Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ماں

MORE BYمحمد ہمایوں

    دلچسپ معلومات

    میری بیمار والدہ کی حالت دن بہ دن بگڑتی چلی گئی اور ہم بھائیوں سے یہ فیصلہ نہ ہو سکا کہ کیا کریں۔ ہم سے تو یہ بھی فیصلہ نہ ہو سکا کہ ان کا عزیز ترین بیٹا کونسا ہے

    میری والدہ بیمار کیا پڑیں کہ ان کی حالت دن بہ دن بگڑتی چلی گئی اور سنبھلنے کا نام ہی نہیں لیتی تھیں۔ ہم بھائیوں سے یہ فیصلہ نہ ہو سکا کہ کیا کریں۔ ہم بھائیوں سے تو یہ بھی فیصلہ نہ ہو سکا کہ ان کا عزیز ترین بیٹا کونسا ہے ۔ پتا نہیں کیا مرض تھا کہ ان کا وزن بتدریج گھٹتا چلا گیا، کھانے پینے سے یکسر رغبت نہ رہی اور انہوں ایک طرح سے نے چپ سادھ لی۔ ہم نے بارہا ان سے پوچھا لیکن انہوں نے ڈاکٹر کے پاس جانے سے انکار کردیا۔

    کوئی وجہ تو تھی کہ ان کو ہسپتال جانے سے اتنی وحشت تھی ۔ میراایک اندازہ تھا اور وہ یہ کہ شاید جب تک سارے بھائی مل کر یہ نہ طے کریں کہ ان کاعلاج کیسے ہوگا وہ ہسپتال جانے سے انکاری رہیں گی لیکن یہ بات میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا ۔اب مجھے یہ بھی فکر لاحق ہوگئی ہے کہ کہیں آپ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ یہ بات مجھے انہی نے بتائی۔ نہیں صاحب انہوں نے مجھ سے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ وہ تو بس خلاؤں میں گھورتی رہتی تھیں۔۔ چپ چاپ، کسی سے کچھ بھی کہے بغیر۔

    میں نے ان کی طرف دیکھا ۔۔۔ ان کے ہاتھ میں جنگ کا ایک پھٹا پراناپرچہ تھا ۔۔ان کے جھریوں بھرے چہرے پر نقاہت ہی نقاہت لکھی ہوئی تھی ، بال الجھے اور ان کی خوبصورت آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں ۔ ان کے ہونٹوں کی سرخی سیاہی مائل ہو چکی تھی اور اب ان میں اتنی بھی تاب نہیں رہی کہ بار بار سر سے ڈھتے دوپٹے کو صحیح طریقے سے اوڑھ سکیں۔ ایک وقت میں جب ان کا حسن جوبن پر تھا اوران پر نظر پڑتی تو ہٹائے نہیں ہٹتی تھی۔ خوبصورت گہری سبز بڑی بڑی آنکھیں، تیکھے نقوش، ستواں ناک اور پتلے گلابی ہونٹ ۔۔ لیکن اب یہ سب کچھ گویا معدوم ہوچکا تھا ۔

    والد صاحب کے گزرنے کے بعد ان کی یہ خواہش تھی کہ ہم پانچ اکھٹے رہیں، آپس میں تفرقہ نہ ہو لیکن جیسےہی والد صاحب نے آنکھ موند لیں ، غفار بھائی نے ناظم آباد والا گھر اپنے نام کروا لیا اور توفیق بھائی نے ان کا بینک اکاونٹ ،جس کا انتظام جب تک والد مرحوم بقید حیات تھے، وہ کرتے رہے تھے ۔ میں، امی ، نعیم بھائی اور انجم میاں کچھ عرصہ تو غفار بھائی کے ساتھ رہے لیکن پھر جب امی اور بھابھی میں چپقلش کچھ بڑھ سی گئی تو میں، بیگم، امی اور انجم کرائے کےفلیٹ میں آگئے اور نعیم بھائی شانتی نگر۔

    یہ نیا مسئلہ چھ مہینے پہلے شروع ہوا اور شروع شروع میں مجھ سے ان کی یہ حالت بالکل نہیں دیکھی گئی ۔ ایک دن انہیں کسی طریقے سے بہلا پھسلا کر ہل پارک والے ہسپتال لے گیا۔ وہاں ایک جوان ڈاکٹر نے انہیں دیکھا، چھاتی کا معائنہ کیا، دل کی دھڑکن سنی، پان تمباکو کا پوچھا اورخون، پیشاب، بلغم اور ایکسرے کے ٹیسٹ لکھ کے دے دئیے۔ امی نے جب ٹیسٹوں کی یہ لمبی فہرست دیکھی تو صاف انکار کردیا اور کہا کہ مجھے کچھ بھی نہیں۔

    میں نے ساری بات باقی تینوں بھائیوں کے سامنے رکھ دی اور مجھے خودسمجھ نہیں آرہا تھا کہ امی کیوں علاج معالجے سے انکار کر رہی تھیں۔ سب نے مجھے مشورہ دیا کہ ان کو کچھ وقت دیں لیکن جب ایک ہفتے کے بعد ان کا رویہ یہی رہا تو میرا ماتھا ٹنکا اورفون کرکے اس انہونی صورتحال سے سب کو باخر کیا۔ یوں ہم آج دوبارہ غفار بھائی کے ہاں جمع ہوئے تا کہ آپس میں مل بیٹھ کرکے یہ حتمی فیصلہ کر ہی لیں کہ آخر ان کا کریں تو کیا کریں۔

    میری ماں جس کرب سے گذر رہی ہے آپ میں سے کسی کو بھی اندازہ نہیں، میں روز روز کی ان طولانی اور بے فائدہ قسم کی بحثوں سے تنگ آگیا ہوں اب عمل کا وقت ہے

    غفار بھائی جب آپ کہتے ہیں کہ میری ماں تو کیا اس سے مراد یہ ہے کہ یہ صرف آ پ کی والدہ ہیں؟ ہمارا ان پرکوئی حق نہیں؟ مسماۃ سیدہ نجمہ بیگم ہمارے والد مرحوم سید کریم بخاری کی واحد اور اکلوتی رفیقہ حیات ہیں اور ہم سب، بشمول آپ ، ندرت اور جہاں آرا، ان کی اولاد ہیں۔۔

    نعیم بھائی نے ہمیشہ کی طرح غفار بھائی کو یاد دہانی کرائی اور اس تتمے کے ساتھ بحث دوبارہ شروع ہوئی۔ توفیق بھائی نے نعیم بھائی کی بات کاٹی

    آپ محبوب الدین کو بھول گئے ہیں شاید ۔۔وہ بھی ہمارا بھائی ہے۔۔۔

    اس بات سے نعیم بھائی کا چہرہ تمتمانےلگا

    ایک منٹ ۔۔ توفیق بھائی ۔۔ ایک منٹ ۔۔اس خبیث کا تو نام ہی نہ لیں، اس کے مقدمےکی وجہ سے تو ہی ان کی یہ حالت ہوگئی ہے وہ رشتہ نہ توڑتا ، والد صاحب پر ڈگری نہ کرتا، کچھ خیر خبر رکھتا تو یہ حالت تو نہ ہوتی ماں جی کی۔۔۔ جیتے جی مار دیا ہے اس نے

    میں نے بیچ میں مداخلت کی

    ارے کچھ بھی ہو بھائی تو ہے۔۔ خون ہے ہمارا۔۔ ویسے اس کا سارا قصور نہیں تھا

    غفار بھائی نے دوبارہ گلا کھنکا ر کر بات شروع کی

    میں یہ نہیں کہتا کہ مسماۃ سیدہ نجمہ بیگم اکیلی صرف میری ماں ہیں، ہر گز نہیں میں صرف آپ سب کویہ بتانا چاہتا ہوں جب والد صاحب نہ رہے تو یہ میں ہی تھا جس نے پورے گھر کی ذمہ داری اٹھائی، آپ سب کو پال پوس کر بڑا کیا۔۔ میں صرف آپ کا بڑا بھائی ہی نہیں والد کے درجے میں بھی ہوں۔

    توفیق بھائی طیش میں آگئے

    ہمارے والد صاحب تو تھے ہی سنکی ۔ اور سچ پوچھیں ہماری کسمپرسی کی وجہ ہی ہمارے والد ہی ہیں، کچھ صحت کا خیال رکھتے۔۔ اتنی جلدی نہ مرتے۔۔ تو آج ہم۔۔ خیر اب کیا کہیں

    انجم میاں نے اپنے موبائل سے آنکھیں ہٹائیں اور سب کو مخاطب کیا

    میں آپ سب میں چھوٹا ہوں لیکن پڑھا لکھا ذیادہ ہوں ، ایم اے پڑھا ہوں، سرکاری افسر ہوں ۔ آپ میں سے کسی نے بھی والدین کی خواہش پوری نہیں کی، کام دھندے میں لگے رہے یہ میں ہوں جس کی بدولت خاندا ن کو عزت ملی، توقیر ملی وقار ملا

    نعیم بھائی خاموش نہ رہ سکے

    والد صاحب کو کوسنے کا کیا فائدہ۔۔ وہ کام سے ذیادہ سیاسی تحریکوں میں فعال تھے۔۔ ان کی موت شہادت کے درجے میں آتی ہے

    اور ان تحریکوں کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔۔آپ بھی سیاست کریں بھائی جان اور والد صاحب کی طرح شہادت کے رتبے پر فائز ہوجائیں اور آپ کے پانچ بچوں کی ذمہ داری ہمارے اوپر پڑے گی

    اس دن بات پوری نہ ہوسکی اور ہماری ملاقات ایک طرح سےناکام ہوگئی۔ جب میں گھر آیا تو میں نے دیکھا کہ امی جان مذید کمزورہو گئی تھیں۔ میں نےعظمی سے پوچھا

    کیا امی نے کچھ کھایا ہے؟

    مجال ہے جو صبح سے ایک کیلا بھی منہ میں گئی ہو

    ماں سے تعلق ہمیشہ جذباتی ہوتا ہے اور اس تعلق کا محور یعنی ان کی محبت کی شدت ایک طرفہ ہی ہوتی ہے۔ صاحب آپ میلوں دور چلے جائیں آپ ان کے حافظے سے دور نہیں جاتے اور دوسری بات یہ کہ یہ محبت بے لوث ہوتی ہے۔ یہ نکتہ اس دور میں اب ایک طرح سے اور بھی واضح ہے اور اوہ ایسے کہ جب تمام بے لوث قرابت داریاں اختتام کو پہنچ چکی ہیں، زمانے میں بے غرض دوستی ناپید ہے، بھائی بھائی کا دشمن ہے ماں وہ واحد ہستی ہیں جن کی محبت آج بھی اسی طرح قائم ہے۔

    میں جا کر ان کے سامنے بیٹھ گیا۔ وہ سوتی ساڑھی میں ملبوس تھیں ۔میں نےان کے کھردرے رعشہ دار ہاتھ ، پکڑ لئے۔ یہ ہاتھ جو کبھی بہت ملائم، جوانی سے بھر پور، خوبصورت اور نرم ہوا کرتے تھے اور آج جھریوں اور نیلی رگوں کے جال سے پر تھے۔ میرے گرم ہاتھوں پر ان کی برفیلی انگلیوں گرفت ایک خفیف حرکت سے ہلکی سی بڑھ گئی اور میں نے دیکھا کہ ان کے سیاہی مائل ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ سی پھیل گئی اور ان کی ان کی خوبصورت آنکھوں میں چمک بڑ ھ گئی۔

    میں نے سوچا یہی ہاتھ تھے جو ، جب جب ہم شرارت کیا کرتے تھے، زناٹے دا تھپڑ بن کر ہمارے گالوں اور پیٹھ پر پڑا کرتے تھے۔ یہ یہی ہاتھ تھے جب کوئی من پسند کھانا نہ بنا ہوتا تھا تو ماتھے سے بال ہٹا کر، گال تھپتھپا کر ایک ایک نوالہ کھلاتے تھے، اس شرط پر کہ اگر آج بینگن کا بھرتہ کھاوں گا تو کل آلو والے پکوڑے ملیں گے، آج دال بھات کھاوں گا تو کل بریانی ملے گی۔

    میری والدہ ایک کفایت شعار خاتون تھیں اور ان کے بھائیوں کا سہلٹ میں جوٹ کا اچھا خاصا کاروبار تھا جو سقوط بنگال کےساتھ ہی دفن ہوگیا۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ ہمارے ناظم آباد والے گھر میں ایک پائیں باغ تھا جس میں انہوں نے بھانت بھانت کی سبزیاں اگائ ہوئیں تھیں۔ وہیں آم کے تین بڑے پیڑ تھے جس سے ہم میٹھے آم کھایا کرتے تھے اور اس میں لگا جھولا برسات میں ندرت اور جہاں آرا کا مسکن ہوا کرتا تھا۔

    ان کی ہنسی اور قہقہوں کی آواز سے گھر میں مترنم تارے بکھر جاتے ہوتے تھے اور ان کی روز روز کی

    لڑائیاں اور مقدمے ہمارے گھر کا خاصہ تھیں۔

    بھائی جان دیکھیں ناں ندرت کی بچی میرے بال کھینچ رہی ہے۔۔ ہٹو ناں۔۔امی دیکھیں ناں

    امی آپ نے ناں جہاں آرا کو سر پر چڑھا رکھا ہے۔۔ دیکھیں ناں بھائی جہاں آرا کی بچی جان مجھے گھور رہی ہے۔۔امی سمجھائیں ناں اس چڑیل کو

    والد صاحب کے گذرجانے کے بعد زندگی اتنی اچھی کبھی بھی نہ رہی۔ غفار بھائی کے بچے بڑے ہوگئے تو پائیں باغ میں دوکمرے بنوا لئے اور آم کے پیڑوں کو کاٹ ڈالا۔ لاکھ سمجھایا بھائی جان اوپر چھت پر دو کمرے بنوا لو ، کمرے کیا بنواتے منہ بنا کر مجھے ایک بودی دلیل دی۔

    ارے میں اوپر کمرے بناوں گا تو اماں کو چڑھتے ہوئے تکلیف ہوگی، ساری عمر جوان تو نہیں رہنا انہوں نے، یہی حکمت ہے جو میں نے دو کمرے پائیں باغ میں بنوا لئے

    توفیق بھائی بھی کم نہیں تھے اور انہوں نے بڑابوائلر لگانے کے بہانے کیاریاں روند ڈالیں اور یوں وہ سارے پیڑ اورکیاریاں وقت کے ساتھ معدوم ہو گئیں ۔

    اس شام جب میں دفتر سے واپس آیا تو انجم کو گھر میں دیکھا موبائل پکڑے کچھ میسج کر رہا تھا ۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔

    انجم تم ایسا کرو کل امی کو ہسپتال لےجاو دوبارہ ۔۔ آپ کی وجہ سے ان کی انٹاٹلمنٹ تو ہوگی نا؟

    بھائی جان مجھے سیکٹری صاحب کے ساتھ میٹنگ کرنی ہے، امن و امان کا مسئلہ ہے۔۔ وکلا کی تحریک کا تو آپ کو علم ہی ہے۔۔ کافی ہنگامے ہیں ۔۔ کراچی کسی وقت بھی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔۔ حفظ ماتقدم کے طور پر ۔۔سب ہائی الرٹ پر ہیں ۔۔ضروری ہے کہ پھربارہ مئی والا واقعہ نہ ہو

    مجھے اچھی طرح سے علم تھا کہ اس کی سیکٹری کے ساتھ کوئی میٹنگ نہیں تھی وہ صرف یہ نہیں چاہتا تھاکہ جب وہ اپنی بیمار ماں کے ساتھ اپنے ہسپتال میں جائے تو لوگ یہ نہ کہیں کہ انگریزی بولنے والے افسرصاحب کی والدہ شلوار قمیص میں ملبوس اور سر پر دوپٹہ لئے ہوئے ہیں اور صرف اردو بولتی ہیں۔۔ اب یہ شرم تھی یا کوئی اشرافیہ عادت لیکن انجم کبھی بھی امی کے ساتھ ذیادہ وقت نہیں گزارتا تھا۔ اگلے دن ہم سب بھائی دوبارہ مل بیٹھے۔

    غفار بھائی نے دوبارہ کلام کا آغاز کیا

    امی کی طبعیت ٹھیک نہیں ، میں تو کہتا ہوں آغا خان لے جائیں قوی امکان ہےان کو کینسر ہو سکتا ہے

    میں نے انہیں مشورہ دیا

    غفار بھائی کینسر ہے تو شوکت خانم لے جائیں، لاہور ہی تو جانا ہے بس۔۔ میں جاسکتا ہوں وہاں اور دوسرا شوکت خانم فری علاج بھی تو کرتا ہے

    توفیق بھائی نے اپنی داڑھی کجھائی اور ہونٹ کاٹے

    شوکت خانم میں فری علاج کے لئے زکواۃ کا وصول کنندہ ہونا ضروروی ہے ویسے

    نعیم بھائی نے پان کی پیک تھوکی اور منہ صاف کرتے ہوئے مشورہ دیا

    ارے ایک فارم ہی تو ہے بھائی۔۔ ہیں۔ انجم میاں کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔۔ کیوں انجم؟

    غفار بھائی نے پہلو بدلا اور بات بدلتے ہوئی ہمیں ایک طرح سے خبردار کیا

    کینسر جان لیوا مرض ہے اور ایک شرعی تقاضہ وصیت کا بھی ہے جو میں آپ لوگوں کے سامنے

    رکھناچاہتا ہوں۔

    سب نے ان کی طرف دیکھا

    میرے والد صاحب نے فوت ہونے سے کہیں پہلے یہ بات مجھے بتائی تھی کہ اگر میں تایا کی بیٹی سے شادی کروں گا تو ہاتھ کے جو بھی زیور ،جو انہوں نے نے امی کو لے کے دئے تھے، میری بیگم کو ملیں گے۔ یہ اس لئے بتا دیا کہ وصیت اور تحفہ وراثت سے باہر ہوتے ہیں

    توفیق بھائی تھوڑے الجھے سے نظر آئے اور نفی میں سر ہلاتے رہے

    غفار بھائی زبانی کلامی تحفے اور وصیتیں کوئی شرعی حثیت نہیں رکھتیں

    غفار بھائی سے یہ بات برداشت نہ ہوسکی

    قران میں لکھا ہے وصیت کے بارے میں جا کر خود پڑھ لو۔۔ ملکی قانون کچھ بھی ہو ہم پابند اسلام کے قانون کے ہیں۔۔ بس میں اب اس مسئلے ہر کچھ بھی نہیں سنوں گا

    توفیق بھائی نے اپنے غصے کو دبایا

    میں بھی اب اس معاملے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا، جب وہ وقت آئے گا تو قران بھی دیکھ لیں گے اور شرعی احکام بھی۔۔ اس وقت امی کی بیماری کا مسئلہ درپیش ہے

    انجم اپنے موبائل میں گم تھا ۔ یکایک اس کے موبائل پر لرزہ سا طاری ہوگیا۔ وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔ نعیم بھائی نےسر گھما کر دیکھا اورجب وہ دور چلے گئے تو سلسلہ کلام جوڑا

    مجھے امی کا مسئلہ نفسیاتی معلوم ہوتا ہے۔ ان میں یہ عارضہ کافی زمانے سے ہے۔۔ ہم سب میں ان کا

    چہیتا بیٹا یہی ہے جس کی بلائیں لینے اور محبتیں نچھاور کرنے سے امی کو فرصت نہیں تھی اور آج محترم جناب افسر صاحب بہادر کو موبائل اور فیس بک سے فرصت نہیں۔ ارے یہ بڑا افسر بن گیا ہے، اس کو شرم آتی ہے ماں سے بات کرتے ہوئے۔۔ یہ تو اردو بھی ٹھیک طریقے سے نہیں بو ل سکتا، گوروں کی طرح بولتا ہے

    میں انجم کی طرفداری میں کود پڑا

    اچھا کرتا ہےاردو کا فائدہ بھی کیا ہے؟ اس کا سارا کام انگریزی میں ہے، کرنے دو

    کیسے رہنے دیں آئین کہتا ہے کہ اردو کو قومی زبان بنا دیا جائے، یہ ہماری مادری زبان ہے، ہماری پہچان ہے۔۔ ہم اسی وجہ سے تو پاکستان آئے تھے

    توفیق بھائی اس بحث اب خاصے بیزار ہوچکے تھے

    ارے چھوڑیں اس بحث کو ہم پاکستان کیوں آئے تھے یہ ایک لمبی بحث ہے۔۔باقی رہی بات پہچان کی تو اردو کا جو حلیہ ٹی وی چینلوں کے اینکروں نے بنایا ہے، وہ تو خود پہچان کے قابل نہ رہی ہمارے لئے کیا پہچان کی موجب ٹہرے گی۔پیشتر اینکرایک لفظ سیدھا نہیں بول سکتے ۔۔سالے۔ ۔ آدھی انگریزی آدھی اردو۔۔ اردنگلش کہیں تو اچھا لگے۔۔اس دن رکشے والے سے کہا میاں دائیں مڑو دائیں مڑو۔ گھامڑ بولا کہا صاحب لفٹ جاوں یا رائٹ ؟ آوے کا آوہ بگڑا ہوا ہے یہاں تو

    غفار بھائی نے توفیق بھائی کی ستائش کی

    ہاں درست کہا تم نے توفیق میاں

    میں نے دوبارہ سوال کیا

    تو پھر کیا فیصلہ ہوا؟ آغا خان لے جائیں یا شوکت خانم؟

    غفار بھائی نے ہونٹوں پر زبان پھیری

    شوکت خانم کو تو آپ رہنے ہی دیں، آغا خان بازو ہی میں ہے اور میں وہاں کے ایک پروفیسر عباس کو کسی کے توسط سے جانتا ہوں

    پھر اپنی عینک اتار کر بات جاری رکھی

    آغا خان میں خرچہ ذیادہ آئے گا اور وہ بھی دہرا، علاج کاالگ تشخیص کا الگ اور آج کل کاروبار میں بھی مندی ہے۔۔ میں تو کہتا ہوں کسی سرکاری ہسپتال میں دکھا دیتے ہیں وہاں بھی بہت اچھے ڈاکٹر ہوتے۔۔ تشخیص تو لگتا ہے کیسنر ہی ہے اور لاعلاج ہی ہوگا ۔ ہمارے ایک سپلائر ہیں ان کی والدہ کو بھی یہی مرض تھا۔۔ تین ہفتے میں خالق حقیقی سے جا ملیں۔۔ اللہ غریق رحمت کرے۔۔ کافی پریشان رہتے تھے۔۔ امی گذ گئیں تو کاروبار پر توجہ بڑھ گئی۔۔ اللہ نے کاروبار میں روانی دوبارہ بڑھا دی ہے

    نعیم بھائی نے کچھ سوچ کر لقمہ دیا

    ختم قران وغیرہ اور ایصال ثواب کے لئے ایک نکڑ والے مدرسے کا مولوی اچھا رہے گا، صحیح نام تو مجھے یاد نہیں لیکن اسے لوگ فٹافٹ مولوی کہتے ہیں ۔۔ پندرہ منٹ میں تراویح ختم کرتا ہے۔ اس کے مدرسے میں تین سو کے قریب لونڈے ہیں چار پانچ ختم ایک دن میں کر دیں گے۔۔ فٹافٹ

    توفیق بھائی نے ہاتھ کے اشارے سے ان کو روکا

    نہیں نہیں یہ ختم وغیرہ نہ ہی کریں اس دن ٹی وی پر ایک مولانا نے اس کی مخالفت کی اور کہا یہ غیر شرعی عمل ہے

    نعیم بھائی بھی رک نہ سکے

    بھائی جان وہ مولانا صاحب ہماری طرح نماز نہیں پڑھتے۔۔ ختم تو ہوگا ہی غیر شرعی ان کے نزدیک

    توفیق بھائی اس بات پر برہم ہوگئے

    تو کیسے پڑھنی چاہیے نماز، یہ ہماری طرح تمہاری طرح کیا بات ہوئی نماز میں۔۔ وہ بالکل شرعی نماز پڑھتے ہیں؟

    اس سے پہلے کہ نماز کے صحیح طریقےپر گرما گرمی مزید بڑھ جاتی میں نے بات بدلی

    سپلائر سے یاد آیا کیا آپ کو ڈلیوری پوری مل گئی پچھلے ہفتے؟

    کیاں ملی، لگتا ہے پیسے سارے ڈوب گئے ہیں۔ اعتبار کا تو زمانہ ہی نہیں رہا

    توفیق بھائی بھی چپ نہ رہ سکے

    کاروبار کو تو ستیاناس ہوگیا ہے وکلا کی تحریک میں۔۔سارے پیسے ڈوب گئے ہیں۔

    جب میں نے بحث ڈگر سے دور جاتی دیکھی تو ایک بار پھر ان کو یاد دلایا تاکہ ان سب کوبحث میں دوبار ہ جوڑ لاوں

    تو پھر کیا فیصلہ ہوا؟ آغا خان لے جائیں ، شوکت خانم یا سرکاری؟

    توفیق بھائی نے جمائی لی اور اپنے چوڑے کلے میں ایک چپٹی گلوری منہ میں دبائی

    سرکاری ہسپتال کو توآپ بھول ہی جائیں ۔۔ کچھ لاج ہونی چاہئے ۔۔لوگ کیا کہیں گے۔۔ ڈھیروں تنومند بیٹے اور ماں سرکاری ہسپتال کے برامدے میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کی مر گئیں۔۔ سبکی ہوگی

    ہماری۔۔ آخر کو سماج میں رہنا ہے ہمیں لوگوں کو منہ دکھانا ہے ہمیں

    مجھے یہی موقع نظر آیا کہ اپنی بات ایک مرتبہ پھر دہراوں

    شوکت ویسےخانم اچھا رہتا، سارے ڈاکٹر باہر کے پڑھے ہوئے ہیں لیکن لاہور آنا جانا، رہایش وغیرہ بڑا پیچیدہ مسئلہ ہے، اجنبی جگہ ہے۔۔ اجنبی لوگ ۔۔ لیکن میں انہیں لے کےجاسکتا ہوں

    میں نے اس بات کا اثر دیکھنے کے لئے ان کی طرف دیکھا ۔ اس دوران حمیدہ بھابھی چائے لے کے آگئیں ۔ میں نے بات جاری رکھی

    اگر میں ان کو لاہور بجھوانے کا انتظام کروں تو کیا حمیدہ بھابھی ان کے ساتھ جاسکتی ہیں۔۔وہ ڈاکٹر ہیں اور دوسری زنانہ ضرورتیں بھی ہوتی ہیں اور میرا خیال ہے ایک عورت کا ہونا ضروری ہوگا ۔ عظمی کے جانے میں کوئی قباحت نہیں لیکن میری ساس کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے اوروہ ان کی خبر گیری کرنا چاہتی ہیں

    مجھے جانے میں تو کوئی اعتراض نہیں اور اس کے لئے میں ہسپتال سے چھٹی بھی لے لوں گئی لیکن میرے منجھلے بھائی کے رشتے کی بات چل رہی ہے آج کل اور چونکہ ان کی پہلی شادی ناکام ہوچکی ہے اس لئے میں نہیں چاہتی کہ اس مرتبہ بھی وہی ہو۔۔ دودھ جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کے پئے۔۔میں تسلی سے لڑکی دیکھنا چاہتی ہوں۔۔ ایک ہی بھائی ہے میرا

    حمیدہ بھابھی نے چائے کا کپ مجھے تھماتے ہو ئے ایک طرح سے خبر دار کیا۔ مجھے صاف نظر آگیا کہ انہوں نے غفار بھائی کو بھی آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ اشارہ کیا۔

    غفار بھائی نے توفیق بھائی کی طرف دیکھا اور معنی خیز انداز میں پوچھا

    توفیق شہلا بھی تو جاسکتی ہیں امی کے ساتھ؟ ان کو تو ایسا کوئی کام نہیں

    جا تو سکتی ہیں لیکن نو شین کالج کے ایک سہ ماہی ٹیسٹ کی تیاری کر رہی ہے۔۔ آپ کو تو پتاہی ہے امتحانات سے پہلے اس کی طبعیت چڑچڑی ہوجاتی ہے ۔۔ جوان لڑکی ہے۔۔ زیادہ سرزنش اور ٹوکنا ٹھیک نہیں۔۔دوسرا میں مناسب نہیں سمجھتا کہ اس نازک وقت پر اس کی ماں گھر سے غائب ہو اور بٹیا امتحان میں فیل ہوجائے۔

    شام ہوگئی اور ہم سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔

    گھر آیا تو امی کے چہرے پر پژمردگی تھی اور وہ اپنے خشک ہونٹوں پر بار بار زبان پھیر رہی تھیں اور منہ ہی منہ میں کچھ ورد کر رہی تھیں۔

    اگلے دن سب میرے گھر ملے۔ گفتگو کا ذیادہ تر زور بچوں کے تعلیم اور ان کے امتحانات میں امتیازی کامیابی کے متعلق رہا اور کچھ تعلیمی نظام کی خرابیوں پر بات ہوئی۔ علاج کی بات باتوں باتوں میں آئی تو پہلے تو ذیادہ جھکاو آغا خان کی طرف رہا لیکن پھر شوکت خانم اور سرکاری ہسپتال کا تقابل ہوا تو اسے مہنگا ہسپتال سمجھا گیا اور پھر بحث ملک کے تعلیمی نظام سے ہٹ کے صحت کے نظام کی طرف ہوئی۔ شام کو سب اپنے گھر چلے گئے۔

    میں نے امی کی طرف دیکھا۔ وہ چارپائی پر بیٹھی کچھ پڑھ رہی تھیں۔ میں ان کے قریب گیا اور ان کے سامنے بیٹھ گیا اور بہت آہستہ سے ان کا سر دبانے لگا۔ ان پر غنودگی سی چھا گئی اور مجھے یوں لگا جیسے وہ سو گئیں ہوں۔سردی شروع ہوچکی تھی اور مین نے ان کو ایک پتلےکمبل سے ڈھک دیا۔ ان کے ہاتھ کی گرفت سے اخبار کا تڑا مڑا پرچہ اب آذاد پوچکا تھا۔

    میں نے اسے اٹھایا۔ یہ دسمبراکہتر کے جنگ کا کوئی پرچہ تھا جس کے کونے میں ، کریم بخاری اور ان کے بیٹے کے مقدمے کی خبر تھی۔ سرورق پر کچھ اور بھی بڑی بڑی خبریں چھپی تھیں۔۔میں نے کچھ دیر ہاتھ میں رکھا اور پھر ان کے تکئے کی نیچے آرام سے اڑس کے رکھ دیا۔

    اسی شام وکلا کی تحریک نے ایک نیا موڑ لیا اور صدر صاحب کے صوابدیدی حکم سے ملک میں ایمرجنسی لگ گئی ۔ میں نے کچھ سوچ کر دل میں کہا کہ جب یہ ایمرجنسی وغیرہ کا معاملہ دب جائے تو سب سے دوبارہ بات کروں گا کہ ایک آخری میٹنگ اور کر لیں اور یہ حتمی فیصلہ کر ہی لیں کہ امی کا کریں تو کیا کریں۔ یقین کریں مجھ سے امی کی یہ حالت نہیں دیکھی جاتی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے