Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کاتیائن بہنیں

مشرف عالم ذوقی

کاتیائن بہنیں

مشرف عالم ذوقی

MORE BYمشرف عالم ذوقی

     

    ایک ضروری نوٹ
    قارئین! کچھ کہانیاں ایسی ہوتی ہیں جن کا مستقبل مصنف طے کرتا ہے لیکن کچھ کہانیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کا مستقبل کہانی کے کردار طے کرتے ہیں۔ یعنی جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی جاتی ہے، اپنے مستقبل کے تانے بانے بنتی جاتی ہے اور حقیقت میں مصنف اپنے کرداروں کو راستہ دکھا کر خود پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ 

    ایسا اس کہانی کے ساتھ بھی ہوا ہے۔۔۔ اور ایسا اس لئے ہوا ہے کہ اس کہانی کا موضوع ہے۔۔۔ ’’عورت‘‘ کائنات میں بکھرے تمام اسرار سے زیادہ پُر اسرار، خدا کی سب سے حسین تخلیق۔ یعنی اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ وہ عورت کو جان گیا ہے تو شاید اس سے زیادہ ’’گھامڑ‘‘ اور شیخی بگھارنے والا، یا اس صدی میں اتنا بڑا جھوٹا کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ عورتیں جو کبھی گھریلو یا ’’پالتو‘‘ ہوا کرتی تھیں۔ چھوٹی اور کمزور تھیں۔ اپنی پُر اسرار فطرت یا مکڑی کے جالے میں سمٹی، کوکھ میں مرد کے نطفے کی پرورش کرتیں۔۔۔ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی وہ محض ’’بچہ دینے والی ایک گائے‘‘ بن کر رہ گئی تھیں مگر شاید صدیوں میں مرد کے اندر دہکنے والا یہ نطفہ شانت ہوا تھا۔ یا عورت کے لئے یہ مرد دھیرے دھیرے بانجھ یا سرد یا محض بچہ پیدا کرنے والی مشین کا ایک پرزہ بن کر رہ گیا تھا۔۔۔ تو یہ اس کہانی کی تمہید نہیں ہے کہ عورت اپنے اس احساس سے آزاد ہونا چاہتی ہے۔۔۔ شاید اسی لئے اس کہانی کا جنم ہوا۔۔۔ یا اس لئے کہ عورت جیسی پُراسرار مخلوق کو ابھی اور ’’کریدنے‘‘ یا اس پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔ ہم نے ابھی بھی اس مہذب دنیا میں، اسے صرف مقدس ناموں یا رشتوں میں جکڑ رکھا ہے۔ 

    تو قارئین! یہ کوئی پریوں کی کہانی نہیں ہے۔ یہاں دو بہنیں ہیں۔۔۔ کاتیائن بہنیں۔ ممکن ہے ان بہنوں کے نام پر آپ کو ’’لولیتا‘‘، انناکارنینا‘‘ اور ’’مادام بواری‘‘ کی یاد آ جائے مگر نہیں ! یہ دوسری طرح کی بہنیں ہیں۔ مردوں کی ’’حاکمی‘‘ کو للکارنے والی۔۔۔ تو اس کہانی کا جنم کچھ ’’خاص‘‘ حالات میں ہوا ہے۔ 

    ایک واقعہ
    گرچہ یہ کوئی فلمی منظر نہیں تھا۔۔۔ لیکن یہ فلمی منظر جیسا ہی تھا۔ مس کاتیائن کے ہاتھوں سے سبزی کا تھیلا پھسلا اور دو بڑے بڑے آلو لڑھکتے ہوئے بھوپیندر پریہار کے پاؤں سے ٹکرائے۔ بھوپیندر پریہار، عمر ایک کم باسٹھ سال، تھوڑا لہرائے۔۔۔ تھوڑا رکے۔۔۔ آلوؤں کو اٹھایا اور سبزی منڈی کی ایک دکان پر کھڑی مس کاتیائن پر جی جان سے نچھاور ہو گئے۔ 

    ’’آپ مس کاتیائن ہیں نا۔۔۔؟ وہ ’’اینا کی ڈالی‘‘ والی دکان کے سامنے والے گھر میں۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘ مس کاتیائن اتنا بول کر خاموش ہو گئیں۔ شاید انہیں گفتگو کا یہ انداز پسند نہیں آیا۔ وہ بھی ایسی جگہ؟ سبزی منڈی میں۔۔۔ کوئی ’’مرد‘‘ اس طرح کسی عورت سے اس طرح بات کرے، انہیں اچھا نہیں لگا۔۔۔ 

    ’’میں وہیں رہتا ہوں۔۔۔ آپ کے گھر کے پاس۔۔۔ تھیلا بھاری ہے؟‘‘

    پتہ نہیں کہاں سے بھوپیندر پریہار کے لہجے میں اتنا اپنا پن سمٹ آیا تھا۔ 

    ’’نہیں کوئی بات نہیں۔۔۔‘‘

    ’’دیجئے نا۔ میں اٹھا لیتا ہوں۔۔۔‘‘

    بھوپیندر پریہار نے آرام سے تھیلا اٹھایا اور سبزی منڈی کی دھول بھری سڑکوں پر دونوں چپ چاپ چلنے لگے۔ ہاں بھوپیندر پریہار کچھ لمحے کے لئے یہ بالکل ہی بھول بیٹھے تھے کہ وہ کوئی نوجوان نہیں، بلکہ ایک کم باسٹھ سال کے گھوڑے پر سوار ہیں۔۔۔ 

    لیکن گھوڑے میں اچانک جوش آگیا تھا۔ 

    ایک عالی شان مگر پرانے زمانے کا چندن کی لکڑی کا بنا ہوا محراب نما دروازہ تھا۔ یہ دروازہ چرچرانے کی بھیانک آواز کے ساتھ کسی ہارر فلم کی طرح کھلتا تھا۔۔۔ اس کے بعد کافی کھلا ہوا صحن تھا۔ غرض یہ ایک ٹوٹا پھوٹا سا بے رونق گھر تھا۔ یہاں آپ ہمیشہ ہر موسم میں بڑی مس کاتیائن کو دیکھ سکتے ہیں۔۔۔ جھکی ہوئی نظریں، ہاتھوں میں پکڑی ہوئی تیلیاں۔۔۔ ایک طرف پڑا ہوا اون کا ’’گچّھا‘‘۔ تیلیوں میں الجھے ہوئے ہاتھ۔۔۔ یعنی دنیا سے بے خبر مس کاتیائن سوئٹر بن رہی ہیں۔ جاڑا ہو گرمی یا برسات، مس کاتیائن کی بس اتنی سی دنیا ہے۔۔۔ گہری فکر، اون کا گولا اور تیلیاں۔ لیکن یہ باتیں زیادہ توجہ طلب نہیں ہیں کہ بڑی مس کاتیائن یہ سوئٹر کس کے لئے بنتی ہیں۔ انہیں پہننے والا کون ہے؟ یا بس سوئٹر بننا مس کاتیائن کا ایک شغل ہے۔۔۔ ایک ہی سوئٹر کو بار بار ادھیڑتے رہنا اور بنتے رہنا۔۔۔ 

    ’’اندر آ جایئے۔۔۔‘‘

    چھوٹی مس کاتیائن نے اشارہ کیا۔ بھوپیندر پریہار تھیلا لئے صحن میں آ گئے۔۔۔ ہمیشہ کی طرح بڑی مس کاتیائن نے گردن گھما کر چھوٹی مس کاتیائن کے ساتھ اندر آتے ہوئے اجنبی، کو دیکھا۔۔۔ لیکن آنکھوں میں حیرانی کا شائبہ تک نہ تھا۔ چہرہ پتھر جیسا بے حس۔ 

    ’’یہ پڑوسی ہیں۔۔۔‘‘ چھوٹی مس کاتیائن نے بڑی کے سامنے تھیلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔ ’’بھاری تھا۔۔۔ اس لئے مدد کرنے چلے آئے۔‘‘

    بھوپیندر پریہار کو یقین ہے کہ چھوٹی کاتیائن کی وضاحت پر بڑی کی آنکھوں میں ایک ہلکی سی چمک ضرور لہرائی ہو گی حالانکہ اس چمک کو وہ صرف محسوس کر سکتے تھے۔ اس لئے کہ دوسرے ہی لمحے سوئٹر بنتے پتھر کے مجسمے سے آواز آئی تھی۔۔۔ ’’بیٹھئے نا۔۔۔‘‘

    یہ کاتیائن بہنوں کے ہاں بھوپیندر پریہار کی پہلی انٹری (Entry) تھی۔ 

    کچھ بھوپیندر پریہار کے بارے میں 
    بھوپیندر پریہار مرد آدمی تھے۔ مردوں کے بارے میں ان کی اپنی رائے تھی۔۔۔ ایک خاص طرح کا فیسی نیشن (Fascination) تھا اس لفظ کے بارے میں۔۔۔ مثلاً وہ سوچتے تھے کہ مرد ایک شاندار جسم رکھتا ہے۔ خوشبو میں ڈوبا ہوا جسم۔۔۔ ایک سدا بہار، مست مست، کسی تناور درخت کی طرح شان سے ایستادہ۔۔۔ بے پروا، بے نیاز کسی کو خاطر میں نہ لانے والا، عورت یا بیوی جیسی چیز اسی جسم کو قید میں رکھنا چاہتی ہے۔ یہ جسم بے لگام گھوڑے کی طرح ہے۔۔۔ شاہراہوں کو روندتا۔۔۔ منزلوں کو پیچھے چھوڑتا۔۔۔ سمندر کی طرح بے خوف۔۔۔ لہروں کی طرح چیختا دہاڑتا۔۔۔ طوفان کی طرح گرجتا۔ یا شیر ببر کی طرح بےقابو۔۔۔ سرکش اور دھرتی کو اپنے طاقتور پنجوں سے روندنے والا۔ یہ جسم کسی ایک درّے میں نہیں چھپ سکتا۔۔۔ کسی ایک بیرک میں قید نہیں رہ سکتا۔۔۔ کسی ایک قید خانے میں، کسی ایک گھر میں یا کسی ایک عورت میں۔۔۔ 

    لیکن ہوتا کیا ہے، وقت آنے پر یہ جسم ایک عورت کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے بس۔۔۔ اسے تمہارے حوالے کیا۔ بس یہی ہے۔۔۔ اپنے جسم کی پتوار جیسے چاہو اس پر استعمال کرو۔ 

    مسز پریہار عام عورتوں جیسی ہی ایک عورت تھی۔۔۔ جس کے لئے زندگی کا مطلب ایک کنبے یا شوہر اور بچوں سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ یا شاید بچے کے آنے کے بعد شوہر کی بھی کچھ زیادہ حیثیت نہیں رہتی۔ سمن کے آنے کے بعد مسز پریہار کی زندگی کا یہی ایک مقصد رہ گیا تھا۔ سمن۔ صرف سمن۔ اس لئے شاید کبھی کبھی شوہر کے پتوار جیسے تنے جسم کی مانگ کو بھی وہ نظر انداز کر جاتی۔۔۔ 

    ’’نہیں۔۔۔ اسے اتنا پیار مت دو۔ بھگوان کے واسطے‘‘ بھوپیندر پریہار کے ہونٹوں پر تلخی تھی۔ 

    ’’کیوں؟‘‘ 

    ’’کیونکہ بچے ہوتے ہی ایسے ہیں۔ لاپرواہ اور بےوفا۔۔۔‘‘

    ’’پاگل ہو گئے ہو!‘‘

    ’’بچے تمہاری محبت کی قدر نہیں کریں گے۔ وہ ایک دن تاڑ جتنے ہو جائیں گے اور ہمیں بھول جائیں گے۔‘‘

    اور شاید یہی ہوا تھا۔ سمن بڑا ہوا۔۔۔ لو میرج کی اور بیوی کو لے کر کناڈا چلا گیا۔ مسز پریہار اس فرض سے سبکدوش ہو کر ابدی نیند سو گئی۔ اکیلے رہ گئے بھوپیندر پریہار۔ لیکن وہ اس زندگی کو یادوں کا قبرستان نہیں بنانا چاہتے تھے۔ وہ بقول رسول حمزہ توف۔۔۔ پیار کو زندہ رکھنا چاہتے تھے جس کے بارے میں ان کا عقیدہ تھا کہ زندگی سے پیار چلا گیا تو ہم بھی نہیں بچ سکتے۔ وہ کھونا نہیں چاہتے تھے اور سچ کہا جائے تو اپنے مرد ہونے کے بھرم کو قائم رکھنا چاہتے تھے۔۔۔ اور شاید خالی پن کے یہی وہ لمحے تھے جب کاتیائن بہنوں سے ان کی دوستی کے در وا ہوئے تھے یا بقول رسول حمزہ توف۔۔۔ اس بہانے وہ اپنے آپ کو زندہ رکھ سکتے تھے۔ 

