Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گرداب

MORE BYمحمد ہمایوں

    دلچسپ معلومات

    ایک ایسی لڑکی کی کہانی جس نے چپ سادھ لی تھی، تقسیم ہند کے تناظر میں لکھی گئی۔۔۔۔

    یہ دسمبر سن ستر کی بات ہے اور میری انتخابات کی ڈیوٹی کراچی میں تھی۔ میں وہاں پریزایڈنگ افسر تھا اور میرے ماتحت تین پولنگ افسر تھے۔

    ملک اس وقت شور اور شورش میں تھا، طویل تقریریں، الزامات، کچھ صحیح کچھ غلط، اور لمبے چوڑے بھاشن۔ ویسے تو شاید چوبیس پارٹیاں اسمبلی کی تین سو سیٹوں کے لئے دست و گریباں تھیں لیکن اکھاڑے میں صرف دو پہلوان، کیل کانٹے سے لیس، خم ٹھونک کے کھڑے تھے اور یوں کہیں تو درست ہوگا کہ صاحب کانٹے دار مقابلے کی توقع تھی کیونکہ دونوں جانب سے الیکشن کی تیاری خاصی جان دار تھی۔

    ذاتی مفاد اور ملکی مفاد میں کشمکش کی سی صورتحال پیدا ہوگئی تھی اور ایک زاوئیے سے تو یہ تضاد اتنا واضح ہوگیا تھا، کہ و ہ لوگ جو میری طرح اس الیکشن کے عینی شاہد ہیں، ان سب کو اس وقت یوں لگا گویا یہ الیکشن ایک نہیں دو ملکوں کے الیکشن تھے جن کے پہناوے الگ ، زبانیں مختلف، شکل و صورت میں تفاوت اور خود اہداف میں واضح تضاد تھا۔

    اس تناظر میں یہ بات بھی سامنے رہے تو بہتر ہے کہ پانچ سال پہلے محترمہ فاطمہ جناح کو دھاندلی سے شکست دینے کا زخم ابھی تازہ تھا اور گمان غالب ہے یہی وجہ تھی کہ موجودہ حکومت پر دباو تھا کہ وہ صاف اور شفاف انتخابات کروائے۔

    میں اس وقت محکمہ تعلیم میں سرکاری ملازم تھا اور نہ بھی ہوتا،انتخابی سیاست سے مجھے کبھی بھی دلچسپی نہیں رہی لیکن والد محترم کے اصرار پر جماعت کو ووٹ دینے کاارادہ تھا اگرچہ جب الیکشن کی ڈیوٹی لگی تو یہ سہولت بھی چھن گئی۔۔ میں اپنا ووٹ حلقے سے دوری کی وجہ سے نہیں ڈال سکا، ایک طرح سے ضائع گیا۔ خیر یہ ایک ضمنی بات ہے ہاں جہاں میں ٹہراتھا وہاں شیخ صاحب کے چھ نکاتی پروگرام پر گرما گرم بحث ہو رہی تھی اور غلام علی صاحب، جو بھٹو صاحب کے شیدائی تھے، کہنے لگے

    ’’اب تو یہ بات کھل کے سامنے آگئی ہے کہ اس سالے مجیب کے پیچھے کون ہے، بھارتی اور کون۔ یہ چھ نکاتی ایجنڈاندرا گاندھی کی حکومت کا تیار کردہ ہی تو ہے۔ یہ سنیں کرنسی الگ کرو، مالیہ جمع کرنے کا نظام الگ کرو اور کیا کہتے ہیں پورے بحری بیڑے کو مشرقی پاکستان لے جاو۔

    یہ کوئی بات ہے کرنے کی؟۔ مجھے یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ یہ سالامجیب ایسا صاف صاف کیوں نہیں کہتا، ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کردو‘‘۔

    پھر لمبا سانس لیا اور کھڑے ہو کر ہاتھ ہلا ہلا کر اونچی آواز میں کہنا شروع کیا

    ’’مجھے تو بس یہ سمجھ آتا ہے کہ اس سالے مجیب کو بند کیا جائے، اُلٹا لٹکایا جائے اور ایسا سبق سکھا دیاجائے کہ کل کو کوئی بھی ان بھارتیوں کا آلہ کار نہ بنے اور ملک کے دشمنوں کو ملک کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ ہو۔۔ آجاتے ہیں۔‘‘

    ہمارے ساتھ ایک دوسرے حلقے کے بنگالی بولنے والے پولنگ افسر، نظام الدین صاحب بھی تھے اور مزے کی بات یہ ہے جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تو ان صاحب نے بھی ایم ایم عالم صاحب کی طرح وہاں جانا گوارا نہیں کیا، یعنی اپنی پاکستانی شہریت ترک نہیں کی۔ آپ ایک سچے پاکستانی اور محب وطن انسان ہیں اور تا دم تحریر ملتان میں رہائش پذیر ہیں۔

    ان کی بات سننے لائق تھی۔ انہوں نے غلام علی صاحب کی پوری بات سنی اور انگریزی میں کہا

    ’’مسٹر غلام علی آپ کی بات شاید صحیح ہو لیکن ایک ملک جو دو ایسے ٹکڑوں پر مشتمل ہو جو ہزاروں میل دور ہوں، ان کے اندر ماسوائے مذہب کے کوئی بھی مماثلت نہ ہو حتی کہ زبان بھی مختلف ہو تو آپ اختلاف ضرور کریں، یہ آپ کا حق ہے لیکن میرے خیال میں شیخ صاحب کے مطالبے اور ان کا منشور، ایک طرح سے فطری امر بن جاتا ہے، نہیں؟‘‘

    پھر انہوں نے غلام علی صاحب کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لیا اور انہیں بے چینی سے کروٹیں بدلتے دیکھ کر درست اندازہ لگایا کہ وہ ان کے نکتے سے متفق نہیں ہیں۔

    خیر چہرے پر کوئی بھی تاثرلائے بغیر انہوں نے اپنی بات جاری رکھی۔

    ’’آپ اتفاق نہ کریں لیکن یہ بہر حال میرا خیال ہے۔ اب رہی بات اس سالے مجیب کو سبق سکھانے کی، اسے الٹا لٹکانے کی تو وہ تو ’’اگر تلہ کیس‘‘ میں ہوچکا۔ شیخ صاحب جیل بھی گئے اور بالکل آپ کی خواہش کے مطابق انہوں نے الٹا لٹک کرمار بھی کھائی، ذلت بھی اٹھائی۔۔اچھا یہ بھی دیکھیں عدالت نے کافی تسلی بخش قسم کی کرید بھی کی لیکن کچھ بھی ثابت نہیں ہوا، الٹا شیخ صاحب بنگلہ بندھو بن گئے۔ اب پتہ نہیں آپ شیخ صاحب سے اور کیا چاہتے ہیں؟ ویسے ایک بات ہے چمڑی ادھیڑنی ہی باقی رہ گئی ہے اس سالے غدار وطن کی ؟‘‘

    پھر کرسی پر آگے جھک کر بیٹھتے ہوئے انتہائی غیر جذباتی لہجے میں کہا

    ’’ دیکھئے چھ نکتے عوام کے سامنے ہیں۔۔ ٹھیک؟ میرا خیال یہ ہے کہ شیخ صاحب کی قسمت کا فیصلہ عوام کوکرنے دیں۔دوسری بات۔۔ آواز اونچی کرنے سے اور یوں زور زور سے ہاتھ ہلانے سے دلیل اونچی نہیں ہو جاتی مسٹر غلام علی۔۔ پرسوں الیکشن ہیں، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا‘‘

    غلام علی صاحب ان مکالموں سے بھڑک اٹھے لیکن اپنا غصہ دبایا

    ’’نظام الدین صاحب آپ یہ باتیں کسی اور کو بتائیں۔ آپ کو پتہ ہے لوگوں نے اس ملک تک پہنچنے کے لئے آگ اور خون کے دریا عبور کیے ہیں۔ ایسا نہیں کہ ڈولتی کشتیوں میں بیٹھ کر اور۔۔ کیا کہتے ہیں۔۔ گدلے دریا وں میں باسی مچھلیاں پکڑتے ہوئے اس ملک کے وجود میں آنے کی خبر سن کر بغلیں بجائی ہوں۔ آپ میری بات سمجھ رہے ہیں؟‘‘

    غلام علی صاحب نے اب یہ باتیں اگرچہ مدھم آوازمیں کیں لیکن اپنی گفتگو میں بسا زہر چھپا نہ سکے اورمجھے محسوس ہوا کہ نظام الدین صاحب گدلے دریا میں باسی مچھلیاں پکڑنے والی بات سمجھ گئے لیکن آدمی شریف تھے سو جوابی چوٹ سے اجتناب کیا اور ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہا

    ’’میں آپ کا دکھ سمجھ سکتا ہوں مسٹر غلام علی، لیکن لوگوں کا خون کے دریا عبور کرنے جیسی جذباتی بات کا اس بحث سے کیا تعلق؟‘‘

    پھر پہلو بدلا اور دوبارہ انگریزی میں بولے

    ’’میں ایک بات بتاوں، برا نہ منائیں۔۔ کیا ہے کہ۔۔ ہمارے ملک میں۔۔ اور یہ میں مشرقی اور مغربی دونوں حصوں کی بات کر رہا ہوں۔۔یہ ایک عجیب روایت چل نکلی ہے کہ بحث میں اگر آپ کسی کے انفرادی یا اجتماعی روئیے پر سوال اٹھائیں۔۔جیسے آپ کہیں۔۔ بھائی ملک میں امن و امان کا مسئلہ ہے، قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، وغیرہ وغیرہ، اس کا کیا کریں گے آپ؟

    تو آگے سے پتہ ہے وہ کیا کہتے ہیں ؟۔

    ’’تمہاری بھی تو خالہ کی لڑکی بھاگ گئی تھی کسی کے ساتھ، اس کا کیا کریں گے آپ؟‘‘

    بتانا یہ چاہتا ہوں کہ لوگ ذاتی حملے کرتے ہیں، بحث کے محور سے ہٹ جاتے ہیں، اور ایک طرح کا جذباتی راگ الاپنا شروع کرتے ہیں‘‘

    پھر رک کر اردو میں کہا

    ’’ رنڈی رونا روتے ہیں‘‘۔

    اس پر غلام علی صاحب کافی جز بز ہوئے لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے، نظام الدین صاحب نے اپنی عینک کی کمانی سیدھی کرکے انگریزی میں بات جاری رکھی

    ’’مسئلہ یہاں یہ نہیں کہ ملک کیسے بنا، کس نے کیا قربانی دی، موجودہ مسئلہ یہ ہے کہ کیسے اپنے ذاتی مفاد کو ملکی مفادپر فوقیت نہ دے کر ملک کی وحدت اور سالمیت کا سوچا جائے۔ ایک آخری بات، غلام علی صاحب۔ اپنی زبان کی بے جا محبت یا دوسرے کی زبان سے بے جا نفرت اتنا پیچ دار گرداب ہے کہ اژدہے کی مانند اس کا پیٹ تقسیم در تقسیم در تقسیم سے بھی نہیں بھرتا۔۔اس نکتے پر سیاسی دکان چمکانا۔۔ ہر گز نہیں، کبھی بھی نہیں۔ خیر یہ میرا نکتہ نظر ہے، آپ اتفاق کریں نہ کریں ۔‘‘

    اس کے بعد نہ تو نظام الدین صاحب نے کچھ کہا اور نہ ہی غلام علی صاحب نے لیکن مجھے یہ ضرور لگا کہ نظام الدین صاحب غلام علی صاحب کے طرز استدلال سے ناراض سے ہوگئے اگرچہ ان کے چہرے سے ایسا ہر گز دکھائی نہیں دیا۔ اس کے بعد وہ کچھ دیر وہاں بیٹھے بنگالی اخبار ’’دینک سنگرام‘‘ کے صفحے پلٹتے رہے اور پھر نہ جانے انہیں کیا سوجھی وہ کمرے سے باہر چلے گئے۔

    جب ان کو گئے کچھ منٹ ہوگئے تو غلام علی صاحب نے اٹھ کرکھڑکی کے پٹ کھولے، باہر دائیں بائیں دیکھا اور جب پورا یقین ہو گیا کہ نظام الدین صاحب وہاں نہیں ہیں، یعنی ہماری ٹوہ میں نہیں ہیں تو میری طرف دیکھ کر بولے

    ’’دیکھا مجیب کے چمچے کو اور اس کی منافقت کو، اردو دیکھی ہے اس سالے کی، تلفظ سنا آپ نے اس بنگالی سالے کا، ہمیں سیاست سکھاتا ہے، فلسفے جھاڑتا ہے۔۔۔ رنڈی رونا روتے ہیں۔۔ ہنہ‘‘۔

    پھر کچھ سوچ کر اپنا غصہ دبایا

    ’’یہ دیکھا آپ نے سعید بھائی یہ سالے بنگالی صرف اپنے اخبار پڑھتے ہیں، دیکھیں تو ان کی زبان۔۔یہ کیڑے مکوڑے قسم کی بے تکی لکھائی۔۔کتنی ملتی جلتی ہے ہندی کی لکھائی سے اور مجھے پورا یقین ہے اس اخبار میں زہر بھرا ہوگا پاکستان کی سالمیت کے بارے میں۔‘‘

    کسی کی زبان کے بارے میں اس قسم کی ہرزہ سرائی مجھے با لکل پسند نہیں آئی اور وہ بھی اس کی طرف سے جس کا اپنا شین قاف بھی درست نہیں تھا لیکن انہوں نے صرف یہی کہنے پر اکتفا نہیں کی، پہلے دروازے کی طرف گئے، باہر دیکھا اور نظام الدین صاحب کی یقینی غیر موجودگی کی چشم دید تسلی کرکے اپنی اگلی بات جاری رکھی

    ’’سعید صاحب، آپ نے یہ دیکھا آپ کا یہ بنگالی بھائی کیسے اپنے اندرونی تاثرات چھپا لیتا ہے پتہ ہی نہیں لگنے دیتا کہ اس سالے کے دل میں کیا ہے۔ کہیں لکھ لیں اگر کبھی بھی ہنگامے ہوئے اور یہ مجیب سالاملک توڑنے لگے تو آپ کا یہ بنگالی بھائی اس جھتے میں اس کی بغل میں ہوگا، ترنگا لہراتے ہوئے، غدار کہیں کا،۔۔۔رنڈی رونا روتے ہیں، ہنہ‘‘

    میں نے ان کو اس بات پر ٹوکنے کے لئے،کہ وہ میرا بنگالی نہیں مسلمان اور پاکستانی بھائی تھا، منہ کھولنا چاہا لیکن غلام علی صاحب کا چہرہ غصے سے اورسرخ ہوگیا اور انہوں نے بنگال کی قومیت اور عوامی لیگ کے خلاف خوب بھڑاس نکالی اور صرف اپنے لیڈرکو نجات دہندہ قرار دیا۔

    خیر جب ان کا پارہ ٹھنڈا ہوچکا تو جمائیاں لینے لگے اور پھر وہ بھی کمرے سے باہر نکل گئے۔ مجھے لگا شاید انہیں تمباکو نوشی کی ضرورت تھی اور چونکہ کمرے میں سگرٹ نوشی ممنوع تھی اس لئے انہوں نے یہاں رکنے سے گریز کیا اوریا شاید کسی اور بنا پر انہوں نے کمرے میں ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا۔

    ماحول میں تلخی سی پیدا ہوگئی تھی اور یہی وہ مقام تھا جب میرے پہلو میں بیٹھے فاروقی صاحب بولے

    ’’سعید بھائی قومیت، زبان، رنگ، اور مذہب۔۔ان چاروں انسانی خصوصیات سے لاتعداد اور عجیب و غریب قسم کے قصے جڑے ہیں۔ اور ایک واقعہ جو میں نے سنا ہے، وہ تو بہت ہی عجیب ہے‘‘۔

    یہ کہ کر انہوں نے میرے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لیا اور ہاتھ میں پکڑا اخبار ایک طرف رکھا

    ’’اب تو ہم خیر ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں اغلب درجے میں ہندوں کا کوئی لینا دینا نہیں لیکن ایک وقت ایسا تھا جب ہم ان کے ساتھ رہتے تھے، ہمارے گھر ان کے گھروں کے ساتھ لگ کے بنے ہوتے تھے، وہ ہمارے اور ہم ان کے پڑوسی ہوا کرتے تھے۔ خیر یہ واقعہ انہی دنوں کا ہے، بس کیا بتاوں، جب اس کے بارے میں سنا دل پر نقش ہو گیا‘‘۔

    میں نے توجہ سے ان کی بات سننا شروع کی

    ’’کیا واقعہ ہوا؟ کیا آپ مجھے بتانا پسند کریں گے ؟‘‘

    انہوں نے اپنی عینک اتاری، منہ کے بھاپ سے اس کے شیشے دھندھلائے اور پھر رومال سے صاف کئے ۔

    ’’یہ تقسیم سے پہلے کی بات ہے، میرے دادا مرحوم کا گھر یو- پی مراد آباد میں تھا۔ محلہ سارا مسلمانوں کا تھا لیکن ان میں ایک گھر سہائے صاحب کا تھا جو ذات سے کشمیری پنڈت تھے اور ان کا دلی میں قالینوں کا کاروبار تھا۔ لالہ جی نرم مزاج آدمی تھے لیکن ان کے برخلاف، ان کا بیٹا، آنند، بہت ہی بد تمیز اور ایک طرح سے خود سر قسم کا لڑکا تھا جس کے آئے دن کے لڑائی جھگڑوں سے جہاں محلے والے نالاں تھے وہاں لالہ جی بھی بہت پریشان رہتے تھے۔ لالہ جی کی ایک بیٹی بھی تھی،نرملا یا شاید بھاونا نام تھا، دبلی پتلی سانولی سی بہت ہی سلیقے والی لڑکی تھی۔

    خیر جیسے میں نے سنا لالہ جی سب سے بنا کے رکھتے تھے اور عید شبرات پر مٹھائی وغیرہ بھی پڑوسیوں کو بھجواتے رہتے تھے۔ آدمی ہنس مکھ تھے اس لئے سب پسند بھی کرتے تھے۔ ہمیشہ صاف کرتا اور اجلی دھوتی پہنے، چمکتی کمانی والی زنجیر دارعینک لگائے، ماتھے پر گہری سرخ تلک چسپاں کئے اور اپنے بغل میں بید کی ہلکے بھورے رنگ کی چھڑی لئے گھومتے۔ جہاں تک ممکن ہو ہر کسی سے اس کا حال چال پوچھتے اور اگر کسی مسئلے میں مدد نہ بھی کر پاتے تو پوری بات بڑے غور سے سن کر اتنا ضرور کہتے۔

    ’’چنتا نہ کرو، اوپر والا جرور(ضرور)کوئی نہ کوئی دوارا نکال ہی دے گا، اوپر والے پر بھروسہ رکھو، کچھ پن دان کرو، کیول اس سے بہت بلائیں ٹل جاتی ہیں‘‘

    ہاں تو میں بتا رہا تھا کہ ان کا بیٹا آنند بہت ہی کٹھور اور منہ پھٹ تھا۔ اکڑ اکڑ کر چلتا ہر کسی سے لڑتا تھا۔ لڑکیوں کو چھیڑنا اس کا اور اس کے تین ہندو ساتھیوں کا، جو دوسرے محلے کے تھے، مرغوب مشغلہ تھا۔ یہ سب ہر آتی جاتی لڑکی کو ایسی تیز نظروں سے دیکھتے تھے کہ آس پاس کے محلوں کی جوان چھوکریاں ان موالی قسم کے لڑکوں کو دیکھ کر راستہ بدل لیتی تھی۔

    محلے میں نسیم بھائی کا بیٹا، ندیم، البتہ آنند کی ٹکر کا تھا۔ ندیم سے کئی بار اس کی تو تو میں میں ہوئی اور دو ایک موقعوں پر تو بات دست و گریبان ہونے تک بھی جا پہنچی لیکن اصل مسئلہ تب شروع ہوا جب ایک دن قدیر بھائی کی بیٹی، نجمہ، کو دیکھ کر آنند نے سیٹی بجائی۔

    نجمہ کا بتاتا چلوں پتلے نقوش والی، انتہائی شرمیلی اور سعادت مند لڑکی تھی۔ ہربات میں اپنے والدین کی حمایت کرنا اور اس بڑھ کر ان کی خبر گیری میں دن رات ایک کرنا اس کا شعار تھا۔ جب نسیم بھائی نے قدیر بھائی سے اپنے بیٹے ندیم کے لئے اس کا ہاتھ مانگا تو اس نے ندیم سے شادی سے انکار کیا کیونکہ بقول اس کے وہ شادی کے لئے تیار ہی نہیں تھی یا شاید یہ وجہ بھی تھی کہ ندیم ایک لفنگا قسم کا لڑکا تھا جس کرتوت اچھے نہیں تھے لیکن پھر گھر والوں نے سمجھایا اور اس کا نکاح اس شرط کے ساتھ کر دیا کہ اس کی رخصتی تب ہوگی جب وہ ذہنی طور پر تیار ہوجائے۔

    سیٹی والا واقعہ چھپا نہ رہ سکا اور نجمہ نے جھٹ سے ساری بات گھر آکر بتا دی تو دونوں بھائی قدیر اور نسیم مل کے بیٹھے کہ کیا کریں۔ نجمہ کا میاں، ندیم، دہکتے لوہے کی طرح سرخ، غصے میں مٹھیاں بھینچے اپنے تایا اور والد کے اشارے کا منتظر تھا لیکن فیصلہ اس بات پر ہوا کہ لالہ جی کو شکایت کی جائے اور ان کو کہا جائے کہ اپنے بیٹے کو سمجھائے اور ہم سے معافی مانگے۔

    ندیم اس بات سے ہر گز خوش نہیں تھا اور اس سے پہلے کہ نسیم بھائی لالہ جی سے بات کرتے، ندیم نے اسی محلے کے دو ایک اوراوباش لڑکوں کے ساتھ مل کر آنند کی بہن پر غلیظ فقرے کسے اور وہ بیچاری روتی پیٹتی اپنے گھر گئی اور شام تک اچھاخاصا ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔

    ادھر آنند اپنے ہندو دلڑکے لے آیا اور قریب تھا کہ خون خرابہ ہو جائے، لالہ جی نے اپنی ٹوپی سر سے اتار کر راستے میں ان کے سامنے رکھی، اپنی عزت کے واسطے دیئے۔ یوں جب معاملہ کسی حد تک ٹھنڈا ہوگیاتو سب کو اپنے گھربلا یا ۔

    ’’نسیم بھائی آپ جانتے ہیں یہ آنندکی پرانی سمسیا ہے، اس کوبات چیت کی تمیج نہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ پہل اس نے کی پرنتو آپ کی اور سے بھی۔۔ وشواس کریں آنند برا لڑکا نہیں اور آپ کے گھر کی استریوں کی اجت کرتا ہے، اسے بہنوں سمان سمجھتاہے پرنتو اب جب دونوں اورسے جیادتی ہو گئی ہے تو جو ہو چکا سو ہو چکا،آگے کا کیا کریں، اس کا سوچتے ہیں، آپ کیا کہتے ہیں؟‘‘

    لالہ جی نے انتہائی متانت سے پوری بات کا خلاصہ پیش کیا جسے سن کر قدیر بھائی نے اپنے ہونٹ کاٹے

    ’’لڑکوں کی عمریں ہی ایسی ہیں لالہ جی کیا کریں ؟ میری صلاح ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو بھی سمجھنا چاہیئے کہ جب بڑے راضی ہوگئے ہیں تو وہ بھی آپس میں کوئی بیر نہ رکھیں‘‘

    یوں بات آئی گئی ہوگئی۔ندیم اور آنند تو آپس میں شیرو شکر نہ ہوسکے لیکن یہ البتہ ہوا کہ نجمہ اور لالہ جی کی بیٹی آپس میں کافی گھل مل گئیں اور کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ آگے کیا طوفان آنے والا تھا۔ خیر تو جب طوفان آیا، سب کچھ بہا کے لے گیا۔

    کچھ مہینے بعد مئی سن سینتالیس میں جب ملک کا بٹوارا یقینی ہوگیا تو گویا ہمارا یہ چھوٹا سا محلہ بھی بٹ گیا۔ ہمیں یوں لگا جیسے ہمارا محلہ پاکستان ہے اور لالہ جی کا گھر ایک ہندوستانی خنجر جو ہمارے سینے میں پیوست ہے۔ لوگ لالہ جی سے کترانے لگے اور وہ بھی میل جول سے دور رہنے لگے۔ آنند اور اس کے دو چار دوست محلے میں آتے تھے اور شور شرابہ مچا کر چلے جاتے تھے اور پھر یہ بات کہیں سے اڑ گئی کہ اس نے نجمہ کو پھر سے گھور کے دیکھا ہے۔

    بس پھر کیا تھا ندیم نے بھی اس کی بہن پر فقرے کسے اور اس کے تین دن بعد ملک میں حالات نے یکدم پلٹا کھایا: مورچے نکلے، چھوٹے موٹے فسادات شروع ہوگئے اور پھر جو نہیں ہونا تھا ہوگیا۔ انہیں ہنگاموں میں نجمہ غائب ہوگئی اور وہ بھی پورے دس دن کے لئے۔

    نجمہ کا غائب ہونا قیامت سے کم نہ تھا۔ سب کو چپ سی لگ گئی اور کسی کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ قدیربھائی بیٹی کے اغوا کا یہ صدمہ برداشت نہ کر سکے اورانہیں دل کا ایسا دورا پڑا کہ جانبر نہ ہوسکے۔ چونکہ ملک ہنگاموں کی حالت میں تھا پوری صورتحال واضح نہیں ہوئی کہ یہ سب کیسے ہوا بس اتنا پتا تھا کہ نجمہ، جو کروشئیے کا کام سیکھنے زرینہ بیگم کے ہاں ہفتے میں ایک دو بار جاتی تھی، دوپہر کو گئی اور پھر واپس نہیں آئی۔ اتفاق سے،اسی دن،ساتھ والے محلے میں مسلمانوں اور ہندوں میں لڑائی بھی ہوئی تھی اور ایک ہندو کو چھرا گھونپا گیا تھا۔ خون تو کافی بہا لیکن وہ مرا نہیں۔ اس نے پولیس کو یہ بیان دیا کہ اس کو چھرا قصاب کے بیٹے یعنی ایک مسلمان نے مارا تھا۔

    نجمہ نہ ملی اور اپنے سسر اور تایا کی تدفین سے فارغ ہو کر ندیم نجمہ کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا اور آخر کار پولیس کی مدد سے نجمہ کو کہیں سے ڈھونڈھ کے لے آیا۔ نجمہ کی حالت نا گفتہ بہ تھی۔ پتلی تو وہ پہلے سے تھی اب بالکل ادھ موئی لگ رہی تھی۔ ہر وقت روتی رہتی تھی۔ دوسری خاص بات یہ تھی کہ باپ کی ناگہانی موت کے بعد اس نے بالکل چپ سادھ لی اور کچھ بھی بولنے سے انکار کیا، صرف اشاروں کنایوں میں بولتی تھی۔ لالہ جی نے حالات کی نزاکت بھانپ کر آنند کو کہہ دیا تھا کہ جب تک حالات معمول پر نہیں آتے وہ دلی چلا جائے اور اس نے یہی کیا۔

    نسیم بھائی تو خیر بس کڑھ ہی سکتے تھے لیکن ان کا بیٹا ندیم غصے سے پیچ و تاب کھارہا تھا اور اس نے قسم کھائی تھی کہ وہ لالہ جی کی بیٹی کو اٹھا کے لے جائیں گے لیکن وہ بھی بس پیچ و تاب ہی کھا سکتے تھے کیونکہ لالا جی نے اپنی بیٹی کو ان کی خالہ کے ہاں شملہ بجھوا دیا تھا اور اب اگر کچھ بدلہ لیا بھی جاسکتا تھا تو یا تو لالہ جی سے اور یا اس کی بیوی ساوتری بائی سے۔

    ہوتے ہوتے جون کا مہینہ بھی نکل گیا۔

    ’’میں اس سالے آنند کونہیں چھوڑوں گا، ایک دن موقع ملا، وہ ہاتھ آیا تو میں اسے مار کے اس کی بہن کو اٹھا کے لے جاوں گا اور مراد ماموں کی شا ہ آباد د والی کوٹھی میں اسے بند کروں گا اور وہ کچھ کروں گا جو میرا دل چاہے گا۔ آپ پھر دیکھئے گا ان کو پتہ لگ جائے گا کہ کسی کو اٹھا کر زور زبردستی کرنا کیسا ہوتا ہے، ہم نے چوڑیاں نہیں پہن رکھیں‘‘

    غصے سے بھرے ندیم نے پھنکارتے ہوئے کہا۔ نسیم بھائی بات کی نزاکت کو سمجھتے تھے سو اسے سمجھایا

    ’’ندیم بیٹا ہم مراد آباد میں رہتے ہیں اور ایسے محلے میں رہتے ہیں جہاں نناوے فیصد گھر مسلمانوں کے ہیں۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن یہ بھی مت بھولو کہ مراد آباد ہی میں ایسے کئی محلے ہیں جہاں نناوے فیصد ہندو رہتے ہیں اور پھر یہ صرف مراد آباد کی بات نہیں پورا یو-پی یا ہندوستان ایک بہت بڑا محلہ ہے اور اس میں یقینا نناوے فیصد مسلمان نہیں ہیں‘‘۔

    وہ سانس لینے کے لئے رکے اور بات آگے جاری رکھی

    ’’اب جب یہ طے ہوچکا کہ ہم اقلیت میں ہیں اور لاٹ صاب نے پچھلے مہنیے کے آغاز ہی میں اعلان کر دیا ہے کہ ہندوستان کا بٹوارا ہو کے رہے گا تو حالا ت کا جائزہ لو میرے بیٹے۔ ٹھیک ہے تم لالہ جی کے بیٹے آنند کو جان سے مار دو گے اور اس کی بیٹی کو اٹھا کر، جیسے تم کہتے ہو، مراد ماموں کی شا ہ آباد والی کوٹھی میں بند کر دوگے، لیکن تم نے یہ سوچا ہے اس کے بعد کیا ہوگا؟‘‘

    نسیم بھائی کے لہجے میں غصہ عود کر آیا

    ’’ میں بتاتا ہوں اس کے بعد کیا ہوگا۔ یہی لالہ جی جو ہمیں جھک جھک کر اور ہاتھ جوڑ کر مسکرا کر پرنام کرتے ہیں ایسے اپنا پھن اٹھائیں گے کہ۔۔‘‘

    پھر کھڑے ہوگئے اور غصے کی شدت سے ان کا چہرہ تمتمانے لگا۔

    ’’تب تم پر یہ بات کھلے گی کہ کل یہ لالہ جی، جو گھر میں صلح صفائی میں پیش پیش تھے، اپنی ٹوپی پگڑی کے واسطے دے رہے تھے، یہی لالہ ہمیں اور ہمارے خاندان کو صرف اپنی عددی برتری کی بنا پر نیست و نابود کردے گا‘‘

    پھر ناصحانہ انداز اختیار کیا

    ‘‘خدا کے لئے اپنا غصہ ٹھنڈا کرو، ہوش کے ناخن لو اور مناسب وقت کا انتظار کرو۔ یہ بھی دیکھو ان کے بیٹے آنند نے انتخاب کس وقت کا کیا؟ جب ہنگامے تھے، بلوے تھے تاکہ اس کی طرف شک ہی نہ مڑے، یہ ہے مکارہندو کی اصلیت۔ یہ وقت جوش کا نہیں ہوش کا ہے۔

    میں کل ٹرین کے ٹکٹ خرید لوں گا اور اگلے ہی ہفتے ہم کراچی نکل جائیں گے۔ جو ہونا تھا وہ ہوچکا، اب اس کو بھول جاو۔ انشا اللہ ہمارا اب ان ہندو سالوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوگا ہمارا اپنا پاکستان ہوگا اور ہر محلے میں سو فی صد مسلمان ہونگے، اپنے لوگ، جہاں ہم سکھ چین سے رہیں گے، کوئی کسی کو اغوا کر کے نہیں لے جائے گا اور ہم سب کی عزتیں محفوظ ہونگیں‘‘۔

    نسیم بھائی نے اپنی بیوی، بھابھی، نجمہ کے لئے ٹکٹ لئے اور خود کراچی چلے آئے۔ اپنے بیٹے کے لئے چند دن بعد کا ٹکٹ خریداتاکہ وہ کچھ کاغذات وغیرہ کلکٹر کے دفتر سے لے لیں اور اس طرح ان کے کلیم میں آسانی رہے۔

    خیر قصہ مختصر وہ سب کے سب پاکستان پہنچے اور یہ بھی معجزے سے کم نہیں تھا کہ ان میں کسی بھی کو اس سارے سفر میں خراش تک نہیں آئی ورنہ جو قیامت باقی ہجرت کرنے والوں پر گزری اس کا تو اللہ کو ہی پتا ہے۔ کیا نہیں ہوا،مستورات کی آبرو ریزی کی گئی ان کی چھاتیاں کاٹ دی گئیں اور شیر خوا ر بچے کرپانوں سے ذبح کئے گئے اور انہیں نیزوں پر اچھالا گیا اور۔۔‘‘

    یہ بتاتے ہوئے فاروقی صاحب کافی جذباتی ہوگئے اور میں نے ان کا کندھا تھپتپاتے ہوئے کہا

    ’’مجھے آپ کے جذبات کا علم ہے فارقی صاحب، میں آپ کا دکھ سمجھ سکتا ہوں‘‘۔

    میں نے انہیں تسلی دی۔ فاروقی صاحب نے اپنی عینک اتاری اور داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی اور انگھوٹے سے اپنی آنکھوں کی نمی صاف کی

    ’’پاکستان میں ان کی حالت اچھی رہی لیکن نیا مسئلہ یہ پیش آیا کہ نجمہ پیٹ سے تھی۔ اس بات کو چھپایا نہیں جا سکتا تھا لیکن نسیم چاچا کویہ کسی بھی صورت منظور نہیں تھا کہ ان کے گھر ایک ناجائز بچہ پلے اور وہ بھی ایک ہندو کا۔ نجمہ نے البتہ بچہ گرانے سے انکار کیا اور اشاروں کنایوں میں یہ عندیہ دیا اور اس پر مصر بھی رہی کہ وہ ہر حالت میں بچہ جنے گی۔ اس کے علاوہ دوسرا مسئلہ یہ بنا کہ ندیم نے اب رخصتی والے معاملے سے دوری اختیار کی اور یہ بات سمجھ میں بھی آتی تھی کہ وہ بھلا کیوں ایک حرامی بچے کو پالے۔

    ندیم کراچی چھوڑ کر لاہور چلا گیا، شراب اور جوئے میں پڑ گیااور وہاں ایک پیشہ کرنے والی سے بیاہ رچایا اور اپنے کسی کام روزگار میں لگا رہا، آج تک گھر والوں کا پلٹ کر نہیں پوچھا۔

    ندیم کی نجمہ سے بے اعتنائی کے فیصلے کی وجہ سے رہے سہے خاندان کی کمر ٹوٹ گئی۔خیر نجمہ کے بھاری پیر کب تک چھپ سکتے تھے اس کا بھی تو کچھ کرنا تھا۔ نسیم بھائی نے اس پورے مسئلے کا حل یہ نکالاگیا کہ وہاں سے، جہاں آج کل ناظم آباد ہے، لانڈھی چلے آئے اور نئی جگہ یہ مشہور کردیا کہ نجمہ کی رخصتی ندیم سے ہوگئی تھی اور ندیم ہجرت کرتے سکھوں کے ہاتھوں شہیدہو گیا تھا۔

    اس پورے معاملے میں میں ایک بات بتانا بالکل بھول گیا کہ نجمہ اغوا کے اس واقعے کے بعد اگرچہ بالکل نہیں بول سکی، ہمیشہ خلاوں میں گھورتی رہتی تھی،لیکن اس سب کے باوجود کام کاج، گھریلوذمہ داریوں اور اپنی ماں اور ساس سسر کی خدمت میں اس نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا

    نسیم بھائی ہمیشہ کڑھتے رہتے تھے اور وہ دن تو خاندان پر قیامت گذرا جب نجمہ نے بچہ جنا۔ نسیم بھائی اس بچے کو دیکھ غصے سے تاو کھاتے تھے لیکن گھر کی عورتیں اس بچے پر جان چھڑکتی تھیں اور ہوتے ہوتے وہ بچہ ایک سرکاری سکول میں، ریاضی کا استاد بن گیا‘‘۔

    اس نے مجھے اس سرکاری سکول کا نام بتا دیا جو میں صیغہ راز میں رکھنا چاہوں گا تاکہ اس کی شناخت کا پردہ بہر حال رہے۔

    فاروقی صاحب نے پانی پینے کے لئے وقفہ لیا اور بات جاری رکھی

    ’’اب میں آپ کو یہ بتانے والا ہوں کہ جب نجمہ کی گویائی واپس آئی تو کیا ہوا لیکن اس سے پہلے اور ایک بات ہے جو میرے ذہن پر کافی دیر سے چھائی ہوئی ہے اوربہتر ہے کہ میں آپ کو بتا دوں اس سے پہلے کہ میں بھول جاوں

    ’’ہاں ہاں ضرورمیں سن رہا ہوں‘‘

    میں نے اشتیاق بھرے لہجے میں کہا کیونکہ کہانی کا یہ موڑ مجھے بہت دلچسپ لگا

    ’’سعید بھائی ایسی بات نہیں کہ صرف ہندو ہی برا ہے، وہ ضرور برا ہوگا لیکن اپنے مسلمان بھی کوئی اتنے اچھے نہیں ہیں۔ میں نام نہیں لینا چاہتا لیکن آپ ان دونوں فرنٹ کے سیاستدانوں کو دیکھیں کیا کر رہے ہیں؟۔ ذات پات اور زبان ہی کا تو مسئلہ درپیش ہے ہمارے ملک کو اس وقت۔ انتخابات کی تقریریں سنی ہیں آپ نے ؟ یہ دونوں صاحب کتنا زہر اگل رہے ہیں ایک دوسرے کے خلاف۔ بنگالی ہونا ایک گالی بن گیا ہے ایک صاحب کے نزدیک اور دوسرا، وہ تو اپنے تمام مسائل کا ذمہ دارہی مغربی پاکستان کو قرار دے رہے ہیں۔

    مجھے تو یہ لگ رہا ہے کہ ان کی بیوقوفی کی وجہ سے تقسیم کی بھٹی دوبار ہ دھکنے لگی ہے، خدا نہ کرے ان انتخابات کا نتیجہ معلق ہوجائے کہ بنگالی صرف بنگالی کو اور مغربی پاکستان والے اپنے اس ایک سورما کو ووٹ دیں۔۔ نہیں نہیں ۔۔ایسا ہوا تو بات بہت بگڑ سکتی ہے۔

    میری دعا ہے کہ یا تو بہت سارے ووٹ ان دونوں میں کسی ایک کو ملیں۔۔ بہت سارے۔۔ تاکہ وہ دوسرے کا سر کچل ڈالے لیکن یہ ہوگا نہیں، یہ انتخابات ہمارے گلے کی ہڈی بنیں گے، کہ نہ نِگلے جائیں گے اور نہ اگلے‘‘۔

    میں نے پوچھا کہ اس سے ملک کیسے ٹوٹ سکتا ہے تو بولے

    ’’سعید بھائی ہندوں نے مسلمانوں کے تحفظات کو نہیں سمجھا، اپنا ملک تقسیم کروا بیٹھے اور ہم، اب اپنے ایک حصے میں بسنے والے لوگوں کے تحفظات نہیں سمجھ رہے ہیں اور وہ ہمارے تحفظات کو، ہم ایک دوسرے کو غدار سمجھتے ہیں، ایک دوسرے پر شک کرتے ہیں تو عین ممکن ہے۔۔۔‘‘

    میں نے اسے فوراً روکا

    ’’نہیں نہیں ایسا نہ کہیں، ایسا کیسے ہونے لگا؟ ہم سب پاکستانی ہیں، ہمارا دین ایک ہے، رسول ایک ہے، خدا ایک ہے مشرق مغرب تو صرف نام ہیں اور بابائے قوم نے فرمایا تھا کہ پاکستان قائم رہنے کے لئے بنا ہے، سو قائم رہے گا اِنشا اللہ، اسی حالت میں‘‘

    ’’یہ آپ کی غلط فہمی ہے سعید بھائی، لیکن خیر بات لمبی ہوجائے گی اسے چھوڑیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ ہاں تو میں نجمہ کے بارے میں کیا کہ رہا تھا‘‘

    پھر فاروقی صاحب نے نجمہ کے بارے میں جو بتایا اس سے میری آنکھیں کھل گئیں

    ’’جب نسیم بھائی آخر میں تپ دق کی وجہ سے فوت ہوئے تو نجمہ کی زبان واپس آگئی۔ یہ مجھے کیسے پتہ چلا، آپ اس کو چھوڑیں لیکن اصل واقعہ یہ ہوا تھا کہ ندیم اپنی منکوحہ کو بے جا ستاتا تھا اور اپنا حق زوجیت جتاتا تھا۔ نجمہ البتہ رخصتی سے پہلے کسی بھی قسم کے جنسی رشتے کے حق میں نہیں تھی۔ اس کے علاوہ ندیم کو ہمیشہ اس بات کی کڑھن تھی کہ نجمہ نے شروع میں اس سے نکاح کرنے سے کیوں انکار کیا تھا۔ نجمہ کے بار بار منع کرنے پر بھی وہ چھپ چھپ کر مصر رہا۔

    ایک دن جب یہ بات بہت آگے بڑھی اور ندیم نے اس کی چھاتیوں پر ہاتھ ڈالا تو نجمہ نے غصے میں آکر اسے مردانگی کا طعنہ دیا اور نکاح توڑنے کی بات کی۔اس پر وہ غصے سے بپھر گیا اور نجمہ کو سبق سکھانے کے لئے اسے اٹھا کر شا ہ آباد د والی کوٹھی میں لے گیا اور پھر اس کی مرضی کے بغیر اس کے ساتھ خیر۔۔ کیا کہوں۔۔

    اب یہ درست بات تو نہیں تھی کیونکہ نجمہ کی مرضی اس میں شامل نہیں تھی، لیکن پھر بھی شرعی طور پر بچے کی نسب حرامی نہیں تھی اور یہی وجہ تھی کہ نجمہ نے بچہ نہیں گرایا۔

    خیر آپ بھی کہیں گے میاں بیوی کا معاملہ تھا اس میں اتنی بڑی بات کونسی ہے، گھر آکر بتا دیتے، رخصتی کرا دیتے اور وہ سب صحیح ہے لیکن آپ یہ بھی دیکھیں کہ ندیم کی اس بے وقوفی سے قدیر بھائی کی جان چلی گئی تو یہی وجہ تھی کہ اس بات کو چھپانا ضروری سمجھا گیا۔ندیم کو بہر حال یہ ڈر تھا کہ یہ بات کھل نہ جائے تو اس نے یہ سوچا کہ اگر سارا ملبہ آنند پر تھوپا جائے تو کسی کو کیا شک ہوگا، کیونکہ بہر حال وہ ہندو تھا اور سب سے زیادہ شک کی زد میں وہی آتا تھا۔‘‘

    اتنا کچھ کہنے کے بعد فاروقی صاحب خاصے جذباتی ہوگئے اور پھر وہ بھی کمرے سے نکل گئے۔ سچ پوچھیں تو مجھے فاروقی صاحب کاتجزیہ بچکانہ سا لگا۔ میں نے سوچا بھلا ہمارے مشرقی بازو کو کیا پڑی ہے کہ مغربی بازو سے کٹ جائے ؟ بھٹو صاحب یا شیخ صاحب کو کیا فائدہ ہے ملک کے بخرے کرنے میں، دونوں محب وطن ہیں، ملکی مفاد کو آگے رکھنے والے۔

    میں نے سوچا کہ ہاں ان کی یہ بات البتہ درست ہے کہ انسان کو جہاں بھی انفرادی یا اجتماعی موقع ملتا ہے، نقب لگاتا ہے اور بات کو زبان اور نسل کے جذباتی نعروں میں لپیٹتا ہے، لوگوں کو بیوقوف بناتا ہے،صرف اپنے فائدے کے لئے۔ ایک بات البتہ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ فاروقی صاحب کو اس واقعے کی پوری تفاصیل کا علم کیسے تھا۔

    اگلے دن انتخابات سے پہلے الیکشن کے لئے پولنگ افسروں کی تعیناتی کا طریقہ کار طے کرتے ہوئے جدولیں دیکھتے میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب میں نے دیکھا کہ میر ا ہی ایک پولنگ افسر مقامی سرکاری سکول میں ریاضی کا استاد تھا اور تب مجھے تمام کڑیاں ملانے میں زیادہ دِقت پیش نہیں آئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے