پارسا بی بی کا بگھار
کہانی کی کہانی
یہ ایک سماجی کہانی ہے جس میں ایک پارسا بیبی جب بھی اپنے گھر میں دال کا بگھار لگاتی تھی تو سارے محلے کو پتہ چل جاتا تھا۔ پارسا بیبی تھی تو بادشاہ کی بیٹی لیکن ایک منشی کے گھر بیاہی گئی تھی اور یہی اس گھر کے عورت کی کہانی ہے۔
’’تو جب وہ بی بی دال بگھارتی تو زیرے، لہسن اور اصلی گھی کی سوندھی خوشبو اڑ کر سات آسمانوں تک پہنچتی اور فرشتے کہتے، لو آج پھر پارسا بی بی کے گھر ارہر کی سنہری سنہری دال پکی ہے، پارسا بی بی بیٹی تو تھی بادشاہ کی لیکن بیاہ کے آگئی تھی غریب منشی کے گھر۔۔۔‘‘ دادی تو یہ کہانی صدیوں سے سناتی آرہی تھیں لیکن کبھی کسی بہو نے ان سے یوں مونہہ لگ کر سوال نہیں کیے تھے۔ رہی بات قمر کی تو وہ بہو نہیں پوتی تھی اورطرہ یہ کہ اسکول پڑھنے جاتی تھی۔ اوپر سے ککڑی کی بیل کی طرح دھڑادھڑ بڑھ رہی تھی۔ اس نے پٹ سے سوال کیا، ’’بھلا بادشاہ زادی بیاہ کے غریب منشی کے گھر آئی کیسے؟‘‘ دادی ادھر ادھر دیکھنے لگیں۔
’’بتائیے نہ دادی۔ ایسا ہوتا ہے کہیں؟ اب بادشاہ زادی بیاہ کے بادشاہ کے گھر جائے نہ جائے۔ نواب کے گھر تو جائے۔ ورنہ سپہ سالار وزیر کچھ تو ہو۔‘‘
’’کہانی سنے گی یا بال کی کھال نکالے گی۔ کٹھ حجت کہیں کی۔ اور پڑھاؤ اسکول بھیج کے۔ اور وہ موئی کرنٹان استانیاں۔‘‘ دادی بگڑگئیں۔ ماتھے سے سرکتا آنچل پھر سے اچھی طرح جما کے اماں نے بھی تنبیہ کی، ’’کتنی بار سمجھایا، بڑوں سے حجت نہیں کرتے ہیں۔‘‘
’’اور اگر بڑے ایسی باتیں کریں جو سمجھ میں نہ آئیں تو؟‘‘ قمر نے نصیحت یکسر انداز کردی۔ اس کی محبوب ٹیچر مسز نارٹن نے، جنہیں دادی ناٹنگ بلکہ نوٹنکی کہا کرتی تھیں، سمجھایا تھا کہ کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو پوچھ لینا چاہیے، گفتگو سے ذہن کے درواز کھلتے ہیں۔
’’اچھا چل سمجھ میں نہیں آرہا ہے تو سمجھ ہی لے کیوں کہ اس میں نصیحت بھی ہے۔ بادشاہ زادی کو توال کے بیٹے سے۔۔۔‘‘ دادی کی زبان ذرا کی ذرا لڑکھڑائی لیکن پھر سنبھالالے لیا۔ ’’بادشاہ زادی کو توال کے بیٹے سے آنکھ مٹکاکر کے بیٹھی تھی اس لیے سزا دینے کے لیے بادشاہ نے اسے، جو پہلا لڑکا نظر آیا، اس سے بیاہ دیا۔ اب وہ نکلا منشی کا بیٹا، اور منشی کی مجال جو بادشاہ کے حکم سے سرتابی کرے۔‘‘
’’دادی۔ منشی کے بیٹے سے کوتوال کا بیٹا تو اچھا رہتا نا۔‘‘
’’اوئی بی بی۔ یہ لڑکیاں اپنا برکب سے خود چننے لگیں؟ ایسی بیٹیوں کو تو گلادباکے مار دینا چاہیے۔ اللہ آمین کی بیٹی رہی ہوگی سوبادشاہ نرم پڑگیا۔ زندہ رہنے دیا ایسی بیٹی کو۔‘‘
’’اچھا تو دادی اگر کیا کہتے ہیں کہ اس نے اپنا بر خود چننے کا گناہ کیا تھا تو وہ پارسا بی بی کیسے کہلائی؟‘‘
’’پارسا اس لیے کہلائی کہ اس نے سرجھکاکر باپ کی مرضی کو قبول کرلیا۔ پھر شوہر کے علاوہ کسی کو آنکھ اٹھاکے بھی نہ دیکھا۔ جس کے چاروں طرف لونڈی غلام ہاتھ باندھے گھومتے تھے، وہ جھاڑو بہارو کرتی، گائے کی سانی پانی کرتی، کاھنا پکاتی اور جب دال بگھارتی تو۔۔۔‘‘ کہانی کے اس موڑ پر دادی نے ڈرامائی انداز میں گھوم کر فاطمہ بی بی یعنی قمر کی اماں یعنی اپنی بہو کی طرف دیکھا اور آواز قدرے تیز کردی۔
’’اور جب وہ دال بگھارتی تو ایک بڑے پیالے میں شوہر، سسر اور بیٹے کی لیے دال نکال کر بگھار کر پورا کرچھل اس پیالے میں انڈیل دیتی اور اپنے لیے پتیلی کے پیندے میں چھوڑی ہوئی تھوڑی سی دال میں خالی کرچھل ڈبودیتی۔ گرم کرچھل چھن سے کرتا اور دراصل یہی چھنا کا اس کے گھر کے روشندان سے ہوکر سات آسمانوں تک پہنچتا اور فرشتے کہتے کہ لو آج پھر پارسا بی بی نے ارہر کی سنہری سنہری دال پکائی ہے۔‘‘
’’اچھا تو دادی۔‘‘ قمر نے پھر لقمہ دیا۔ ’’اگر وہ لوگ اتنے غریب تھے تو خالص گھی میں دال کیسے بگھاری جاتی تھی؟‘‘ دادی نے ناک بھوں چڑھائی، ’’یہ مٹ گیا ڈالڈا تو ابھی حال میں نکلا ہے۔ پہلے معمولی گھروں میں بھی دال گھی سے ہی بگھاری جاتی تھی۔ گھی کم ہونے کی وجہ سے ہی تو پہلے مردوں کے پیالے میں ڈال دیا جاتا تھا۔ پہلا حق تو ان کا ہی ہوا نا۔‘‘
’’ان کے گھر کبھی گوشت پکتا تھا دادی۔۔۔؟‘‘ قمر کو گوشت بہت پسند تھا اس لیے اس نے بڑے تاسف سے پوچھا۔ ’’ہاں ہفتے کے ہفتے پکتاتھا۔‘‘ دادی نے یوں کہا جیسے وہ پارسا بی بی، بادشاہ زادی ان کی بھانجی بھتیجی کچھ تھی اور وہ اس کی گرہستی میں رہ آئی تھیں۔ ’’پارسا بی بی گوشت پکاکر پورا سالن بڑے چینی کے پیالے میں انڈیل کر گھر کے مردوں کے سامنے رکھ دیتی اور خود روٹی سے پتیلی پونچھ لیتی۔ کبھی آلو یا اروی گوشت میں ڈالتی تو ہاں اس کاایک آدھ ٹکڑا اپنے لیے روک لیا کرتی۔‘‘
’’ہا، دکھیا!‘‘ قمر نے ناک پر انگلی رکھ کر بالکل دادی کے انداز میں کہا۔
’’ارے دکھیا کیوں؟ کھڑی جنت میں گئی۔ جب مری تو سارا گھر خوشبو سے مہک رہا تھا۔‘‘
’’آپ نے خوشبو سونگھی تھی دادی؟‘‘
اماں اس درمیان اٹھ کر کہ وہ یہ کہانی دسیوں بار سن چکی تھیں، باروچی خانے میں مردوں کے پیالے میں پورا بگھار انڈیلنے جاچکی تھیں۔ ان کے ہاتھ سے کرچھل بہک گیا۔ خیریت تھی کہ خالی ہوچکا تھا۔ یہ قمر ضرور کسی دن مارکھائے گی۔ ان کا آنچل پھر سرکنے لگا تھا۔ کرچھل اور آنچل دونوں سنبھال کر وہ تاسف کے ساتھ قمر کے مستقبل پر غور کرنے لگیں جو خاصہ تاریک نظر آرہا تھا۔ اس قدر بک بک۔ اتنی حجت۔ باسی کھانا اکثر اماں ہی سوارت لگاتی تھیں۔ گھر میں کوئی خاص چیز پکتی تو بچا کر مردوں کے لیے رکھ دیتیں کہ دوسرے وقت بھی کھالیں گے۔ خود کبھی پہلے کے بچے کھچے کے لیے برتن ٹٹولتیں۔ نہیں تو اچار تو ہمیشہ ہی رہتاتھا۔ اکثر انہیں باسی کھاتے دیکھ کر قمر ہاتھ سے رکابی چھین لیتی اور تازہ کھانا ان کی پلیٹ میں ڈالتی، ’’کھانا پھینکنا کبھی نہیں چاہیے بیٹا۔ گناہ ہوتا ہے۔‘‘ وہ کہتیں۔
’’تو سب مل کے کھائیں۔ ابا کو اور بھیا کو اور دادی کو سب کو دیا کرو تھوڑا تھورا۔‘‘ اماں مسکراتیں۔ ’’دادی اپنے وقت میں بہت باسی کھاچکی ہوں گی۔ اب وہ گھر کی بزرگ ہیں۔‘‘
’’جھوٹن کھانا رہ گیا ہے۔ وہ بھی تم کھا لیا کرو۔‘‘ ایک دن قمر نے جلبلاکر کہا تھا۔ اس دن ابا نے اپنے کچھ دوستوں کو مدعو کیا تھا۔ باہر سے برتن آئے تو کچھ پلیٹوں میں بہت کھانا بچا ہوا تھا۔ اماں نے اسے سمیٹ کر اکٹھا کیااور بھیا سے کہا کہ باہر ڈال دے کتا کھالے گا۔‘‘ کوڑے میں مت ملانا۔ صاف جگہ پہ رکھنا‘‘ انہوں نے بیٹے کو ہدایت دی۔
’’کتا کیوں کھائے گا۔ تم کھالو۔ مرغ کی دودوبوٹیاں ہیں۔ اچھا خاصہ پلاؤ ہے یہ ابا کے پیٹ بھر ے دوست نیاز خاں۔ گھر میں حرام کا بہت آتا ہے۔ اس لیے برباد کرتے جی نہیں دکھتا۔‘‘ اماں نے سرپہ ہاتھ مارلیا۔ ’’ارے کم بخت لڑکی۔ باہر آواز جائے گی۔ ذرا دھیرے بول۔ جو منہ میں آتا ہے بک جاتی ہے۔‘‘
اماں کو یہ خدشہ ہروقت لگا رہتا تھا کہ آوازباہر جائے گی۔ ایک دن دادی نے ابا سے جانے کیا لگائی بجھائی کی کہ وہ خوب چلائے۔ اماں کو بلاوجہ ڈانٹ کھانے سے زیادہ فکر اس بات کی ہوئی کہ کہیں آواز باہر نہ چلی گئی ہو اور پاس پڑوس والوں یا کسی راہ چلتے کو پتہ نہ چل گیا کہ اس گھر میں کوئی چپقلش ہوئی ہے۔ لیکن یہ قمر سن کے ہی نہیں دیتی تھی۔ پرائی امانت۔ کہاں جائے گی تتیا مرچ۔
’’ہاں تو دادی تم گئی تھیں جب پارسا بی بی مری تھی؟‘‘
دادی بڑی زور سے بھڑکیں، ’’ہر بات خود دیکھی جاتی ہے کیا؟ ارے خدا کو دیکھا نہیں، عقل سے پہچانا ہے۔ یہ کہانی ہماری جنت مکانی والدہ نے سنائی تھی۔ ہوسکتا ہے کسی نے پارسا بی بی کو دیکھا بھی ہو۔‘‘
’’نہ دیکھا ہو تو ہماری اماں کو دیکھ لے۔ یہ کون سی پارسا بی بی سے کم ہیں۔‘‘ قمر کا انداز چڑانے والا تھا۔ ’’تیری اماں!‘‘ انہوں نے گھور کر پوتی کو دیکھا پھر ایک خشمگیں نظر سرجھکائے باورچی خانے میں کام کرتی بہو پر ڈالی (باورچی خانہ آنگن پار کرکے برآمدے کی سیدھ میں تھا جہاں دادی کا تخت پڑا رہتا تھا۔ قمر اسے راج سنگھاسن کہتی تھی۔ وہاں سے کوئی آیا گیا، بہو، نوکر، سب دادی کی نظرمیں رہتے تھے۔)
’’تیری ماں ذرا تجھ پارسا بی بی کو تو سنبھال لے۔ چل ادھر آ۔ یہ مٹ گئے عیسائیوں کی سی وضع بنارکھی ہے۔‘‘ انہوں نے قمر کی دوچوٹیوں کو پکڑ کر جھٹکا دیا۔ ’’یہ تیری عالم فاضل ممانی آکر تجھے سکھاگئی ہے۔‘‘
