محبت کی دیوی
کہانی کی کہانی
’’یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے، جو اپنے حسن اور پاک دامنی کے لیے پورے علاقے میں مشہور ہے۔ وہ جب مندر میں پوجا کرنے آتی ہے، اس کی ایک جھلک پانے کے لیے وہاں سینکڑوں لڑکوں کی قطار لگی رہتی ہے۔ مگر نہ چاہتے ہوئے بھی جس کی محبت میں تڑپتے ہوئے وہ اپنی جان دے دیتی ہے، وہ کوئی اور نہیں، محمد قاسم ہوتا ہے۔‘‘
(۱)
زمین نہ جانے کتنی بارآفتاب کے گرد تصدق ہو چکی ہے، معلوم نہیں چاند کتنی مرتبہ کرہ ارض کی اوٹ سے اپنی پیشانی کا ہلال دکھا دکھا کر غائب ہو گیا اور زمین کے بخارات نہ معلوم کتنی دفعہ فضائے آسمانی میں ابر بن بن کر قطرہ زن ہوئے، لیکن رادھا نے جو عزلت نشینی اختیار کرلی، وہ اسی طرح قائم رہی اور دیبل کے کسی مندر میں پوجا کرنے کے لئے وہ کبھی نہ آئی۔
صبح و شام، مندروں کے گھنٹےاب بھی ہوا میں گونجا کرتے ہیں، دیبل کی آبادی اب بھی بد ستور اپنی پر خلوص پیشانیوں کو بودھ کے مقدس استھان کے سامنےگھستی ہوئی نظر آتی ہے، لیکن رادھا پھر اپنے مکان سے نہ نکلی اور مندر میں آنے والا ہر نوجوان یہ محسوس کرنے لگا کہ آسمان کی اس الہتہ الجمال (زہرہ) کی طرح جو چہرے پر ایک بار نقاب ڈال لینے کے بعد افق مغرب کو ایک زمانہ دراز کے لئے بے نور بنا جاتی ہے، اب شائد رادھا بھی نظر نہ آئےگی۔ نغمہ ہائے پرستش، معبد کے درو دیوار سے اب بھی صدائے بازگشت پیدا کرتے ہیں، چنگ و رباب کے تار وہاں کی فضا میں اب بھی اپنی لرزشوں کو موسیقی میں تبدیل کرتے رہتے ہیں، لیکن ایک رادھا کے نہ آنے سے جو اداسی وہاں کی فضا میں پیدا ہو گئی ہے گو اس کا علم بودھ کے پجاریوں کو نہ ہو لیکن دیبل کا ایک ایک نوجوان اس کا ز خم اپنے دل میں لئے ہوئے ہے۔
(۲)
آفتاب غروب ہو گیا ہے اور قریب کی پہاڑی جو بارش کے اثر سے زمرد بن چکی ہے، ان گلہ بانوں کی بانسریوں سے جو اپنا وداعی راگ قدرت کے اس شاداب چراگاہ کو کوسنا رہے ہیں، معمور ہیں۔ رادھا اپنی جھونپڑی کے سامنے ایک پتھر پر بیٹھی ہوئی ہے، اس منظر کو دیکھ رہی ہے اور اس طرح متحیر ہے گویا وہ ایک بت ہے، جسے یونان کے عہد زریں میں یہاں نصب کیا گیا تھا اور اب اس کی پرستش کرنے والے دنیا سے اٹھ گئے ہیں۔ اس کی صورت سے عشق کا ایسا سوگ ٹپک رہا ہے، محبت کا وہ صور ظاہر ہو رہا ہے، گویا کہ وہ اندر ہی اندر ستی ہوئی جا رہی ہے اور دنیا میں اس رسم کا دیکھنے والا اور اس نوجوان غم زدہ لڑکی پر آنسو بہانے والا کوئی نہیں ہے۔
رادھا دیبل کی ان چند لڑکیوں میں سے تھی جن کے حسن کی داستانوں سے وہاں کی رنگین محفل خالی نظر نہ آتی تھی، لیکن رادھا اس لئے زیادہ تباہ کن تھی کہ اس کے حسن کے ساتھ کوئی آرزو وابستہ نہ ہو سکی تھی اور وہ اپنی شہرت کے لحاظ سے اس قدر بلند تھی کہ ایک انسان کا اس سے محبت کرنا گویا ملاء اعلیٰ کی کسی مخلوق سےمحبت کرنا تھا، اس لئے جب تک وہ ایک مندر میں آتی رہی، ایک دیوی ہی کی طرح اس کی عزّت کی گئی اور جب اس نے آنا ترک کر دیا، تو کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ اس کے مکان تک جائے، کیونکہ ایک دیوی کے خلوت خانے میں کسی انسانی ہستی کا گذر نہیں ہو سکتا۔
(۳)
اے پرماتما، میں کیا کروں؟ میں اس شرم کا اظہار کیوں کروں، جو تیرا نام لیتے ہی میرے سارے جسم کو ایسا بنا دیتی ہےجیسے بید کی وہ نازک ڈالی، جو ہوا کا ہلکا سا جھونکا گذر جانے کے بعد گھنٹوں تھر تھرایا کرتی ہے، کانپا کرتی ہے، لوگ کہتے ہیں رادھا نے نے تیری پوجا چھوڑ دی، بیشک چھوڑدی لیکن انھیں کیسے یقین دلاؤں کہ رادھا اب تیرا نام لینے اور تیرے سامنے سر جھکانے کے قابل نہیں رہی۔ اپنے دل میں جس آرزو کی پرورش کر رہی ہوں، اس کا تعلق اس جسم سے ہے۔ میں نے تیرے لئے تج ویاہے مگر وہ آرزو تجھ سے علیحدہ ہے، پھر جس نے تیری پرستش اس طرح کی ہو کہ جس کے ساتھ اس کی روح بھی تیرے روبرو جھک جائے وہ کیونکر تیرا نام لے سکتی ہے جبکہ دل میں تیرے سوا کسی اور کی مورت موجود ہو اور روح تیرے علاوہ کسی اور صورت کے لئے بیتاب۔
میں جانتی ہوں کہ تو میری پرستش کا محتاج نہیں، تجھ پر قربان ہونے کے لئے مجھ سے زیادہ اچھی روحیں موجود ہیں لیکن میں اپنے اس درد کو کہاں لے جاؤں، جو تیری جدائی سے پیدا ہو گیا ہے۔ اے پرماتما، یہ کس قسم کا عذاب ہے کہ میں نہ تجھ سے جدا ہو سکتی ہوں اور نہ مل سکتی ہوں، یہ کس آگ میں تونے ڈال دیا ہے، جو نہ جلاتی ہے اور نہ آزاد کرتی ہے۔
وہ دن جب تیرے استھان پر تیرے پجاریوں کی قربانی ہو رہی تھی اور میں بھی اس خیال سے اس شخص کی طرح جس نے کوئی تیز شراب پی لی ہو، مست و مخمور تھی کہ عنقریب کسی ظالم کی تلوار میرے سینے میں بھی تیر جائےگی اور میں اپنی حیات کا آخری خطرہ رنگین تیرے حضور میں پیش کر سکوں گی۔ آہ وہ وقت میں کچھ نہیں بھول نہیں سکتی، جب اسی حال میں ان ظالموں کے سردار نے دفعتاً آکر اس خوں ریزی کو روک دیا اور اس کو دیکھتے ہی میرا وہ سجدہ جو تیرے لئے زمین بوس تھا، چپکے ہی چپکے اس کی حسین ظالم صورت کے لئے منتقل ہو گیا۔ میں نے محسوس کیا کہ تونے اپنے گہرے عمق میں گرا دیا، لیکن روح پھر بھی اسی کے لئے سربسجود تھی اور تجھے بھول جانے اور تجھ سے جدا ہوجانے پر زیادہ مغموم نہ تھی۔
لیکن اے پرماتما میں تیرا احسان کیو نکر بھلا سکتی ہوں کہ اس پر بھی تونے مجھے بچایا اور تیرے لئے کچھ مشکل نہ تھا کہ اس کے سامنے ایک بار بے حجابانہ چلی جاتی اور محبت کی وہ تمام لذتیں حاصل کر لیتی، جس کے لئے میں اب بھی ویسی ہی بے قرار ہوں جیسی تیری قدموں میں ہوا کرتی تھی، پھر جبکہ تونے میری ناپاک ہستی پر اتنا کرم کیا تو کیا اس کو اور زیادہ وسیع نہیں کر سکتا، کیا تیری انگلیاں میرے دل کو پھینک نہیں دے سکتیں، جس نے تیری پرستش کو چھین لیا ہے۔ میں راضی ہوں اگر اس محبت کا نکلنا جان کا نکلنا ہو اور اس خلش کا دور ہونا، جسم سے روح کا جدا ہو جانا ہو۔
مہینوں ہو گئے کہ صبح و شام تیرے گھنٹوں کی آواز سن سن کر کانپ اٹھتی ہوں، اک زمانہ ہوگیا کہ روز تیرے استھان پر جا کر جان دینے کے لئے تڑپ تڑپ گئی ہوں لیکن ڈرتی ہوں کہ کہیں میرے ناپاک قدم تیرے مقدس معبد کو خراب نہ کر دیں، کہیں تو اس گستاخی سے برہم ہوکر میرے دل کے اندر وہ جذبہ پیدا کر دے جو ایک عورت کے دل سے پاک دامنی کی عزت کو محو کر دیتا ہے، اے پرمیشور رحم کر اور محبت کے اس طوفان کو، جس کی لہروں پر میں نے نازک اور ٹوٹی ہوئی کشتی اس قدر بےرحمی سے ڈال دی ہے، دور کر دے، تیرے غصہ کی آگ میں جل جانا مجھے منظور ہے، لیکن اس طوفان کی موجوں میں اپنی لاش دفن کرنا مجھے گوارا نہیں، کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جب میں اس کافر کی صورت و سیرت میں ہزاروں عیب نہ نکالتی ہوں، میں دل کو ہر طرح سے یقین دلاتی ہوں کہ اس کی آنکھیں خونخوار ہیں، اس کی فطرت جفا کار ہے، اس کی چتون غضب آلود ہے اور اس کی ساری ہستی ناپاک و مردود لیکن عین اس وقت جبکہ میں یہ سب کچھ سمجھنا چاہتی ہوں، دل تڑپ کر خون کی ایک گرم موج میرے تمام شرائن میں دوڑا دیتا ہے اور میں اس شراب کے نشہ سے مغلوب ہوکر پھر اس کو پوجنے لگتی ہوں جس کو ذلیل سمجھنا چاہئے لیکن میں نہیں سمجھ سکتی۔ پھر تو ہی بتا کہ اس جنگ میں کب تک مصروف رہوں اور کیونکر اپنی شکست کی لذّت کو محو کر دوں۔
رادھا پر اس خیال میں چند مہینے گذر جاتے ہیں اور اس کی محبت حرارت کی اس منزل تک پہو نچ جاتی ہے جسے مصطلحات علم الکیمیا میں درجہ بیاض سے تعمیر کرتے ہیں اور جس کے بعد کائنات کی ہر چیز صرف دخان ہو کر فضا میں تحلیل ہو جاتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ محبت جو چنگاری کی صورت میں اس کے دل کے اندر متمکن ہوئی تھی اس کے لئے رادھا کا ہر تنفس ہوا کا جھونکا ثابت ہوا۔ یہاں تک کہ چند ماہ کے اندر وہ چنگاری اشتعال و الہاب کے تمام مدارج طے کر گئی اور اب اس کے لئے صرف یہی باقی رہ گیا تھا کہ وہ کسی دن اپنے جھونپڑے کے گوشہ میں خاکستر کا ڈھیر نظر آئے یا ایک آہ ہوکر ہوا میں مل جائے۔
اس کی غریب بیوہ ماں نے علاج و چارہ سازی میں پوری کوشش صرف کر دی، جس حد تک اس کا اخلاق اجازت دے سکتا تھا۔ اس نے کوئی دقیقہ اس کوشش میں نہ اٹھا رکھا کہ دیبل کا یہ چاند گہن سے نکل آئے لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئی اور رادھا روز نڈھال ہوتی گئی، گویا وہ ایک شمع صباحی تھی جس کے مضمحل شعلے صرف حلقہ شمع دان ہی کے اندر کچھ کچھ نظر آتے ہیں۔
اس کا جسم جو پہلے بھی بہت ناز ک تھا اب خطرناک حد تک نازک ہو گیا تھا اور اس آبگینہ نے اب حباب، ایک نہایت ہی نازک حباب کی صورت اختیار کر لی تھی، اس کا وہ رنگ جو کبھی کبھی نہ معلوم ہوتا تھا کہ جلد کے نیچے پگھلا ہوا سونا دوڑ رہا ہے، رفتہ رفتہ زعفرانی، زرد اور سفید ہے کہ اب ایسا نظر آتا تھا گویا رادھا کوئی چاند کی مورت ہے، جس پر پارہ کی صیقل کر دی گئی ہے۔ اس کی لانبی لانبی گھنی پلکیں جو حسین آنکھوں پر چار شف کے سیاہ ریشمی نقاب کی طرح پڑی رہتی تھیں، اس کی خوبصورت لانبی لانبی گردن جس کی صباحت میں کوثر و نسیم کا رنگ جھلکا کرتا تھا، اس کا وہ جسم جو سینہ و کمر کے تناسب اور نشیب و فراز کو پیش کر کے دنیائے جذبات میں خدا جانے کس قسم کا تلاطم برپا کرتا تھا، اس کی وہ پیاری پیاری پیشانی جس کا صندل و غازہ مل کر ایک ملکوتی منظر پیش کیا جاتا تھا، اس کے وہ لانبے لانبے بال جو ہزاروں حلقے بناتے ہوئے الجھی حالت میں بھی کمر کو عبور کر جاتے تھے، اس کے وہ رخسار جن کو دنیا نے ہمیشہ شعلہ بلوریں سمجھا، اس کا ووہ شباب جس کے اندر کائنات کے تمام سمندروں کا شدید ترین طوفان اندر ہی اندر جوش کھاتا ہوا معلوم ہوتا تھا، الغرض رادھا اپنی تمام خصوصیات جمال کے ساتھ جنھیں فطرت مشکل ہی سے کبھی کسی ایک ہستی میں جمع کر دیتی ہے۔ اس وقت کائنات غایت درجہ مضمحل اور سوگوار تھی، لیکن باوجود اس کے، اس کی آنکھوں کا جن کی کیفیات کو دنیا کا کوئی لٹریچر قلمبند نہیں کر سکتا، یہ عالم تھا کہ بجائے نگاہوں کے ان سے کہر بائی خطوط نکلتے ہوئے نظر آتے تھے اور ان کی لمعا نیت ’’تماشہ سوز‘‘ حد تک بڑھ گئی تھی۔
(۴)
دیبل میں آج ماتم بپا ہے، ہر طرف حزن و ملال کے آثار نمودار ہیں اور ہر شخص بیتاب و مضطرب ہے، دوکانیں بند ہیں، بازار کی چہل پہل موقوف ہے اور لوگ پریشان ہیں کہ انھیں اب ایسا حکمران کیونکر نصیب ہوگا، دنیا میں کون ایسا ہے جو ان کے ساتھ اس رواداری کو جائز رکھے گا۔ ایسا فرماں روا جس نے باوجوود اجنبی ہونے کے کبھی ہماری پرستشوں سے تعرض نہیں کیا، جو ہماری ناقوس کی آوازوں سے کبھی چیں بجبیں نہ ہوا، جس نے ہمارے حقوق کبھی پامال نہیں کئے، جس نے ایک معمولی جذبہ کے عوض میں ہمارے جان و مال کی پوری حفاظت کی اور جو ہمیشہ نزاعات کو ہمارے ہی مذہب کے مطابق فیصلہ کرتا رہا۔ اب دوبارہ نہیں آ سکتا، فطرت اس راحت رسانی کی تکرار مشکل سے کرتی ہے۔ سندھ کے عامل کو گئے ہوئے مہینوں ہو گئے اور اس کی عزت و عظمت کی یادگار آخر اس صورت سے پرستارانہ جذبات میں منتقل ہو گئی کہ برہمنوں نے اس کا بت تیار کیا تاکہ روز صبح کو اس کے سامنے سر اعتکاف جھکا کر اس کی روحانی برکات حاصل کیا کریں۔
رات کا سکون عالم کا محیط ہے، چاند د یبل کی خواب آلود آبادی پر اپنی شعاعیں ڈالتا ہوا گزر رہا ہے اور رادھا بھی آہستہ آہستہ سپید چادر اوڑھے ہوئے ایک نورانی سایے کی طرح اپنے جھونپڑے سے نکلتی ہے اور معبد عظیم میں داخل ہو جاتی ہے۔
(۵)
اے میری روح پر ظلم کرنے والے انسان! اے میرے بدن میں محبت کی آگ پھونک دینے والے ظالم دیوتا! کیا خدا کی اس وسیع آبادی میں تیرے سوا اور کوئی نہ تھا جس کی آرزو سے میں اپنے دل کو آباد کر سکتی، جس کی صورت میرے دماغ میں منقوش ہو جاتی۔ میں کہ جس کے سامنے صبح کا دیوتا بھی اپنی تمام نرم و خنک روشنیوں کے ساتھ اگر صرف ایک نگاہ لطف و کرم کا امیدوار ہوتا تو کبھی کامیاب نہ ہو سکتا۔ میں کہ شام کے دیوتا کو بھی صرف اس کی رنگین ملاحتوں کی وجہ سے قابل توجہ سمجھتی ہوں کہ جس کے رو برو قوس قزح کی رنگینیاں، چاند کی سیم افشانیاں، پھولوں کی نکہت، بہار کی طلعت اور تمام وہ چیزیں جنھیں زمین و آسمان میں حسین کہا جا سکتا ہے، کوئی کشش و جاذبیت نہ رکھتی تھیں، تیری صرف ایک نگاہ کی حریف نہ بن سکی اور اپنے سارے وقار کو اس طرح تیرے اوپر قربان کر دیا جس طری وہ کوئی سب سے بری چیز ہو۔
دنیا میں کیسے کیسے جوان، کیسے کیسے حسین موجود ہیں اور اس مندر کے اندر مجھے معلوم ہے کہ جب میں پھول چڑھانے آیا کرتی تھی، سر زمین دیبل کے کیسے کیسے نوجوان سورما صرف اس انتظار میں گھنٹوں کھڑے رہا کرتے تھے کہ شاید بھول کر ہی ان میں کسی کی طرف دیکھ لوں لیکن اس مقدس جگہ کا ایک ایک ذرہ گواہ ہے کہ میری نگاہ کبھی بھی گھونگھٹ کے اندر بھی پلکوں سے باہر نہیں نکلی۔ کیونکہ میں سمجھتی تھی کہ ان کو دیکھ لینا ان میں کسی کی آرزو کا پیدا کر دینا ہے، جس کا پورا کرنا میرے اختیار میں نہ تھا، لیکن تو دفعتاً نمودار ہوا اور تونے مجھے صرف ایک نظر سے اس طرح بےدست و پا کر دیا جیسے کمند سے ہرن۔ میں نے اسی وقت چاہا کہ تو کوئی گستاخی کرے، میری جانب دستِ حرص دراز کرے اور میں تیرے اعلان کی طرف سے متنفر ہوکر تجھ سے بیزار ہو جاؤں اور اس طرح تیرے خیال کو دل سے نکال سکوں۔
لیکن مجھ پر کیسا شدید ظلم کیا، تیرے شریفانہ اخلاق کہ مندر میں مجھے لرزہ بر اندام دیکھتے ہی تونے ایک نگاہِ محبت فروز تو ضرور ڈالی، لیکن اس کے بعد اگر تونے مجھ سے بات بھی کی تو اس طرح گویا تو مجھے شرافت و عزت کی دیوی سمجھتا ہے اور تجھ میں نگاہ اٹھا کر بات کرنے کی بھی جرات نہیں ہے۔ تو فاتح تھا۔۔۔ اگر تو چاہتا تو دیبل کی ہر حسین لڑکی تیری خدمت کرنے کے لئے حاضر ہو سکتی تھی، چہ جائیکہ مجھ ایسی غریب و بے کس لڑکی کہ اگر تو اس وقت مجھے ذبح بھی کر دیتا تو کوئی تجھ سے میرے قصور کا پو چھنے والا نہ تھا، لیکن تونے باوجود اس کے کہ عنفوان شباب کے تمام جذبات تکمیل کے ساتھ تیرے ہر ہر عضو سے ٹپک رہے تھے، مجھے جو شاید بجا طور سے اپنے حسن و شباب پر ناز کر سکتی تھی کوئی حیا سوز التفات نہیں کیا۔
پھر اس وقت سے کہ تونے حفاظت کے ساتھ میرے گھر تک پہنچا دیا، اس وقت تک کہ میں تیری حسین تصویر تیری مقدس مورت کے سامنے سر بسجود ہوں تونے میری تلاش نہیں کی، حالانکہ مجھے تیری بھی بےقراری کا حال معلوم تھا، تونے مجھے بےحجاب دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا، حالانکہ میں جانتی ہوں تو اس کے لئے کیا کیا تڑپا کیا۔ صرف اس لئے کہ تونے میری عزت کے مقابلے میں اپنی تمناؤں کا خون کر دینا آسان سمجھا اور تونے یہ بھی گوارا نہیں کیا کہ لوگ رادھا کو بری طرح یاد کریں۔
میں ایک عمر تک پتھر کی ان مورتوں کے سامنے پیشانی گھستی رہی۔ لیکن حدود انسانیت سے ایک قدم بھی آگے نہ رکھ سکی۔ تونے صرف ایک بار اپنا چہرہ دکھایا اور میں اس مقام تک پہنچ گئی جہاں کسی دیوی کی رسائی نہیں۔ پھر اب جبکہ تو یہاں نہیں ہے اور شاید کبھی نہ آئےگا، میں سوائے اس کے اور کیا کر سکتی ہوں کہ جب تک زندہ رہوں صرف تیری ہی پر ستش کروں اور ایک نئے مذہب کی بنیاد ڈال دوں، جو دنیا والوں کو پرستش و شرافت کی تعلیم دے۔ تیرے لئے میری زندگی کے تمام آنسو صرف ہو چکے، میرے بدن کا ایک ایک بال تیرے لئے رو چکا، یعنی پر ستش کی اس معمولی منزل سے ہر شخص واقف ہے، میں گذر چکی، پھر اب میں تجھے صرف روح ہو کر پوجنا چاہتی ہوں، کیونکہ تیرے احسان سے عہدہ بر آہونے اور تجھ سے مل رہنے کی تمنا اب شاید اسی طرح پوری ہو سکتی ہے۔
(۶)
صبح ہوتے ہی سارے دیبل کو معلوم ہو جاتا ہے کہ رادھا جس نے مہینوں سے مندر کا آ جانا ترک کر دیا تھا، رات پوجا کے لئے آئی اور مر گئی۔ لوگ متحیر تھے اور ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ کیونکر ہوا، مگر روشنی کے سامنے، محمد قاسم کی وہ تصویر جو اس سے قبل مضمحل نظر آیا کرتی تھی مسرور تھی اور یہ معلوم ہوتا کہ اس کے اندر کوئی روح دوڑ گئی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.