    بڑی بہن یعنی رما کاتیائن کا نظریہ
    کاتیائن بہنوں کی زندگی میں ویرانی کی شاید ایک لمبی تاریخ رہی تھی۔۔۔ آس پاس کے لوگوں کے لئے اس گھر یا بہنوں کے بارے میں سب کچھ پراسرار تھا۔۔۔ یعنی جب یہ بہنیں گھر میں ہوتیں یا وہ وقت جب بے ہنگم آواز کے ساتھ کھلنے والے دروازوں سے یہ باہر نکلتیں تو گویا سرگوشیوں کا بازار گرم ہو جاتا۔ ان کی زندگی پر، اسرار کا دبیز پردہ پڑا تھا۔۔۔ شاید اس مکمل کائنات سے بھی زیادہ پُراسرار تھیں وہ۔ بڑی بہن کے ہاتھ میں ایک گل بوٹوں والی چھتری ہوتی جس کا ساتھ ان کے لئے ہر موسم میں لازمی تھا۔ جاڑا ہو، گرمی ہو یا برسات۔۔۔ گویا اندر کوئی خوف ہو اور پھول دار چھتری کسی باڈی گارڈ کی طرح ان کی نگرانی کرتی ہو۔ چہرہ اس چٹان کی طرح سخت، سمندر کی لہریں جس کا کچھ نہیں بگاڑ پاتیں۔ آج تک کسی نے بھی رما کاتیائن کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ آپ اپنے گھر کی بالائی منزل سے شام ڈھلنے تک جب بھی جی چاہے انہیں دیکھ لیجئے۔۔۔ ایک کرسی پر سوئٹر بنتی ہوئی رما کاتیائن آپ کو ضرور مل جائیں گی۔۔۔ عمر ساٹھ کے آس پاس۔ چھوٹی ریتا کاتیائن بڑی سے دو تین سال چھوٹی رہی ہوں گی۔ اس سے زیادہ نہیں۔ مگر ریتا، رما کی طرح سخت نہیں تھیں۔ کسی زمانے میں خوش مزاج بھی رہی ہوں گی مگر وقت کے ساتھ ساتھ مزاج میں ایک قسم کی سنجیدگی آ گئی تھی۔ 

    یہ کہنا مشکل ہے کہ اس سے پہلے کاتیائن بہنوں کی پُراسرار دنیا میں کوئی آیا تھا یا نہیں۔ مگر بھوپیندر پریہار کی اچانک آمد گھر میں شکوک و شبہات کی فصل لے کر آئی تھی اور یہ شک بھوپیندر پریہار کے جاتے ہی شترمرغ کی طرح ریت سے اپنا سر نکالنے لگا تھا۔ 

    بڑی کاتیائن کی آنکھوں میں حیرانی کے دوڑے تھے اور چھوٹی کاتیائن کے ہونٹوں پر ایک شرارت بھری خاموشی۔ 

    ’’کب سے جانتی ہواسے؟‘‘

    ’’کسے۔۔۔؟‘‘

    ’’وہی، جسے لے کر تم گھر آئی تھی‘‘

    ’’اچھا وہ۔ بھوپیندر پریہار۔۔۔‘‘

    ’’نام بھی جانتی ہو۔ اس کا مطلب پرانی ملاقات ہے۔۔۔ کب سے جانتی ہو اسے؟‘‘

    ’’آج سے پہلے۔۔۔ نہیں۔‘‘

    ’’ایک ہی دن میں اس نے سبزی کا تھیلا بھی تھام لیا اور گھر میں آ ٹپکا۔۔۔‘‘

    ’’نہیں۔ آپ نے سمجھا نہیں۔‘‘

    ’’کیا ایک اجنبی شخص کو تم اس گھر میں لے آئیں اتنا کافی نہیں۔۔۔‘‘

    چھوٹی مس کاتیائن کی آنکھوں میں مایوسی تھی۔ ’’نہیں، دراصل آپ ابھی بھی نہیں سمجھیں۔۔۔ تھیلا بھاری تھا۔۔۔‘‘

    ’’صفائی مت پیش کرو۔ اس سے پہلے ایسا حادثہ اس گھر میں کبھی نہیں ہوا۔‘‘

    بڑی مس کاتیائن کا لہجہ فیصلہ کن تھا۔ ’’ابھی تم سبزی کاٹو۔ رات کا کھانا بنانے کی تیاریاں کرتے ہیں، مگر یاد رکھو۔۔۔ رات میں۔ رات میں اس واقعہ کے بارے میں دوبارہ غور کریں گے۔‘‘

    دہشت بھری رہگزار سے 
    ہم کہہ سکتے ہیں وہ رات کاتیائن بہنوں کی نظر میں بہت عام سی رات نہیں تھی۔ بڑی کاتیائن کمرے میں ٹہل رہی تھیں۔۔۔ جیسے اندر ہی اندر کسی خاص نتیجے پر پہنچنے کی تیاری کر رہی ہوں یا جیسے رات کے وقت شوہر اپنے کمرے میں کچن سے لوٹنے والی اپنی نو بیاہتا دلہن کا انتظار کرتا ہے۔۔۔ کہ وہ اب آئے گی یا بتی بجھائے گی یا اس کے قدموں کی آہٹ سنائی دےگی۔ 

    لیکن آپ اس طرح بڑی کاتیائن کو ٹہلتے دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ بڑھاپے کے گلیاروں میں اتنی دور تک نکل آئی ہیں۔ نہیں، حیرت انگیز طور پر اس وقت وہ کسی نوجوان سے کم نہیں لگ رہی تھیں۔۔۔ یقیناً ایک ایسے نوجوان سے جو اپنی بیوی کی کسی بات سے ناراض ہوا ٹھا ہو اور اس سے گفتگو شروع کرنے کی ذہنی کشمکش سے گزر رہا ہو۔ چھوٹی کاتیائن کے اندر داخل ہوتے ہی بری نے کسی لومڑی کی طرح اپنی نگاہیں اس پر مرکوز کر دیں۔۔۔ 

    آؤٹرسٹ ایکسرسائز (Trust Exercise) کرتے ہیں۔ 

    ٹرسٹ ایکسر سائز؟ لیکن کیوں؟

    جرح مت کرو۔ مردوں کی طرح مت بنو۔۔۔ کیونکہ تم نے اپنا Trust کھویا ہے۔۔۔ 

    یا تم نے؟

    ممکن ہے۔ اس لئے آؤ آنکھیں بند کریں اور شروع ہو جائیں۔۔۔ 

    اور اسی کے ساتھ دونوں آمنے سامنے کھڑی ہو گئیں۔ بڑی کاتیائن کی پتلیاں دھیرے دھیرے بند ہونے لگیں۔۔۔ چھوٹی کاتیائن کچھ سوچ کر مسکرائیں اور پتھریلی زمین پروہ بھی بڑی کاتیائن کے آمنے سامنے کھڑی ہو گئیں۔ ٹرسٹ ایکسرسائز میں ایک دوسرے پر آنکھیں موند کر گرنا ہوتا ہے۔ سامنے والے کو اپنے ساتھی کو تھامنا ہوتا ہے۔ ایسا کئی بار کرنا ہوتا ہے۔ سامنے والے نے اگر تھام لیا تو مطلب صاف ہے۔ ابھی یقین میں کمی نہیں آئی یا ابھی یقین بحال ہے۔ یہ عمل پتھریلی زمین پر اس لئے کرتے ہیں تاکہ گرنے یا چوٹ لگنے سے پیدا ہونے والااحساس اس یقین کو پھر سے بحال کرسکے۔۔۔ دراصل مغربی ممالک سے ہم لگاتار کچھ نہ کچھ بطور تحفہ لیتے رہے ہیں اور ’’ٹرسٹ‘‘ کرنے کا یہ نایاب طریقہ ابھی کچھ دنوں پہلے ہی وہاں سے امپورٹ ہو کر آیا ہے۔۔۔ 

    تو کاتیائن بہنوں نے آنکھیں بند کر لیں۔ ممکن ہے آپ کے لئے یہ سارا منظر بے لطف، اکتا دینے والا اور واہیات ہو۔۔۔ مگر شاید کاتیائن بہنوں کو یقین کی دوڑ سے باندھنے کے لئے یہ کھیل کافی معنی رکھتا تھا اور جیسا کہ ہمیں بھی یقین تھا آنکھیں بند کرنے، ایک دوسرے پر گرنے کے عمل میں چھوٹی سر کے بل گری تھی۔ شاید یہ ایک عمر پار کرنے کی حد کے سبب تھا۔ یا جو بھی ہو، مگر طے تھا کہ بڑی اسے تھام نہیں پائی اور چھوٹی کاتیائن کے ہونٹوں سے، لڑکھڑاتے، گرتے ہوئے ایک زور کی چیخ نکل گئی تھی۔۔۔ 

    ’’آہ جیسا کہ مجھے یقین تھا۔‘‘ بڑی کاتیائن کا لہجہ برف سا سرد تھا۔ ’’وہ آدمی۔۔۔ تم نے سچ مچ اپنا ٹرسٹ کھو دیا ہے۔ چلو۔۔۔ بہت دنوں کے بعد ہی سہی ذرا ماضی کی راکھ کریدتے ہیں۔‘‘ بڑی کاتیائن نے چھوٹی کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔۔۔ 

    ’’تمہیں کچھ یاد آ رہا ہے؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’تمہیں یاد رکھنا بھی چاہئے۔‘‘ بڑی کی آواز میں لرزش تھی۔۔۔ ’’اس آدمی کے باوجود، جو مرد تھا یا باپ تھا۔۔۔ یا جنگلی سانڈ۔ یہی کمرہ تھا نا۔۔۔ اور وہاں دروازے پر۔۔۔‘‘

    چھوٹی کاتیائن کو یاد تھا۔ باپ دروازے پر شراب پی کر شام کے وقت آ کر، ماں کا نام لے کر زور زور سے چلاتا تھا۔۔۔ 

    ’’سب یاد ہے۔‘‘

    ’’باپ کیوں یاد ہے اس لئے کہ اس میں بے رحمی تھی۔ وہ ایک خوفناک انسان تھا۔ بلکہ حیوان۔۔۔ تمہیں یاد ہے، ماں رویا کرتی تھی۔ کبھی کبھی خوب زوروں سے۔۔۔ اور ساری رات چلایا کرتی تھی۔۔۔ اور باپ نشے میں دھت سویا رہتا تھا۔۔۔‘‘

    ’’ہاں، مگر وہ سب بھیانک یا دیں ہیں اور رونگٹے کھڑی کرنے والی۔۔۔ میری ماں ایک سہمی ہوئی گائے تھی۔ نہیں، وہ ایک معصوم میمنا تھی۔۔۔ اور بچپن سے باپ تھوڑا تھوڑا کر کے اس میمنے کو ذبح کرتا رہا تھا۔‘‘

    ’’تمہیں یاد ہے؟ اس وقت یا ان دنوں تم گرتی تھی تو۔۔۔، روتی تھی تو۔۔۔ یا کسی پریشان کر دینے والے ڈر سے سہم جاتی تھی تو۔۔۔، یہ میں ہوتی تھی، میں۔۔۔ میں بڑی تھی اور میں انہیں دنوں تمہیں چاہنے بھی لگی تھی۔۔۔ نہیں، تمہیں یاد ہونا چاہئے، جب یکایک ڈر کر سہم کر تم مجھ سے چپک جایا کرتی تھی تو۔۔۔ یا میری گود میں اپنا سر رکھ دیتی تھی تو۔۔۔ یہاں ٹانگوں کے درمیان سے۔۔۔ کسی ایک مرکز سے دریا پھوٹ پڑے تو۔۔۔ کیسا لگتا ہو گا؟ اندر سنسناہٹ کا ایک طوفان سا آ جاتا تھا۔ شایدایسا اس لئے بھی تھا کہ دنیا میں اور بھی لوگ ہو سکتے ہیں، ہمیں پتہ نہیں تھا۔۔۔ ہم صرف ایک دوسرے کو جانتے تھے یا پھر ماں کو۔۔۔ جسے اس زمانے میں معصوم میمنا کہہ کر ہم اداس ہو جایا کرتے تھے یا پھر اپنے باپ کو، جس کی پرچھائیں تک سے ہمیں ڈر لگتا تھا۔۔۔ ہم کسی مرد کو صحیح طور سے پہچان نہیں پاتے تھے، جیسے عورت ہونے کے نام پر ہمارے سامنے صرف مظلوم ماں کا تصور رہ گیا تھا۔ 

    ’’ہاں یہ سچ ہے۔‘‘ ’’چھوٹی کاتیائن کی آواز بوجھل تھی۔‘‘

    ’’تو تمہیں یاد ہونا چاہئے۔‘‘ بڑی کاتیائن نے اپنی بات جاری رکھی۔۔۔ ’’وہ دن۔۔۔ شاید وہ دن ہماری زندگی کے چند خوبصورت دنوں میں ایک تھا۔۔۔ گلی میں ایک سانڈ پاگل ہو گیا تھا۔۔۔ یاد ہے، وہ اپنی بڑی بڑی سینگیں اٹھائے، کبھی ادھر کبھی ادھر دوڑ رہا تھا۔ کچھ دیر تک ہم بھی اس تماشے کا حصہ بنے رہے۔ مگر اب باپ کے آنے کا وقت ہو چلا تھا۔ باہر دکاندار، راہگیر سب تالیاں بجار ہے تھے۔ ہم کمرے میں آ گئے۔۔۔ ہم ایک دوسرے کو برابر دیکھے جا رہے تھے۔۔۔ جیسے، اب میمنے کے لرزنے کی آواز آئے گی۔ اچانک آنکھوں کے سامنے باپ کی شبیہ ابھری۔ اس کا چہرہ سانڈ جیسا تھا۔۔۔ اس کی سینگیں نکلی ہوئی تھیں۔۔۔ اور وہ ا ن سینگوں سے دیوانہ وار میمنے کو زخمی کر رہا تھا۔۔۔ تم میری طرف دیکھ رہی تھیں اور میں ان لہروں کی ہلچل گن رہی تھی جو تمہارے اس طرح دیکھنے سے میرے بدن میں اٹھنے لگی تھیں۔۔۔ یاد ہے۔۔۔ میں نے کہا تھا۔۔۔ مجھے چھوؤ۔۔۔ مجھے بخار لگ رہا ہے۔۔۔ تم دھیرے سے میری طرف بڑھی تھیں اور تبھی باہر زور دار گرج کے ساتھ دروازے پر کچھ گرنے کی آواز آئی تھی۔۔۔ زبردست شور ہوا تھا۔ تم کانپتی ہوئی میرے بدن میں سما گئی تھی اور میں۔۔۔ ’’جیسے کسی ایک مرکز سے دریا پھوٹ پڑے تو۔۔۔‘‘ میں تمہیں لےکر کانپ رہی تھیں۔۔۔ اندر سنسناہٹ ہو رہی تھی۔۔۔ تبھی میمنے کی بے خوف، پُرسکون اور ٹھہری ہوئی آواز سنائی دی۔۔۔‘‘

    ’’دروازہ کھولو سانڈ نے تمہارے باپ کو پٹخ دیا ہے۔۔۔ شاید وہ مر گیا ہے۔۔۔‘‘

    دروازہ کھول کر میں نے پہلی بار ماں کو دیکھا۔ وہ حسین لگ رہی تھی۔۔۔ ماں کے چہرے پر خوف کا شائبہ تک نہیں تھا۔ باہر دروازے پر ایک ہجوم اکٹھا تھا۔۔۔ اور وہیں۔۔۔ گلی میں کھلنے والے دروازے کے پاس باپ کا بے جان جسم اوندھا پڑا تھا۔۔۔ شرٹ خون سے تر تھی۔ اس نے شراب پی رکھی تھی ہمیشہ کی طرح۔۔۔ راہگیروں کے شہہ دینے پر وہ سانڈ سے بھڑ گیا۔ لوگ ماں کو صبر کی تلقین کر رہے تھے۔۔۔ ’’کسے معلوم تھا کہ ایسا ہو جائےگا۔۔۔‘‘ یاد ہے۔ ماں خاموشی سے سب کچھ سنتی رہی۔۔۔ پر یکایک سب کے سامنے زور زور سے ہنس دی تھی۔۔۔ لوگوں کی آنکھیں حیرانی سے پھٹی پڑی تھیں۔ ممکن ہے یہ سمجھا گیا ہو کہ شوہر کے صدمے کو نہ سہہ پانے کی وجہ سے۔۔۔ لیکن ماں کی کیفیت تو صرف ہمیں معلوم تھی۔۔۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ اس کے بعد ماں جب تک زندہ رہی۔۔۔ وہ بیٹھی بیٹھی ہنس پڑتی تھی۔۔۔‘‘ 

    اور مرتے وقت بھی اس کے ہونٹوں پر یہ ہنسی موجود تھی۔ گویا ماں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا، کہ باپ جیسا آدمی ایک دن مر سکتا ہے۔ بڑی کاتیائن کے لہجے میں سنجیدگی تھی۔۔۔ مگر آخر یہ سب میں تمہیں کیوں یاد دلا رہی ہوں؟ کیوں؟ توسنوریتا کاتیائن! ’’بڑی کاتیائن کے الفاظ برف ہو رہے تھے۔۔۔‘‘ سنو اور غور سے سنو۔ اس لئے کہ عورت اپنے آپ میں مکمل ہوتی ہے۔ ایک مکمل سماج۔ مرد کبھی مکمل نہیں ہوتا۔ جو مرد ایسا سمجھتے ہیں وہ غلط فہمی کا شکار ہیں۔۔۔ مرد کو عورت کی ضرورت پڑسکتی ہے لیکن عورت کو مرد کی نہیں۔۔۔ اس لئے، ابھی سے کچھ روز پہلے جو آدمی تمہاری زندگی میں آیا ہے۔۔۔ 

    چھوٹی کاتیائن نے بات بیچ میں ہی کاٹ دی۔۔۔ ’’آپ کی غلط فہمی ہے‘‘ اس نے دوسرے ہی پل نظر جھکا لی۔ ’’میری زندگی میں کوئی مرد نہیں آیا ہے۔ میں نے کہا نا۔۔۔ وہ محض ایک حادثہ۔۔۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن تم نے حادثوں کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ یاد رکھنا۔ وہ آدمی۔۔۔ کیا نام بتایا تم نے۔۔۔ ہاں بھوپیندر پریہار۔ وہ دوبارہ بھی آ سکتا ہے۔۔۔ اور اس کے لئے تمہارا جواب کیا ہو گا۔ کیا بتانا پڑے گا مجھے۔‘‘

    ’’نہیں‘‘ چھوٹی کاتیائن مسکرائی۔ ’’عورت اپنے آپ میں مکمل ہے۔ ایک مکمل سماج۔‘‘

    ’’اور اب میں یہ دکھانا چاہتی ہوں کہ اس مکمل سماج کے پاس کیسی کیسی فینتاسی موجود ہے۔۔۔ ٹھہرو، ہاں۔ ہو سکے تو وارڈ روپ سے اپنی کھلی کھلی نائٹی نکال لو۔ سلیولیس (Sleeveless)۔ تم اس عمر میں بھی آہ۔ اس عمر میں بھی۔۔۔‘‘ بڑی کاتیائن کی آنکھیں جل رہی تھیں۔ ’’سنا تم نے۔ میں بس ابھی آئی۔‘‘

    کاتیائن بہنوں کی فینتاسی
    رات دھیرے دھیرے خاموشی کے ساتھ اپنا سفر طے کر رہی تھی۔ مگر یہاں۔۔۔ اینا کی ڈالی والی دکان کے سامنے والے گھر میں رات ایک نئے ’’ایڈونچر‘‘سے آنکھیں چار کر رہی تھی۔۔۔ شاید! بہت ممکن ہے ہمارے ہندستانی معاشرے میں سوچا جائے، اس عمر میں تو آگ بہت پہلے کی کسی منزل میں بجھ چکی ہوتی ہے۔۔۔ اور کیسی آگ؟ کیسی راکھ۔۔۔؟ مستی کے ساتویں آسمان پر پہنچانے والے نئے نشے براؤن شوگر اور ہیروئن بھی وہ ہیجان نہ پیدا کر پائیں جو اس خستہ اور سیلن زدہ کمرے میں پیدا ہو رہا تھا۔۔۔ 

    ’’اس وقت میں تمام کائنا ت کی سوامی ہوں۔۔۔ سمجھا تم نے۔‘‘ بڑی کاتیائن کے ہاتھوں سے گرم گرم بھاپ اٹھ رہی تھی، جیسے جاڑے کے دنوں میں صبح صبح منہ کھولنے سے اٹھتی ہے۔۔۔ اس کے ہاتھ میں ایک اسٹیل کی کٹوری تھی۔۔۔ کٹوری میں پگھلا ہوا اصلی گھی پڑا تھا۔ چھوٹی کا چہرہ قد آدم آئینے کی جانب تھا۔۔۔ اس نے سلیولیس سیاہ نائٹی پہن رکھی تھی۔۔۔ شاید نہیں۔ نائٹی نے اچانک اس کی عمر پہن لی تھی۔۔۔ اس چھوٹے سے کپڑے میں وہ ایک دم سے چھوئی موئی لگ رہی تھی۔ بڑھاپے اور جھریوں سے میلوں پیچھے۔ جہاں صرف ہنستا گاتا ڈھول بجاتا حسن ہوتا ہے۔ حسن کا ساز چھیڑنے والے جذبات ہوتے ہیں۔۔۔ اور جذبات کے پیچھے چھپی مجروح ’’ہوسناکی‘‘ ہوتی ہے۔۔۔ ’’ہاں اب ٹھیک ہے۔ لیٹ جاؤ اور کپڑے اتار دو۔۔۔‘‘ بڑی کاتیائن کی آواز سے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے ڈھیر ساری ’’ماریجوانا‘‘ پی لی ہو۔۔۔ اور وہ پوری طرح نشے میں آ گئی ہو۔۔۔ 

    چھوٹی کاتیائن لیٹ گئی۔۔۔ اندھیرے میں جلتی ٹیوب لائٹ میں اس کا جسم چمکا۔۔۔ بڑی نے اسٹیل کی کٹوری تھام لی۔ اس کا سخت جھریوں بھرا ہاتھ ’’گھی‘‘ کے اندر گیا۔۔۔ جیسے کبھی میدے کی چھوٹی چھوٹی ’’لوئیاں‘‘ بنتی ہیں اور انہیں ڈھیر سارے گھی میں ڈبویا جاتا ہے۔۔۔ گورے چٹے بدن پر بڑی کاتیائن گھی اس طرح ملنے لگیں گویا چھوٹی کا بدن اچانک میدے کی ’’لوئیوں‘‘میں تبدیل ہو گیا ہو۔۔۔ جھپ۔۔۔ جھپ۔۔۔ 

    ’’آہ، تم اب بھی ویسی ہو۔۔۔‘‘ بڑی کے ہاتھ میں حرکت ہوئی۔ ’’بالکل ویسی۔۔۔ سنو ریتا کاتیائن۔۔۔ دیکھو۔۔۔ خود کو دیکھو۔۔۔ غور سے۔ آہ۔۔۔ اپنی عمر کو دیکھو۔۔۔ نہیں، عمر کو مت دیکھو۔۔۔ مگر سنو۔۔۔ غور سے سنو۔۔۔ مرداس تندور کو کب کا ٹھنڈا کر چکا ہوتا ہے۔۔۔ ایک لاش گھر کی طرح۔۔۔ مگر یہاں تم اپنے آپ کو دیکھو۔۔۔ تم لاش گھر نہیں ہو۔۔۔ برف گھر بھی نہیں ہو۔۔۔ تم تندور ہو۔‘‘

    بڑی کاتیائن اپنے غیر مفتوح ہونے کے خیال سے زور سے ہنسی۔۔۔ 

    ’’اسے بتا دینا۔۔۔ کیا نام بتایا تم نے۔ بھوپیندر پریہار۔۔۔ اسے بتا دینا، عورت اپنے آپ میں مکمل ہوتی ہے۔۔۔ اسے مرد کی ضرورت نہیں۔۔۔‘‘

    پھر وہ اس پر جھک گئی۔ رات خاموشی سے اپنا سفر طے کر رہی تھی۔ 

    بھوپیندرپریہار اور عشق کی ڈگر
    اتنی عمر گزر جانے کے بعد بھی بھوپیندر پریہار زندگی کے اسی فلسفے پر قائم تھے کہ ایک عمر گزر جانے کے بعد بھی ایک عمر بچی رہ جاتی ہے۔۔۔ اور جو عمر باقی بچ جاتی ہے اسے اسی طرح گزارنے یا جینے کا حق حاصل ہونا چاہئے۔ مسز پریہار کے گزر جانے اور سمن کے کناڈا بھاگ جانے کے بعد اچانک ان پر بڑھاپا طاری ہونے لگا تھا۔۔۔ حالانکہ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ جسم بوڑھا بھی ہو سکتا ہے۔۔۔ وہ تو بقول رسول حمزہ توف۔ ’’جسم تو بس عشق کے لئے ہے اور عشق کو زندہ رکھنا ہی انسان کا اولین فرض ہے۔۔۔‘‘ شاید بڑھاپے کی یہ شروعات انہیں کافی آگے لے گئی ہوتی، وہ تو اچھا ہوا جو اچانک چھوٹی کاتیائن ان سے آ ٹکرائیں۔۔۔ مدتوں بعد اندر کہیں کوئی چنگاری سی لپکی تھی۔۔۔ بڑھاپے کی تنہائی میں چہرے اور بالوں کو سنوارتے ہوئے وہ جیسے برسوں پرانے چہرے والے بھوپیندر پریہار کو واپس لانے کی کوشش کر رہے تھے۔۔۔ کتنی ہی بار قدم ’’اینا کی ڈالی‘‘ والی دکان کے سامنے والے گھر کی طرف اٹھے۔ ہر بار دروازہ کھلتا تھا اور بند ہو جاتا تھا۔ 

    ’’کاتیائن بہنوں کی دنیا۔۔۔‘‘ بھوپیندر پریہار کو لگتا، باہر کی دنیا میں ان کے بارے میں جتنی کہانیاں ہیں۔۔۔ شاید وہ سب کی سب سچ ہیں۔۔۔ یہاں تو کسی پریوں کی کہانی سے بھی زیادہ الجھا ہوا معاملہ تھا، لیکن انہوں نے ہار نہ ماننے کا فیصلہ کیا تھا اور شاید اسی لئے اس دن انہیں کامیابی مل گئی تھی۔ 

    وہ ایک دستک کے بعد دروازہ کھلا تو سامنے چھوٹی کاتیائن کھڑی تھیں۔ 

    ’’کیا بات ہے؟ بڑی کاتیائن سورہی ہیں۔ جو بولنا ہے جلدی بولو۔‘‘

    ’’اندر آ جاؤں؟‘‘

     

    چھوٹی کاتیائن نے کچھ سوچنے کے بعد کہا۔۔۔ ’’آ سکتے ہو۔ ویسے بھی بڑی کو اٹھنے میں دو ایک گھنٹے تو لگیں گے ہی۔‘‘

    وہ اندر آ گئے۔ چندن کی لکڑی کے بنے محراب نما دروازے سے گزرتے ہوئے۔۔۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں آپ ہر موسم میں بڑی کاتیائن کو دیکھ سکتے ہیں۔۔۔ ہاتھ میں تیلیاں تھامے، سرجھکائے سوئٹر بنتی ہوئی۔۔۔ وہ ایک آرام کرسی پر بیٹھ گیا۔ یہ سب کچھ ایسا تھا جیسا کالج کے دنوں میں لڑکے لڑکیوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ یا پیار کی پہلی بارش کی پہلی بوند پڑتے ہی یہ سب ان کی اداؤں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ 

    چھوٹی کاتیائن کچھ دیر تک اسے گھورتی رہی۔ 

    بھوپیندر پریہار نے نظریں جھکا لیں۔ 

    ذرا دیر بعدچھوٹی کاتیائن کے لب ہلے۔۔۔ ’’تمہاری۔۔۔ تمہاری بیوی۔۔۔؟‘‘

    ’’نہیں ہے۔ گزر گئی۔‘‘

    ’’اوہ۔۔۔‘‘

    ’’نہیں، اس میں افسوس کرنے جیسی کوئی بات نہیں ہے۔ وہ اپنی عمر سے زیادہ جی چکی تھی۔۔۔‘‘

    ’’عمر سے زیادہ۔۔۔؟‘‘ چھوٹی کاتیائن نے حیرانی ظاہر کی۔ 

    ’’ہاں، مرنے سے دس برس پہلے تک مجھے احساس ہی نہیں تھا کہ وہ ہے۔۔۔ یعنی گھر میں ہے۔‘‘

    ’’ایسا کیوں تھا؟‘‘ چھوٹی کاتیائن کی ہرنی جیسی آنکھوں میں چمک جاگی۔ 

    ’’پتہ نہیں۔۔۔ پر مجھ میں جیسے ایک نئے اور جوان بھوپیندر پریہار کی واپسی ہو رہی تھی۔۔۔ تم۔۔۔ یعنی آپ سمجھ سکتی ہیں۔۔۔ اس عمر میں۔۔۔ یعنی مجھے دیکھ کر۔۔۔‘‘ وہ کہتے کہتے لڑکھڑائے تھے۔ 

    چھوٹی کاتیائن کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔۔۔‘‘ وہی۔۔۔ غلط فہمی کی روایت۔۔۔ مرد سمجھتا ہے وہ ساٹھ کے بعد پھر سے بچہ بن گیا ہے۔۔۔ اور عورت تو اپنی عمر سے زیادہ بوڑھی ہو گئی ہے۔۔۔ ہے نا، ایسا ہی کچھ۔۔۔‘‘ وہ پھر زور سے ہنسی۔ 

    ’’پتہ نہیں۔‘‘ بھوپیندر پریہار کے کھوکھلے لفظوں میں ہلچل ہوئی۔ ’’مگر میرا خیال ہے کہ مرد۔۔۔ یعنی۔۔۔‘‘

    ’’مرد۔ مرد کے نام پر اتنی رعونت کیوں بھر جاتی ہے مرد میں۔۔۔ بار بار اس لفظ کو دہراتے ہوئے، اپنی کسی کمزوری پر پردہ تو نہیں ڈالتے۔۔۔‘‘ چھوٹی کاتیائن نے الفاظ جیسے زہر میں ڈبو رکھے تھے۔ ’’خیر! جو بھی کہنا ہے جلدی کہو۔ بڑی کاتیائن تمہارے اس طرح آنے کو پسند نہیں کرتیں۔‘‘

    ’’کیوں؟‘‘ بھوپیندر پریہار اچانک ٹھہر سے گئے۔ ان کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔۔۔ ’’تمہاری اپنی زندگی ہے، ان کی اپنی۔۔۔‘‘

    ’’نہیں، ہماری زندگیاں ایک ہیں۔‘‘

    بھوپیندر پریہار زور سے لڑکھڑائے۔۔۔ ’’کیا۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں، ہم لسبین (Lesbian) ہیں۔۔۔ لسبین۔‘‘ وہ بڑے اطمینان سے ناخن چباتے ہوئے بولی۔ 

    ’’لسبین۔۔۔‘‘ بھوپیندر پریہار اچھل پڑے۔۔۔ جیسے بچھونے ڈنک مار دیا ہو۔ 

    ’’ہاں، میں لسبین ہوں۔۔۔ لیکن تم تو ایسے ڈر رہے ہو جیسے میں کوئی کوڑھی ہوں، یا مجھے ایڈس ہو گیا ہے۔‘‘

    ’’لیکن تم۔۔۔‘‘ ان کی آنکھیں اب بھی پھٹی پھٹی تھیں۔ 

    ’’کیوں آتے ہو میرے پاس، اچھی طرح جانتی ہوں۔‘‘ چھوٹی کاتیائن کے لہجے میں شدید نفرت تھی۔۔۔ ’’اپنے باپ کو بھی جانتی تھی۔ تمہیں بھی۔۔۔ تمہارے اس پورے مردانہ سماج کو۔۔۔ حیران مت ہو۔ بس وہی غلط فہمی پر مبنی روایتیں۔۔۔ مرد ہونے کی خوش خیالی۔۔۔ یہ احساس ہی اچانک تمہیں ایک بےوقوف راکشس میں تبدیل کر دیتا ہے۔ تم سمجھتے ہو سب تمہاری طاقت کے ماتحت ہیں۔ تو یہ تمہاری ناسمجھی ہے۔۔۔ سنو بھوپیندر پریہار۔۔۔ تمہاری بیوی نہیں ہے، یہ بات ذہن کی گانٹھ کھول کر نکال کیوں نہیں دیتے کہ تمہاری بیوی، دس برس پہلے ہی کھوئی نہیں تھی۔۔۔ بلکہ مر چکی تھی۔۔۔ اور تم نے مارا تھا اسے۔۔۔‘‘

    ’’میں نے؟‘‘بھوپیندر پریہار ایک دم سے چونکے۔ 

    ’’ہاں تم نے۔ ہاں، اس لئے کہ دس برس پہلے ہی اس کے اندر کے لاوے کو بجھا چکے تھے تم۔۔۔ اور اسی لئے وہ تمہارے لئے نہیں تھی۔۔۔ یا مر گئی تھی۔۔۔ اور اس بڑھاپے میں بھی تمہارے اندر ایک گرم، دہکتا ہوا جسم ہے۔۔۔ سنو پریہار۔۔۔ تم نے اپنی تہذیب اور روایت کے وہ موتی چنے ہیں جہاں صرف ’’ایک بیوی بس، یا لوگ کیا کہیں گے‘‘ کی بندشیں ہوتی ہیں۔۔۔ تم لاکھ ماڈرن بننے کی کوشش کرو مگر تم ہو وہی۔۔۔ ایک بزدل مرد۔۔۔ اگر اتنی ہی آگ تمہارے اندر ہے تو تم اپنا جسم کسی مرد سے کیوں نہیں بانٹتے۔۔۔؟ جہاں تمہیں بند کمرے میں داخل ہونے کے لئے تم کو بہت سے سوالوں کا جواب نہیں دینا ہوگا۔۔۔‘‘

    ’’لیکن خود کو۔۔۔‘‘ بھوپیندر پریہار کا جسم تھر تھرایا۔ 

    ’’بھول کر رہے تو تم۔ خود کو ابھی دیکھا کہاں ہے۔ اسے تو تم نے Gay یا Homosexuality اور کئی دوسرے غلط ناموں میں باندھ رکھا ہے۔۔۔ میں کہتی ہوں میں لسبین ہوں، تب بھی تمہارا سماج اچانک ہم پر بےرحم ہو جاتا ہے۔۔۔ لسبین یعنی کسی ناجائز نظریے کی اولاد۔۔۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہم نے آپس میں سکھ، امن، شان و شوکت اور سرشاری کی انتہا ڈھونڈ لی ہے۔ اب تم چاہو تو جا سکتے ہو۔۔۔‘‘

    آخری جملہ اس قدر ٹھہر ٹھہر کر بولا گیا تھا کہ بھوپیندر پریہار کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ اندھیرا دھیرے دھیرے چھٹ رہا تھا۔۔۔ چھوٹی کاتیائن کے لفظ چیخ رہے تھے اور اس چھٹتے ہوئے اندھیرے میں وہ کئی پرچھائیوں کو سمٹتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔۔۔ ماں، بابوجی، بیوی، سمن۔۔۔ پرچھائیاں ایک دم سے ہٹ گئی تھیں۔۔۔ گے (Gay)، لسبین اور کتنے ہی غیرفطری رشتے۔۔۔ اب ایک سہما سا اُجالا تھا۔۔۔ اور اس اُجالے میں وہ صاف دیکھ رہے تھے کہ وہ اپنی عمر سے زیادہ جی چکے ہیں۔ زندگی، موت، سکھ۔۔۔ کہنا چاہئے ایک پل کو چھوٹی کاتیائن کے الفاظ کے تیرسے گھبرا کر وہ کافی دور نکل آئے تھے۔۔۔ اور اب۔۔۔ بھوپیندر پریہار کے ہونٹوں پر ایک تیکھی سی مسکراہٹ تھی۔۔۔ 

    ’’سنورما کاتیائن۔۔۔ وہ اس کی طرف دیکھے بغیر بولے۔۔۔ ٹٹول ٹٹول کر اپنے لفظوں کو یکجا کرتے ہوئے بولے۔ ’’سنو۔ ہم میں سے کوئی بھی کبھی بھی مر سکتا ہے۔۔۔ سمجھ رہی ہونا۔۔۔ کبھی بھی مرسکتا ہے۔۔۔ کیوں کہ ہم اپنی عمر سے زیادہ جی چکے ہیں۔۔۔ اس لئے۔۔۔‘‘ پتہ نہیں وہ اور کیا کیا کہہ رہے تھے لیکن چھوٹی کاتیائن۔۔۔ انہیں کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔ وہ صرف ایک ٹک بھوپیندر پریہار کا چہرہ تکے جا رہی تھیں۔ ہاں، اس عمل کے دوران، ان کے اندر تیز سنسناہٹ ہو رہی تھی۔ جو اس سنسناہٹ سے مختلف تھی جیسی سانڈ والے حادثے کے دن بڑی کاتیائن کی بانہوں میں سمٹ کر اس نے محسوس کی تھی۔۔۔ پتہ نہیں یہ کیا تھا، اسے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔۔۔ یا۔ وہ سمجھنا نہیں چاہ رہی تھیں۔ 

    آخری مکالمہ چھوٹی کاتیائن کا
    وہ اسی نائٹی میں تھیں۔ سلیولیس سیاہ نائٹی میں۔ آئینے کے سامنے۔۔۔ لیکن آئینہ شانت تھا۔ آئینے میں کہیں کوئی آگ، کوئی بھڑکیلاپن، کوئی لگاؤ، کوئی کشش نہیں رہ گئی تھی۔ دھیرے دھیرے ریتا کاتیائن نے نائٹی کے تمام ہک کھول ڈالے۔ ذرا فاصلے پر بڑی کاتیائن کھڑی تھیں، اور انہیں گھورے جا رہی تھیں۔ لیکن ان کے اس طرح دیکھنے میں کوئی بزرگی، کوئی حکم یا کوئی خفگی شامل نہیں تھی۔ 

    اچانک چھوٹی کاتیائن کے منہ سے ایک تیز چیخ نکلی۔ نائٹی کے تمام ہک انہوں نے کھول ڈالے تھے۔ آئینے میں ایک سہما، بے ڈھنگا جسم مردہ پڑا تھا۔ وہ بوکھلاہٹ میں چیختی ہوئی بڑی کاتیائن کی طرف جھپٹیں۔۔۔ 

    ’’آگ کہاں ہے؟ میرے جسم کی آگ کیا ہوئی؟‘‘

    بڑی کاتیائن ایسے چپ تھی، جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہیں ہو۔ 

    ’’سنو، میرے اندر۔۔۔ تم نے تو کہا تھا۔۔۔‘‘ چھوٹی کاتیائن کی نظریں جیسے مدتوں بعد بڑی کاتیائن کی آنکھوں میں سمائی جا رہی تھیں۔۔۔ یاد ہے۔۔۔؟ سنو، تم نے ہی کہا تھا، آہ تم اب بھی ویسی ہو۔۔۔ بالکل ویسی ریتا کاتیائن۔۔۔ سنو، مرد اس تندور کو کب کا ٹھنڈا کر چکا ہوتا ہے۔۔۔‘‘ وہ پھر چیخی۔۔۔ ’’آگ کہاں ہے، میرے اندر کی آگ کہاں ہے۔۔۔؟‘‘

    بڑی کاتیائن کا چہرہ ہر پل تیزی سے بدل رہا تھا۔ 

    ’’تم۔۔۔ تم سن رہی ہو۔ میں۔۔۔ میں کیا پوچھ رہی ہوں۔۔۔؟‘‘

    کافی دیر بعد بڑی کاتیائن کے بدن میں حرکت ہوئی۔۔۔ اس نے چھوٹی کی جلتی آنکھوں کی تاب نہ لاکر نظریں جھکا لیں۔ 

    ’’آگ تو میرے پاس بھی نہیں ہے۔‘‘

    بڑی کاتیائن کے الفاظ سرد ہو چکے تھے۔ پھر وہ ٹھہری نہیں، تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئیں۔ 

    آئینے میں ابھی بھی چھوٹی کاتیائن کا سہما، بے ڈھنگا جسم پڑا تھا۔۔۔ اور شاید مردہ بھی۔


    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے