مونچھ میں اٹکے ایک قطرے کی کہانی
ناک کی سیدھ میں جاتی سڑک کو کنارے کنارے کھڑے درختوں کی شاخوں نے مل کر محراب دار کر دیا تھا۔ دونوں قطار درخت ایسے گھنے اور آپس میں گتھے ہوے تھے کہ جیسے نہر کا بلند پشتہ۔ یہ کچی سڑک سیدھے جا کرگاؤں کے پاؤں کو چھوتی اور پھر دائیں طرف منھ کر کے دیگر گوٹھوں کی طرف چلی جاتی۔ گاؤں ایک ٹیلے اور اس کی اترائی پر کھڑا تھا۔ ہیئت ایسی کہ درمیانی حصہ کسی گنبذ (گنبد) کی طرح دور سے نظر آنے لگتا اور قریب جاؤ تو گھروں کی کچی اور ٹیڑھی میڑھی دیواروں کا ایسا بے ہنگم مجموعہ جیسے مختلف قد کے ایک صورت لوگ قطار میں سیدھا کھڑے ہونے پر قادر نہ ہوں۔ زیادہ سے زیادہ سو گھر ہوں گے، کچی اینٹوں سے بنے، جن پر گارے کا لیپ انھیں یک جان کر دیتا تھا۔ محراب دار سڑک جس جگہ گاؤں کو چھو کر مڑتی تھی وہاں گھیراؤ میں ایک میدان تھا جس پر جٹا دار برگد چھاؤں کیے کھڑا تھا۔ برگد کی اونچائی دو منزلہ گھر سے کم نہ ہوگی اور چھاؤں ایسی میٹھی کہ اس کے نیچے بیٹھتے اونگھ آنے لگتی۔ کلو موالی کا قول تھا کہ اس برگد کو بھنگ پلا کر بڑا کیا گیا ہے۔ برگد کے گرد ایک مختصر چبوترا بنا تھا جو اس کے جسیم تنے کے گھوم جاتا تھا۔ یہ چبوترا بیٹھنے اور لیٹنے کے کام آتا۔ اس پر ایک گھڑونچی رکھی تھی جس پر تین مٹکے پیٹ پھلائے پڑے رہتے تھے۔ ماما پیرل کا پورا خیال ہوتا کہ ایک بھی خالی نہ رہے۔ ماما پیرل علائقے (علاقے) والوں کے لیے تو پیرل ترخان تھا مگر گاؤں بھر ماما پیرل کے نام سے ہی اسے جانتا تھا۔ حتیٰ کہ اس کے اپنے بچے بھی اسے ماما ہی کہتے۔ ماما کا چھپر برگد کے مغربی طرف کھڑا تھا جس کے اگواڑ ایک لمبا ٹیبل نما تخت رکھا تھا جس پر وہ دروازے، کھڑکیاں، چارپائیاں، گھڑونچیاں اور کلہاڑی کے دستے وغیرہ بنانے کا کام انجام دیتا تھا۔ چھپر کے اندر ایک صندوق اور ایک لکڑی کی الماری رکھی تھی جو دونوں بغیر تالے بند رہتی تھیں۔ صندوق کے اندر ماما پیرل کے اوزار بھرے تھے اور الماری روز مرہ کی اشیا، تیل صابن سے زیادہ بچوں کے کھانے پینے کی چیزوں سے بھری تھی۔ گاؤں میں ایک بڑا اور ایک چھوٹا ہٹ بھی موجود تھا لیکن گاؤں بھر کے بچوں کا رخ ماما پیرل کی طرف ہوتا تھا۔ بِکری اتنی تھی کہ روز صبح شہر سے سامان خریدنے جانا پڑتا۔ وہ اپنی بنا بریک سائیکل کے کیریئر پر دونوں طرف سامان رکھنے والے ڈول لٹکائے، محراب دار سڑک پر واپس آتادکھائی دیتا تو اس کے انتظار میں برگد کے نیچے کھڑے بچے اس کی جانب دوڑ پڑتے۔ پھر اسی طرح اچھلتے کودتے اس کی سائیکل کے ساتھ ساتھ واپس آتے۔ ماما پیرل ترنگ میں لہکتے ہوے سائیکل چلاتا آتا۔ سائیکل کے ایک پیڈل کو دباتے ہوے وہ اپنے چھوٹے قد کے ساتھ اس طرف ڈولنے لگتا اور پھر دوسری طرف کا پیڈل اسے اپنی طرف کھینچنے لگتا۔ ڈولتے ہوے اس کے سانولے منھ سے بچوں کے لیے تواتر سے ایک آواز ابھرتی جاتی، ’’ہٹ جاؤ تمھاری نانی مر جائے، ہٹ جاؤ تمھاری نانی مر جائے۔‘‘ مگر اس کی اس بات کا کھلکھلاتے بچے کوئی اثر نہ لیتے۔ وہ اس کے آگے اور دائیں بائیں دوڑتے آتے۔ برگد کے نیچے پہنچ کر وہ اپنے گول مٹول اور تھلتھلاتے وجود کے ساتھ سائیکل سے اترتا اور اپنی بنا بریک سائیکل روکتے گھسٹتا جاتا۔ کبھی کوئی بیٹھا ہوا سائیکل کی حالت پر جملہ نکال بیٹھتا،
’’ماما، اب تو جباب (جواب) دے گئی ہے۔ چھوڑ اس کی جان۔‘‘
’’یار، ہم کوئی بھگا کے لے آئے ہیں اسے جو جان چھوڑ دیں؟‘‘
ماما کے جواب پر بیٹھے ہنس پڑتے۔
’’ہلا! پھر اس کہ بریک تو لگوادے۔‘‘
’’ہم ہی بنا بریک ہوگئے ہیں۔ سنے گا؟‘‘ یہ کہہ کر ماما ایک خاص صورت بناتا۔ کہنے والا بھاگنے کے چکر میں پڑتا مگر وہاں موجود کوئی ایک اسے پکڑ کر ماما کے قریب لے جاتا۔ ماما ایک پاد داغ کر بدبو مٹھی میں کرتا اور لے جا کر اس کی ناک پر چھوڑتا۔ ہنسی کا غل مچ جاتا۔
’’اسے تو دیکھو! ہماری ہی بریک ڈھیلی ہو گئی ہے اور یہ یار چلا ہے سائیکل میں بریک لگوانے۔ آیا مزہ؟‘‘ ماما بات کے آخر میں پھر ایک سوال اسی کی طرف اچھالتا۔ جواب میں اس شخص کو ہاکار میں سر ہلانا پڑتا ورنہ ایک اور پاد داغے جانے کے لیے تیار ہوتا۔
ماما کی شہر سے واپسی ہوگئی ہے مگر اس کے گراہک اپنی اپنی جگہ چبوترے پر جمے بیٹھے ہیں۔ کسی کو چارپائی کا پایہ ٹھکوانا ہے تو کسی نے بیلوں کے لیے پنجاری بنوانی ہے مگر انھیں اس وقت تک انتظار کرنا ہے جب تک ماما بچوں کو ان کی کھٹی میٹھی اشیا دے کر فارغ نہیں ہو جاتا۔ بچوں نے وڑو، میٹھی گولیاں اور بنانا بسکٹ اپنے ہاتھوں میں تھام رکھے ہیں۔ کچھ لائی کو دانتوں سے کتر رہے ہیں تو کچھ کے ہاتھ مٹھائی سے سنے ہوے ہیں، مگر سب کے سب جتھے کی صورت بنائے برگد تلے کھڑے ہوے ہیں۔
’’اڑے، جاتے کیوں نہیں؟‘‘ ماما مصنوعی غصے سے پوچھتا ہے۔
’’نہیں جائیں گے!‘‘ بچے اکڑ کر جواب میں چلّاتے ہیں۔
’’نہیں جاؤگے؟‘‘
’’نہیں جائیں گے!‘‘ سب یک زباں ہو کر کہتے ہیں۔
’’کروں کاروائی؟‘‘ ماما جھک کر تہبند کو پنڈلی سے گھٹنوں تک اٹھاتا ہے۔
’’بھلے کرو!‘‘ بچوں کے منھ سے ہنسی ابلی آرہی ہے۔ ماما جھک کر ایک بڑا پاد چھوڑتا ہے۔ آواز کی گونج سنتے ہی قہقہے مارتے بچے اوندھا اوندھ ہوتے برگد سے گاؤں کی طرف اوپر چڑھتے راستے پر دوڑ پڑتے ہیں۔ اب ماما کے گراہک قریب ہو کر اپنا کام کہہ سکتے ہیں۔
’’ماما، تو نہیں سدھرے گا!‘‘ کوئی ہنستے ہوے چوٹ مارنے کی کوشش میں ہے۔
’’تو سدھرے گا کہ نہیں؟‘‘ ماما پھر خاص انداز اپنانے لگتا ہے۔
’’نہ نہ! بس بس! ماما، میری کیا میرے باپ کی توبہ۔‘‘
’’جھل دب!‘‘ کہتے ماما اوزاروں کی پیٹی کھولنے لگتا ہے۔ اتنے میں دین محمد عرف دینو نے پنجاری تختے پر آ رکھی۔
’’ہاؤ دینو چاچا۔ کر خبر؟کیا کرنا ہے؟ دو ٹکڑے کہ تین؟‘‘
’’ماما، تین کر کے دو، چاچی کو جلانے میں سہولت ہوگی!‘‘ علی حسن جو اپنی چارپائی بنوانے آیا ہوا ہے، بول پڑتا ہے۔
’’تیرے باپ کی ہے جو ٹکڑے کروا رہا ہے؟‘‘ یہ بات سن کر دینو کا انگارے جیسا مزاج سلگنے لگتا ہے۔
’’چاچا، بابے کی پنجاری ہوتی تو تجھے نہ جوت دیتے اس میں۔‘‘
’’اور بھونک اور! میں تو کب سے کہہ رہا تھا کہ علو اور گوہ نہ کھائے، ایسا تو ہو نہیں سکتا۔ اور تُو منھ بند کیے کھڑا ہے، ہاں؟میں تیری دکان پر آیا ہوں نا؟تیرے سامنے میری بے عزتی ہو رہی ہے اور تو ایسے ہی کھڑا ہے؟‘‘ چاچا دینو علو کے ساتھ ماما کے لتے لینے لگا۔
’’اڑے علو اٹھ! چاچے سے مافی(معافی)مانگ۔‘‘
’’چاچا دینو، ماف کرنا، مڑئی گتھو لفظ زبان سے نکل گیا۔ زبان چام کی، کسی نہ کام کی۔‘‘ علو اٹھا اور کندھے پر پڑا پھولدار رومال چاچے دینو کے پاؤں پر رکھ دیا۔
’’مافی مانگنے آیا ہے! شکل ہے مافی والی؟حرامی کس جائے کا! میں بس جا رہا ہوں۔‘‘ دینو نے تختے پر رکھی ٹوٹی پنجاری کندھے پر رکھ دی۔
’’اڑے چاچا، بس بس! ٹھنڈا ہو۔ گریب(غریب) نے مافی تو مانگی ہے، اور کیا کرے؟‘‘ ماما نے چاچے دینو سے پنجاری چھین کر تختے پر ڈال دی۔
’’یہ کوئی مافی ہے؟‘‘
’’تو بھلا اونٹھ پاؤں بنائے؟‘‘
’’چاچا دینو، تو کہے تو اونٹھ پاؤں بناؤں، قسم سے!‘‘ علو اونٹھ پاؤں بنانے کے لیے اٹھنے لگا۔
’’اڑے بڑی خبر ہے تیرے اونٹھ پاؤں کی! بڑوں کی کوئی شرم حیا ہی نہیں۔‘‘ چاچا دینو غصے کی منزل سے اتر کر روٹھنے پر آپہنچا ہے۔
’’چاچا، بس کیا کروں، قسم سے جس دن میں پیدا ہوا اس دن ساری شرم تقسیم ہو گئی تھی۔‘‘ یہ دیکھ کر علو پھر پر تولنے لگا۔
’’منھ بند نہیں کرتا لوسی!‘‘ ماما نے علو کو گھرکی دی۔ ’’چاچا دینو، مجھے یہ بتا یہ ٹاہلی کی لکڑی ہے، ٹوٹی کیسے؟‘‘
’’یار، بس کیا بتاؤں، منڈی سے وہ جو پار سال تھری بیل نہیں لایا تھا؟کل ریج کے بعد سانھر گھما رہا تھا، بھٹارے نے گردن جو جھٹکی، پنجاری توڑ کر رکھ دی۔ اب کھیت میں ریج لگا پڑا ہے، پنجاری بنے تو سانھر گھماؤں۔‘‘
’’چاچا، ابھی بن جاتی ہے۔ تو فکر ہی نہ کر۔‘‘
’’ادا دینو، ونگار بنگار کی ہے یا نہیں؟‘‘ یہ میاں فضل محمد تھا۔ بارعب، قدآور۔ ویسے تو گاؤں میں کوئی وڈیرا ننڈھیر ا نہ تھا پر سارے میاں فضل محمد کو آگے رکھتے تھے۔
’’نہ ادا فضل نہ! بس دو تیلے ہیں، خود لگالیں گے۔‘‘
ماما پیرل پنجاری کو ٹھیک کرنے میں جت گیا۔ چبوترے پر چلتی باتوں میں اپنا حصہ بھی ڈال رہا تھا۔ پنجاری بنا کر چاچے دینو کو تھمائی گئی۔ چاچا کندھے پر رکھے گاؤں کی طرف چڑھائی پر جانے لگا۔
’’اڑے علو! لے آ اپنی چارپائی۔ دیکھیں تو اسے۔‘‘ ماما نے علو کو آواز دی۔
’’علو! چارپائی تیرے باپ نے توڑی ہے یا تو نے؟‘‘ کندھے میں پنجاری ڈالے جاتا چاچا دینو حساب برابر کرنے کھڑا ہو گیا۔
’’چاچا دینو، بس کیا بتاؤں۔ ابے کی عمر تو نے دیکھی ہے، تجھ سے کوئی سال دو چھوٹا ہوگا۔ اب چارپائی توڑنے کے لیے جو طاقت چاہیے وہ تو ابے کے پاس تیری طرح بچی نہیں۔ اب چارپائی میں توڑتا ہوں، ابا تیری طرح مٹکے توڑتا ہے۔‘‘ علو کی بات نشانے پر لگی۔ پورا چبوترا ہنسا۔
’’ایسا شک ہے تو رات سو میرے ساتھ۔ پیٹ سے نہ کروں تو کہنا!‘‘ چاچا دینو لوٹ آیا۔
’’چاچا، چھوڑ اب باتیں۔ بھلا ایسی بات ہے تو پہلے چاچی کو پیٹ کر کے دکھا۔ پھر تیرے ساتھ میں نہ سوئوں تو کہنا۔‘‘
’’اڑے چاچا، اب تو جا۔ ریج لگا پڑا ہے۔ چھوڑ ان باتوں کو۔ اس حرامی کے منھ کوئی لگتا ہے؟‘‘ ماما پیرل نے چاچا دینو کو دھکیل کر روانہ کیا جو علو کی ماں بہن ایک کر رہا تھا۔ ’’اڑے علو، لخ لعنت ہو! نہ چھوٹوں کو بخشتے ہو نہ بڑوں کو۔‘‘ ماما پیرل نے علو کے منھ پر لعنت رکھی۔
’’ماما، بھلا تم چھوڑتے ہو؟‘‘ علو ہنسی میں شرابور تھا۔
’’اڑے اب بس کر! یا کروں کاروائی؟‘‘
’’چھوڑ ماما! اب تیرے عضوے بھی ڈھیلے پڑے ہوے ہیں۔ ایسا نہ ہو جو تو کاروائی کے خیال میں ہو اور کچرا باہر آ پڑے۔‘‘ علو کی اس بات پر اتنا زوردار قہقہہ پڑا کہ برگد کی جٹا دار شاخیں ہل کر رہ گئیں۔
’’بڑا بے حیا ہے تو! ایسا کنجر میں نے حیاتی میں نہ دیکھا۔‘‘ ماما پیرل کام چھوڑ کر پھر ایک بار علو کے منھ پر لعنت رکھنے آیا۔ ’’اب ایک بات بتاتا ہوں تم لوگوں کو پچھلے سال کی۔‘‘ ماما چبوترے پر پھسکڑا مار کر بیٹھ گیا۔
’’میری چارپائی والا کام تو پورا کر ماما!‘‘
’’تو اس وقت اس پر جاکے سوئے گا؟ لوسی کہیں کا۔ چپ کر کے سن بات۔‘‘
ایک دو اور نے بھی علو کو گالی دے کر منھ بند کرنے کا کہا۔ سب ماما پیرل کی بات کی طرف متوجہ ہوگئے۔
’’یہ پچھلی گرمیوں کی بات ہے جب میں نے دوسری شادی کی تھی۔ میں شادی کا سامان لینے گیا تھا بڑے شہر۔ کپڑے وپڑے، برتن ورتن، جوتے چپل لے کر گٹھڑی سر پر رکھی اور اسٹاپ کی طرف آرہا تھا۔ بیچ بازار میں تھا کہ ہوا کا خیال ہوا۔ ہمیں اپنے گوٹھ کی عادت، مروٹا سروٹا دے کر میں نے کاروائی کردی۔ ابا کیا بتاؤں، پتا مجھے تب لگا جب ایڑی چپل سے چپکنے لگی۔ شہر پرایا، لوگ پرائے۔ بیچ بازار! میں نے کہا، پیرل، آج تو نہ مرے تو کب مرے؟سارے ملک میں خوار ہوگاتو!‘‘
برگد کے نیچے ہنسی کا جہاں آباد تھا۔ لوگ ہاتھ پہ ہاتھ مار کر ہنسی میں ڈوبے جا رہے تھے۔
’’پھر کیسے نبھائی بات ماما؟‘‘
’’یار، حد کرتے ہو! گُو کی بات ہے، نبھانا وری کیسا؟بس میں بھی چوروں کی طرح تلیوں پر چلنے لگا۔ پر یار کوئی گاڑے والا تھا سؤر، اس کی نگاہ پڑگئی۔ حرامی بڑے منھ سے بولتا ہے، چاچا دھوتی سنبھال دھوتی! میں نے دیکھا ہی نہیں، بس جباب دیا، ہاں ہاں، بھینس کا گوبر لگا ہے۔‘‘
لوگوں کو پھر ہنسی کا دورہ پڑا۔
’’پھر ماما؟‘‘
’’اور کیا منھ کالا کروں اپنا؟ساری بات تو بتا دی۔‘‘
’’گوٹھ کیسے پہنچے؟‘‘
’’ہاؤ یار، یہ بات رہ گئی! وہ اپنا رئیس کنال نہیں ہے؟بس اس کے کنارے جا کر اس میں چھلانگ ماری۔ دھو دھلا کر نکلا۔ جوتی ووتی دھو کر بس میں آ بیٹھا۔ گھر آکر دیکھا تو نشان سارے پیلے لگے پڑے تھے۔ بس وہ دن اور یہ دن، اب کاروائی میں زور زبردستی کا خیال کرنا پڑتا ہے۔ سو علو، عمر برابر عمر ہوتی ہے۔‘‘ ماما علو کی پیٹھ تھپک کر تختے کی طرف اٹھ گیا۔ ’’بھلا علو، تیری چارپائی کی ملم پٹی (مرہم پٹی)کروں یا پورا بازو بدلوں؟‘‘ ماما وہیں سے پکارا۔
’’ماما، یہ ملم پٹی اپنی چارپائی پر کرنا۔ ہمارا زور زور ہے۔ بازو بدل بازو!‘‘
’’اڑے اب بس کر! ہم ہیں سچے گھی کی جم پل۔ تو ڈالڈا کی پیداوار!‘‘
’’ماما، ایسی بات نہیں۔ ہم بھی گھی مکھن پر بڑے ہوے ہیں۔‘‘
’’گھی مکھن پر بڑے ہوے ہیں۔۔۔‘‘ ماما نے اس کی نقل اتاری۔ ’’پتا ہے تیرے مکھن کا، گائے کا مکھن کھاتا ہے! وہ بھی کوئی مکھن ہے؟ادا، بھلا تم انصاف کرو، ہے کوئی مقابلہ گائے کا بھینس سے؟‘‘ ماما وہاں بیٹھے ہوے لوگوں سے مخاطب ہوا۔
’’نہ سائیں! کہاں بھینس کہاں گائے۔ کوئی مقابلہ ہے ہی نہیں۔‘‘
’’ماما، کون سی بھینس تیرے گھر کھڑی ہے؟‘‘ علو نے ماما پر چڑھائی کی۔
’’اڑے میرے گھر نہیں تو کیا ہوا؟بہن کے گھر تو ہے نا۔ اس کا اور میرا گھر کوئی الگ بات ہے؟‘‘ اتنی دیر میں گاؤں سے اترتے راستے پر کوئی دوڑا آیا۔
’’ماما، ماما! ماسی پوچھ رہی ہے مچھی لے آئے؟‘‘ یہ فرید تھا۔ ماما کا اپنا بیٹا۔
’’اڑے گھوڑا! دیکھا علو، تیری باتوں سے میں بالکل بھول گیا۔ اڑے وارو کر، فرو(فرید)۔ یہ چھلی سائیکل میں ٹنگی ہے۔ جلدی لے جا، مچھی خراب نہ ہو جائے۔‘‘ ماما بوکھلا گیا۔
’’ماما پیرل، پھر مطلب کہ کام مچھی پر چل رہا ہے؟‘‘ علو معنی خیز انداز میں بول پڑا۔
’’لخ لعنت ہوتم پر! اڑے حرامی، گھر والی کے مٹ مائٹ(رشتے دار) آرہے ہیں۔ لیکن بات تو سُن۔۔۔‘‘ ماما نے رخ علو کی جانب کیا۔ ’’یہ بتا، تجھے مچھی کے اثر کا پتا کیسے لگا؟ہوں؟‘‘ ماما کی بات پر علو کی مونچھیں جیسے ڈھلک پڑیں۔ قہقہے تھمنے کے بعد بھی علو سے بات بن نہ پائی۔
ماما پیرل رندے سے لکڑی چھیلے جا رہا تھا۔ رندے کا لوہی بلیڈ لکڑی کی پرتیں اتارے جا رہا تھا۔ جب بلیڈ پرت اتارتا تو رندے کی آواز بدل جاتی اور لکڑی کے باریک ذرّے ہوا میں اڑنے لگتے۔ تختے پر رکھی لکڑی کے، جسے لوہے اور لکڑی کے شکنجے جکڑے ہوے تھے، آس پاس ان ذرّوں کی ریشم جیسی نرم ڈھیریاں بن رہی تھیں۔ ماحول میں چھلتی لکڑی کی خوشبو تھی۔ چڑھتے سورج کے ساتھ برگد کے نیچے آمد رفت زیادہ ہو گئی تھی۔ آتا جاتا سلام اور حال احوال کرنے برگد کے نیچے رکتا اور پھر سانس لے کر، پانی پی کر اپنے کام چل دیتا۔ ماما پیرل رندا تیز تیز چلا رہا تھا۔ اس کے من میں جلد گھر جانے کا خیال تھا۔ آج بیوی کے رشتے دار آنے تھے۔ اس کا خیال تھا کہ گھر پہنچ کر مہندی رنگ لے۔ یہ کام بھی اس نے دوسری شادی کے بعد شروع کیاتھا۔
ماما نے پہلی بیوی کے گزر جانے کے بعد دوسری کی تھی جو اگر چہ اس کے قوم قبیلے کی نہ تھی مگرپیرل اس پر جی جان سے عاشق ہو گیا تھا۔ وہ کام کے دوران بھی گھر جانے کے بہانے ڈھونڈتا رہتا۔ پہلے جو پینگھا وہ دنوں میں بناتا تھا، اب ایک ماہ کا وقت لے جاتا۔ اس وقت علو کی چارپائی کا بازو مکمل کرتے اسے گھر جانے کا خیال لگا ہوا تھا۔ کام مکمل کر کے اس نے چارپائی علو کے حوالے کی اور کلہاڑی کا دستہ بنوانے آئے ہوے دوست محمد عرف دوسو کو کلہاڑی تختے پر چھوڑنے اور شام کو لے جانے کا بول کر گھر چل پڑا۔ گھر پہنچتے ہی مہندی کا کٹورا لے کر آنگن میں نیم کے نیچے آبیٹھا۔ ویسے تو پیرل جمعے کے جمعے مہندی کرتا تھا مگر اس نے کل شام شیشے میں دیکھا تھا کہ مہندی مونچھوں کی جڑ چھوڑ چکی تھی، اس لیے رات کو ہی اس نے بیوی کو مہندی بھگو دینے کا کہہ دیا تھا۔ مہندی بھی وہ بیوی سے لگواتا تھا مگر اب مچھی دیر سے بھیجنے کی وجہ سے بیوی کام میں لگی ہوئی تھی۔ اسے بھی کہنے کا من نہ ہوا، حالانکہ دل اس کا بہت کر رہا تھاکہ وہ اپنی دل کی رانی سے مہندی لگوائے۔ وہ جب اپنی انگلیوں سے اس کی مونچھوں اور سر کے بالوں میں مہندی لگاتی تھی تو پیرل پر نشہ چھا جاتا تھا۔ خمار میں آکر اسے دنیا بھول جاتی۔ لذت کی لہریں اس کے جسم میں کپکپا جاتیں۔ وہ سکون میں آجاتا۔ پیرل نے پہران اتار کر بیر کی شاخ میں ٹانگا اور مہندی والا کٹورا لے کر کھٹولی پر بیٹھ گیا۔
’’ماما، میں مہندی لگاؤں؟‘‘ اس سے سکینہ نے سوال کیا جو اس کی پہلی بیوی سے پہلوٹی اولاد تھی۔
’’اماں، تو مہندی لگالے گی؟‘‘
’’جیسے ماسی نہیں لگاتی، وہ میں نے دیکھی ہے۔ لگالوں گی۔‘‘
’’ٹھیک ہے اماں۔ یہ پکڑ۔‘‘ پیرل نے اس کے ہاتھ میں مہندی والا کٹورا پکڑا دیا۔ سکینہ جو پہلی بار باپ کو مہندی لگانے کھڑی ہوئی تھی، اناڑی پن کے ساتھ باپ کے سر پر مہندی تھوپنے لگی۔
’’ماما، یہ مہندی میں ماسی سرسوں کا تیل کیوں ڈالتی ہے؟‘‘
’’اماں، اس سے مہندی کھال پر نہیں چڑھتی۔ تو ایسے نہ لگا اماں، تھوڑی تھوڑی اٹھا کر جڑوں میں لگا۔ بالوں کے اوپر نہیں، اماں۔ یہ دیکھ، ایسے۔‘‘ پیرل بیٹی کو مہندی لگا کر سمجھانے لگا۔ اتنی دیر میں ہانڈی چولھے میں الجھی سلیمت کی نظر مُڑس پر پڑی۔
’’ائی! مجھے کیوں نہیں کہا؟‘‘ وہ ہوا کے جھونکے کی طرح سر پر آکھڑی ہوئی۔ ’’مجھے دے مہندی، سکیناں۔ تو جا کر دیگچی دیکھ، میں تیرے باپ کو مہندی کر کے ابھی آئی۔‘‘
’’تو اپنا کام دیکھ دِلڑی، مہندی خود لگ جائے گی،‘‘ پیرل نے سلیمت سے کہا جو اب کٹورا سنبھال کر مہندی لگانے لگی۔ اس کی انگلیوں نے مہندی کرتے پیرل کے بالوں کی جڑوں کو چھوا تو پیرل کے اندر پھریری دوڑ گئی۔ اس کے روئیں کھڑے ہوگئے۔ سسکاریاں نکلنے لگیں۔ ’’تیرے مٹ مائٹ پہنچنے والے ہوں گے، تو ڈوئی سنبھال!‘‘ پیرل نے پھر کہا مگر اب کے کہنے میں ایک ناز تھا جوجواب سننے کے شوق میں تھا۔
’’نہ سائیں! مجھے مٹ مائٹ تم سے بڑھ کر ہیں کیا؟‘‘
پیرل کے دل میں پھوار برسی۔ وہ کھٹولی پر اور پھیل کر جم گیا۔ بیری کے نیچے بیٹھا پیرل مہندی کی ٹھنڈک اپنے اندر اترتی محسوس کر رہا تھا۔ ابھی بیری پر پھل آنے کا وقت کافی دور تھا ورنہ اس کے بیر کترتے طوطے ’ٹیوں ٹیوں ‘کا راگ الاپ رہے ہوتے۔ اس بیری کے عاشق صرف طوطے ہی نہ تھے بلکہ یہ صوفی بیر گاؤں بھر کے بچوں کی پسند تھی۔ بیری کے اس قسم پر لگنے والے بیر عام بیروں سے جسامت میں بڑے اور رس دار ہوتے تھے، جیسے ان کے اندر شیرہ بھرا ہوا ہو۔ ورنہ گاؤں، کھیتوں میں بیریاں تو بہت۔ اکثر بیریاں تُرش، گلا جا پکڑتیں۔ اس بیری پر بیر آنے لگتے تو گھر میں بچوں کی آمد رفت بڑھنے لگتی۔ وہ آتے اور بیروں کے پکنے کا اندازہ کرکے لوٹ جاتے اور پھر شام میں آکر بیروں کو گھورنے لگتے۔ انھیں سمجھ نہ آتی کہ اتنی دیر کے باوجود وہ ویسے کا ویساکیسے ہے؟وہ پھر مایوس مایوس واپس ہو جاتے۔ یہی بیری اگر کسی اور جگہ ہوتی تو ا س پر پتھر روڑے برسانے لگتے لیکن یہ تو ان کی اپنی تھی۔ اس لیے اگر کوئی زیادہ اُتاؤلا ہو جاتا تو ماموں پیرل سے جھول جاتا۔
’’ماما، یہ بیر پک کیوں نہیں جاتے؟کب پک جائیں گے بھلا؟‘‘
’’بابا، دیر ہی نہ لگے گی۔ بس شام یا کل!‘‘ ماما کا جواب ہمیشہ ایسا ہی ہوتا۔ وہ خوش خوش جا کر خواب میں بیر کھانے لگتے۔
جیسے جیسے بیر پیلے ہو کر سبز پتوں میں دمکنے لگتے، بچوں کے ہونٹوں کے کونے رال بہانے لگتے۔ ماما سے بیروں کی فرمائشیں بڑھتی جاتیں۔ بیر توڑنے والے دن تو گھر کے باہر بڑے بوڑھے بھی انتظار کرنے لگتے۔ اس دن بیری کے نیچے وہ شور پڑتا کہ طوطے بھی بیر بھول کر بھاگ جاتے۔ ماما بیری کے تنے سے اٹکا ہوا ہے۔ درخت ہلا ہلا کر بیر گرانے ہیں۔ بھلا پتھر جوتا مار کر کوئی کھانے کی چیز ہاتھ کی جاتی ہے؟ماما تنے کو ایک طرف سے جھنجھوڑنے میں لگا ہوا ہے تو دوسری طرف سے بچے اپنا زور لگائے جا رہے ہیں۔ خوشی میں بھرے بچے تنے سے چمٹ کر’’آ! آ!‘‘ کی آوازیں لگاتے جوش میں تنے پر چڑھ جاتے۔ بیری کے نیچے موجود ہر سر اوپر اٹھا ہوا ہے۔ فائدہ مند جگہ کے لیے دھکم دھکا ہو رہی ہے۔ ہر ایک نے جھولی پھیلائی ہوئی ہے۔ بیروں کو ہاتھ کرنے کے لیے تتلی کی مانند اِدھر اُدھر اڑے جا رہے ہیں۔ حبو (حبیب)کی جھولی بھر جاتی ہے۔ بھری جھولی دیکھ کر صدورا خود کو روکنے سے معذور ہو گیا۔ اس نے حبو کی جھولی سے مٹھی بھرلی۔ اِدھر حبو کی ’’آں‘‘ ابھری، اُدھر سے ماما کڑکا، ’’اوئے صدورے، تیری نانی مر جائے، واپس رکھ!‘‘ صدورے کی شکل بھیگے مرغے کی طرح ہو گئی۔ اس نے مٹھی واپس پھینکی اور ماما کی نظروں سے بچنے کے لیے ہجوم میں غوطہ مار کر دوسری طرف جا نکلا۔
’’دیکھ رہا ہوں، دیکھ رہا ہوں تجھے صدورے پدورے!‘‘ ماما کی نظر سے کوئی کیسے بچے۔ اب بیر ٹپاٹپ گر رہے ہیں۔ جو جھولی سے بچ کر نیچے گر جاتا ہے اس پر بچے یوں جھپٹتے ہیں جیسے باکو جلیبی والے کی جلیبیوں پر مکھیاں۔
مگر یہ وقت ابھی دور ہے۔ ابھی تو ماما مہندی لگوا کر برآمدے میں بیٹھا مہندی سوکھنے کا منتظر ہے۔ اس کی بیوی سلیمت اور بیٹی سکینہ مہمانداری کے بندوبست میں ہیں۔ مچھلی کا سالن، لیس دار سفید چاول، چاولوں پر ڈالنے کے لیے پسا ہوا گڑ، مکھن اور شہد اور چاول کی بنی روٹیاں۔ ان کے بن جانے تک پیرل بھی مہندی اتار کر نئی دھاری دار انگرکھے کی دھوتی، سفید کھلا کھلا پہران پہنے تیار ہو گیا ہے۔ پہران کے گریبان پر سفید ریشم سے پھول پتیوں کی باریک بیل بنی ہوئی ہے جو اس کی بیوی نے پورے دو ماہ لگا کر سوئی دھاگے سے کڑھائی کر کے بنائی ہے۔
