ماں
ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہڈیوں کے آرپار ہوگیا۔
کڑاکے کا جاڑا پڑ رہا تھا، اس پر مہاوٹیں بھی برسنے لگیں۔ پتلی ساڑی کو شانوں کے گرد کس کر لپیٹے ہوئے منی کو خیال آیا کہ اوسارے میں ٹاپے کے نیچے اس کی چاروں مرغیاں جو دبک کر بیٹھی ہوں گی، ان پر ٹاپے کے سانکوں سے پھوار پڑ رہی ہوگی۔ بیمار پڑکر مرگئیں تو دوبارہ خرید نا بہت مشکل ہوگا۔
کپکپاتے ہاتھوں سے اس نے ٹٹر ہٹایا اور باہر آگئی۔ بارش نے جیسے ہر طرف باریک ململ کا پردہ ڈال رکھا تھا۔ سورج پہلے ہی کئی دن سے نہیں نکلا تھا، اس پر یہ چادر۔ پھر اسے اپنی بیوقوفی کا احساس ہوا۔ دن تاریخ مہینے تو ویسے بھی اسے کم ہی یاد رہا کرتے تھے، اب صبح شام بھی بھول چلی تھی کیا؟ اس نے ٹھنڈی سانس لی۔ سورج نکلا بھی ہوتا تو کیا اب تک بیٹھا رہتا! رات تو آہی گئی تھی۔ ہاں پہلے ہی پہرایسی اندھیری اور اداس نہ ہوتی شاید۔ اس نے ٹاپا اٹھا کر مرغیوں کو دبو چا۔ ڈرے سہمے پرندوں نے کوئی صداے احتجاج بلند نہیں کی۔ بازو میں چاروں مرغیاں اور بغل میں ٹاپا دبا کر وہ مڑہی رہی تھی کہ اچانک دور پھوار اور اندھیرے کے دوہرے پردے کے پیچھے سے کوئی ہیولا ابھر تا محسوس ہوا۔ اس کے ساتھ ہی ایک چنگاری سی بھی چمکی۔ ذراسی دیر کو اسے لگا، اگیا بھتال ہے۔ لیکن اگیا بھتال ہندو ہوا تو مرگھٹ میں اور مسلمان ہوا تو قبرستان میں، آنکھیں مٹکاتا، لوگوں کو راستہ بھلاتا گھومتا ہے۔ زندوں کی بستی میں اس کا کیا کام! وہاں اپنے اگیا بھتال بہتیرے ہیں۔ منی ڈری نہیں، اور ڈرتی وہ تھی بھی نہیں۔ رات کے سناٹے میں ہر ہر کرتی گنگا کے درمیان پھیلے پڑے دیئرا کے اس علاقے میں وہ تنہا زندگی گزار رہی تھی۔ اور لوگ رہتے تو تھے لیکن جھونپڑیاں دور دور تھیں۔ درمیان میں کھیت تھے یا سبزیوں کے وسیع و عریض قطعے۔ شام پڑے سیارہُواں ہُواں کرتے۔ مرغیوں کے فراق میں لومڑیاں دروازے پر کھسر پسر کرتیں۔ کبھی آنگن میں لگے امرود کے درخت سے سل سل کرتا ہرا ہرا سانپ رسی کی طرح نیچے لٹک آتا اور گردن اٹھا کر اپنی ننھی ننھی، چمکیلی، بِس بھری آنکھیں منی کی آنکھوں میں ڈال کر اسے گھورتا، لیکن ڈرانے میں کامیاب نہ ہوتا۔ وہ پاس پڑی لکڑی اٹھا کر اسے دھمکاتی، ’’ارے اب کیا لے جائے گا رے؟ ہر سیا سے زیادہ زہر ہے کیا تجھ میں؟‘‘ منی کے حساب سے اس کا آٹھ سالہ پولیوزدہ لڑکا اور پانچ پانچ سال کی دونوں جڑواں، مریل لڑکیاں سانپ کے کسی کام کے نہ تھے۔ تینوں بچوں کو چوزوں کی طرح پروں تلے دبا کے وہ بڑی طمانیت سے اپنی اور ان کی روزی روٹی کی فکر میں غلطاں گھومتی رہتی۔
صبح چار بجے، تڑکے، جب سورج نکلا بھی نہ ہوتا اور گرمیوں میں سرکتی رات کے ملگجے اندھیرے یا جاڑوں میں کہرے کی دبیز چادر میں لپٹی گنگا سوئی ہوئی ہوتی، مچھوارے اپنا اپنا جال نکالتے تھے اور ان کی ناویں تڑپتی مچھلیوں سے بھر جایا کرتی تھیں، تب اور لوگوں کے ساتھ منی بھی اپنا ٹوکرا لیے پہنچتی اور مچھلیاں بھر کر حساب چکتا کرتے، آٹھ بجتے بجتے پار جانے والی نائو پکڑ کر شہر پہنچ جاتی۔ سر پرٹوکرا اٹھائے محلے محلے مچھلی بیچ کر کوئی دو ڈھائی بجے تک لوٹ آتی۔ راستے سے ضرورت کا سودا سلف بھی اٹھا لیتی۔ کبھی کبھار ایک آدھ مچھلی بچ جایا کرتی تھی۔ منافع ہو نہ ہو، جمع نکل آئے، یہ سوچ کر وہ اکثر بچی ہوئی مچھلی بہت کم داموں میں ہر سیا کو بیچ دیا کرتی تھی۔ گھاٹ سے اترتے ہی ہرسیا کا چائے کا کھوکھا تھا۔ وہ آتے جاتے اسے چھیڑتا، مفت کی چائے آفر کرتا، لیکن مچھلی کے دام اس نے کبھی پورے نہیں لگائے۔ جانتا تھا، مچھلی ٹکنے والی چیز نہیں اور منی جیسے غریب بیوپاری میں نقصان اٹھانے کا بوتا نہیں ہوتا۔ چائے کے کھوکھے کی آڑ میں کچی شراب کے ساتھ تلی مچھلی بیچنے والا وہ ان پڑھ کسی ملٹی نیشنل کمپنی کے بزنس ایگزیکٹیو سے کم سیانا نہ تھا۔
منی ذات کی ملاح نہیں تھی لیکن پچھلے بارہ تیرہ سال سے دیئرا میں اپنی اسی جھونپڑی میں رہنے اور شوہر کے موٹر بوٹ چلانے کے پیشے کی وجہ سے وہ گنگا اور گنگا میں بسی مچھلیوں کے علاوہ اور کسی چیز کو نہیں جانتی تھی۔ پندرھویں برس میں وہ بیاہ کر یہاں آئی تھی۔ اسے گنگا ماں سے پہلے ہی بڑی عقیدت اور محبت تھی۔ ان کے آنچل میں رہنے کو ملے گا، یہ تو اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اور اب تو روزی روٹی کا ذریعہ بھی گنگا ماں ہی تھی۔ ادھر اس نے بڑی مشکل سے کچھ پیسے بچا کر مرغیاں خریدی تھیں، کہ بچوں کو انڈے کھلا سکے۔ اس کا پہلوٹھی کا لڑکا صرف اس لیے مر گیا تھا کہ اسے دوا کے ساتھ اچھی غذا بھی چاہیے تھی۔ اس کی یاد آتی تو کلیجے میں ہوک اٹھتی۔ شادی کے پہلے سال ہی پیدا ہو گیا تھا۔ زندہ ہوتا تو آج کتنا بڑا سہارا ہوتا گیارہ بارہ برس کا وہ بیٹا۔
سرد ہوا کے برمے نے ہڈیوں میں چھید بنائے۔ منی کو محسوس ہوا جیسے اسے بخار چڑھ رہا ہو لیکن تجسس ٹھنڈ پر حاوی ہو گیا۔ اس سن سن کرتے دیئرا میں، جہاں گنگا کو چھو کر آتی یخ بستہ ہوائوں کے بیچ سیار بھی ہواں ہواں بھول کر ماندوں میں دبک گئے تھے، یہ کون تھا جو لمبے لمبے ڈگ بھرتا چلا آرہا تھا؟
ایک چنگاری پھر چھوٹی، ’’منی، اومنی!‘‘ قریب آتی روشنی نے اس کا نام لے کر پکارا۔ وہ ہڑبڑا گئی۔ سردی، بغل میں دبے ٹاپے اور دوسرے بازو میں سمٹی مرغیوں کو یکسر بھول کر وہ باہر نکل آئی اور انھیں دیکھ کر ہکا بکا رہ گئی۔
’’آپ؟ اس وقت یہاں؟ اندر آجائیے مالک، بڑی ٹھنڈ ہے۔‘‘
لانبے قد اور دبلے پتلے جسم پر انھوں نے حسبِ دستور دھوتی لپیٹ رکھی تھی۔ ہاں پتلے کرتے کی جگہ گاڑھے کی موٹی پوری آستینوں والی قمیص تھی اور سر پر انگوچھا لپٹا تھا۔ بس یہی ان کی جڑاول تھی (اور گائوں میں اس سے زیادہ جڑ اول بہت سے لوگوں کے پاس نہیں تھی۔)
’’اوسارے میں رات کاٹنے کی اجازت چاہیے، منی۔ صبح نکل لوں گا۔‘‘ وہ مسکرائے لیکن آواز میں مسکراہٹ کی نہیں بلکہ بجتے دانتوں کی آہٹ تھی۔
’’اندر آجائیے مالک۔‘‘
’’اندر؟‘‘ وہ ذرا سا ہچکچائے۔
’’ہاں مالک۔ یہاں اوسارے میں تو بڑی ہوا ہے۔‘‘
وہ پیچھے پیچھے چل پڑے تو منی کو محسوس ہوا، اس کے گھر میں فرشتوں کے قدم اترے ہیں یا گنگا ماں ایک انسان کی شکل اختیار کر کے اس کی جھونپڑی میں آن اتری ہیں۔ زہے نصیب۔ اس نے ٹاپا ایک کونے میں رکھ کر مرغیوں کو جلدی جلدی اس کے نیچے دھکیلا اور بوری سے امرود کی خشک ٹہنیاں، پتے اور کچھ اپلے نکالنے لگی۔
’’کچھ اور مت کرو منی۔ بس رات کے لیے چھت چاہیے تھی۔ اب اور نہیں چلا جا رہا تھا۔‘‘ وہ بے حد تھکے ہوئے لگ رہے تھے۔ انہوں نے کندھے سے لٹکا ہوا جھولا اتارا، ٹارچ اس میں رکھی اور وہیں مٹی کے فرش پر کٹے درخت سے دھپ سے بیٹھ گئے۔
’’آپ کچھ مت بولیے۔‘‘ منی کا جی بھر آیا ’’ہمارے پاس جو ہے وہی تو دے سکیں گے، نہ اس سے کم، نہ اس سے زیادہ۔‘‘ اس نے اتنی سادگی سے کہا کہ وہ خاموش ہوگئے۔
’’مالک، کپڑے بھیگ گئے ہیں۔‘‘ کچھ ڈھونڈتے ہی اس نے کہا۔ اس کی پشت ان کی طرف تھی۔
منی کے پاس کپڑے کہاں ہوں گے جو وہ بدل سکیں، اس لیے انھوں نے اس کی بات ان سنی کر دی۔ حالانکہ اس وقت خشک کپڑوں، خشک جسم اور ہو اسے محفوظ خشک جگہ سے زیادہ ایسا کچھ نہ تھا جسے جنت کا نام دیا جاسکے۔ (ہر شخص کی جنت اس کی اپنی ہوتی ہے، اور موقع محل کے اعتبار سے ہوتی ہے شاید۔)
’’میرے پاس میرے پتی کی ایک دھوتی رکھی ہوئی ہے۔‘‘ ان کی خاموشی کا مطلب بھانپ کر اس نے کہا۔
’’تب تو ٹھیک ہے۔ صبح تک میرے کپڑے سوکھ گئے تو اسے چھوڑ جائوں گا۔‘‘ انہوں نے رضا مندی ظاہر کی۔ منی خوش ہوگئی۔ اس نے گھر کے واحد کمرے کی کارنس پر رکھا ٹین کا بکسا اتارا۔ یہ بکسا اس کا شوہر پٹنہ کے سومواری میلے سے لایا تھااور اس میں رکھ کر لایا تھا اس کے لیے لال پھولوں والی ساڑی۔ منی اب لال پھولوں والی ساڑی نہیں پہنتی تھی۔ اسے شوہر کی واحد دھوتی کے ساتھ سنبھال کر رکھ دیا تھا۔ اسے تو وہی پہنے گی۔۔۔ لنگڑے سے شادی کرنے کی ہمت کرنے والی اس کی بہو۔ وہی اس کی اصل حقدار ہوگی۔
اس نے جلدی سے دھوتی نکالی، مبادا وہ اپنا ارادہ بدل دیں۔ دھوتی انھیں تھما کر وہ پھر اندر چلی گئی۔ گیلے کپڑے اتار کر انھوں نے الگ رکھے۔ خشک دھوتی آدھی باندھ کر، آدھی کو اوپر کے جسم پر اوڑھ لیا۔ اب وہ ایک بودھ بھکشو جیسے نظر آرہے ہوں گے، سوچ کر ان کے لبوں پر خفیف سی مسکراہٹ ابھر آئی۔
گاڑھے کی دھوتی نے بڑی راحت پہنچائی۔ گیلے کپڑوں سے نجات پا کر اسے پہننے کا سکھ الفاظ سے پرے تھا۔
’’خدا اس نیک دل عورت کا بھلا کرے۔‘‘ انہوں نے دل ہی دل میں دعا کی۔
دعا تو ان کے جھولے میں سب کے لیے تھی اور محبت بھی، لیکن نہ سب کا پیٹ بھر پاتا، نہ بیماریاں دور ہوتیں، نہ منی کے شوہر کی واپسی ہو پاتی جسے پولیس پکڑ کر لے گئی تھی کسی کی اس مخبری پر کہ وہ نیپال سے کتھے کی اسمگلنگ میں شامل ہے۔ واپسی تو بڑی بات، ساڑھے پانچ سال کا طویل وقفہ گزرجانے کے بعد یہ تک پتا نہیں چلا تھا کہ وہ کہاں ہے، کس حال میں ہے، ہے بھی یا نہیں ہے۔ منی کبھی بھول سکتی ہے کیا کہ انہوں نے کس طرح سال ڈیڑھ سال تک اس کے شوہر کا پتا لگانے اور اس کو چھڑ وانے کے لیے دن کو دن اور رات کو رات نہیں سمجھا تھا۔ آخر منی نے ہی ان سے ہاتھ جوڑ کر کہا تھا، ’’بھگوان، اب ہم نے صبر کر لیا، آپ بھی چھوڑ دیجیے۔ ہمارے بھاگیہ میں سہاگ ہوگا تو وہ خود آجائیں گے۔ کہیں جو وِدھاتا نے ہمارا اسیندور پونچھ دیا ہوگا تو کوئی کیا کرے گا!‘‘
شوہر کی گرفتاری کے پہلے سے ہی اس کا پہلو ٹھی کا بیٹا بیمار رہا کرتا تھا۔ باپ کے جانے کے بعد گھر پر جو مصیبت آئی، اس میں اس کی بیماری کہیں زیادہ بڑھ گئی۔ تب منی انھیں زیادہ نہیں جانتی تھی۔ ایک دن وہ اس کے دروازے پر آئے۔ کسی نے انھیں بتایا کہ اس گھر میں ایک بیمار بچہ ہے۔ بچے کو دیکھ کر وہ کچھ فکر مند ہوگئے۔ اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانا بہت ضروری تھا، لیکن ڈاکٹر صرف بدھ کو ملیں گے۔ اس دن جمعہ ہی تھا۔ اس بچے کو دوا کے ساتھ غذا کی بھی سخت ضرورت تھی۔ خالی دوا سے کچھ نہ ہوگا، انھوں نے تاسف سے سوچا تھا۔ انتہائی کمزور ہوتے ہوئے بچے کو گود میں لیے آنسو بہاتی منی ان دنوں دو وقت بھر پیٹ کھانا تک مہیا نہیں کراپاتی تھی۔ جڑواں بچیاں اس کے پیٹ میں تھیں۔ آٹھواں مہینہ ختم ہو رہا تھا۔ وہ کوئی کام نہ کر پاتی۔ خود اسے بھر پور غذا کی ضرورت تھی لیکن وہ دونوں بچوں، خاص طور پر پہلوٹھی کے بیمار کے لیے پاگل بنی رہتی۔
’’منی، میں بدھ کو پھر آئوں گا۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’تمہارے بچے کو اسپتال لے جانے کی سخت ضرورت ہے۔‘‘ پھر انھوں نے کندھے سے لٹکا جھولا اتارا (وہی جھولا جو ہمیشہ ان کے کندھے سے لٹکا رہتا تھا اور آج بھی لٹکا ہوا تھا)۔
’’یہ رکھو،‘‘ جھولے میں ہاتھ ڈال کر انھوں نے بطخ کے چار انڈے برآمد کیے اور چھ عدد کیلے۔ یہ تحفے گائوں میں دو الگ الگ لوگوں نے انھیں دیے تھے۔ وہ سب کے سب انھوں نے بچے کو دے دیے۔ یہ نعمتیں دیکھ کر اس کے زرد چہرے اور بجھتی آنکھوں میں جو چمک آئی تھی اسے منی کبھی نہیں بھول سکی۔ جب بھی اس کے جانے کا غم ستاتا، وہ مسرت کی اس چمک کو یاد کرتی تو دکھتے دل پر ٹھنڈی ٹھنڈی پھوار پڑجاتی۔ اپنی زندگی کے آخری دو دنوں میں اس کا بچہ بہت خوش تھا۔ وہ اس دنیا سے خوش خوش گیا تھا۔ اس کے پیٹ میں کھانا تھا، وہ بھی اچھا کھانا۔ بدھ کے دن جب وہ اسے لینے آئے تو اس کی راکھ ہوائیں اڑا چکی تھیں اور ننھا سا اَدھ جلا جسد خاکی گنگا کے پانیوں میں گم ہو چکا تھا۔ لیکن منی نے ان کے قدموں پر اپنا سر رکھ دیا۔
’’اس نے بڑے چائو سے انڈے کھائے۔ اپنا ہاتھ بڑھا کر ایک کیلا چھوٹے کو بھی دیا۔ سب آپ کی کرپا تھی۔ وہ بھوکا جاتا تو ہم جتنے دن زندہ رہتے، تڑپتے رہتے۔‘‘ اس کے آنسوئوں نے ان کے پیر بھگودیے۔ ایسی سخت گرفت تھی کہ ان کے لاکھ چھڑانے پر بھی وہ اس وقت تک نہیں اٹھی جب تک اس کا دل ہلکا نہیں ہوگیا۔
تب ہی انھیں منی کے شوہر کے بارے میں پتا چلا تھا۔ کہیں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہرسیا سے کسی تکرار کے سبب اس نے اس کے خلاف مخبری کی تھی۔ جھوٹی یا سچی، یہ معلوم ہونا مشکل تھا۔ نیپال سے تیندو کی پتیوں اور کتھے کی اسمگلنگ بہت عام تھی۔ ہو سکتا ہے وہ صرف موٹر بوٹ چلا تا رہا ہو اور اسے مال کا علم نہ رہا ہو، ہو سکتا ہے ملوث رہا ہو۔ جو بھی ہو، وہ ایک بہت ہی چھوٹی مچھلی تھا جسے بڑی مچھلیاں نگل گئی تھیں۔ اس سلسلے میں انھیں کامیابی نہیں مل سکی لیکن منی احسان مند تھی کہ کسی نے اس کے بارے میں سوچا تو، کچھ کیا تو۔ اس کے دوسرے بچے کو پولیو ہو گیا تھا۔ وہی تھے جو اسے اسپتال لے گئے، آپریشن کرایا۔ اسپتال سے اسے لوہے کا جوتا بنوا کر دیا گیا جس کا فریم گھٹنے تک تھا۔ وہ لنگڑاتا اب بھی تھا لیکن پہلے سے بہت اچھا ہو گیا تھا۔ پہلے تو وہ جس طرح چلتا تھا اسے دیکھ کرکسی کر یہہ صورت، پھدکنے والے جانور کی یاد آتی تھی۔ منی کا دل ڈوب ڈوب جاتا تھا۔ کئی بار اسے خیال آتا تھا کہ اوپر والے کو اس کا بیٹا لینا ہی تھا تو اس ٹوٹے پھوٹے کو لے لیا ہوتا۔ صحیح سالم چلا گیا، یہ رہ گیا۔ لیکن پھر ان کی کوششوں سے اب وہ اس لائق تھا کہ اپنے سارے کام آسانی سے کر لے۔ جلد ہی وہ اسے کسی دکان میں بٹھانے کی سوچ رہی تھی۔
لڑکا جب اسپتال سے لوٹا تھا، اس وقت بھی منی نے ان کے پیروں پر سر رکھ دیا تھا۔ شرک و کفر اس کی لغت میں نہیں تھے۔ ہوتے بھی تو ان کے معنی اس کے ذخیرے میں نہیں تھے۔ بھگوان خود اتر کر نہیں آتے، کسی انسان کو بھیج کر ہی کام کراتے ہیں۔ وہ جسے بھیجیں وہی ان کا روپ۔
تسلے میں آگ روشن ہو اٹھی تھی۔ وہ اسے ان کے پاس لے آئی۔ پھر ایک بڑے سے ٹیڑھے میڑھے المونیم کے کٹورے میں دوگلاس پانی، گڑ، آنگن میں لگے تلسی کے پودے سے اتاری پتیاں اور دو چار دانے کالی مرچ کے ڈال کر ابالنے کو چڑھا دیے۔ پانی خوب ابل گیا تو اس نے المونیم کے دوگلاسوں میں ’چائے‘ ڈالی اور اپنا گلاس لے کر خود بھی وہیں بیٹھ گئی۔ گنگا کی ریت سے مانجھے گئے المونیم نے پستہ قدمدھم شعلوں کی روشنی میں چاندی کی طرح لشکارا مارا۔
مالک بڑا کارساز ہے۔ منی کی جھونپڑی راستے میں نہ ہوتی تو وہ ٹھنڈ سے اکڑ گئے ہوتے۔ ان کے لیے تو اس وقت پھوس کی صرف ایک چھت کافی تھی۔ خالی پیٹ میں توانائی دیتا گڑ اور ٹھنڈے جسم میں گرماہٹ بھرتی تلسی اور کالی مرچ کی چرپراہٹ۔ ایک ایک گھونٹ امرت تھا۔
’’جاکے سو جائو منی۔ رات بہت ہو چکی ہے‘‘ انہوں نے نرمی سے کہا۔
’’سب لوگ آپ کے بارے میں بہت باتیں کرتے ہیں۔ کبھی من ہوتا تھا، ہم آپ کے پاس بیٹھیں۔‘‘
’’معلوم ہے۔ اور لوگ کیا باتیں کرتے ہیں، یہ بھی معلوم ہے۔‘‘ وہ مسکرائے۔
’’کیا معلوم ہے؟‘‘
’’میں سوالوں کے جواب دیتے دیتے تھک گیا ہوں۔ پھر بھی کوئی نہ کوئی انسان ایسا مل جاتا ہے جو نئے سرے سے سارا کچھ پوچھنے لگتا ہے۔ تم بھی سب پوچھنا چاہتی ہوگی کہ میں کون ہوں، کہاں سے آیا ہوں، میرا کنبہ کہاں ہے، گزارہ کیسے چلتا ہے، یہاں کیوں رہتا ہوں۔ ہے نا؟‘‘
منی نے سادہ لوحی سے سر ہلایا۔
وہ ہنس پڑے، ’’چلو، تم بھی سن لو۔ میرے ماں باپ اب نہیں رہے۔ جب میں یہاں آیا تھا، تب تھے۔ بھائی بہن ہیں، دوست احباب ہیں، لیکن میں ان سب کو بہت دور چھوڑ آیا ہوں۔‘‘ انھوں نے قدرے توقف کیا۔ ایک محبوبہ بھی تھی۔ امیدوں کے چراغ روشن کیے، مستقبل کے خواب دیکھتی۔۔۔ میں نے اس کی دنیا تہہ و بالا کردی۔ اسے بھی چھوڑ آیا۔ لیکن یہ انھوں نے منی سے کہا نہیں اور بات کا سرا پھر پکڑا۔
’’وہ سب باری باری مجھے کچھ پیسے بھیجتے رہتے ہیں۔ ان سے میرا گزارہ ہو جاتا ہے۔ دوسروں کی مدد کے لیے کچھ بچا لیتا ہوں۔ میں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا، پھر بھی کبھی بھوکا نہیں سوتا ہوں۔ تم میں سے بھی جن لوگوں کے پاس کچھ ہے اور وہ مجھے دینا چاہتے ہیں تو لینے سے انکار نہیں کرتا۔ کبھی کوئی گوالہ ایک لوٹا دودھ تھما دیتا ہے تو کوئی گرہست کلو آدھ کلوسبزی۔‘‘
’’وہ تو آپ دوسروں کو بانٹ دیتے ہیں۔‘‘
’’جو مجھے ضرورت سے زیادہ ہوتاہے یا مجھے درکار نہیں ہوتا، بس وہی۔ اب ابھی تمہاری تلسی کی چائے کی سخت ضرورت تھی۔ وہ میں کسی کے ساتھ نہ بانٹتا!‘‘ انھوں نے بچوں جیسی معصوم اور شریر مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ منی نے سر کھجایا۔ ان کی ضرورت سے زیادہ ان کے پاس کیا ہوتا ہے اور کب ہوتا ہے! ابھی کوئی آجائے تو آدھی چائے تو اسے پلا ہی دیں گے۔
’’آپ۔۔۔ آپ کا پریوار؟‘‘
’’میرا پریوارتم لوگ ہو۔ آس پاس کے چاروں گائوں میرا پریوار ہیں۔‘‘
’’بال بچے پیچھے چھوڑ آئے؟‘‘
’’میرا کوئی بال بچہ نہیں۔‘‘
’’عورت؟‘‘
’’عورت نہیں ہے، اسی لیے بال بچہ بھی نہیں ہے۔ مگر ان گائوں کے، جہاں میں کام کرتا ہوں، سارے بچے میرے بچے ہیں۔ تمہارے بچے بھی منی۔‘‘
منی کے تینوں بچے گدڑی میں لپٹے گہری نیند سو رہے تھے۔ اس کاجی بھر آیا۔ کچھ دیر وہ خاموش رہی۔ باہر ہوا زیادہ پاگل ہواٹھی تھی۔ کسی چڑیل کی طرح سیٹیاں بجاتی، ہائیں ہائیں کرتی، گنگا ماں کی زلفوں میں لہروں کے گھنگھرو ڈالتی، شرارت پر آمادہ ٹھنڈی یخ ہوا۔ ’’بڑی ٹھنڈ ہے‘‘ کہہ کر وہ کچھ دیر خاموش رہی۔ اس نے پھر آنکھیں اٹھائیں۔
’’تو آپ نے بیاہ کیا ہی نہیں؟‘‘
’’منی، آج تم اتنے سوال کیوں کر رہی ہو؟‘‘
’’آج ہی تو آپ کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا ہے مالک۔‘‘
’’کتنی بار کہا، مجھے مالک کہہ کر مخاطب نہ کیا کرو۔‘‘ وہ قدرے جھنجھلا کر بولے۔ ’’ہاں، میں نے بیاہ نہیں کیا۔‘‘ جواب دے ہی دیں ورنہ یہ بیوقوف مچھوارن دماغ چاٹتی رہے گی۔ ان کا لہجہ معمول کے مطابق نرم اور پر سکون تھا۔
تو عورت کا سکھ انھوں نے کبھی نہیں جانا! اور نہ جانے کون کون سے سکھ نہیں جانے، بیوقوف مچھوارن نے سوچا۔ بانس کے ٹٹر کی جھونپڑی میں اکیلے رہتے ہیں۔ ایک پتیلی میں آلو اور چاول ساتھ ابال لیتے ہیں۔ اپنی تھالی خود مانجھنا، اپنے کپڑے خود دھونا۔ سائیکل کو کھڑ کھڑاتے گھومتے پھرتے رہنا۔ اپنے دیس میں ضرور ان کے پاس موٹر ہوگی، صورت سے ہی بڑے گھر کے معلوم ہوتے ہیں، لیکن یہاں۔۔۔ سنا تھا ایک بار اکیلے پڑے بخار میں بھن رہے تھے۔ سنجوگ سے کوئی ادھر جانکلا۔ پرلے گائوں کے مسلمانوں کے یہاں کا لڑکا تھا۔ وہ انھیں اٹھالے گیا۔ سنا ہے، اس سے کہا کہ میں مر جائوں تو کوئی پر پنج نہ کرنا۔ جو کپڑے پہنے ہوں، انھیں میں لے جاکے میری جھونپڑی میں گاڑدینا۔ وہاں ایک کاپی پڑی ملے گی۔ ہو سکے تو اس میں لکھے پتے پر خبر کرا دینا، اور بس۔ کیا اس کے شوہر نے بھی کسی کو اپنا پتا دیا ہوگا؟
شوہر کو یاد کرکے اس کے دل میں ٹیس اٹھی۔ ایک بے رحم ٹیس۔ وہ جب آتا تو منی کھانا تیار کر کے رکھتی، لپک کر لوٹے میں پانی نکال کر دیتی۔ اس کے سامنے اتنی تنگی نہیں تھی۔ روکھا سوکھا سہی، لیکن دونوں وقت بھر پیٹ مل جایا کرتا تھا۔ پھر رات میں پوال کے بستر میں موٹی چادر تلے کا الوہی سکھ۔ پتا نہیں وہ اب اس دنیا میں ہے بھی یا نہیں۔ اس کی موت کی اطلاع دینے کے لیے کسی کے پاس شاید کوئی پتا نہ تھا۔ مگر جب اس کے پاس تھا، بہت خوش تھا۔ جب دل میں ٹیس اٹھتی ہے وہ یہ یاد کر کے تسلی دیتی ہے خود کو، کہ اس نے بڑی خوش و خرم زندگی بسر کی۔ منی نے اسے بھرپور سکھ دیا۔ بالکل ایسے ہی جیسے اسے جب بیٹے کی یاد آتی ہے تو وہ اس کی یادوں میں ایک مٹھاس پاتی ہے، ایک طمانیت کہ زندگی کے آخری دو ڈھائی دنوں میں اسے کچھ اچھا کھانے کو ملا تھا، پھل ملے تھے۔ ایسا نہ ہوا ہوتا تو اس کی یادیں صرف کلیجہ پھاڑتیں، کلیجے پر کوئی پھاہا نہ رکھتیں۔ وہ آج بھی لوٹ لوٹ کر روتی ہوتی۔
’’آپ کا سر سہلا دوں؟ نیند نہیں آرہی ہے نا؟‘‘ اس نے چائے کا آخری گھونٹ لے کر خالی گلاس رکھتے ہوے کہا۔
’’تم خود سوئو جاکے۔ سویرے سویرے مچھلی لانے نکل پڑوگی۔ جائو یہاں سے۔‘‘ انہوں نے قدرے ڈپٹ کر کہا۔
یہ اب بھی میرے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ منی کچھ دیر تذبدب کے عالم میں کھڑی رہی، پھر کچھ چھپٹیاں تسلے میں ڈال کر اندر جا کر بچوں کے ساتھ گڑی مڑی ہو کر گدڑی میں گھس گئی۔ اپنی کتھری تو اس نے ان پر ڈال دی تھی۔ یہاں ایک گدڑی میں چار نفر ہوگئے تھے۔ بچوں کو ڈھکنے کی کوشش میں وہ خود بار بار کھل جاتی۔
کوئی دو بجے ٹھنڈ کے شدید احساس سے وہ پوری طرح جاگ گئی۔ ہوا کچھ ایسے شائیں شائیں کر رہی تھی جیسے ہزاروں بھتنیاں اپنے گھا گھرے سرسراتی گنگا پر سے گزر رہی ہوں یا پھر کنارے جلتی چتائوں سے اٹھی نا آسودہ روحیں۔ گنگا ماں کے شور میں بھی کچھ ناراضگی تھی جیسے دو آبے کے میدانوں میں اترنے کے بعد بھی وہ پہاڑی ڈھلانوں سے گزر رہی ہوں۔ تیز، تند، غضبناک۔ کبھی نہ ڈرنے والی منی اس وقت کچھ خوفزدہ ہواٹھی۔ کس چیز سے، یہ خود اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔ سانپ امرود کے پتوں میں دبکا خود ہی ڈرا بیٹھا تھا اور اوسارے میں ایک بہت ہی نیک پاکیزہ انسان سویا ہوا تھا۔ پھر اسے کس چیز کا ڈر تھا؟
وہ کچھ بے چین سی، ان کے سرہانے آکر کھڑی ہوگئی۔ ان کی سانسوں کے زیروبم اور ہلکے خراٹے گہری نیند کے غماز تھے۔ کچھ لمحوں بعد وہ وہیں بیٹھ گئی۔ تسلے کی آگ بجھ کر بہت سی راکھ چھوڑ گئی تھی لیکن راکھ کے اندر انگارے تھے اور راکھ گرم تھی۔ اس نے ایک ٹہنی سے اسے کریدا تو چنگاریاں اڑیں۔
کچھ دیر تک وہ اپنی کثرتِ استعمال سے پتلی پڑتی ساری کے پلّو سے خود کو لپیٹ لپیٹ کر کچھ سوچتی رہی، پھر دھیرے سے ان کے بغل میں سرک آئی۔ سخت محنت سے گٹھا ہوا، اٹھائیس سالہ جوان جسم کمان کی طرح تنا اور پھر چراغ کی طرح لودینے لگا۔
آدم کے ساتھ حوا کا تخلیق کیا جانا کچھ ایسا بے مقصد تو نہ تھا۔
’مالک، جانے بغیر دنیا مت چھوڑیے گا۔ آتما بھٹکے گی۔ یہ سکھ۔۔۔ بھوگیے نہ بھوگیے، جان تو لیجیے ایک بار۔۔۔‘‘
ان کی آنکھ کھل گئی۔ چمکیلی سیاہ آنکھوں والی رو ہو مچھلی جیسی وہ لانبی، چھریری، گٹھی ہوئی سڈول عورت ان کے گلے میں ہاتھ ڈالے پڑی تھی۔ چاروں طرف گھنٹیاں بج رہی تھیں۔۔۔ ٹن ٹن ٹن ٹن۔۔۔ خطرے کی، مصیبت کی، اور کسی انہونی پیشین گوئی کی، موسیقی سے لبریز لیکن ڈرائونی۔۔۔ اور پورا جسم طوفان کی زد میں آئی نائو کی طرح ہچکولے کھا رہا تھا۔
مہاتما بدھ ویسے تو اہنسا کے پجاری تھے لیکن کوئی کشکول میں گوشت ڈال دیتا تو کھالیتے۔ لیکن کیا جب مارنے انھیں گمراہ کرنے کے لیے اپنی بیٹیوں کو بھیجا تو وہ انھیں شکست نہیں دے سکے تھے؟ کیا انہوں نے اپنی خواہشوں پر مکمل قابو نہیں پالیا تھا؟
میں مہاتما نہیں ہوں۔ میں بدھ بھی نہیں ہوں۔ مجھے عرفان کہاں حاصل ہوا ہے؟ عرفان کی تلاش میں تو میں نکلا بھی نہیں ہوں۔ ہاں، اگر بنی نوعِ انسان کی خدمت سے عرفان ملتا ہے تو شاید کبھی مجھے بھی حاصل ہو جائے۔ اور کیا سوچتے تھے کن پھٹے جوگی کہ عورت کا سکھ ویسا ہی ہے جیسا آتما کے پر ماتما میں ضم ہونے کا سکھ۔ مرنے سے پہلے ایک بارا گر جان لوں کہ یہ ہوتا کیا ہے تو برا کیا ہے؟ میں نے شراب کا سرور جانا ہے۔ اچھے بھرپیٹ کھانے، گہری نیند، ماں کی گود، عورت کی محبت۔ ان سب سے آگاہ ہوں، صرف اس کا جسم ہی نہیں جانتا۔ شاید میں پوری طرح خود پر قابو نہیں پا سکا ہوں ورنہ اس یخ رات میں یہ شعلے نہ بھڑکتے۔ اب تک تو دھکادے کر اس سل سل کرتی مچھلی کو واپس گنگا میں پھینک دیا ہوتا۔
شعلے پہلے بھی کئی مرتبہ بھڑکے تھے۔ آخر وہ انسان ہی تو تھے۔ لیکن انھوں نے پھٹکار کے پانی سے انھیں بجھا دیا تھا۔ ہر بار کفارے کے لیے انھوں نے تین دن لگاتار روزے رکھے تھے، مسلمانوں کے روزوں سے بھی زیادہ سخت روزے۔ مسلمانوں سے زیادہ سخت یوں کہ روزہ کھول کر بھی وہ بھر پیٹ کھانا نہیں کھاتے تھے۔ کبھی کبھی تو محض اُبلے آلو یا کھیرا ککڑی کھا کے رہ جاتے تھے۔ ابھی حال ہی کی تو بات ہے۔
ان دنوں دیئراکے اس پار والے گائوں کی باری تھی۔ وہ ایک بیمار شخص کو ہسپتال میں دکھا کر واپس گھر پہنچا رہے تھے۔ وہاں کنویں پر گائوں میں بیاہ کر آئی نئی بہو سنند اکھڑی تھی۔ پانی نکالنے کے لیے اس نے ایک پیر خوب آگے بڑھا کر جسم کو تان رکھا تھا۔ سنہری، پکے گندم جیسی جلد والے ستھرے، سڈول پیر پر اس کا واحد زیور، چاندی کی پائل بہت ہی بھلی لگ رہی تھی۔ بالٹی کھینچتے ہوئے سنندا کے پورے جسم میں ارتعاش تھا۔ لگتا تھا، ماں باپ کے گھر وہ کنویں سے پانی نکالنے کی عادی نہیں رہی تھی۔ اس کی ساڑی جسم سے سرک سرک گئی تھی۔ گدبدا، قدرے بھاری، گداز جسم بلائوز میں سے چھلکا چھلکا پڑ رہا تھا۔ ان کی نظریں اس کے خوبصورت پیر پر ذرا کی ذرا رکیں اور پھر سر سر کرتی سیدھی گردن تک پہنچ گئیں۔ سنندا کے جسم کا ارتعاش ان کے اپنے جسم میں منتقل ہو گیا۔ انھوں نے خود پر لعنت بھیجتے ہوئے نظریں ہٹائیں۔ لیکن وہ اچھی طرح سمجھ رہے تھے کہ نظریں جتنی دیر ٹھہری تھیں وہ وقفہ مناسب سے بہت زیادہ تھا اور جو وقفہ گزرا تھا وہ ’صحیح‘ نہیں تھا۔ وہ نظریں محض خدا کی ایک حسین تخلیق کی ستائش کرتی نظریں نہیں تھیں۔۔۔ وہ ایک مرد کی نظریں تھیں جو ایک عورت کی ستائش کر رہی تھیں۔ انھوں نے خود پر کفارہ واجب کیا، کیونکہ ان کا ضمیر ان سے جو سوال کر رہا تھا اس کے لیے ان کے پاس خاطر خواہ جواب نہیں تھا۔
منی نے اپنی کالی چمکیلی، کاجل بھری آنکھوں سے انھیں پھر دیکھا۔ ترشنا لے کر دنیا سے مت جائو سنیاسی۔۔۔ جان لو کہ تم کیا نہیں جانتے۔ یہ تسلی بھی کر لو کہ جس نفس کو تم نے قابو میں کیا ہے وہ بڑا بے لگام، منھ زور گھوڑا ہے۔ بعد میں اپنی پیٹھ ٹھوکتے رہنا۔ مگر ایک بار۔۔۔ صرف اس بار۔۔۔
اس لمحے نے مزید کچھ سوچنے کا موقع نہیں دیا۔ وہ ان پر حملہ کر بیٹھا، جیسے نیپال میں برف پگھلنے کے بعد طغیانی پر آئی بے بضاعت گنڈک خونخوار ہو کر طاقتور گنگا پر چڑھ دوڑتی ہے اور گنگا اپنی تمام تر غضبنا کی کے باوجود کروٹیں بدل بدل کر اسے اپنے اندر ضم کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
صبح جب ان کی آنکھ کھلی تو پہلے تو سمجھ میں نہیں آیا کہ جو ہوا وہ کیا تھا۔ وہ ایک برا خواب تھا یا ایک اچھا خواب؟ بڑی دہشت کے ساتھ ان کی عقل و فہم نے بتایا کہ وہ خواب نہیں تھا، حقیقت تھی، اور مزید دہشت ناک بات یہ تھی کہ نیند کے جالے صاف ہو جانے کے بعد قلب و ذہن پر سرور کی کیفیت طاری ہورہی تھی، جسم ایک پرکیف درد سے ٹوٹ رہا تھا، روح پر کبھی نہ مٹنے والے نشان پڑگئے تھے۔ ان کا کلیجہ پھٹنے لگا۔ ساری ریاضت مٹی میں مل گئی تھی اور انھیں یہ اچھا لگ رہا تھا۔
منی ان سے پہلے اٹھ چکی تھی۔ اس ٹھنڈ میں کنویں سے پانی کھینچ کر وہ نہا چکی تھی اور ان کے لیے مٹی کے چولھے پر چائے چڑھا چکی تھی۔ اس کی ستھری آنکھوں میں کوئی پشیمانی نہیں تھی، گناہ کا کوئی احساس نہیں تھا۔ بس ایک طمانیت تھی، ایک سکون تھا۔ اس کی محبوب ہستی اس کے دروازے پر آئی تو اس نے اس کے کشکول میں وہ ڈال دیا جو اس کے پاس تھا۔ نہ اس سے کم، نہ اس سے زیادہ۔ اس نے مٹی کی رکابی میں بھوبل میں بھنی شکر قند اور المونیم کے گلاس میں چائے لاکر رکھ دی۔ انھوں نے شکر قند سر کا کر چائے کا گلاس اٹھا لیا۔
چائے پی کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
جھونپڑی کے دروازے پر وہ رو برو ہوئے۔
منی نے ہاتھ جوڑ دیے تھے، ’’اب کبھی رکنے کو نہیں کہوں گی بھگوان۔ ڈریے گا نہیں۔‘‘
’’باقی ساری زندگی صرف ایک وقت کھانا کھا کر آج رات کا کفارہ ادا کروں گا۔‘ انہوں نے دھیرے سے کہا۔ ’’مگر تمہارا شکر گذار ہوں منی ماں۔۔۔ ہمیشہ رہوں گا۔‘‘ انہوں نے اچانک جھک کر اس کے پیر چھولیے، ’’رکنے کو کہنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ یہ علاقہ چھوڑ کر جارہا ہوں۔‘‘
وہ ٹھنڈ سے سکڑی، نم، دھواں دیتی تاریک صبح میں تیزی سے گم ہوگئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.