب کو بڑے بنگلے کی ضرورت بھی نہیں تھی، اکیلے آدمی تھے۔ ان کا نوکر جو بنگلے کے پچھلے حصے میں خدمت گاروں کے کمرے میں اپنی بیوی کے ساتھ رہتا تھا، ایک نیک اور ایماندار آدمی تھا اور اگر چہ صفائی وغیرہ میں بہت مستعدتھا لیکن بقائی صاحب نے اس کو سختی سے منع کیا تھا کہ وہ اس کھڑکی کو بالکل نہ چھیڑے، یہاں تک کہ اسے کپڑے سے بھی صاف نہ کرے۔

    اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ کھڑکی کے دونوں اطراف مکڑی کے، پیچ در پیچ، تاو کھاتے، جالے بن گئے جن میں مختلف جسامت کی مکھیاں، لعاب سے بنے نفیس تاروں میں لپٹی رہتیں اور تنومنداور خوش خوارک قسم کی فربہ مکڑیاں موٹی اور گول گول آنکھیں کھولے ایک چوکس گلہ بان کی طرح ان جالوں کی نگرانی پر ہمہ وقت مامور رہتی تھیں۔

    اب آپ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ بقائی صاحب صفائی پسند نہیں تھے، نہیں جناب ! وہ بڑے نفیس قسم کے انسان تھے۔ آپ کھڑکی کو اگر ایک طرف رکھیں توان کا باقی گھر اور دفتر تو وہ صفائی کا نمونہ تھے۔ خصوصاً دفترکی کھڑکی تو نہ صرف صاف اور چمکیلی تھی بلکہ انہوں نے تو ولایت سے باقاعدہ دہرا شیشہ منگوا کر اسے سرخی مائل بھورے رنگ کے قیمتی چوبی چوکھٹے میں نصب کراویا تھا اور اسے روزانہ بلا ناغہ صاف کرواتے تھے اور باقائدہ شہادت کی انگلی سے روزانہ کئی کئی مرتبہ ہلکا مس کرکے دیکھتے تھے کہ کہیں گرد تو نہیں بیٹھی۔

    دفتر کی اس قیمتی اور نسبتاً چوڑی کھڑکی سے بازار میں گاہکوں کی آمدو رفت دیکھی جاسکتی تھی اور ان کے پہناوے کے رجحانات پر نظر بھی رکھی جاسکتی تھی جو بقائی صاحب کے کاروبار کے لئے بہت ضروری بات تھی۔ وہ اس طرح کہ بقائی صاحب لوگوں کے پہناوے کا میلان دیکھ کر، جس قسم کے لباس کی ترویج چاہتے اسے اشتہاری مہم کے ذریعے عوام میں مقبول کروادیتے۔

    شاید یہی وجہ تھی کہ ان کا پی ٹی وی لاہور میں کافی اثر روسوخ تھا اور اکثر اداکاروں، اداکاراوں اور پروڈیوسروں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رہتا تھا۔ یہ سب صرف کاروبار کی ترویج کے لئے تھا ورنہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں ان کو سماجی تعلقات، معاف کیجئے گا، غیر ضروری سماجی اور خصوصاً کسی بھی قسم کے جنسی تعلقات میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

    اب یہ نہیں پتہ ایسا کیوں تھا لیکن سنا یہ ہے اور دروغ بر گردن راوی، کہ ناظم آباد میں ایک میڈیکل کی طالبہ یا کسی ڈاکٹرنی سے ان کا کچھ بہت ہی سنجیدہ قسم کا معاشقہ چلا تھا جس کا اختتام اس بات پر ہوا کہ لڑکی نے انہیں دھتکار کر کسی میمن سیٹھ سے شادی کر لی۔ یہ بھی نہیں پتہ کہ ایسا کیوں ہوا لیکن یہ ضرور سنا ہے کہ عین نکاح کے وقت مہر کے لین دین پر کچھ بدمزگی ہوئی اور لڑکی والوں نے صاف انکار کردیا۔

    اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ دن ہے اورآج کا دن ہے کبھی کسی لڑکی یا جنسی موضوع پر بات ہی نہیں کی۔ سب سے متانت سے ملتے اور انتہائی تواضع سے پیش آتے۔ دفتر میں مد مقابل چاہے مرد ہو یا عورت، عزت اور تکریم کے ساتھ پر خلوص گفتگو کرتے۔

