Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

الزام

فیاض احمد

الزام

فیاض احمد

MORE BYفیاض احمد

    جنگل سے چوہوں کی فوج شہر کی طرف بھاگ رہی تھی۔ چاروں طرف افراتفری کا عالم تھا۔ کوئی چوہا کچھ بھی بتانے کی حالت میں نہیں تھا۔ سب کو اپنی جان کی فکر تھی۔ اس سے پہلے چوہوں کو ایسی کیفیت سے گزرنا نہیں پڑا تھا۔ سبھی آرام سے جنگل میں گزر بسر کر رہے تھے۔ شہر کے چوہے بھی جنگل کی طرف اس لیے کوچ کر گئے تھے کہ وہاں زندگی زیادہ آرام سے گزر رہی تھی۔ جنگل کا موسم بھی خوشگوار تھا اور حالات بھی سازگار تھے۔ رات ہو یا دن کسی بھی وقت بلا خوف وخطر وہ کبھی بھی اور کہیں بھی آ جا سکتے تھے۔ کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔ کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ کھانے پینے کی چیزوں کی بھی فراوانی تھی۔ گویا زندگی پورے آن بان اور شان سے گزر رہی تھی۔ اچانک ایک دن جنگل میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے تمام چوہوں کی زندگی خطرے میں پڑ گئی۔ یوں تو جنگل کا ماحول بگاڑنے اور امن وامان ختم کرنے کے لیے کچھ جنگلی باسی بہت دنوں سے لگے ہوئے تھے۔ وہاں کا پرسکون ماحول انہیں ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ اس لیے کچھ ایسا کرنے کی سازش رچی جا رہی تھی جس سے جنگل میں بدامنی پھیل جائے۔

    جنگل کے راجا شیر کی چوہوں سے بہت اچھی بنتی تھی۔ بھلا بنتی بھی کیوں نہیں؟ یہ تو سب کو پتہ ہی تھا جب شیر کے دانت میں درد ہوا تھا تب حکیموں، ڈاکٹروں اور ویدوں نے اپنے اپنے طریقے سے علاج کرنے کی کوشش کی مگر سبھی ناکام رہے تھے۔ بالآخر ایک چوہے نے اپنے نکیلے دانتوں سے راجا کے ایک ایک دانت کی صفائی کر دی۔ صفائی کے بعد راجا کو درد سے نجات مل گئی۔ اس لئے شیر چوہے کا احسان کبھی نہیں بھولا تھا۔ وہ اپنے بچوں کو ہمیشہ چوہوں کی دلیری اور فرمانبرداری کے قصہ سنایا کرتا تھا۔ اس کے بعد چوہوں کی زندگی اور بھی آرام سے گزرنے لگی تھی۔

    دراصل بدامنی پھیلنے کی وجہ کہیں اور تھی۔ شیر کی بہن کی شادی ہونے والی تھی۔ پورا جنگل دلہن کی طرح سجا ہوا تھا۔ دور دراز کے جنگل سے ہر طرح کے جانور اس تقریب کے لیے مدعو تھے۔ شادی میں سبھی شرکت کر رہے تھے۔ ہاتھی سے لیکر خرگوش اور باز سے لیکر جگنو تک سبھی وہاں موجود تھے۔ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ وہاں ایک بھی چوہا نظر نہیں آ رہا تھا۔ خود چوہوں کو بھی یہ اچھا نہیں لگا۔ چوہوں کی ایک میٹنگ ہوئی جس میں یہ طے پایا کہ وہ سبھی شادی کے دن ضرور حاضر رہیں گے۔ مصیبت یہ تھی کہ جہاں شادی کی تقریب ہو رہی تھی وہ جگہ حفاظتی دستوں کی نگرانی میں تھی اور حفاظتی گھیرے کو توڑ کر اندر جانا ناممکن تھا۔ اس لیے سبھی چوہوں نے سرنگ بنانے پر حامی بھر لی۔ آناً فاناً سرنگ بن گئی اور ایک ایک کرکے سبھی چوہے شیر کی بہن کو مبارکباد دینے نکل پڑے۔

    پہلا چوہا محل کے قریب پہنچا ہی تھا کہ ایک حادثہ پیش آگیا۔ شیرنی کا قتل ہو گیا۔ شیرنی کا قتل کس نے کیا یہ پتہ نہیں چل پایا۔ قاتل کی تلاش میں چاروں طرف سپاہی دوڑا دیے گئے۔ تلاش جاری تھی کہ گیدڑ کی نظر ایک سرنگ پر پڑی۔ پھر کیا تھا اسے تو اپنے منصوبے کو سرانجام دینے کا جیسے موقع مل گیا۔ بہت دنوں سے چوہوں کے خلاف سازش اس کے دماغ میں پنپ رہی تھی۔ شیر کے ساتھ چوہوں کی دوستی اسے بھاتی نہیں تھی۔ اس بار موقع پاتے ہی اس نے یہ افواہ پھیلا دی کہ شیرنی کا قتل ایک سازش کا نتیجہ تھا۔ چونکہ چوہوں کو شادی میں شرکت کی اجازت نہیں تھی اس لیے انہوں نے اسے اپنی عزت و وقار کا مسئلہ بنا لیا اور بدلا لینے کی غرض سے شیرنی کا قتل کر دیا۔

    اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ اصل قاتل کون تھا؟ کس نے محل میں گھس کر شیرنی کا قتل کیا؟ لیکن قتل کا الزام تو چوہوں پر لگ چکا تھا۔ گیدڑ اپنے منصوبے پر خوش تھا تو دوسری طرف چوہے جنگل سے بھاگ کر در بدر کی ٹھوکریں کھانے کو مجبور تھے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے