نرملا
وہ اتنی مشہور ہیروئن تو نہیں تھی لیکن جیسا کہ میں نے سنا اس کی اصل وجہ شہرت کچھ تصویریں تھیں۔۔۔ ذرا خاص قسم کی۔۔۔ جس سے اس نے خوب پیسہ کمایا۔ میں تصویریں تو نہیں دیکھ پایا لیکن اسے پہلی بار مجسم صورت میں سن سینتیس میں ’’ناچ نگری نگری‘‘ کے سیٹ پر دیکھا۔
ریہرسل جاری تھی۔ میں سیٹ کے عین سامنے ایک بنچ پر بیٹھا پرانے منشی، جو کام چھوڑ کے جا چکاتھا، کے مکالموں کو پڑھ رہا تھا۔۔۔ وہ مجھے نظر آگئی۔ سیاہ برقعہ میں سر تا پیر ڈوبی وہ کسی مکالمے کو اٹک اٹک کر دہرا رہی تھی۔ لفظ ’’خدا‘‘ اس کے منہ پر چڑھے نہیں چڑھ رہا تھا۔۔۔ وہ اسے بار بار ’’کُھدا‘‘ کہہ رہی تھی اور ادھر دیوان جی اپنے بال نوچ رہے تھے۔
فلم میں اس کا کردار ایک ایسی دیہاتی لڑکی کا تھا جس کا محبوب جنگ میں مارا گیا تھا یا شاید اس سے کوئی ملتی جلتی کہانی تھی، کچھ یاد نہیں۔ جو یاد ہے وہ یہ کہ رتن جی مہاراج نے دو دن پہلے اس کا تعارف کچھ ایسے کرایا تھا.
’’اماں بولتے ہوئے سالی کے ہونٹ جیسے تھراتے ہیں۔۔۔ مٹک مٹک کر چلے ہے۔۔۔ پورا جسم جیسے لہرائے ہے۔۔۔ ہائے بھگوان کیا چیز ہے شریمتی نرملا جی۔۔۔ پھلجڑی ہے پھلجڑی۔۔۔ گدرایا ہوا جسم، یہ نکلتا قد، پیتل کی طرح چمکتا رنگ، پورے شریر پر پسینے کی بوندیں۔۔۔ خاصی بڑی بڑی۔۔۔ گول گول۔۔۔ اور یہ پھیلے۔۔۔ اُف۔۔۔‘‘
اس نے آنکھیں بند رکھ، بیڑی دانتوں میں دبائے ہاتھوں کی خفیف حرکت سے سرور کی کفیت میں جھومتے ہوئے اس کے خیالی خدوخال ہوا میں کھینچنا شروع کئے۔
میں اس عمل کو خاموشی سے دیکھتا رہا،
’’چھوکری نہیں سعید صاحب۔۔۔ پورا نشہ ہے نشہ۔۔۔ جانی واکر سمجھتے ہیں آپ؟ ایک اور خاص بات بتاوں؟‘‘
بیڑی پھونکتے ہوئے اس نے پُر یقین لہجہ اپنایا،
’’یہ بھی لکھ رکھیں۔۔۔ اگر یہ مکالمے ٹھیک نہ بھی ہو سکے۔۔۔ میں کہتاہوں بھلے سے یہ فلم خاموش بھی بنے۔۔۔ تو تب بھی آپ دیکھنا سعید صاحب، سیٹھ کی یہ فلم دوڑے گی اور اس کی وجہ ہے یہ چھوری۔۔۔ صرف یہ چھوری۔ میں تو یہ کہتا ہوں جس بھی فلم میں یہ لونڈیا ہو سالااسے مکالموں کی ضرورت ہی نہیں۔۔۔ ہے نا خاص بات؟‘‘
مجھے اس لڑکی میں اگر کوئی خاص بات نظر آئی تو وہ اس کی آنکھیں تھیں۔۔۔ تھوڑی عجیب سی تھیں۔ حد سے زیادہ لمبوتری۔۔۔ کاجل میں ڈوبی۔۔۔ پیہم کسی چیز کی متلاشی۔۔۔ دوسری خاص بات اس کا لہجہ تھا۔۔۔ بولتے ہوئے اس کی آواز میں ایک ڈراونا سا اثر آتا تھا۔۔۔ اور بس۔ میرے خیال میں وہ ہیروئن سے زیادہ ایک ویمپ تھی۔
میں ان دنوں ایک چھوٹے سے اخبار کے لئے کام کرتا تھا اور سخت مالی تنگی کا شکار تھا کیونکہ مجھے پیسے تب ملتے تھے جب خبر چھپ چکتی تھی۔ ان دنوں نئے وائسرائے کی تقریر کا بایئکاٹ ہر اخبار کی زینت تھا تو میری خبر، ’’بمبئی ٹاکیز کے ایک مالک کا اپنی سیکرٹری سے معاشقہ‘‘ سے آپ ہی بتائیں کسی کو کیا دلچسپی ہو سکتی تھی؟۔ میری لائی ٹھنڈی خبرکو جھنڈی دکھائی گئی تو مجھے یوں لگا کہ پورا ہفتہ بغیر دودھ کی چائے پر گزارہ کرنا پڑے گا۔
ان دنوں بمبئی ٹاکیز لمیٹدعروج پر تھی اور ہمانسو رائے، باوجود اس کے کہ ان کی فلم ’’عزت‘‘ کوملا جلا رد عمل ملا، اونچی اڑانوں میں تھے۔ یقینی کامیابی کی امید لے کر میں نے وہاں قسمت آزمائی کی سوچی اور ملاڈ چلا آیا۔ وہاں پتہ چلا کہ چونکہ میں نے دیویکا رانی اور نجم الحسن کے معاشقے کی خبریں خوب مرچ مصالحہ لگا کرچھاپی تھیں اس لئے وہاں میری دال نہیں گلنے لگی۔ ویسے بھی، نجم الحسن کے قضیئے کے بعد، کمپنی باہر کے کسی بھی آدمی کو رکھنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ مزید کوشش بے سود تھی، میں نا امید ہوکربمبئی واپس چلا آیا۔
اس مایوسی کے عالم میں جب جگن نارائن نے مجھے یہ بتایا کہ بمبئی ٹاکیز کے مقابلے کی ایک اور کمپنی کھل چکی ہے اور اس کے مالک کو ایک مکالمہ نویس کی ضرورت ہے جو ان کے پرانے منشی کا ادھورا کام پورا کرے تو سچ پوچھیں یقین بالکل نہیں آیا بلکہ میں تھوڑا سا گھبرایا بھی۔ اب میں ٹہرا صحافی آدمی۔۔۔ کبھی کسی فلم کے مکالمے نہیں لکھے۔۔۔ لیکن جگن کے مطابق میں اس کام کے لئے موزوں ترین آدمی تھا۔ اسی پس منظر میں ڈرتے ڈرتے میں نے پرانے منشی کی کہانی اور مکالموں کا جائزہ لیا اور جب مجھے یہ لگا کہ مسودے میں بہتری کی کافی گنجائش ہے تو، خصوصاً اس یقین دہانی کے بعد کہ میری مدت ملازمت قابل توسیع بھی ہوگی، کم تنخوا کے باوجود بھی وہاں کام کرنے کے لیے ہامی بھر لی۔ گمان غالب ہے اس فیصلے کی وجہ وہ لڑکی ہر گز نہیں تھی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب چھ سال قبل میجسٹک تھیٹر میں ہندوستان کی پہلی بولتی فلم ’’عالم آرا‘‘ نمائش کے لئے پیش کی جا چکی تھی۔ اس کے بعد تو صاحب تانتا بندھ گیا۔۔۔ فلموں پر فلمیں۔۔۔ ’’دغا باز عاشق‘‘، ’’ڈاکو منصور‘‘، ’’عصمت کا موتی‘‘ اور ’’دنیا نہ مانے‘‘ جیسی فلموں نے دھوم مچائی۔ ہیرونوں میں مس کوپر، دیوکا رانی، ستارہ دیوی، اور مس گوہر لوگوں کے دل او ر ان کی فلمیں دماغوں پر راج کرنے لگیں۔ بتانا یہ چاہتا ہوں کہ کچھ ایسا ماحول بن گیا تھا کہ گھر ہودفتر یا بازار ہر جگہ فلموں کا ذکر۔ یہ فلم دیکھی ہے؟ وہ فلم دیکھی ہے؟ ارے چھوڑو یار ڈبہ فلم تھی سالی۔۔۔ مفت میں پیسے برباد کئے۔
فلموں کی اس بھیڑ میں روپے پیسے کی ریل پیل بھی خوب بڑھی۔ ڈایرکٹروں، پروڈیوسروں اور ایکٹروں نے لاکھوں کمائے۔ یہ دیکھ کچھ اور لوگ بھی اس میدان میں کود پڑے۔ ایک دن بوس صاحب کی ’’ودیا پتی‘‘ میں سینما گھر کے سامنے بھیڑ اور ابلتا منافع دیکھ کر نجم خان کو، جو پشاور کے ایک پٹھان زادے نواب تھے لیکن سب اسے سیٹھ کہتے تھے، کچھ شوق ایسا چرھا کہ وہیں بیٹھے بیٹھے نہ صرف ’’رین بو ٹاکیز‘‘ بنانے کا فیصلہ کیا بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس نے اسی سال جنوری میں ریلیز ’’کسان کنہیا‘‘ کی تقلید میں رنگین فلم بنانے کا اعلان بھی کردیا۔ فلم کے لئے کئی نام البتہ ابھی زیر تجویز ہی تھے۔
نام کا انتخاب تو خیر پسند نا پسند کی بات تھی لیکن اس زمانے میں باقی فلم ایک فارمولے کے تحت بنتی تھی۔ بھڑکیلے لباس والی ہیروئن جس کی قوسیں اور قاسیں سخت نمایاں ہوں فلم کی کامیابی کی ضمانت ہوا کرتی تھی۔۔۔ بوس و کنارکے سین تو ’’کرما‘‘ میں دیوکا رانی اور ہمانسو رائے کے ساتھ ہی شروع ہوچکے تھے لیکن لباس ابھی اتنے مختصر نہیں تھے۔ کوتاہ پوشی کا رجحان البتہ آگے جا کر بتدریج ترقی یا تنزل کرتا ہوا تقریباعریاں بیگم پارہ کی شکل میں ظہور پذیر ہوا۔ اب سیٹھ صاحب چونکہ تھے سخت مذہبی گھرانے کے آدمی اس لئے وہ فلم سازی کے اس رجحان میں تبدیلی کے سخت خواہاں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستانی فلمیں قوم کا اخلاق بگاڑ رہی ہیں اس لئے وہ ذرا نئے طرز کی معقول قسم کی فلمیں بنانا چاہیں گے جس میں نام بھی بہت ہی شریفانہ ہوں اور کام تو ہوں ہی۔
جہاں تک شریفانہ نام کی بات تھی، ’’تلاش حق‘‘ انہیں اچھا لگا لیکن پھر پتہ چلا کہ اس نام کی ایک فلم، نرگس پر، جو ان دنوں بے بی نرگس کہلاتی تھیں، دو سال پہلے فلم بند ہو چکی تھی۔ ’’فخر اسلام‘‘ وہ قانونی تقاضوں کی وجہ سے نہیں رکھ پائے کیونکہ اسی نام کی ایک فلم پہلے سے زیر تکمیل تھی ورنہ یہ نام بھی ان کو بہت بھایا۔ اسی طرح ایک اور نام ’’بے گناہ‘‘ انہیں بہت پسند آیالیکن پھر انہیں یہ معلوم پڑا کہ اس کی ہمنام کی ایک فلم کو گج نن جی یا سہراب مودی صاحب ڈایرکٹ کر رہے ہیں تو آخر میں ’’اوپر والا‘‘ پر نگاہ انتخاب ٹہر گئی۔ یہ نام ان کو اتنا پسند تھا کہ بہت بعد میں، یعنی جب ان کی فلم کا نام ’’ناچ نگری نگری‘‘ فائنل بھی ہوچکا تھا، تب بھی مجھ سے اس معاملے پر مشورہ کرنا چاہا اور مجھے اپنے دفتر میں بلایا۔
میں اندر داخل ہوا تو سیٹھ کو آئینے کے سامنے کھڑا پایا۔
وہ ایک تنومند قسم کے آدمی تھے اور ان کی تھرکتی مونچھوں پر لگا تیل اور ٹیبل پر پڑی سموسوں اور کچوریوں سے نیم بھری پلیٹ دیکھ کر مجھے ان کی خوش خوش خوراکی کا اندازہ ہو گیا۔ اپنے باہنے ہاتھ سے لتھڑی ہوئی مونچھیں صاف کرتے، میری طرف گھوم کے اپنی ٹائی کی گرہ درست کی اور ٹیبل پر پڑی چائے ایک ہی سانس میں غٹاغٹ پی،
’’منشی صاحب اس نام کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، ’’اوپر والا‘‘ اچھا نام ہے نا؟‘‘
نام کے انتخاب کا یہ کھیل، جیسا کہ میں بتاوں گا، تغیر کے عمل سے گزرتار ہا لیکن ’’اوپر والا‘‘ ایک طرح سے ان کے ذہن میں جم ساگیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ شریفانہ قسم کی کہانی سے انڈسٹری میں تبدیلی لا سکتے تھے اور یوں مذہب کی خدمت کر سکتے تھے۔۔۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور مخالفت سے بالکل گریز کیا۔ مشورہ دینے والوں نے البتہ ان سے اتفاق نہ کیا اور انہیں یہ بتایاکہ اگر فلم میں دلوں کو گرمانے والے سین، جذبات کو برانگیختہ کرنے والے ڈانس اور سب سے اہم۔۔۔ فلم کا نام رسیلا نہ ہو تو وہ چلے گی نہیں۔
اچھا یہ بھی بتاتا چلوں کہ سیٹھ نے دائیں بائیں سے کافی لوگوں کو جوڑا کہ ان کی مجوزہ فلم کو کامیاب بنائیں لیکن بیشتر مشیر نومشق تھے جو کام کم باتیں ذیادہ کیا کرتے تھے۔ باتوں کی حد تک البتہ ان سب نے سیٹھ کو یہ باور کرا چھوڑاکہ فلم سازی میں ان سے ذیادہ سمجھ بوجھ والا کوئی نہیں اور سیٹھ جیسے ’’مہا تجربہ کار‘‘ فلم ساز کے لیے فلم شروع کرنے کا اس سے ذیادہ مناسب وقت کوئی نہیں کیونکہ فلم ہر حال میں کامیاب ہوکے رہے گی۔
یہ عجیب بات تھی کہ ناتجربہ کاروں کے اس جھنڈ میں انفرادی طور پر کسی کو بھی اس بات کا یقین نہیں تھا کہ فلم ایک ہفتے سے بھی ذیادہ چلے گی لیکن مجموعی طور پر سب اس پر البتہ متفق تھے یا تقریبا برملا کہتے تھے کہ سیٹھ کی فلم اشوک کمار کی ’’اچھوت کنہیا‘‘ سے بھی بہتر بزنس کرے گی۔ اس تضاد کی کیا وجہ تھی یہ میں وثوق سے نہیں بتا سکتا لیکن شاید وہ سب یہ سمجھتے تھے کہ گو انفرادی طور پر کم تجربہ کار سہی لیکن وہ ایک اچھی ٹیم ضرورہیں۔۔۔ بہت ہی اچھی ٹیم۔ اصل میں ان میں کوئی بھی فلم بنانے والے تھا ہی نہیں بلکہ وہ سب کے سب فلم بین تھے ہاں کسی درجے میں یہ ضرور ہے کہ کچھ نے صرف ایکسٹرا قسم کے رول کئے ہوئے تھے اس سے ذیادہ کچھ نہیں۔
شروع شروع میں سیٹھ نے آزاد خیالی، لچر قسم کے مکالموں اور نیم برہنہ مناظرکی سخت مخالفت کی۔۔۔ اسے مذہب دھرم کے خلاف جانا اور فلسفیانہ انداز میں کہا کہ اگر فلم کی کہانی میں جان ہو تو بھلے سے اس میں کوئی تصویر بھی نہ ہو وہ پھر بھی کامیاب ہو سکتی ہے۔ ان کے اس یقین کی وجہ کہانی کے ساتھ ساتھ فلم کا فنی درجہ بھی تھا جو اگر اونچا ہو تو وہ بذات خود فلم کی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔ یہ سب صحیح ہے لیکن پھر انہیں یہ بھی علم تھا کہ فلم پبلک نے دیکھنی ہوتی ہے، انہوں نے اپنے گھریلو پرو جیکٹر پر تھوڑی چلانی ہے اس لئے جب انہیں سمجھایا گیا کہ فلم میں کچھ نہ کچھ آزاد خیالی رکھنی پڑے گی ورنہ وہ بزنس نہیں کرسکے گی تو وہ تردد کے ساتھ مان گئے۔
یہ بات سب کو پتہ تھی کہ سیٹھ اگرچہ اپنے آپ کو کافی تیز سمجھتے تھے، اصل میں ایسا تھا نہیں۔۔۔ وہ لوگوں کو قابیلت پر کم، باتوں پر زیادہ پرکھتے تھے اور اعتبار بھی جلدی کیا کرتے تھے۔ ان کو پتا نہیں کیسے یہ یقین تھا کہ فلم کامیاب ہوجائے گی لیکن اتنا اشارتا ً بتادوں ان کے اس غیر متزلزل عقیدے کا سارا دارومدار ان نو آموز مشیروں پر تھا جن کی متفقہ پیشن گوئی یہ تھی کہ ’’ناچ نگری نگری‘‘ کے بعد کسی اور فلم کی ضرورت نہیں رہے گی۔
ان کے مشیروں میں ایک آدمی جمشید جی نوروجی بھی تھا جو تھا تو پارسی لیکن چونکہ ایک اینگلو اینڈئن ایکٹریس سے شادی کے بندھن میں حادثاتی طور پر بندھ گیا تو یوں اپنے دھرم سے نکال دیا گیا۔ فلم ’’ناچ نگری نگری‘‘ کے بنانے میں اس کا کام پشاور کے اس گرم جوش سیٹھ کو الٹے سیدھے مشورے دینا تھا۔
’’ناچ نگری نگری‘‘ کا ایک نام شاید ’’اوپر والے کی محبت میں دل و جان گم‘‘ بھی تھا لیکن کمپنی میں سوائے ایک مولوی نما ایکٹرکے کسی نے بھی اس نام کو پسند نہیں کیا۔ کہانی بھی عجیب سی تھی۔۔۔ ایک شہری بابو سہانا خواب دیکھ رہا ہے، سر پر سفید ٹوپی اور اس کے ہاتھ میں تسبیح ہے۔۔۔ جھکڑ چل رہے ہیں۔۔۔ ہر سیدھی چیز ا اوندھی ہو رہی ہے۔۔۔ سب کچھ ٹوٹ رہا ہے لیکن اس کے باوجود وہ چاہتا ہے کہ یہ سپنا نہ ٹوٹے۔
نوروجی نہ تو نام سے متفق تھا اور نہ ہی اس مذہبی قسم کی کہانی کے حق میں تھا۔
’’لمبے نام اور شریفانہ قسم کی فلمیں اب نہیں چلتیں، لوگ مصالحہ دارمناظر دیکھ دیکھ کر تنگ آگئے ہیں، وہی کسان لڑکی اور شہری بابو۔۔۔ اب تو آپ کو کچھ نیا کرنا پڑے گا، بہت ہی نیا قسم کا ائیڈیا۔۔۔‘‘ ناچ نگری نگری ’’اچھا نام رہے گا اور اس کے لئے ہیروئین، ایکٹر اور ڈانسربھی وہ چنیں جو میں بتاؤں۔‘‘
اگلے ہفتے فلم انڈسٹری میں خاصی چہل پہل رہی۔ ایک نو وارد ہیروئن کو تو نوروجی نے اسی ہی ہفتے سیٹ سے چلتا کردیا جس کے مکالموں کی ادائیگی تو بہت بہتر تھی لیکن خدوخال ٹھس۔ ضمنی طور پر یہ بھی بتادوں کہ خاص انگیا کے کمال سے یہ علت دور ہوگئی اور وہ بعد میں کافی مشہور ہوگئیں۔ اس سے ذیادہ اشارہ ذاتی بات ہوجائے گی۔ اسی طرح اپنے ایک خوجہ ایکٹر کو، جو کاشانی صاحب کا منظور نظر تھا، نوروجی نے فلم کے لئے اس لئے قبول نہ کیا کہ وہ ناٹے قد کاتھا۔
اس پر کاشانی صاحب ناراض سے ہوگئے تو اپنے فیصلے کے دفاع میں نوروجی صاحب نے نہایت ہی تفصیل سے فلم کامیاب کرانے والی لڑکیوں کے خدوخال گنوائے اور یہ بتاتے بتاتے اس گرم گفتگو کا دائرہ اس حد تک پھیل گیا کہ چولی کا رنگ، اس کے ابھار کا زاویہ، انگیا کا سائز، اس کی ہیت اور اس سے جڑے دھات کے ہک بھی زیر بحث آئے۔ جب لوگ ان تفاصیل میں ڈوبے جھوم رہے تھے تو وہیں لوہا گرم دیکھ کر اس نے ’’ناچ نگری نگری‘‘ کا نام اور ہیروئن کے کاسٹ کے لئے نرملا کو ایک طرح سے فائنل کروا ہی دیا۔
بعد میں اس پر کافی لے دے ہوئی اور کچھ لوگوں نے نوروجی کو جنسیت زدہ قرار دیا لیکن سیٹھ صاحب چونکہ اس کی ہر بات کو پتھر کی لکیر سمجھتے تھے اس لئے لاکھ سمجھانے کے باوجود انہوں نے مذکورہ بالا دونوں باتوں سے نہ صرف اتفاق کیا بلکہ یہ تہیہ بھی کیا کہ کچھ ہی ہفتوں کے اندر ’’ناچ نگری نگری‘‘ کی شوٹنگ بھی شروع کی جائے۔ شیو مندر کے قریب رین بوٹاکیز لمیٹڈ کا افتتاح تو خیر انہوں نے اگلے ہی دن کر دیا۔
اس پورے پس منظر سے بتانا یہ مقصود تھا کہ اس سے میری قسمت بھی جاگ اٹھی اور مجھے اس کمپنی میں عارضی منشی کی نوکری دے دی گئی۔ چونکہ میں صحافی تھا۔۔۔ فلمی تجربہ کم تھا۔۔۔ اس لئے کام میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے سیٹ پر جانا شروع کیا تاکہ فلمی مکالمہ نویسی کی ’’الف۔ بے‘‘ سمجھ سکوں اور وہیں اس سے میری پہلی ملاقات ریہرسل والے سین میں ہوئی جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں۔
اس وقت مجھے یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ اس کا اصل نام کیا تھا کیونکہ میرے خیال میں نرملا اس کا فلمی نام تھا اور یہ خیال اتنا غلط بھی نہیں تھا کیونکہ ان دنوں فلم انڈسٹری میں ریل اور رئیل نام میں تفاوت عام سی بات تھی۔۔۔ جیسے نجمہ بیگم اپنے فلمی نام مہتاب سے ذیادہ مشہور ہوئیں۔ نام تو خیر چھوٹی بات تھی، کہیں تو مذہب کا ابہام بھی پیداہو جاتا تھا جیسے کچھ سال بعد کی فلم ’’جوار بھاٹا‘‘ کے ہیرو اور بعد کے مشہور ایکٹرکا اصل نام یوسف خان تھا اور وہ ہندو ہر گز نہیں تھے یہ الگ بات کہ وہ اپنے ہندو نام دلیپ کمار سے زیادہ مشہور ہوئے۔
نرملا البتہ اتنی مشہور نہیں تھی لیکن جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ اس کی شہرت کچھ خاص قسم کے تصویروں کی وجہ سے تھی۔ وہ اصل فوٹو یا پوری کیمرہ ریل، جیسے سنا تھا، نوروجی کے پاس تھی اور سیٹھ صاحب وہ فوٹو اور ریل دیکھنے کے لئے مچل رہے تھے۔ نوروجی بھی کچی گولیاں نہیں کھیلا تھا اور نرملا کو’’ناچ نگری نگری‘‘ میں فائنل کرنے کی شرط پر ہی انہیں یہ چیزیں دکھانے کی ہامی بھری تھی۔ خدا جانے کیا جادو تھا کہ سیٹھ اس لڑکی پر کچھ ایسا لٹو ہوگیا تھا کہ آڈیشن تک میں حصہ نہ لیااور زبانی طور پر سب کچھ مان گیا۔۔۔ نرملا فائنل ہوگئی۔
نوروجی درمیانے قد، تنگ پیشانی، پکوڑہ نما ناک اور عجیب اوندھی کھوپڑی کا آدمی تھا۔۔۔ جہاں تک سنا تھا حادثاتی فلمی مشیر ہونے کے علاوہ ان کی شخصیت کا ایک اور رخ بھی تھا اور وہ یہ کہ ان کے پاس کچھ مشہور فلمی ادکاراوں کی اخلاق سوز قسم کی تصاویر تھیں یا شاید کچھ کٹے پھٹے کلپس۔ شاید یہی وجہ تھی کہ کافی لوگ ان کے گرد جمع رہتے تھے۔ یہ بتا تو دیا لیکن اب ایسا نہ ہو کہ آپ میرے بارے میں کچھ رائے قائم کر بیٹھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے ایسا سنا تو بہت لیکن خود ایسا کچھ نہیں دیکھ پایااس لئے اس بات کو صرف مبالغے کی حد تک ہی سمجھیں، ثقہ نہیں۔ مجھے البتہ وشنو داس نے نرملا کے بارے میں جو ثقہ بات بتائی وہ یوں تھی،
’’سالی ہندو ہے، اونچی جاتی کی ہے پرنتو دھرم کا نام برباد کر دیا اس نے، اجت کھاک میں ملا ڈالی اس کنچنی نے۔ کیول پیسے کے لئے اس سالی بیسوا نے شریر کو بیچا۔۔۔ نرک میں جائے گی سالی۔۔۔ سیدھی۔۔۔ رنڈی کہیں کی۔‘‘
داس صاحب جو فلم کے کیمرہ مین تھے رک نہ سکے،
’’وشی جی آپ بھی بس! ارے دستور ہے جہاں پیسہ دکھتا ہے وہاں دھرم وغیرہ سار اسالا بیک گراونڈ میں چلا جاتا ہے۔۔۔ پیٹ کے نرک میں بھی تو الاو دہکتا ہے اس کا بھی تو کچھ کرنا پڑتا ہے۔‘‘
پھر کھیسانے ہوتے ہوئے دھیما لہجہ اپنایا،
’’شریر تو نہیں بیچا نرملا جی نے۔۔۔ بس زرا سین ایسے فلمائے جو شریف پریوارکی چھوکریاں نہیں فلماتیں۔۔۔ ویسے وشی جی گیتا میں ایسا تو نہیں لکھا کہ آپ ایسے سین فلما نہیں سکتے۔‘‘
’’یہ گیتا میں لکھنے کی بات نہیں داس جی، ہمارے پرم پرا کی بات ہے۔ میں کیول اس کی طرف اشارہ کر رہا ہوں۔۔۔ گیتا میں نہیں لکھا۔۔۔ کیا دن آگئے ہیں!‘‘
’’وشی جی اگر ایسی ہی بات ہے تو پھر تو اس سٹوڈیو میں کام کرنے والا ہر آدمی پاپی ہے اورسالا یہ پورا جھنڈ نرک میں جائے گا۔۔۔ اب آپ ہی دیکھ لیں اسی ہی پاپی فلم کے لئے، جس کے آپ لیبارٹری انچارج ہیں، کوئی جسم بیچ رہا ہے کوئی قلم بیچ رہا ہے، کوئی آواز اور کوئی کچھ اور۔۔۔‘‘
ایک لمبی سانس لے کر کمرے سے باہر ٹین کے چھپر والے ہوٹل کی طرف اشارہ کیا،
’’یہ بھی دیکھیں اس ہوٹل کا لونڈا جو انگلیوں میں پیالیاں اٹکائے پھرتا ہے اور سدا اونگھتا اس کا پٹھان مالک، دراز بھائی، جو ہمارے لئے چائے بناتا ہے وہ بھی پاپی ہیں۔۔۔ اور تو اور بمبئی کیا ہندستان کے سارے ناگرک بھی پاپی ہیں جو ہمیں یہ سب کچھ کرنے دے رہے ہیں۔۔۔ نہیں؟ کیا کریں ہمارے لئے پاپی پیٹ کے نرک اور ان سالوں کے آنکھوں کی ٹھرک کا سوال ہے۔۔۔ اب آپ بتائیں ان میں سے سورگ میں کون جائے گا؟‘‘
میں نے بجائے اس بحث میں پڑنے کے کہ کون نرک اور کون سورگ میں جائے گا، مکالموں پر مغز ماری کی۔ لائنیں واجبی سی تھیں۔۔۔ زبان بھی کمزور تھی اور تو اور سین بھی حقیقت سے دور اور ذراتخیلاتی قسم کے تھے۔ میں نے کچھ قلم چلایا۔۔۔ کچھ سین آگے پیچھے کئے، الفاظ تبدیل کر دئے جیسے ’’اگر آپ ہمیں نہ ملے تو میں تو مر جاوں گی۔‘‘ کو میں نے ’’جیتے جی مر جاوں گی۔‘‘ کر دیا۔ اصل میں وہ تمام مکالمے اتنے سطحی تھے کہ ان میں تبدیلی لانے کے لئے بھی کافی کوشش درکار تھی۔
اسی اثنا میں اسے بھی خبر ہوئی کہ نیا منشی آیا ہے تو سیٹ پریکٹس کے بعد کولہے مٹکاتی ہوئی میرے پاس آئی۔
خاصی جاندار دھوپ نکلی ہوی تھی اور میں چھاوں میں کرسی پر بیٹھا پہلے سے لکھے پلندے میں ردو بدل کر رہا تھا۔ اس نے برقعہ اتارا اور سامنے والی کرسی پر پھیل کر بیٹھ گئی۔ ایسا کرتے ہوئے اس کے جسم سے لپٹادوپٹہ سرک گیا۔۔۔ پسینے میں بھیگی لال انگیا اس کے نیم شفاف سفید کپڑوں میں صاف دکھائی دی۔ اس خیرہ کن منظر کی تاب نہ لا کر میں نے پہلے آنکھیں نیچی کیں اور پھر دھڑکتے دل کے ساتھ اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔
اس کے ہونٹوں پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں لرز رہی تھیں اور اس کی چمکتی اور قدرے مخمور آنکھیں، جن میں بے پناہ کشش تھی میرے اندر پیوست تھیں۔۔۔ میں بھی اسے بے اختیار دیکھتا چلا گیا۔ میرے اس طرز عمل سے وہ مسکرائی اور پھر پتہ نہیں کیوں، ہونٹ کاٹتے، سانس کھینچ کر اپنی چست چولی کے ابھار مزید نمایاں کئے، بکھرے بالوں کو ہاتھ سے ایک طرف کیا، ہونٹوں کی لالی تازہ کی اور میرے سامنے جھک کر بیٹھ گئی۔
میں نے آنکھیں چرانی چاہیں تو شوخی سے قدرے مردانہ آواز میں بولی،
’’سعیدصاحب کیا نہیں دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں آپ؟‘‘
یہ میرے علم میں نہیں تھا کہ اسے میرا نام بھی معلوم تھا۔ اس بے تکلفانہ طرزتخاطب سے مجھے بھی کچھ ہمت ہوئی لیکن پھر کچھ سوچ کر اسے جواب نہیں دیا اور ہونٹ کاٹتے نظریں نیچی ہی رکھیں۔
میری بے التفاتی دیکھ کر وہ جھینپ سی گئی اور بات بدلتے ہوئے کہا،
’’ایک بات تو بتائیں آپ یہ گھسے پٹےڈائلاگ کیوں ٹھیک کر رہے ہیں؟ نئی کہانی کیوں نہیں لکھتے، شروع سے۔‘‘
اس کی یہ بات سو فیصدی درست تھی۔ اصل میں دوسروں کے کام کو درست کرنا دہری اذیت ہوتا ہے، پہلے اس کی کمزوریوں پر ماتم کرو اور پھر اسے ٹھیک کرنے کی کوشش پر۔ میں چاہتا تھا کہ میں ساری فلم نئے سرے سے لکھوں، میری اپنی کہانی ہو جسے میں جیسے چاہے موڑسکوں لیکن سیٹھ پرانے منشی کی کہانی پر فریفتہ تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جو دوگانا، ’’صنم تم جو کہو گے ہم مانیں گے۔‘‘ لکھا گیا تھا وہ کسی اور فلم میں نہیں چلے گا۔ صرف اس دو گانے کے لئے، جو ان کو از حد مرغوب تھا، وہ ساری فلم بنانا چاہتے تھے۔ ایسا کیوں تھا یہ نہیں پتہ لیکن شاید اس بے وزن گانے کے خالق وہ خود تھے۔
فلم کے نام اور ہیروئین کا معاملہ طے ہوا تو سیٹھ نے پیسہ پانی کی طرح بہانہ شروع کیا، سٹوڈیو کی تزئین و آرائش کرنا، فلم بنانے کے لئے انگلستان سے ضروری مشینیں خریدنا اور اسی قبیل کے کاموں پر۔ یہ پیسہ، جیسا کہ مجھے بعد میں پتہ چلا ان کا اپنا نہیں تھا بلکہ چند ایسے لوگوں کا تھا جوقلیل عرصے میں کروڑپتی بننا چاہتے تھے اور نہ جانے سیٹھ نے ان کو کیا سہانے سپنے دکھائے تھے کہ انہوں نے مطلوبہ سرمایہ بغیر تردد کے سیٹھ کو تھما دیا۔ سیٹھ بس فلم بنانے پر مصر تھے اور وہ بھی جلدی تاکہ اس سے اور پیسہ کما کر دوسری فلم شروع کر سکیں۔۔۔ وہ بھی جلدی۔
مجھے البتہ یہ کام جلدی ہوتا نظر نہیں آرہا تھا کیونکہ جو لوگ اس فلم کی تیاری میں مصروف تھے ان کے اندر جذبات ذیادہ اور یکسوئی تقریبا ناپید تھی۔ کچھ تو صرف دن گزارنے اور چائے پینے کے لئے سٹوڈیو میں چلے آتے تھے۔ ہاں ان لوگوں کے اندر اگر کوئی امتیازی وصف تھے تو وہ دو تھے، تنقید برائے تنقیداور سیٹھ کی ہاں میں ہاں ملانا۔ شعلہ بیانی سے لبریز ان کی نوکیلی تنقید سے سہراب مودی صاحب بھی محفوظ نہیں تھے۔ ان میں سے ایک صاحب کے مطابق ’’صدائے ہوس‘‘ مودی صاحب کی ایک بیکار اور بچگانہ پیش کش تھی اور اس سے تو بلکہ ’’ناچ نگری نگری‘‘، جس کی کہانی بھی ابھی زیر تکمیل تھی، ہزار گنا بہتر تھی۔
سیٹھ ایسی باتوں کو بہت سنجیدہ لیا کرتے تھے اور یہ خوشامدی بیانات سنتے، یکایک، جیسے انہیں ایک بہت اہم بات یاد آجاتی تھی اور پھر وہ فلم کے اشتہاری مہم کے متعلق بات کرنا شروع کردیتے تھے۔ باتوں میں یہاں تک ذکر آجاتا تھا کہ ہریانہ میں پوسٹر گورمکھی اور پشاور میں پشتو میں چھپیں گے اور جگہ جگہ نوجوان لڑکیاں اور خوجے نچوا کر عوام کو فلم دیکھنے کے لئے راغب کیا جائے گااور پھر وہ فلم سے حاصل آدھی آمدنی خیرات کر نے کی پیشگی قسمیں کھاتے۔ کسی نے ازراہ مذاق انہیں یہ مضحکہ خیز مشورہ بھی دیا کہ ٹکٹ کے پیسے دگنے رکھ کر اگر ایک فری ٹکٹ بھی دیا جائے تو نقصان بھی نہیں ہوگا اور پبلک بھی خوش رہے گی، ایک تیر سے دو شکار۔ سیٹھ جیسے چونک گئے، اس بے ڈھب مشورے کو بہت سراہا اور اس دن شام تک داہنے ہاتھ میں پکڑی تسبیح پھیرتے ’’ایک تیر دو شکار‘‘ کہتے سر دھنتے رہے اور مشیر کی ذکاوت کو سراہتے رہے۔
سیٹھ ویسے سراہنے پر آجاتے تو تنخوا دگنی کرنے کے وعدے کرتے۔ کبھی کبھی جلال میں آ کر سرزنش بھی کر دیتے تھے لیکن کچھ لوگوں کو تو وہ کچھ بھی نہیں کہہ سکتے تھے۔ یہ ایسا کیوں تھا معلوم نہیں لیکن شاید وہ ان سے دبتے تھے۔ ویسے وہ اتنے کچے آدمی بھی نہیں تھے، سٹوڈیو میں رتبہ، عہدہ اور پوزیشن دیکھ کر بات کرتے تھے۔
میری پوزیشن ان سب میں البتہ مختلف تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہانی کے تناظر میں مجھ سے سب سے ذیادہ امیدیں قائم تھیں جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ مجھ اکیلی جان پر دباو بڑھنا شروع ہوا کہ کہانی کو جلد از جلد فائنل کردوں اور تمام نغمے، جو کل ملا کر بیس کے قریب تھے، انہیں کہانی میں ایسے ضم کروں کہ ان میں بناوٹی پن سرے سے نہ ہو۔ بیس نغموں کا جھرمٹ ڈھائی تین گھنٹے کی کہانی میں ایسے پرونا کہ ان میں بناوٹی پن بھی نہ ہو، وہ بھی ایک صحافی کے لئے، جس کا فلم نویسی کا تجربہ نہ ہونے کے برابر تھا، بہت مشکل کام تھا لیکن میں پھر بھی فلم کے کوریوگرافر سروج بھاشوانی جی اور میوزک ڈائرکٹر حمید اللہ خاں صاحب سے سے ملا تاکہ تمام سین اور نغمے ایک ساتھ فلمی بخیئے میں ایسے لا سکوں کہ ان میں کہیں کوئی کجی باقی نہ رہے اور کسی کو گلہ بھی نہ ہو۔
بھاشوانی جی کے البتہ اپنے گلے تھے کیونکہ جب میں ان سے ملا تو وہ گھنٹوں بولتے رہے۔ ان کے پیٹ کی سب سے بڑ ی اینٹھن یہ تھی کہ وہ فلم میں ایک کلاسیکل ڈانس رکھوانا چاہتے تھے جس میں ترلوچن پوجا کی جھلک ہو لیکن کسی نے سیٹھ کے کان بھرے اور انہیں یہ یقین دلا چھوڑا کہ سروج سالا ایک کٹر ہندو ہے جو آپ کے کندھے پر بندوق رکھ کر اپنے دھرم کا پرچار کرنا چاہتا ہے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ بھاشوانی جی کو کہا گیا کہ مندر میں کوئی بھی سین نہ فلمایا جائے اور جو کلاسیکل ڈانس وہ فلمانا چاہتے ہیں وہ کوٹھے کے پس منظر میں فلمایا جائے کیونکہ اس میں حقیقت کی صحیح عکاسی بہرحال بہتر ہوتی ہے۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ کہانی میں ایسا کوئی مقام تھا ہی نہیں جس میں کوٹھے کا ذکر ہو لیکن نوروجی نے مجھے بلا کر یہ ہدایات دیں کہ کہانی میں ایسا موڑ ڈالا جائے جس میں ہیروین کو دلی سٹیشن سے اغوا کراکے الہ آباد کے کوٹھے پر پہنچایا جائے جہاں وہ مجوزہ ڈانس ایسے ملبوسات میں کرے جسے دیکھ کے لوگوں کے ہوش اڑ جائیں اور کہانی بھی سلوٹ کے بغیر رہے۔ یہ نیا مسئلہ اتنا سادہ بھی نہیں تھا اور اس مجوزہ ڈانس سین کے ملبوسات کے انتخاب پر بڑی لے دے ہوئ۔ نازش صاحب جووارڈروب انچارج تھے ہیروین کے لئے زرد مخملی بوٹ، چست پائجامہ اور اس کے اوپر پشواز اور تنگ چولی، جس میں اس کے خدو خال نمایاں ہو کر سامنے آئیں، چاہتے تھے جبکہ سیٹھ صاحب کا خیال تھا کہ وہ اس کے اوپر برقع بھی پہنے تاکہ عریانی بھی نہ ہو اور کام بھی چلے۔
اس معاملے میں بھی حرف آخر جمشید جی نوروجی تھا جس نے مشورہ کم حکم ذیادہ دیا کہ ہاں ڈانس کے شروع میں ہیروئن برقعہ والا لباس ضرورپہنے لیکن ڈانس مختصر لنگی اور انگیا پر ختم ہو کیونکہ اگر ہیروئن کو ناچتے ہوئے لباس کی قید سے بتدریج رہائی ملتی جائے تو پبلک کے جذبات کو ابال ملے گا جس کا صاف مطلب پیسہ یعنی منافع ہوگا۔
سیٹھ نے شروع میں دبی آواز میں کچھ کہنا چاہا لیکن منافع کی بات سن کر بالاخر اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے۔ اسی طرح سیٹھ نے ہیرو ہیروئن کے مابین سین میں بوس و کنار کی بھی مخالفت کی اور مزے کی بات یہ کہ چونکہ ہیروئن کا عاشق فلم کے شروع کے سین میں مارا جا چکا تھا کہانی میں اس کی گنجائش بھی نہیں تھی لیکن جمشید جی نوروجی کے مطابق اگر بوس و کنار کا سین نہ ہو تو فلم تین دن بھی نہ چلے۔
کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ فلم کی ہیروئن اصولی طور پر ان کی بہن کی طرح تھی اور اس سے اس قسم کے سین نہ کروائے جائیں لیکن جمشید جی نوروجی اپنی بات پر اڑا رہا اور ہر حال میں بوس و کنار کا سین ڈالنے پر مصر تھا۔ اب چونکہ اس وقت تک فلم کے تمام کرتا دھرتا اکیلا وہی تھااور اس کی کسی بات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا تھا تو یوں فلم میں اس قسم کے سین بھی ڈالنے پڑے۔ جب یہ اضافہ بھی ہوا تو مجھے یوں لگا کہ مجھے کہانی نئے سرے سے لکھنی پڑے گی لیکن جمشید جی نوروجی نے مجھے بلا کر کہا،
’’کہانی میں ایسا کرو کہ کوٹھے کے ڈانس کے بعد ہیروین کو سوتا دکھاو اور پھر اس کے خواب ہی میں اس کے مقتول محبوب کو دکھاو جس میں وہ اس کے ساتھ بوس و کنار کرے اور پھر جب وہ خواب سے اٹھے تو دو ڈاکو آ کر زبردستی اس کی عصمت دری کریں اور اس سین کو تو خوب لمبا کرو۔۔۔ بہت اچھا ڈسکرائب کرو۔‘‘
میں نے یہ سن کر طنزیہ لہجے میں کہا،
’’آپ چاہیں تو میں اس میں ایک اور سین کا بھی اضافہ کر سکتا ہوں کہ جس تھانیدار کو وہ رپورٹ لکھوانے جائے وہ بھی اس کے ساتھ زیادتی کرے، میں یہ سین بھی لمبا ڈسکرائب کرسکتا ہوں۔۔۔ کیا خیال ہے آپ کا؟‘‘
وہ میرا طنز تو نہ سمجھ سکے لیکن اس کے ماتھے پر لیکریں ابھر آئیں اور پھر ہونٹ سکیڑ کر، نفی میں سر ہلا کر مجھے یہ کہہ کر منع کیا کہ اس طرح کہانی کچھڑی بن جائے گی۔
کہانی بہرحال کچھڑی بن چکی تھی اور اس کی پیچیدگی ایسی ہوگئی تھی جیسے مختلف رنگوں کے تاروں سے بٹی رسی جس میں ہر رنگ کا تار موجود تو ہو لیکن رنگ کٹواں نظر آئے۔۔۔ میرے خیال میں سارا پلندہ کسی تسلسل کے بغیر کہانی کم، جنسیت میں لتھڑا ایک بیکاربیانیہ زیادہ بن کر ابھر آیا تھا۔
اس غیر مربوط کہانی سے بنی فلم کا انجام مجھے اچھی طرح پتہ تھا سو میں نے سوچا کہ سیٹھ سے بات کروں کہ وہ مجھے نئی کہانی لکھنے کی اجازت دے۔ اب اگر یوں ہو تو میں اپنی مرضی سے ساری کہانی بھی لکھ سکوں گا اور میری مدت ملازمت بھی طویل ہوگی جس کا صاف مطلب ذیادہ پیسہ تھا۔
میں نے ان کے سامنے اپنی عرضداشت ایسے پیش کی،
’’سیٹھ جی! شاید آپ کے علم میں ہے کہ کہانی پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتی چلی گئی ہے۔ یہ بات نہیں کہ میں مکالمے لکھ نہیں سکتا اور پرانے منشی نے جو لکھا وہ میں حقیقتا سنبھال چکا ہوں لیکن کہانی میں کچھ ایسے موڑ ڈال دئے گئے ہیں جو شاید مذہبی طور پر درست نہیں۔ تقریبا ننگے ڈانس اور جسمانی ملاپ۔۔۔ بے محل مناظر۔۔۔ آپ کی مرضی لیکن میں ایک کہانی ایسی لکھ سکتا ہوں جو صرف اپنے فن کی بنیاد پر’’بھارت کی بیٹی‘‘، اور ’’بھکارن‘‘ سے بھی بہتر بزنس کرے۔ سیٹھ صاحب میرے قلم میں یہ طاقت اور صلاحیت۔۔۔‘‘
میں انہیں دیر تک اپنے قلم کے کرشموں کے بارے میں بتاتا رہا کہ کیسے میں نے دس سال قبل صحافیانہ زندگی میں سائمن کمیشن کے رد عمل میں لالہ لاجپت رائے پر لاٹھی چارج اور ان کے قتل کی رپورٹنگ کی اور ہندوستان کی سیاست کا رخ موڑا اور یہ میں ہی تھا جس نے چراغ حسن حسرت اور نہرو رپورٹ۔۔۔ یہ واقعات بیان کرتے ہوئے میں نے اپنے قلم کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملا دئے۔
سیٹھ نے میری پوری بات دھیان سے سنی، اپنی تسبیح چومی اور خاصے جذباتی ہوگئے،
’’سعید آپ کی بات سن کر مجھے واقعی دھچکا لگا ہے۔۔۔ ہم ٹھیک نہیں کر رہے ہیں۔۔۔ ہم میں اور ان سب میں فرق کیا رہ گیا اگر ہم بھی وہی داؤ پیچ استعمال۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔‘‘
پھر کچھ سوچ کر فیصلہ کن انداز اختیار کیا،
’’مجھے آپ پر اعتماد ہے۔ کہانی نئے سرے سے لکھیں اور ایسی لکھیں کہ اس میں فحش نگاری کی جھلک تک نہ ہو۔ پیروں فقیروں والی کہانی ہو اور ہو سکے تو ہیروئن کا صرف ایک ہی سین ڈالو۔۔۔ شروع کا۔۔۔ جس میں وہ جائے نماز پر مر جائے، برقعہ میں۔۔۔ اب یہ بات پکی ہے کہ محبت بھری یہ مذہبی فلم ضرور کامیاب ہوگی۔‘‘
میرا دل خوشی سے بلیوں اچھلنے لگا، بات پکی ہو یا نہیں کسے فکر تھی، مجھے اپنی نوکری پکی نظر آئی۔
یکایک مجھے خیال آیا اور میں نے ہلکی آواز میں جمشید جی نوروجی کا کہا تو بولے،
’’میں اس کا حساب چکتا کر دیتا ہوں۔ کل سے فلم کی تمام تر ذمہ داری دیوان جی پر ہوگی اور تمہاری تنخواہ بھی دگنی ہوجائے گی۔ بس تم کام شروع کرو۔۔۔ آج سے۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے ہونٹ کاٹے اور پھر سر ہلا کر خود کلامی کا انداز اختیار کیا،
’’میں آج شام نوروجی سے ملاقات کروں گا۔۔۔ خدا کی قسم اب میرا دل بھر گیا ہے اس مشغلے سے۔‘‘
اگلے دن سیٹھ نے سوائے کیمرہ مین داس صاحب کے مجھے باقی تمام لوگوں سمیت نوکری سے فارغ کر دیا اور سٹوڈیو بھی بند کردیا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ چونکہ سیٹھ ایک ایماندار آدمی تھے اس لئے ان کا ضمیر جاگ گیا تھا اور وہ فلم بنانے سے دستبردار ہوگئے تھے لیکن ایک مہینے بعد اڑتی اڑتی یہ خبر بھی سنی کہ سٹوڈیو بند نہیں ہوا تھا، صرف بورڈ اترا تھا اور اصل میں اس نے اور نوروجی نے صرف ایک کردار نرملا کو، ہیروین کم ویمپ زیادہ، لے کر ایسی فلم بنائی جسے صرف گھریلو پروجیکٹر پر ہی دیکھا جا سکتا تھا۔
سننے میں یہ بھی آیا کہ سراب جی کیراوالہ کی فلم ’’مسٹر چار سو بیس‘‘ کی تقریبا ہم نام اس ایک اکیلی پندرہ منٹ دورانیئے کی مختصررنگین فلم کا بزنس ’’اچھوت‘‘، ’’بندھن‘‘، ’’پاگل‘‘، ’’سروجنی‘‘ اور ’’نرتکی‘‘ کے مجموعی بزنس سے ذیادہ تھا۔ یہ بات شاید سچ بھی ہو کیونکہ سراب جی نے نام کو متنازعہ بنا کر قانونی چارہ جوئی کا ایک نوٹس سیٹھ صاحب کو بجھوا یا تھا جس کے مندرجات کا تو مجھے علم نہیں لیکن جیسا کہ مجھے یقین تھا کہ جس بھی فلم میں یہ چھوکری ہو اسے نہ تو مکالموں کی ضرورت تھی اور نہ کسی قانون کا ڈر۔
اچھا اب چونکہ میں نے ’’مسز چار سو بیس‘‘ خود نہیں دیکھی اس لئے یہ تمام باتیں میں تعین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا۔ ہاں جو میں تعین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ اگلے دو ہفتے تک میں نے دودھ کے بغیر ہی چائے پی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.