    بقائی صاحب شروع شروع میں جب لاہور آئے تو بات چیت میں انتہائی احتیاط برتتے تھے، آہستہ بولتے تھے، زبان کی صحت کے متعلق بہت حساس تھے، روزمرہ اور محاورہ انتہائی بر محل اور الفاظ کے تلفط اور ادائیگی کا خاص خیال رکھتے تھے لیکن انہیں رفتہ رفتہ ایسے لگا کہ لاہور میں اس بات سے کچھ فرق نہیں پڑتا آپ قمیض کہیں یا کمیص، بس آئیٹم، جسے پٹھان لوگ دانہ بھی کہتے تھے، اچھا ہونا چاہیئے اور یوں ہوتے ہوتے ان کی زبان پر لاہور ی لب ولہجے کی خاص پنجابی چھاپ آہی گئی، یہاں تک کہ سِکے کو ’’ٹھیپا‘‘ اور نوٹ کو ’’پرچی‘‘بھی کہنے لگے۔

    پنجابی کیا،پشاور کے تاجر،جو ان سے مال خریدتے تھے، ان کے لئے تو انہوں نے ’’کھرے مال‘‘ کو ’’کرا مال‘‘تک کہنا شروع کیا اور یہاں تک کیا کہ جب پشاور کے کسی سیٹھ سے بڑا سودا ہو رہا ہوتا تو ان کی طرح سفید ٹوپی بھی پہن لیتے اور کرسی سے اوپر چوکھٹے میں، جس میں ایک تصویر نجف شریف کی اور دوسری مسجد نبوی کی تھی موقع کی مناسبت سے کبھی کبھار نجف شریف کی تصویر چھپا بھی لیتے۔ اس طرح کبھی کبھی پاندان دراز میں ہی دھرا رہنے دیتے تاکہ کسی مشتری کو پان کی مناسبت سے ان پہ کراچی والا ہونے کا گمان نہ گذرے۔

    اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ان کے کچھ پٹھان خریداروں کے رشتہ دار سہراب گوٹھ میں رہتے تھے اوربقائی صاحب اپنا کاروبار خراب نہیں کرنا چاہتے تھے۔ آخر کو بقائی صاحب منجھے ہوئے آدمی تھے اور یہ باریکیاں سمجھتے تھے تو ہی کاروبار میں اتنی ترقی کر پائے۔

    اچھا تصویریں انہوں نے خالصتاً کاروباری حاجت سے لگائی تھیں۔ کہیں آپ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ بقائی صاحب ذاتی زندگی میں مذہبی آدمی تھے۔ نہیں صاحب یہ بات تو پکی ہے، بقائی صاحب مذہبی آدمی ہر گز نہیں تھے۔ تجارت کے معاملے میں البتہ حد درجہ ایماندار ضرورتھے۔ اپنی اجناس کی قیمت ہمیشہ بازار سے سستی لگاتے تھے اور یوں کہیں تو غلط نہ ہوگاکہ ایک زاوئیے سے تجارت ہی ان کے لئے مذہب کا درجہ رکھتی تھی۔

    یہی وجہ تھی کہ جمعے کو چھٹی با لکل نہیں کرتے تھے کیونکہ ان کا سارامال باہر کے ممالک کی منڈیوں سے آتا تھا جو اتوار کو بند رہتی تھیں چناچہ خود بھی اتوار ہی کو چھٹی کرتے تھے۔ ان کی دکانیں البتہ سا ت دن کھلی رہتی تھیں جہاں ان کا مال دھڑا دھڑ بکتا۔

    مذہب سے یاد آیا ایک دفعہ ہوا یوں کہ کسی مذہبی مدرسے کے منتظمین ان سے ملنے آئے۔ انہوں نے حسب عادت قران اورا سلام کے بارے میں ایک طویل خطبہ دیا اور اپنی دانست میں جب یہ سمجھ بیٹھے کہ لوہا گرم ہے تو چندے کی درخواست کر ڈالی۔

    بقائی صاحب چپ بیٹھے رہے۔ یہ دیکھا تو ان کے قائد نے اپنی ڈارھی کجھائی

    ’’بقائی صاحب مسلمان کو اسلام کے لئے خون دینے بھی سے عار نہیں ہونا چاہیئے، مال تو پھر بھی چھوٹی چیز ہے۔ اب آپ ٹہرے مسلمان خاندان کے نور چشم، پکے مومن توآپ اگر صرف دو سو سفید شلوارقمیص عنایت فرمادیں تو مدرسے کے لڑکوں کا بھلا ہوجائے گا، کیا خیال ہے ؟‘‘

    بقائی صاحب دیسی پہناوے کا کاروبار تو نہیں کرتے تھے لیکن ان کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔

    مولانا صاحب اپنی دانست میں یہ سمجھ بیٹھے کہ وہ کانٹا نگل چکے ہیں اس لئے انہوں نے با آواز بلند عربی میں کچھ دعائیہ کلمات کہے۔ بقائی صاحب نے دکان کے لونڈے کو بلا بھیجا کہ ساتھ والی دکان میں کپڑوں کا آرڈر دے۔ وہ لڑکابھاگا بھاگا گیا اور حساب کا میزان اگلی دکان سے لا کر انہیں تھما دیا۔

    بقائی صاحب نے ثانیوں میں حساب کرنے والی مشین سے اس میں اپنا منافع لگا کر فٹافٹ میزان ان صاحب کے سامنے میز پر رکھ دیا۔

    وہ ہکا بکا رہ گئے اور بولے۔

    ’’قبلہ بقائی صاحب آپ اس نیک کام کے پیسے لے رہے ہیں؟ آپ جانتے ہیں یہ قران کی تعلیم اور احادیث کی ترویج کا معاملہ ہے۔ بقائی صاحب ان سفید کپڑوںمیں ملبوس طلبا جب پاک کلام۔۔۔ ‘‘

    بقائی صاحب نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں تھیں، پینترا بدلا اور جذبات سے عاری لہجے میں انہیں مخاطب کیا

    ’’مولوی صاحب آپ نے قران اور حدیث کا ذکر کیا تو میں اپنے منافع میں صرف دس روپے چھوڑ سکتا ہوں، یقین کریں پورے بازار میں یہ قیمت نہیں ملے گی آپ کو، گھو م آئیں‘‘

    انہوں نے نے مزید کوئی بات نہیں کی فورا اٹھ کر باہر چلے آئے، چہرہ سرخ، سانس دھونکنی کی مانند اور گردن کی رگیں پھولی ہوئیں، ساتھ کھڑے لونڈے کی طرف دیکھا

    ’’ اماں عجیب آدمی ہے۔۔ اس گھامڑ کو تو بالکل اندازہ ہی نہیں احسان کا، قربانی کا، خیرات کا، صدقے کا۔ یہ احمق ہر چیز کو کاروبار سمجھتا ہے۔ ارے پتا کرو یہ جھوٹ موٹ کا مسلمان تو نہیں۔ عجیب بیہودہ اور بے ڈھنگا آدمی ہے، حد ہوتی ہے بدتمیزی کی۔۔جہنم میں جائے گا‘‘۔

    بقائی صاحب نے بھی ان کے نکلتے ساتھ ہی دفتر کے لونڈے کو بلا یا

    ’’یہ چندے وندے والوں کوباہر ہی سے حاجی کریم خان کی دکان پر بھیج دیا کر۔۔۔ انہیں ثواب کا زیادہ شوق ہے۔۔یہ سالے خوامخوہ یہاں آکر اپنااور ہمارا وقت ضائع کرتے ہیں، کاروبار کے اصولوں کا تو انہیں پتہ نہیں اور اٹھ کے چلے آتے ہیں۔ ارے بھائی مسلمہ اصول ہے کاروبار کا کہ منڈی پہنچنے تک اجناس پر جوخرچہ اٹھتا ہے اس سے آپ اسی مال کو ایک دھیلا کم پر بھی نہیں بیچ سکتے، کاروبار ٹھپ ہوجاتے ہیں۔۔ اور یہ مولانا صاحب۔۔ آگئے مفت مانگنے۔۔ آجاتے ہیں‘‘

    ماڈل ٹاون کے گھر میں کھڑکی والا کمرہ بڑا تھا اور اس میں بہت ہی قیمتی سازو سامان تھا خصوصاًاس کھڑکی کے سامنے لگا صوفہ تو باہر سے درآمد شدہ اور انتہائی بیش قیمت تھا۔ کھڑکی کے عین اوپر ایک قیمتی گھڑی لگی تھی اور اُس سے ذرا دور، ایک جہازی سائز کاپلنگ تھا جس کے دونوں جانب سایڈ ٹیبل تھے۔ ساتھ ہی ایک بڑی الماری تھی جو ایک جانب کی دیوار میں پیوست تھی اور اس میں بھانت بھانت کے نئے ملبوسات سلیقے سے، کچھ لٹکے اور کچھ تہہ کئے رکھے تھے۔

    اسی الماری کے ایک حصے میں قیمتی جوتے اور ساتھ کی الماری میں مختلف انواع و اقسام اور رنگوں کی انتہائی بیش قیمت ٹائیاں ترتیب سے لٹکائی گئی تھیں۔

    خود کھڑکی دس بالشت چوڑائی اور سات بالشت اونچائی میں جنوبی دیوار میں ایسے نصب تھی کہ نہ صرف لان بلکہ پورے محلے کا نظارہ کیا جاسکتا تھا۔ اس کھڑکی کا چوبی چوکھٹا،جو شاید کسی زمانے میں ہلکے خاکستری رنگ کا تھا، اب تک بالکل سیاہ ہوچکاتھا اور مسلسل بند رہنے سے اس کے چاروں طرف کائی سی جم گئی تھی۔

    شیشے گردوغبار کی کثرت سے دھندلا سے گئے تھے یعنی کہ یہ ایک عام سی کھڑکی تھی اور اگر صفائی اور جھاڑ پونچھ کا انتظام ہوتا تو اس میں اور کسی بھی بیڈ روم کی کھڑکی میں کوئی خاص فرق نہ ہوتا لیکن اس کھڑکی کی امتیازی خصوصیت اس کی ناگفتہ بہ حالت تھی۔ مجموعی طور پریوں لگتا تھا یہ کھڑکی کسی بھوت بنگلے سے اٹھا کر اس جدیدکوٹھی کے کمرے میں لگا دی گئی تھی۔

    کھڑکی کے متعلق بقائی صاحب اتنے حساس تھے کہ ایک دفعہ ان کے دوست بخاری صاحب نے، جو لاہورٹی وی میں اشتہارات کے انچارج تھے، ان سے صرف اتنی بات کی

    ’’یار بقائی یہ کھڑکی صاف کروایا کر۔۔ کپڑا شپڑا مار دیا کر۔ دیکھو تو اس پر جالے شالے آگئے ہیں‘‘

    بس صاحب جیسے جلتی پر تیل، بقائی صاحب آپے سے باہر ہوگئے اور ان کو کھری کھری سنا دیں اور سخت ناگواری کا اظہار کیا

    ’’صاف ہی تو ہے، اور کتنی صاف کروں؟ کہاں کپڑا ’’شپڑا‘‘ ماروں؟ دیکھو، غور سے، نئے چمکیلے شیشے، دہرے، ولائتی، اپنی آنکھوں کا علاج کرواو میاں‘‘

    بخاری صاحب کو ان کا یہ روپ پہلی مرتبہ دِکھائی دیا ؛ غصے سے لال انگارہ، کانوں کی لوئیں تک دہکتی ہوئیں، تمتماتے سرخ چہرے پر تشنج کی سی کفیت اور پورا بدن لرزہ بر اندام۔وہ بھونچکے سے رہ گئے، کچھ سمجھ نہ پائے کہ انہوں نے آخر کونسی ایسی دشنام طرازی کی ہے، صرف ایک کھڑکی کی صفائی ہی کا تو کہا ہے۔ تین ہی مہینے پہلے جب انہوں نے بقائی صاحب کی دفتر والی کھڑکی کے چوکھٹے پر تنقید کی تھی تو نہ صرف انہوں نے اس نکتہ چینی کو سراہا بلکہ دوسرے ہی دن پورے چوکھٹے کو تبدیل بھی کر وادیا تھا۔اب ان کو یہ سمجھ نہیں آیا کہ اس کھڑکی کی صرف صفائی پر وہ اتنے کیوں بھڑک اٹھے ؟، بھلا اس میں ہتھے سے اکھڑ نے والی کیا بات ہے، اتنا طیش میں آنے کا کیا محل تھا ؟۔

    غصہ تو بخاری صاحب بھی ہوئے لیکن چونکہ بقائی صاحب اشتہاروں کی مد میں ان کو کچھ اضافی رقم وغیرہ بھی دیتے تھے اس لئے اپنا غصہ پی گئے۔ اس واقعہ کے بعد ان کا رویہ کافی محتاط ہوگیا۔

    کھڑکی کا معاملہ تب شروع ہوا جب دسمبر کی ایک رات بقائی صاحب کو، جب وہ گہری نیند میں تھے، باہر سے شور کی آواز سنائی دی جیسے کوئی گاڑی ان کے گھر کے سامنے رکی ہو۔وہ اٹھے اور آنکھیں ملتے ہوئے کھڑکی کی طرف بڑھے تو یوں لگا جیسے کھڑکی کے پردے آپ ہی آپ ہٹ گئے یا پہلے سے ہٹے ہوئے تھے۔

    انہوں نے دیکھا کہ کھڑکی ہمیشہ کی طرح صاف ستھری تھی، جیسے کسی نے ابھی ابھی اس کا چوبی چوکھٹا رگڑ رگڑ کر پالش سے صاف کیا ہو۔یہ البتہ حیرت کی بات تھی جب انہوں نے دیکھا کہ کھڑکی کے اوپر لگی دیوار والی گھڑی کا سرخ کانٹا رک گیا تھا۔ انہیں کچھ سمجھ نہیں آیا اور وہ گھبرائے سے کھڑکی کی طرف بڑھے لیکن ایسا کچھ اور خاص نہیں ہوا کہ وہ اسے دیکھ کر مزیدپریشان ہوجائیں۔

    انہوں نے باہر جھانک کر دیکھا تو چاندنی میں نہلائی ایک نسبتاً بڑی گاڑی دیکھی، سیاہ چمکیلی، جس کی پچھلی بتیاں لال انگاروں کی مانند دہک رہی تھیں۔ انہوں نے اپنی آنکھیں ملیں اور غور سے دیکھا۔ دفعتاً گاڑی کا دروازہ کھلا اور اس سے ایک شخص اترا، دبلا پتلا جس نے سفید کفن پہن رکھا تھا۔ یہ دیکھ کر بقائی صاحب کو جھرجھری سی آگئی اور خوف کی شدت سے ان کا سینہ جیسے جکڑ میں آگیا اور انہیں اپنی سانس اٹکتی سی ہوئی محسوس ہوئی۔

    انہوں نے جلدی سے قریب پڑی تپائی کی طرف ہاتھ بڑھایا اور وہاں سے گلاس اٹھایا۔

    عین اسی وقت موٹر گاڑی کی انجن کی آواز تیز ہوتے سنائی دی جیسے کسی نے پوری قوت سے ایکسیلیریٹر دبا دیا ہو۔ گاڑی کے عقب سے دھواں نکلنے لگا۔ یہ دیکھ کر بقائی صاحب نے آنکھیں بند کر لیں۔

    تھوڑی دیر بعد جب انہوں نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں اور دوبارہ کھڑکی سے جھانکا تو حیرت سے ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں وہ آدمی جس نے کفن پہن رکھا تھا وہیں کا وہیں کھڑا تھا اور جیسے ہی بقائی صاحب نے اس پر دوبارہ توجہ مرکوز کی اس نے حرکت شروع کی۔ انہیں یوں لگا جیسے رکا ہوا سین ان کے متوجہ ہونے کے ساتھ ساتھ دوبارہ حرکت میں آگیا۔

    یہ کیفیت دیکھ کر بقائی صاحب نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور پانی کا گلاس ایک ہی سانس میں تقریبا ً خالی کر دیا۔

    اس کے بعد انہوں نے دیکھا کہ گاڑی کی بتیاں اور زور سے دہکنے لگیں اور پورا ماحول سرخ روشنی میں نہا گیا، چاند کی دودھیا روشنی پس منظر میں چلی گئی۔ یکایک گاڑی کا دروازہ دوبار ہ کھلا اور اب گاڑی سے تنگ ساڑھی میں ملبوس کوئی جوان لڑکی لہراتے ہوئے اتری۔ اترتے ساتھ ہی اسے جیسے جھٹکا سا لگا اور وہ تقریبا ً گر گئی لیکن پھر ایسے لہرائی جیسے اسے موچ آگئی ہو۔

    لڑکی کے ہاتھ میں ایک بڑا سا بیگ تھا جس میں خدا جانے کیا تھا۔ وہ اس کفن والے آدمی پر سخت خفاہوئی لیکن بقائی صاحب کو سنائی نہیں دیا کہ و ہ کیا کہہ رہی تھی۔ پھر اندر سے کوئی آدمی آیا، شاید ملازم تھا اور اس نے کفن پوش شخص کو کچھ تھمایااور دونوں کو عجلت میں اندر جانے کا کہا۔

    دفعتا ً انہیں یوں لگا جیسے وہ سین دوبارہ رک سا گیا ہو۔ انہیں یقین تھا کہ کوئی بازاری قسم کا معاملہ ہے اور یہ کفن پوش اس عورت کادلال ہے۔ بقائی صاحب اس خیال میں اتنے کھو گئے کہ کچھ لمحوں کے لئے ان کو سب کچھ یکسر بھول گیا کہ وہ کہاں ہیں اور یہ رات کا کونسا پہر ہے۔ انہوں نے دوبارہ اپنی نظریں اس سین پر مذکور کر دیں، سین کی طرف ان کی توجہ مبذول ہوئی تو کفن پہنے وہ آدمی اور وہ عورت جسے وہ بازاری لونڈیا سمجھ رہے تھے، دوبارہ حرکت میں آگئے۔

    انہیں یوں دکھائی دیا گویا وہ عورت لہراتے ہوئے پورچ کی طرف چلنے لگی اورگھر میں داخل ہوگئی۔ پورچ کی مدھم روشی میں بقائی صاحب نے اتنا ضرور دیکھا کہ اس عورت کے خدوخال بالکل کسبی عورت کی طرح تھے ؛ حد سے زیادہ ابھراآنچل، بھرے کولہے،جن کو وہ مٹکا مٹکا کر چل رہی تھی، تھرکتے ہوئے، لہراتے ہوئے، بازاری عورتوں کی طرح۔ اس کے بعد بہت دیر تک نہ کوئی باہر آیا اور نہ کوئی اندر گیالیکن آخر میں گاڑی کے ڈرائیور کو نہ جانے کیا سوجھی کہ اس نے انجن سٹارٹ کیا، گاڑی جھر جھرائی اور فراٹے بھرتے وہاں سے چل دی۔

    بقائی صاحب کو ساری بات سمجھ آگئی، انہوں نے سوچا ہو نہ ہو وہ سامنے والے گھر میں رہنے والے مرد کی اوباشیوں کا نظارہ کر رہے ہیں جو رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر جوان چھوکریوں کو بلاتا ہے اور کفن پوش قسم کی جنسی بے راہ روی سے مغلوب ہو کر ان کے گرم بدن کا لطف اٹھاتا ہے۔ سین کے رک رک کر چلنے والی بات کی تعبیر البتہ وہ نہیں کر سکے۔

    انہیں یقین تھا کہ انہوں نے وہ کچھ دیکھا ہے جو ان کے پڑوسی لوگوں سے چھپاتے ہیں اور اپنے زہد کا ڈھنڈورا پیٹے نہیں تھکتے۔۔ اس سے ان کو گھن سی آئی۔ ان پر دوبارہ غنودگی چھاگئی اور وہ سو گئے۔

    اگلے دن کچھ نہ ہوا، دن کا آغاز معمول کی طرح تھا۔ دن چڑھے ان کی آنکھ کھلی ۔ دفتر کا وقت آدھا گزر چکا تھا۔ جاگ کر کن اکھیوں سے کھڑکی کی طرف دیکھا تو سب کچھ معمول کے مطابق تھا۔ ابھی وہ اس ہونے والے واقعے کو خواب سمجھ کر رد ہی کرنے والے تھے کہ ان کی نظر تپائی پر پڑی، جو کھڑکی کے پاس پڑی تھی اور اس پر پانی کا گلاس دھراتھا، جس کے پیندے میں شاید معمولی مقدارکا پانی اب ابھی موجود تھا۔

    یہ دیکھ کر ان کے دل کی حرکت تیز ہوگئی اور وہ کمرے کو اسی حالت میں چھوڑ کر دفتر چلے آئے۔

    شام کو گھر آئے تو وجاہت صاحب ان سے ملنے آئے۔۔ وجاہت صاحب ان کے مال کے ٹرانسپورٹ کا بزنس کرتے تھے اور شراب اور کباب کے رسیا تھے۔

    بقائی صاحب نے نوکر سے بھئیے کے کباب منگوائے اور پھر دونوں شطرنج کھیلنے لگے۔ ہلکے سرور سے محظوظ باتوں باتوں میں لڑکیوں کی بات چلی تو وجاہت صاحب نے پوچھا

    ’’ایک ذاتی سوال پوچھنا ہے، تم شادی کیوں نہیں کر لیتے ؟‘‘

    ’’میں کیوں بکھیڑے پالوں ؟ عورتوں کا کیا اعتبار کب کس کی گود میں جا بیٹھیں‘‘

    یہ کہتے ہوئے بقائی صاحب نے اپنا گھوڑا ڈھائی گھر چلایا اور وجاہت صاحب کا فیل اپنے نشانے پر لے آئے جس کے جواب میں وجاہت صاحب نے اپنا ایک مہرہ ہلایا۔

    ’’دیکھ بقائی میں نے بھانت بھانت کی عورتیں دیکھیں ہیں،؛بازاری، اونچی سوسائٹی والی، پردے والی، نوکرانیاں اور یہ صحیح ہے جو تم کہہ رہے ہو لیکن عورت ماں بھی ہے، بیوی بھی ہے اور بہن بھی ہے۔۔۔

    ’’یار یہ وعظ چھوڑو میں نے کل جو دیکھا وہ تو بتانے والی بات بھی نہیں‘‘

    بقائی صاحب نے اگلی چال چلی اور سگرٹ سلگایا

    ’’کیوں تم نے کیا دیکھا؟‘‘

    وجاہت صاحب نے ان کی چال کو تین زاویوں سے پر کھا اور پھر انتہائی مہارت سے اگلی چال چلی

    ’’بقائی وزیر بچاو‘‘

    یہ سن کر بقائی صاحب نے کل رات کا پورا واقعہ من و عن بتا دیالیکن ایک بات کا خیال رکھا، ان کو یہ نہیں بتایا کہ یہ سارا واقعہ ان کے سامنے والے گھر میں ہوا۔

    یہ وہ مقام تھا کہ وجاہت صاحب نے انہیں ’’شہ‘‘ دی۔

    بقائی صاحب نے انتہائی مہارت سے اپنی اگلی چال چلی اور زیر لب مسکراتے ہوئے کہا

    ’’تو تیرا کیا خیال ہے، دنیا بڑی دوغلی نہیں ہوگئی ہے ؟ اس گھوڑے کی طرح دہرا وار کرتے ہوئے، ایک تیر سے دو شکار۔۔ وجاہت دھیان۔۔تیراوزیر گیا‘‘

    وجاہت صاحب نے ایک لمبی سانس لی اور جام میں رہی سہی شراب اپنے حلق میں انڈیلی اور اطمینان بھرے لہجے میں کہا

    ’’ہاں دوغلی ہی تو ہے سالی لیکن تمھیں پتہ ہے کل تمھارے مارکیٹ کے حاجی صاحب کو کیا ہوا؟‘‘

    ’’کیوں کیا ہوا ان کو پرسوں تو بھلے چنگے تھے ؟‘‘

    ’’رات کو ان کو دل کا دورہ پڑا اور بیچارے فوت ہوگئے۔ مجھے ان کے ملازم نے بتایا کہ ایک ڈاکٹر کو بلا بھیجا تھا اور وہ بیچاری آدھی رات کو آئی بھی تھی، اپنے ایک میل نرس کو ساتھ لے کر۔خیر وہ لوگ رات بھر کوشش کرتے رہے لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ کمال ہے تمھیں پتہ ہی نہیں چلا، تمھارے سامنے ہی تو گھر ہے ان کا، تمہارے بیڈروم کی کھڑکی سے ان کا پورچ نظر آتا ہے۔ خیر کھیل پر دھیان دو، شاہ مات‘‘

    بقائی صاحب ہکا بکا رہ گئے جب انہوں نے بساط کی طرف دیکھا، ان کا بادشاہ وجاہت صاحب نے ایسا گھیر رکھا تھا کہ ہلنے کی بھی گنجائش نہیں چھوڑی تھی۔

    انہیں شاہ مات ہو چکی تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے