نقب
دلچسپ معلومات
’ناظم آباد کے ایک رہائشی کو شک ہوجاتا ہے کہ کوئی اس کے گھر میں نقب لگا کے اس کی جان لینا چاہتا ہے۔۔ہتھوڑا گروپ کے پس منظر میں لکھی گئی
ہوا یوں کہ خلیل بھائی کو کچھ دنوں سے یوں لگا جیسے کوئی ان کے گھر میں نقب لگانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کاخیال تھا کہ ہو نہ ہو کوئی ان کی جان کے درپے ہے۔ یہ بات انہوں نے مجھے میرے گھر انتہائی رازداری سے بتائی اور ان کا یہ بھی خیال تھا کہ ہو سکتا ہے یہ ہتھوڑا گروپ ہو۔
میں نے ان کی پوری بات سنی اور سر نفی میں ہلادیا
’’نہیں نہیں خلیل بھائی، میرا نہیں خیال کہ آپ کا یہ استدلال درست ہے۔ ہتھوڑا گروپ تو مدت بیت چکی اپنے انجام کو پہنچ چکا۔ میرا مطلب ہے کہیں پس منظر میں جا چکا اور ویسے بھی یہ مارشل لا دور کی باتیں تھیں۔ آج کل تو جمہوریت ہے‘‘۔
میں نے ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اپنی بات جاری رکھی
’’خود دیکھ لیں بی بی محترمہ کی حکومت کتنی مظبوط ہے، پہلی بار کی طرح ہچکولوں میں نہیں۔ ان دنوں حالات بھی دوسرے تھے۔ مہاجروں اور پشتون بھائیوں میں تناوبھی بہت تھا، کافی مغالطے تھے جس کا جرائم پیشہ اور ملک دشمن عناصر نے فائدہ اٹھایا اور لوگوں کو۔۔نہیں نہیں خلیل بھائی۔۔ میرا نہیں خیال کہ ایسی کوئی بات ہے‘‘
’’آفاق بھائی مارشل لا کو تو آپ چھوڑ ہی دیں۔ دو ہفتے پہلے تو فوجی بغاوت کی کوشش ناکام ہوچکی ہے اور بغاوت والے صاحب ابھی فوجی کٹہرے ہی میں ہیں اورفسادات، اس کا تو آپ نام ہی نہ لیں۔ ابھی مئی اور جون میں کیا ہوا آپ یہ بھی بھول گئے ؟
برا نہ منائیں آپ بہت ہی خوش گمان قسم کے آدمی ہیں آفاق بھائی۔۔ آپ تو‘‘۔
اپنے بارے میں ان کا اس قدر درست تجزیہ سن کر میں تھوڑا جھینپ گیا۔
مجھے جھینپتے دیکھ کر وہ بھی کھسیانے سے ہوگئے لیکن انہوں نے فورا پینترا بدلا
’’آفاق بھائی مجھے معاف کریں میرا مقصد آپ پر تنقید کرنا ہر گز نہیں تھا۔ ہاں تومیں کیا کہہ رہا تھا آفاق بھائی، میری بات میں صداقت ہے اورمیں بطور ثبوت آپ کو اپنے گھر کی وہ دیوار دکھا سکتا ہوں جہاں اینٹوں سے سیمنٹ اترا ہوا ہے۔ رضیہ سے بھی پوچھ لیں ہم نے خود اپنے ان گناہ گار کانوں سے زور زور سے کھٹ کھٹ کی آوازیں سنی ہیں۔۔ایسے جیسے کوئی کچھ کھود رہا ہو۔ آپ کو تو پتا ہی ہے رضیہ خواب آور دوا کھاتی ہے، اس کے باوجوداس نے رات کے وقت کسی کو یہ بھی کہتے سنا
’’تو کب تک۔۔‘‘
خلیل نے وضاحتی انداز اپنایا
’’تو کب تک؟ کیامطلب؟‘‘
میں نے خود کلامی کے انداز میں ایک طرح کا سوال پوچھ لیا
’’اب میں اس میں کہہ ہی کیا سکتا ہوں، یہ ایک قسم کا کھلا اور نامکمل جملہ ہے شاید مراد ہو تو کب تک بچا رہے گا، یا کب تک تیری سانسیں۔۔ اس طرح۔۔لیکن آفاق بھائی اس کی جو بھی تعبیر کی جائے، نتیجہ میرے حق میں ٹھیک نہیں نکلتا، غلط کہہ رہا ہوں میں؟‘‘
’’نہیں نہیں خلیل بھائی، ایسا نہیں ہو سکتا، یہ نا ممکن ہے‘‘
میں نے ان کی بات کاٹی اور ان کو دلاسہ دیا۔ انہوں نے اپنی دبیز شیشوں والی عینک کی کمانی کا زاویہ درست کرنا چاہا جو پھسل کر گر پڑی۔
’’میں آپ سے مدد اور مشورہ طلب کرنے آیا ہوں، آفاق بھائی۔ یہ ممکن ہے یا نا ممکن یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس وقت کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اپنی دوسری منزل کے کمرے سے میرے گھر کی دیوار کو دیکھیں اور میری صداقت۔۔‘‘
’’خلیل بھائی یقین مانیں مجھے آپ کی بات میں کوئی شک نہیں لیکن مسئلہ کیا ہے کہ آج کل میری دور کی نظر تھوڑی خراب ہے۔ لگتا ہے عینک کا نمبر تبدیل ہونے والا ہے۔۔مجھے دھندلا نظر آتا ہے۔۔میرا خیال ہے ہمیں وہ جگہ خود جا کر دیکھنی پڑے گی، گلی میں جا کر، قریب سے۔۔وہ بھی آج۔۔ ذرا اندھیرا ہوجانے دیں تاکہ کسی کو شک نہ ہو۔‘‘
میں اور خلیل بھائی ریٹائرمنٹ کے بعد نارتھ ناظم آباد میں ایک ہی گلی کے بالکل آخر میں رہتے تھے۔ ملکی حالات سے میں اتنا بے خبر تو نہیں تھا لیکن خلیل بھائی کی بات قدرے درست ہے کہ میری طبعیت پر رجائیت پسندی غالب ہے اور کسی بھی مسئلے کا مثبت پہلو دیکھنا میری اولین کوشش ہوتی ہے۔اس دن مجھے خلیل بھائی کے بیان سے یہ تاثر ملاجیسے ان کو وہم سا ہوگیا کہ کوئی ان کے گھر میں نقب لگارہا ہے اور دیوار میں سوراخ کرکے اس سے گھر میں زہریلی گیس یا کوئی اور مواد پھیلا کر انہیں جان سے مارنے کے درپے ہے۔اگرچہ مجھے ان کے اس مفروضے سے اتفاق نہیں تھا لیکن ان کے اصرار پر بہر حال میں ان کے گھر چلا آیا۔
جب میں اور میری بیگم ان کے ہاں داخل ہوگئے تو ہم نے دیکھا کہ گھر کی حالت ابتر تھی۔
رضیہ بھابھی بھی خاصی گھبرائی ہوئیں تھیں سو میری بیگم نے گلے لگا کرانہیں دلاسہ دیا۔ وہ تو جیسے یکدم پگھل گئیں، ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور رونے لگیں۔
مجھے ان کے خوف کا اندازہ تھا لیکن میں نے اس پورے معاملے کو غیر جذباتی انداز سے دیکھنے کا فیصلہ کیا اور اسے محض ان کا وہم تصور کیا۔سچ پوچھیں تو میرا ذہن ہتھوڑا گروپ والی بات کو ماننے پر تیار ہی نہیں تھا۔ وہ ایسے کہ خلیل بھائی ایک پڑھے لکھے، طبعیتاً صلح جو اور انتہائی غیر متعصب قسم کے آدمی تھے اور ریٹائرمنٹ سے قبل مقامی کالج میں انگریزی پڑھاتے تھے۔ دوسری بات یہ کہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں تھے۔۔ سب سے بنا کے رکھتے تھے۔ مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آئی کہ کوئی کیوں ان کی جان کے در پے ہوگا۔
ہم نے چائے پی اور پھر ارادہ کیا کہ ان کی کوٹھی کی دیوار کا مشاہدہ کریں۔
’’میرا خیال ہے عشا کے بعد کا وقت اچھا رہے گا کیونکہ لوگ تین بٹہ تین دیکھنے میں مصروف ہوں گے اور ہم آسانی سے اس جگہ کا معائنہ کر سکیں گے، کسی کی نظر میں آئے بغیر، کیا خیال ہے ؟‘‘
ہم نے عشا کی نماز جامع مسجد میں پڑھی اور وہاں سے سیدھے گلی میں آگئے۔جہاں ہم رہتے تھے وہ ایک چوڑی گلی تھی اور اس کے دوسری طرف کے نکڑ پر ایک پان کی دکان بھی تھی جہاں چہل پہل رہتی تھی۔
ہم نے انتظار کیا کہ گلی پوری طرح سے سنسان ہوجائے تو ہی دیوار کا مشاہدہ کریں ورنہ پتا نہیں لوگ کیا سمجھ بیٹھیں گے۔ کوئی بات ہوگی بھی نہیں اور مفت میں تشہیر ہوجائے گی۔ اس رات اِکا دکا لوگ تھے لیکن یوں تھا جیسے یہ مستقل وہاں موجود تھے۔ وہ اس لئے کہ اگر کچھ لوگ گلی چھوڑ کر چلے جاتے تھے تو کچھ آ بھی جاتے تھے۔
ہم نے انتظار کیا لیکن جب دیکھا کہ گلی کا مکمل سنسان ہونا تقریبا محال ہے تو خلیل بھائی نے میری طرف دیکھا
’’میرا خیال ہے یہ لوگ ٹلنے والے نہیںآفاق بھائی‘‘
میں نے اثبات میں سر ہلایا اور پھر ہم نے بسم اللہ پڑھ کے دیوار کا جائزہ لینے کا ارادہ کیا جو ایک طرح سے ان کی خواب گاہ کی جنوبی دیوار تھی۔
ابھی ہم اس دیوار کے قریب پہنچے ہی تھے کہ میں نے دیوار میں ائرکنڈیشن کی ابھری پشت اور اس کے اوپر داہنی طرف غسل خانے کا چھوٹا روشندان دیکھا۔
میں نے طنزیہ لہجہ اپنایا
’’خلیل بھائی رہنے دیں انہیں دیوار میں پہلے سے دو بڑے چھید دستیاب ہیں، اتنی محنت کی ان کو کیاضرورت ہے۔۔اوپر دیکھیں۔۔ وہاں‘‘
میں نے دیکھا کہ اس بات سے خلیل بھائی تھوڑے گھبرائے اور شرمندہ بھی ہوئے لیکن پھر بھی انہوں نے تحمل کے ساتھ انتہائی آہستہ آواز میں کہا
’’آفاق بھائی میں سمجھ رہا ہوں آپ کا اشارہ کس طرف ہے لیکن بالفرض وہ تیسرا سوراخ کرنے پر مصر ہوں تو ہم کیا کرسکتے ہیں؟ یہ بھی تو ممکن ہے کہ ان کا زہریلے مواد سے بھرا پمپ وہاں تک نہ پہنچ سکتا ہو۔۔وثوق سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔میرا خیال ہے آپ متفق نہیں ہیں۔‘‘
انہوں نے شک، تردد اور خوف سے آلودہ لہجے میں اپنا نکتہ نظر بیان کیا جو زیادہ وزنی نہیں تھا۔ مجھے ایسا لگا کہ وہ اب بھی ہتھوڑا گروپ والے مفروضے سے مقناطیس کی طرح چپکے ہوئے تھے۔ خیر میں نے ٹارچ پکڑی اور دیوار کا جائزہ لینا شروع کیا۔
یکایک کوئی موٹر سائکل گزری اور اس کی تیز روشنی سے گھبرا کر میں جھٹ سے پیچھے ہوگیااور قریب تھا کہ وہاں نالے میں گر جاتا لیکن اپنے آپ کوسنبھالا اور بے اعتنائی سے ذرا دور کھڑا ہوگیا جیسے میں بس وہاں ایسے ہی کھڑا ہوں۔ بنا کسی مقصد کے۔
’’آرام سے آفاق بھائی۔۔دھیان سے۔۔ آپ کو موچ تو نہیں آئی؟
پھر سرگوشی میں کہا
’’میرا خیال ہے لوگ آتے جاتے رہیں گے۔ہمیں ان سے کیا لینا دینا، میں نے تو صرف آپ کو وہ جگہ دکھانی ہے اور بس‘‘
’’ہاں ہاں آپ ٹھیک کہتے ہیں‘‘
میں دوبار ہ دیوار کے قریب گیا اور ٹارچ جلائی تو میری حالت دگر گوں ہوگئی۔ وہاں دیوار سے واقعی سیمنٹ اکھڑا ہوا تھا اور باقائدہ کسی تیز دھار والے آلے کے نشانات تھے۔ جہاں جہاں سے پلستر غائب تھا وہاں اینٹیں نظر آرہی تھیں۔ میں نے گمان گیا کہ شاید کسی ہتھوڑے نما یا کسی اور اوزار سے مار مار کر دیوار کی یہ حالت بنائی گئی تھی۔ لگتا یہ تھا کہ کئی دنوں کی محنت ہوئی تھی۔ چونکہ اور دیکھنے کو کچھ بھی نہیں تھا چنانچہ ہم واپس گھر چلے آئے۔
’’اب مجھے آپ کی آنکھوں میں تشویش نظر آرہی ہے، ہے نا؟‘‘
خلیل بھائی نے فاتحانہ انداز میں کہا
’’آپ کی بات صحیح ہے لیکن تھوڑے سے اکھڑے پلستر سے بھلا ہم یہ کیسے اخذ کر سکتے ہیں کہ یہ کام ہتھوڑا گروپ کا ہے۔ دیکھئے ! ان کا آخری کیس تو۔۔ جہاں تک مجھے یاد ہے۔۔سن چھیاسی میں ہوا تھا جب انہوں نے بنس روڈ پر ایک بھکاری کو اپنی دانست میں مار دیا تھا لیکن وہ جناح ہسپتال میں داخل رہا اور بچ گیا تھا۔ دوسری بات یہ کہ وہ ایک جھتے کی شکل میں آتے ہیں جبھی تو ان کو ہتھوڑا گروپ کہتے ہیں‘‘۔
میں نے لفظ ’’گروپ‘‘ پر زور دے کر بات جاری رکھی
’’آپ کے گھر والی یہ واردات تو کسی ایک آدمی کا کام معلوم ہوتا ہے، کوئی معمولی چور اچکا قسم کا۔۔ اناڑی آدمی۔۔ یہ سالا ٹھیک سے پلستر بھی نہیں اکھاڑ سکتا پمپ اور گیس اور کسی کی جان لینا تو دور کی بات ہے‘‘
میں نے انہیں اپنی دانست میں تسلی دی لیکن مجھے خود سمجھ نہیں آیا کہ یہ کس چیز کی تسلی تھی۔ چلیں مان لیتے ہیں وہ کوئی جھتہ نہیں تھا جو ان کو نقصان پہنچانے پر مائل تھا لیکن کوئی تو تھا جو ان کے گھر میں نقب لگا نے کی کوشش کر رہا تھااور ظاہر ہے اس کے ارادے نیک نہیں ہوسکتے۔
مجھے سمجھ نہیں آیا کہ کیا کہوں۔ میں فقط اس واقعے کی شدت اور خلیل بھائی کے خوف کو کم کرنا چاہتا تھا اور بس۔
خلیل بھائی مجھے شش و پنج میں مبتلا دیکھ کر بولے
’’دیکھیں آفاق بھائی یہ سن چھیاسی سے اب تک کتنے سال بیت چکے۔۔ یہ جرائم پیشہ لوگ ہیں ۔۔آٹھ دس سال میں ان کا طریقہ واردات بدل بھی تو سکتا ہے، نہیں؟‘‘۔
اپنی بات کا اثر دیکھنے کے لئے میری طرف دیکھا اور بات جاری رکھی
’’آفاق بھائی یہ بھی تو ممکن ہے آج کل ہتھوڑا گروپ پہلے اپنے ایک آدمی کو بھیج کر جائزہ لیتے ہوں یا، جیسے آپ کہتے ہیں۔۔اناڑی آدمی۔۔شاید اس اناڑی آدمی کو اس کام کے لئے بھیج دیا ہو کہ وہ سالا چھید کرے اور یہ سالے آکر رہا سہا کام، یعنی میرا کام تمام کریں۔ کچھ بھی تو نہیں کہا جا سکتا معاملہ پیچیدہ ہے، ہے نا آفاق بھائی؟‘‘
میں نے بار بار ان کے خیال کو رد کرنا مناسب نہیں سمجھا
’’ہاں معاملہ پیچیدہ ہے، درست کہا آپ نے‘‘
میں بس اتنا ہی کہہ سکا۔ دراصل میں اس پورے مسئلے کو ایک طرح سے منطقی تناظر میں دیکھنا چاہتا تھا لیکن میرے طریقہ کار کا خلیل بھائی پر الٹا اثر ہورہا تھاچناچہ میں نے خلیل بھائی کو مزید تسلی دینے سے احتراز کیا اور حل کا سوچا۔
’’خلیل بھائی عین ممکن ہے کہ جو کوئی بھی اس کے پیچھے ہے، اس کا مقصدآپ کو نقصان پہنچانا ہوہمیں اس کے سد باب کا کچھ سوچنا چاہئے‘‘
’’میراخیال ہے کہ ان لوگوں کو سبق سکھانے کے لئے رضیہ کے ماموں ٹھیک رہیں گے۔ وہ علاقہ غیر کے جدی پشتی پٹھان زادے ہیں اورایسے معاملات سے نبٹنا خوب جانتے ہیں، لاتوں کے بھوت۔۔‘‘
’’نہیں نہیں خلیل بھائی ایسی غلطی تو بالکل بھی نہ کریں۔ ادھر آپ نے ان کو طاقت سے للکارا اور یہاں ہنگامے شروع ہوگئے۔ جرائم پیشہ لوگ بہت منظم ہوتے ہیں اور مفت میں ان سے دشمنی مول لینا۔۔نہیں نہیں۔۔یہ صلاح میں آپ کو کبھی بھی نہیں دوں گا‘‘۔
اس کے بعد ہم کچھ دیر خاموش رہے اور آخر میں اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ سوچ کر اس کا کوئی حل نکالا جائے گا۔جانے سے پہلے میں نے خلیل بھائی کو پتہ نہیں یہ کیوں کہہ دیا کہ وہ اس جگہ کو بالکل نہ چھیڑیں، کوئی پلستر وغیرہ نہ کریں بلکہ جوں کا توں رہنے دیں۔ یہ کہہ کر میں گھر چلا آیا۔
گھر آکر میں صوفے میں دھنس کے بیٹھ گیا۔ میری بیوی کچھ خاموش کھڑی رہی
’’میں جانتی ہوں یہ نگوڑے کون ہیں جو ان کے گھر میں نقب لگا رہے ہیں‘‘
’’شہلا بیگم! تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو ؟، لگتا ہے تمہیں تو جیسے سب خبر ہے۔کتنے ہیں، کہاں سے آئے ہیں، بڑی تیز جاسوسی سروس ہے تمہاری، مان گئے ہم تو‘‘
’’آپ کرتے رہیں طنز، لیکن ایک بات میری بھی لکھ رکھیں۔۔ یہ خلیل بھائی کے خاندان والے ہیں جو یہ سارا ڈرامہ کر رہے ہیں۔۔ رضیہ کی جیٹھانی‘‘
’’خلیل بھائی کے خاندان والے ؟ رضیہ کی جیٹھانی؟ وہ بھلا یہ کام کیوں کرنے لگے ؟، شہلا تم بھی نا‘‘
’’آپ کو تو میری کسی بھی بات کا یقین نہیں لیکن یہ بات مجھے رضیہ نے خود بتائی۔۔اس کے خاندان والے خصوصاً اس کی جیٹھانی ان دونوں کی شادی سے خوش نہیں۔۔ یہ سب مل کر اس پورے ڈرامے سے رضیہ کو اذیت دینا چاہتے ہیں۔۔ نفسیاتی مریضہ بنانا چاہتے ہیں‘‘
’’اچھا مان لیا رضیہ نفسیاتی مریضہ بن گئی، پھر؟‘‘
’’پھر کا مجھے نہیں پتا لیکن ہو سکتا ہے اس کو کسی پاگل خانے میں داخل کروا کے وہ لوگ خلیل بھائی کی دوسری شادی کروانا چاہتے ہوں، ایسی باتوں کا پتا تھوڑی چلتا ہے‘‘
میری بیگم زچ ہو کر کچن کے اندر چلی گئی اور پیچھے پیچھے میں ہو لیا۔
’’ان کی شادی کا قضیہ اور اس عمر میں ! شہلا بیگم تم ہوش میں تو ہو؟‘‘
’’آپ کی بھابھی نے کیا کیا تھا میرے ساتھ وہ سب بھول گئے آپ ؟ شادی اس عمر میں، ہنہ‘‘
شہلا کی آنکھوں میں نفرت اور غصہ آیا تو میں نے بات بدلی
’’شادی سے یاد آیا نزہت کی شادی پر کیا پہننا ہے تم نے ؟ طارق روڈ پر ساڑھیوں کی وہ دکان یاد ہے تمہیں؟وہ ہلکی نیلی ساڑھی، میں کہتا ہوں وہ بہت جچے گی تم پر، کیا خیال ہے ؟‘‘
’’ہاں وہ ٹھیک ہے لیکن میچنگ جوتے نہیں ہیں میرے پاس اور وہ مہنگی بھی تو بہت ہے۔ آپ کہتے ہیں تو خرید لیتی ہوں ویسے شلوار قمیص بھی اتنا برا آئیڈیا نہیں۔۔ میں موٹی ہوگئی ہوں ناں؟‘‘
اگلے روز میں دوبارہ خلیل بھائی سے ملا
’’میرا خیال یہ ہے کہ اس سے پہلے کہ ہم پولیس وغیرہ کو اس معاملے کی خبر دیں کیا ایسا ممکن ہے ہم خود اس معاملے کی جانچ کریں، اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ اس کے پیچھے کون ہے‘‘
میں نے خلیل بھائی کو یہ مشورہ اس لئے دیا کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ پولیس اس معاملے میں کودپڑے۔ ظاہر ہے نگرانی کے تناظر میں میرا گھر خلیل بھائی کے بالکل بازو میں تھا اور ان کی دیوار پر نظر رکھنے کے لئے نہایت موزوں مقام تھا۔ میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ پولیس میرے گھر سے ان کے گھر کی نگرانی کرے۔میں خوا مخواہ کی قانونی جھنجھٹ سے دور رہنا چاہتا تھا۔
’’ہم بھلا کیسے جانچ کر سکتے ہیں؟ کیسے اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں؟ میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا‘‘
خلیل بھائی نے ٹھوڑی کھجائی اور مجھے ایسے لگا وہ میری اس تجویز سے مطمعن نہیں تھے
’’وہ اس طرح کہ جیسا کہ آپ نے پہلے کہا کہ میرے گھر کے بازو والے کمرے سے آپ کی دیوار بالکل صاف دکھائی دیتی ہے۔ میری تجویز یہ ہے کہ کیوں نہ ہم وہاں پہرہ لگا کر بیٹھ جائیں۔۔ ہم دونوں۔۔ اس کمرے میں ایک صوفہ ہے جہاں پر بیٹھ کر، بتی گل رکھ کر اور پردے سرکا کر ہم آرام سے دیوارپر نظر رکھ سکتے ہیں۔۔ ساری رات۔۔ کیا خیال ہے ؟‘‘
مجھے اب ایسا لگا جیسے خلیل بھائی کو یہ بات بھا گئی
’’میں رضیہ سے پوچھتا ہوں وہ کیا کہتی ہے۔ اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر رضیہ اکیلے سوئے تو گھبرا جاتی ہے، پریشان ہوجاتی ہے، اسے انگزائٹی کا عارضہ ہے۔ میں ذرا اس سے پوچھ لوں، کیا خیال ہے ؟‘‘
’’ضرور ضرور‘‘میرے سامنے ایک لمحے کے لئے شہلا کی نفسیاتی اذیت والا مفروضہ سامنے آگیا۔
میں رہ نہ سکا اور انتہائی محتاط اندازمیں پوچھا
’’خلیل بھائی آپ کا خاندان، میرا مطلب ہے بھائی اور بہن۔۔ وہ اب بھی گلشن اقبال میں رہتے ہیں یا کہیں اور چلے گئے ہیں؟‘‘
’’میری بہن تو انگلستان میں ہے، لندن میں نیسڈن نام کی کوئی جگہ ہے وہاں رہتی ہے اپنے میاں کے ساتھ۔ اصل میں ان کے میاں مقامی سیاست میں خاصے فعال تھے تو نظر وں میں آ گئے یوں سیاسی پناہ کے چکر میں وہاں چلے گئے۔ بڑا بھائی حبیب بینک میں کام کرتا ہے ، ڈبل ایکسٹینشن پر ہے اور اب تو بس ریٹائر ہونے کے قریب ہے، لیکن آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں ؟‘‘
میں نے اس کے بعد معاملے کو زیادہ کریدنا مناسب نہیں سمجھا اور خلیل بھائی کو تاکیداً کہاکہ وہ مجھے شام تک ضرور بتا دے تاکہ میں ملازم سے کہہ کر صوفہ کھڑکی کے سامنے رکھوا دوں۔
شام کو خلیل بھائی کا فون آیاکہ وہ میرے گھر سے پہرے کے لئے تیار ہیں۔ یہ سنا تو میں نے سارے انتظامات مکمل کئے اور عشا پڑھتے ہی ہم دونوں کمرے میں آکربیٹھ گئے۔ نوکر نے صوفہ جیسے بتایا تھا ویسے لگارکھاتھا۔ سامنے میز پر ناشتے کا سامان اور چائے کا تھرمس بھرا رکھا ہوا تھا اور ساتھ ہی میری بلڈ پریشر کی گولیوں کی شیشی میز پر دھری تھی۔
میں نے اپنی واسکٹ اتار کر صوفے کے ساتھ فرش پر اور خلیل بھائی نے ٹارچ میز پر رکھی۔
پہلے ہم نے وی سی آر پر کوئی فلم دیکھنی شروع کی لیکن پھر درمیان میں ہی ارادہ تبدیل کیا اور بتی گل کر کے، پردے سرکا کے نیچے گلی کا جائزہ لینے لگے۔
خلیل بھائی کچھ مغموم،کچھ جذباتی سے نظر آئے۔
’’عجیب زندگی ہے آفاق بھائی، عجیب زندگی ہے۔ مجھے تو با لکل سمجھ نہیں آرہا‘‘
’’خلیل بھائی پریشان نہ ہوں، یہ واقعہ۔۔بس کیا کہوں۔۔ ایک پریشان کن بات ہے لیکن بہر حال آج دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا۔ رنگے ہاتھوں پکڑا جائے گا وہ سالا۔۔ ہم اس کو شرم دلا دیں تو شاید وہ ان بیہودہ حرکتوں سے باز آجائے‘‘
’’میرا مطلب کچھ اور تھا آفاق بھائی۔ جب میں یونیورسٹی میں تھا تو مجھے ایک لڑکی سے عشق ہوگیا۔ پتہ نہیں وہ آج کیوں یاد آرہی ہے‘‘
میں اس بات سے چونکا اور میں نے خیال ہی خیال میں شہلا کے نفسیاتی اذیت اور دوسری شادی والے خاکے میں رنگ بھرنا شروع کیا۔
میں نے ان کی بات سن کر اثبات میں سر ہلایا جیسے میں پوری توجہ سے ان کی بات سن رہا ہوں۔
’’اس کا نام نگہت تھا اور وہ لاہور کی تھی۔ بڑے گھرانے کی لڑکی تھی لیکن تھی جذباتی سو میرے جال میں آگئی اور میں نے بھی اس کا پورا فائدہ اٹھایا۔۔ شادی البتہ نہیں کی۔۔میرے خیال میں مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا اور مجھے لگتا ہے یہ اس کی بد دعا ہے۔۔‘‘
’’نہیں نہیں خلیل بھائی میرا نہیں خیال ایسی کوئی بات ہے،آپ خوامخواہ حساس ہور ہے ہیں، ان محترمہ کی تو کب کی شادی بھی ہوچکی ہوگی اور اب تو اس کے بچوں کے بچے۔۔‘‘
خلیل بھائی نے یکدم جیسے کچھ سوچ کر کہا
’’نہیں میرا نہیں خیال یہ کام اس کے بچوں کا ہے۔۔آفاق بھائی ایک بات بتائیں۔۔آپ کا یہ ملازم، یہ بھی تو بہت کچھ جانتا ہے میرے گھر کے بارے میں، نہیں؟‘‘
مجھے خلیل بھائی کی یہ بات بہت عجیب لگی لیکن ان کی تسلی کے لئے میں نے انہیں بتایا
’’یہ ہمارے ہاں پچھلے بیس برس سے ملازم ہے، نیک اور کھرا آدمی ہے۔ صوم صلوۃکا پابند ہے مجھے اس سے ہر گز کوئی شکایت نہیں مگر آپ کو یہ خیال کیوں آیا؟‘‘
’’میں مختلف مفروضے آزما رہا ہوں پلیز اس کو پرسنل نہ لیں‘‘
اس کے بعد انہوں نے متعدد لوگوں کے نام لئے جس میں اس کے پرانے ہم کار، فالودے والا، فارمیسی کا چوکیدار، نکڑ کا پنواڑی بھی تھا۔ میں نے کان کھلے رکھے لیکن انہوں نے اپنے بھائی یا بھابی کا نام بالکل نہیں لیا۔
ہم دیر تک انہیں موضوعات پر جگالی کرتے رہے لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔
پھر مجھے یوں لگا کہ جیسے ٹیک لگائے لگائے انہیں اونگھ آگئی ہے۔ مجھ پر بھی غنودگی ایسی چھائی کہ میری بھی آنکھ لگ گئی۔
صبح اتوار تھا اور ہم دیر سے اٹھے۔ خجالت میں ڈوبے ہم نیچے چلے آئے۔ گلی میں کن انکھیوں سے دیکھا تو وہاں دیوار میں دوسری جگہ سے بھی پلستر اکھڑا ہوا تھا اور ایک اور اینٹ عریاں نظر آرہی تھی۔ وہیں کچھ لونڈے کرکٹ کھیل رہے تھے۔
خلیل بھائی کا رنگ اڑ گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے میں نے ان لونڈوں کی طرف اشارہ کیا
’’خلیل بھائی، آج کا کام ان لونڈوں کا ہے، آپ دیکھ رہے ہیں یہ سالے ہارڈ بال سے کھیل رہے ہیں‘‘
گھر واپس آیا تو شہلا دروازے کے سامنے کھڑی تھی
’’ ابھی جب آپ باہر تھے رضیہ کا فون آیا، اس نے کل رات پھر کسی کو نقب لگاتے سنا ہے اور وہ بیچاری ساری رات سکتے کی کیفیت میں رہی‘‘۔
شہلا بولتے بولتے رک گئی۔اس کے لہجے میں طنز اور ایک طرح کی چھبن عود کر آئی
’’آپ دونوں کمال کرتے ہیں ویسے۔ نگرانی کے نام پرساری رات آرام سے سوتے رہے اور اس بیچاری کو جہنم۔۔‘‘
’’ایک منٹ !کیا یہ کل رات کی بات ہے ؟‘‘
’’ہاں تو کب کی؟ کل ہی رات کی توبات ہے۔ میرا خیال ہے اب پولیس کو خبر کر ہی دیں، پولیس سٹیشن دور ہی کتنا ہے۔ آپ دونوں اس بیچاری کو اپنے ان نت نئے تجربات سے صدمے دے دے کر مار ہی ڈالیں گے‘‘
اگلی رات خلیل بھائی نے میرے گھر پہرے سے معذرت کر لی۔وہ ایک کیمرہ خریدکر لائے تھے جو وہ میرے کمرے کی کھڑکی میں لگا کے اس سے گلی کی ویڈیو بنانا چاہتے، ساری رات، تاکہ اس خبیث کا پتہ چل سکے۔ اس میں مصیبت یہ تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ تین گھنٹے تک ریکارڈنگ کر سکتے تھے اگرچہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کراچی ٹی وی سینٹر میں ان کا کوئی جاننے والا ہے جو ان کو کچھ روپوں کے عوض بارہ گھنٹے والے کیسٹ وہاں سے فراہم کروادے گا لیکن مجھے اس بات میں شبہ تھا۔ میرے خیال میں ویسے تین گھنٹے بھی بہت تھے اگر اس میں وہ خبیث نظر آجاتا۔
میں اس رات بستر میں شہلا کے ساتھ دبکا لیٹا تھا کہ اسے جیسے کوئی بات یاد آگئی
’’دیکھ لینا جب ویڈیو ریکارڈنگ سے یہ پتہ چلے گا کہ یہ سب اس کے خاندان کا کام ہے۔ تو یہ کیسے ان کا دفاع کریں گے، کنجڑن کبھی اپنے بیر کو کھٹا نہیں بتاتی۔۔آپ کے یہ خلیل بھائی اتنے نیک نہیں ویسے۔۔ تمام مرد ایسے ہی ہوتے ہیں۔۔ جہاں دوسری شادی کا سنا۔۔باچھیں ادھر۔۔ اور رال۔۔‘‘۔
شہلا کی یہ باتیں سن کر مجھے اندازہ ہوگیا کہ موضوع سخن اب میرے خاندان کی طرف مڑنے والا ہے اور میرا اس طرح کا کوئی بھی تبصرہ سننے کا کوئی ارادہ نہیں تھا سو میں نے جھوٹ موٹ کی آنکھیں بند کرلیں اور پھر میں واقعی سو گیا۔
آدھی رات کو یکایک میری آنکھ کھلی۔
میرے سر میں شدید درد تھا۔ مجھے یاد آیا کہ میں نے بلڈ پریشر کی دوا تو کھائی ہی نہیں۔ دوا کی شیشی ابھی بھی اوپر کے کمرے میں تھی۔ میں آہستہ سے اٹھا اور اوپر والے کمرے تک دبے پاوں گیا۔ میں نے بتی نہیں جلائی کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ تیز روشنی سے میری نیند کافور ہوجائے۔ ٹٹولتے ٹٹولتے میں نے پردے سرکائے اور چاندنی میں دوا کی شیشی میز کے نیچے دھر ی دیکھی۔
اسے اٹھا کر میں پردے بند ہی کرنے والا تھا کہ مجھے خلیل بھائی کی دیوار کے ساتھ کوئی اکڑوں بیٹھانظر آیا۔ کچھ تو میری نظر خراب تھی اور رہی سہی کسر کم روشنی نے نکال دی۔ وہ مجھے بس ایک دھبہ سا دکھائی دیا۔۔ جیسے ہیولا۔ میں گھبرا گیا لیکن پھر ہمت کرکے واسکٹ پہنی اور میز پر پڑی خلیل بھائی کی ٹارچ ہاتھ میں پکڑی اور اس سے دو بدو ہونے کا ارادہ کیا۔
نیچے آکر میں نے احتیاطاً پہلے نوکر کا کمرہ دیکھا۔ میرا نوکر گھوڑے بیچ کے سو رہا تھا۔
میں سرعت سے گھر سے باہر نکل آیا اور دبے پاوں اس شخص کی طرف بڑھا جوشب خوابی کے ڈھیلے لباس میں ملبوس کسی اوزار سے خلیل بھائی کی دیوار کا پلستر کھرچ رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ کچھ گنگنا بھی رہا تھا۔
میں ڈرتے ڈرتے اس کے قریب گیا اور کچھ ہمت مجتمع کی اور زور سے گلا کھنکار کے کھانسا۔
اس نے یکایک مڑ کر دیکھا
عین اسی وقت میں نے ٹارچ جلائی۔۔ وہ روشنی میں نہا گیا۔
اس غیر متوقع صورتحال سے دوچار اس شخص نے ہتھوڑا اور چھینی نیچے رکھ کر اپنی آنکھوں کو داہنے ہاتھ سے ڈھانپا۔ یہ کرتے ہوئے اس کی دبیز شیشوں والی عینک پھسل کے نیچے گر گئی ۔ مجھے انہیں پہچاننے میں ایک لمحہ بھی نہیں لگا۔
مجھے صاف نظر آگیا کہ وہ صاحب کون تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.