aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

جنازہ

MORE BYحجاب امتیاز علی

    کہانی کی کہانی

    یہ مسجد کے ایک موذن کی کہانی ہے جسکا قیام مسجد میں ہی رہتا ہے۔ ایک روز مسجد میں نماز جنازہ کے لیے ایک جنازہ لایا جاتا ہے کہ اسی وقت تیز بارش ہونے لگتی ہے۔ لوگ جنازے کو اس کی تحویل میں دے کر چلے گیے کہ بارش کھلنے پر جنازہ کو دفن کیا جائے گا۔ رات کو جنازے کے پاس تنہا بیٹھے موذن کے سامنے ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ صبح ہوتے ہی اس کی بھی موت ہو گئی۔

    (۱)

    جنوری کی ایک سرد رات باہر آسمان پر بادل ایک خاموش استقلال سے مسلط تھے۔ چمن کے سوکھے پتے دریچے کے باہر خنک ہوا سے رہ رہ کر بے قرار ہورہے اور شور مچا رہے تھے۔ ایسے وقت میں میں اپنی حسین نشست گاہ میں ایک اونچے برقی لمپ کے نارنجی رنگ۔۔۔ کے نیچے ایک مخملی آرام دہ کرسی پر بیٹھی تھی اور ’’بغداد ٹائمز‘‘ کے بڑے بڑے صفحے کھولے مختلف عنوانوں پر نظر ڈال رہی اور بیرونی دنیا کے وحشت خیز اثر کو مطالعہ کی دلچسپی میں محو کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ سامنے آتش دان میں لکڑیاں چٹخ رہی تھیں۔

    اتنے میں میری بوڑھی قدیم حبشن زوناش اندر آئی اور میری رفاقت کے لیے ایک چھوٹی سی میز پر قہوہ کا سامان رکھ کر آہستہ سے پھر باہر چلی گئی۔ رفتہ رفتہ برآمدے سے اس کی نقرئی چوڑیوں کی جھنجھناہٹ اور عمر خیام کے اشعار کی گنگناہٹ بند ہوگئی۔ خاموشی جس میں عناصرکی بے چینی کے سوا اور کوئی آواز نہ تھی، دم بدم ایک بوجھ کی طرح روح پر بیٹھی جارہی تھی اور دل میں طرح طرح کے اوہام وسواس بیدار کر رہی تھی۔

    یک لخت دروازے پر ایک محتاط دستک نے مجھے چونکا دیا۔ آپ جانتے ہیں میں ایک بہت کمزور دل کی عورت ہوں اور عام مشرقی لڑکیوں کی طرح بے حد اوہام پرست۔ یہی وجہ ہے کہ میں اخبار ہاتھ سے دور پھینک کر سہمی ہوئی کھڑی تھی۔ اس ویران اور وحشت ناک رات میں ہوا کے جھونکوں کے سوا اور کیا شے دروازے کے کواڑوں کو دھکیل سکتی تھی۔ میں گھبرا کر نشست گاہ سے باہر نکل آئی اور دروازہ کی طرف نظر اٹھائی۔ اس کے شیشوں میں سے ایک دہکتے ہوئے سگار کو دیکھ کر میرا تردد رفع ہوگیا۔ کسی انوکھے وقت محتاط دستک کے ساتھ سگار کا نظر آجانا سب کی سب صرف بوڑھے ڈاکٹر گار کی آمد کی علامات ہیں۔ میں ایک روحانی اطمینان سے دروازے کی طرف لپکی اور چٹخنی کھول دی۔

    ’’سلام شوق ڈاکٹر!‘‘ میں نے اشتیاق آمیز لہجے میں کہا، ’’کیا شہر میں امراض کی بہت کثرت ہے جو آپ عید کا چاند بن گیے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر اپنے چہرے پر سے مفلر اتارتا ہوا بولا، ’’ڈاکٹر کبھی اپنے وقت کا مختار نہیں ہوتا، بیٹی روحی!‘‘

    روحی میرا افسانوی نام ہے۔ میں اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر زور زور سے ہلانے لگی۔ ’’آپ کی اس بے اختیاری نے اس وقت بڑا فائدہ پہنچایا۔ اس طوفانی رات کی تنہائی سے گھبرائی ہوئی بیٹھی تھی۔ آئیے اندر آئیے۔ آگ دہک رہی ہے۔ قہوہ تیار ہے۔ سگاروں کا ذخیرہ آپ کی جیب میں موجود ہی ہوگا۔ بس اس کے سوا اور کس بات کی کسر رہ گئی ہے؟ کہ آپ اطمینان سے بیٹھ کر مجھے اپنے قصے سنائیں کہ آپ کی ان دنوں کی ساری غیر حاضری کی کسر نکل جائے۔‘‘

    ڈاکٹر گار ایک لذت اندوزی کی آہ کے ساتھ آتش دان کے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا اور ہاتھ آگ کی طرف بڑھا کر بولا، ’’میں کیا قصے سناؤں بیٹی، ڈاکٹر۔۔۔ بوڑھا۔۔۔ تم سناؤ اپنی سیاحت کے افسانے۔‘‘

    میں ہنس پڑی، ’’کئی دنوں سے میرے سر میں درد ہے ڈاکٹر۔ میرے صنوبری (ہوائی جہاز کا نام) کی تباہی کا حال تم نے تو اخباروں میں پڑھا ہوگا۔ اس حادثہ نے میرے دماغ پر برا اثر ڈالا۔ طبیعت متوحش سی رہنے لگی ہے۔ مہینوں سے کوئی چیز نہیں لکھی۔ کوئی بات سوجھتی ہی نہ تھی۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے قہوہ دان اٹھا لیا اور ڈاکٹر کے لیے قہوہ پیالی میں ڈالتے ہوئے بولی، ’’آپ کے پاس قصے کہانیوں کی کمی ہے؟ یوں کہیے کہ ان دنوں انہیں بیان کرنے کے لیے آپ کو وقت نہیں ملتا ہے۔‘‘

    ’’یہ تو ٹھیک ہے کہ میرے پاس قصے کہانیوں کی کمی نہیں، انسان کی عمر جب بڑھ جاتی ہے تو مختلف تجربات اس کی زندگی کو بجائے خود ایک طویل داستان بنادیتے ہیں، مگر مجھے تامل ہمیشہ اس لیے ہوتا ہے کہ یہ قصے تم نوجوانوں کے دل کو کیا لبھا سکتے ہیں کہ ان واقعات میں محبت اور افسانے کی رنگینیاں ہوتی ہیں نہ حسن اور شوخی کی دل فریبیاں۔‘‘ میں بولی، ’’بس آپ انہیں کو بیان کیجئے۔‘‘

    بھاپ اڑاتی ہوئی قہوہ کی پیالیاں ہاتھ میں لے کر ہم نے سر کرسیوں کی پشت پر لگا دیے۔ آتش دان میں لکڑیاں چٹخ چٹخ کر شرار ے نکال رہی تھیں۔ باہر چھت پر بارش کی دھیمی دھیمی ٹپ ٹپ شروع ہوچکی تھی۔ کبھی کبھی سمندر پر بادلوں کے گرجنے کی خوفناک آواز آتی تھی۔ ڈاکٹر شعلوں کو دیکھتے ہوئے بولا، ’’تم پسند کرو تو میں عین اپنے ایک تازہ مریض کی کہانی سناؤں جو پرسوں شام میرے پاس لایا گیا اور آج صبح۔۔۔‘‘

    ’’ضرور۔۔۔‘‘ میں اشتیاق سے اس کا منہ تکنے لگی۔

    (۲)

    ڈاکٹر گار نے قہوہ کا ایک گھونٹ لے کر کہا، ’’پرسوں ایک عجیب کیس میرے پاس آیا روحی۔ بوڑھے احمد کو جانتی ہو؟ گاؤں کی مسجد کا مجاور ہے۔ اس مسجد کے احاطہ میں ایک چھوٹا سا قبرستان ہے وہ اس کا بھی نگراں تھا۔‘‘

    ’’میں نے تو کبھی اس شخص کا نام نہیں سنا۔‘‘ ڈاکٹر کہنے لگا، ’’اس کی موت کی وجہ نہایت عجیب ہے۔ پرسوں صبح وہ میرے پاس بے ہوش لایا گیا اور آج صبح اس غریب کا انتقال ہوگیا۔‘‘

    ’’خدا غریق رحمت کرے۔‘‘ میں نے کہا، ’’کیا ہوا تھا ڈاکٹر اسے؟‘‘

    ’’تم جانتی ہو کہ آج کل دیہات میں وبا بہت شدت سے پھیلی ہوئی ہے۔ دن کے وقت سڑکوں پر میت برداروں کے ہجوم گزرتے نظر آتے ہیں۔ بازار میں جدھر نظر ڈالو ادھر دو چار آدمی ایک جنازہ اٹھائے ہوئے نظرآتے ہیں۔ رات آتی ہے تو دن سے زیادہ خوفناک مناظر پیش کرتی ہے۔ لوگوں کی خاموش ٹولیاں لالٹین لیے ہوئے قبرستان کی طرف جاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔

    بوڑھا مجاور پرسوں رات کی سرگزشت اس طرح بیان کر رہا تھا، ’’دن بھر لوگوں کی تجہیز و تکفین میں لگا رہتا تھا۔ پرسوں رات تھک کر مسجد کے صحن کے ایک کونے میں پڑ رہا۔ دفعتاً کچھ آواز آئی اور میری آنکھ کھل گئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ لالٹین لیے ہوئے مسجد کے صحن میں داخل ہورہے ہیں۔ میں سمجھ گیا کہ جنازہ ہوگا۔ رات اندھیری تھی۔ دور آسمان پر گہرے بادل چھائے ہوئے تھے۔ ان لوگوں نے جنازہ کی نماز ختم بھی نہ کی تھی کہ بوندا باندی ہونی شروع ہوئی۔ تب میں نے ان سے کہا کہ اب دفنانے کا انتظام کرنا بڑا مشکل ہے۔ میت کو یہاں رکھ دیجئے۔ میں سرہانے کلام مجید پڑھوں گا۔ صبح جب مینہ تھم جائے تو واپس آکر لاش کو دفنا دیجئے گا۔ یہ میرے لئے کوئی نئی بات نہ تھی۔ ہر دوسرے تیسرے ایسے واقعات پیش آیا ہی کرتے ہیں کہ رات میں میں تنہا لاش کے سرہانے کتاب مقدس پڑھنے میں صرف کردیتا۔ کہیں کبھی کوئی ایساواقعہ نہیں گزرا جو مجھے خوف زدہ کرتا۔

    غرض ان لوگوں نے جنازہ مسجد کے صحن میں رکھ دیا اور مجھے کلام مجید پڑھنے کی تاکید کر کے مسجد کے صحن کے دروازے باہر سے لگا کر چلے گیے۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ دروازہ ان لوگوں نے باہر سے لگا دیا ہے۔ یہ بعد میں معلوم ہوا۔ ان لوگوں کے جانے کے بعد میں کتاب کھول کر جنازے کے سرہانے بیٹھ گیا۔ رات بھیانک تھی۔ باہر بارش ہورہی تھی۔ ہر طرف کاجل کی سی تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔ کبھی کبھی دور سے رونے کی آوازیں آرہی تھیں۔ خوف کے مارے میں دیوانہ سا ہورہا تھا کیونکہ مجھ پر اب تک کوئی ایسا حادثہ نہیں گزرا تھا جیسا اس شب گزرا۔ ہولناک اور جان لیوا۔

    تھوڑی دیر تو میں کتاب مقدس پڑھتا رہا۔ پھر یکایک میری نظر سامنے کو اٹھی اور میری روح کانپ گئی۔۔۔ میں نے دیکھا جنازے پر جو سفید چادر پڑی تھی وہ آہستہ آہستہ ہل رہی تھی۔ میں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا شروع کیا۔ دل کو سمجھایا۔۔۔ ممکن ہے ہوا کا جھونکا ہو۔ یہ کہتا ہوا میں پھر کتاب مقدس پڑھنے لگا مگر قدرتی طور پر میری نگاہ بار بار اٹھتی تھی۔ چادر برابر متحرک تھی۔ میں نے سمجھا ضرور کوئی بلی جنازہ میں گھس گئی ہے۔ باوجود اس یقین کے میں جنازہ کے قریب نہ جاسکا۔ ایک نامعلوم خوف دل و دماغ پر چھایا ہوا تھا۔ میں اپنی عمر میں کبھی نہیں ڈرا۔ یہ پہلا ہی موقع تھا اور پہلا ہی حادثہ۔۔۔ کچھ دیر بعدیہ حالت ہوگئی کہ چادر کا کونہ زور زور سے ہلنے لگا۔ جیسے کوئی جھنجھوڑ رہا ہو۔ اب تو میرے ہوش و حواس غائب ہوگیے۔ میں اٹھ کھڑا ہوا۔ میرا اٹھنا ہی تھا کہ ایک جھٹکے کے ساتھ لاش پر پڑی ہوئی چادر سرک گئی اور پھر۔۔۔ ایک کفن پوش سر آہستہ آہستہ جنازے میں سے اٹھتا ہوا نظر آیا۔ میں ابھی کچھ سمجھنے بھی نہ پایا تھا کہ یک لخت لاش جنازہ میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے مقابل دو لمحے کھڑے رہے۔۔۔ میں اس کفن آلود چہرے کو تک رہا تھا۔۔۔ وہ میرے لرزتے ہوئے مجسمے کو۔۔۔ پھر وہ جنازے سے زمین پر کود پڑا۔

    یہ دیکھ کر میری چیخیں نکل گئیں۔۔۔ میں دروازے کی طرف بھاگا تاکہ سڑک پر نکل بھاگوں مگر وہاں جاکر دیکھا تو دروازہ بند پایا۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ اندر صرف ہم دونوں مقید ہیں۔ قدموں کی آہٹ پاکر میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ میرے تعاقب میں چلا آرہا تھا اور چونکہ اس کے دونوں پاؤں بندھے ہوئے تھے اس لیے وہ آہستہ آہستہ کودتا ہوا میرے پیچھے چلا آرہا تھا۔ صحن میں امرود کا ایک درخت تھا۔ میں اس کی طرف بھاگا مگر اب شاید اس میں بھی تیزی آگئی تھی۔ وہ میرے تعاقب میں تیزی سے کودتا ہوا آرہا تھا۔ تھوری دیر بعد یہ حالت تھی کہ ہم دونوں مسجد کے صحن کا چکر لگارہے تھے۔ میں آگے آگے اور وہ پیچھے پیچھے۔ خوف نے میری تمام طاقتیں سلب کرلی تھیں۔ میں نہ چیخ سکتا تھا نہ درخت پر چڑھ سکتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب! میری حالت مردے سے بدتر تھی۔ میں پاگل ہورہا تھا۔ مسجد کے صحن کی ہر دیوار کے قریب جاکر اسے پھاندنے کی کوشش کرتا اور جب لاش میرے قریب آجاتی تو میں چیخ مار کر وہاں سے بھاگ نکلتا۔

    اسی وقت دفعتاً مجھے خیال آیا کہ پیچھے کنوئیں کے قریب کی دیوار کچھ گر پڑی ہے۔ اس کو پھاندنا نسبتاً آسان ہوگا۔ میں پچھلے حصے میں جہاں دیوار کی چند اینٹیں گرپڑی ہیں، بھاگ آیا اور اپنی پوری قوت اور کوشش سے دیوار پر سے پھاند گیا۔ میں ہانپ رہا تھا۔ اسی عالم میں پلٹ کر دیکھا تو لاش میرے تعاقب میں نہایت تیزی سے چلی آرہی تھی۔ آخر اس نے دیوار پھاندنے کی کوشش کی مگر اینٹوں میں کفن الجھ گیا اور مردہ جسم دیوار پر نصف ادھر نصف ادھر لٹکنے لگا۔ اب وہ بے جان معلوم ہورہا تھا۔ میں باہر سڑک پر لڑکھڑاتا ہوا پہنچا۔۔۔‘‘

    بس بیٹی صبح آنے جانے والوں نے مسجد کی ٹوٹی ہوئی دیوار پرایک لاش کو لٹکتا ہوا دیکھا اور مجاور کو انہوں نے دیوار کے نیچے بے ہوش پایا۔ مجاور کا بھائی اسے اٹھاکر میرے پاس لایا۔ وہ تیز بخار میں پھنکا جارہا تھا او ربے ہوش تھا۔ کل رات کے تین بجے اس نے مجھے ا پنی داستان سنائی اور آج صبح چل بسا۔ صبح دس بجے کے قریب وہ لاش دفن کی گئی اور دوسرے دن صبح دس بجے مجاور کی لاش بھی سپرد خاک کردی گئی۔ میں دم بخود ہوکر سن رہی تھی۔ باہر آندھی زوروں پر تھی۔ آتش دان کی لکڑیاں ختم ہوچکی تھیں۔ مینٹل پیس پر رکھا ہوا کلاک ٹک ٹک کر رہا تھا۔ جب ڈاکٹر قصہ ختم کرچکا تو میں لرزی ہوئی اٹھی اور اس کے پہلو میں جا بیٹھی۔

    مأخذ:

    گلستاں اور بھی ہیں (Pg. 262)

    • مصنف: حجاب امتیاز علی
      • ناشر: مجیب احمد خاں
      • سن اشاعت: 2008

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے