Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایک اور مکان

رفاقت حیات

ایک اور مکان

رفاقت حیات

MORE BYرفاقت حیات

    نیند کی چڑیا کا چپ چاپ اڑ جانا اس کے لیے کم اذیت ناک نہ تھا۔ لیکن یہ روز نہیں ہو تا تھا۔ کیونکہ وہ چڑیا کو تو کسی بھی وقت کسی بھی جگہ پکڑ سکتا تھا۔ مثلاً بس میں سفر کرتے ہو ئے یا گھر میں اخبار پڑھتے ہو ئے۔ بس ذرا آنکھ میچنے کی دیر تھی۔ لیکن اب جسم کے اعضاکی خستگی کے سبب وہ اس کی پکڑ سے نکلنے لگی تھی۔ وہ خود کو سمجھا تا رہتا تھا کہ اس کی وجہ شام کے سائے کی طرح ڈھلتی ہوئی عمر نہیں ہے۔ جیسا کہ اس کی بیوی اور بچوں کا خیال تھا۔ بلکہ وہ منتشر الخیالی ہے، کسی بھی فرد سے، جس کا اظہار ناممکن تھا۔ ہلکی پھلکی ٹرنکو لائزر کا ستعمال بھی کارگر نہ ہو سکا تھا۔ ہائی پوٹینسی کی گولیاں لینے سے وہ کترا تا تھا کہ کہیں عادی نہ ہو جائے۔

    آج پھر ایسا ہوا تھا۔ لیکن آج ٹوٹتی ہوئی نیند کے ساتھ ٹوٹے پھوٹے خوابوں کا سلسلہ بھی تھا، وہ جسے ایک ہی خواب کا تسلسل سمجھنے لگتا تھا۔ اس گورکھ دھندے میں اسے بہت کچھ دکھائی دیا تھا۔ مسخ شدہ چہرے، جو آشنا لگتے تھے۔ مبہم اور نامانو س لہجے، جن میں اپنا ئیت محسوس ہو تی تھی، بے نام گلیاں، ویران بازار، شکستہ عمارتیں اور گم صم لوگ، سارے خواب ریت پر لکیروں کی طرح تھے، جو ہوش مندی کی ایک لہر کو بھی سہار نہیں سکے تھے۔

    وہ رشک بھری نظروں سے برابر والی کھاٹ کو دیکھنے لگتا تھا۔ جس پر دھیمی سانسوں کی تان میں کھوئی، اس کی بیوی سورہی تھی پہلے ایسے موقعوں پروہ معمولی حسد کے زیرِ اثر کھاٹ سے اتر جاتا تھا اور اندھیرے میں سلیپر ڈھونٹتے ہو ئے پاؤں کسی چیز سے ٹکرا دیتا تھا، خفیف سے شور سے بھی اس کی بیوی جاگ اٹھتی تھی اور جاگتے ہی صبح سے شام تک کے کاموں کی فہرست سنانا شروع کر دیتی تھی۔ یا کسی خواب کے ٹوٹنے پر افسوس کر نے لگتی تھی اور صبح کو اپنی نیند کی غارت گری کی داستان کئی مرتبہ دوہراتی تھی۔ نادانستہ ہو نے والی غلطی کو وہ کئی بار دوہرا چکا تھا۔

    اس طرح تنہائی بھی مٹ جاتی تھی اور ایک لمحاتی تسکین بھی ملتی تھی۔ وہ ایسی غلطیوں کو دوہرا نے سے باز نہ رہتا مگر تکرار سے اکتا گیا تھا۔

    غسل خانے کے فرش پر پانی گر نے کی آواز سن کر وہ چونکا تو، مگر آنکھ نہیں کھولی۔ اس کی بوجھل سماعت نے اس آواز کو برسات کی ٹپ ٹپ سے ملا دیا۔ اس کی ہڈیوں میں ٹھنڈ کی لہر دوڑ گئی۔ اس نے کھیس کو سر پر تان لیا اور خوامخواہ مسکرانے لگا۔ شاید تخیل کے بوسیدہ اڑن کھٹو لے پر وہ سر مئی بادلوں کے پیچھے بھاگنے لگا تھا۔ ہلکی ہلکی بونداباندی لطف دے رہی تھی۔

    دروازہ کھلنے کی چرچراہٹ سے وہ بڑبڑا گیا۔ اس نے کھیس اتار کر دیکھا تو اس کی بیوی کپڑے درست کر تی غسل خانے سے نکل رہی تھی۔ وہ غلط فہمی پر مسکرایا لیکن بولا کچھ نہیں۔ کھڑکی کی طرف منہ کیے لیٹا رہا۔ وہ جانتا تھا کہ اب اس کی بیوی نماز پڑھے گی۔ شاید وہ یہ بھی سوچ رہی ہو کہ میں اٹھ کر اس کے لیے چائے بنا لاؤں گا۔ وہ خود کو ملامت کر نے لگا کہ میں نے اس کی عادتیں خراب کر دی ہیں ورنہ برسوں تک یہ خیال اسے خواب میں بھی نہ سوجھا ہوگا۔ کچھ بھی ہوجائے چائے وہی بنائے گی۔ اس نے آخر ی فیصلہ سنایا۔ لیکن وہ خائف بھی تھا کہ نماز پڑھنے کے بعد اگر وہ کمر سیدھی کر نے کے لیے جائے نماز پر لیٹ گئی اور چائے بنانے کی فرمائش کر ڈالی تو کیا ہوگا۔ اس نے خود کو سمجھایا کہ اسے میرے جاگنے کا پتہ نہیں چلا اسی لیے مجھ پر ایک نظر بھی نہیں ڈالی۔

    جائے نماز سمیٹنے کی آواز سن کر اس نے سکون کا سانس بھرا، باورچی خانے میں برتنوں کا شور سن کر وہ سمجھ گیا کہ اس کی بیوی کو اس کے جاگنے کی خبر ہو گئی ہے۔ وہ کروٹ لے کر سیدھا لیٹ گیا۔ بستر چھوڑنے سے پہلے وہ چند لمبے سانس لینا چاہتا تھا۔ اس نے جسم کو سانسوں کے فطری بہاؤ پر چھوڑ دیا۔

    وہ جانتا تھا کہ آج کا دن گھر پر گزارنا ہے۔ وہ چاہے تو دیر تک آرام کر سکتا ہے۔ لیکن وہ کل رات والی بات نہیں بھولا تھا۔ جب آرام کے دن کا اعلان کرتے ہی منجھلا بیٹاعارف اسے گھورنے لگا تھا۔ اس کی ضعیف سماعت نے چھوٹے بیٹے کی بڑبڑاہٹ بھی سن لی تھی۔

    جبکہ بڑے والے کی لاتعلقی پر وہ مسرور ہوا تھا۔ مگر اب وہ سوچ رہا تھا کہ ناصر کو اس کی حمایت میں کچھ تو کہنا چاہئے تھا، ہفتے میں دودن کی چھٹی اس کی عمر کا تقاضا ہے، یوں بھی کاروبار چل نکلا ہے، وہ بچے تو نہیں ہیں۔ اگلے ہی لمحے وہ ایک شدید احساس کے زیر اثر سوچنے لگا کہ میں ان بدبختو ں کا باپ ہوں، اپنی مرضی سے جو چاہے کر سکتا ہوں، آئندہ جب جی میں آئے گا چھٹی کر لو ں گا۔

    وہ اپنے خون میں اس فیصلے کی حرارت کو محسوس کر رہا تھا لیکن وہ نہیں چاہتا تھا کہ جب اس کے بیٹے نیند سے اٹھیں تو وہ بستر پر لیٹا ہو ا نظر آئے۔

    وہ غسل خانے سے نکل کر برآمدے میں گھر کے اکلوتے واش بیسن تک گیا۔ اپنی بیوی کی طرح وہ غسل خانے کے نل سے ہاتھ منہ نہیں دھو تا تھا جب وہ اچھی طرح منہ دھو چکا تو اس نے دیکھا کہ واش بیسن جھاگ آلود پانی سے بھر گیا ہے۔ وہ گھر کے افراد کو کوسنے لگا۔ اسی لمحے باورچی خانے سے بھی ایک بڑ بڑاہٹ سنائی دی اس نے جھاڑو کے تنکوں کی مدد سے سوراخوں کو صاف کیا پھر ہاتھ دھوتے ہو ئے شیشے میں چہرے کو غور سے دیکھنے لگا۔ جو تھوڑی سی جھر یو ں کے علاوہ بڑھاپے کی ظاہری کی علامتوں سے پاک تھا۔ وہ نیم سفید بالوں کو دیکھتے ہو ئے سوچنے لگا کہ کالا کو لااستعمال کیے تین دن گزر گئے۔

    وہ کھاٹ پر تکیوں سے ٹیک لگائے دیوار پر بنے نقوش کو گھور رہا تھا کہ اس کی بیوی ایک ہاتھ میں کپ اور دوسرے میں چائے سے بھرا مٹی کا کٹورا تھامے داخل ہو ئی۔ کپ لیتے ہی وہ حریصانہ چسکیاں بھر نے لگا۔ جبکہ اس کی بیوی پائیتی بیٹھ کر سکون سے چائے پینے لگی۔ کمرے کی خاموشی پر چائے پینے کی آوازیں جر ح کر نے لگیں۔

    وہ پہلی بار اپنی بیوی پر نگاہ ڈالتے ہو ئے بولا’’تم مٹی کے کٹورے میں کیوں چائے پیتی ہو، گھر میں پیالیاں کس لیے ہیں‘‘۔

    وہ ایک سڑکی لگاتے ہو ئے بولی۔ ’’چائے جلدی ٹھنڈی ہو جاتی ہے پھر باپ دادا کے علاقے سے تعلق بھی جڑ ارہتا ہے‘‘۔

    ان کے خاموش ہو تے ہی سڑکی بھر نے کی آوازیں مکالمہ کر نے لگیں۔

    ’’آج نیند نہیں آئی، جسم میں درد ہے، اور آنکھیں بھی جل رہی ہیں‘‘۔

    ’’اچھا ہوا تم نے میری نیند خراب نہیں کی‘‘وہ معصومیت سے بولی۔

    اس نے کپ کو فرش پر رکھ دیا، پھر تکیے کے نیچے سگریٹ کے پیکٹ کو ٹٹولتے ہو ئے کہنے لگا ’’ایک ہی بار پیشاب کے لیے کھاٹ سے اتر اتھا پھر کروٹیں ہی بدلتا رہا‘‘۔

    ’’رات پیشاب نے مجھے نہیں جگایا ورنہ روز دوایک بار نیند خراب ہو تی ہے‘‘۔ وہ مسکراتے ہو ئے بولی۔

    اس نے دن کا پہلا سگریٹ سلگایا۔ کش لگا تے ہی کھانسنے لگا۔ بلغم کا لچھا فرش پر اچھا لتے ہو ئے اس نے شور کو سنبھالا پھر کھنکار کر گلہ صاف کیا تاکہ باآسانی گفتگو کر سکے۔

    اس کی بیوی نے ناک پر دوپٹہ رکھتے ہو ئے برا سامنہ بنایا ’’روز فنائل کے پانی سے رگڑ کر پوچھا لگا تی ہوں۔ پھر بھی کمرے سے کبھی بو نہیں جاتی فرش سے داغ بھی نہیں اتر تے‘‘۔

    وہ سگریٹ پینے میں اتنا منہمک تھا کہ جیسے یہ باتیں کسی اور سے کی جا رہی ہوں۔

    وہ دھوتی سے منہ صاف کر تے ہو ئے بولا۔ ’’رات بہت خواب دیکھے۔ نامکمل، ٹوٹوں کی شکل میں، ابھی تک آنکھوں میں چبھن ہو رہی ہے۔ ایک یاد ہے، باقی بھول گیا۔ بہت ڈراؤنا خواب تھا، میں سمجھا کہ سچ مچ ایسا ہو گیا‘‘وہ خواب کی جزئیات کو ذہن میں لانے کے لیے خاموش ہو گیا۔

    ’’تم توکہتے تھے کہ خوابوں کی حقیقت نہیں ہوتی۔‘‘وہ اس کی بات دوہراتے ہو ئے بولی۔

    وہ اسے سمجھا نے لگا کہ ضروری نہیں۔ اس خواب کا بھی حقیقت سے کوئی تعلق ہو۔ یہ لاشعور کی کارفرمائی بھی ہو سکتی ہے۔ جو دن بھر کے واقعات کو جادوئی شکل دے کر شعور میں بھیج دیتا ہے۔ خواب کی ماہیت سمجھاتے ہو ئے اس نے محسوس کیا کہ وہ یہ باتیں نہیں سمجھ سکتی اور وہ اپنا خواب سنانے لگا۔ ’’ایک تنگ سی گلی تھی۔ مکان پرانے اور آگے کو جھکے ہو ئے تھے۔ شاید رات کا وقت تھا، نہیں شام تھی۔ ہاں، آسمان بادلوں سے ڈھکا ہو اتھا اور بارش ہو رہی تھی، ایک قدیم طرز کے مکان کے آگے سامان بکھرا تھا۔ بڑے بڑے صندوق، پیٹیاں، الماریاں اور کر سیاں وغیرہ۔ اس کے نزدیک ہی کچھ آدمی کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ ان کی زبان سمجھ نہیں آرہی تھی۔ ان کے لہجوں اور شکلوں سے نحوست ٹپکتی تھی۔ جیسے شیطان کے بیٹے ہوں‘‘۔

    ایک لحظے کے لیے وہ سوچ میں پڑ گیا، بڑبڑانے لگا۔ ’’میں بھی تو تھا۔ میں کہا ں تھا، ہاں، گلی میں ایک گدھا گاڑی کھڑی تھی، میں اس پر سامان لاد رہا تھا۔ اسی لیے میری کمر میں درد ہو رہا ہے۔ شاید بر سات کا پانی، نہیں، پسینا پو رے جسم سے ٹپک رہا تھا۔ اچانک ایک عورت کے بین فضا میں گونجنے لگے۔ بہت غمناک آواز تھی وہ، میں نے شک بھری نظروں سے آدمیوں کی طرف دیکھا، وہ غائب ہو چکے تھے۔ میں خوف زدہ ہو کر گلی کے آخر تک دوڑ تا چلا گیا۔ پھر لوٹ کر آیا اور مکان میں گھس گیا۔ وہ مکان کسی اور کا تھا، اندر گھپ اندھیرا تھا اور چمگادڑوں کے پروں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ میں باہر نکل آیا۔ مجھے سامان کسی جگہ پہچانے کی جلدی تھی اور سامان بہت زیادہ تھا۔ میں نے ایک صندوق اٹھایا بہ مشکل گدھا گاڑی پر رکھا کہ عورت کی سسکیاں دو بارہ سنائی دیں۔ وہ تمہاری آواز تھی، میں سہم کر مکان کی طرف دیکھنے لگا۔ اس وقت مجھے محسوس ہو اکہ گلی انسانی آوازوں سے بھر گئی ہے۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو مکانوں کی چھتیں اور بالکونیاں مردوزن سے بھری ہو ئی تھیں۔ میں دوڑ کر مکان میں گھسا۔ ایک عورت سیڑھیوں پر بیٹھی رو رہی تھی، میں نے اس کی طرف قدم بڑھا یا کہ مکان کی چھت اور دیواریں گر گئیں، مجھے لگا کہ میں۔۔۔‘‘

    اس کی بیوی عدم دل چسپی سے خواب سنتی رہی تھی، وہ جمائی لیتے ہو ئے بولی۔ ’’یہ کیسا خواب تھا، اس کا تو سر پیر ہی نہیں۔ میرے خواب تو ایسے نہیں ہوتے‘‘۔ وہ اپنے پرانے خواب سنا نے لگی۔ جن میں اس کی روح اپنے پرکھوں سے ملاقاتیں کر چکی تھی، وہ اکثر شوہر کو اس کے مرحوم فوجی باپ کے پیغام سناتی رہتی تھی۔ جب وہ اٹھ کر جانے لگی تو وہ بولا۔ ’’آج کوئی کام نہیں کروں گا مجھے آرام کی ضرورت ہے‘‘۔

    اس نے بے ساختہ ہنستے ہو ئے کہا۔ ’’تم نے کبھی میرا کوئی کام نہیں کیا۔ ہاں مسز خورشید سے ملنے تو جانا ہی پڑے گا‘‘۔

    مسلسل تیسر ا سگریٹ سلگاتے ہوئے اسے اخبار کی طلب محسوس ہو ئی۔

    جب وہ اخبار خرید کر لوٹا تو کھلی ہوئی کھڑکیوں سے کمروں میں جھانکنے لگا، جہاں اس کے بیٹے سو رہے تھے۔ اخبار پڑھتے ہوئے وہ گھرکے دوسرے حصے میں گونجنے والی آوازوں کی ٹوہ میں لگا ہوا تھا۔ کسی کمرے کا

    دروازہ کھلنے اور پھر واش بیسن پر پانی بہنے کی آواز یں سن کر وہ پہلو بدلنے لگا۔ اب تک پیٹ کی گیسوں کا اخراج فطری طریقے سے ہو رہا تھا۔ لیکن اب اخبار پڑھتے ہوئے جھک کر کچھ زور لگا نے کے بعد مشکل آسان ہو پائی تھی۔

    کچھ دیر بعد وہ جان گیا تھا کہ دوبیٹے نہادھو کر تیار ہو چکے ہیں۔ جب کہ بڑا لڑکا ابھی چائے پی رہا ہوگا۔ باہر نکلنے سے پہلے وہ کمرے میں ٹہلتا رہا۔ تین چار بیٹھکیں بھی نکالیں۔ جس سے ہڈیاں چٹخنے لگیں۔ پھر وہ پیالی تھامے باورچی خانے کی طرف گیا۔ بیٹوں نے صبح کا سلام کیا۔ باورچی خانے میں اس کی بیوی بگڑنے لگی’’جب تک چائے کا دیگڑا ختم نہ ہو جائے تمہیں چین نہیں آتا‘‘۔

    وہ خوشامد کرتے ہوئے مسکرایا۔ ’’پرانی عادت جو ہے‘‘۔ وہ جانتا تھا کہ بیٹوں کی موجودگی میں وہ اس کا مذاق اڑانے سے نہیں چوکتی۔ چائے کی تیسری پیالی کا آخری گھونٹ بھر نے کے بعد وہ اخبار کو بیٹوں کے پاس لے گیا۔ اخبار کے صفحات آپس میں تقسیم کر کے وہ مطالعہ کر نے لگے۔ وہ گفتگو کے لیے کوئی موضوع ڈھونڈ رہا تھا۔

    اتنے میں عار ف بڑبڑایا۔ ’’نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو گیا‘‘۔

    ’’ہاں دیکھو، کس جماعت کی حکومت بنتی ہے۔‘‘ اس نے موقع کا درست استعمال کیا۔

    چھوٹے بیٹے نے رائے زنی کی۔ ’’حکومت جس کی بھی ہو، نظام نہیں بدلے گا‘‘۔

    ’’تھوڑی بہت تبدیلی تو آئے گی۔‘‘

    عارف نے قہقہہ لگا تے ہو ئے کہا۔ ’’ہاں لوٹ مار کے طریقے ضرور بدل جائیں گے‘‘۔

    بڑا بیٹا ناصر پہلی بار گو یا ہوا۔ ’’آپ ہر مرتبہ امید یں باندھ لیتے ہیں۔ جب کہ آپ کے پاس ساٹھ سال کا تجر بہ ہے‘‘۔

    ’’اس لیے کہ مایوسی کفر ہے‘‘۔

    جاتے ہو ئے تینوں نے اسے تاکید کی کہ مسز خورشید کے پاس ضرور جائے اور ان سے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کرے۔ کچھ دیر کمرے کی تنہائی میں آہیں بھر نے کے بعد وہ سو گیا۔

    مزید سونے کی خواہش میں کروٹیں لے کر وہ جاگ اٹھا۔ کمرے کی تاریکی سے اس نے وقت کا اندازہ لگا نے کی کوشش کی۔ جب اس نے بتی جلا کر وقت کو چپ چاپ دھکیلتے گھڑیال پر نگا ہ ڈالی تو بڑبڑایا ’’اوہ چار بج گئے۔‘‘

    آئینے کے سامنے سر کے بچے کچھے بال سنوار تے ہو ئے اسے دو بار ہ کالا کو لا یاد آ گیا۔ اب وقت گزر چکا تھا۔ رنگائی کا یہ کام اسے اگلی فرصت تک ملتوی کرنا پڑا۔ لیکن یہ بھی اس کے ذہن میں تھا کہ بالوں کی حقیقی رنگت کی رونمائی مسز خورشید والے معاملے پر بھی اثر انداز ہو سکتی ہے۔

    لیکن افسوس کر نے کی گھڑیاں بیت گئی تھیں اور ملاقات کو ٹالنا بھی ممکن نہ تھا۔

    چند روز پہلے وہ ناٹے قد کی بد طینت خاتون اپنے دو ٹوک فیصلے سے آگاہ کر گئی تھی، وہ کچھ مہینوں سے اس کے بارے میں کئی اشارے دے چکی تھی۔ انھوں نے پرانی عادت جان کر جنہیں کوئی اہمیت نہ دی تھی۔ وہ اپنے بیٹوں سے بہت خفا تھا کہ چھوٹی موٹی گتھیوں کو خود کیوں نہیں سلجھا تے۔

    کپڑے بدل کر وہ بر آمدے میں آیا تو اس کی بیوی جائے نماز سمیٹ رہی تھی۔ ’’آپ کا آرام کا دن ختم ہو گیا یا نہیں۔ دودھ ختم ہو گیا ہے اور مسز خورشید کے ہاں بھی جانا ہے۔‘‘اس کی بیوی نے دل کی بھڑاس دو تین جملوں میں ہی نکال لی تھی۔

    گرچہ وہ گھر کے سونے پن کی عادی ہو گئی تھی۔ لیکن آج اس کی موجودگی میں بھی اسے یہ صعوبت سہنا پڑی تھی۔ وہ اپنی مصروفیت کے دوران بار بار کمرے میں جھانکتی رہی تھی۔ ہر مرتبہ وہ گہری نیند میں ڈوبا نظر آیا تھا۔ وہ باتیں کر نے کی تمنا ئی تھی۔ گھر کی صفائی کے بعد اس کا غصہ بے قابو ہو نے لگا تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ جھاڑو کے ساتھ اس نکمے پر پل پڑے۔ لیکن اگلے ہی لمحے اس خیال کی بیہودگی پر خود کو کو سنے لگی تھی۔ اس نے جن کاموں کی فہرست بنائی تھی، کچھ ادھورے رہ گئے تھے۔ آج گھر کی خاموش چیزوں کے درمیان اپنے جبڑوں کی آوازیں سنتے ہو ئے اس نے دو پہر کا کھانا کھا یا تھا۔

    دودھ کے لیے پیسے مانگتے ہو ئے اس نے اپنا ہاتھ پھیلا دیا تھا، رو پے گنتے ہو ئے اس نے سگریٹ کے لیے بھی رقم کا تقاضا کیا تھا، جو معمولی سی حجت کے بعد دے دی گئی تھی۔

    شام کی چائے کی لذت کے ساتھ دو پر لطف سگریٹ کھینچنے کے بعد وہ خود کو مسز خورشید کے پاس جانے پر آمادہ کر سکا تھا۔

    مسز خورشید نے ٹیڑھی بھینگی آنکھیں مچکاتے ہو ئے کینہ توز مسکراہٹ سے اس کا استقبال کیا۔ جب ا س نے ڈرائنگ رو م کی اشیا پر نگا ہ دوڑائی تو کسی تبدیلی کو محسوس کر نے لگا۔

    صوفے پر بیٹھے ہو ئے خوش دلی سے بولا۔ ’’کمرے میں کوئی چیز بدلی ہو ئی ہے‘‘۔ مسز خورشیداٹھلا تے ہو ئے بولی۔ ’’ہاں پرانا صوفہ بیچ دیا ہے۔‘‘

    ’’میں جب بھی آتا ہوں، کوئی نہ کوئی شے بدل جا تی ہے۔ مصروفیت کا بہا نہ تو چاہیے نا‘‘۔ اس کی چہکار میں کمی واقع نہیں ہو ئی تھی۔

    ’’کرنے کے لیے میرے پاس اور بھی بہت کچھ ہے؟‘‘

    اس نے مسز خورشید کے لہجے کی تیز ابیت کو نظر انداز کر دیا تھا، وہ اس کی وجہ بھی جانتا تھا۔ اس نے ہمیشہ پیش رفت سے گریز کیا تھا، اسی لیے وہ ان کے پیچھے پڑ گئی تھی، اس کی جمالیاتی حس کے لیے مسز خورشید کو قبول کرنا ممکن نہیں تھا، اسی لیے وہ نظریں جھکا کر باتیں کر رہا تھا جب کہ وہ ٹھنک کر ٹانگ پر ٹانگ جمائے بیٹھی تھی۔ اس نے سرخ پھولوں والے کپڑے پہنے ہو ئے تھے، وہ اپنی کلائیوں میں سونے کو چوڑیوں کی بجاتی، انگلیوں میں لعل و زمرد کی انگوٹھیوں کو گھماتی، اسے گھوررہی تھی۔ وہ چاہتا تو معاملہ سلجھ سکتا تھا، لیکن اس کے تخیل میں عورت کے بڑھاپے کی ایک مثالی تصویر موجود تھی۔ مسز خورشید جس سے کوئی لگا نہیں کھاتی تھی۔

    اس نے بچوں کا حال احوال دریافت کیا۔ خلیج میں مقیم ا س کے شوہر کے متعلق پو چھا۔

    اب ان کے بیچ خاموشی کے وقفے حائل ہو نے لگے تھے۔ ذہنی مشقت کے باوجود اسے کوئی موضوع نہیں مل رہا تھا۔ وہ اصل بات کر نا چاہتا تھا، مگر اس کی خواہش تھی کہ مہمان نوازی کے تقاضے پو رے ہو جائیں۔ کچھ دیر بعد اسے احساس ہو اکہ مہمان نوازی بھی تبدیلی کی زد میں آ گئی ہے۔ اس نے سگریٹ نکال کر سلگا لیا۔

    کھنکارتے ہو ئے اس نے بات شروع کی۔ ’’کسی مہینے ناغہ نہیں کیا۔ کر ایہ برابر پہنچاتے رہے۔ ’’جہاں پانچ سال گزر گئے۔ کچھ سال اور گزر نے دیں‘‘۔

    مسز خورشید مصنوعی آہ بھر تے ہو ئے بولی ’’مجھے پیسوں کی سخت ضرورت ہے۔ یوں بھی وہ مکان ہمارے کسی کام کا نہیں رہا‘‘۔

    ’’ہمارے لیے تو ہے۔ آپ کچھ عرصہ ٹھہر جاتیں، ہم ہی خرید ار بن جاتے‘‘۔

    ’’تین سال سے آپ یہی کہہ رہے ہیں‘‘۔

    جب اس کی بیوی کا مشورہ کارآمد نہیں ہو اتو اسے ناصر کی بات یاد آ گئی۔ ’’ہم کرایہ بڑھا دیتے ہیں‘‘۔

    ’’کرائے کی معمولی رقم سے مسئلہ حل نہیں ہوگا‘‘۔ مسز خورشید قطعیت سے بولی۔

    وہ اپنے پژمردہ چاند پر ہاتھ پھیر تے ہو ئے ملول نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔

    پیشانی سے پسینا پونچھتا ہو اجب وہ گھر میں داخل ہوا تو اس کی بیوی بیٹوں کی تواضع میں مصروف تھی۔ نعیم خفگی سے لائٹ ریفر یشمنٹ کا تقاضا کر رہا تھا۔ ’’دن بھر کے تھکے ہارے لوٹتے ہیں، چائے کے ساتھ کچھ اور بھی ہو نا چاہیے‘‘۔

    اس سے پہلے کہ اس کی بیوی کام کاج کی فہرست کا راگ الا پنا شروع کر تی، وہ ان کے درمیان جا بیٹھا۔ بیٹے سوالیہ نظروں سے اسے گھور نے لگے۔ اس نے کسی بھی سوال سے پہلے ہی بتا دیا کہ مکان خالی کرنا ہوگا۔

    ایک چھوڑی ہوئی عادت کو دوہراتے ہو ئے اس نے نہار منہ سگریٹ سلگا لیا۔ کش لیتے ہی اسے بے فکری کے دن یاد آ گئے۔ جب وہ آنکھ کھلتے ہی سگریٹ کا پیکٹ ڈھونڈنے لگتا تھا۔ ابلتے ہو ئے پانی کی سر سراہٹ نے اسے ماضی کے دھویں سے نکالا۔ گرچہ وہ جانتا تھاکہ کون سی شے کہاں رکھی ہے۔ لیکن ہڑبڑاہٹ میں وہ مصالحوں کے ڈبے ٹٹولنے لگا۔

    اس نے جائے نماز پر لیٹی اپنی بیوی کو چائے کی پیالی پیش کی، کمرے کی مدھم تاریکی میں ہر شے سائے جیسی لگتی تھی۔ وہ کسی جلد بازی میں چائے کی لمبی سڑکیاں بھر نے لگا۔ جب اس نے اپنی بیوی کو سر جھکائے خاموشی سے چائے پیتے دیکھا تو نہ جانے کیوں دل مسوس کے رہ گیا۔ وہ کرتا پہن کر گھر سے نکل آیا۔ وہ اخبار خرید نا چاہتا تھا۔ گلی میں کندھے ہلا کر چلتے ہو ئے اخبار کا تصور اس کے دل میں گرم جوشی پیدا کر رہا تھا۔ آج اس نے نیوز اسٹال کی بھیڑ میں شامل ہو کر سرخیاں پڑھیں۔ اخبار خریدتے ہی اندرونی صفحوں کو کھول کر ایک فہرست کو دیکھا۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اور جسم میں حرارت دوڑ گئی۔ اخبار بغل میں دبا ئے وہ ایک ہوٹل میں جا بیٹھا۔

    طمطراق سے چائے کا آرڈر دے کر اس نے وہی فہرست نکال لی۔ جیبیں ٹٹولتے ہو ئے اسے کسی شے کی گمشدگی کا احساس ہوا۔ پہلے والی مسرت مٹ گئی۔ اس غارت گری سے نجات پانے کے لیے اس نے خبروں میں پناہ ڈھونڈی مگر تو جہ منتشر تھی۔

    جب وہ گھر پہنچا تو اس کی بیوی باورچی خانے میں مصروف تھی۔ اس نے کمرے کی بتی جلائی۔ پھر کچھ سوچنے لگا۔ وہ بھول گیا تھا کہ لکی نمبر والی پرچی کہاں رکھی تھی۔ اسے ہر مہینے پرچی چھپا نے کے لیے نئی جگہ کی تلاش کر نی پڑتی تھی۔ اس نے بریف کیس کھولا۔ اس کے خانوں میں کاغذات ٹٹولتے ہو ئے پرچی مل گئی۔ کانپتے ہاتھوں سے اس نے نمبروں کو غور سے پڑھا، اس کے ساتھ یہی ہو تا تھا۔ نمبروں کو فہرست سے ملاتے ہو ئے اس کی سانسیں پھول جاتی تھیں۔ ہند سے ناچنے لگتے تھے۔ سگریٹ پینے سے بھی صورت حال بہترنہ ہو تی تھی۔

    پہلے کی طرح آج بھی اس نے اخبار کو کھاٹ پر پٹخ دیا اور تکلیف دہ سانس بھر نے لگا۔

    وہ ناشتہ کر تے ہو ئے بیٹوں سے کاروباری گفتگو کر رہا تھا کہ اس کی بیوی نمبر والی پرچی کو فضا میں لہراتی اس طرح کمرے میں داخل ہو ئی، جیسے گم شدہ قیمتی چیز مل گئی ہو۔ اسے اپنی بیوی پر غصہ آیا مگر خاموش رہا۔ اس نے بیٹوں کی سنجیدگی سے موڈ کا پتا چلا لیا تھا۔

    لکی نمبر وں کی خریداری اس کا قدیم مشغلہ تھا، وہ اچھے وقتوں میں کسی جواری کی طرح ان کا عادی ہو گیا تھا۔ اس کے گھر والے بھی اس مشغلے میں شریک ہوتے تھے۔ اس کے بیٹے تو نوٹ بک میں نمبر نوٹ کر لیتے تھے اور اسکول میں دوستوں کو فخر سے نمبروں کے بارے میں بتاتے تھے۔ جب کہ اس کی بیوی بھی نمبروں کو یاد کر تی رہتی تھی۔ وہ سب لوگ پرائز بانڈ کی فہرست کی اشاعت کا انتظار کر تے تھے۔ شاید یہ ان کی اجتماعی بد نصیبی تھی کہ کبھی کوئی بڑا انعام نہیں نکلا تھا۔ ہا ں ایک مرتبہ وال کلاک ضرور نکلا تھا۔

    کچھ سالوں سے اس کی بیوی اور بچوں نے یہ کہتے ہو ئے کہ نمبروں کی خریداری رقم کا زیاں ہے، اسے سختی اور نرمی سے منع کر دیا تھا۔ انہیں پرائز بانڈ کی خریداری پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ وہ ایک مدت تک بڑے انعام کی اصل رقم کے پانچ گنا ہو نے کا خواب دیکھتے رہے تھے۔ جو لاکھوں میں بنتی تھی۔

    خوابوں کی عدم تکمیل سے پھیلنے والے زہر نے انہیں اکسایا کہ وہ اس خطرناک عمل سے باز رکھیں، کئی بار کی روک ٹوک سے اس نے خوابوں کی خریداری کو پوشیدہ رکھنا شروع کر دیا تھا۔

    بیوی کے ہاتھ میں لہراتی پرچی نے اس کے خوابوں کی دنیا کو پامال کر دیا تھا۔ نہ چاہتے ہو ئے بھی اس نے اپنے عہد کو دوہرایا اور حقیقت سے تعلق جوڑنے کی قسم کھائی۔ وہ جانتا تھا کہ پرچی کی طرح اس کے خواب بھی کوڑے کا ڈھیر بن گئے ہیں۔

    شام کو اس نے اپنے دوست شفیع محمد سے ملنے کی خواہش کو محسوس کیا۔ وہ ٹوٹی پھوٹی گردوغبار سے اٹی سڑک کے کنارے ایک چھوٹے سے ہوٹل کا مالک تھا۔ جہاں صبح سے شام تک پرانی کرسی پر زنگ آلود اسٹیل کی عینک لگائے اخبار پڑھتا رہتا تھا۔

    شفیع محمد نے کاؤنٹر ٹیبل پر اخبار پھیلا تے ہو ئے اپنے دوست کو افسر دہ دیکھا۔ پھر ہوٹل کے چولہے پر جھکے آدمی کو چائے کا آرڈر دیا۔

    ’’سیٹھوں کا ستیا ناس ہو۔ ملک برباد کر دیا‘‘۔

    وہ اس کا اشارہ سمجھ گیا۔ اکتاہٹ سے بولا۔ ’’کیوں پریشان ہو تے ہو، تم نے برسوں سے نمبر نہیں خریدے‘‘۔

    وہ پیٹ کے زور پر ہنسا۔ ’’میں عقلمند ہوں۔ اس لیے ادھار اینٹھ لیتا ہوں۔ جب نمبر نہیں لگتا تو ڈانٹ کے بھگا دیتا ہوں‘‘۔

    وہ گندی پیالی میں سیاہ چائے دیکھ کربولا ’’تمہارے ہوٹل پر کبھی اچھی چائے نہیں ملتی۔‘‘

    وہ نو بجے تک وہاں بیٹھا رہا۔ جب شفیع محمد نے اپنے خوابوں کا ذکر چھیڑا تو اس نے بھی دل چسپی ظاہر کی۔ وہ ایک دوسرے کو یقین دلا نے لگے کہ ان کی قسمت بڑبڑاکر اٹھنے والی ہے۔ وہ دن قریب ہے۔ جب دونوں دوست ٹوپیاں پہنے، کندھوں پر تھیلے لٹکائے، ڈھیلی ڈھالی چڈ یاں پہنے، دنیا کی سیر کو جائیں گے۔ ملکوں ملکوں آوارہ گردی کریں گے۔ شفیع محمد بہت کڑھتا تھا کہ یہاں بڑھاپے کی زندگی میں کوئی دل چسپی نہیں۔ خدا حافظ کہنے سے قبل اس نے شفیع محمد سے کرائے کا مکان ڈھونڈنے کے لیے کہا۔

    وہ جانتا تھا کہ رات نیند کو پانا دشوار ہوگا۔ اس نے میڈیکل اسٹور سے گولی خرید لی۔ جس کے استعمال کے باوجود دیر تک کروٹیں لیتا رہا۔ ا س کا جسم شل تھا اور سر دکھ رہا تھا۔ دروازے کی درزوں سے جھانکتی روشنی کو دیر تک گھورنے کے بعد وہ کھاٹ سے اترا۔

    وہ دبے پاؤں چلتا بیٹے کے کمرے میں داخل ہوا۔ ناصر نے چونک کر کتاب بند کر دی۔

    ’’آج پھر نیند نہیں آ رہی؟‘‘اس کی سرخ آنکھیں دیکھ کر ناصر نے سوال کیا۔

    ’’گو لی بھی کھائی ہے۔‘‘وہ سگریٹ سلگا تے ہو ئے بولا۔

    ’’سگریٹ زیادہ پینے لگے ہیں۔‘‘اس نے شکایت کی۔

    ’’سگریٹ کا نیند سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘وہ ہنستے ہو ئے بولا۔ ’’ناصر، یہ تم کون سی کتابیں پڑھتے رہتے ہو کچھ فائدہ بھی ہے۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے، تم ملازمت کر تے ہو۔ لیکن حالات بھی تمہارے سامنے ہیں۔ ادب کو چھوڑو، معاشیات پڑھو۔ کوئی فارمولہ ڈھونڈو۔ کسی کتاب میں تو امیر بننے کا گر لکھا ہوگا۔ جابر بن حیان نے کیمیاگری کتابوں سے ہی سیکھی تھی‘‘۔

    ناصر زیرلب مسکراتے ہو ئے بولا ’’شاید ایسا ممکن ہو ا ہو‘‘۔

    وہ مضحکہ اڑاتے ہو ئے ہنسا ’’شاید۔ ہو نہ ہمیشہ منفی سوچتے ہو، خواہش تھی کہ تم سی ایس ایس کرو۔‘‘

    ’’لیکن تم معمولی نوکری سے مطمئن ہو گئے‘‘۔

    ’’آپ سو جائیں، صبح کو بھی اٹھنا ہے‘‘۔

    وہ اٹھا، کچھ سوچتے ہو ئے پھر بیٹھ گیا ’’اپنی امی کو سمجھا تے کیوں نہیں‘‘۔

    ’’انہیں کیا ہوا؟‘‘

    ’’کرایہ دار کو مکان چھوڑ نا پڑ تا ہے‘‘۔

    ’’ہم یہاں کے عادی ہو گئے ہیں‘‘۔

    ’’مجھے یہ مکان پسند نہیں۔ نہ روشنی آتی ہے نہ ہوا۔ بہت منحوس ہے۔ اکثر کوئی نہ کوئی بیمار رہتا ہے۔ اسی مکان میں ہمارے حالات بھی خراب ہو ئے۔‘‘وہ ٹرنکولائزر کے زیر اثر بولتا چلا گیا۔

    گم شدہ نیند پچھلی رات اسے مل گئی۔ اسی وصال کے سبب وہ تازہ دم محسوس کر رہا تھا۔ سگریٹ پیتے ہو ئے کھنکار نے کی آواز سے فرحت ٹپکتی تھی۔ اخبار پڑھتے ہو ئے وہ مزے سے بلغم کے لچھے فرش پر اچھالتا رہا تھا۔

    اس کی قوت شامہ نے کچھ محسوس کیا، وہ سمجھا کہ گلی میں کوڑ ا جلنے کی بو ہے۔ لیکن یہ مختلف بو تھی۔ اور نزدیک سے آرہی تھی۔ وہ پہچاننے سے قاصر تھا، ایک وسوسے کے زیر اثر وہ باورچی خانے تک گیا۔

    اس کی بیوی کا نپتے ہاتھوں سے چولہے میں تصویر یں جلا رہی تھی۔ سلیپر کی آواز سن کر اس نے آنسو پو نچھ ڈالے تھے۔ اس نے مڑکر نہیں دیکھا۔

    جلتی ہو ئی تصویر کی جھلک دیکھ کر وہ فوراً بولا۔ ’’یہ تصویریں کہاں چھپار کھی تھیں؟‘‘

    وہ غم سے دوہری ہوتی ہوئی بولی۔ ’’اتفاق سے مل گئیں‘‘۔

    ’’ایسی چیزیں اتفاقاً نہیں مل جاتیں۔‘‘وہ راکھ کو مٹھی میں بھر نے کی کوشش کر نے لگا۔

    وہ غم زدہ نفرت سے اسے دیکھتے ہو ئے بولی۔ ’’میں تمہارے جھوٹ کو سچ سمجھتی رہی‘‘۔

    وہ راکھ سے ہاتھ کالے کر تا رہا۔ ’’تم جانتی ہو، سب کچھ دھواں ہو چکا ہے‘‘۔

    ’’تو راکھ کیوں سمیٹ رہے ہو؟ـ‘‘وہ تلخی سے بولی۔

    ’’دیکھو کوئی تعلق پوری طرح ختم نہیں ہو تا۔‘‘

    ’’لیکن اس کی زد میں آنے والی ہر شے ختم ہو جاتی ہے‘‘۔

    وہ کچھ بھی نہیں بول سکا۔ بے چارگی سے کندھے جھکائے کمرے کی طرف لوٹ گیا۔ پہلی بار اس نے بڑھاپے کے ز ہر کو ہڈیوں میں رینگتے محسوس کیا۔

    لگا تار سگریٹ پیتے ہو ئے وہ کچھ بھولنا چاہتا تھا۔ اخبار پڑھتے ہو ئے اس کا ذہن سوچ رہا تھا۔ ’’سب کچھ تج کر دوسرے کنارے چلا گیا ہوتا۔ کاش، ایک زندگی اور مل جاتی۔ یہ زندگی تو دھند میں ٹامک ٹوئیاں مارتے گزر گئی، جن چیزوں پر فخر کر تا رہا وہ بے وقعت تھیں‘‘۔

    آوارہ بھٹکنے کی خواہش کے باوجود وہ کمرے سے باہر نہیں نکلا۔ اس کے بیٹے بھی جاگ اٹھے تھے۔ گھر کی خاموشی آوازوں سے بھر گئی تھی، بیٹوں نے ٹیپ ریکارڈر بجا نا شروع کر دیا تھا۔ مسکرانے لگا۔ ایک طربیہ گیت گنگنا تے ہوئے وہ متفکر تھا کہ اس کی بیوی تصویر وں کے متعلق بیٹوں کو نہ بتا دے۔

    کچھ دیر بعد اس کی بیوی چائے کی پیالی تھامے وارد ہوئی۔

    وہ سفید جھنڈی لہرا تے ہو ئے بولا، ’’دوپہر تک چائے پلاتی رہوگی۔ ناشتہ نہیں بنا یا کیا؟‘‘

    ’’زبردستی نوالے تو ٹھونسنے سے رہی۔‘‘وہ خفگی سے بولی اور کمرے سے نکل گئی۔

    وہ چائے پیتے ہو ئے دیواروں کی سفید ی سے جھانکتے سیمنٹ کو دیکھنے لگا۔ وہاں زائچے کھینچے ہو ئے تھے۔ بہت سی ٹیڑھی میڑھی لکیریں۔ شاید ایک آدھ لکیر مستقبل کی خستہ حالی کی نمائندہ بھی تھی۔ وہ جسے خوش حالی کی لکیر سمجھے برسوں سے ڈھونڈرہا تھا، لیکن وہ بد نصیب لکیروں کے جنگل میں گم ہو گئی تھی۔ اس نے دیوار پر اس جگہ نگاہ دوڑائی، جہاں پہاڑیوں کی اوٹ سے نکلتے سورج کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ مگر اب وہ جگہ خالی تھی۔

    جب گلی میں سوزو کی رکنے کی گھڑ گھڑا ہٹ سنائی دی تو اس کی بیوی نے حقارت سے اس کی طرف دیکھا لیکن وہ نشست چھوڑ کر دروازے کی طرف جا چکا تھا۔ اس کی بیوی نے اس لمحے اپنی بربادی اور رسوائی کو شدت سے محسوس کیا۔

    سب سے پہلے خالی پیٹی کو باہر نکالا گیا، انھوں نے فرش سے گھسٹتی ہوئی پیٹی کی دل دوز چیخیں سنیں، اس کی بیوی تلملا کر رہ گئی۔

    ’’وہ اسے اٹھا کیو ں نہیں لیتے؟‘‘وہ غم زدہ لہجے میں بڑبڑائی۔

    ’’اپنے کانوں میں روئی ٹھونس لو۔‘‘وہ بے رخی سے بولا۔

    اس کی بیوی پرانی باتیں دوہرانے لگی۔ ’’یہ پیٹی شادی کے دوسرے سال خرید ی تھی۔ تمہاری تنخواہ ان دنوں اسی روپے ہو تی تھی۔ یہ بھی ہمارے ساتھ دربدر گھومتی رہی ہے۔ اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ بہت پرانی ہو گئی ہے۔ کنڈیاں ٹوٹ گئیں، قبضے ڈھیلے پڑ گئے۔ تھوڑی سی مرمت کی ضرورت ہے۔ لیکن میرے بیٹے اس سے بچنا چاہتے ہیں‘‘۔

    ’’شاید چار پھیرے اور لگ جائیں۔‘‘ وہ سگریٹ کا کش لگا تے ہو ئے بولا۔

    ’’ہاں۔‘‘وہ اسے اکیلا چھوڑ کر اٹھ گئی۔

    وہ دیر تک گم صم بیٹھا رہا۔

    بیوی کی چہکتی ہوئی آواز سن کر وہ کسی نیند سے جاگا۔

    ’’دیکھو تو، کاغذوں میں سے کتنی پرانی تصویر ملی ہے۔ بلیک اینڈ وائٹ ہے۔ مجھے یاد ہے۔ وہ عید کا دن تھا۔ تم کسی دوست سے کیمرہ مانگ لائے تھے۔ اس وقت ناصر چار سال کا تھا اور نعیم تو اسی سال پیدا ہوا تھا۔‘‘وہ خوشی سے کانپتی آواز میں بولتی چلی گئی۔

    تصویر دیکھ کر وہ بھی ہنسنے لگا۔ اس کے بیٹے سہمے ہو ئے تھے، جب کہ وہ اپنی مردانگی پر نازاں، بیوی کے پہلو میں مسکرا رہا تھا۔ وہ گزرے ہو ئے سالوں کی باتیں کر نے لگے۔

    پرانی تصویر کی باز یافت نے اس کے لیے مصروفیت کا جواز پیدا کر دیا تھا۔ وہ کمرو ں کے فرش پر بکھرے کاغذ ٹٹولنے لگا۔ بے کار تلاش کے اس عمل میں بہت سے پرانے اخبارات، رسائل، دوستوں کے خطوط، عید کارڈ، پرانے شناساؤں کے وزیٹنگ کارڈ، فلمی اداکاراؤں کی نیم عریاں تصاویر اور بھی بہت کچھ اس کی نظروں سے گزرا، وہ پسینے میں بھیگ جا نے کے باوجود کاغذ کے ہر ٹکڑے کی طرف عجیب ہوس کے ساتھ متوجہ ہوتا۔ اس نے بہت سی چیزوں کو جیبو ں میں ٹھونس لیا تھا۔

    جب وہ تھکن سے چور ہو گیا تو اسے بیوی کا خیال آیا۔ اسے بھی ایک پٹاری مل گئی تھی۔ وہ جس میں بہت سی چیزوں کو سینت سینت کے رکھتی جاتی تھی۔

    شام سے ذرا پہلے سامان منتقل کیا جا چکا تھا۔

    اس نے ناصر کو تنہا پاکر اس کے کان میں سرگوشی کی اور اسے خالی کمرے میں لے گیا۔ جیبیں ٹٹولنے کے بعد اس نے بٹوہ نکالا، اس کے ایک خانے میں مڑا تڑا ایک روپے کا پرانا نوٹ رکھا تھا۔

    اس نے وہ نوٹ ناصر کو دیتے ہو ئے کہا۔ ’’تم بھائیوں میں سب سے بڑے ہو، جو مجھے ملنا تھا مل چکا، اب تمہاری باری ہے۔ مجھے یہ نوٹ ایک اللہ والے نے دیا تھا۔ میں نے بیس سال سنبھال کے رکھا۔ اب تم رکھو۔ یہ تم پر دولت کے دروازے کھول دے گا۔ اسے کبھی خرچ نہ کرنا‘‘۔

    ناصر اپنے والد کی پر اسرار آواز اور دل دوز لہجے کو سنتا رہا۔

    بیٹے جا چکے تھے، میاں بیوی تنہائی میں درودیوار کو گھور رہے تھے۔

    وہ گرد آلود فرش پر بلغم، پھینکتے ہو ئے بولا۔ ’’ہم نئے مکان میں جا رہے ہیں۔ یہ مکان منحوس تھا۔ نیا برکتوں والا ہوگا‘‘۔

    ’’وہ بھی کرائے والا۔‘‘اس کی بیوی آنسوؤں سے بھیگی آواز میں بولی۔

    وہ شام کے سر مئی اندھیرے میں بہت سی چیزوں کا پلند ہ اٹھا ئے پرانی گلی سے رخصت ہوئے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے