کہانی کی کہانی
’’یہ کچھ دوستوں کی کہانی ہے، جو معمول کے مطابق ملتے ہیں۔ جس دوست کے یہاں وہ لوگ ملتے ہیں وہاں چار کرسیاں رکھی ہوئی ہیں۔ وہ چاروں کرسیاں اس دیوار کے نیچے رکھی ہیں جس پر وقت بتانے کی گھڑی ٹنگی ہوئی ہے۔ اس گھڑی کی دو ریشمی ڈوریاں ہیں اور ان میں ایک ڈوری ایک دوست پکڑ لیتا ہے، کہ وہ ڈوری کھینچ کر وقت کو روک دینا چاہتا ہے۔ اس کے باقی سارے دوست اسے ڈوری سے کھینچنے روکنے کے لیے منع کرتے ہیں اور طرح طرح کی دلیلیں دیتے ہیں۔‘‘
وقت، تاریخ، دن اور سال۔۔۔
ان میں صرف وقت کی ڈوروں کا سرا ہمارے ہاتھوں میں تھا جسے ہم نے مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا ورنہ ریشمی ڈوریاں بہت آسانی کے ساتھ ہمارے ہاتھوں سے پھسلتی رہیں اور ہم ان کے نشانات کو البم میں سجا سجا کے خوش ہوتے رہے۔
کرسیاں چار تھیں، ان کرسیوں پر ناموں کی تختیاں نہیں تھیں، جو پہلے آتا وہ اپنی پسند کی کرسی پر پہلے بیٹھتا۔۔۔ پھر ظاہر ہے جو آخر میں آتا اسے آخری کرسی نصیب ہوتی۔
کمرے کی سجاوٹ اور بناوٹ میں خاص بات یہ تھی کہ اس میں سجاوٹ والی کوئی بات ہی نہیں تھی۔ چاہے وہ چیز کتنی ہی پرانی کیوں نہ ہو گئی ہو اور چاہے اس کا زاویہ نگاہ کتنا ہی فرسودہ کیوں نہ ہو گیا ہو، جو چیز جیسی تھی، بس ویسی ہی رکھی ہوئی تھی۔
یہی تو کمرے کی خصوصیت تھی، ساتھ ہی انفرادیت بھی۔
پرانے قدیم صوفے، پرانے رنگوں سے مزین قالین، قدیم انداز کے پردے، دیواروں پر پشتوں سے چلی آ رہی تصویریں، پرانے انداز کا بک شیلف جس میں صرف کلاسیکی کتابیں، چھت پر لٹکا ہوا خاندانی فانوس اور کاٹھ سے بنے اور کڑھے پھولوں سے مزین پنکھے۔۔۔
پلیٹ، پیالے، چمچے، گلاس وغیرہ اتنے پرانے کہ ان پر ہاتھ لگاتے ہوئے احتیاط سے کام لینا پڑتا۔
ان سب میں سونے پر سہاگہ وہ خادم جو کمرے کی دیکھ بھال اور مہمانوں کی خاطر مدارات کے لئے مقرر تھا۔ اٹھارہویں صدی کا ایک نمونہ، بادشاہ میاں یہ بادشاہ میاں بھی خوب چیزیں، نہ روتے نہ ہنستے، بس اپنے کام سے کام جو کہو اس پر فوراً عمل، جو مانگو وہ فوراً حاضر۔ یوں دیکھنے میں قرون وسطیٰ کے کسی خوابیدہ محل کے خواجہ سرا لگتے، لیکن حکم پر دوڑنا وہ خوب جانتے۔
بھاری لمبا لبادہ، بے ترتیب داڑھی، آنکھوں میں گندہ پانی، سر کے بال اگر ہوں گے بھی تو اونچی کلغی دار ٹوپی کی پناہ میں تھے۔
’’یار، یہ خادم بھی تم نے خوب چن کر رکھا ہے۔ جیسے بچوں کی تصویروں والی کتاب سے کوئی تصویر اچانک گر پڑی ہو۔۔۔‘‘
’’نہیں تو یہ پرانی چیزیں کب کی ختم ہو چکی ہوتیں۔ تم تو جانتے ہو ہم آہنگی کتنی ضروری چیز ہے۔‘‘
کمرے کی سب سے اہم چیز وہ گھڑی تھی جو تھی تو بہت پرانی لیکن اطلاع ہمیشہ نئے وقت کی دیتی، لکڑی کے ایک بڑے قد آدم فریم میں مزین، جلی حروف میں ہندسے، درمیان میں ایک بڑا سا گھنٹہ جس پر وقت کے اعتبار سے ایک ہتھوڑا اٹھتا اور ایک زور دار آواز کے ساتھ پڑ جاتا۔ کمرہ ہی نہیں بلکہ ساری فضا گونج اٹھتی۔ سوئے ہوئے آدمیوں کو بھی وقت کی صحیح اطلاع مل جاتی۔
گھڑی ٹھیک اسی دیوار پہ ٹھہر سی گئی تھی جس کے ساتھ چار کرسیاں لگی تھیں، اس کی پشت سے ریشم کی ایک ڈوری لٹکتی، جسے کھینچ کر اس کے وقت کو آگے پیچھے، صحیح غلط کیا جا سکتا تھا۔ ایک ہلکی سی جنبش سے وقت کی رفتار کو روکا بھی جا سکتا تھا۔ ریشم کی یہ ڈوری کسی نہ کسی ایک کرسی کے پاس آ جاتی، اس طرح وہ بڑی آسانی سے ایک مخصوص کرسی والے کے قبضے میں چلی جاتی۔
’’ہم لوگوں نے کبھی یہ سوچا ہے کہ آخر ہم یہاں کیوں اکٹھے ہوئے ہیں؟ زندگی میں ہم اور کوئی اہتمام تو نہیں کرتے؟‘‘
’’بات غور کرنے کی ضرور ہے لیکن ہم نے کبھی اس پر سوچا نہیں۔‘‘
’’کیوں نہیں سوچا؟‘‘
’’بس نہیں سوچا، جس طرح اور بہت سی باتیں نہیں سوچیں، اس طرح۔۔۔‘‘
’’تو گویا یہ بھی ہماری عادت بن چکی ہے؟‘‘
’’جب کوئی چیز عادت بن جاتی ہے تو اس پر ہمارا کوئی اختیار نہیں ہوتا جیسے۔۔۔ جیسے۔۔۔‘‘
’’جیسے جینا۔۔۔ جیسے مرنا۔۔۔‘‘
’’بالکل صحیح کہا تم نے، ایک بات اور۔۔۔‘‘
’’کیا۔۔۔؟‘‘
’’عادتیں ہماری شخصیت کا ایک حصہ کیوں بن جاتی ہیں۔‘‘
’’عادتیں شخصیت کا ہی ایک حصہ ہوتی ہیں۔‘‘
’’اس میں صرف یہ ترمیم کر دو کہ عادتیں نہ ہوں تو ہماری زندگی بہک جائے، عادتیں ہی زندگی کو ایک لڑی میں پروئے رہتی ہیں، انہیں خاص نقطوں پر مرکوز رکھتی ہیں۔‘‘
’’کبھی کبھی ہم ایسی عادتیں بھی اختیار کر لیتے ہیں، جن کا ہمیں پتہ بھی نہیں ہوتا، ہمیں محسوس بھی نہیں ہوتا کہ انجانے میں ہمارے ساتھ کون سی شئے چمٹ گئی ہے۔‘‘
’’بادشاہ میاں، ذرا پانی لانا اور ہاں دیکھنا وہ ذرا۔۔۔‘‘
’’یار، یہ بادشاہ میاں بھی۔۔۔‘‘
’’کیا ہوا۔۔۔؟‘‘
’’یہی کہ یہاں کی جگہ ہم کہیں اور مل بیٹھیں اور بادشاہ میاں اچانک وہاں پہنچ جائیں تو انہیں دیکھ کر ہم سب بھاگ کھڑے ہوں، واقعی تم نے ہم آہنگی پیدا کی ہے۔ مانتا ہوں استاد تمہیں۔‘‘
’’تم نے دیکھا، میرے حصے میں اس وقت کون سی کرسی آئی ہے؟‘‘
’’کیا ہوا۔۔۔؟ اس میں خاص بات کیا ہے؟‘‘
’’کوئی خاص بات نہیں۔‘‘
’’تم اسے اتنی اہمیت کیوں دے رہے ہو، یہ کرسی پچھلی بار میرے حصہ میں آئی تھی، ہو سکتا ہے آئندہ پھر آئے اور جو اس وقت میرے پاس ہے وہ۔۔۔‘‘
’’تم نے اگر ہمت نہیں دی تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے ناکہ کرسی کی اہمیت کم ہو گئی یا۔۔۔‘‘
’’چلو مان لیا کہ اس کی اہمیت سے صرف تم ہی واقف ہو، پھر۔۔۔؟‘‘
’’اس ریشمی ڈوری کو دیکھ رہے ہو نا؟‘‘
’’ابھی تک میری آنکھوں میں چمک ہے اور میں تاریکی میں بھی دیکھ سکتا ہوں۔‘‘
’’تم نے تو اجالے میں بھی کچھ نہیں دیکھا اور نہ تم اس قدر۔۔۔‘‘
’’ذرا ٹھہرو۔۔۔ بادشاہ میاں ذرا یہاں آنا۔۔۔ کیا پکایا ہے؟‘‘
’’کباب، کوفتے، مرغ، باقر خوانی، پلاؤ، قورمہ۔۔۔ اور۔۔۔‘‘
’’بس ٹھیک ہے، لیکن اس کا خیال رہے کہ نمک مصالح وغیرہ ٹھیک ٹھیک ڈالے جائیں۔ ‘‘
’’حضور اس سے قبل شکایت کا موقع ملا ہے کیا؟‘‘
’’اسی لیے تو کہہ رہا ہوں کہ آئندہ بھی ایسا نہ ہو، ہم لوگ سال بھر میں ایک ہی بار ایسا کھانا کھاتے ہیں نا۔۔۔‘‘
’’حضور یہ عمر کھانا پکانے اور کھلانے میں گزری ہے۔ اب نہ وہ دکھانے والے نہ کھلانے والے۔۔۔‘‘
’’اور نہ پکانے والے۔‘‘
’’صحیح فرمایا۔ ان آنکھوں نے تو ایسی ایسی ہستیاں دیکھی ہیں حضور کہ ایک نوالے سے خوش ہوکر پوری جائیداد بخش دی، پورا مکان دے دیا۔ کھانے کے شوق میں زمینداریاں ختم ہو گئیں، اب کہاں وہ لوگ۔۔۔‘‘
’’بادشاہ میاں، پھر آپ نے کتنی جائیدادیں بنائیں، کتنے مکانات۔۔۔؟‘‘
’’حضور میں تو باکمالوں کی بات کر رہا ہوں، میں کہاں کا۔۔۔ اپنی آنکھوں نے ایسی ہستیوں کو دیکھ لیا۔ یہی بہت ہے۔‘‘
’’اور اب آپ ہمیں دیکھ رہے ہو، کیوں؟‘‘
’’حضور کیا کہوں، بس انقلابات ہیں زمانے کے۔‘‘
’’میں ریشم کی ڈوری کو بائیں کھینچ رہا ہوں۔۔۔‘‘
’’ارے یہ کیا کر رہے ہو؟ جانتے ہو اس کا نتیجہ؟‘‘
’’نہ۔۔۔ نہیں جانتا، تم بتاؤ۔۔۔‘‘
’’بھلا اتنی سی بات تم نہیں جانتے۔؟‘‘
’’تم بتاتے ہو یا میں ڈوری کھیچوں۔؟‘‘
’’جانتے تو ہوگے ہی لیکن مجھ ہی سے سننا چاہتے ہو تو سنو۔ دائیں طرف کھینچنے سے وقت کی رفتار بڑھ جاتی ہے اور بائیں طرف کھینچنے سے۔۔۔‘‘
’’رک جاتی ہے۔۔ یہی نا۔۔۔؟‘‘
’’تم تو جانتے ہی ہو۔‘‘
’’لیکن میں ڈوری کھینچوں گا اور ضرور کھینچوں گا۔‘‘
’’کیوں ظلم کرتے ہو؟ ایک یہی چیز تو ہمارے پاس بچ گئی ہے، سو تم اسے بھی برباد کرنے پر تلے ہو؟‘‘
’’ہاں یار۔ تاریخ، دن اور سال تو ہمارے نہیں رہے، ایک یہی وقت بچ جاتا ہے۔‘‘
’’آگے بڑھتا ہوا وقت کہو۔۔۔‘‘
’’بالکل اور پھر تمہارا اس میں فائدہ کیا ہے؟‘‘
’’فائدہ؟ ہر کام فائدہ ہی کے لئے تو نہیں کیا جاتا۔ تم کمرہ فضا اور خادم کے ذریعہ وقت کی ڈوری کو جانے بوجھے بغیر پکڑے ہوئے ہو، اس لیے تمہارے ہاتھوں میں کچھ آ رہا ہے کیا۔‘‘
ہم نے ایک خاص وقت، دن، تاریخ اور سال میں جو ابتدا کی تھی کیا اس کی یادگار باقی رکھنے کا حق نہیں ہے ہمیں اور پھر تم کون سے غیر ہو۔ کیا تمہارا جی نہیں چاہتا کہ۔۔۔‘‘
’’میراجی تو بس یہی چاہ رہا ہے کہ اس ریشمی کو کھینچ ہی دوں۔‘‘
’’میں تمہیں ایسا نہیں کرنے دوں گا۔‘‘
’’میں ایسا کروں گا۔ تم کون ہوتے ہو مجھے روکنے والے؟‘‘
’’میں کون ہوتا ہوں؟ بتاؤں میں کون ہوتا ہوں؟‘‘
’’زیادہ اچھل پھاند کی تو جو کام میں اگلے لمحے کرنے والا ہوں، وہ ابھی کر گزروں گا۔‘‘
’’تم ایسا کر کے تو دیکھو۔‘‘
’’ہا ہا ہا۔ تم مجھے روکوگے؟ کیا واقعی تم مجھے روک لوگے؟‘‘
’’اور نہیں تو کیا۔ تم اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو بڑے تیس مار خاں۔۔۔‘‘
’’کیا یہ تمہارے خاندان کے کسی بزرگ کا اسم گرامی ہے؟‘‘
’’بہت ہو گیا اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتا، میں ابھی بتاتا ہوں؟‘‘
’’چپ چاپ بیٹھ جاؤ پیارے، تم مجھے کچھ نہیں بتا سکوگے کیونکہ تمہیں اس وقت صرف بادشاہ میاں یاد ہیں، جنہوں نے کباب بنائے ہیں، کوفتے۔۔۔پلاؤ۔۔۔ مرغ۔۔۔‘‘
’’کھانے پر ہاتھ صاف کرنے میں سب سے آگے، لیکن اس وقت تو یوں کہہ رہے ہو جیسے آج تک ستو چوکھے ہی پر تو گزارا کرتے رہے ہو؟‘‘
’’بھوک کا فلسفہ یہ ہے کہ ایسی حالت میں سوکھے چنے اور ٹھنڈا پانی بھلا، لیکن بات یہ ہے کہ تم کیا جانو تمہارے سر تو۔۔۔‘‘
’’ارے چھوڑو یار تم لوگ تو سچ مچ لڑنے لگے۔لڑنے کے لئے یہی وقت بچ گیا ہے کیا؟‘‘
’’تم اسے کچھ نہیں کہتے؟ میں لڑ رہا ہوں؟ تم اسے روک نہیں سکتے؟‘‘
’’ارے ارے، تم تو مجھ سے بھڑ گئے۔ اس طرح ہم لوگ آپس ہی میں لڑتے رہیں گے تو پھر۔۔۔ بھلا چار آدمی بھی سکون کے ساتھ ایک جگہ بیٹھ نہیں سکتے، کمال ہے۔۔۔‘‘
’’کیوں نہیں بیٹھ سکتے؟ آخر آج تک تو بیٹھتے ہی آئے ہیں، شوشہ تو اس نے چھوڑا، یہ کرسی تو ہمارے حصہ میں بھی آئی تھی اور ڈوری ہم بھی کھینچ سکتے تھے۔۔۔‘‘
’’یہ تمہاری پرابلم ہے، تمہیں موقع ملا، تم نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا تو میں کیا کر سکتا ہوں۔‘‘
’’تو تم ڈوری کھینچ کر رہوگے۔‘‘
’’بالکل۔‘‘
’’لیکن میں تمہیں ایسا نہیں کرنے دوں گا۔‘‘
’’تم میں طاقت ہو تو روک لو۔‘‘
’’تو تم صرف طاقت ہی کی زبان سمجھوگے، کیوں؟‘‘
’’میں کیا دنیا سمجھتی ہے۔ لاٹھی جس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے، بھینس اسی کی ہوتی ہے نا۔‘‘
’’دیکھو مجھے مجبور نہ کرو۔ تم نے میری طاقت کا اندازہ نہیں لگایا ہے۔‘‘
’’ہاہا ہا۔۔۔ سال کا سب سے اچھا جوک، یعنی تم بھی کچھ ہو اور تمہاری طاقت بھی۔۔۔ ہا ہا ہا۔۔۔‘‘
’’سنو، تم مجھے دیکھ رہے ہو نا، اس پر نہ جاؤ، میں کیا کہوں، تمہیں کیا پتہ؟‘‘
’’تم کیا ہو پیارے؟ ذرا بھی مجھے بتاؤنا، کم از کم میں اپنے بچوں کو تو ڈرا سکوں۔‘‘
’’یہ میرا کس طرح مذاق اڑا رہا ہے اور کوئی کچھ نہیں بولتا۔‘‘
’’تم نے خود ہی اسے مذاق اڑانے کا موقع دیا۔ جب تم وہ نہیں ہو تو پھر دعویٰ کرنے سے حاصل۔‘‘
’’کیا میرے پاس میرا کوئی ماضی نہیں؟‘‘
’’نہیں۔۔۔ تمہارا ماضی تمہارے گلے میں لٹکی تعویذ کے اندر بند ہے اور تمہاری تعویذ بلا شبہ بہت خوبصورت ہے۔‘‘
’’نہیں بھائی میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں وہی کہہ رہا ہوں، اظہار حقیقت کا نام اگر مذاق اڑانا ہے تو میں اس کا مجرم ضرور ہوں۔‘‘
’’میں تنہا ہوں اس لیے میں اپنے آپ کو ہر طرح سے کمزور و نادار سمجھوں؟‘‘
’’ایسی بات نہیں، لیکن اپنے آپ کو یا اپنی بات کو منوانا بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔‘‘
’’اس کا مطلب یہ تو نہیں ہوتا کہ بھرے بازار میں مداریوں کی طرح کرتب دکھائے جائیں۔ اپنے آپ کو اپنی ذات کے اندر سمیٹ لینے سے ہمیں تشفی ہوتی ہے۔‘‘
’’تو پھر جو کچھ ہو، اس پر اکتفا کرو۔‘‘
’’بات تم نے چھیڑی تھی۔ یہ ضد تمہاری تھی کہ ڈوری ضرور کھینچوں گا۔‘‘
’’میں تو ابھی ابھی اپنی بات پر قائم ہوں۔ کرسی میرے حصے میں ہے اور ڈوری میرے ہاتھوں میں، پھر میں کیو ں نہ اسے کھینچوں؟‘‘
’’چھوڑو یار، کیا فائدہ، تمہاری ضد سے یہ بھڑک اٹھتا ہے، ختم کرو۔‘‘
’’وہ کیوں نہیں؟ میں تو اپنے اختیار کا استعمال ضرور کروں گا۔‘‘
’’اس میں اختیار کا کیا استعمال؟ ہاں اسے روکنے میں ضرور اس کا استعمال ہو سکتا ہے۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے تم بھی اس کا ساتھ دوگے؟‘‘
’’یہ تو میں نے نہیں کہا، لیکن فضا کو مکدر کرنے سے کیا فائدہ۔۔۔ تمہارا اس میں کوئی فائدہ بھی تو نہیں۔‘‘
’’فائدہ اگر صرف پیٹ میں روٹی پہنچ جانے اور تن پر دھاگے لپیٹ لینے کو کہتے ہیں تو پھر شاید تم صحیح کہہ رہے ہو۔‘‘
’’پھر تم ہی بتاؤ، اس میں کیا فائدہ ہے؟‘‘
’’تمہیں کچھ نظر نہیں آتا؟‘‘
’’نہیں، مجھے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ ایک ساتھ اور پرانا دوست ناراض ہو رہا ہے اور بس۔‘‘
’’اس سے پوچھو، یہ کیوں ناراض ہو رہا ہے؟‘‘
’’تم آگے بڑھتے وقت کی رفتار کو محض اپنی ضد کے کارن روک دینا چاہتے ہو۔۔۔‘‘
’’ اس سے پوچھو کہ اس بات سے صرف یہی کیوں ناراض ہو رہا ہے؟
آخر تم بھی تو ہو یہاں پر اور تم بھی۔۔۔‘‘
’’ہم کیوں پوچھیں تم ہی پوچھ لو۔‘‘
’’صاف ظاہر ہے کہ کہیں نہ کہیں سے کوئی مفاد ضرور پوشیدہ ہے۔‘‘
’’لیکن بھائی اگر تم ہی اپنی ضد سے باز آ جاؤ تو کیا حرج ہے؟‘‘
’’نہ۔۔۔ مجھے وقت نے یہ موقع دیا ہے، میں اس سے فائدہ ضرور اٹھاؤں گا۔‘‘
’’جس وقت نے تمہیں یہ موقع دیا۔ تم اسی کو روک دینا چاہتے ہو؟‘‘
’’اسی کی رفتار کو۔۔۔‘‘
’’اس وقت نے تمہیں بھی یہ موقع دیا تھا۔‘‘
’’لیکن ہم اس کے لئے شرمندہ نہیں۔‘‘
’’اور میں اس کے لئے شرمندہ ہونا نہیں چاہتا۔‘‘
’’دیکھو یار، بیکار کی ضد چھوڑو اور پرسکون ماحول میں ہمیں وقت گزارنے دو۔‘‘
’’بس تو میں ڈوری کھینچتا ہوں، تم پرسکون ماحول کا انتظار کرو۔‘‘
’’آخر تمہیں ضد کیوں ہے؟ تم ڈوری کھینچ کر اپنی کون سی تشفی کرنا چاہتے ہو؟‘‘
’’تاکہ یہ بات سب کو معلوم ہو کہ کرسی میرے حصے میں آئی تھی اور ریشم کی ڈوری میرے قبضہ اختیار میں تھی۔ یہ معاملہ تشخص کا ہے، تمہاری سمجھ میں اگر یہ چھوٹی سے بات نہیں آتی تو میں کیا کروں؟‘‘
’’تشخص؟ کیا کہہ رہے ہو، تم نے اتنی بڑی بات سوچ لی؟‘‘
’’یہی چھوٹے چھوٹے واقعات آپس میں مل کر ایک بڑا واقعہ بنتے ہیں۔ ایک بڑا قومی نشان، جو آگے چل کر ہمارے تشخص کی شکل اختیار کرتا ہے۔‘‘
’’پتہ نہیں تمہارے دماغ نے اس وقت کون سے جال میں تمہیں جکڑ رکھا ہے۔ وقت کی رفتار رک جائےگی اور ہم یہاں گھٹ کر مر جائیں گے۔ آگے بڑھتا ہوا وقت ہمیں وہ روشنی عطا کرتا ہے، جس سے ہمارے اندر کی تاریکی دور ہو جاتی ہے۔‘‘
’’آنے والا وقت تو ایک بند مٹھی ہے، ہم کچھ نہیں جانتے کہ اس کے اندر کیا ہے۔ ہمارا سب سے بڑا سرمایہ ماضی ہے۔‘‘
’’تو تم نے بہت پہلے یہ باتیں سوچ رکھی تھیں؟‘‘
’’یہ باتیں میں نے اس وقت سوچی تھیں جب۔۔۔‘‘
’’لیکن یار، یہ محض اتفاق ہی ہے ناکہ یہ کرسی اس وقت تمہارے حصہ میں آ گئی، نہیں بھی آ سکتی تھی، پھر تمہاری سوچ کا کیا ہوتا؟‘‘
’’میں انتظار کرتا۔ آخر اتنے دن انتظار ہی تو کرتا رہا۔‘‘
’’واہ بھائی، تو تو بڑا تیز ہے، تو ہم لوگوں کے ساتھ کھاتا پیتا، گپ شپ، تفریح کرتا رہا، ساری مصروفیات میں آگے آگے، لیکن سوچتا بھی رہا اندر اندر ہم لوگ اپنے آپ کو اس وقت کتنا احمق محسوس کر رہے ہیں۔‘‘
’’تو تم بھی اس کے قائل ہو گئے۔‘‘
’’نہیں ایسی بات نہیں، لیکن تم خود دیکھو کہ یہ کتنا گہرا ہے۔‘‘
’’یہ تو تم لوگ دیکھو۔ ایک غلط بات کو اتنے دنوں اپنے اندر لیے بیٹھا تھا اور تم لوگ ہو کہ۔۔۔‘‘
’’میں نے کہا نا، میں یہ ریشمی ڈوری ضرور کھینچوں گا، بہتر ہے تم لوگ اس مسئلے پر متفق ہو جاؤ اور مجھے ایسا کرنے سے روکو نہیں۔‘‘
’’متفق ہو جائیں؟ تمہارے کہنے پر متفق ہوجائیں، یہی طریقہ ہے اپنی بات منوانے کا، جو تم کہو، وہ صحیح، جو ہم کہیں۔۔۔‘‘
’’آپ برائے مہربانی چپ رہئے۔ میں تو ان لوگوں سے کہہ رہا ہوں جو اپنے آپ کو بھول کر تمہاری حمایت کے لئے اپنے آپ کو مجبور پا رہے ہیں۔‘‘
’’نہیں یہ بات غلط ہے۔ ہم ہمیشہ سے ایک ہیں اور ایک رہیں گے۔ افسوس ہے کہ ایک ساتھ اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے والے کے ساتھ بھی تمہارا یہ رویہ ہے۔‘‘
’’اس سے آپ یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ اسے کیا تکلیف ہے۔ یہ تو خود ہی درمیان میں کود پڑا۔‘‘
’’بات تو سامنے کی ہے ہم لوگ اکیسویں صدی کے دروازے پر کھڑے ہیں اور تم ہو کہ وقت کی رفتار ہی کو روک دینا چاہتے ہو۔ کیا یہ ظلم نہیں؟‘‘
’’یہ تو آپ کی بات رہی، لیکن اس کے دل میں تو یہ بات نہیں۔‘‘
’’تو پھر کیا ہے میرے دل میں؟‘‘
’’بتا دوں؟‘‘
’’ضرور۔ ذرا میں بھی تو اپنے دل کا حال جانوں۔‘‘
’’تمہیں ڈر ہے کہ تشخص کے سامنے تمہارا تشخص چھپ نہیں جائےگا حالانکہ یہ ایک فطری بات ہے۔ بڑے اور مضبوط تشخص کے سامنے چھوٹا اور کمزور تشخص دب ہی جاتا ہے۔‘‘
’’چلو، تم نے یہ مان تو لیا کہ ہمارا بھی کوئی تشخص ہے۔‘‘
’’ہر چیز کی اپنی ایک حقیقت ہوتی ہے اور میں حقیقت کو تسلیم کرتا ہوں، تمہاری طرح اسے جھٹلاتا نہیں۔‘‘
’’اب بادشاہ میاں کو بلایا جائے، اتنی باتیں ہو گئیں، اب بھوک لگنے لگی ہے۔‘‘
’’ہاں، ہاں ضرور لیکن یاد رکھنا، ریشمی ڈوری میرے ہاتھوں میں چھوٹے گی نہیں۔‘‘
’’پہلے پیٹ پوجا ہو جائے پھر دیکھیں گے۔‘‘
’’میرا خیال ہے بھوک کو دو آتشہ بنانے کے لئے کچھ شغل کر لیا جائے، کسی کو اعتراض تو نہیں۔‘‘
’’نہیں اعتراض کیوں ہوگا۔ تم تو یوں دریافت کر رہے ہو جیسے۔۔۔‘‘
’’میں نے سمجھا، بدلے ہوئے حالات جو شاید۔۔۔‘‘
’’اب ایسا بھی نہیں کہ ہم لوگ اپنی روایت سے ہٹ جائیں۔ بادشاہ میاں تو اونگھ رہے ہیں۔
ایسا نہ ہو کہ وہ تصویروں والی کتاب میں واپس چلے جائیں۔‘‘
’’بھئی بادشاہ صاحب، ذرا گلاس لائیے، سوڈے اور برف بھی اور ہاں، آپ کے پاس ہے کیا اس وقت؟‘‘
’’حضور جو چیز بھی ہے، آپ کی طبیعت خوش ہو جائےگی، ہم لوگ بڑے لوگوں کی خدمت ہی کرتے آئے ہیں، ان کے مزاج کو خوب پہچانتے ہیں۔۔۔‘‘
’’اچھا تو پھر لے آئیے اور کھانا بھی تیار ہی رہے، ہم لوگ اس کے بعد فوراً کھانا طلب کریں گے۔‘‘
’’تیار ہے حضور، بالکل تیار ہے، ہم بڑے لوگوں کے بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں کہ کب ان کا مزاج کیا چاہتا ہے اور کب وہ کیا چیز طلب کرتے ہیں۔‘‘
’’ہاں، یہ بات تو ہے۔ بادشاہ میاں نے کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا، ان سے اچھا خادم ہمیں مل ہی نہیں سکتا ہے۔‘‘
’’سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ یہ ہمارے مزاج کو پہچانتے ہیں۔‘‘
’’تو جائیے بادشاہ میاں، جلدی سے سامان سَرو کیجئے۔‘‘
’’یار تم لوگ بادشاہ میاں سے یہ سیوا بھی لیتے ہو، کمال ہے؟‘‘
’’سب چلتا ہے یار، آخر وہ ایک تنخواہ دار ہیں، وہ سیوا ہی کے تو پیسے لیتے ہیں۔‘‘
’’پھر بھی۔۔۔ SENTIMENT کا خیال رکھنا چاہئے۔‘‘
’’SENTIMENT؟ جذبات کی سلگتی ہوئی ٹکیوں پر جب پیسوں کی سل رکھ دی جاتی ہے نا تو ساری آگ سرد ہو جاتی ہے، سمجھے۔‘‘
’’ہو سکتا ہے۔۔۔ تمہیں زیادہ تجربہ ہوگا۔‘‘
’’بھائیو۔ تیار ہو جاؤ، میں ڈوری کھینچ رہا ہوں۔‘‘
’’ارے ذرا ٹھہرو تو یار! تمہاری ضد بھی خوب ہے، مرغے کی بس وہی ایک ٹانگ، پہلے کھانا تو کھالو، پہلے آتما، پھر پرماتما۔۔۔‘‘
’’چلو اتنا CONCESSION مجھ سے لے لو۔‘‘
’’اس میں تمہارا پیٹ بھی بھرےگا اس لیے ورنہ کس کو۔۔۔‘‘
’’تمہاری بات تسلیم۔ اب جلدی سے کھانا منگواؤ، بھوک بھی چمک اٹھی ہے۔‘‘
’’یہاں پر؟ نہیں اس کے لئے ڈائننگ ہال۔۔۔‘‘
’’لیکن ہم تو سب کام یہیں پر انجام دیتے ہیں، یہ ڈائننگ ہال کہاں سے آ ٹپکا؟‘‘
’’بات یہ ہے کہ بادشاہ میاں نے اتنے آئٹم تیار کر دیئے ہیں کہ یہ چھوٹا ٹیبل ان سب کے لئے ناکافی ہے، اس لیے ہم نے سوچا۔۔۔‘‘
’’تم نے یا تم لوگوں نے اکیلے یہ بات کیوں سوچ لی، اب تک تو یہی ہوتا آیا ہے کہ۔۔۔‘‘
’’یہ تم کہہ رہے ہو؟ تم خود تنہا ایک بات کو پکڑ کر بیٹھے ہو۔‘‘
’’تم کیسے یہ بات کہہ سکتے ہو۔‘‘
’’تم چپ رہو جی، ہماری بات دوسری ہے، میں نے مایوس ہی ہوکر تو یہ ضد پکڑی ہے۔ پھر اس قسم کے کام میں اگر اتفاق رائے کا انتظار کیا جائے تو اتفاق رائے کبھی نہ ہوگا اور آخر میں کسی کی ضد ہی سے کام چلےگا۔‘‘
’’بادشاہ میاں کھانا لگائیے۔‘‘
’’لیکن یہیں پر۔ زیادہ چیزوں کے لئے الگ ٹیبل بھی تو لگایا جا سکتا ہے، اس طرح ہم روایت سے انحراف بھی نہیں کریں گے اور۔۔۔‘‘
’’یار ہر بات میں تمہیں ضد کیوں ہو جاتی ہے۔‘‘
’’پہلے کھانا، پھر باتیں۔۔۔‘‘
’’بادشاہ میاں نے کھانا تو بہت مزیدار بنایا ہے، واہ، مزہ آ گیا۔۔۔‘‘
’’ان لوگوں کے ہاتھوں کا کھانا۔۔۔کیا بات ہے، اس لیے تو سب بڑے باورچی خانوں میں ایک نہ ایک بادشاہ میاں ضرور ہوتے ہیں۔‘‘
’’ہاں بھائی ہم پکاتے جائیں، تم کھاتے جاؤ۔‘‘
’’واہ لطف آ گیا، اگر سال میں ایک بار بھی ایسا کھانا مل جائے تو پورا سال بنا کھائے بھی رہا جا سکتا ہے۔‘‘
’’بادشاہ میاں مر گئے تب کیا ہوگا؟‘‘
’’کوئی دوسرے بادشاہ میاں مل جائیں گے۔ ایسے بادشاہوں کی کوئی کمی ہے کیا؟‘‘
’’اچھا بھائی، اب تو پوجا بھی ہو گئی اب تو۔۔۔‘‘
’’کیوں بھائی اگر تم اپنی ضد چھوڑ دو تو تمہارا کچھ بگڑ جائےگا کیا۔ مجھے تو ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں اس کے سبب ہم لوگوں کی آج میٹنگ آخر نہ ثابت ہو۔‘‘
’’بات ضد کی نہیں بلکہ۔ اب بار بار ایک ہی بات کہنے سے کیا حاصل، بس یہ سمجھ لو کہ مجھے یہ کام کرنا ہے اور ہر حال میں کرنا ہے۔‘‘
’’تو تم بھی سن لو کہ میں تمہیں کسی حال میں بھی یہ کام نہیں کرنے دوں گا۔‘‘
’’بھائی تم چپ رہو۔ ہاں تو مائی ڈیر تم ڈوری ضرور کھینچوگے؟‘‘
’’بالکل۔‘‘
’’تمہیں ایسا نہیں لگتا کہ اگر یہ روایت بن گئی تب کیا ہوگا، کرسی تو آج تمہارے حصے میں آئی ہے، کل اس کا آنا ضروری نہیں۔‘‘
’’روایت جب تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے تو پھر زمانہ اس کا محافظ ہوتا ہے، ہمیں اس فکر میں گھلنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
’’تاریخ کا کام اگر روایتوں کی حفاظت کرنا رہ گیا تو پھر ہم تاریخ کو۔۔۔‘‘
’’تو پھر تاریخ اور کس کو کہتے ہیں؟‘‘
’’یہ صرف روایتو ں کا پلندہ تو نہیں۔ تاریخ تو عبرت حاصل کرنے کا اعمال نامہ ہے۔ تاریخ کا ادراک یوں پیدا نہیں ہوتا بلکہ۔۔۔‘‘
’’تقریر کرنے کی ضرورت نہیں۔ تاریخ کے بارے میں کچھ جانکاری میں بھی رکھتا ہوں۔‘‘
’’جانکاری نہیں پیارے، نقطہ نظر کہو۔ تم جانکاری رکھتے تو کبھی یہ رویہ اختیار نہیں کرتے۔‘‘
’’تاریخ میں کون لوگ زندہ رہتے ہیں؟ وہی نا جو اپنی چھاپ چھوڑ جاتے ہیں؟‘‘
’’میرے ایک سوال کا جواب دو۔ ہٹلر بھی تاریخ کا ایک حصہ ہے اور گاندھی بھی ایک تاریخی کردار ہے۔ دونوں میں فرق ہے کچھ؟‘‘
’’بے شک فرق ہے۔ وہی جو ایک بہادر اور بزدل میں ہوتا ہے۔‘‘
’’پھر تو تاریخ تمہارے لئے ردی کاغذوں کا پلندہ ہی ہے جس سے تمہیں کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’میں اپنی تاریخ خود بناؤں گا۔ میں ڈوری کھینچ رہا ہوں۔‘‘
’’تم ڈوری نہیں کھینچ سکتے۔‘‘
’’اوہ تو تم بھی۔ کیوں تمہیں اس سے کیا تکلیف ہے؟‘‘
’’زیادہ نہیں، بس یہ کہ ہم اپنے ایک ساتھ کو کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتے۔‘‘
’’اتنی معمولی سی بات کے لئے تم اپنے تشخص کو قربان کر دوگے۔‘‘
’’تشخص؟‘‘ تم جس چیز کی بات کر رہے ہو نا، وہ محض ایک انفرادی معاملہ ہے تم وقت کی رفتار کو روک کر آنے والی نسلوں کو یہ بتانا چاہتے ہو کہ تم بھی کچھ تھے۔‘‘
’’مانتا ہوں، لیکن کیا میرا انفرادی عمل، قومی تشخص کا ایک حصہ نہیں بن سکتا؟‘‘
’’ہر گز نہیں، کیونکہ پوری قوم اس قسم کے دباؤ کو برداشت نہیں کر سکتی، ناتھو رام گوڈسے نے بھی ایک عمل کیا تھا، آج وہ تاریخ میں موجود ضرور ہے لیکن کہاں پر؟‘‘
’’تم کہنا کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’یہی کہ تم یا تمہارے جیسے لوگ تنہا کچھ بھی نہیں ہیں۔ تمہاری تنہا سوچ پوری قوم کے دھارے کو نہیں موڑ سکتی نہ اسے کوئی دوسری دھارا اختیار کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔‘‘
’’آج یہ کرسی تمہارے حصے میں ہے، کل اس کے حصے میں آئےگی، پرسوں اس کے، پھر میرے، سب اگر تاریخ میں نظریہ سازی پر زور دیتے رہتے تو پھر جانتے ہو، کیا ہوگا؟‘‘
’’کیا ہوگا؟‘‘
’’پہلے یہ پچھڑےگا، پھر تم، پھر یہ، پھر ہم۔۔۔ پھر کچھ نہیں رہ جائےگا۔ سب کچھ فنا ہو جائےگا۔ تاریخ ایک زندہ شئے ہے جو ہماری طرح سانس لیتی ہے۔ یہ زندہ کرداروں کو ہی اپنے یہاں جگہ دے کر محفوظ رکھتی ہے۔‘‘
’’ارے بادشاہ میاں کیا لے کر آ گئے۔‘‘
’’حضور جب بھی لوگ یہاں سے رخصت ہوتے ہیں تو میں یہ گلدستہ ان کی خدمت میں ضرور پیش کرتا ہوں۔‘‘
’’واقعی بہت خوبصورت گلدستہ ہے۔ آپ نے اس میں مختلف رنگوں کی آمیزش کر کے جو یک رنگی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، وہ لاجواب ہے، لو بھائی یہ ریشمی ڈوری چھوڑ کے اس گلدستہ کو تھام لو اور پھر بادشاہ میاں کی کاریگری کے قائل ہو جاؤ۔‘‘
’’بہت خوبصورت، بہت خوشنما۔۔۔‘‘
’’بادشاہ میاں بہت اچھے خدمت گزار ہیں، اچھا تو بادشاہ میاں۔۔۔‘‘
بادشاہ میاں، جلی ہوئی سگریٹوں کے ٹکڑے، خلال کے استعمال شدہ تنکے، جلی ہوئی تیلیاں اور زائل ہوتے ہوئے دھوئیں کے مرغولے اپنے دونوں ہاتھوں سے سمیٹنے لگے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.