زوال کے قریب مہمان بھی پہنچ گئے۔ شہر سے گاؤں تک پنھوں تانگے والا چھوڑ گیا۔ مل ملا کر حالی احوالی ہوے۔ برآمدے میں بیٹھ کر کھانا کھانے لگے۔ پیرل اور اس کا سسر ایک ہی چارپائی پر بیٹھے۔ بیوی نے ان کے آگے مچھلی کا سالن، چاولوں کاتھال، پیالہ بھرا پسا ہوا گڑ اور پِنڈی میں مکھن سے تربتر چاولوں کی روٹی لا کر رکھی۔ کھانا شروع ہو گیا۔ کھانے والے بڑے بڑے لقمے نگلتے رہے۔ توجہ معیار سے زیادہ مقدار پر تھی۔ ساتھ ساتھ پیرل اور اس کے سسر کی باتیں چلتی رہیں۔ سلیمت کی ماں اور بہن دوسری طرف بیٹھ کر کھانا کھانے لگیں۔ سلیمت اور سکینہ دونوں طرف خالی تھال اور پنڈی بھرتی رہیں۔ پیرل اور اس کے سسر دونوں نے پلیٹ مچھلی، مکھن کے ایک ایک پیڑے کے علاوہ چاولوں کے دو تھال اور لاتعداد روٹیاں کھا کر ختم کیں اور وہیں چارپائیوں پر لیٹ گئے۔ ان کی باتیں غنودگی کے رنگ میں ڈھلنے لگیں اور کچھ ہی دیر وہ اندر پڑے سوگئے۔ سلیمت نے کھانا کھایا، برتن سمیٹے اور ماں بہن کو لے کر کمرے میں جا بیٹھی۔ کچی اینٹ اور گارے سے بنا لپائی کیا ہوا کمرہ اندر سے ٹھنڈا تھا۔ کھلے دروازے پر رلی ٹنگی تھی جو تاریکی کی وجہ بن رہی تھی۔ ماں چارپائی پر لیٹ گئی۔ سلیمت نے پاؤں دبانا شروع کیے۔ ماں کے خراٹے پیرل اور اس کے سسر کے خراٹوں کے ساتھ ہم آواز ہو گئے۔ ماں کے سونے کے بعد دونوں بہنیں ساتھ لیٹ کر سس پھس کرنے لگیں۔
’’مڑس اچھا لگتا ہے بھلا؟‘‘
’’یہ کوئی بات ہے بھلا! کبھی مڑس برا لگتا ہے کیا؟‘‘ سلیمت نے الٹا سوال کردیا۔
’’ائی! ایسے نہیں۔ میں ویسے پوچھ رہی تھی اندھی۔ کیسا لگتا ہے؟‘‘
’’مڑس ہے، سِر کا سائیں ہے۔ سب کچھ وہی تو ہے۔‘‘
’’پر سر تو سفید لگا پڑا ہے، جبھی تو مہندی کرتا ہے۔‘‘
’’تو کیا ہوا؟مرد کی عمر ہوتی ہے کیا؟‘‘
’’ہاں، یہ تو سچی بات ہے۔ بھلا سنا، ہلت چلت کا کیسا ہے؟‘‘
’’ائی! بڑی ادی، کیا بتاؤں! اتنا اچھا ہے، اتنا اچھا کہ کیا بتاؤں۔ کپڑے لتے، کھانا پینا، کوئی کمی نہیں کرتا۔ اور ہاں، ایک بات بتاتی ہوں، تُو مانے گی ہی نہیں۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’اس نے آج تک مجھ پر لاٹھی کیا، ہاتھ بھی نہیں اٹھایا۔‘‘
’’چل جھوٹی کسی جگہ کی! مرد اور ہاتھ نہ اٹھائے! یہ جھوٹ جا کر کسی اور سے بول۔‘‘
’’نہ بڑی ادی، قسم دستگیر کا، مجھے ڈانٹتا بھی نہیں۔‘‘
’’سچی؟‘‘ بہن کا ہاتھ حیرت میں منھ پر جم گیا۔
’’ایسا اچھا ہے، ایسا اچھا ہے جو بس ہنساتا رہتا ہے۔‘‘ سلیمت کے لہجے میں گدگدی بھری ہوئی تھی۔
’’قسم اٹھا سرخ قرآن کا!‘‘ بہن سلیمت کو جھنجھوڑبیٹھی۔
’’قسم سرخ پاک قرآن کا۔ جب شہر جاتا ہے نا، تو میرے لیے پتا نہیں کیا کیا لاتا ہے۔ کبھی جلیبی، کبھی مٹھائی، کبھی ماوا، کبھی ریوڑی، کبھی نبات۔ کیا بتاؤں۔ ایسی ایسی چیزیں لاتا ہے!‘‘
’’ائی، کیسی قسمت والی ہے! ہم تو بس موچڑوں میں۔‘‘
’’میں تو شکر کرتی ہوں میری جان چھوٹی۔‘‘
ہاں سچی۔ تُو تو اپنے مڑس کے پاؤں دھو کر پی۔ ایسا مڑس تو میں نے کبھی سنا ہی نہیں۔ میرا مرحیات مڑس، اللہ اسے جنت میں جائے دے، ایسا تھا جو لاٹھی بانٹھا اٹھاتا تو اصل رکھتا ہی نہیں تھا۔‘‘
’’دعا دے اس سانپ کو جس نے اسے ڈنک مارا۔ تیری جان تو چھوٹی۔‘‘
’’ائی ایسے نہ کہہ! جیسا تھا، میرے سر کا سائیں تھا۔ مارتا تھا تو اس میں اُس کا کیاقصور؟ بس جو لکھے کا نصیب۔ چل، میں سوتی ہوں۔ اتنے دور سے آئے ہیں، لاری نے صفا تھکا دیا ہے۔‘‘
’’پاؤں دباؤں کیا تیرے؟‘‘
’’نہ ڑی! اتنی بوڑھی نہیں میں۔ تُو گھر کا دیکھ جا کر۔‘‘
وہ کروٹ بدل کر سوگئی۔
ادھر پیرل نیند سے اٹھا تو اس کا سسر چارپائی پر بیٹھا پن والی بیڑی مونٹھ میں دبائے پیے جا رہا تھا۔ وقفے وقفے سے وہ زور سے چٹکی بجا کر راکھ جھاڑتا۔ پیرل نے اٹھتے ہی تیاری کی۔ وہ اپنی دکان کی طرف جانے لگا۔
’’ابا کہاں؟‘‘ سسر نے بلغمی آواز میں پوچھا۔
’’چاچا، ایسے مڑئی کام وام دیکھ لوں۔ ابھی آتا ہوں۔‘‘
’’ابا، پھر مجھے زائفائوں کے ساتھ کیوں چھوڑے جا رہے ہو؟ ٹھیر جا، میں بھی ساتھ چلتا ہوں۔‘‘
وہ ٹرک کے پرانے ٹائرز کے ربر کو کاٹ کر بنائی گئی جوتی پہن کر اٹھ کھڑا ہوا۔
’’چاچا، میں ابھی آجاؤں گا۔ تُو یہاں بیٹھ۔ وہاں کیا کرے گا؟‘‘
’’نہ ابا، مرد کا کیا کام گھر میں؟وہڑے وا۔ باہر کوئی دیکھ ریکھ ہو جائے گی۔‘‘
چاچا پیرل کے ساتھ گلی میں باہر آیا۔ وہ گاؤں سے باہر نکلتی گلی میں چلنے لگے۔ گلی کافی کشادہ تھی، اتنی کہ اس میں سے بیل گاڑی یا گدھا گاڑی آرام سے گزر جاتی تھی۔ پیرل کا دراز قد سسر ایک ٹانگ سے ذرا لنگڑاتا، دونوں ہاتھ کمر کے پیچھے باندھے، سست رفتار سے چل رہا تھا۔ اس کے سر کے بال، دو انگل داڑھی، مونچھیں اور گہری بھنویں، سب کی سب مہندی سے رنگی بالکل سرخ رنگت کی تھیں۔ گلی میں آتا جاتا ہر ایک ماما کو دیکھ کر شوخ ہو کر سلام مارتا جاتا، لیکن وہ ماما پیرل جس کا معمول ہر ایک سے مذاق مسخری کا راستہ تھا، آج خاموش خاموش سلام کا جواب دے کر جیسے گزرنے والے کو پرایا لگ رہا تھا۔ پیرل کے اندر فکر کی مشین چل رہی تھی۔ اس کے سسر کو دیکھ کر لوگ کیا کہیں گے؟ان کی قوم قبیلے کے رواج میں بہن بیٹی کے گھر شادی کے بعد جانا بے غیرتی تھی۔ یہ تصور ہی نہ تھا کہ کوئی اپنے بیٹی کی ڈیوڑھی بھی پار کرے، چہ جائیکہ روٹی پانی کرنا۔ اسی وجہ سے پیرل نے سسر کو گھر ٹکے رہنے پر زور دیا تھا۔ پر بوڑھے آدمی کو کون سمجھائے؟اس وقت تو شہر گیا واپس ہوتا تھا اور کام والا بھی کھانا وانا کر کے برگد کے نیچے آبیٹھتا۔ اب یہ سب کیا ہوگا؟پورے گوٹھ کو اس بات کی خبر بھی ہوگئی ہوگی۔ لوگ پتا نہیں کیا کیا کہیں گے۔ اور اب یہ ساتھ چلا آیا ہے چاچا۔ سنتا بھی نہیں۔
برگد کے قریب آئے تو اچھے خاصے لوگ چبوترے کو ٹھکانہ بنائے ہوے تھے۔ چاچا علی حیدر کو دیکھ کر پیرل کو بُرا لگا، جیسے چاول کھاتے منھ میں کنکر آجائے۔ اس نے اٹ پٹے پن سے سب کو واحد سلام کیا اور اپنے چھپر کی طرف چلا گیا۔ تختے پر اوزار اور دوسو کی کلہاڑی اسی جگہ پڑے تھے جہاں وہ چھوڑ گیا تھا۔ اس نے دستہ بنانے کے لیے لکڑی چھیلنا شروع کی۔ پیرل کا یہ رویہ سسر کے لیے عجب تھا۔ اسے پیرل کی غیریت نے اچنبھے میں ڈالا۔ وہ سر موڑ کر اسے چھپر میں جاتے دیکھتا رہا۔ نہ کسی سے میل کروایا نہ واقفیت، یہ کو ئی طریقہ ہے؟ایسا ہوتا ہے مائٹی میں؟
چبوترے پر بیٹھے لوگ بھی ماما کی دوری سے حیرت زدہ ہوے۔ ماما کا معمول ایک ایک کو سلاوالیکم کرنا ہی نہیں تھا بلکہ وہ وہاں بیٹھے ہوؤں کو ٹہوکے دیتا جملے کستا جاتا۔ لوگ بھی ماما کو تاکے جا رہے تھے اور اس کے ساتھ آیا ہوا مہمان کچھ کے لیے نئی صورت تھا۔ وہ لنگڑاتا ہوا چبوترے کے قریب ہوا تو چاچا علی حیدر گوٹھ میں نئی صورت آتی دیکھ کر آدر بھاؤکے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہاں بیٹھے ہوؤں میں سب سے بڑی عمر والا ہونے کی وجہ سے اس نے یہ اپنی ذمے داری سمجھی۔
’’ادا، بھلی کرے آیا۔ خُش؟چنگو بھلو؟سب خیر؟کون مُڑس ہو، اَدا؟‘‘
چاچا علی حیدر اٹھ کر نووارد سے ملنے لگا۔ وہ برگد کو ٹیک لگائے، گاؤں کو پیٹھ دیے بیٹھا تھا اس لیے اس نے اسے پیرل کے ساتھ آتے نہیں دیکھاتھا۔
’’ادا، میں۔۔۔ہوں، قادر بحق(قادر بخش)۔‘‘ اس نے نام سے پہلے قوم بتائی۔
اتنی دیر میں دوسرے بھی اٹھ اٹھ کر اس سے ملنے لگے۔ پیرل اپنے کام میں لگ گیا تھا مگر اس کی پوری توجہ برگد کے نیچے تھی۔
’’آؤ ادا، آؤ۔ بیٹھو۔‘‘ چاچا علی حیدر نے قادر بخش کو ہاتھ سے پکڑ کر ساتھ بٹھایا۔ ’’کوئی لسی پانی ہو جائے ادا؟‘‘
’’نہ ادا، نہ! صفا طلب ہی نہیں۔‘‘
’’وری بھی ادا، آئے ہو، کچھ تو پیو۔‘‘
’’نہ ادا، نہ!‘‘
’’ہاں تو ادا، دے حال احوال؟خیر خبر؟کیسے آنکلے ہو؟کس میں کام وام ہے؟‘‘
’’نہ ادا، کام وام کیسا؟یہ اپنا پیرل نہیں ہے؟اس کے پاس آیا ہوا ہوں۔‘‘ قادر بخش جملہ پورا کر کے کھانسنے لگا۔
’’ہاں؟ اڑے پیرل، اتنا بھی نہیں سیکھا؟ آئے گئے کو ملایا جاتا ہے، کوئی واقفیت، کوئی عزت۔ ابھی تک تُو نہیں سدھرا؟‘‘ چاچا علی حیدر پیرل پر گرم ہو کر بولا۔
’’چاچا، یہ ماما پیرل کا سسر ہے۔ اس کے گھر آیا ہے،‘‘ ساتھ بیٹھے نے سرگوشی کرتے چاچا علی حیدر کو آگاہی دی۔
’’ہاں؟ یہ وری کیا کہا تو نے؟پیرل کا سسر؟بیٹی کے گھر آیا ہے؟‘‘ چاچے علی حیدر نے سرگوشی کرنے والے کو گھور کر دیکھا اور پے در پے سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ ہر سوال کے جواب میں بولنے کی جگہ تائیداً سر ہلایا گیا۔
’’اڑے یہ کیا کہہ رہا ہے بشو(بشیر)؟‘‘ چاچے نے وہاں اور بیٹھے ہوے لوگوں سے بے یقینی کے عالم میں تصدیق چاہی۔
’’ہاؤ چاچا، ہاؤ!‘‘ گدھے گاڑی والے شیر محمد عرف شیرل نے واضح الفاظ میں بتایا۔
’’بے گیرتی(بے غیرتی) کی بھی کوئی حد ہوتی ہے!‘‘ چاچے علی حیدر کی بات ماحول میں کڑکی۔ ’’یہ تو ہے باہر والا، اسے کیا کہیں۔ تو پیرو ٹیرو، یہ تو نے مائٹی کہاں کی ہے بے گیرت؟ہم بکری بھینس بھی دیکھ کر لیتے ہیں۔ یہ تو نے کیا کِیا ہے اندھی کے بچے؟لخ لعنت ہو تجھ پر!‘‘
چاچا علی حیدر غیظ و غضب کی حالت میں پیرل کے تختے کے پاس چلا گیا۔ پیرل کے پاس بولنے کو کچھ نہ تھا، اور اگر ہوتا تب بھی چاچے علی حیدر کے آگے زبان کھولنا ممکن نہ تھا۔ دبلا پتلا چاچا علی حیدر انتہائی گرم طبیعت اور بات بات پر آپے سے باہر ہونے والے مزاج کا مالک تھا۔ ہر چیز میں الجھنا اور ہر ایک کی پگڑی اتارنا اس کا معمول تھا۔
’’چاچا چھوڑ! مہمان ہے، کچھ خیال کر۔‘‘
دو تین چاچے کو چپ کروانے اٹھ آئے۔
’’کاہے کا ڑے مہمان؟نہ گیرت نہ شرم!‘‘
’’چاچا چھوڑ اب۔ کیا کر رہا ہے؟‘‘ کسی نے چاچے کو کھینچ کر لے جانا چاہا۔
’’اڑے چھوڑ مجھے! مجھے کہہ رہا ہے؟ اس بے گیرت کو کچھ نہیں کہتاجو بیٹی کے گھر آیا ہے!‘‘ چاچے نے اس بار قادر بخش کو نشانہ بنایا جو چبوترے سے اٹھ کر آیا تھا۔
’’تُو ڑے، بول کیا رہا ہے بڈھے؟ہوش میں ہے یا نہیں؟‘‘ قادر بخش چاچے علی حیدر پر جھپٹا۔
’’چاچا، چھوڑ تُو اس کو۔ یہ اَدھ مغزی ہے۔‘‘
پیرل نے، جو تختے پر سر جھکائے کام میں لگا تھا، تیر کی طرح سسر کے پاس پہنچ کر اسے روکا۔
’’ادھ مغزی ہے تو اپنے گھر ہوگا۔ کتے کی طرح بھونکتا ہے یہ!‘‘
’’چاچا چل، گھر چلتے ہیں۔‘‘ پیرل سسر کو لے جانے لگا۔
’’ہاں ہاں، لے جا گھر بے گیرت! اولاد بھی ایسی بدنسلی پیدا ہوگی نا!‘‘ چاچا علی حیدر اپنے پکڑنے والوں سے چھڑانے کی کوشش کرتا پھنکارا۔
’’اس کنجر کو تو میں دیکھتا ہوں!‘‘ پیرل کا دراز قد سسر لنگڑاتاہوا پھر علی حیدر کی طرف دوڑا۔
’’چاچا بیلی، چھوڑ دے اسے۔ میں تیرے ہاتھ جوڑتا ہوں۔‘‘
’’اڑے پیرل! تُو اس بڈھے کا منھ بندنہیں کرتا اور مجھے روک رہا ہے؟‘‘ سسر پیرل پر چلّایا۔
’’چاچا باپ کی عمر کا ہے، اس کے اوپر آدمی نہ ہاتھ اٹھاسکے نہ گردن۔‘‘
پیرل سسر کو کھینچتا گوٹھ کی طرف اوپر لے جا رہا تھا۔
’’چاچا ماف کرنا، ایسا چریا ہے چاچا علی حیدر۔ تم ایسا ویسا مت سمجھنا۔‘‘ ایک دو گاؤں والے ان کے پیچھے پیچھے آکر پیرل کے سسر کے آگے ہاتھ جوڑنے لگے۔
’’چریا ہے تو باندھ دو نا اسے۔ کھلا کیوں چھوڑا ہے؟‘‘ قادر بخش کا غصہ کم نہ ہوا۔
’’چاچا، یہ ہمارے ہاتھ دیکھ۔ تُو بھی بڑا ہے، وہ بھی بڑا ہے، ہم کریں کیا!‘‘ کسی نے قادر بخش کی ٹھوڑی کو چھوا تو کسی نے گھٹنے کو ہاتھ لگا کر قادر بخش کو رام کرنے کی کوشش کی۔
اُدھر برگد کے نیچے چاچا علی حیدر ابھی چپ نہیں ہوا تھا۔
’’ہمارے بال سفید ہو گئے، پر ایسی بے حیائی! ایسی لوسپائی کہ بیٹی کے گھر آ بیٹھا ہے! بیٹی کے گھر؟اس سے پہلے یہ لنگڑا ڈوب کے نہیں مرا؟‘‘
’’چاچا اب بس کر، اپنا اپنا رواج ہوتا ہے۔ ان کے ہاں آتے جاتے ہوں گے،‘‘ کسی نے چاچے کی بات کاٹ کر کہا۔
’’یہ بے گیرتی ہے یا رواج؟ایسا رواج ہوتا ہے؟اسی لیے تو کہتے ہیں، اپنوں سے باہر نہ جاؤ۔ اپنے کا عیب صواب معلوم ہوتا۔ اس پیرو ٹیرو کو ملا کیا باہر جا کر؟کون سی پگڑیاں بندھ گئیں؟ سارا زمانہ تھوتھو کرے گا کہ حرامی نے کس جگہ سے رشتہ جوڑا ہے۔ باپ دادا کی واہوا عزت کروائی اس نے۔‘‘
’’چاچا، کھلے میں بیٹھے ہیں، چھت کے نیچے نہیں۔ اب بس کر جا۔ اپنا پرایا آ جا رہا ہے۔ چھوڑ۔‘‘
مگر چاچے علی حیدر نے کیا سننا تھا۔ وہ اسی رفتار تھوکیں اڑاتا رہا۔ اِدھر گلی میں گاؤں کے چند لوگ قادر بخش کے پیچھے چلتے پیرل کے گھر تک آئے۔ وہ اس کے سامنے چاچا علی حیدر کی باتوں کی تعبیر اس کی بڑی عمر، بے وقوفی، غصے سے جوڑ کر بات کا اثر کم کرنے میں لگے رہے جس کا اندازہ نہیں ہو پایا کہ کس قدر وہ پُر اثر رہیں۔ قادر بخش کسی سے بات کیے بنا تیز تیز لنگڑاتا پیرل کے گھر اندر داخل ہوگیا۔ ماما پیرل نے دروازے پرآئے ہوؤں کو مجروح نظروں سے دیکھا اور سسر کے پیچھے اندر چلا گیا۔
’’اٹھ بڑھیا، سامان سنبھال!‘‘ قادر بخش گھر میں گھستے ہی بیوی کے اوپر گرجنے لگا۔ وہ جو بیٹی کے ساتھ برآمدے میں بیٹھی باتیں کررہی تھی، اس کے تیور دیکھ کر خوف کھاگئی۔
’’ہوا کیا؟‘‘ اس نے چارپائی سے اٹھتے ہوے پوچھا۔
’’ہوا کیا؟تُو آگے سے پوچھتی ہے کمینی؟بند کر منھ! اٹھ، ابھی کے ابھی سامان باندھ۔‘‘
قادربخش کی بات کے بعد اس نے داماد کی طرف دیکھا تک نہیں، اٹھ کر سامان کو گٹھڑی میں باندھنے لگی۔
’’دیکھ چاچا، ایسے نہ کر۔ رب کا واسطہ ہے۔ ایسے ناراض ہو کر جاؤگے تو کیا عزت رہے گی میری؟‘‘
’’باہر بڑی عزت کروائی نا تم نے! اور کوئی کسر رہ گئی ہے تو ارمان پورے کرلے۔‘‘
’’ابا، ایسے نہ کرو۔ کیوں ناراض ہو کر جا رہے ہو؟‘‘ پیرل کی بیوی باپ کی طرف دوڑی۔
’’دور ہو کتّی رن! تیری وجہ سے ساری خواری ہوئی ہے۔ جلدی کر بڑھیا!‘‘
’’ابا، تجھے دستگیر کا واسطہ ہے، یہ میں اپنا دوپٹا تیرے پاؤں میں ڈالتی ہوں، ایسے نہ جا۔‘‘
سلیمت کے لیے معاملہ ابھی الجھا تھا کہ بات کیا ہے، لیکن یہ بات تو واضح تھی کہ اس کا باپ کسی بات پر غصے ہو کر گھر سے جا رہا تھا۔
’’چاچا، یہ میرے ہاتھوں کو دیکھ، میں تیرے آگے جوڑتا ہوں، ایسے نہ کر!‘‘ پیرل سسر کے آگے ہاتھ جوڑنے لگا۔ اتنی دیر میں قادر بخش کی بیوی سامان لتوں کی پوٹلی باندھ کرشوہر کے حکم کا انتظار کرنے لگی۔
’’دے اِدھر!‘‘ کہہ کر قادر بخش نے بیوی کے ہاتھ سے پوٹلی چھینی اور گھر سے باہر چلنے لگا۔ اس کی بیوی اور بیٹی سرجھکائے اس کے پیچھے چلیں۔
’’ابا، تجھے سرخ قرآن کا واسطہ ہے، نہ جا!‘‘
’’اگر تُو میری بیٹی ہے تو ابھی کے ابھی میرے ساتھ چل! پھر زندگی بھر کبھی اس گھر میں پاؤں نہ رکھنا۔ چل میرے ساتھ!‘‘ قادربخش چند قدم آگے جا کر کھڑا ہو کر بیٹی سے بولا۔
’’چاچا، ایسے نہ کرو۔ کاوڑ تھوک دو۔ سورج اترنے والا ہے، اس وقت کہاں جاؤ گے؟‘‘ پیرل نے پھر سسر کو رام کرنے کے لیے زور لگایا۔
’’جدھر بھی جائیں، تیرا کیا؟ تُو بتا، چلے گی یا نہیں؟‘‘ قادر بخش بیٹی سے سوال کرتے ہوے غرّایا۔ سلیمت جواب دینے کے بجاے اس کے لہجے میں بھرے غصے سے ڈر گئی۔ اس سے بولا نہ گیا۔
’’معنی تو نہیں چلے گی حرامزادی! آج کے بعد توہمارے لیے مر گئی۔ کبھی ہماری طرف منھ نہ کرنا، بھلے مرتی مر جائے۔ تُو کیوں بندھی کھڑی ہے بڑھیا؟‘‘
قادر بخش نے بیوی کو دھکیلا۔ سلیمت نے ڈبڈباتی آنکھوں سے اپنی ماں، بہن اور باپ کو گھر سے نکلتے دیکھا۔ وہ وہیں زمین پر بیٹھ گئی۔ وہیں کھڑا پیرل مخمصے میں آگیا کہ سسر کے پیچھے جائے یا بیوی کو سنبھالے۔
شام ہو رہی تھی۔ گلی میں سے گھروں کو لوٹتی بھینسوں کے ڈکرانے کی آوازیں آرہی تھیں۔ پیرل برآمدے میں پڑی چارپائی پر لیٹا تھا۔ بیوی اندر کمرے میں تھی جہاں جانے کا ابھی پیرل کا من نہ تھا۔ ماں کو کمرے سے نہ نکلتے دیکھ کر سکینہ کھانا پکانے میں لگ گئی۔ مغرب کی اذانوں کی دیر بعد سکینہ نے چاولوں سے بھرا تسلہ اور پسے ہوے گڑ کا پیالہ باپ کے آگے رکھا۔ پیرل اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے وہیں بیٹھے بیوی کو پانی لانے کے لیے آواز دی مگر جواب نہ سن کر اس نے چاولوں پر گُڑ بُرکتے ہوے کھانا شروع کردیا۔ بھرا تسلہ خالی کر کے اس نے ڈکار ماری اور پھر سستی سے وہیں لیٹ گیا۔ پیرل کے اندر اب بھی برگد کے نیچے والا واقعہ پھر رہا تھا۔ جو کچھ وہاں پیش آیا وہ اسے زیادہ غلط نہیں لگ رہا تھا۔ اسے چاچے علی حیدر کا بولنا چبھ تو رہا تھا مگر ایسا بھی لگ رہا تھا جیسے اس کی طرف سے بھی چاچے علی حیدر نے دو بول بول دیے ہوں۔ اس نے پیٹ پر زور پڑتا محسوس کیا۔ اس نے کروٹ بدلی اور پہلو کے بل ہو کر زوردار آواز میں ایک پاد داغا۔ ’’ہائے ہائے‘‘ کہہ کر اس نے پیٹ پر ہاتھ پھیرا۔ اب فرحت ہوگئی تھی۔ وہ اٹھ کر بیوی کو منانے کمرے اندر چل دیا۔ کمرے میں داخل ہوا تو بیوی ابھی بھی سسک رہی تھی۔ اس کی سسکیاں سن کر اس پر بوجھ پڑگیا۔ یہ آواز اسے مارے ڈالنے لگی۔ وہ اسے منانے میں جت گیا۔ پھر جب پاؤں کی تلیوں میں گدگدی کرنے، پاد چھوڑنے، مسخری کرنے پر بھی بیوی نہ مانی تو وہ زمین پر بیٹھ کر کان پکڑتے مرغا بنتے ’’ککڑوں کوں‘‘ کی آواز بولنے لگا۔
’’اللہ سائیں مافی! یہ کیا قہر کر رہے ہو سائیں؟لوگ سنیں گے تو کیا بولیں گے!‘‘
بیوی گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی اور اس کا منھ دبایا۔
’’کہیں گے مرغا بول رہا ہے، اور کیا!‘‘
’’سب کو پتا ہے، ہمارے پاس مرغا ہے ہی نہیں۔‘‘
’’یہ تمھارے سامنے اتنا بڑا بیٹھا ہوا ہے، نظر نہیں آتا؟ایک بار پھر بولوں؟ککڑوں کوں!‘‘
’’بس کرو سائیں۔ توبہ ہے میری۔ اوپر بیٹھو۔‘‘
بیوی نے کھینچ کر اٹھایا۔ پیرل اٹھ کر چارپائی پر بیٹھ گیا۔ اس نے بیوی کو بازوؤں میں لے کر اس کا گال چوما۔ بیوی کی غمزدگی میں کمی آئی۔ وہ شرما کر ہنس دی۔
’’اس طرح ہنسا کرو۔ تُو دکھی ہوتی ہے تو میرا سورج ڈوب جاتا ہے۔ سکینہ، چاول لے کر آ۔‘‘ اس نے سکینہ کو پکارا۔ ’’آج میں تمھیں اپنے ہاتھ سے کھلاتا ہوں۔‘‘
بیوی پھرہنس دی۔ اس کا غم کم ہوا تھا مگر اتنا بھی نہیں کہ سکھ پا سکے۔ اس نے پیرل سے شام والی بات پوچھی۔ پیرل اس کے کہنے پر واقعہ بتاتا گیا اور اس دوران جہاں تک ممکن تھا، وہ چاچا علی حیدر کی باتیں کم کرتا گیا۔ یہ سنتے سنتے بیوی کے غم پر غصہ حاوی ہونے لگا۔ وہ علی حیدر کو گالیاں اور کوسنے دینے لگی۔
’’کالا منھ ہو اس بڈھے کا! رب کرے اسے کفن بھی نہ ملے! دستگیر کرے ڈوب کے مر جائے، اندھا ہو جائے، اس کی ٹانگ ٹوٹے مردار کی! جنازہ قبر بھی نہ ملے کسی کو اس کی! اللہ سائیں اسے کالا سانپ کاٹ جائے! کوڑھ ہو جائے اس کو!‘‘ وہ جھولی بھر بھر کے بددعائیں کرنے لگی۔
’’اب چھوڑ۔ بڑا ہے، سفید داڑھی والا۔‘‘
’’تیرا ہوگا بڑا۔ ایسے ہی چھوڑ دوں اسے؟اس بدبخت نے میرے اپنے چھین لیے مجھ سے۔ یہ میری جھولی دیکھ رہا ہے نا مولا؟اس سے میرا ایک ایک حساب لینا۔‘‘
’’اب اٹھ۔ روٹی ووٹی کھالے۔‘‘ پیرل نے بیوی کو نیچے سے زبردستی اٹھایا جو جھولی پھیلا کر گڑگڑاتی ہوئی زمین پر بیٹھ گئی تھی۔ بیوی کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھیں۔
’’فکرات نہ کر دِلڑی۔ ہم چلیں گے، تیرے باپ والوں کو منا کر آئیں گے۔ میں نہیں ہوں؟‘‘
اس بات سے سلیمت کی دل پر ٹھنڈے چھینٹے پڑے۔
’’اب تو خوش؟‘‘ سلیمت نے سر ہلایا۔ ’’بھلا ہنس کر دکھا!‘‘ پیرل کے الفاظ میں چاہت کا جادو تھا۔ بیوی مسکرائی۔ پیرل کا من کھل اٹھا۔ اٹ پٹے واقعات سے پیدا ہونے والی مشکل صورتحال کا اختتام پیرل کی طبیعت میں وہی جولانی لانے لگا۔ اس نے بیوی کو ہنسا ہنسا کر پیٹ میں بل پڑنے تک نہیں چھوڑا۔ بعد ازاں دونوں لیٹ پیٹ کرسوگئے۔
پیرل حسب عادت پو پھٹنے کے وقت جاگا تو آسمان سیاہ بھرے بادلوں سے اٹا ہوا تھا۔ روز چلنے والی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کا نام نہ تھا جو صبح کو اور بامعنی بناتے تھے۔ ماحول میں بھاری پن تھا اور حبس کی اولین کیفیت چھائی تھی۔ مطلب کہ بارش کی جملہ نشانیاں موجود تھیں۔ یہ اشارے دیکھ کر پیرل کا جی خوش ہو گیا۔ لوٹا اٹھائے وقت اس نے پاد داغا۔ پاخانے سے نکلتے وقت ’’ہائے ہائے‘‘ کی آواز ایک خوش آہنگی کے ساتھ اس کے منھ سے نکل رہی تھی۔ ’’اتنا تو کھا کر مزہ نہیں آتا جتنا ہگ کر آتا ہے،‘‘ اس نے خود کلامی کی۔ ’’واہ مولا واہ! خوش رہ سدا۔ بس آج ایسا کوئی مینھ برسا، دل میں ٹھنڈ پڑ جائے۔ بوند گرے کوئی وقت ہو گیا ہے۔ جو انڈے تھے وہ بچوں والے ہوگئے ہوں گے۔ ابھی اور کتنا ترسائے گا؟ کوئی ہے حساب کتاب تو بول۔ ہے کوئی؟مسیت (مسجد)ہے، ملّا ہے۔ ملّا کو اَن پانی ملتا ہے۔ ملّا آذان نماز سب کر رہا ہے، تو پھر اور کیا بات ہے؟اگر کوئی اور ناراضگی ہے تو بتا دے بھلا۔ بنا بتائے ناراضگی کا کوئی فائدہ؟یار، بات سن! اگر کوئی ایسی ویسی چھوٹی موٹی ناراضگی ہے تو معاف کر کے اپنا قرب کر۔ مینھ پڑے گا ناں تو چھوٹا بڑا بہت خوش ہوگا۔ دعا کریں گے تجھے۔ مولا نہیں ہے؟بس پھر آج دمادم مست قلندر ہو جائے۔ چل بھلا، یہ بھی وعدہ ہے، آج مینھ برسا تو اس جمعے نماز پڑھوں گا۔ پکّا وعدہ ہے داڑھی کا!‘‘ پیرل نے سیدھا ہاتھ داڑھی پر پھیرا۔ ’’ایسے نہیں کہہ رہا، پکّا پڑھوں گا۔ وہ پچھلی بار اونچ نیچ ہوگئی تھی لیکن اب بالکل ایسا نہ ہوگا۔‘‘ پیرل نیم روشنی میں کھڑا آسمان کی طرف منھ کیے بولے جا رہا تھا۔ ’’پھر کیا کہتا ہے؟ہوگا کام یا نہیں؟ہوگا نا؟وَہوا سائیں، وَہوا! آج میں ہٹی پر ہی نہیں جاتا۔ یا جاؤں؟ اگر مینھ میں تھوڑی دیر کردے تو میں سامان لے آؤں؟ایسے بچوں کی شے شغل ہو جائے گی۔ بچے خوش۔ ٹھیک ہے؟ اچھا پھر میں جاتا ہوں۔ ابھی جاتا ہوں اور جودمیں سامان سڑو لے کر واپس آجاؤں گا۔ سائیکل ایسے بھگاؤں گا جو ریل کار، دیکھنا تم! کیوں، یقین نہیں آیا کیا؟اب ایسی بات بھی نہیں۔ صفا گیا گزرا نہ سمجھ۔ دیکھنا کیسے اڑاتا ہوں۔‘‘
پیرل نے بولتے بولتے سائیکل اٹھائی اور تیز تیز پیڈل مارتا گلی سے نیچے اترتے راستے پر جانے لگا۔ اترائی پر آکر اس نے زور لگا کر دو پیڈل مارے۔ سائیکل کی رفتار تیز گھوڑے جیسی ہوگئی۔ ٹیلے سے اتر کر برگد کے بازو سے ہو کر شہر جاتی کچی سڑک پر چڑھتے اس نے پیڈل گھمانا روک دیا۔ سائیکل کے پہیوں نے جو رفتار پکڑی تھی وہ اسی دھن میں بھاگے جا رہے تھے۔ دو رویہ درختوں کے بیچ سڑک بالکل خالی تھی۔ پیرل پیڈل روکے، سائیکل کی گدی پر بیٹھا تھا۔ سائیکل دوڑ رہی تھی۔ اسی اثنا میں ’’کوؤو!‘‘ کی آواز گونجی۔ درخت کی شاخوں میں چھپی بیٹھی کوئل بولی تھی۔ پیرل آواز سن کر ترنگ میں آ گیا۔ اس نے اسی انداز میں کوئل کی طرح جوابی’’کوؤو!‘‘ کی آواز نکالی۔ کوئل آواز سن کر مغالطے میں آئی اور اس نے شدت سے ’’کوؤو!‘‘ کی کوک کی۔ پیرل لہک لہک کر پیڈل مارتا ’’کوؤو‘‘ بولتا گیا۔ ان دونوں کی کوک کی آواز تب تک آپس میں ٹکراتی گئی جب تک پیرل کی سائیکل دور پرے نہیں پہنچ گئی۔
پیرل شہر میں داخل ہوا تو بادلوں کے باوجود روشنی پھیل چکی تھی مگر شہر اب بھی شب بسری کی سنسانی میں تھا۔ پیرل سائیکل چلاتا عاشق دکاندار کے گھر کے سامنے جا اترا۔ اترتے ہی وہ دروازے پر لٹکی زنجیری کنڈی کھٹکھٹانے لگا، تیز اور بلا وقفہ۔ دکاندار عاشق ہڑبڑا کر اٹھا اور لپک جھپک کر دروازے کے کواڑ کھول کر باہر نکلا۔ وہ ابھی تک دھوتی کے پلّو اُڑسے جا رہا تھا۔
’’ادا پیرل، کر خبر، سب خیر تو ہے؟‘‘
’’ہاؤ یار، سب خیر ہے۔ بھلا خیر نہ ہوتا تو میرے تیرے پاس کیوں آتا؟‘‘
’’پر اتنی صبح صبح؟ابھی ہم نے لسی پانی بھی نہیں کیا۔ کوئی پیسے ڈوکڑچاہییں؟‘‘
’’اڑے یار، میں پیسے ڈوکڑ کیا کروں گا؟چل دکان کھول، سامان لینا ہے۔‘‘
’’یار پیرل، صفا حد کردی! یہ کوئی وخت (وقت)ہے سامان لینے کا؟‘‘
’’یار، مینھ بھرا کھڑا ہے، دیکھ نہیں رہے؟جلد سامان دے تو میں جاؤں۔‘‘
’’یار پیرل، صفا زور آور مڑس ہو یار۔‘‘ عاشق دکاندار مڑا اور گھر اندر جانے لگا۔
’’اڑے اُدھر کدھر؟چل دکان کھول!‘‘ پیرل نے اسے بازو سے پکڑا۔
’’یار، کوئی گنجی قمیص پہن تو لوں۔‘‘
’’اڑے زائفاں ہے کیا جو گنجی قمیص پہنے گا؟جلدی کر!‘‘
’’یار۔۔۔ یار، بس کیا کہوں تجھے! چل بھلا۔‘‘
عاشق نے دھوتی کے پلّو میں بندھا چابیوں کا گچھا ہاتھ میں پکڑا اور ساتھ موجود دکان کے دروازے کے وزنی قفل میں دندانے دار چابی گھما کر دروازے کا ایک پٹ کھولا۔ اس پٹ کی چوڑائی دکان کے آدھے حصے برابر تھی۔ تین طرف دیوار سے بند دکان کے اندھیرے کو اس نے موم بتی جلا کر دور کیا۔ پیرل نے جھٹ پٹ مطلوبہ سامان اور بیوی کے لیے پراندا لیا اور سائیکل پر بندھے ڈولوں میں بند کر کے واپسی کا راستہ لیا۔
’’پیسے حساب میں لکھ لینااور جلد گھر جا کر بیوی کو تسلی دے جو پریشان ہوگی یہ نبھاگا اس وقت کہاں گیا۔‘‘
’’اڑے چل اب! تُو جا کر اپنی بیوی کو تسلی دے۔ نئی ہے نا تیری!‘‘
’’ہاہاہا! جاتا ہوں، جاتا ہوں۔‘‘ پیرل ہنسا اور پیڈل پر زور مارتے واپسی کے راستے کی طرف جانے لگا۔ اِدھر گاؤں میں بھینسوں کو چارا وارا ڈال کر دودھ دوہا جا چکا۔ لڑکے بالے بھینس گائے لے کر جنگل جا چکے۔ نگاہیں آسمان پر ٹکی ہیں۔ امید بھری کیفیت ہر شخص کے اندر جگہ بنا چکی تھی۔ ویسی ہی جیسی ہر جوان دل کا خاصہ ہوتی ہے۔ بادل بھی عین سر پر جم گئے تھے۔ ان کے ہجوم سے گڑگڑاہٹ کی آوازیں نکل رہی تھیں۔ شاید پہلے میں، پہلے میں پر تکرار ہو رہی تھی۔ پیرل محراب دار سڑک پر تھا۔ بند ہوا میں درختوں کی شاخیں آپس میں یوں سر جوڑے کھڑی تھیں جیسے بالی عمر کی لڑکیاں آپس میں سس پھس کیے جا رہی ہوں۔ پیرل سامان ڈولوں سے نکال کر صندوق میں رکھ رہا تھا تو بوندیں کِن کِن گرنے لگیں۔ پیرل سامان رکھنے میں تھا کہ بادل پھٹ پڑے۔ مینھ کی بڑی بڑی بوندوں نے فضا کو ڈھانپ دیا۔ ایسا اندھیرا جیسے مغرب پڑگئی ہو۔ مٹی کا سفید رنگ بھورا پڑگیا، مٹی سے لپی چھتوں کے پرنالے بہنے لگے اور ہر پاسے دریا جیسا مٹیالا پانی کھڑا ہوگیا۔ ٹیلے کی اترائی پر پانی کے ریلے نالیاں بنا کر بہہ نکلے۔ صحن آنگن میں کھڑے پانی میں برستی بارش سے بلبلے بننے لگے۔ بچے مینھ میں باہر نکل آئے۔ وہ کچی گلی جس میں عورتوں کے پاؤں گھسیٹ کر چلنے سے دھول اڑتی تھی، پانی کا تالاب بن چکی۔ بچے اس میں چھپاچھپ پانی کے چھینٹے اڑانے لگے۔ بچوں کا ہجوم دوڑتا اچھلتا چیخ رہا تھا۔ ’’اللہ سائیں مینھ وَسا، گوڈے جیڈی گپ کر!‘‘ وہ سب ایک آواز میں چلّائے جا رہے تھے۔ یہی الفاظ دہراتے وہ بڑی گلی میں دوڑ پڑتے اور ایک کونے سے دوسرے کونے ایک دوجے سے آگے نکلنے کی دھن میں گرتے بھاگتے جاتے۔ کوئی کوئی اپنی جی داری دکھاتا دوڑتا ہوا خود کو پیٹھ بل پانی کی چادر میں گراتا اور پھر کیچڑ میں پھسلتا جاتا۔ پیرل کچھ دیر مینھ کم ہونے کی آس میں رُکا رہا، مگر بوندیں تھیں کہ اور بھاری ہوتی جا رہی تھیں۔ پیرل اللہ کا نام لے کر گاؤں کی طرف چلا۔ اسے بس چڑھائی پر پھسلنے کی فکرتھی۔ وہ جوں ہی برگد کے نیچے سے نکل کر چڑھائی پر دو قدم چلا تو پانی سے بالکل شرابور ہوگیا۔ اس کا سفید پہران تربتر ہو کر اس کے مٹکے ایسے پیٹ کے گرد لپٹ گیا۔ دھوتی کے پلّو وزن دار ہو کر بیل کی گردنی کھال کی طرح لٹکنے لگے۔ چڑھائی پر چڑھتے ہوے وہ بار بار پھسل رہا تھا۔ وہ کیچڑ میں لت پت ہو چکا تھا۔ مشکلوں سے گلی میں داخل ہوا تو وہاں بچوں کی سلطنت قائم تھی۔ ماما کو مینھ کے ماحول میں کوئی پہچان نہ پایا۔ بچوں کو بس یہی نظر آیا کہ کوئی بڑا قریب آ رہا ہے۔ ان کی مستی میں رخنہ پڑنے لگا۔ ڈانٹ ڈپٹ سے خوف کھا کر کچھ سست دل گھروں کی راہ پکڑنے لگے۔ اسی دوران برستے مینھ میں ہیولے کی آواز آئی،
’’ہٹ جاؤ، تمھاری نانی مر جائے!‘‘
آواز کا ابھرنا تھا کہ شور و غوغا نے ایک نئی شکل لے لی۔ بھاگتے بچے ماما کو چمٹ گئے۔
’’ماما پیرل، شے دے! ماما پیرل، شے دے!‘‘
ماما بیچارہ شے کہاں سے دیتا۔ وہ بچوں سے اٹکتا، خود کو سنبھالتا کیچڑ میں جا گرا تھا جہاں بچے اس کے اوپر یلغار کیے ہوے تھے۔
’’تمھاری نانی مرجائے، مجھے اٹھنے تو دو!‘‘ مگر ماما کی آواز کسی کو سننے میں نہیں آرہی تھی۔ ہجوم ماما کے جسم پر امنڈا ہوا تھا۔ ماما اٹھنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے جا رہا تھا۔
گاؤں کے مغربی جانب درختوں کے سائے میں موجود تالاب کے اندر پانی کی نالیاں اترنے لگیں۔ یہ تالاب جو کل تک بچے کھچے پانی اور کیچڑ کا ملغوبہ تھا، اب پانی سے لبریز ہونے لگا۔ کناروں پر سوکھ کر تڑخی ہوئی مٹی نم ہو کر پانی میں گھلنے لگی۔ آہستہ آہستہ تالاب بھرتا گیا اور کنارے پھیلتے گئے۔ مینھ ختم ہونے تک تالاب میں بھینس ڈباؤ پانی کھڑا ہوگیا۔ لوگ باگ مینھ رکنے کے بعد صحن کمروں سے نکلے اور چھپا چھپ کرتے باہر چلے۔ ہر ایک سنگی ساتھی کو گیا۔ لڑکیاں دیواروں کے اوپر سے سہیلیوں کو پیغام کرنے لگیں۔ بڑے بوڑھے بھی اپنی اونگھ چھوڑ کر چارپائی پر اٹھ بیٹھ گئے۔ انتظار میں تھے کہ پانی کھیتوں میں نکل جائے تو ٹیک لے کر باہر جایا جائے۔ عورتیں بچوں کی فرمائش کے بنا دیگچیاں چڑھائے گڑ کے چاول بنانے بیٹھ گئیں۔ فضا میں سے دھول کا نشان مٹ چکا ہے۔ درخت کی ٹہنیوں پراُڈاریاں مار تے سبز طوطوں کی ٹیئوں ٹیئوں کوے کی کائیں کائیں پر غالب آچکی ہے۔ جنگل کو چرنے گئی بھینسیں وقت سے پہلے واپس آرہی ہیں۔ اس موسم میں میہار سے شام کا انتظار کرنا ممکن نہیں۔ وہ تالاب کی جانب دوڑ کر پہنچنا چاہتے ہیں جو اَب سانولے اور گندمی جسموں سے بھر گیا ہے۔ بڑے لڑکے جیسے پورے تالاب پرچھائے ہوے ہیں۔ درختوں پر چڑھ کر قلابازیاں لگانے کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ چھوٹی عمر والے کنارے کنارے چمٹ کر تیرنے کے بجاے نہانے میں مشغول ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے منھ پر پانی کے چھپاکے مارے جا رہے ہیں۔ لڑکیاں، کچھ بتا کر اور کچھ پوچھے بنا، سہیلیوں کے ہاں جا نکلی ہیں۔ چارپائی کی اوٹ میں گڈے گڈی کا بیاہ رچانے کی باتیں کیے جا رہی ہیں۔ کھی کھی کی آواز سن کر کسی کا چھٹکا بھائی بچپن کے تجسس میں آکر جھانکنے کے لیے قریب ہوتا ہے۔ بازو کے بل کھڑی چارپائی کے اوپر سے اس کا ننھا سر نمودار ہوتے ہی کھی کھی چیختی آواز میں بدل جاتی ہے۔ ہل ہنگام ہو جاتا ہے۔
اس شور سے دور پیرل اپنی بیوی کے بازو سے جڑا بیٹھا ہے جو گڑ والے میٹھے چاول دیگچی میں چڑھائے بیٹھی ہے۔ سکینہ پاس پڑوس میں اور دونوں بیٹے تالاب پر۔ خالی باورچی خانے میں پیرل کے ہاتھ مستی سے رک ہی نہیں رہے۔ سلیمت کسی کے آنے کے ڈر سے اسے بار بار دور دھکیل رہی ہے۔
’’نہ کرو ایسا! کوئی دیکھے تو؟‘‘ بیوی تنگ آچکی ہے۔ اب کے وہ بل کھا کر بولتی ہے۔ اس بار پیرل نے کمر پر چٹکی کاٹی ہے۔
’’میں تو کروں گا! بیوی ہے تُو میری، اپنے گھر میں ہیں، ایسا دلبر موسم ہے۔ اب بھی ایسے نہ کروں تو کب کروں؟‘‘
’’نہ کر! تمھیں تو کچھ ہوتا نہیں، مجھے شرم آرہی ہے۔‘‘
’’شرم آرہی ہے؟کہاں ہے شرم؟کدھر ہے؟مجھے تو دکھائی نہیں دیتی!‘‘ پیرل بیوی کے دوپٹے کو یہاں وہاں سے اٹھا کر ڈھونڈنے لگتا ہے۔
’’مجھے تنگ مت کر، نہیں تو میں جاتی ہوں!‘‘ سلیمت غصہ کھا کر کھڑی ہو گئی۔
’’بس، بس، بات ختم۔ اب خوش؟‘‘
پیرل بیوی کا پہلو چھوڑ کر سامنے پیڑھی پر جا بیٹھااور خوشی بھری آنکھوں سے اسے تکنے لگا۔
’’ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘ بیوی گلنار ہو گئی۔
’’دل کرتا ہے تمھیں ساری عمر بیٹھ کر دیکھتا رہوں،‘‘ پیرل پُر شوق انداز میں بولا۔
’’بس اب باہر جاؤ۔ مرد کا یہاں کیا کام؟‘‘
’’اچھا جاتا ہوں۔‘‘
پیرل اٹھ کھڑا ہوا۔ باورچی خانے سے نکل کر آنگن میں کیچڑ سے بچنے کے لیے رکھے اینٹوں کے قدمچوں پر پاؤں رکھتے جانے لگا۔
’’کہاں جا رہے ہو؟‘‘ سلیمت اٹھ کر پیچھے آئی۔
’’خود تو کہہ رہی ہے، جاؤ۔ تو جا رہا ہوں۔‘‘
’’جلدی آجانا۔‘‘
’’کہو تو نہ جاؤں؟‘‘ پیرل پھر شوخ ہوگیا۔
’’جاؤ جاؤ! میں بس کہہ رہی تھی جلد آنا، چاول پک جائیں گے۔‘‘
سلیمت واپس چولھے پر بیٹھ گئی۔ پیرل نکل گیا۔ وہ بیٹھ کر چاولوں میں چمچ گھمانے لگی۔ اس کے دل پرغبار تھا۔ غمزدگی کسی چادر کی طرح لپٹی ہوئی تھی۔ ماں باپ کا کل یوں جانا اور علی حیدر کا بھونکنا اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ باہر کی ہونے کا تاثر اور گہرا ہوگیا تھا۔ وہ خود کو اس گوٹھ میں غیر جان رہی تھی۔ پہلے ہی عورتوں نے طعنے مار مار کر جینا مشکل کر رکھا تھا۔ سال بھر ہونے کے باوجود خالی کوکھ انھیں بولنے پر اکساتی تھی۔
’’مولا سائیں، میری امید پوری کر، ایک سرخ بیٹا دے دے۔ گوٹھ والیوں نے جگر چھلنی کر دیا ہے۔ میں عمر بھر تیرا احسان مانوں گی۔ تیرے پاس کیا کمی ہے۔ رُگو ایک بیٹے کا سوال ہے۔ یا پنجتن پاک، میری مدد کر! یا پیر دستگیر، مجھے بیٹا لے کر دے۔ میں ہر گیارھویں کو تیرے نام کا دیگچہ اتاروں گی۔‘‘ اپنے دوپٹے کو پھیلائے سلیمت آزی نیازی کرنے لگی۔ اس کا دھیان دیگچی سے ہٹ گیا تھا جس میں پڑے چاول پک کر دیگچی کے پیندے سے لگے جا رہے تھے۔
چولھوں پر رکھی دیگچیاں اترنے لگیں۔ اَدھ جلی لکڑیوں پر پانی ڈال کر انھیں سرد کیا جا رہا تھا۔ بجھتی لکڑیوں میں سے سسکاریوں کی آواز بر آمد ہو رہی تھی۔ کالا دھواں بھی سفید ہوتا گیا۔ بڑے بوڑھے خوشبو پاکر چاول نگلنے کو تیار ہونے لگے۔ گڑ کی چاش پر پکے چاول دیگچی سے نکالتے چمچ کے ساتھ چمٹ جاتے۔ تھالیوں میں مشکل سے اترتے۔ بوڑھوں، مردوں اور بوڑھیوں کو تھالیاں تھمادی گئیں۔ پکانے والیاں انتظار کرنے لگیں کہ جوان اور بچے واپس ہوں تو ان کو چاول دینے کے بعد وہ بیٹھ کر کھاسکیں۔ کوئی اٹھ کر گلی میں جھانکنے تلاشنے لگی کہ کسی آتے جاتے کے ہاتھ پیغام کر کے انھیں بلایا جائے۔ کیچڑ بھری گلی میں جاتے ماما پیرل پر اس کی نظر پڑی۔
’’ماما پیرل، اِدھر سے جوسب(یوسف)کو تو بھیجنا۔ کہنا، آکر چاول کھائے۔‘‘
’’ہاؤ اماں، ہاؤ!‘‘ ماما مغربی جانب جاتی چھوٹی گلی پکڑ کر تالاب کی طرف جانے لگا۔
’’ماما، صدورے کو بھی بھیجنا۔۔۔ماما، بشو(بشیر)کو تو بھیجنا۔۔۔ماما، اس چھورے نذو(نذیر) کو تو پادر مار کر بھیجنا۔۔۔‘‘
مامے پیرل کی آواز کر دو تین در اور کھلے۔
’’ہاؤ اَمڑ، ہاؤ!۔۔۔ہاؤ ادی، ہاؤ!۔۔۔ہاؤ اماں، ہاؤ! فکر ہی نہ کرو۔ ابھی بھیجتا ہوں۔‘‘
ماما تالاب پر پہنچا تو وہاں جیسے میلہ لگا ہوا تھا۔
’’اڑے ماما پیرل!‘‘ ماما کو دیکھ کر خوشی کی ایک لہر یہاں سے وہاں دوڑی۔ ’’آؤ ماما، آؤ۔‘‘
اندر تالاب میں کھڑے، درختوں سے چھلانگیں مارتے ماما کو پکارنے لگے۔
’’ماما، آ اندر!‘‘ کسی شوخے نے ماما کی دھوتی کھینچنے کی کوشش کی۔
’’اڑے لخ لعنت ہو! ماما کی گو?ڈاتار رہا ہے حرامی!‘‘ کسی نے اسے جھڑکا۔
’’نہ بیٹا، نہ! ایسے نہ۔ گوڈ کیوں پکڑ رہے ہو؟اتنا شوق ہے تو صاحب کو خود پکڑ لو!‘‘ ماما نے ساتھ اشارہ کیا۔ ماما پیرل کا جواب قہقہوں کا طوفان لایا۔
’’ماما، اچھا کیا تو نے اس کا! کالا منھ ہوا نا تیرا حرامی؟ ماما کی گوڈ میں ہاتھ ڈالتا ہے۔‘‘
’’دیکھو تو سہی، کل کلاں کی پیدائش ہماری گوڈ میں ہاتھ ڈالتی ہے! پر آخر کیوں؟ہوگا ناکوئی شوق اس کو!‘‘ ماما نے دھوتی کھینچنے والے کو تالاب سے باہر نکلتے دیکھ کر کہا۔
کہنے والا یہ سن کر گاؤں کی طرف بھاگا۔
’’بھلا نہیں جائے گا حرامی!‘‘ دو تین شغل میں اس کو پکڑنے دوڑے۔
’’ابا چھوٹے بچے سب گھر جاؤ۔ طاہری جا کر کھاؤ۔ جاؤ شاباش!‘‘ ماما بچوں کو تالاب سے نکال کر گھروں کی طرف بھیجنے لگا۔ ’’اب تم لوگ بھی چلو، چاول جا کر کھاؤ۔‘‘
ماما کی بات پر سب اس کے ساتھ تالاب سے نکل کر گیلے کپڑوں میں گاؤں کو جانے لگے۔
’’ماما، اچھا علاج کیا تو نے اس کے کیڑے کا۔‘‘ خمیسو ماما کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ گیلے بال، گیلا جسم۔
’’کس کے کیڑے کا خمیسا؟‘‘
’’ماما، اسی ربو (رب نواز) کا۔‘‘
’’اڑے یار، تو بھی صفا سودائی ہے۔ رات گئی بات گئی، تُو ابھی تک اس کی دُم پکڑے بیٹھا ہے۔ چھوڑ اس بات کو! یہ بتا، چاول کتنے کھائے گا؟‘‘
’’ماما، تھال کوئی تو کھا جاؤں گا۔‘‘
’’بس؟ رُگوایک تھال؟‘‘ ماما مایوسی سے بولا۔ ’’تیرا تو حال ہی کوئی نہیں یار!‘‘
’’ماما، تُو بھلا کتنے کھائے گا؟‘‘
’’میں کھاؤں گا پورا دیگچہ! ایسے سمجھا ہے کیا؟‘‘
’’مار! ماما، پورا دیگچہ؟پھر گھر والے کھائیں گے کیا؟‘‘
’’وہ کھائیں گے اپنا نصیب! بھلا ایسے کر، ان کے لیے تُو لے آ۔ گوٹھ کا اتنا حق تو ہے۔‘‘
’’واہ ماما، تیرا نصاف! اکیلے دیگچہ چٹ کر جائے اور ہم اپنے بھی تیرے پاس لے آئیں!‘‘
’’اڑے تو مت لانا۔ کنجوس، کنجوس کے بیٹے!‘‘
’’ماما، جائی لے آؤں؟‘‘
’’اڑے چریا، ایسے کہہ رہا تھا۔ چاول بہت! آکر ہمارے ساتھ کھا۔ تیری مامی بہت اچھے بناتی ہے۔‘‘
ماما گھر اندر داخل ہوا۔
’’ماما، پھر ہم چلتے ہیں۔‘‘
’’ہاں، ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔‘‘
وہ صحن عبور کر کے باورچی خانے میں گھسا تو بیوی سر کو ہاتھ دیے بیٹھی تھی۔
’’خیر تو ہے؟ کیا ہوا؟‘‘
’’بس سائیں، میری قسمت ہی ایسی ہے۔ چاول لگ گئے ہیں۔ اب بچوں کے کیسے پورے ہوں گے؟‘‘
’’اڑے، صفا چری ہے۔ یہ کھرنڈ لگے مجھے دیناسارے۔‘‘
بیوی ویسی کی ویسی بیٹھی رہی۔
’’اڑے چری، سچ کہہ رہا ہوں۔ مجھے یہ ایسے اچھے لگتے ہیں جو کیا بتاؤں۔ دیتی ہے یا میں خود نکالوں؟‘‘ بیوی نے چاول ڈالے اور نیچے سے سارے کھرنڈ لگے چاول نکال کر تھال بھر دیا۔ وہ وہیں جم کر چاول کھانے لگا۔
’’آ تُو بھی میرے ساتھ کھالے۔‘‘
’’نہ سائیں، توبہ توبہ! دیکھ تو سہی کہہ کیا رہا ہے؟سارا لوک ہنسے! پہلے ہی کہتے ہیں میں نے تمھیں تعویذ پلائے ہیں۔‘‘
’’یہ تو خیر سچی بات ہے۔‘‘ پیرل ہنس پڑا۔
’’اگر یہ سچی بات ہے تو ایسی رَن کو گھر سے نکال باہر کرو۔ گھر میں کیوں بٹھا رکھا ہے؟‘‘ بیوی تپ گئی۔
’’اڑے ایسے ہی مسخری کر رہا تھا۔‘‘
’’یہ مسخری کی بات ہے؟پہلے ہی لوگ طعنے مار رہے ہیں، تم بھی مارو!‘‘
’’اڑے دلڑی، تم بات بات پر آگ ہو جاتی ہو۔‘‘
’’تم بات ہی ایسی کرتے ہو۔ جان بوجھ کر آزار دیتے ہو۔ لوگ الگ آزاریں، تم الگ!‘‘ بیوی کا مکھ دکھ سے بھر گیا۔
’’چری، میں تو ایسے ہی کہہ رہا تھا۔‘‘
’’لوگ بھی ایسے ہی کہتے ہیں۔‘‘
’’اڑے، لوگوں کی باتیں ہوا میں ہوتی ہیں۔ ان کے پیچھے زور تھوڑی ہوتا ہے۔ ان کی باتوں کا کیا رنج!‘‘
’’زور ہے اسی لیے تو تُو بھی کہہ رہا ہے، تعویذ پلائے ہیں۔ کل کو یہ بھی کہے گا، اس رن کو اولاد نہیں ہوتی۔‘‘
’’یہ اولاد کا کس نے کہا؟‘‘
’’سب کہتے ہیں۔ کہتے ہیں، باہر جا پڑا، غیروں سے لے آیا۔ اب ہو اولاد تو دیکھیں۔‘‘
’’بڑی خبیث زبانیں ہیں۔ کسی کو بستا ہوا برداشت نہیں ان کو۔ خانہ خراب ہو ان کا! پر تُو چھوڑ اس بات کو۔ بھلا کنویں اور لوگوں کے منھ کبھی بند ہوے؟ہاں، اپنوں میں سے کسی نے کہا ہو تو میں حساب دوں۔ ادی صغریٰ کبریٰ نے کہا ہو، نانی برکت نے کہا ہو تو میں میاری۔‘‘
’’پر سائیں، اتنا وقت ہو گیا ہے، کوئی آسرا نہیں اب تک۔‘‘
’’اڑی چری، ایسے نہیں کہتے۔ آسرا کیوں نہیں؟آسرا مولا میں ہے، اور دیکھ ابھی سال ہی تو ہوا ہے۔‘‘
’’سال سے مہینے تو چڑھ گئے ہیں۔‘‘
’’دیکھ سلیمت، دینے والی ذات وہ ہے۔‘‘ پیرل نے اوپر اشارہ کیا۔ ’’اس کے پاس کبھی کمی ہوئی؟کبھی ایسی خبر آئی ہے کیا اس کے پاس کمی پڑ گئی ہے؟‘‘
’’توبہ کر سائیں، کیا کہہ رہا ہے! اس کے پاس کمی کیوں ہوگی؟بس میرا دل کسی کسی دم بیٹھ جاتا ہے۔ بھلا سائیں بخشٹ شاہ بادشاہ کے پاس چوک رہ آؤں۔‘‘
’’ہاں ہاں، کیوں نہیں۔ میں خود ساتھ چلوں گا تیرے۔ بس دریا بادشاہ میں چاڑھ ہے۔ پانی کچھ اترے، کچھ میں دو پیسے جوڑ لوں تو چلتے ہیں بس۔‘‘
’’رب سائیں جلد وہ دن لائے جب میری مراد پوری ہو۔‘‘
’’مراد ایسے پوری ہوگی کہ ایک نہیں، دو دو بیٹے ساتھ ہوں گے، دیکھنا! تُو ایسے دل چھوٹا کر کے بیٹھ جاتی ہے۔ چاول کھا، یہ اَجائی باتیں چھوڑ۔‘‘
’’تم جاؤ، میں کھاتی ہوں۔‘‘
’’میرے سامنے مت کھانا کبھی!‘‘
’’مجھے شرم آتی ہے نا! اب تم جاؤ۔‘‘
پیرل خالی تھال چھوڑ کر اٹھا تو سلیمت نے دیگچہ سامنے رکھا اور تھال میں ڈالنے کے بجاے دیگچے میں سے ہی کھانے بیٹھ گئی۔
پیرل تھال بھر چاول کھا کر پیٹ پھلائے باہر نکلا تو اس پر غنودگی حملہ کرنے لگی۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد اسے نیند یوں گھیرتی، آنکھیں کھولنا مشکل ہو جاتا۔ رات کو نیند میں دیر سویر ممکن تھی لیکن دو پہر کی نیند خود سلانے پہنچ جاتی۔ ابھی بھی اس پر اونگھ حاوی تھی، مگر بچوں کو شے شغل دینے کا وعدہ تھا اور بارش کے بعد نیند کرنا بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے۔
پیرل گلی میں نکلا۔ یہ گلی پیرل کے گھر سے شروع ہوتی تھی، یا یوں سمجھیے کہ پیرل کے گھر پر ختم ہوتی تھی۔ پیرل کا گھر گاؤں کے مشرق میں تھا۔ اس کے گھر کی پچھلی دیوارٹیلے کی اترائی پر ٹھہری ہوئی تھی۔ ٹیلے سے نیچے کھیت ہی کھیت تھے جو حد نگاہ تک چلے جاتے تھے۔ پیرل والی گلی میں دائیں بائیں دو اَور د روازے تھے اور پھر یہ گلی گاؤں کی بڑی گلی سے مل جاتی تھی۔ بڑی گلی پورے گاؤں کو دو حصوں میں کاٹتی درمیان سے چلی جاتی تھی۔ پیرل بڑی گلی میں آیا۔ گلی میں موجود کچی دیواروں کا اوپری حصہ نہایا ہوا لگ رہا تھا، جیسے کوئی نازنین سر پر پانی ڈال کر باقی جسم بھگونا بھول بیٹھی ہو۔ پیرل کیچڑ میں جا بجا انسانوں اور جانوروں کے گزرنے والے نشانات کے اوپر پاؤں رکھتا احتیاط سے چلا جا رہا تھا۔ اس کی چپل کیچڑ سمیٹتی وزن دار ہونے لگی۔ پیرل نے دیوار کی جڑ میں چپل مار کر کیچڑ جھاڑا۔ چند قدم سہولت سے چلا، پھر وہی چپل گارے میں بھر گئی۔ چلنا دو بھر ہونے لگا۔ اس کے اندر بند کیفیت تھی۔ اسے اچانک سے سلیمت کی سُونی کلائیاں چبھنے لگیں۔ بہت عرصے سے یہ خیال تھا مگر سونے کی چوڑیاں خریدنے کی اس میں طاقت نہ تھی۔ پہلی بیوی کا کچھ زیور پڑا تھا مگر وہ سکینہ کی امانت تھا۔ تھا بھی اتنا کہ بس اس کی شادی پر تھوڑا بہت ہوجائے، کیونکہ اسی زیور میں سے کچھ بیچ باچ کر اس نے بوقت شادی سلیمت کے باپ کو ادائیگی کی تھی۔
ہوا یوں کہ پیرل کی پہلی بیوی، جو اس کی چچا زاد بھی تھی، چوتھے بچے کو جنتے فوت ہوگئی۔ بچہ بھی نہ بچ سکا۔ بس جو لکھے کا نصیب! بیوی کی فوتگی کے بعد بہنوں کو بھائی کی شادی کی فکر ہوئی۔ وہ روز کوئی نہ کوئی رشتہ نکال کر پیرل کے ساتھ بیٹھ جاتیں۔ پیرل ٹال مٹول کر دیتا۔ سکینہ اچھا خاصا گھر دیکھ رہی ہے، بھلا شادی کی کیا ضرورت۔ مگر بہنوں کوبھائی کی شادی سے کون روکے؟وہ اسی طرح لگی رہیں۔ پیرل کو بھی وقت کے ساتھ ساتھ ضرورت تنگ کرنے لگی۔ جب پیرل شادی پر تیار ہوا تو وہی سوال سامنے آیا جس وجہ سے وہ ٹال مٹول کرتا تھا۔ ننھیال ددھیال میں رشتہ تھا نہیں اور گاؤں بھر کی لڑکیوں کا تو وہ کئی سال سے ماموں بنا ہوا تھا۔ اس کے خیال سے بات باہر تھی کہ وہ کسی بھی ایسی لڑکی سے شادی کی سوچ بھی لائے۔ اور رہیں عورتیں، تو بہنوں کواپنے بھائی کا کسی رانڈ سے شادی کا تصور امرِ محال تھا۔ اسی اُدھیڑبن میں سال بیت گیا۔ آخر سوچ بچار کر کے وہ اپنے معاملے کو حل کروانے میاں فضل محمد کے پاس چلا گیا۔ بھلا اس کے سوا گاؤں بھر میں کون سیانا آدمی تھا جس سے یہ راز کھولا جائے!
’’ماما پیرل، تیری بات سولہ آنے صحیح ہے۔ تو شان شرم والا بندہ ہے۔ بھلا یہ کوئی بات ہوئی جو ساری عمر ماموں کہتے بڑی ہوئیں اب اُن سے بیاہ رچایا جائے؟‘‘ فضل محمد نے اس کی تائید کی۔ طے یہ ہوا، پیرل بے فکر ہو جائے، میاں فضل محمد خود کوئی نہ کوئی راہ نکالے گا۔ مہینہ ایک گزرا ہوگا کہ میاں فضل محمد پیرل کو لے کر الگ ہو کر بیٹھا۔
’’ماما پیرل، حال احوال سب خیر؟بات یہ ہے، اِدھر اپنے علائقے میں جو رواج ہے، قوم قبیلے سے باہر کا نہیں۔ وہ کٹمب قبیلے سے باہر وٹہ سٹہ بھی نہیں کرتے۔ باقی خبر چار ملی ہے، اُدھر ہے کوئی گوٹھ، وہ اپنوں سے باہر مٹی مائٹی جوڑتے ہیں۔ میں پتا وتا کرتا ہوں۔ تو دِلجائے کر۔‘‘
پیرل کو اطمینان ہوگیا۔ پتا یہ چلا کہ بات برابر سچی ہے۔ وہ لوگ کرتے تو ہیں، مگر دو پیسے چار پیسے پر۔ ان کا دستور ایسا ہے۔ وہ وٹہ سٹہ بھی کرتے ہیں، مگر میاں فضل محمد کا کہنا یہ تھا، وٹہ سٹہ نہ کرنا ہی اچھا ہے۔ میاں فضل محمد پیرل کے لیے ایک گھر بھی نظر میں رکھ آیا ہے۔ دیکھ ریکھ سے اندازہ ہوتا ہے، اچھا رشتہ ہوگا۔ باقی گھر کی عورتیں جا کر لڑکی کے گن وغیرہ جانچ لیں۔ اب یہ رشتے وشتے کی بات پیرل کے کسی بڑے نے آگے چلانی تھی، میاں فضل کو ایسا اختیار دینا کوئی رواج نہ تھا مگر پیرل کے چچا نے یہ بات ماننی تو کجا، برادری سے باہررشتے کا لفظ بھی سننا نہ تھا۔ میاں فضل رشتے کی بات تو نہیں چلا سکتا تھا مگر یہ بھاری پتھرتو اٹھا سکتا تھا۔ اس نے اپنے میٹھے لہجے میں تفصیلی حال احوال دے کر پیرل کے چچا نیک محمد کو اونچائی نیچائی سمجھا کر بات وات سے راضی کر ہی لیا۔ چچا کے بعد پیرل کے دونوں بہنوئی تھے۔ ایک چچا کا لڑکا تھا جو باپ کی رضا میں خود بخود آگیا۔ باقی ایک بہنوئی کو میاں فضل محمد اور چچا نے رام کیا۔
کار آخر جس واسطے سے وہ رشتہ دیکھنے جا رہے تھے میاں نے اُس بندے کو پیغام کروا کر دن پکّا کیا اورمیاں فضل محمد، چچا، بہنوئی اور پیرل کی دونوں بہنیں صبح صبح رشتے دیکھنے نکلے۔ میاں فضل محمد کی بیل گاڑی انھیں شہر والے اسٹاپ پر چھوڑ آئی۔ میاں فضل محمد کے دونوں بیل بھاگ ناڑی نسل کے تھے، قدآور اور خوب پلے ہوے، مگر ہیئت ایسی کہ پتلی ٹانگیں اور پیٹ کا جیسے وجود نہ ہو۔ ہل اور بیل گاڑی دونوں میں خوب چلتے۔ ان کی چلت کی وجہ سے میاں انھیں ’طوفان میل‘ کہتا تھا۔ وہ کہتا، کسی وقت میرے بیٹے بھی مجھے جواب دے سکتے ہیں مگر بیل نہ دیں گے۔
اسٹاپ پر کھڑی گول باڈی بس بھرتی جا رہی تھی۔ عورتوں اور دو مردوں کو اندر جگہ ملی، باقی بچا پیرل کا بہنوئی۔ اسے کلینڈر (کلینر) نے چھت پر چڑھ جانے کا کہا۔ وہ بس کے پیچھے لگی سیڑھی سے چھت پر چڑھنے لگا۔
’’یار، اوپر مشکل میں تو نہ پڑوگے؟‘‘ میاں فضل محمد اپنی سیٹ پکّی رکھنے کے لیے اس پر اپنا رومال جما کر اس سے پوچھنے آیا۔ اسے خیال تھا کہ کل کلاں بیچ لوگوں میں میار’شکوہ‘ نہ دے۔
’’اڑے نہ، چاچا فضل۔ سفر کی تو بات ہے، کوئی رات تھوڑی رہنی یہاں۔‘‘
میاں اس کی آواز سے اطمینان کر کے اندر جا بیٹھا۔ بیضوی شکل کی بس جو گول باڈی کے نام سے مشہور تھی، اندر بالکل بھری تھی۔ ڈرائیور کے پیچھے والی چار قطاریں عورتوں کے لیے مخصوص تھیں، باقی مرد ہی مرد۔ بس کے اندر چھولے اور ماوا بیچنے والے اِدھر اُدھر گھوم رہے تھے۔ بس چلی۔ لوگ اُترتے چڑھتے رہے۔ بس ان کی منزل پر پہنچی۔ وہ اترے تو میاں فضل محمد کا واقفکار، اس گاؤں کا رہنے والا عبد الرحمان ان کا منتظر تھا۔ عبدالرحمان کے ساتھ وہ قادر بخش کے مہمان ہوے۔ عورتیں عورتوں کی طرف گئیں اور مرد مردوں کے ساتھ بیٹھے۔ قادر بخش نے چٹائیوں پر نئی رلیاں ڈال کر بیٹھنے کی جگہ بنائی ہوئی تھی۔ مردوں کا آپسی احوال شروع ہوا۔ کھیت فصل، بکری بھینس، اونٹھ بیل، منڈی شہر، یہاں وہاں کی دنیاداری پر بات ہوتی رہی۔ کھانا آیا۔ کھانا کھا کے وہ لوگ ہاتھ دھو کر کلّی کر کے واپس بیٹھ گئے۔ میاں فضل محمد نے کھنکھار کر اپنا گلا صاف کیا، ناس کی چپٹی دی اور اپنا بھاری ہاتھ دو انگل کی داڑھی پر پھیرتے اصل احوال کی ابتدا کی۔
’’بھاؤ(بھائی) قادر بحق(بخش)، حال احوال سب خیر؟اصل بات یہ ہے، شرع میں شرم نہیں۔ پھر۔۔۔پھر ہوگا وہی جو اوپر والے نے لکھ دیا ہے، لیکن زمانہ گیری کی رسم ہے، آپس میں بھلا کیا چھپانا۔ باپ باپ جیسا، دادا دادے جیسا۔ مطلب گھوڑے کو دونوں کان ایک سے۔ ایسے نا؟‘‘
’’ہاؤ سائیں، برابر۔ بات سچی ہے!‘‘ قادر بخش اور عبد الرحمان سر ہلا کر کہنے لگے۔
’’تو بھاؤ قادر بحق، ہم تمھارے پاس سوالی آئے ہیں۔ ہمارا اپنا ہے۔ یہ اس کا بڑا ہے اور چچا بھی۔ یہ اس کا بہنوئی ہے۔ خود پیرل بھی اشراف آدمی ہے۔ اپنا کھاتا پیتا ہے۔ گھر ہے، دکان ہے۔ بس بھاؤ قادر بحق، یوں سمجھو جیسے ہمیں دیکھ رہے ہو ویسا ہے۔ تو بات یہ ہے، بھائی بھائی کے ساتھ سجتا ہے۔ ہم آئے ہیں اس کے رشتے کا خیال لے کر۔ جو دنیاداری ہوگی وہ نبھائیں گے۔ انسان کی بھلا کیا قیمت، لیکن جو رواج ہے ایک مٹھی، دو مٹھی مکئی کے دانے، وہ قربان کریں گے۔ باقی سب خیر ہے۔ ہمارے بارے میں بھی جو پوچھنا ووچھنا ہو وہ بھاؤ عد رحمان(عبد الرحمان) سے پوچھ سکتے ہو۔ باقی مڑئی خیر ہے۔‘‘
میاں فضل محمد کی بات کے دوران قادر بخش ایک تنکے سے دانتوں میں خلال کرتا رہا۔ پیرل کا چچا، بہنوئی اور عبد الرحمان چپ بیٹھے تھے۔ ?فضل محمد نے بات پوری کی تو اسے اطمینان ہوا، بات ٹھیک طرح کہہ دی گئی۔
’’ادا فضل محمد، ایسی بات نہیں۔ تم لوگ چل کر آئے، جی خوش ہوا۔ ہماری آنکھیں تمھاری لاتیں۔ مہمان کے آنے میں ہماری ہی عزت ہے۔ باقی رشتہ وشتہ کرنا دستور ہے زمانے کا۔ بڑے کہہ گئے ہیں، مرنا مہنا نہیں اور بیاہ گالی نہیں۔ پیر پیغمبر کو بھی رشتہ کرنا پڑتا ہے۔ باقی ادا، بات یہ ہے، بیٹی شیر کے کندھے چڑھے گی تو اپنے خوش ہوتے ہیں، اس لیے ان سے صلاح ولاح کرنی بھی ضروری ہوتی ہے۔ ا س میں دیر سویر بھی لگ جاتی ہے لیکن پھر بھی آپ کو زیادہ انتظار نہیں کروائیں گے۔‘‘
قادر بخش کی باتیں سنتے جواباً تائید میں سر ہلاتے پیرل کے چچا اور بہنوئی کو لگا کہ برابر قادر بخش والوں کا رواج پیسے ویسے پر رشتے داری کا ہے لیکن آگا پیچھا رکھنے والے لوگ ہیں۔
’’بھاؤ قادر بحق، تو نے برحق بات کی۔ رشتے وشتے میں چار بھلے آدمیوں سے بات کرنا اچھا ہوتا ہے۔ لیکن سچی بات ہے کہ میں پیرل کی مٹی مائٹی میں نہیں، ہاں ایک ذات(قوم) کے برابر ہیں لیکن یار، میں ہوں بیچ والا۔ نہ اِدھر کا نہ اُدھر کا۔ سو حق انصاف کی بات کروں گا۔ ہم نے پیرل کے باپ کے ساتھ بھی عمر گزاری اور پیرل بھی ہماری آنکھوں کے آگے جوان ہوا۔ پر کبھی اس میں عیب نہیں دیکھا نہ کسی کا حق ان کی طرف سنا۔ صفا شریف اور ماشوق(معشوق) گھر ہے۔ مولا نصیب کرے تو رشتے میں دونوں گھروں کی عزت بڑھے گی۔‘‘ میاں فضل محمد نے بات ختم کر کے دونوں ہاتھوں سے سر پر بندھی بوسکی کی پگڑی کو اِدھر اُدھر کر کے ٹھیک جگہ کی۔
’’ادا قادر بحق، میاں فضل محمد کو ہم نے منڈی میں سودا صفائی کرتے دیکھا ہے، خود اس سے کاروبار واپار کیا ہے۔ کبھی اپنی زبان سے چوکا نہیں۔ اس کی زبان عزت دار کی زبان ہے۔ سمجھو پتھر پر لکیر ہے!‘‘ عبد الرحمان اپنے گاؤں والے قادر بخش سے کلامی ہوا۔
’’برابر ادا! عزت دار انسان کی نیشانی (نشانی) ہے یہ۔‘‘
’’ادا قادر بحق، بڑی خوشی ہوئی تمھارے پاس آکر۔ مولا کرے گا میل ہوگا۔ بڑی عزت مان دیا تم نے۔ اب ہم بھی چلنے کی کرتے ہیں۔‘‘
میاں فضل محمد کا اشارہ پا کر پیرل کا چچا اختتامی لفظ بولا۔ اس سے پہلے وہ خاموش تھا کیونکہ رشتے کی بات وات کا سارا وزن انھوں نے میاں فضل محمد پر رکھا ہوا تھا۔
’’بس ادا، جو بیٹی کا لیکھ ہوگا۔ مولا کرے گا، آپ کا آنا بے کار نہ ہوگا۔ مزید اپنوں سے بات وات کر کے آپ کو خبر کریں گے۔‘‘
قادر بخش کے ان جملوں کے بعد وہ اٹھ کھڑے ہوے۔ عورتوں کو پیغام کیا گیا۔ وہ چلی آئیں۔ ان کا بہت دل تھا کہ پوچھا جائے، بات بنی کہ نہیں، لیکن راستہ تو ایسی بات کی جگہ نہیں۔ گاؤں پہنچے تو سورج آخری دم پر تھا۔ کیا چرند پرند، کیا انسان جانور، سب گھر پہنچنے کا مشتاق تھا۔ پیرل جو صبح سے جلے پاؤں بلی کی طرح یہاں وہاں پھرے جا رہا تھا، برگد سے ان کے ساتھ چلا آیا۔ وہ سارے پیرل کے گھر بیٹھ گئے۔
’’ماما پیرل، مبارک ہو۔ منھ میٹھا کرا، کام باقی تمھارا ہو جائے گا۔‘‘ میاں فضل محمد نے صبح سے سر پر رکھی پگڑی اتار کر اسی بندھی حالت میں گھٹنے کے اوپر رکھ دی۔
’’چاچا فضل، رب تیرے منھ میں موتی گلاب۔ پکّا ہو جائے گا؟‘‘ پیرل کی چھوٹی بہن کبریٰ بے اختیار بولی۔
’’ابا کبریٰ، کوئی اندیشہ ہی نہ کر ناں۔ میں اصل آدمی کی آنکھ سے اس کی دل میں جا بیٹھتا ہوں، ہا۔ باقی وہ بھی عزت دار ہیں، بیٹی کو وزن سمجھ کر تھوڑی باہر نکال پھینکیں گے۔ کسی تیسرے چوتھے سے پوچھیں گے۔ پک کریں گے۔ گھر، گھاٹ، دھندھا دیکھیں گے۔ دنیاداری میں سو باتیں ہوتی ہیں۔ وہ تو کرنا پڑیں گی نا ان کو بابا۔ باقی، آخر میں ماما پیرل سہرا باندھے ہی باندھے۔ سائیں کیسے بھاؤ نیک محمد؟‘‘ میاں نے پیرل کے چچا سے پوچھا۔
’’مجھے بھی ان کے ورتاؤ سے ایسا لگا کہ جوڑیں گے، توڑیں گے نہیں۔‘‘
’’اب تو تجھے پک ہوئی کبریٰ بیٹی؟‘‘
’’ہاؤ چاچا۔ مجھے تو اس دن کا انتظار ہے جب میرا بھائی سہرا باندھے گا۔‘‘
’’بھلا تم لوگ اندر کا احوال دو۔ گھر، لڑکی کیسے تھے؟‘‘
’’بس چاچا، پوچھ ہی نہیں! لڑکی ایسی تھی ایسی جو کیا بتاؤں، صفا سرخ بیر جیسی۔ لال گلاب۔ میں نے پورے گاؤں میں ایسی نہ دیکھی۔ ہے نا ادی صغریٰ؟‘‘ کبریٰ نے شوق و خوشی میں بولتے بڑی بہن سے تائید چاہی۔
’’ہاں۔ چھوکری ٹھیک تھی، پر ایسی بھی نہیں جو میں کبریٰ کی طرح قربان جاتی۔‘‘
’’نہ بڑی ادی! ایسی سوہنی تھی جیسے حور پری۔‘‘
’’بھلا لچھن کیسے تھے؟‘‘ میاں نے بات کو موڑنا چاہا۔ اس کا خیال تھا، بات ابھی بیچ میں ہے، اس لیے اچھی بات کی جائے۔
’’چاچا، بولنے چالنے میں ایسی اچھی جو کسی کورشتے کے نام سے چاچی مامی کے سوا پکارے ہی نہیں۔ اور گھر ایسا کہ سارا جھاڑو کیا ہوا، تکیے رلیوں میں ٹانکے کی ایسی صفائی جو ٹانکا ٹانکے سے الگ۔ شکل سے بھی فرمانبردار لگ رہی تھی۔ ادے پیرل کی کنوار بنے گی تو روکھی سوکھی کھا کر بھی خوش ہو جائے گی۔‘‘
’’وہوا! وہوا! ماما پیرل، جو دو نوالے ہم نے مچھلی کے اٹھائے اس میں جو مزہ تھابس کیا بتاؤں۔‘‘
اس محفل میں اس کا کچھ بولنا یا پوچھنا مناسب نہ تھا، وہ چپ چاپ بیٹھا سنے جا رہا تھا۔ اس کا دل کر رہا تھا، بس یہ باتیں بند نہ ہوں، بھلے صبح ہو جائے۔ رات کا کھانا کھا کر وہ گئے تو پیرل چارپائی پر لیٹ گیا۔ اس کے اندر لال کنوارکا ہیولا بن رہا تھا۔ اس کے آنے والے دن سخت ہو گئے۔ وقت لکڑی کی جگہ لوہے کا ہوگیا۔ کاٹے کٹتا نہ تھا۔ لڑکی والوں نے اپنے طور پوچھ گچھ کی، مشورہ مصلحت کیا۔ رشتہ دینے میں بات بنی۔ قادر بخش والوں کے گاؤں کا چنگا مڑس، اپنے ساتھ عبد الرحمان اور ایک دو آدمی کیے، میاں فضل محمد سے ملاقی ہونے آیا۔ کھانا پانی کر کے وہ ساتھ بیٹھ گئے۔ انھیں چنگے مڑس کے بولنے کا انتظار تھا۔
’’ادا، مولا سائیں سب کا خیر رکھے، ادا فضل محمد چل کر ہمارے پاس آیا، ہمیں اپنا سمجھ کر رشتہ ڈالا۔ ہم نے بھی آپسی صلاح سلابت کی ہے۔ سب کا خیال ہے، رشتے سے کوئی انکار نہیں، آپ کی عزت ہماری عزت ایک ہے۔ بس شرط مشروط ہے کچھ۔‘‘
چنگے مڑس کی پیشانی جھرّی دار اور کھال سخت تھی۔ گھنی بھنووں کے نیچے چونچ نما بھوری آنکھیں دیکھنے کی جگہ گھور رہی تھیں۔ سر پر محراب رکھنے والی سندھی ٹوپی، جس کی سرخ رنگت اُڑنے والے مراحل سے آگے نکل چکی تھی۔
’’بھاؤ حبیب اللہ، آپ کے لکھ تھورے کہ خالی ہاتھ نہ لوٹایا۔ ہم نے عزت لی ہے تو دیں گے بھی۔ جو شرط ورط ہے، ہماری آنکھوں پر!‘‘ میاں نے ہاتھ جوڑتے ہوے کہا۔
’’ادا فضل محمد، بات محبت اور مٹی مائٹی کی ہے۔ شرط ورط کیسا، بس زمانہ گیری ہے۔ محبت مائٹی میں نبھانا بھی آسان ہوتا ہے۔‘‘
’’برابر! لاکھ روپے کی بات کی تم نے، بھاؤ حبیب اللہ۔ جب نبھانی ہے تو کڑوا گھونٹ بھی میٹھا لگتا ہے۔‘‘
’’نہ ادا فضل محمد، نہ! رب ماف کرے، ہم کوئی کڑوا وَڑوا گھونٹ پلانے والے ہیں ہی نہیں۔ جن سے عمر بتانی ہو اس سے کڑوی بات حرام۔‘‘
’’بھاؤ حبیب اللہ، دل لے لیا تم نے۔ بہت عزت داری والی بات ہے۔‘‘
’’ادا فضل محمد، بس بات کو پورا کرتے ہیں۔ آپ کی پریت میں ہم آپس میں بیٹھے، سب نے رشتے پر ہاں کی۔ سب کی صلاح تھی، اشراف ہیں، لڑکی دینے میں کوئی حجاب نہیں۔ باقی ہماری دو شرطیں ہیں۔ ایک مٹھی مکئی اور وہ گڑ کھا کر۔ بس بات تمام یہی ہے۔ باقی سب خیر۔‘‘
’’بھاؤ حبیب اللہ، بالکل اپنوں والی بات کی تم نے۔ یہ شرط شروط تو ہے ہی نہیں۔ اور برابر ہمارے ہاں لینے دینے کے رشتے بھی ہیں، لیکن اصل بات ایسی ہے، پیرل کو رشتوں میں پہلے ہی وزن ہے۔ سو گُڑ والی بات کچھ اوکھی ہے۔ باقی جو حکم ہو، ہمیں آنکھوں پر۔‘‘
’’ادا فضل محمد، یعنی ایسے؟‘‘ چنگا مڑس سوچتے ہوے بولا۔ ’’بات رکھنی ہے، گنوانی نہیں۔ آپس میں جڑنا اللہ رسول کو بھی پیارا ہے۔ پھر ایسا کرتے ہیں، مکئی کی ایک مٹھی کی جگہ دو کر لیتے ہیں۔ اب خوش؟‘‘
’’ہاؤ سائیں، برابر۔ ہم نے قبول کیا!‘‘ میاں فضل محمد نے دونوں ہاتھ سینے پر جما کر ذرا سا جھکتے کہا۔ ’’ادا نیک محمد، اٹھ۔ بھتیجے کی خوشی کی مٹھائی لے کر آتو منھ میٹھا کریں۔‘‘
نیک محمد بتاشے لے آیا۔ منھ میٹھا ہوا اور اگلے چاند کی ساتویں کو پوتی ڈال کر اعلان کرنے کا دن طے ہوا۔ اس شام گاؤں بھر میں بتاشے اور نباتیں تقسیم کی گئیں۔ باقی شادی تک اتنا وقت لگاکہ پیرل کو دوسری مٹھی کے پیسے پورے کرنے کے لیے بڑے شہر جا کر مرحوم بیوی کے جھمکے بیچنے پڑے۔
اگلے چاند کی ساتویں کو پیرل کی بہنیں گاؤں کی چند عورتوں کو ساتھ کر کے پوتی ڈالنے گئیں۔ دلہن کے لیے پانچ سیر سچا گھی، شکر پانچ سیر، سوجی ڈھائی کلو، خشک میوہ دو کلو، پانچ سیر تل، ایک شہد کا شیشہ، دس کلو آٹا، مہندی، ناک میں ڈالنے کا ایک کوکا اور ایک جوڑا کپڑوں کا ساتھ لے کر گئیں۔ پوتی کی رسم میں دلہن کے اوپر گل بوٹے کاڑھے ایک اوڑھنی ڈالی گئی جس کے دو کونوں میں گانٹھیں لگی ہوئی تھیں۔ ایک گانٹھ میں مصری الائچی بندھی تھیں اور ایک میں روک پیسے۔ پوتی ڈال کر رشتہ پکّا کیا گیا۔ اس موقعے پر آنے والی عورتوں میں دلہن کی ماں نے گڑ بتاشے اور مٹھائی بانٹی جو پیرل کی بہنیں تقسیم کرنے لائی تھیں۔ اس سے اگلے ماہ چاند کی تیسری کو پیرل سب مرحلے پورے کر کے دلہن کو ساتھ کیے اپنے گوٹھ واپس جا رہا تھا۔ بارات بڑی نہ تھی۔ پیرل کی پہلی شادی تو تھی نہیں کہ پوری بس بھر کر لائی جائے۔ بس پندرہ سولہ لوگ تھے جن میں بھی اکثریت عورتوں کی تھی۔ ڈاٹسن کے پچھلے حصے میں ٹھنسی عورتیں تالیاں پیٹتی، شادی کے سہرے گا رہی تھیں۔ ڈاٹسن کے اوپر بڑی پیٹی باندھ کر رکھی گئی تھی جس میں دلہن کا جہیز تھا۔ کانسی کی تھالیاں، کٹورے، دیگچیاں، چمچ، بڑا چمچ، توا، سرمہ دانی، شیشہ کنگھی، ان سلے جوڑے، رلیاں، سرھانے اور چٹائی۔ سب کا سب تالہ بند پیٹی میں تھا جس کی چابی دلہن کی ماں کے پاس تھی جو دلہن کے ساتھ موجود ہونے کی خاطر ایک رات کے لیے بارات کے ساتھ جا رہی تھی۔ دلہن دولہا کے ساتھ ڈاٹسن کی اگلی سیٹ پرکبوتر بنی بیٹھی تھی۔ سرخ جوڑا، سرخ دوپٹہ اور مہندی لگے سرخ ہاتھ پاؤں والی دلہن کے پہلو میں بیٹھا محمد پیرل اپنے آپ میں نہیں سما پا رہا تھا۔ اس نے سرخ زری دار آنچل کی اوٹ میں ڈھکے اس مکھڑے کو کیا دیکھا، اس کے من میں گھنگھرو بج اٹھے۔ ستواں ناک میں دمکتا کوکا اس کی دل میں کھب گیا۔ شرم سے گری پلکوں اور گلاب چہرے پر پڑی نظر سے وہ لرزش میں آگیاتھا۔ وہ دلہن ساتھ کیے ڈرائیور کی بائیں طرف اس رومال کے پیچھے بیٹھا تھا جو ڈرائیور اور دلہا دلہن کے بیچ آڑ کے طور پر باندھا گیا تھا۔ اس وقت تک بھی وہ اپنی شروع ہونے والی لرزش پر قابو نہ کر پایا تھا۔ گاؤں پہنچ کر برگد کے پاس ڈرائیور نے سب باراتیوں کو ڈاٹسن کے اندر اور اوپر سے اترنے کا بولا۔ پرانی ڈاٹسن میں اتنی قوت نہ تھی کہ وہ بھری حالت میں چڑھائی چڑھ جاتی۔ باراتی بڑبڑ کرتے ڈاٹسن سے اترنے لگے۔ اتنی دیر میں غل مچاتے بچے کٹھے ہوگئے۔ وہ ماما کی دلہن دیکھنے کے لیے مکھیوں کی طرح گر رہے تھے۔ بڑوں نے گھرکی دے کر انھیں دور کیا۔ ڈاٹسن گھرر گھرر کی آواز کرتی، دھواں چھوڑتی، رک رک کر اوپر چڑھنے لگی۔ بڑی گلی میں ماما والی گلی کے منھ پر ڈاٹسن رکوائی گئی۔ ماما پیرل اور دلہن اترے۔ اب عورتوں کا خوشی میں ملبوس ہجوم بچوں پر غالب آگیا۔ گاؤں بھر کی عورتیں ٹہوکے دیتی، ہنستی، غل مچاتی اکٹھی ہوگئیں۔ بڑی بوڑھیاں قوم ذات سے باہر رشتہ ٹانکنے پر اپنا غصہ پھینک کر دلہن دیکھنے دوڑی آئیں۔ دہلاری کے ڈھول کی ڈم ڈم سب پر بھاری پڑنے لگی۔ بچے جو پیچھے دھکیلے جا چکے تھے وہ ڈھول کی آواز پر ناچنے لگے۔ ماما پیرل اترا، دلہن کو لے کر گھر کی طرف چلنے لگا، مگر سامنے سہرے گاتی، تالیاں بجاتی عورتوں کا بند بندھا ہوا تھا۔ دو قدم بھی اٹھائے نہ گئے ہوں گے۔ وہ وہیں کھڑے رہے۔ کچھ جلد باز وہیں کے وہیں دلہن کا گھونگھٹ سرکا کر دیکھنے پر بے صبر ہو رہی تھیں۔ پیرل کی بہنوں اور دوسری قریب رشتے دار عورتوں کی آواز صحرا میں صدا تھی جو کوئی سن ہی نہیں رہا تھا۔ وہ ’’ادی، راستہ چھوڑو!‘‘ کی گردان پڑھے جا رہی تھیں۔ سامنے ہجوم چٹانی دیوار کی طرح جما تھا، یوں کہ چیونٹی بھی راہ نہ پائے۔
’’ہٹ جاؤ، تمھاری نانی مر جائے!‘‘ ماما پیرل کے منھ سے بے اختیار الفاظ چھوٹ گئے۔ کیا لڑکیاں کیا عورتیں، سب ہنسی میں شرابور ہوگئیں۔
’’ماما، آج تو نانی کو بخش دو!‘‘ کسی نے شوخ آواز میں ٹھٹھا کیا۔ ماما جس کے پاس ہر ایسی بات کے دو تین جواب تیار رہتے تھے، جانے کیوں جھینپ گیا۔ اسے چپ دیکھ کر عورتیں شیر ہونے لگیں۔
’’ماما، بھلا کر آج کاروائی۔‘‘
اس بات پر تو ماما بوکھلا گیا۔ قہقہے اڑنے لگے۔ ڈھول کی آواز ہی مدھم ہوگئی۔ شاداں عورتیں کھلنڈری ہوتی گئیں۔
’’ماما، اپنی کھاٹ تو مضبوط بنائی ہے نا؟‘‘
’’ماما کو سال ہوگیا ہے انتظار میں۔ ابھی بھی کھاٹ مضبوط نہ بنائے گا کیا!‘‘
’’ماما، ادوان میں کھینچ دوں۔ ڈھیلی ہوگی تو پوری رات چارپائی بولتی رہے گی۔‘‘
خدا خدا کر کے انھیں ماما ہاتھ آیا تھا، آج تو سب نے اپنے حساب چکانے تھے۔ ماما کے پسینے چھوٹے جا رہے تھے۔
’’ماما، آج تو تیری آواز ہی بند ہے۔ لگتا ہے، حال ہی نہیں۔ دودھ مکھن لے آئوں کیا؟‘‘
’’نہ ادی، ایسا نہ کرنا! ماما دودھ مکھن کھا کر لات سیدھی کر کے پڑ جائے گا، پھر کنوار ساری رات تمھیں کوسے گی۔‘‘
اب ماما ہراسانی کے عالم میں گھر کی طرف جانے کو زور لگا رہا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ گھر پہنچ کر ہی وہ نجات پا سکتا ہے۔
’’ماما، یہ تو بتا، حکیم وکیم سے ککھ تو لائے ہو نا؟نہیں لائے تو ہم کسی سے لے کر دیں۔ گوٹھ کی عزت کا سوال ہے!‘‘
’’ہاؤ ماما! ایسے نہ ہو کہ کنڈی بجاتے کام ہو جائے۔ دروازہ تو کھولنا۔‘‘
عورتیں تاک تاک کر نشانہ پر نشانہ مار رہی تھیں۔ ماما کے بس میں کچھ نہ تھا۔ ماما کی بہنیں تک ہنس ہنس کر پاگل ہو رہی تھیں۔ آخرکار گھر میں آئے، دلہن کو کمرے میں سیج پر بٹھایا گیا۔ عورتیں گھونگھٹ اٹھا اٹھا کر دلہن کا منھ دیکھنے لگیں۔ ہر دیکھنے والی چند روپے دلہن کی جھولی میں رکھ کر آگے بڑھ جاتی۔ اب تبصرے ہو رہے تھے۔
’’واہ ماما، تیرے بھاگ!‘‘
’’ائی ایسی سفید دلہن تو دیکھی نہیں میں نے! ہاتھ لگاؤ تو میلی ہو جائے۔‘‘
’’مورنی ہے مورنی!‘‘
’’لگتا ہے اللہ سائیں نے بیٹھ کر بنائی ہے!‘‘ سرخ سفید دلہن دیکھ کر سانولی رنگت کی عادی عورتیں محو حیرت تھیں۔ ماما پیرل کی دونوں بہنیں فاخرانہ انداز میں سر تان کر کھڑی تھیں۔ ماما عورتوں کے گھر سے نکلنے کے انتظار میں رہا جو کہ طویل رہا۔ رات گئے تک عورتیں آپس میں بولی گئی باتوں کو دہرا دہرا کر ہنستی رہیں۔ جب ہر ایک نے گھر کی راہ لی تو بہنوں نے کچھ دیر کے لیے بھائی کو کمرے سے نکالا۔ دلہن کی ماں اُس کے کان میں خانگی زندگی کا راز سمجھانے لگی۔ اب دلہن کو پائینتی کی طرف کر کے بٹھا دیا گیا۔ پیرل نے سیج پر بیٹھ کر دلہن کا گھونگھٹ اٹھاتے ہوے اس کے مکھ کو بیٹھ کر تکا تو وہ بچوں ایسی حیرت و خوشی میں محو ہوگیا۔ اس نے بے اختیار اس کا گال چوم لیا۔ دلہن کے چہرے پر لالی چھا گئی۔
’’مجھے تو پتا ہی نہیں تُو میری کس نیکی کا صلہ ہے۔ ایسی سوہنی بیوی تو بادشاہ کی بھی نہیں ہو گی!‘‘ دلہن کا سر اور جھک گیا۔ ’’منھ تو اوپر کر میرے سائیں!‘‘ پیرل نے ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ دے کر چہرہ اونچا کیا۔ ’’میرا تو دل کر رہا ہے، بس تجھے دیکھتا رہوں اور موت آجائے۔۔۔‘‘ محبت سے چور لہجے میں پیرل بولنے لگا۔
’’ایسے تو نہ بول سائیں!‘‘ دلہن نے گھبرا کر مہندی رنگا ہاتھ اس کے منھ پر رکھ دیا۔
’’تو خود دیکھ، میرا دل کیسے دھک دھک کر رہا ہے۔‘‘ پیرل نے اس کاہاتھ اپنے سینے پر رکھا۔ دلہن مسکرا دی۔ ’’میں نے تو خواب میں بھی تیرے جیسی حور پری نہیں دیکھی۔‘‘ اس نے بیوی کا ہاتھ پکڑ کر چوما۔ ’’کچھ کھاؤگی؟بھوک لگی ہے؟’’بیوی نے ناکاری میں سر ہلایا۔ ’’بھلا تھوڑا دودھ پی لو۔‘‘ پیرل نے دودھ سے بھراکانسی کا گلاس اٹھا کر آگے کیا۔ گلاس پر پھول پتیاں بنی تھیں۔ دلہن نے دو گھونٹ پی کر گلاس واپس کردیا۔ پیرل منھ لگا کر اسی جگہ سے دودھ پینے لگا۔
’’یا اللہ، سائیں! تم نے پینا تھا تو بتاتے۔ میں نے پہلے پی لیا۔‘‘ دلہن پریشان ہو گئی۔
’’مجھے اور کیا چاہیے؟یہی تو میں چاہ رہا تھا۔‘‘ پیرل عشق میں سرشار تھا۔ اس سے بوڑھے بوڑھیوں کا سکھایا اصول ہی بھولا ہوا تھا کہ بیوی کو پہلی رات سے اس کی اوقات میں قابو کر کے رکھنا چاہیے، ورنہ سر چڑھ جاتی ہے تو اترتی ہی نہیں۔ ’’میں اتنا خوش ہوں، اتنا خوش ہوں جو مجھے سمجھ ہی نہیں آرہی میں کیا کروں! بھلا تمھیں گود میں اٹھا کر ناچوں؟‘‘
’’نہ سائیں، کیا کہہ رہا ہے!‘‘ دلہن لجا گئی۔
’’بھلا جلال چانڈیو کا کلام سناؤں؟‘‘
’’مجھے یہ بے سُرا اچھا ہی نہیں لگتا۔‘‘
’’ہاں؟ اچھا نہیں لگتا؟چل پھر بھلا روبینہ حیدری کا کلام؟‘‘
میاں بیوی کے درمیان بات چیت سے اجنبیت کی دیوار ڈھے رہی تھی۔ اندر پتلے گارے سے لیپ کیے کمرے میں لالٹین جل رہی تھی۔ ملاعبت کا آغاز ہنوز نہ ہوا تھا۔ پیرل کے اندر ابھی مردانہ جذبات انگیختہ نہ تھے۔ شاید خوشی کی بوچھاڑ اتنی زیادہ تھی کہ دھیان اسی پر تھا۔ لیکن دلہن کے اندر یہ بات چل رہی تھی کہ وہ سب اسی رات ہونا ضروری تھا تا کہ سیج پر اس کی ماں کی بچھائی سفید چادر پر سرخ دھبے پڑجائیں۔ اور صبح یہ دھبے دار چادر ماں نے سب عورتوں کو لہرا کر دکھاتے ہوے بیٹی کی پاکیزگی پر مہر ثبت کرنی تھی۔ ابھی رات تھی اور صبح بہت دور۔
پیرل وزنی چپل گھسیٹتا برگد کے نیچے پہنچا۔ بچتے بچاتے بھی اس کی دھوتی پر کیچڑ لگ گیا۔ زیادہ چھینٹے وہ تھے جو دوڑتے ہوے بچوں کے پیروں سے اڑے۔ ماما کو دیکھ کر کچھ شے شغل لینے اور کچھ گھروں سے پیسے لینے دوڑے۔ خوشی نے ایک بار پھر گاؤں کی گلیوں میں انگڑائی لی۔ ماما نے چھپر کے نیچے جا کر پیٹی کھولی۔ چھت پر گارے کے لیپ نے بارش کو گھسنے نہ دیا تھا۔ بچوں کو شے لیتے دیکھ کر برگد کے نیچے بیٹھے بڑے بھی موسمی اثر تحت بچوں کے ساتھ جا کھڑے ہوے۔ قند کی ڈلیاں، بتاشے، سوکھے انگور، پودینے کی ٹکیاں۔ ماما کا سارا سامان کم پڑگیا۔ اس کی جو بیوی بچوں کے لیے بچانے کی عادت تھی وہ بھی کام نہ آئی۔ چاچا دینو زبردستی صندوق میں سے بچی کھچی چیزیں سمیٹ کے لے گیا۔ ’’سارے خیر ہوگئے!‘‘ ماما نے صندوق دیکھ کر کہا جو ایسے خالی ہوگئی تھی جیسے کچھ رکھا ہی نہ تھا۔ ماما صندوق کا ڈھکنا بند کر کے برگد کے نیچے بیٹھ گیا۔ برگد کے نیچے کیچڑ کم تھی۔ لوگوں نے سوکھی جگہیں سنبھال رکھی تھیں۔ آسمان پر بادل ابھی بھی کھڑے تھے۔ شاید زمین والوں کی خوشی دیکھنے کا من تھا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ بچے گاؤں کی طرف دوڑ گئے تھے۔ آج انھوں نے ماما کی ’کاروائی‘کا انتظار بھی نہ کیا۔
’’ماما پیرل، یہ کل اچھا نہیں ہوا۔‘‘ اسے بیٹھتا دیکھ کر چاچا دینو نے بات چھیڑی۔
’’بس چاچا، بات کو کیا لتاڑیں؟ گند ہی نکلے گا۔‘‘
’’لیکن یار پھر بھی، ہر ایک کا اپنا حساب ہوتا ہے۔ آئے گئے کی عزت ہوتی ہے۔ اگر کسی کے پاس بیٹی کی طرف آوت جاوت کا راستہ ہے تو اس کا لیحاظ (لحاظ) تو ہوگا ناں۔‘‘
’’چاچا، رات گئی بات گئی۔ بات آٹا تو ہے نہیں کہ بیٹھ کر اسے گوندھیں۔‘‘
’’تیری بات ٹھیک ہے، پر چھوٹے بڑے کو دیکھنا ہوتا ہے۔ یہ علی حیدر کو کسی کا شرم ہی نہیں۔ سفید داڑھی ہوگئی ہے اس کی۔ اب بھی نہیں سمجھا تو کب سمجھے گا؟‘‘
’’برابر، چاچا دینو صحیح کہہ رہا ہے۔ چاچے علی حیدر نے کام اچھا نہیں کیا۔ بھلا اگر وہ آیا تھا تو ہمیں کیا؟ اس سے ہمارے اوپر تو کوئی بات نہیں آتی نا!‘‘ علو چاچے دینو کی ہاں میں ہاں ملانے لگا۔
’’یار علو، بات یہ ہے، چاچا علی حیدر باپ کی عمر کا ہے۔ اسے ہم کیا کہیں؟‘‘
’’علی حیدر سے گوٹھ میں آج تک کسی نے عزت پائی ہے؟اس سے یہ امید کرنا ببول سے بیر مانگنا ہے۔‘‘
’’چاچا دینو، مجھے پیغام آیا زال کے رشتے دار آرہے ہیں۔ میں سمجھا، جیسے ہمارے ہاں ماں بہن ملنے آتی ہے، کوئی مرد وَرد دروازے پر چھوڑ جائے گا۔ مجھے کیا پتا چاچا قادر بحق خود آئے گا!‘‘
’’ماما پیرل، اس مامرے (معاملے) میں تیری کوئی گلتی (غلطی) ولتی نہیں ہے۔ بھلا تجھے کیا مالوم کہ کون آرہا ہے۔‘‘
’’چاچا، پر حق انصاف کی بات ہے، اگر مجھے معلوم ہوتا کہ چاچا قادر بحق گھر آرہا ہے تو میں اسے روکتا تھوڑی۔‘‘
’’برابر سائیں۔ ماما پیرل صحیح کہہ رہا ہے۔ اسے روکنا کوئی چنگا کام ہوتا کیا؟‘‘ وہاں بیٹھے سارے علو کی تائید میں سر ہلانے لگے۔
’’میں جب اِدھر آنے لگا تو میں نے اسے گھر بیٹھنے کا بولا، مگر وہ پیر مرد، سو بات کہاں سنے۔ بس اپنے خیال میں چلا آیا۔‘‘
’’بس ماما پیرل، یا نصیب۔ جو قسمت میں لکھا تھا وہ تو ہوگا نا سائیں۔‘‘
’’ہاؤ ماما پیرل، بات علو کی لگتی ہے۔ ہے سب قسمت کا کھیل۔‘‘
’’چاچا دینو، میری بات تو سن!‘‘ شیرل نے، جو شہر میں گدھا گاڑی پر بار برداری کرتا تھا، چاچا دینو کا دھیان اپنی طرف کھینچا۔ سب کی توجہ اُدھر ہوئی۔
’’چاچا، پر بیٹی کے گھر جانا بھلا عزت والے کا کام ہے؟ چاچے علی حیدر نے عیب صواب بولا تو کوتاہی اُس کی بھی نہیں۔ بوڑھا آدمی ہے، گیرت (غیرت)کھا کر بول گیا۔ اور گلط (غلط) بات تو نہ بولی اس نے!‘‘ شیرل بات ختم کر کے نتھنوں میں ناس چڑھانے لگا۔ اس کی بات نے ہر طرف خاموشی کر دی۔
’’شیرل کی بات میں بھی وزن ہے۔ گیرت سے اوپر تو کچھ نہیں۔‘‘ چاچا دینو اپنے سفید چھدرے بالوں میں ہاتھ پھیرتا سوچ میں پڑگیا۔
’’یار تم لوگ بھی انساپھ (انصاف) کرو۔ چاچے علی حیدر کا کوئی ماما کے سسر کی طرف حق حساب رہتا تھا کیا جو اس کی بے عزتی کی؟ چاچا گیرتی مڑس ہے، گیرت میں کہا اور سچ کہا!‘‘ شیرل کی آواز بلند ہوگئی۔
’’ادے شیرل کی بات سیر پر سوا سیر ہے سائیں۔ گیرت ایمان ہوتی ہے۔ اس سے زیادہ تو کچھ نہیں،‘‘ کسی اور نے بھی آواز میں آواز ملائی۔
’’پر شیرل، آیا ہوا رب کی طرپھ (طرف)سے ہوتا ہے۔ عزت اس کاحق ہوتی ہے۔ آئے ہوے کو کھون(خون)بھی معاف ہے۔‘‘ علو نے شیرل سے اختلاف کیا۔
’’دیکھ علو، بات تیری بھی برحق ہے، پر کھون کی بات ہوتی تو بھی کوئی بات نہیں۔ یہ گیرت کی بات ہے۔ گیرت ہزار کھون سے زیادہ ہے۔ سمجھے؟ چاچے علی حیدر پرکوئی میار نہیں۔ اور گیرت میں صحیح گلط کچھ نہیں ہوتا۔ چاچے علی حیدر نے ماما کے سسر کو کون سی کھلاڑیاں ماریں جو تم اتنا بول رہے ہو؟ وہ اسے یہ نہ کہتا تو کیا ہار پہناتا جو وہ اپنی بیٹی کے گھر بے گیرت بن کر آیا ہے؟ اور کل کلاں سارے علائقے والے کہتے، ماما کے گھر سسر آتا ہے، تو بے عزتی کس کی ہوتی؟ماما کی یا چاچے علی حیدر کی؟‘‘ شیرل کی اس بات کے بعد کسی کے لیے اس بات پر بولنے کو کچھ نہ رہا۔ بیٹھے ہوؤں کے دل شیرل سے اتفاق کرنے لگے۔ ماما نے زبان سے تو کچھ نہ بولا مگر شیرل کی باتیں اس کے لیے پانی کی قطروں جیسی تھیں جنھوں نے خدشات کی چنگاریوں کو بالکل بجھادیا۔
گاؤں کے بیچ یہ قصہ چلتا پھرتا رہا۔ پھر لوگوں نے کسی اور بات کو کہانی بنانا شروع کردیا اور اسے بھول بیٹھے۔ لیکن ماما پیرل کا معاملہ الگ تھا۔ کبھی یہ باتیں اس کے دل سے نکل جاتیں تو کبھی پیر ِتسمہ پا کی طرح اس پر سوار ہو جاتیں۔ اکثر وہ خود کو چاچا علی حیدر کی طرف پاتا اور اس کے طرزِ عمل کو درست جان کر ہلکا پھلکا ہو جاتا۔ پھر جب بیوی کو دیکھتا تو اس کے اندر پڑی دکھ کی گرہ اسے صاف نظر آتی، جیسے شیشم کی صاف لکڑی میں پڑی کالی بھنور گانٹھ اسے دور سے دکھ جاتی تھی۔ بیوی کی ہنسی جو پہلے بلوری شیشہ کی طرح تھی، اب تڑخ گئی تھی۔ یہ دیکھ کر اسے غصہ آنے لگتا۔ چاچاعلی حیدر پر، شیرل پر، اپنی قوم قبیلے کے رواج پر۔ مگر یہ غصہ اسے اپنے اندر چھپانا پڑتا۔ اسے وہ کہیں ظاہر بھی نہیں کرسکتا تھا۔ روز مرہ کے معمولات چلتے رہے۔ ماما اسی طرح پنگھوڑے، چارپائیاں، دروازے اور ہل کلہاڑی کے دستے بناتا رہا۔ ہٹی پر بچوں کا اُدھم، برگد کے نیچے چلتی کچہریاں اسی طرح جاری رہیں، مگر وہ بات وہیں کی وہیں رہی۔ اس کی دل میں کیل گڑ گئی تھی۔ اور وجہ یہ تھی، وہ فیصلہ ہی نہ کر پاتا تھا، بارش سے ایک دن پہلے والے قصے میں جو ہوا تھا وہ ٹھیک تھا یا یاغلط؟ ویسے چاچے علی حیدر سے صاحب سلامت قائم تھی۔ آپس میں بھائی بندی تھی۔ صرف اس بات پر چاچا علی حیدر غیر تو نہ بن گیا تھا۔
اس سے چھ ماہ سال بعد کی بات ہے، پیرل کو سسر کی بیماری کی خبر ملی۔ سلیمت کی تو پچھلے دن سے بائیں آنکھ پھڑک رہی تھی۔ اسے اندیشہ ہو رہا تھا کہ کچھ نہ کچھ برا ہوگا۔ پیرل نے دیر نہ کی اور بیوی کو لے کر سسرال جا پہنچا۔ سسر کو بخار چڑھے دوسرا تیسرا ہفتہ تھا۔ حالت یہ تھی کہ دن کے وقت پھر بھی سنبھلا رہتا مگر جوں جوں شام ہوتی، بخار سر پر آبیٹھتا۔ ٹانگیں جکڑ جاتیں۔ سر میں درد، سستی، کھانسی۔ کسی وقت تو نبض ہی ڈوب جاتی۔ پیرل بیوی سمیت جس وقت پہنچا، قادر بخش غنودگی کی لپیٹ میں تھا۔ گھریلو ٹوٹکوں سے لے کر حکیم کی پھکیوں تک سب آزمایا جا چکا تھا، مگر کوئی بھی چیز اثر ہی نہیں کر رہی تھی۔ اب انگریزی علاج کے واسطے ڈاکٹر کے پاس جانا ہی باقی رہا تھا مگر اس کے لیے پیسے ڈوکڑ چاہیے تھے جو قادر بخش کی دھوتی کے پلّو سے بندھے تھے۔ روپے پیسے والی پیٹی کی چابی قادر بخش دھوتی کے پلّو سے گچھے کی صورت میں باندھے رکھتا تھا، اس لیے سب ڈر میں تھے۔ کس میں جرأت تھی کہ سانپ کو بل سے نکالے۔ پیسے کے معاملے میں قادر بخش ایسا تھا کہ کھال ادھیڑے بنا نہ چھوڑے۔ بیوی کیا، اس کے بیٹے کی یہ مجال نہ تھی جو غنودہ پڑے قادر بخش کی دھوتی سے چابی کھول لے۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے، علاج کی تعریف کیا ہے۔ بڑی الائچی، پودینے کی ٹکیوں سے فرق نہ پڑے تو حکیم۔ اورآخر میں ملّا سے دم درود اور دھاگا۔ اس سے آگے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ ملّا کا تعویذ ہی آخری حل تھا، اس لیے کہ اسے حکیم سے دو روپے زیادہ دینے پڑتے۔ نہیں تو قادر بخش کے پاس آخری حل ’’لوٹ پیٹ کر ٹھیک ہو جائے گا/گی‘‘ تھا۔
قادر بخش کی غنودگی ٹوٹی اور اس نے پیرل اور سلیمت کو دیکھا تو اٹھا اٹھا آنے لگا۔ ’’بڑی عزت کروائی، اب بھاگا آیا ہے حرامی۔ اسے آنے کس نے دیا؟ ابھی کے ابھی اسے نکالو!‘‘ قادربخش ہوش یا بے ہوشی میں بولنے لگا۔ اس کی سانس چڑھ آئی، پیلا چہرہ سرخ پڑگیا، سینہ دھونکنی کی طرح چلنے لگا۔ پیرل نے وہاں سے چلے آنا ٹھیک جانا۔ باقی سلیمت کیسے واپس ہوتی؟ کچھ بھی کہے، تھا تو باپ ہی، اور ایسی حالت میں چھوڑ آنے کے لیے بیٹی کے پاس پتھر کا دل ہونا چاہیے۔ ’’میں رکتی ہوں یہاں۔ ابا ٹھیک ہو جائے تو لے جانا۔‘‘ پیرل نے سلیمت کی بات سنی، پاس پڑے کچھ روپے اسے پکڑائے اور واپس گاؤں آگیا۔ اگلے ہفتے قادر بخش دنیا چھوڑ گیا۔ آخری وقت میں بیٹا اسے انگریزی علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس لے گیا مگر ہونی ہو کر رہی۔ بیٹے نے باپ کے مرنے کے بعد دھجی سے اس کے کفن کی پیمائش بعد میں کی، پہلے پیسوں والی پیٹی کی چابی ہاتھ میں کی۔ پیرل بھی سسر کے مرنے پر آیا اور عزیز رشتے داروں کی طرح تین دن تڈے پر بیٹھا رہا۔ چوتھے دن اکیلا واپس گاؤں چلا گیا۔ اس نے بیوی کے دکھ کا اندازہ کیا اور مناسب جانا کہ باپ کی فوتگی کے بعد چالیسویں تک وہ وہیں رہے تو اچھا ہے۔ چالیسویں پر قادر بخش کے بیٹے نے خیرات کی اور دیگیں اتاریں۔ دیگیں تو دو تین ہی اتریں مگر اس فضول خرچی پر قادر بخش کا بس چلتا تو وہ قبر سے نکل کر بیٹے کو قبر میں گاڑ آتا۔
چالیسویں کی شام پیرل بیوی کو لے کر جانے لگا تو رکاوٹ پڑگئی۔
’’ابا کہہ کر گیا ہے تمھیں اس کا مرا منھ نہ دیکھنے دیں، تُو وری سلیمت کو ایسے لے جانے لگا ہے!‘‘ پیرل کا سالا اس کے منھ پر کھڑا ہوگیا۔
’’ادا سرو (سرور)، یہ کیا کہہ رہا ہے؟‘‘ پیرل نے اپنے سے چھوٹی عمر والے کو سامنے زبان چلاتے دیکھا تو اسے یقین نہ آیا۔
’’کیا کہہ رہا ہوں؟ بہرے ہو؟سنائی نہیں دیتا؟ چل نکل یہاں سے!‘‘ پیرل کے سالے نے اسے دھکا مارا۔ پیرل لڑکھڑا گیا مگر موت کے گھر میں کھڑا پیرل تکرار کیا کرے۔
’’ادا سرو، آپس میں ہیں، یہ چھوٹی موٹی باتیں۔۔۔‘‘ پیرل نے بات سنبھالنا چاہی مگر سرو مرنے مارنے پر آمادہ تھا۔ اس نے پیرل کو بات پوری کرنے نہ دی۔
’’چل پھوٹ یہاں سے! دوبارہ آیا ہے نا تو میں ذمے دار نہ ہوں گا۔‘‘
پیرل کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کیا جائے، اور سلیمت چپ کھڑی کانپے جا رہی تھی۔
’’تُو یہاں کیوں کھڑی ہے؟ چل اندر!‘‘ چھوٹا بھائی سلیمت کو آنگن سے اندر دھکیل کر لے گیا۔ ماں اور سلیمت سے بڑی بہن بت بنی بیٹھی تھیں۔ ’’میں آخری بار کہہ رہا ہوں، عزت سے چلا جا!‘‘ سرو پیرل کی طرف پلٹ آیا۔
پیرل گاؤں چلا آیا۔ اس کے اندر تلاطم تھا۔ اسے کوئی چیز اچھی نہیں لگ رہی تھی۔ برگد کے پاس سے گزرتے ہوے اس نے رواروی میں سلام کیا اور ہٹی کھولنے کے بجاے گھر کی راہ لی۔
’’ماما، آج مڑئی کچھ جلدی میں لگ رہے ہو۔‘‘
’’ہاؤ یار، بس پھیرا کر کے آتا ہوں۔‘‘ ماما نے بولنے والے کی طرف دیکھا تک نہیں۔
’’ماما، کوئی حال کوئی احوال۔ کوئی دھمکی، کوئی دھماکا؟‘‘
’’بس، میں آتا ہوں ابھی۔‘‘ ماما نے بدقت بات نبھائی، ورنہ اس دل ایک لفظ بھی بولنے کو نہیں کر رہا تھا۔ وہ گھر جا کر چارپائی پر پڑگیا۔
’’بابا، ماسی نہ آئی؟‘‘ سکینہ نے باپ کو اکیلا آتے دیکھا تو بھاگی آئی۔
’’آجائے گی، آجائے گی۔ تو جا۔ جا کر کام کر۔‘‘
پیرل ایسے ہی پڑا رہا۔ بے چینی میں چین کہاں؟ بے قراری بہت تھی۔ کبھی اس کروٹ لیٹتا کبھی اُس کروٹ۔ اضطراب نے اسے کھڑا کیا اور میاں فضل محمد کے دروازے پر جا کھڑا کیا۔ حواس میں وہ اپنی آواز سے آیا۔ ’’وو چاچا فضل، ووہوئے!‘‘ اس نے اپنے آپ کو پکارتے پایا۔ گھر سے کسی عورت نے ماما کو بتایا، میاں زمین پر نکلا ہوا ہے۔ ماما گلی میں جنوب کی طرف گاؤں سے نکل کر ٹیلے سے اترتا چکر کاٹ کر پگڈنڈیوں پر چلتا فضل محمد کے کھیت پر جا پہنچا۔ میاں انگرکھے کی گدڑی بائیں کندھے میں لٹکائے، پنڈلی پنڈلی تک پانی میں پاؤں گھسائے، اس کھیت کے اندر تھا جس میں پانی کا ہموار قالین بچھا ہواتھا۔ میاں کے کندھے میں لٹکی گدڑی گیلی گندم سے بھری تھی۔ وہ گدڑی سے مٹھی بھر گندم کے دانے نکال کر یوں ہاتھ سے جھٹکتا کہ وہ مطلوبہ جگہ کے گھیراؤ میں پانی کے اندر گر کر گم ہو جاتے۔ یہ گندم کی بیجائی تھی جس کے لیے ایک خوبصورت ترتیب و توازن والے اس ہاتھ کی ضرورت تھی۔ یہ میاں فضل محمد نے تجربے سے حاصل کیا تھا۔ میاں ہاتھ کو ایک دائرے میں گھما کر بند مٹھی یوں کھولتا کہ دانے پھینکے ہوے جال کی طرح زمین میں اپنی جگہ پر گر جاتے۔ یہ بیجائی کرنا عام ہاری کے بس کی بات بھی نہ تھی۔ عمدہ بیجائی کرنے والے ہاتھ چند ایک ہی تھے جو گاؤں بھر میں سب کی گندم کی بیجائی کرتے۔ میاں فضل محمد کو بھی جوان بیٹوں نے باقی کام سے آزاد کر دیا تھا مگر یہ کام اس نے اپنے اوپر لازم کر رکھا تھا۔
’’ماما، یہاں کدھر آ نکلے ہو؟‘‘ میاں نے اسے دیکھ کر پکار کر پوچھا۔ وہ انھی قدموں پر چلتا، پانی میں لمبے ڈگ بھرتا، ہاتھ کو گردش دیتا، دانے بکھیرتا جا رہا تھا۔
’’مڑئی خیر ہے چاچا!‘‘ میاں کو ماما پیرل کے الفاظ بے وزن لگے۔ اس کو کھٹک گیا، خیر کچھ کم ہی ہے۔ پر ابھی دو کھیت رہتے ہیں، بیجائی کو آدھے میں روکنا تو ٹھیک نہیں۔ یہ چھورے میرے اتنے بڑے ڈگھے ہو گئے ہیں مگر ابھی تک بیجائی نہ آئی ان کو۔ بس کدال پکڑوا کر کام کروالو ان سے، یہ بھی کوئی بات ہوئی! کدال گدھے کو تھمادو تو وہ بھی کچھ نہ کچھ کر ہی لے گا۔
’’ماما، کہے تو کام چھوڑوں۔‘‘
’’نہ چاچا، پہلے کام! باتوں کے لیے سارا سورج اپنا ہے۔‘‘
’’پکی بات ہے؟‘‘
’’ہاؤ چاچا۔‘‘
میاں بیجائی مکمل کرنے لگا۔ ماما بنے پر پھسکڑا مار کر بیٹھ گیا۔ میاں کا بیٹا یامین بھی ساتھ بیٹھ گیا۔ وہ آپس میں بات کو بات سے ملانے لگے۔ میاں نے کام پورا کیا، پانی کی نالی میں کھڑا ہو کر پاؤں پنڈلیوں سے کیچڑ دھو کر ماما پیرل کی طرف آیا۔ یامین بچے ہوے بیچ کی بوری اور کدال کندھے پر رکھ کر گاؤں کی طرف چل دیا۔
’’ہاؤ ماما، کر خیر خبر؟‘‘ میاں کام پورا کر کے ماما پیرل کے سامنے بنّے پر بیٹھ گیا۔ پیرل جہاں بیٹھا تھا اس کے سامنے کھیت در کھیت تھے جن کا اختتام گاؤں والے ٹیلے کی جڑ میں ہو رہا تھا۔ پیرل کو اپنے گھر کی دیوار بھی دکھائی دے رہی تھی جس کے ساتھ علی حسن کی زمین لگتی تھی۔
’’چاچا فضل، بس کیا بتاؤں، نہ جیسا خیر ہے۔‘‘
’’مولا بھلائی کرے، ہوا کیا ہے ماما؟‘‘
’’چاچا، وہ اپنا سرو نہیں ہے، میرا سالا، اس نے بیوی روک لی ہے۔‘‘
’’روک لی ہے؟ کوئی حق حساب؟ یا بس ایسے ہی روک لی؟‘‘
’’چاچا کیسا حساب؟ بس زورا زوری ہے، اور کیا۔‘‘
’’یہ چھورا کل کا انڈے سے نکلا اتنا معتبر ہوگیا کہ ہمارا ننگ روک لیا؟‘‘
’’بس چاچا، اصل دھکے دے کر گھر سے نکالا مجھے۔ میّت والا گھر نہ ہوتا تو لاٹھی کلہاڑی چل جاتی صفا۔‘‘
’’ابھی باپ کو گئے پانچ دن نہیں ہوے اور اس کے یہ افعال! یہ آگے چل کر کیا پگڑیاں بندھوائے گا۔‘‘
’’پھر چاچا، کیا کریں؟‘‘
’’اڑے تو دلجائے کر ماما۔ ہم کس لیے بیٹھے ہیں؟ اس سرو سے وہ حال کریں گے کہ جگ دیکھے گا۔ یہ سمجھتا کیا ہے خود کو؟‘‘
’’پھر چاچا؟‘‘ ماما کے وہم وہیں کے وہیں تھے۔
’’ماما دیکھ، تکڑ کام شیطانی ہے۔ دودھ جیسی چیز بھی گرم ہو تو منھ جلا دیتی ہے۔ سو ٹھیر ٹھیر کے کام کرنا ہے۔ تو فکر ہی نہ کر ناں۔‘‘
’’چاچا، بس تیرا آسرا ہے۔‘‘
’’ماما، آسرا اللہ سائیں کا ہے، باقی کسر نہ چھوڑیں گے۔ ہوگا ایسے کہ کوئی عزت دار بھلا آدمی بیچ میں کریں گے۔ وہ اس سرو سے میل ملاقات کر کے اس کا اندر کھرچے۔ اگر بات وات سے کام ہو جاتا ہے تو وَہوا۔ اگر نہیں تو وڈیرے علن کے پاس چلیں گے۔ پھر سرو ہو یا پرو، وڈیرے علن سے باہر تو نہ جائے گا ناں ماما۔‘‘
میاں فضل محمد کی بات ماما پیرل کے من میں بیٹھی۔ اسے راستہ نظر آنے لگا۔ پہلے تو کچھ سجھائی ہی نہیں دے رہا تھا۔
سردی عقاب کی طرح جھپٹی اور زمین کو اپنے پنجوں میں جکڑ لیا۔ تالاب میں کھڑے پانی پر پالا جمنے لگا۔ کھیت کی منڈیر پر کھڑی گھاس کی پتیاں کمھلانے لگیں۔ درختوں کے پتے بے وزن ہو کر اڑ گئے۔ لوگ ٹھٹھرنے لگے۔ بچوں کی ناک رینٹھ بہانے لگی۔ بوڑھوں کی کھانسیاں طویل ہو گئیں۔ بوڑھیوں نے پیشانی پر بندھا پٹی نما دوپٹا اور کس لیا۔ مویشی جھول اور چھت کے نیچے پناہ پانے لگے۔ سورج کو پہیے لگ گئے۔ جو کوئی رضائی چھوڑتا، چولھے یا انگیٹھی پر اپنے آپ کو تاپنے لگتا۔ یہ سب شمال سے آنے والی امّاں ہوا کا کیا دھرا تھا جو بھولے سے کبھی یہاں آکر ٹھیر جاتی تھی۔ اس دوران ماما پیرل کا حال یہ تھا کہ اس کی رات کا قد دیو جتنا ہوگیا، کاٹے کٹتی نہ تھی، اور دن اجاڑ۔ وقت جوں کی رفتار اختیار کر گیا، بس رینگ رہا تھا۔ معاملے میں خاص پیش رفت نہ ہوئی تھی، جیسے وہیں کا وہیں۔ بس میاں فضل محمد قادر بخش والوں کے چنگے مڑس حبیب اللہ سے مل کر آیا تھا۔ حبیب اللہ کا کہنا تھا، قادر بحق جیسا بھی تھا مگر ہم سے باہر کبھی نہیں گیا۔ اس کی اٹھ بیٹھ کا پتا تھا، اس حساب سے اس سے بات کرتے تھے۔ اس حرام کے جنے سرو کا ابھی پتا نہیں، بھیڑ ہے یا بھیڑیا؟ کچھ زمانہ گزرے تو پتا چلے۔ باقی ہم سے باہر کہاں جائے گا؟سانپ تو ہے نہیں کہ بل میں گھس جائے، نہ ہی کوّا کبوتر ہے جو اُڑ جائے۔ بات حبیب اللہ کی انگوٹھی کے نگینے جیسی تھی مگر پیرل اپنے آپ کو سنبھال نہیں پا رہا تھا۔ دُکھ دل میں اٹک گیا تھا۔ اس کا من کرتا تھا، کسی کو اپنا احوال بتائے، مگر یہ سوچ کر ہی رہ جاتا۔ بھلا بتائے تو کیا؟ بیوی کا غم سن کر لوگ ٹھٹھے نہ اڑائیں گے تو کیا ہار پہنائیں گے؟ گاؤں بھر میں بات اچھلے گی، بیوی کو رو رہا ہے۔ اور مرد کبھی روتا بھی ہے؟ اس کی ہٹی دکان چلتا رہا مگر اب ایسے لگتا جیسے چابی بھرا کھلونا آپے آپ سب کچھ کر رہا ہو۔ اس کی باتوں میں چاش ختم ہوگئی۔ ماما کی باتوں سے لوگ جو حظ لیتے تھے وہ ماما کو چنگاری دینے کی کوشش کرتے مگر ماما کا حال گیلی لکڑی سا تھا، جلائے نہ جلے۔ ماما کو بھی یہ اچھا نہ لگتا تھا، مگر بات اس کے بس سے باہر تھی۔ اب اس کے معمول میں ایک بدلاؤ آیا کہ اسے جس وقت کام سے فرصت ہوتی، وہ میاں فضل کے پاس چلا جاتا۔ میاں کھیت پر ہے، ماما پیرل وہاں اس کے ساتھ بیٹھا ہے۔ میاں مسیت میں جمعے نماز پر جا رہا ہے، ماما پیرل ساتھ ہے۔ میاں فضل منڈی پر جانور لینے یا بیچنے جا رہا ہے، ماما پیرل ساتھ ہے۔ سارے زمانے کی باتیں کی جا رہی ہیں لیکن جو اصل بات ہے اس پر نہ سوال ہو رہا ہے نہ جواب مل رہا ہے۔ بھلا پوچھنے کی بات کیا ہے؟ کیا ماما پیرل کا کام میاں فضل کا اپنا کام نہیں؟ کیا میاں فضل ماما پیرل جتنا پریشان نہیں؟ لیکن بات یہ ہے کہ ہر بات نبھانے کا اپنا طریقہ ہوتا ہے جس پر چل کر ہی کام کیا جاتا ہے۔ پہلے چنگے مڑس حبیب اللہ کے جواب تک انتظار ضروری ہے۔ یہ نہیں کہ چڑھائی کر کے دوبارہ وہی بات کہی جائے۔ حبیب اللہ کہے گا، ایسے ہلکے لوگ ہیں جو بات پر اعتبار نہ رکھا اور دوبارہ دوڑے آئے۔ دن بیتتے رہے، ماما پیرل کی آوت جاوت میاں فضل کے لیے مشکل کرتی گئی۔ کار آخر وہ جوتی پگڑی کر کے حبیب اللہ کے ہاں جا پہنچا کہ اِدھر آس پاس آنا ہوا تو کہا دو گھڑی ادا حبیب اللہ سے ملتا جاؤں۔ حبیب اللہ بھی سرو کا اندازہ لگا چکا تھا کہ بے وزن لونڈا ہے جس کے سر میں ہوا گھس گئی ہے، اب وہ اسے اوپر اڑائے جا رہی ہے، اس لیے اس سے دوبدو بات کرنا اپنی پگڑی اتروانے جیسا کام ہے۔ اب راستہ یہی ہے کہ رئیس علن کے پاس جا کر حق انصاف مانگا جائے۔ حبیب اللہ بھی میاں فضل والوں سے باہر نہ جائے گا، اس سے عزت دار کو عزت ملے گی۔ دوسرے دن ہی میاں فضل ماما پیرل اور ایک دو گاؤں والوں کو ساتھ کر کے رئیس علن خان کی اوطاق پر پہنچا۔ رئیس علن اپنی قوم کا سردار ہی نہ تھا بلکہ علائقے کا سب سے بڑا وڈیرا بھی تھا۔ رخ رواج سے بھلا مانس بھی۔ اس کی اوطاق پر ہر آئے گئے کو عزت ملتی تھی۔ رئیس خود بھی ملنے ملنے کا دلبر آدمی تھا۔ یاری کچہری میں اپنی مثال آپ۔ خاص بات جو رئیس کی پہچان تھی وہ اس کے فیصلے تھے۔ حق انصاف کورٹ دے نہ دے، وڈیرا علن دے گا۔ اور فیصلہ بھی یوں کہ اس پر عمل ہوتا۔ ایسے نہیں فیصلے والے آئے، فیصلہ کروایا اور انگرکھے جھاڑ کر اٹھ گئے۔ کوئی اس کے فیصلے کو پیٹھ نہ دیتا۔ اگر کسی نے فیصلے سے گردن نکالنے کا ارادہ کیا تو کبھی پولیس تو کبھی برادری اس کی گردن ریت کر برابر کر دیتی۔ اور یہ سب ذمہ رئیس کا ہوتا۔ وہ لوگ اوطاق پہنچے تو رئیس خود موجود تھا۔
’’اے میاں محمد فضل، خوش راضی؟ادا پیرل، تم بھی خوش؟ادا تم بھی خوش؟سب خیر؟‘‘ خضاب کیے، تیل لگے گھنے بال کنگھی کیے، پیچھے مڑے جیسے ابھی کنگھی پھیری گئی ہو۔ بڑی مونچھیں جنھوں نے گال تک ڈھکے ہوے تھے۔ بوسکی کی قمیص اور سفید شلوار پہنے رئیس علن موڑھے سے اٹھ کھڑا ہوا اور سب سے مل کر خیر خیریت کرنے لگا۔ اس کی اوطاق بیس پچیس ملاقاتیوں سے بھری ہوئی تھی۔ ہال نما بڑا کمرہ جس میں دیواروں کے ساتھ رکھے موڑھوں پر بیٹھے لوگ رئیس کو اٹھتا دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوے۔ ’’ادا پیرل، زمانہ ہوگیا دیدار کو۔ بھولے سے بھی ادھر رخ نہیں کیا! میاں محمد فضل، لگتا ہے پیرل میری طرح رئیس ہو گیا ہے؟‘‘ رئیس نے ہنستے ہوے میاں فضل سے تائید چاہی۔
’’نہ رئیس نہ! تو ہمارا بڑا ہے، باپ ہے۔ تیرے پاس نہیں آئیں گے تو کس کے پاس آئیں گے،‘‘ پیرل میاں فضل کے جواب سے پہلے بول پڑا۔
’’پر یار، تم پر کوئی میار تھوڑی ہے۔ تازی شادی ہے تمھاری۔ ابھی تو بیوی کے انگل (فرمائشیں) بھی پورے نہ ہوے ہوں گے۔‘‘
’’نہ بابا! بیوی آپ کے پاؤں کی دھول برابر بھی نہیں۔ بس کمی کوتاہی کی مافی۔‘‘ پیرل نے رئیس کے آگے ہاتھ جوڑ لیے۔
’’بڑے رئیس، ہم نے سنا ہے پیرل کا اصل وہ حال ہے جیسے مرغی انڈوں سے اٹھتی ہی نہیں،‘‘ رئیس کے کمدار خانو(خان محمد) نے چہل کی۔
’’یہ وری کیسے خانو؟پیرل کو دیکھ کر ایسا لگتا تو نہیں کہ اس میں چڑے جیسی طاقت ہوگی۔‘‘
’’قربان جاؤں بڑے رئیس، پیرل دیکھنے میں فارمی ککڑ لگتا ہے پر ہے اصیل۔‘‘ خانو کی بات نے لوگوں میں ہلچل مچائی۔ پیرل پر اگرچہ کمھلاہٹ طاری تھی مگر رئیس کے آگے یوں سست رہنا نیک فعل نہ تھا۔
’’خانو، یہ ککڑ تُو ہوگا۔ ہم سانڈ ہیں سانڈ!‘‘
’’خانو دیکھ۔ پیرل ہے مکھیوں کا چھتہ! اسے چھیڑ رہا ہے تُو۔‘‘
’’بڑے رئیس، بات آپ کی صحیح ہے، پر لگتا فارمی مرغی ہے۔ مجھے تو شک پڑتا ہے، یہ روز صبح انڈا بھی دیتا ہوگا۔‘‘
’’ہاؤ رئیس۔ خانو کی بات بالکل ٹھیک ہے۔ میں اس لیے آج خانو کے لیے آتے ہوے دو انڈے ساتھ لے آیا۔ بس سردی کی وجہ سے تھوڑا چپک گئے ہیں۔ خانو زور لگائے گا تو اکھاڑ لے گا۔‘‘ پیرل کی اس بات پر کون نہ ہنسے؟رئیس علن کو ہنس ہنس کر کھانسی آگئی۔ محفل بالکل لوٹ پوٹ ہو رہی تھی۔
’’خانو، میں نے تجھے کہا پیرل کو مت چھیڑ۔‘‘
’’بس بڑے رئیس، میں نے اصل توبہ کی!‘‘
’’ہاؤ، ہاؤ! ویسی توبہ جو عورت بچہ جنتے کرتی ہے۔‘‘
’’یہ وری کیسے پیرل؟‘‘
’’رئیس، بچہ جنتے ہوے عورت کو جو درد اٹھتا ہے وہ پیر مرشد کا قسم اٹھا کر توبہ کرتی ہے، آگے مڑس کو ہاتھ لگانے نہ دوں گی۔ ادھر چلہ پورا ہوا تو ایسا شوق چڑھتا ہے کہ سوئے مڑس کو کہنیاں مار مار کر جگاتی ہے۔‘‘ ساری اوطاق کی ہنسی رکنے میں نہیں آرہی۔
’’خانو ہے جواب؟‘‘
’’بڑے رئیس، میری توبہ۔‘‘
’’چنگا خانو، باتیں چھوڑ۔ مہمانوں سے لسی پانی پوچھ۔ اور میاں محمد فضل، کوئی حال احوال بابا؟ سب خیر؟‘‘
’’رئیس، آپ کے سائے میں ہیں۔ مولا آپ کو حیاتی دے، سب خیر ہے۔‘‘
’’اچھا اچھا۔ اور کوئی بات وات بابا؟‘‘
’’رئیس، یہ اپنے پیرل کا مامرا ہے۔ اس کی بیوی روکے بیٹھے ہیں۔ باقی سب خیر ہے۔‘‘
’’یہ وری کیسے، میاں محمد فضل؟‘‘
’’رئیس، پیرل کا سسر مرحیات چلا گیا اس جہاں سے۔ پیچھے ہے اس کا کل کا چھورا۔ چالیسویں پر اس نے پیرل کو گھر سے دھکے دے کر نکال دیا۔ بیوی روکے بیٹھا ہے۔ میں چل کر گیا تھا ان کے چنگے مڑس حبیب اللہ کے پاس بھی، لیکن اس نے بھی ہاتھ اٹھالیا۔ کہا کہ یہ چھورا نہ دو میں ہے نہ تین میں۔ ہماری نہ سنے گا۔ اس لیے آپ کے پاس حق انصاف کے لیے آئے ہیں۔‘‘
’’اچھا اچھا۔۔۔ تو یہ بات ہے۔‘‘ رئیس سوچتے ہوے اپنی مونچھوں پر ہاتھ پھیرتے سوچنے لگا۔ ’’میاں محمد فضل، بات یہ ہے، اس مامرے کے ہیں دو منھ۔ ایک تم لوگوں کا، ایک پیرل کے سالے کا۔ اب دونوں منھ سامنے ہوں گے تو دیکھیں گے، کس کا وزن زیادہ ہے۔ اب ایسا کرتے ہیں، کوئی دن رکھتے ہیں۔ دونوں طرف سن لیں گے۔ ٹھیک ہے؟‘‘
’’ہاؤ رئیس، بالکل۔ ہم بھی اسی لیے آئے ہیں کہ حق انصاف ہو۔ جو فیصلہ ہوگا ہماری آنکھوں پر ہے۔‘‘
’’خانو، تُو دیکھ حبیب اللہ اور پیرل کے سالے کو۔ ان کو پیغام کر۔ یہ اگلا چاند کب ہے؟‘‘
’’رئیس، ابھی آٹھ نو دن ہیں۔‘‘
’’بس پھر اگلے چاند کی پانچویں مقرر کرتے ہیں۔ میاں فضل محمد، تم لوگوں نے سن، یا باقی خانو دوسرے طرف کو خبر کردے گا۔ ٹھیک ہے؟‘‘
’’ہاؤ رئیس، بالکل ٹھیک ہے۔‘‘ میاں فضل کے جواب سے یہ بات ختم ہوئی۔ رئیس اوطاق میں بیٹھے اَور لوگوں سے حالی احوالی ہونے لگا۔
پیرل نے بھی موڑھے پر ٹیک لگالی۔ اس کو حق انصاف کا آسرا ہوگیا۔ اب اسے فیصلے کا انتظار تھا۔ وہ دن بھی آن پہنچا۔ اس دن میاں محمد فضل، پیرل، حاجی خیر محمد، چاچا دینو، علو اور گاؤں کے چار پانچ اور لوگ فیصلے پر نکلے۔ تفصیلات تمام تر کل شام برگد کے نیچے طے ہوئی تھیں۔ مدعی یعنی ماما پیرل خاموش رہے گا۔ مخالف ٹولی اگر اس پر کوئی اونچی نیچی بات کرتی ہے تب بھی وہ نہ مشتعل ہوگا نہ جواب میں برابھلا بولے گا۔ وہ صرف تب بول سکتا ہے جب فیصلہ کرنے والا اس سے بیان لے یا براہ راست اس سے سوال کرے۔ بولنے کا سارا وزن اس کے امین میاں فضل پر تھا۔ وہ اس کی طرف سے بیان دے گا، سوال اٹھائے گا، جواب پیش کرے گا، بحث مباحثہ بھی سنبھالے گا۔ باقی چند سمجھ دار سر اس لیے ساتھ ہوں گے تاکہ ان کے ساتھ ہونے سے پیرل کی شرافت اور عزت واضح ہواور بوقت ضرورت ان سے صلاح مصلحت کی جائے۔
وہ لوگ سارے تیل سرمہ کیے، کندھے پر رومال ڈالے، صاف کپڑے پہنے، فیصلے پر ساتھ چلے۔ سب نے جوتے ووتے صاف کیے ہوے تھے۔ علو تو اپنا جوتا کل شام شہر سے پالش والش کروا آیا تھا اس لیے پہننے کے بجاے ہاتھ میں لے کر چل رہا تھا۔ رئیس کی اوطاق کے باہر اپنے پاؤں دھو کر کندھے پر رکھے رومال سے صاف کر کے پالش شدہ جوتا پہنا۔ اوطاق پر فیصلے کا بندوبست تھا۔ اسی بڑے ہال میں رئیس کے دونوں طرف موڑھوں کی قطار تھی جس پر لوگ بیٹھے ہوے تھے۔ پیرل اور ان کی مخالف ٹولی آمنے سامنے بیٹھی۔ رئیس کے بائیں طرف قطار میں پہلا شخص ماسٹر خمیسو تھا۔ ماسٹر خمیسو رئیس علن کا دایاں ہاتھ اور عقل فہم والا شخص تھا۔ وہ اتنا قریب بیٹھا تھا کہ رئیس سے ہلکے آواز میں بات کر سکے۔ فریقین کے پہنچنے کی تسلی کر کے ماسٹر خمیسو رئیس کی اجازت سے اٹھ کھڑا ہوا۔
’’سب بیٹھنے والوں کو بتایا جاتا ہے، میاں پیرل رئیس علن کے پاس چل کر آیا، اپنے کسی مامرے میں۔ اس نے حق انصاف کا فیصلہ طلب کیا رئیس سے۔ اس کا مامرا اس کی سسرال کی طرف ہے۔ رئیس کے بلاوے پر دونوں فریق آئے ہیں۔ منھ پر بات ہوگی۔ کھرے کھوٹے کی پہچان کی جائے گی۔ سچ جھوٹ کو الگ کیا جائے گا۔ پھر باتیں سن کر حق انصاف ہوگا۔ اس دوران کوئی اجازت کے بغیر بات نہ کرے۔ دونوں طرف کے امین بولیں گے۔ ایک کی بات میں دوسرے کو گھسنے کی اجازت نہیں۔ ہر ایک کو بولنے کا پورا موقع ملے گا۔ میاں پیرل، تمھارا امین کون ہے؟‘‘
’’میرا امین چاچا محمد فضل ہے۔‘‘
’’میاں سرو، تمھارا امین کون ہے؟‘‘
’’میں اپنا امین خود ہوں۔‘‘ سرو کے لہجے میں تیزی تھی جو رئیس علن کی اوطاق پر بھی ختم نہ ہوئی تھی۔
’’عزت دار کا امین بولتا ہے۔ سرخ زبان ہر جگہ دکھانے کی نہیں ہوتی۔‘‘ ماسٹر خمیسو سرو کو ناپسندیدہ نظروں سے دیکھتے ہوے بولا۔ ’’تمھارے ساتھ اور کون آیا ہے؟‘‘
’’یہ میرے گاؤں کے ہیں۔ میرے ساتھ ہیں،‘‘ سرو نے جواب دیا۔
’’ادا ماستر، ہم رئیس کے بلاوے پر آئے ہیں، سرو نے ہمیں ساتھ آنے کا نہیں بولا!‘‘ حبیب اللہ نے سرو کی بات رد کی۔
’’میاں حبیب اللہ، میں پوچھ رہا ہوں، تم لوگ سرو کے ساتھ ہو؟‘‘
’’ادا ماستر، ہم ساتھ تب ہوں جب ہمیں کوئی عزت سے بلائے، صلاح ولاح کرے۔ ایسا کچھ ہوا نہیں۔ باقی رئیس کے بلاوے پر آنا ہماری اپنی عزت ہے۔‘‘ حبیب اللہ کے جواب کے بعد ماسٹر خمیسو رئیس کے ساتھ سس پھس کرنے بیٹھ گیا۔
’’بات یہ ہے، سرو امین ساتھ نہیں لایا، وہ اپنی طرف سے خود بولے گا۔ باقی میاں پیرل کی طرف سے اس کا امین میاں محمد فضل امانت داری کرے گا۔ فیصلے میں پہلا حق فریادی کا ہے۔ میاں
فضل بات کرے۔‘‘
’’یہ کون سا انصاف ہے؟میرے باپ کو ذلیل کیا اور فیصلہ بھی ہم پر!‘‘ سرو میاں فضل کے پہلے بات کرنے پر تاؤ کھا کر شروع ہوگیا۔
’’بند کر ڑے اپنی زبان! سنا نہیں، ہر ایک اپنی باری پر بولے گا۔ دوبارہ بیچ میں منھ کھولا ہے نا تو تیری گاف میں یہ اپنی پوری لاٹھی گھسا دوں گا۔‘‘ رئیس نے ساتھ پڑا عصا ہاتھ میں پکڑا اور سرو پر الٹ پڑا۔ سرو رئیس کا غصہ دیکھ کر خشک پڑگیا۔
’’مولا سائیں رئیس کی، سب آئے ہوؤں کی خیر کرے۔ دین ایمان سلامت رکھے۔ اصل بات یہ ہے کہ مٹی مائٹی میں اترائی چڑھائی آتی ہے، کیونکہ انسان ذات کی بات ہے۔ اس سے بھول چوک ہو جاتی ہے۔ پھر بھی چھوٹے بڑے کی پہچان ضروری ہے، اپنے پرائے کی خبر ہو۔ اس لیے آئے ہوے کا، بڑے کا لیحاظ ہوتا ہے۔ مان مریادا ہوتی ہے، زمانے میں اٹھنے بیٹھنے کا طریقہ ہوتا ہے۔ یہ نہیں کہ اونٹھ بن جائے، ہر ایک پر جھاگ نکالتا پھرے۔ نہ عورت ذات، نہ سفید سر کا خیال۔ یہ جوان مردی نہیں۔ جواں مردی کہتے ہیں، بھلا کرنا، نیاز، عاجزی۔ ہم نے اپنے بڑوں سے یہی سنا اور زمانے سے یہی سیکھا۔ سورئیس، اللہ آپ کو نیکی دے، بات کو ختم کرتے ہیں۔ میاں پیرل کی شادی ہے میاں قادر بحق کے گھر۔ قادر بحق سرو کا باپ تھا۔ شادی کو سال دوسال ہوگئے ہیں۔ میاں بیوی آپس میں راضی ہیں۔ میاں پیرل گھر کا خرچہ برابر دے رہا ہے۔ کسی چیز میں کمی کوتاہی نہیں۔ ہوا ایسے کہ مرحیات قادر بحق بیمار پڑگیا۔ پیرل بیوی کو باپ سے ملانے گیا۔ باپ کا حق ہوتا ہے بیٹی پر۔ قادر بحق صفا بیمار، اصل چارپائی پر پڑا ہوا۔ بیٹی کے لیے باپ جیسے آسمان۔ اس نے شوہر سے اجازت لی کہ باپ کی خذمت چاکری کرے، اس کے ٹھیک ہونے تک وہیں رہے۔ میاں پیرل بھلا آدمی ہے۔ حالانکہ گھر عورت ذات سے چلتا ہے پھر بھی گھر بھلا کر بیوی کو وہاں رہنے دیا۔ اگر عزت دار نہ ہوتا تو کہتا، بھئی تم اپنے گھر کی کرو، باپ کی دیکھ ریکھ تیرا ذمہ نہیں۔ لیکن نہیں! عزت داری سے چلنے کا اپنا رواج ہے۔ رب کی کرنی ایسی ہوئی کہ قادر بحق بچ نہ سکا۔ اللہ کو پیارا ہوگیا۔ اللہ اسے جنت میں جگہ دے۔‘‘ وہاں بیٹھے سب لوگوں نے اس پر آمین کہا۔ ’’پیرل فوتگی میں شریک ہوا۔ تین دن تڈے پر بیٹھا۔ پھر بھی بیوی کو چالیسویں تک وہاں رہنے دیاکہ موت کا گھر ہے۔ اب پیرل چالیسویں کے بعد بیوی کو گھرلے جانے لگا تو سرو نے، جو پیرل کا سالا ہے، عزت داری کے برخلافی کر کے بیوی دینے سے انکار کیا، بلکہ بڑے بہنوئی کو دھکے دے کر گھر سے نکالا۔ یہ طریقہ ہے رشتے داری میں چلنے کا؟‘‘ لوگ توبہ توبہ کرنے لگے۔ ’’ہمارے ہاں واقفیت کا بھی ناتا ہوتا ہے، اس کا بھی پاس ہوتا ہے۔ یہ تو سینہ زوری ہے سراسر۔ حیف ہو اس بات پر۔ اب اتنی بھی اندھیر نہیں۔ پاؤ آٹا ہر ایک کھاتا ہے۔ اتنی طاقت ہر ایک میں ہے جو اپنا حق حساب کرے، اور پیرل کر سکتا تھا۔ لیکن نہیں! رشتے ناتے میں ایسے نہیں چلا جاتا۔ اور رئیس علن جیسا انصاف پسند بیٹھا ہے تو ہم زورازوری کیوں کریں؟ سو بس یہی بات ہے کہ حق انصاف ہو۔ حق دار کو حق ملے۔ باقی سب خیر ہے۔‘‘ میاں محمد فضل بات پوری کر کے بیٹھ گیا۔
’’ہاں سرو، اب تُو جواب دے!‘‘ ماسٹر خمیسو سرو سے بولا۔
’’رئیس، اس کو شرم نہیں جو سفید سر کے ساتھ جھوٹ بولا ہے۔ نسوروجھوٹ! بولتا ہے، حق انصاف، حق انصاف، عزت داری، عزت داری۔ یہ عزت داری تھی جب ابے کو گھر سے نکالا تھا؟‘‘ سرو میاں فضل پر آنکھیں نکالنے لگا لیکن میاں فضل نے جواباً اس کی طرف دیکھا تک نہیں۔ وہ ویسے ہی پُرسکون انداز میں بیٹھا رہا۔
’’اڑے اُدھر کیا بات کرتا ہے؟ اِدھر دیکھ کر بات کر!‘‘ ماسٹر خمیسو نے سرو کو جھڑک کر کہا۔ ’’تم نے سمجھا نہیں کہ آپس میں بات نہیں کرنی؟‘‘
’’سائیں ماستر، ابا گریب گیا تھا پیرل کے گھر ملنے ولنے۔ انھوں نے یہ عزت دی کہ گھر سے دھکے مار کر نکال دیا۔‘‘
’’میاں فضل، یہ کیسی بات ہے؟‘‘
’’رئیس، ایسی کوئی بھی بات نہیں۔ یہ سارے بیٹھے ہیں، ان سے پوچھ لو۔ تمھارے سامنے کوئی جھوٹ نہ بولے گا۔ الٹا جب مرحیات قادر بحق ناراض ہو کر جا رہا تھا تو پیرل نے اُسے روکا، منتیں کیں، مافی مانگی۔ اگر سسر کو بے عزت کر کے گھر سے نکالتا، جھگڑا کرتا تو اس کے بیمار ہونے پر سسر کے گھر طبیعت پوچھنے جاتا؟‘‘
’’بات تو صحیح ہے میاں فضل کی۔ سرو، دے جواب؟‘‘
’’گھر سے نہیں نکالا، پر بے عزتی تو کی ناں!‘‘
’’یہ اصل بات کھول میاں فضل۔ بات ہے کیا؟‘‘
’’رئیس، بات یہ ہے، مرحیات قادر بحق اور چاچے علی حیدر کی تیکھ میٹھ ہوگئی تھی۔ اس بات پر قادر بحق ناراض ہو کر چلا گیا۔ اب اس میں پیرل کا کیا قصور؟ اس نے تو اپنے سسر سے مافیاں مانگیں لیکن قادر بحق ناراض ہو کر چلا گیا۔ اب دنیا جہاں کو پتا ہے، چاچا علی حیدر بوڑھا آدمی ہے، غصہ کھا جاتا ہے۔ اسے کون روکے؟‘‘
’’پر ابے کی بے عزتی تو ہوئی ناں؟‘‘
’’رئیس، چاچا علی حیدر مرحیات سے پھر بھی دو چار برس بڑا ہوگا۔ بڑے کے کہنے سننے پر غصہ نہیں کھاتے۔ اس سے آدمی کا شان کم نہیں ہوتا۔ پھر بھی پیرل نے پوری مافی تلافی کی۔‘‘
’’سرو، بات میاں محمد فضل کی برابر ہے۔ پیرل کی طرف کیا حق حساب نکلتا ہے؟‘‘
’’رئیس، ابا خود روک کر گیا، پیرل کو لڑکی نہ دینا۔ اب مرے ہوے کی زبان کی عزت تو ہے ناں؟‘‘
’’اگر ایسی بات ہے تو گواہ دے اس بات کے!‘‘
’’ماستر، ابا مجھے کہہ گیا، میں گواہ کہاں سے لاؤں؟‘‘
’’ماستر سائیں، مرحیات پیرل کے گھر سے واپسی کے عرصہ بعد بیمار پڑا۔ اس عرصے وہ اٹھا بیٹھا، لوگوں سے ملا۔ اگر ایسی بات ہوتی تو کسی اور سے کرتا۔ کسی نے ایسی بات سنی؟ یہ حبیب اللہ چنگا مڑس بیٹھا ہے۔ اشراف عزت والا ہے۔ اس سے تو کم سے کم ایسی بات کی ہوتی۔ حبیب اللہ سامنے بیٹھا ہے، اس سے پوچھ لیں۔‘‘ میاں فضل سرو کے سب راستے بند کرتا آیا۔
’’میاں حبیب اللہ، تُو عزت والا ہے۔ تیری زبان کی قیمت ہے۔ تو اللہ واسطے گواہی دے، تم سے ایسی بات مرحیات نے کی؟‘‘ ماسٹر خمیسو نے حبیب اللہ سے پوچھا۔
’’ماستر، جانا اپنی اپنی قبر میں ہے اس لیے جھوٹ نہ بولوں گا۔ مرحیات قادر بحق نے ہم سے ایسی بات نہیں کی نہ ہم نے اس کی زبان سے ایسی بات سنی۔‘‘
’’سرو، سن! اگر تیرے باپ کا ایسا ارادہ ہوتا تو وہ چنگے مڑس سے صلاح ولاح کرتایا تجھ سے کرتا؟‘‘
’’رئیس، یہ رشتہ بھی جب مرحیات نے کیا تھا تو اس کے لیے میاں حبیب اللہ کو بھیجا تھا۔ اس نے ساری بات وات، ماملہ واملہ طے کیا تھا۔ اگر ایسی بات ہوتی تو حبیب اللہ کو کیسے خبر نہ ہوتی؟‘‘ اس بات کے بعد ماسٹر خمیسو کو رئیس علن نے اپنے کان کے قریب بلایا اور وہ آپس میں بولنے لگے۔ کچھ دیر بعد رئیس علن خان اٹھ کھڑا ہوا۔
’’ادا، فیصلہ تم لوگوں نے بھی سنا۔ منھ پر سب باتیں ہوئیں۔ چالیس پچاس لوگ بیٹھے سن رہے ہیں۔ انصاف یہ کہتا ہے، سرو کو کوئی حق نہیں کہ وہ پیرل کی بیوی روک لے۔ پیرل کی طرف کوئی حق حساب نہیں نکلتا۔ مرحیات قادر بحق اگر ناراض ہو کر گیا تو وہ علی حیدر کی باتوں پر غصہ کھا کر گیا۔ اس میں پیرل کا قصور؟پیرل اپنے سے باپ کی عمر والے پر جا کھڑا ہو؟اس کی بے عزتی کرے؟اگر علی حیدر کی بات پر مرحیات کو کوئی تکلیف ہوتی، کوئی حق حساب لینا ہوتا تو ہمارے پاس فیصلے کے لیے نہیں آتا؟ چلو ہمارے پاس نہیں تو کم سے کم اپنے چنگے مڑس حبیب اللہ سے بات تو کرتا۔ ایسی کوئی بات ہوئی ہی نہیں۔ اس کا مطلب ہے، مرحیات بھی بڑے کی عزت کی وجہ سے خاموش ہو گیا۔ اب جب وہ فیصلہ لینے نہیں آیا، اس نے پیرل پر فیصلہ نہیں لیا، اعتراض نہیں کیا، تو سرو کون ہوتا ہے پیرل کی بیوی روکنے والا؟اور یہ کوئی فضیلت کی بات ہے کسی کے ننگ کو روک لینا؟ہاں؟‘‘ اب رئیس سیدھا سرو سے مخاطب ہوا۔ ’’آج کے آج پیرل کی بیوی واپس کر اور اگر پیرل دعویٰ کرے تو تجھ پر جرمانہ بھی کریں گے۔ کیا کہتے ہو پیرل؟‘‘ رئیس کی بات پر پیرل اور گاؤں والے سر جوڑ کر کٹھا ہوے۔ اس دوران سرو کا سر جھک گیا تھا۔
’’رئیس، برابر سرو کی طرف حق حساب نکلتا ہے، پر پیرل والوں سے میری گزارش ہے کہ بات ختم کر کے آپس میں بن جائیں۔ جوانی دیوانی ہوتی ہے، سرو سے گلتی ہوئی ہے، پر پیرل بڑا ہے۔ وہ چھوٹے کو معاف کردے تو آپس میں رشتے داری رہ جائے گی،‘‘ اسی دوران حبیب اللہ کھڑا ہو کر بات کرنے لگا۔
’’میاں محمد فضل، بات حبیب اللہ نے دل والی کی ہے۔ برابر سرو قصور وار ہے، پر رشتہ تعلق بھی بڑی بات ہے۔‘‘
’’رئیس، جیسے آپ کہیں، ہمیں قبول ہے۔‘‘
’’اٹھ سرو، تُو آگے بڑھ کر پیرل سے مل اور مافی مانگ۔ وہ بڑا ہے تیرا۔ جھک کر مل!‘‘ رئیس کی آواز پر سرو عمل کرتا گیا۔ باوجود اس کے کہ اس کا اندر کھول رہا تھا مگر رئیس علن کی طاقت سے وہ واقف تھا۔ ’’پیرل، تو بھی سرو کو ماف کردے۔ چھوٹا ہے تیرا۔‘‘ پیرل نے جھکتے سرو کو بازوؤں میں لے کر گلے سے لگایا۔
’’رئیس، سرو اپنا ہے۔ میرے اندر کوئی گیر (غیر)نہیں۔ ادا سرو، میں نے تجھے ماف کیا۔‘‘
اگلے دن پیرل بیوی کو لے آیا۔ وہ اتنا خوش تھا جیسے یہ شادی کا دن ہو۔ من تتلی کی طرح ہلکا ہوگیا۔ قفل زدہ کیفیت کی زنگ آلود کنڈی کھل چکی تھی۔ پچھلے دن تو جیسے قبر اندر گزرے تھے۔ ان کے اثرات کے تحت اب بھی کسی وقت اپنے آپ کو یقین دلانے گھر جا نکلتا، پھر بیوی کو دیکھ کر اسے قرار آجاتا۔ وہ خوش خوش لوگوں سے چُہلیں کرتا واپس کام پر آتا۔ اس کا لکڑی چھیلنے والا رَندہ اور ہلکا ہوگیا تھا۔ لکڑی کی پرت آپے آپ چھیلتی جاتی اور لکڑی یوں ایسی چکنی ہو جاتی کہ سنگ مرمر کا گماں ہوتا۔ بچوں کے ساتھ مستی عروج پر اور ماما کے دھماکے بھی خوب چلتے تھے۔ اب وہ اتنے زور سے پاد مارتا کہ موجود لوگوں کو کچراباہر نکل آنے کا ندیشہ ہونے لگتا۔ علو تو ایسے وقت پر ماما کی دھوتی اٹھا کر جھانکنے لگتا۔ زندگی سندھو ندی جیسے بہاؤ میں بہنے لگی تھی۔ بس ایک چیز ماما پیرل کو پریشان رکھتی، جو تھیں چاچے علی حیدر کی باتیں۔ وہ جہاں پیرل کو پاتا، اسے نہ بخشتا۔
’’ہاں سائیں، مونچھوں کو مکھن پلا! بڑا تیر مار کے آیا ہے۔ ڈوب کے نہیں مرتا؟ میں نے حیاتی میں تیرے جیسا مرد نہیں دیکھا جو عورت کے پیچھے عورت بنا ہوا ہے۔ روتا پھر رہا ہے۔ رئیس علن کے پاس فیصلہ لے گیا ہے۔ انھوں نے بٹھادی تھی تو بٹھائے رکھتے، کیوں لے آیا جا کر؟طلاق نہیں ماری ان کے منھ پر؟ بیوی انھوں نے رکھ دی تھی تو تجھے عورتوں کی کمی تھی؟ اَور شادی کرلیتا۔ ایسے بے گیرتوں میں شادی کی جو اپنے بیٹی کے گھر آکر کھانا پینا کریں، پھر وہ گیرتی بیٹے بن گئے جو لڑکی گھر بٹھا دی۔ اور تُو ایسا بے گیرت بن گیا جو ان کے در پر جاکے پڑگیا۔ یہی تو اثر ہوتا ہے گیرتی اور بے گیرتی میں شادی کرنے کا۔ تجھے بھی بے گیرت بنا دیا۔ لکھ لعنت ہو تجھ پر! مرد کا میم بھی نہیں تجھ میں۔ ایسا کر، اب بیوی کو اپنی جگہ بٹھا اور خود اس کی ہانڈی سنبھال لے۔‘‘
چاچے علی حیدر کی باتوں پر پیرل کا اندر کھولنے لگتا مگر پیر مرد کے آگے کوئی بولے کیا؟ اس کو چپ پا کر چاچا علی حیدر پھر الف سے ابتدا کرتا اور اول فول بولتا رہتا۔ آخر میں پیرل خود یہاں وہاں ہو جائے تو ٹھیک، ورنہ چاچا کی چابی بند نہ ہوتی۔ ’’کچھ اور نہیں ہوتا تو یہ مونچھ منڈوا۔ اپنی نہیں تو ان مونچھوں کی عزت کا خیال کر۔‘‘ پیرل کے اندر سے دھواں اٹھنے لگتا مگر علاج اس کے پاس کوئی نہ تھا۔ چاچے علی حیدر کی جھک جھک کے سب عادی تھے۔ گاؤں کیا، پورے علائقے میں اسے ایسا لائسنس ملا ہوا تھا۔ اس لیے پیرل برداشت کرتا رہا کہ چاچے کا دھیان کسی اور طرف ہو جائے مگر چاچا بات بھلانے کو تیار نہ تھا۔ جہاں پیرل کو دیکھتا، پھوٹ پڑتا۔ آہستہ آہستہ پیرل میں جھنجھلاہٹ بڑھنے لگی۔ مہینہ دو مہینہ گزر گیا۔ اب پیرل کو کسی وقت ایسا غصہ گھیرتا کہ اسے اپنا قابو میں رکھنا مشکل ہو جاتا۔ اس بات کے اندر یہ بات بھی تھی کہ چاچاعلی حیدر کسی کو لتاڑتا، سات سُر سناتا تو وہاں بیٹھے قہقہے مارنے لگتے، چاچے علی حیدر کو اس کی پگڑی اتارنے کے لیے اور اکساتے۔ مگر پیرل کی باری سارے چپ سادھ لیتے، انھیں جیسے سانپ سونگھ جاتا۔ اب پیرل کو خوف ہونے لگا کہ کسی وقت چاچے علی حیدر کو ایسا جواب نہ دے ڈالے کہ پورے علائقے میں اس کی بدنامی ہو جائے کہ پیرل نے اپنے سے بڑے کی عزت نہیں رکھی۔ اوپر سے بیوی الگ تکرار کرنے لگی۔ باپ کی موت او ر بھائی کی آنکھ دیکھ کر وہ وہمی ہو گئی تھی۔ اولاد میں دیر اب اس سے برداشت نہیں ہوتی تھی۔ ملا رحیم داد کے دم کردہ نر چھوارے، نہار منھ دیسی انڈا، سات کالی مرچ اور دیسی اجوائن کی پھکی بھی کر کے دیکھ لیے مگر کچھ بھی اثر نہیں دکھا رہا تھا۔ آثار ویسے ہی تھے۔ ہر ماہ دن وہ ٹوٹکے کرتی، امید چڑھانے لگتی، مگر جب دن آجاتے تو سر پر پٹی باندھ کر پڑ جاتی۔ اب اس کے سامنے سائیں بخشٹ شاہ بادشاہ کے پاس چوک گزارنے کے سوا کوئی حیلہ نہ بچا تھا۔
’’تجھے میری اولاد نہ ہونے کا کیاگم(غم)؟ تیری تو اولاد ہے۔ ہو نہ ہو، تیرا کیا جاتا ہے!‘‘ وہ اس دن تکرار کرتے جملہ نکال بیٹھی۔
’’اڑے دلڑی، ایسی بات نہیں۔ تو فکر ہی نہ کر۔ جلد چلیں گے۔‘‘
’’میں اب اپنا فکر نہ کروں تو اور کون کرے گا؟ باپ تھا وہ چلا گیا، بھائی میرا آنکھیں بدلے بیٹھا ہے۔ میرا اب اس جہان میں ہے ہی کون؟‘‘ وہ روتی چلی گئی۔
’’اڑے میں نہیں ہو ں کیا؟میرے ہوتے تو گم میں پڑتی ہے چری!‘‘
’’لے کے مجھے سائیں بخشٹ شاہ بادشاہ کے پاس نہیں جاتا، اور تیرے ہوتے۔‘‘
’’اڑے کیوں نہیں لے جاؤں گا؟ چلیں گے، چلیں گے۔ تو تھوڑا گوشت تو چڑھالے ہڈیوں پر۔ دیکھ کیسے ضعیفڑی ہوگئی ہے۔‘‘
’’درد نے مجھے مار ڈالا ہے۔ میں بتاؤں تو کسے؟سگا کوئی رہا نہیں۔ ایک مُڑس کا آسرا تھا جسے میری پروا ہی نہیں۔ دل کرتا ہے جنگل کو منھ کر کے نکل جاؤں،‘‘ بیوی دانت بھینچ کر بولتی گئی۔ اس کے الفاظ سن کر پیرل دہل گیا۔ اس نے بیوی کو بازوؤں میں لینا چاہا مگر وہ سسکیاں لیتی کمرے سے نکل گئی۔ پیرل کا دل کسی نے پاؤں کے نیچے دے دیا۔ اس نے اپنی سائیکل اٹھائی اور عاشق دکاندار کے پاس جا نکلا۔
’’اے پیرل، خوش خیر؟ بے وقت کیسے آنکلا تُو؟‘‘
’’بس یار، میں نے کہا سامان وامان لے آؤں۔‘‘
’’یار، سامان تو تُو صبح لے گیا تھا۔‘‘
’’ہاؤ یار! پھر پتا نہیں میں کیوں آیا۔ ہاں یار، بات یہ ہے سائیں بخشٹ شاہ بادشاہ پر تیاری ہے، کچھ رقم چاہیے تھی۔‘‘
’’یار، رقم تو تیری ساری میرے پاس پڑی ہے۔ بتا چاہیے کتنی؟‘‘
’’یار، بس کچھ روپے دے دے۔ پتا نہیں کتنا خرچ ہو۔‘‘
’’یار، تیرے تو میرے پاس ہزار دوہزار ہوگئے ہیں۔ جتنے کہے اتنے دوں۔‘‘
’’یار بس ایسے ہی خرچ ورچ کے لیے دے دے۔‘‘
’’یہ رکھ لے۔‘‘ عاشق اسے پیسے تھما کر کاپی میں لکھنے لگا۔ پیرل نے پیسے گننے کے بجاے دھوتی میں اُڑس لیے۔ ’’یار، صفاحد کرتے ہو! گن تو سہی۔‘‘
’’یار، یہ گننے وننے کے چکر میں کیا پڑیں۔ تم باقی کس کام کے لیے ہو؟‘‘
’’یار، بھلا بات بتا، اتنے پیسے ویسے جمع کر کے کرے گا کیا؟‘‘
’’یار، بات ہے یہ کہ بیوی کو نتھ بھی نہیں دی تھی شادی پر۔ اب کٹھے کر رہا ہوں کہ دو چار پیسے جمع ہو جائیں تو اس کے لیے سونا وونا لوں۔ اور بیٹی کی شادی کے دن بھی اوپر آنے لگے ہیں۔‘‘
’’اچھا اچھا۔ میں سوچ رہا تھا، اتنے جمع کر رہا ہے، کوئی پھٹپھٹی لے گا۔‘‘
’’اڑے خود لے یہ پھٹپھٹی! ہمارے لیے ہے یہ گالی۔ لوگ کیا کہیں گے؟ بوڑھا ہوگیا، طاقت چھوڑ گئی ہے جو پھٹپھٹی پر چل رہا ہے۔ سمجھے؟‘‘
اگلا دن تیاری کا تھا۔ بیوی نے کپڑے لتے دھوئے، پیرل گاؤں سے پتن تک تانگہ کروا آیا۔ صبح صبح اٹھ کر بیوی نے مکھن میں تر بتر روٹیاں ڈالیں۔ ان کے اندر اچار کی پھانکیں رکھ کر پوٹلی میں باندھ لیا۔ تانگے پر چڑھ کر وہ روانہ ہوے۔ پیرل کا چھوٹا بیٹا بھی ساتھ تھا۔ پیرل پہران اور چار خانے والی لنگی پہنے تانگے کی اگلی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ وہاں چوک رہنے کے لیے رلیاں، کپڑے، سامان کی دو گٹھڑیاں اس کے پاؤں میں رکھی تھیں۔ پچھلی سیٹ پر بیوی اور بیٹا فرید بیٹھے تھے۔ گاؤں سے شہر، پھر شہر سے بند تک پہنچتے انھیں کافی وقت لگا۔ بند پر چڑھ کر تانگے والے نے انھیں اتارا۔ نو دس فٹ بلند یہ بچاؤ بند دریاے سندھ کی آخری سرحد کا پہریدار تھا۔ اس بند سے لے کر دوسرے چھوڑ والے بند تک کئی میل کی چوڑائی میں دریا شاہ کی حکومت تھی جسے کچے کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس علائقے کے اندر دریا بادشاہ اپنی موج مرضی سے بہتا ہے، کبھی اِس کروٹ تو کبھی اُس کروٹ۔ جب وہ کروٹ بدلنا شروع کرتا ہے تو اسے کئی سال لگ جاتے ہیں۔ وہ ہر سال اسی کروٹ بدلتا بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ بند سے متھا لگاتا ہے۔ پھر کچھ سال تک وہ بیل کی مانند بند سے سینگ اٹکائے زور کرتا رہتا ہے۔ انہی سالوں میں دریاکے اندر آجانے والے اپناپورا گاؤں اٹھا کر اُس پار جا بیٹھتے اور اس زمین کو آباد کرنا شروع کرتے جو تازہ تازہ دریا کے چنگل سے آزاد ہوئی ہے۔ یہ زمین بلا کی طاقتور۔ بوئی ہوئی فصل اس میں سے دبے خزانے کی طرح نکل پڑتی ہے۔
پیرل بیٹے بیوی کو ساتھ کیے بند سے نیچے کچے کی طرف اترا۔ یہاں درختوں کی چھاؤں میں ایک چھپر تھاجس کے بازو پانی کا نلکا لگا ہوا تھا۔ وہ لوگ پانی وانی کر کے چھپر کے نیچے بیٹھ گئے۔ وہ ایسے راہرو کے انتظار میں تھے جو آگے جاتا ہو، کیونکہ آگے جنگل کھڑا تھا جس کے اندر راہ سے انجان کے لیے راستہ پانا نا ممکن تھا۔ ناواقف اگر خود سے جنگل میں اترے تو خود کو بھول بیٹھے۔ آنے جانے والے لوگ اپنی یادداشت اور علامتوں پر بھروسا کر کے چلتے۔ اِن دنوں تو دریا بادشاہ اِس کروٹ تھا تو ان کو کئی میل پیدل سفر کرنا تھا۔ پیرل اور اس کی بیوی آپس میں باتیں کرنے لگے۔ انھیں زیادہ فکر مندی نہ تھی۔ راستہ آباد تھا۔ جلد ہی کوئی آتا جاتا دریا پار کرنے والا آجانا تھا۔ بیوی سائیں بخشٹ شاہ بادشاہ پر جاتے خوشی سے سما نہیں رہی تھی۔ ا سے امید کے پورے ہونے کا یقین تھا۔ چھوٹا لڑکا زمین پر بیٹھے لکڑی سے لکیریں کھینچنے لگا۔ اس سے اکتایا تو درختوں کی جھکی شاخوں میں چمٹ کر جھولے لینے لگا۔ کچھ دیر بعد وہ ایک درخت کے اوپر چڑھا بیٹھا تھا۔ باپ نے آواز دی۔ وہ اتر آیا۔ تینوں اچار روٹی کھانے لگے۔ ماحول میں ہوا کی سرسراہٹ، پرندوں کے چہچہانے کے ساتھ ان کے ہلتے جبڑوں سے چپڑ چپڑ کی آواز شامل ہونے لگی۔ اچار ختم ہوا تو وہ بچی روٹی کے بڑے نوالے نگلنے لگے۔ کھانا کھانے کے بعد پیرل کو کچھ وزن محسوس ہوا۔ وہ ایک طرف جنگل میں پیٹ خالی کرنے اتر گیا۔ اتنی دیر میں بند سے دو بندے اترتے آئے۔ ایک نے مہندی رنگ کی قمیص پہنی تھی جس کے گریبان کے سارے بٹن کھلے تھے۔ دوسرا بڑی عمر والا سفید سر کے ساتھ آگے آگے چلتا آرہا تھا۔ بیوی نے اجنبی دیکھ کے منھ پرے کرلیا۔
’’چھوٹے، ان کو کہو رک جائیں۔ تیرا باپ آئے تو ہم بھی ساتھ چلیں گے۔‘‘ چھوٹا یہ بات سن کر ان کی طرف دوڑا۔
’’ٹھیرو چاچا، ٹھیرو۔ ہم بھی چلیں گے۔ بابا خیال سے گیا ہے۔‘‘
’’ہاؤ پٹ، ہاؤ۔‘‘ پیر مرد نے بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ وہ دونوں نلکے سے ہاتھ منھ دھو کر الگ ہو کے بیٹھ گئے۔ پیرل آیا۔ خوش خیری ہوئی۔ سب مل کر قطار میں جانے لگے۔ سامان کی ایک گٹھڑی پیرل نے اٹھائی، دوسری کھلے گریبان والے نے سنبھال لی۔ پتلی ریتلی پگڈنڈی پر جھاڑیوں کانٹوں سے بچتے وہ چلتے گئے۔ ان کے اوپر درختوں کا سایہ تھا۔ آگے جا کر وہ واہڑ میں اترے۔ یہ واہڑ اونٹھ ڈباؤ قد جتنا قدرتی کٹاؤ تھا جو پانی کے چڑھاؤ یا سیلاب کے وقت پانی سے تارو تارہوکر ایک نہر بن جاتا تھا۔ واہڑ کے پیٹ میں چلنا قدرے آسان تھا۔
’’ادا، پار جا رہے ہو؟‘‘ پیر مرد پیرل سے پوچھنے لگا۔
’’ہاؤ ادا، پار جا رہے ہیں۔‘‘
’’اپنوں کے پاس جاتے ہوگے؟‘‘
’’نہیں ادا۔ سائیں بخشٹ شاہ بادشاہ کے پاس چوک رہنے جا رہے ہیں۔‘‘
’’سائیں بڑی طاقت والا ہے! بڑی کرامت ہے سائیں کی!‘‘
’’ہاؤ ادا، سائیں کی بادشاہی ہے۔‘‘
’’ادا، میں تو سائیں بادشاہ کے سائے میں رہتا ہوں۔ ہماری تو آنکھوں دیکھی بات ہے جب سائیں نے ظہور کیا تھا۔ ہوا ایسے تھا، ہمارے گوٹھ کے ساتھ قبرستان ہے۔ اصل صفا پرانا ہے۔ ہمارے بڑے بتاتے تھے، انھیں بھی پتا نہیں کہ کون کون سی ہستی یہاں دفن ہے۔ جب دریا چڑھ آیا تھا، میں جوان تھا تب، دریا سارا قبرستان بہا گیا۔ تب سائیں بخشٹ شاہ بادشاہ کی ذات پانی پر ظاہر ہوئی۔ کفن میں لپٹی مگر ایسے صاف جسم جیسے پھول۔ پورا جسم صحیح سلامت۔ منھ ایسا چمک رہا تھا جیسے سو دیے جل رہے تھے۔ ادا، نور کی قسم، میں نے اپنی آنکھوں سے دیدار کیا تھا۔ پھر لوگوں کو سمجھ آئی کہ دریا سائیں کو سلامی ہونے آیا تھا۔ لوگ آکر ایسے ٹوٹے جو کیا بتاؤں۔ ایک بوڑھی تھی۔ چلنے سے صفا ہلاک۔ پچاس میل سے اٹھا کر لائے تھے۔ سائیں کی وہ کرامت ہوئی کہ اسے اٹھا کر لائے تھے، وہ اپنے پاؤں پر چل کر گئی۔ سائیں کی بڑی پہنچ ہے۔ ایک اور بات سنو۔ ایک آدمی آیا تھا تمھارے طرف سے۔ اس کی انکھیں آنکھوں جیسی، مگر نظر تھی ہی نہیں۔ بالکل ختم ہو گئی۔ سائیں کی مزار سے خاک شفا جو ڈالی تو آنکھیں روشن ہو گئیں۔ بس ادا، بڑی بات ہے سائیں کی۔ کیا کیا سناؤں۔‘‘
’’برابر، ادا۔ اس لیے تو ہم چلے ہیں۔ میری بیوی ہے۔ اس کو اولاد کا ارمان ہے۔ سائیں خالی نہ لوٹا ئے گا۔‘‘
’’ادا، تو فکر نہ کر۔ خالی جھولی بھر کر واپس لوٹوگے۔ دیکھنا تم خود۔‘‘
بیوی کو پیر مرد کی بات نے راحت پہنچائی۔ اب وہ چلتے ہوے جنگل سے نکل کر کاشت کردہ زمینوں کے درمیان پہنچے تھے۔ سفر ابھی باقی تھا۔ سورج خاصا چڑھ آیا تھا۔ گرمی ہوگئی تھی۔ کھیتوں کے آگے پھر تھوڑے سے درخت کھڑے تھے۔ وہ درختوں سے نکلے تو سامنے چمکتی ریت کی سلطنت تھی جو اترائی میں کھسک کر دریا کنارے سے ملتی تھی۔ پانی ہی پانی۔ نظر کے اختتام پر بھی پانی موجود۔ دوسرے کنارے کا بس شائبہ ہوتا تھا۔ پانی کی ہیبت سے پیرل کی بیوی پر ڈر بیٹھ گیا۔ کنارے پر اور بھی مرد عورتیں تھیں۔ عورتیں اس جھگی کے اندر سائے میں بیٹھی تھیں جو میربحروں کے لیے رات کی جاے پناہ تھی۔ مرد اِدھر اُدھر کھڑے تھے۔ کچھ نے بکریوں کی رسیاں ہاتھ میں پکڑ رکھی تھیں۔ پیرل کنارے پر بیٹھ گیا۔ اب کشتی کا کوئی وقت تو نہیں ہوتا، جس وقت آئے سو آئے۔ دیر بعد ایک دھبا پانی پر نظر آنے لگا۔ اس نے پھر کشتی کی شکل بنالی۔ دو ملاح چپو سے کشتی کھیتے آئے۔ کنارے کے قریب پہنچ کر ان میں سے ایک نے لمبا بانس اٹھایا اور پانی کے اندر بانس گاڑتے کشتی کی رفتار روکنے لگا۔ آخرکار بانس کنارے پر دھنسا، کشتی رکی۔ کشتی کو پہلو بھر کر کے انھوں نے ایک تختہ کشتی کی کگار اور کنارے پر جمایا۔ کشتی میں بیٹھے لوگ اترنے لگے۔ کشتی خالی ہوئی اور پھر دم کے دم میں بھر گئی۔ عورتیں کشتی کے اگلے حصے میں اور مرد پیچھے اور درمیان۔ بیچ میں بکریاں وغیرہ بھی کھڑی کردی گئیں۔ کشتی نے شمال کا رخ کیا اور، چپوؤں کے زور پر ڈولتی، چلنے لگی۔ ہوا بند تھی۔ کشتی کا سرخ پیندا پانی کو کاٹنے لگا۔ پانی کے بے انت پھیلاؤ کو حقیر کشتی پاٹنے لگی۔ دوسرے کنارے کھڑے درختوں کا جمگھٹا کسی بونے کی طرح لگ رہا تھا۔
سائیں بخشٹ شاہ بادشاہ پر رہتے انھیں تین راتیں پڑ چکی تھیں۔ باقی چوک کی ایک رات تھی۔ کل ان کی واپسی کا دن تھا مگر سلیمت پریشان تھی کہ ابھی اسے کوئی اشارہ نہیں ہوا تھا۔ یہ تین دن اس نے مزار کی پائینتی پر گڑگڑاتے گزارے تھے۔ سائیں بخشٹ شاہ کے قبرستان میں جو تین چار فقیر بیٹھتے تھے وہ ان میں سے ایک ایک کے پاس حاضری دے کر دعا دم کروا چکی تھی۔ ایک ملنگنی جس کا آستان قبرستان کی مشرق طرف تھا، اس سے سرخ دھاگا پڑھوا کر اپنے آپ کو اور شوہر کو بندھوا چکی تھی۔ اب صرف اشارے کا انتظار تھا۔ وہ اس وقت مزار کی پائینتی پر سر رکھے، دل ہی دل میں بیٹے کی اولاد کے لیے پکارے جا رہی تھی۔ مزار کے اردگرد مرد عورتیں اپنی اپنی حاجت کے لیے جمع تھے۔ مزار کے اوپر گنبذ نہ تھا، چار پایوں پر چھت قائم تھی۔ مزار قبرستان کے بالکل مغرب میں تھی۔ باقی قبرستان کئی ایکڑ میں پھیلا ہوا تھا۔ آنے والے انہی قبروں کے بیچ درختوں کے نیچے رلیاں بچھائے قیام کیے ہوے تھے۔ قبرستان کے مشرق اور جنوب میں کھیت کھڑے تھے۔ شمال میں گاؤں تھا جس کے آگے قبرستان کی حد پر چند دکانیں تھیں۔ دکانوں پر مزار پر ڈالنے والی چادریں، سوکھا میوہ، پراندے، پلاسٹک کے کھلونے، جھمکے، زرق برق چوڑیاں اور میٹھی ٹافیاں ملتی تھیں۔ ایک چھپر ہوٹل بھی موجود تھا جس پر آلو شوربہ اور روٹی ملتی تھی۔ پیرل اس وقت ملنگنی کے آستانے کے نزدیک درخت کے نیچے پوٹلی پر سر رکھے رلی پر لیٹا ہوا تھا۔ اسے نیند آرہی تھی۔ اس کے گرد بے ترتیب قبریں پھیلی ہوئی تھیں۔ دوپہر کے وقت کسی نے دو دیگ پلاؤ خیرات بانٹی تھی، اچھے گوشت والی دو پلیٹیں کھا کر لیٹا ہوا پیرل اس خمار میں تھا۔ مزار پر جاتے ہوے بیوی نے ساتھ چلنے کا بھی بولا مگر سستی کے مارے اس سے اٹھا نہیں گیا۔ بیوی چھوٹا ساتھ کر کے خود ہی چلی گئی۔
’’ادا، سو رہے ہو یا جاگ رہے ہو؟‘‘
پیرل نے آواز پر مندی آنکھیں کھولیں۔ کوئی اوپر کھڑا تھا۔ سر پر چار خانے والا رومال رکھے کوئی بھولے بھالے منھ والا سانولا شخص کھڑا تھا۔
’’ادا، جاگ رہا ہوں۔‘‘
’’بس ادا، ہم بھی سائیں بخشٹ شاہ بادشاہ کے پاس آئے ہیں۔‘‘ وہ رلی کے کنارے بیٹھ گیا۔
’’ہاؤ ادا، سائیں کے پاس ساری دنیا آرہی ہے۔‘‘ پیرل نے تین دن کا ماجرا بیان کیا۔
’’ہاؤ سائیں، برابر۔ ادا، خود کون؟‘‘ آنے والے نے تعارف پوچھا۔
’’ادا، میں۔۔۔‘‘ پیرل نے اپنی ذات بتائی۔
’’کہاں سے ہو ادا؟‘‘
پیرل نے جواب میں اپنا علائقہ بتایا۔
’’ہاں ادا، وہاں سے ہو؟ بھلا فلانے کو پہچانتے ہو؟‘‘ اس نے ایک نام لے کر سوال کیا۔
’’نہ ادا۔ میں نے یہ نام نہیں سنا۔‘‘
’’ہاں؟ بھلا فلاں کو؟ اس کوتو پک سے جانتے ہوگے؟‘‘
’’نہ یار۔ مجھے نہیں خبر اس کی۔‘‘
’’یار، پھر تم اس جگہ رہتے ہو یا کسی اور جگہ؟ کسی کو پہچانتے ہی نہیں!‘‘
’’ادا، ہم اپنے گوٹھ۔۔۔ میں رہتے ہیں۔ تم جن کا نام لے رہے ہو وہ کسی اور گوٹھ کے ہوں گے۔ ہمارے گوٹھ شہر میں اس نام ذات کا کوئی بندہ میں نہیں جانتا۔‘‘
’’ہاؤ ادا، ایسے بھی ہو جاتا ہے، برابر۔ لیکن یار بڑی دور سے آئے ہو۔ آفرین ہو!‘‘
’’ادا، سائیں کے پاس حاجت لے کر آئے ہیں۔ دوسری بیوی ہے۔ اولاد نہیں ہوئی اس کو۔‘‘
’’اتنی دور سے چلے ہو، سائیں کوئی ایسے خالی جانے دے گا کیا؟ بھلا اشارہ ہوا ہے؟‘‘
’’ابھی تک تو نہیں ہوا۔ بس ہو جائے گا۔‘‘
’’کون سا دن ہے تمھیں؟‘‘
’’تیسرا دن ہے ادا۔‘‘
’’بس پھر آج ہوگا ہی ہوگا۔ میں خود دس کوس سے آیا ہوں۔ بکرا پہنچانا تھا سائیں پر۔ ابے کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی سو لگ ہی نہیں رہی تھی۔ یہاں ایک آدمی باندھتا ہے۔ اس سے بندھوا کر سائیں پر دعاکر کے گئے تھے، ایسی ٹانگ لگی ہے جو کیا بتاؤں۔‘‘
’’وَہوا ادا! باپ کی ٹانگ ٹھیک ہوگئی، اور کیا چاہیے۔‘‘
’’ہاؤ ادا، اسی لیے ابے نے بھیجا، حکیم کو شہد کا شیشہ دے آؤ اور سائیں پر بکرا پہنچا کر آؤ۔ ابھی پہنچا کر واپس جا رہا تھا تو تم پر نظر پڑگئی۔ میں نے کہا، بھاؤ کے ساتھ کچہری کرتے ہیں۔‘‘
’’ہاؤ ادا۔ بس میری بیوی بھی گئی ہے زیارت پر۔ آتی ہوگی۔‘‘
’’پھر ادا، میں چلتا ہوں۔ کبھی آنا ہو ہمارے شہر تو میرا گھر گڑ منڈی کے ساتھ ہے۔ ضرور آنا۔‘‘
وہ آدمی اٹھا تو پیرل اس کے پیچھے بیوی کی طرف نکلا۔ وہ چھوٹے کے ساتھ اِدھر ہی واپس آرہی تھی۔
’’لوگوں کی بڑی مرادیں پوری ہو رہی ہیں یہاں۔‘‘
’’ہماری بھی ہوگی دیکھنا۔‘‘
’’ہاں بس آج آخری رات ہے۔ اشارہ ملے تو کل واپس ہوں۔‘‘
’’آج چوتھی رات ہے۔ جیجی (ملنگنی) کہہ رہی تھی، آج پک سے ہوگا،‘‘ بیوی نے یقین سے بولا۔
اسی رات اشارہ ہوگیا۔ بیوی نے اسی وقت پیرل کو جگایا۔
’’اشارہ ہوا ہے۔ چل، جیجی کو بتائیں!‘‘
پیرل کی آنکھوں سے نیند بھاگ گئی۔ وہ بیوی کے پیچھے پیچھے ملنگنی کے آستان پر آیا۔ ملنگنی میلی کچیلی پیوند لگی گدڑی اوپر ڈالے سو رہی تھی۔
’’جیجی، اٹھو اٹھو۔ اشارہ ہوگیا۔‘‘ بیوی نے سیدھا جا کر اسے اٹھا دیا۔ ملنگنی اٹھی تو اس کے گلے پڑی مالائیں بج اٹھیں۔
’’دور کر اس موئے مرد کو! میرا سر ڈھانپا نہیں ہوا اور یہ آکے بیٹھا ہے،‘‘ ملنگنی چڑ کر بولی۔
’’معافی جیجی، معافی! تو اٹھ کر جا۔‘‘ پیرل اٹھ کر دور ہوگیا۔
’’اِس وقت جا۔ رات کو گیبات ہوتی ہیں۔ سن لیں تو تمھارا کام گیا۔ جا۔ سورج نکلے، پھر آنا۔‘‘
بیوی پر بات ایسی چھائی کہ وہ لب سی کر چلی گئی۔ واپس اپنی جگہ رلی اوپر لے کر لیٹ گئی۔
’’کیا کہا جیجی نے؟‘‘ پیرل نے اسے جھنجھوڑا۔ سلیمت نے اسے جواب میں ہونٹوں پر انگلی رکھ کر چپ رہنے کا اشارہ دیا۔ وہ شکر کر رہی تھی، شوہر کو اشارہ بتایا نہیں ورنہ اس کا سارا کام بگڑ جاتا۔ اس کو غیبات سے ڈر بھی لگ رہا تھا۔ وہ شوہر سے جڑ کر لیٹ گئی۔ پیرل کو کھوج لگی ہوئی تھی۔ وہ بار بار کروٹ بدل کر بیوی سے پوچھتا۔ سلیمت اسے جواب میں ’’شش‘‘ کہہ کر خاموش کرواتی۔ سورج چڑھا، اچھا خاصا آدمی جتنا۔ بیوی ملنگنی کے پاس پہنچ گئی۔
’’شکر کر تُو بچ گئی ورنہ تیری کئی کمائی چلی جاتی۔ سائیں کے پاس ساری رات حاضری چلتی ہے گیبات کی۔ اگر کوئی شریر اشارہ سن لیتا تو تیرا کام گیا تھا۔ دعا دے مجھے جو تجھے بچالیا۔‘‘
’’جیجی ہم جنگلی۔ ہمیں کیا پتا۔‘‘
’’چل اِدھر آ۔ اس دائرے میں اندر آ۔ یہ دستگیر کا دائرہ ہے۔ اس میں اشارے کی بات کی جاتی ہے۔ اب بتا، کیا دیکھا؟‘‘ ملنگنی نے ہاتھ سے دائرہ بنایا اور سلیمت کو ہاتھ سے پکڑ کر اس کے اندر کھینچا۔
’’جیجی، میں نے دیکھا، ایک کالا سانپ پھن اٹھا کر میری طرف آرہا ہے۔ میں سائیں کو آواز دینے لگی، مرشد پہنچ! میری جان بچا۔ تب وہ سانپ میرے قریب آکر گول مول ہو کر میرے پاؤں میں بیٹھ گیا۔‘‘
’’تیرا کام ہوگیا۔ سائیں نے سن لی تیری۔ اب تُو جا۔ تجھے بیٹا ملے گا۔ پر یاد رکھ، دو چاند ریشم کے کپڑے مت پہننا، چکنی مٹی سے نہانا، ہر دوسرے دن مکھن کھانا، موتی فوتی پر مت جانا۔ اب واپس جا۔ بیٹا ہو تو سائیں کے نام کا بکرا لے آنا۔ اپنا حصہ دیتی جا۔‘‘
بیوی اٹھی۔ دائرے سے نکل کر شوہر سے رقم لی اور ملنگنی کے حوالے کی۔
’’مُڑس کو یہ بات یہاں مت کہنا۔ دور جا کر پھر کان میں بتانا۔ سائیں کو سلام کر کے واپس چلی جا۔ جا تیرا بیڑا پار۔‘‘
سلیمت نے ملنگنی کا ہاتھ چوما، ملنگنی نے اس کی پیٹھ تھپکی۔ وہ سامان کو گٹھڑی میں باندھنے لگے۔ سائیں کی چوکھٹ چوم کر واپس روانہ ہوگئے۔ پیرل کو کھد بد ہو رہی تھی مگر بیوی ’’ابھی ٹھیر!‘‘ کے اشارے دیے جا رہی تھی۔ جب قبرستان سے کوس بھر دور ہوے تو اس نے شوہر کو کان میں ساری بات سنائی۔
’’بڑے بھاگ کھل گئے تمھارے۔ تمھارا تو سارا کام ہوگیا۔ اور کیا چاہیے تجھے۔‘‘
’’ہاں سائیں کی مہربانی ہے، خالی واپس نہ کیا۔‘‘
وہ پتن کی طرف چلے جا رہے تھے۔ ایک بیل گاڑی چرخ چوں کی آواز نکالتی آئی۔ وہ بھی دریا کی طرف پلالی لینے خالی جا رہی تھی۔ بیل گاڑی والے نے گاڑی پر بٹھا لیا۔ پتن کے نزدیک ہوے تو ڈھول کی تھاپ سنائی دینے لگی۔ اب پتن بس درختوں کی اوٹ میں تھا۔ ان تک سہرے گانے کی آواز پہنچنے لگی۔ پتن پر بارات کشتی کے انتظار میں تھی۔ عورتیں، بچے اور مرد رنگین کپڑے پہنے پار جانے کو تیار کھڑے تھے۔ سفید داڑھی والا ڈھولچی ڈھول گلے میں لٹکائے دو ڈنکوں سے دھا دھم پیٹے جا رہا تھا۔ ایک پتلا لڑکا تُوتری سے سُر نکال رہا تھا۔ اس کی گردن سے رگیں ابلی آرہی تھیں۔ ڈھول اور توتری والے کے آگے باراتیوں کے دائرے میں ایک عورت ناچ رہی تھی۔ نو عمر دولہا اپنی ماں کو خوشی سے ناچتے پھولوں کی لڑیوں والے سہرے کے پیچھے سے دیکھ رہا تھا۔ کشتی آئی۔ خالی ہوئی۔ بارات کشتی میں بیٹھنے لگی۔ ساری کشتی عورتوں سے بھر گئی۔
’’مائیو، اِدھر اُدھر ہو جاؤ۔ مردوں کے بغیر جاؤگی کیا؟‘‘ دولھے کا باپ کہنے لگا۔ عورتوں نے اِدھر اُدھر ہو کر جگہ کی۔ بچوں کو گود میں بٹھایا۔ مرد بیٹھے۔
’’ادا، وزن مڑئی زیادہ ہوگیا ہے۔ کچھ لوگ اتارو، میں دوبارہ آکر اٹھاتا ہوں،‘‘ ملاح کہنے لگا۔
’’یار، بارات جدا کروگے کیا؟‘‘
’’ادا، دریا میں چڑھاؤ ہے۔ سیر تیز ہے۔ وزن زیادہ ہوگا تو مامرا اوپر نیچے نہ ہو جائے۔ میری ذمے داری نہ ہوگی۔‘‘
’’یار خامخاہ(خوامخواہ) وہم نہ کر۔ سائیں بخشٹ شاہ کے آسرے پہنچ جائیں گے۔ چل تو۔‘‘
’’جو تمھاری مرضی!‘‘ کشتی بھرے برتن کی طرح چھلک رہی تھی۔
’’ادا، ہمیں بھی لے چلو۔ بہت دور جانا ہے۔ عورت ذات ساتھ ہے۔‘‘ پیرل کی منت پر ملاح نے دولھے کے باپ کو دیکھا۔
’’ہاں ہاں، کیوں نہیں۔ بھری کشتی میں بیر سے بار پڑے گا کیا؟ آؤ ادا، آؤ۔‘‘
’’رب خیر سے پار لے جائے، باقی وزنڑا (وزن) مڑئی خاصا ہے۔‘‘ ملاح فکر میں تھا۔
’’یار، اچھا جملہ نکال منھ سے۔ خامخاہ ایسے بول رہا ہے!‘‘ دولھے کے باپ نے ملاح سے کہا۔ ’’سائیں بخشٹ شاہ بادشاہ کا نام لے کر چل۔ سائیں کے نام سے ڈوبی کشتی بھی تر جائے گی۔‘‘
ملاح نے تختہ اٹھایا۔ بانس کنارے پر گاڑ کر کشتی دھکیلی۔ کشتی گہرے پانی کی طرف چلی۔
’’امڑ راستہ دو، ابا راستہ دو!‘‘ کہتے ہوے ملاح چپو کی طرف جانے لگا۔ پیچھے جانا مشکل ہوگیا تھا۔ لوگ کشتی کے کنارے بھی بھرے ہوے تھے۔ کشتی جوں جوں آگے چلتی گئی، پیرل کو یوں لگا جیسے لکڑی کی نہیں پتھر کی بنی ہو۔ اس کا پیندا معمول سے زیادہ پانی میں تھا، جیسے کوئی چیز دھنس گئی ہو۔ کشتی بالکل آہستہ آہستہ چل رہی تھی، گویا پانی کے بجاے ریت میں دھکیلی جا رہی ہو۔ بارات کچے کی ہی تھی جن کا ملاح سے اپنا حساب کتاب تھا۔ ان کا آنا جانا لگا رہتا تھا اس لیے وہ گندم اترنے پر کرایہ گندم کی صورت یک مشت ایک یا دو من ادا کردیتے تھے۔ ملاح نے پیرل کے ساتھ بیٹھے ہوے سے کرایہ لینے کا کہا۔ بھری کشتی میں اس کا پیرل تک پہنچنا مشکل تھا۔ کشتی ایک ایک سوت آگے بڑھتی رہی۔ کھلے دریا میں عورتیں سہرے گائے جا رہی تھیں۔ مٹیالے پانی میں کشتی کو دھکیلتے ملاح اس پار پہنچ جانے کی فکرات میں تھے۔
’’کشتی میں پانی بھر رہا ہے!‘‘ خوف سے بھری آواز آئی۔ کشتی کے پیندے سے بلبلے پھوٹ رہے تھے۔ سہرے چیخوں میں بدلے۔
’’خیر ہے خیر! اتنا پانی نہیں۔ ملاح وارو کر۔ کنارہ بس دور نہیں،‘‘ دولھے کا باپ چلّایا۔
’’میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا وزن زیادہ ہے۔‘‘
’’یار، تو زبان نہ چلا، ہاتھ چلا ہاتھ۔ اڑے شفو، تو بھی ہاتھ ڈال!‘‘ دولھے کا باپ اپنے رشتے دار کو ملاح کی مدد کے لیے بلانے لگا۔ شفو نے اٹھ کر چپو میں ہاتھ ڈالا۔ دونوں کے ہاتھ چپو پر زور لگانے لگے۔
’’عورتوں سے بولو چیخیں مت۔ سب اپنی اپنی جگہ بیٹھ جائیں۔ کوئی ہلے جلے نہیں۔‘‘
بازو مشین بن گئے۔ وہ اپنا پورا زور لگائے جا رہے تھے۔ کنارہ سامنے ہی تھا مگر کشتی آہستہ آہستہ پانی میں اترتی جا رہی تھی۔ کنارے پر کھڑے لوگوں کو یہ ماجرا صاف دکھائی دے رہا تھا۔ وہ ہراس میں آگئے تھے۔ کچھ تو گھٹنوں گھٹنوں پانی میں آگے بڑھ آئے تھے۔
’’باقی تھوڑا بچا ہے۔ ہمت کر ہمت!‘‘ کنارے پر کھڑے لوگ ملاح کو ہمت دلانے لگے۔ کشتی میں حشر کا عالم تھا۔ رونا، پکاریں، التجائیں۔ سانس حلق میں تھی۔
’’جو سامان ہے وہ پھینک دو!‘‘ ملاح کے چلّانے پر سامان کی کچھ گٹھڑیاں پانی میں پھینک دی گئیں۔ رلی اور سامان کی گٹھڑی پھینکنے کے بعدپیرل نے بیٹے کو گود میں کرلیا۔ کنارہ بس دس پندرہ ہاتھ دور تھا کہ ایک لہر آئی اور کشتی کے اندر بھر گئی۔ لوگ بے اختیار کھڑے ہوگئے۔ کشتی ڈولنے لگی۔ کوئی ڈر میں مبتلا اٹھا اور کشتی سے پانی میں چھلانگ ماری۔ اس کی دیکھا دیکھی کچھ اور بھی پانی میں کودے۔ کشتی پنگھوڑے کی طرح ڈولی اور توازن خراب ہونے سے الٹ گئی۔ غوطے کھاتے ڈوبتے لوگ ہاتھ پاؤں مارتے کنارے پر نکلے۔ کنارے والے بھی پانی میں کود کر لوگ باہر کھینچ لانے لگے۔ باراتیوں میں بھی کچے والوں کی اکثریت تھی اس لیے زیادہ تر تیراکی سے واقف۔ مل ملا کر عورت بچے نکال لیے گئے۔ پیرل ہاتھ مارتا کندھے پر بیٹا لیے نکلا تو بیوی کا خیال آیا۔ وہ اِدھر اُدھر نظر دوڑانے لگا۔ اسے وہ کہیں نظر نہ آئی۔
’’اڑے میری بیوی کو بچاؤ، میری بیوی کو بچاؤ!‘‘ کہتے وہ کنارے پر دوڑنے لگا۔ اس کے ہوش گم تھے۔ کسی نے بچاؤ بچاؤ کی آواز سنی۔ دیکھا تو اوندھی کشتی کا سہارا لیے کوئی ڈوبتا ابھرتا جا رہا تھا۔
’’وارو کرو، مائی ڈوب رہی ہے!‘‘
لوگ دوڑے۔
’’اڑے یہ تو بھرجائی سلیمت ہے!‘‘ کہنے والے نے کہا اور بجلی کی رفتار سے دوڑا۔ جب سلیمت کو نکال کر نڈھال حالت میں پیرل کے حوالے کیا تو پیرل کو بھی معلوم نہ ہوا یہ علو ہے جو اُس پار بیل لینے جا رہا تھا۔ علو کے رومال میں لپٹی سلیمت کے بالوں سے ٹپ ٹپ پانی گر رہا تھا۔ وہ شوہر کو دیکھ کر رونے لگ گئی۔ پیرل بیوی پا کر جیسے ہوش میں آگیا۔ وہ اس کی دلداری کرنے لگا۔ دریا کی سطح پر لوگوں کی جیب سے نکلنے والا چھوٹا موٹا سامان تیرتا جا رہا تھا۔ باراتی ملاح کو گالیاں سنا رہے تھے جو اپنی ڈوبی ہوئی کشتی کو کنارے لانے کی فکر میں کنارے کنارے دوڑا جا رہا تھا اور بارات میں آئی بڑی بوڑھیاں دلہن کی بدبختی کا یقین کیے بارات کی وہیں سے واپسی کا کہہ رہی تھیں۔
پیرل والوں کو سائیں بخشٹ شاہ بادشاہ سے واپس آئے مہینہ بھر ہو گیا تھا۔ پیرل نے ڈوبنے سے بچ جانے کی وجہ سے خیرات کی تھی جس میں پیسوں کا باقی سب حصہ دیگ اتارنے میں خرچ کر دیا تھا۔ اسی عرصے میں علو کی سلیمت کو ڈوبنے سے بچانے والی بات گوٹھ میں خوب پھیل چکی تھی۔ اندر باہر اس کا ذکر ہوا تھا۔ کچھ کے کانوں تک رہی تو کسی کے دل میں جا کر اس نے جڑ پکڑلی۔ جڑ پھیل کر وہم بنی۔ وہم سے وسواس پیدا ہوا۔ وسوسوں کو ہوا ملی تو شک کے کیچوے کلبلانے لگے۔ کیچوے سنپولے میں تبدیل ہوے اور اپنا زہر زبان سے اگلنے لگے۔ جگہ جگہ علو اور سلیمت کی بات ہونے لگی۔ جو کوئی سنتا، ایک گرہ اس میں اپنی طرف سے لگا دیتا۔
’’وہاں سو پچاس اور بھی تھے۔ ان میں سلیمت کا اپنا مڑس بھی۔ پھر بھی علو نے جا کر کیوں نکالا؟ ہم نہیں کہتے کہ کوئی بات ہوگی، پر کہنے والے تو کہتے ہیں نا!‘‘
’’سائیں، کہنے والے تو بہت کچھ کہتے ہیں۔ بھلا مائی کو اولاد کیوں نہیں ہوتی؟ حالانکہ پیرل کے پہلے بھی بچے ہیں۔ آخر کوئی تو حساب کتاب ہے نا!‘‘
’’کچھ تو ہے یار۔ کچھ نہ ہوتا تو ایسی بات کیوں ہوتی؟ بھلا اور کچھ نہیں تو کوئی علو سے پوچھے، تمھارا کیا کام جو پرائے ننگ کو نکالا؟ مر جاتی تو تیرا کیا جاتا؟ اس کا مڑس نہیں نکال رہا، علو نکال رہا ہے! کچھ ہے اس لیے تو نکالاناں!‘‘
’’ہاں سائیں، مائی گھر کی دیوار کے پیچھے کچرا پھینکتی ہے۔ اُدھر جدھر علو کی زمین ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے آپس میں بولتے۔‘‘
’’ادا، عورت ذات کو کوئی پیر فقیر بھی نہ پہچانے۔ بیچارہ پیرل اس مائی کو کیا پہنچے گا!‘‘
’’سائیں، لاکھ کی بات کی تو نے۔ عورت ذات؟ توبہ سائیں توبہ! اپنی پر آئے تو مڑس کی موجودگی میں یار بلائے۔‘‘
’’مکریلی مائی سے رب بچائے تو بچائے، ورنہ آدمی نہ بچے۔‘‘
’’ادا، جب پیرل یہ رن لے کر آیا تھا مجھے تب ہی کھٹک گیا تھا، رب ہمارے گوٹھ کو بچائے۔‘‘
’’سائیں، عورت ذات گوٹھ تو کیا ملک برباد کردے۔‘‘
’’ادا، ہماری عورت ہمارے آگے زبان کھولے تو اس کے ٹکڑے ٹکڑے نہ کردیں۔ یہ مڑس کو انگلی پراٹھاتی ہے، انگلی پر بٹھاتی ہے۔‘‘
’’ہا سائیں، اس لیے تو علو جیسے آدمی کو بہکا دیا۔ ورنہ علو جیسا بھی ہے، کسی کے ننگ کو آنکھ اٹھا کر نہ دیکھے۔‘‘
ایسی باتیں ہر بیٹھک کا حصہ بن چکی تھیں۔ لوگ اپنے ہم خیال کے ساتھ بیٹھ کر یہ قصہ چھیڑتے، پھر اسی میں لگے رہتے۔ پیرل اور اس کے قریبوں کے لیے یہ بات ابھی دور تھی۔ ان کو کون بتائے؟اور اگر کوئی بتائے تو کیا؟ باقی علو کو اس کے کسی اپنے نے بھگادیا۔
’’بات کیا کرتا ہے؟‘‘ علو نے پہلے پہل سنا تو بولنے والا کا گریبان چیر دیا۔
’’مجھے کیوں کہتا ہے؟ سارا گوٹھ ایسے کہہ رہا ہے۔ مامرا خراب ہے۔ نکل جا۔‘‘
’’اڑے قسم پنجتن پاک کی، ماما کی بیوی میری بہن جیسی ہے۔ بھلے قرآن اٹھوائیں مجھ سے۔‘‘
’’کوئی چوری کی بات ہے جو تجھ سے قسم قرآن لیں گے؟ تجھ سے کون قسم لے گا اس بات کا؟ سمجھ آرہی ہے کہ نہیں؟ پہلے گردن اتاریں گے، پھر ہوگی بات۔‘‘
’’ادا، رب جانتا ہے میں کالا نہیں۔ جو حساب ہو میں دینے کو تیار ہوں۔‘‘
’’کیا دے گا حساب؟ ہاں؟ تجھے پتا ہے نا، قوم راج میں کالے کا حساب کیا ہے؟ موت۔ اور کوئی حساب نہیں۔ اب تو کالا ہے بس۔ پورا گوٹھ تجھے کالا کہہ رہا ہے۔ تو اب زندوں میں نہیں، مُردوں میں ہے۔ دیر بس اتنی ہے، پیرل کو پتا چلے۔ پہلے وہ بیوی کا سر اتارے گا پھر تیرا۔ ابھی کے ابھی بھاگ جا۔‘‘
علو بھاگ گیا۔ اس کے ساتھ گاؤں میں غل اٹھا۔ جیسے گلیوں میں بپھرا سانڈ گھس آئے۔
اُس سویر ہوا چل رہی تھی۔ سورج کی تیزی پہنچنے والی ہوگی۔ برگد کے نیچے ماماپیرل سامان لے کر پہنچا ہی تھا کہ اس کے آگے چاچا علی حیدر کلہاڑی لے کر کھڑا ہوگیا۔
’’یہ جو تو رنداچلاتا ہے اپنی آنکھوں پر چلا!‘‘ چاچے علی حیدر کی سفید مونچھیں تھرتھرا رہی تھیں۔
’’کیا ہوگیا چاچا؟ صبح صبح اتنا گرم ہوگیا ہے۔ شربت وربت پلاؤں کیا؟‘‘ پیرل نے بات اُڑانا چاہی۔
’’یہ شربت ڈال اپنی گاف میں! اس اندھے کو دیکھ، اسے ابھی پتا ہی نہیں کیا ہوا ہے،‘‘ چاچے علی حیدر نے شیرل گدھا گاڑی والے کو دیکھ کر کہا۔
’’چاچا، مامرا کیا ہے؟‘‘
’’تجھے ہوتی نا گیرت تو تجھے سب پتا ہوتا، بے گیرت!‘‘
’’چاچا، خامخاہ نہ بول!‘‘
’’میں بولتا ہوں، تُو بے گیرت ہے بے گیرت!‘‘
’’چاچا، میں کہتا ہوں گالی نہ دے۔‘‘ پیرل سامان چھوڑ کر تختے کے پیچھے سے نکل آیا۔
’’میری گالی پر تجھے گیرت آرہی ہے۔ ہاں؟ اس پر نہیں آتی کہ تیری بیوی علو کے ساتھ مزے کرتی ہے۔‘‘
’’چاچا، سفید سر والا ہے، زبان سنبھال اپنی!‘‘ پیرل کے دانت بھنچ گئے۔ سانس آواز کر کے نکلنے لگی۔
’’سنبھلتی تجھ سے بیوی نہیں، اور میں اپنی زبان سنبھالوں!‘‘
’’چاچا، میں آخری بار کہتا ہوں، بیوی پر مت جا ورنہ اچھا نہیں ہوگا!‘‘ پیرل نے چاچا علی حیدر کا گریبان پکڑتے پکڑتے خود کو روک لیا۔
’’میں کیوں جاؤں گا تیری بیوی پر بے گیرت! علو جاتا ہے تیری بیوی پر، علو!‘‘ علو کہتے چاچا علی حیدر کے منھ سے تھوک اڑی۔
’’شیرل، میں کہتا ہوں چاچے کو لے جا، ورنہ گند ہوگا آج!‘‘
’’اڑے کنجر! اور کیا گند ہوگا؟ تیری بیوی علو کے ساتھ سوتی ہے، تو یہاں مہندی پی کر سویا ہوا ہے۔ ایسی بے گیرتی ہم نہ ہونے دیں گے۔ ہم تیری طرح اپنی رنوں کو رنڈی نہیں بننے دیں گے۔‘‘
’’چاچا، میرا ہاتھ اٹھا تو پھر روکوں گا نہیں خود کو۔‘‘
اتنی دیر میں کچھ اور لوگ ہل ہنگام کی وجہ سے پہنچنے لگے۔
’’تجھ جیسا کنجر میں نے قوم میں نہ دیکھا۔ میں تجھے بول رہا ہوں تیری بیوی کالی ہے، اور تُو یاؤں یاؤں کیے جا رہا ہے۔ دل کرتا ہے تیری مونچھیں مونڈ کر تیری گاف میں ڈال دوں!‘‘
آدمی کافی جمع ہوگئے تھے۔ سب چپ کھڑے سنے جا رہے تھے۔
’’میں قسم کھا کر کہتا ہوں جس دن رب گیرت تقسیم کر رہا تھا یہ بھڑوا اس دن بھی پاد مارنے میں لگا ہوا تھا!‘‘ چاچے علی حیدر نے گاؤں والوں کی طرف منھ کیا اور زور سے بولا۔
’’چاچا فضل، یہ اچھی بات نہیں۔ چاچا علی حیدر گالیاں دے رہا ہے اور تُو بھی چپ کر کے کھڑا ہے۔‘‘
’’اڑے تو مجھے کرے گا کیا چکلائی!‘‘ چاچا علی حیدر کا جسم لرزے جا رہا تھا۔ ’’میں تیری بیوی کے اپھال(افعال) تجھے بتا رہا ہوں اور تُو اس کی جا کر گردن نہیں اتارتا مادرچ۔۔۔‘‘
پیرل نے دیکھا، وہاں کھڑے سب لوگوں کے چہروں پر یہی تحریر لکھی تھی۔
’’اڑے فضل، سنا۔ میں جھوٹ کہہ رہا ہوں؟‘‘ چاچے علی حیدر کا رخ میاں محمد فضل کی طرف ہوگیا۔
’’بات برابر ایسی ہے۔‘‘
’’سنا؟ سنا تُو نے بھڑوے؟ اگر تو نے بیوی کی گردن نہیں اتارنی دلّے، تو اس کی شلوار اتاردے، اس کے یار کو تکلیف نہ ہو!‘‘
سارا مجمع پیرل میں آنکھیں گاڑے کھڑا تھا۔
’’میں اس رنڈی کو نہیں چھوڑوں گا!‘‘ پیرل غیظ و غضب میں گاؤں کی طرف اونچائی پر دوڑا۔
’’وہاں پاد مارنے جا رہا ہے بے گیرت؟ یہ کلہاڑی تیرا باپ لے جائے گا!‘‘ پیچھے سے چاچے علی حیدر کی ابلتی آواز آئی۔
وہ پلٹا اور کلہاڑی ہاتھ میں کی، دیوانہ وار ٹیلے کی طرف جاتے غائب ہوگیا۔ اوپر گوٹھ والوں میں سے کچھ نے چیخوں کی آواز سنی۔ مجمع برگد تلے جما رہا۔ کچھ دیر میں پیرل خون پسینے میں نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھ میں کلہاڑی جھول رہی تھی۔
’’شاباش!‘‘ چاچا علی حیدر اس کی طرف دوڑا۔ اس نے لاٹھی پھینک کر پیرل کا ماتھا چوما۔ ’’یہ ہوا مردوں والا کام۔ چلو ڑے، سارے تھانے چلتے ہیں،‘‘ اس نے سارے مجمعے کو پکارتے کہا۔ ’’اڑے فضل، یہ
اپنی پگ اتار کر دے۔‘‘
چاچے علی حیدر نے میاں محمد فضل سے اس کی بوسکی کی پگ لی اور بندھی حالت میں پیرل کے سر پر جمادی۔
’’آج تُو مونچھ اوپر کر کے چل۔ شاباش! آگے چل ہمارے آگے!‘‘ چاچے علی حیدر نے اپنے ہاتھ سے پیرل کی مونچھوں کے کونے سنوارتے بچھو کے ڈنک کی طرح اوپر کردیے۔
پیرل کے دائیں بائیں چاچا علی حیدر اور میاں محمد فضل اور پیچھے پورا مجمع تھا۔ اس کی مونچھ کے بالوں میں اٹکا ایک خون کا قطرہ لرزے جا رہا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.