اماں سے ملنے آئی ممانی قمر کے گھنے بال سلجھانے میں مدد کر رہی تھیں تو قمر نے ٹھنک کر کہا تھا کہ اسکول میں زیادہ تر لڑکیاں دوچوٹیاں بناکر آتی تھیں۔ بس مارے لاڈ کے ممانی نے دوچوٹیاں بناکر سرخ ربن سے پھول بھی بنادیا۔ تھاپی جیسی ایک چوٹی سے وہ دوچوٹیاں کتنی اچھی تھیں۔ اماں سارے طعنے، سارے کہانیاں شربت کے گھونٹ کی طرح پی جاتی تھیں۔ بس میکے کے بارے میں بڑی حساس تھیں۔
’’ہمارے وقت میں لڑکیوں کو مانگ نہیں نکالنے دیتے تھے۔ بغیر مانگ نکالے ایک چوٹی بندھا کرتی تھی اب وہ تھاپی لگے یا نیولے کی دم (قمر اپنی موٹی چوٹی کو نیولے کی دم کہا کرتی تھی۔) تو بیٹا تمہیں تو مانگ نکالنے کی اجازت ہے۔ کیوں دو چوٹیوں کی ضد کرکے دادی سے ڈانٹ سنتی اور ممانی کو برا کہلواتی ہو۔‘‘ اماں کے لہجے میں تاسف تھا۔
’’دوچوٹیاں باندھنے سے کسی کے مذہب کا کیا لینا دینا۔ مجھے بڑا غصہ آتا ہے جب دادی کہتی ہیں کہ عیسائیوں کی سی وضع بنارکھی ہے۔‘‘ (دادی کے ’’مٹ گئے‘‘ عیسائی اس وقت بھی ساری دنیا پر دندنارہے تھے جیسے آج دندنارہے ہیں اور جس کو چاہتے تھے اسے مٹانے کا مقدور رکھتے تھے جیسے آج رکھتے ہیں۔ نہ جانے کتنی تہذیبوں، کتنی حکومتوں کو ملیامٹ کردیا تھا لیکن قمر کا شعور اس وقت اتنا بالیدہ نہیں ہوا تھا۔ ہاں یہ سمجھتی تھی کہ اس کی دوچوٹیوں سے عیسائیوں کاکچھ لینا دینا نہیں ہے۔)
قمر نے امتیازی نمبروں سے بی اے پاس کرنے ے بعد بی ایڈ میں داخلہ لیا تو اس نے اپنے بال کٹوادیے۔ وجہ یہ تھی کہ پریکٹس ٹیچنگ، کے لیے جوڑا بناکر جانا لازمی تھا۔ جن لڑکیوں کے بال تراشے ہوئے تھے ان پر یہ ضابطہ لاگو نہیں تھا۔ کم عمر قمر کے لیے جوڑا بنانا وہ بھی گھنے، روکھے بالوں سے ٹیڑھی کھیر تھا۔ ویسے تو یہ بی ایڈ ہی نہایت ٹیڑھی کھیر تھا۔ بچے بڑے شاطر تھے۔ انہیں معلوم تھا یہ لڑکیاں ان کی اصلی ٹیچر نہیں ہیں۔ یہ تو موسمی پرندے ہیں جو چند ماہ کے لیے ایک مخصوص مدت میں آتے اور پھر اڑ جاتے ہیں اس لیے قطعی بات نہ سنتے۔ اگر سپروائزر سے شکایت کرو تو وہ جواب دیتے کہ بچوں کو ڈسپلن کرنا آپ کی تربیت کا حصہ ہے۔ آپ سمجھیے آپ کیا کریں گی۔ ایسے میں بال اور لباس درست رہنا بہت ضروری تھا۔ چھٹیوں میں قمر گھر آئی تو اماں نے سرپیٹ لیا۔ خیریت تھی کہ اس وقت دادی جنت مکانی خلد آشیانی ہوچکی تھیں۔ اس لیے سراماں نے اکیلے ہی پیٹا۔
بی اے کے بعد، بلکہ اور پہلے سے دادی نے تو قمر کی شادی کی ضد باندھ رکھی تھی۔ اس وقت انہیں صرف ایک منطق نے چپ کرایا تھا۔ قمر پڑھ لکھ کر پیروں پر کھڑی ہوجائے گی تو بغیر جہیز کے آسانی سے اچھا لڑکا مل جائے گا۔ پھر استانی بننا تو عزت کی بات ہے۔ وہ کرنٹان مسز نارٹنگ کی بیٹا سلومی کی طرح آفس میں ٹپ ٹپ ٹائپ کرنے تھوڑی ہی جارہی تھی۔ دادی قمر کے استانی بننے سے پہلے چل بسیں۔ لیکن کچھ معاملوں میں اماں کون سی کم تھیں۔ وراثت سنبھالے بیٹھی ہوئی تھیں، جبھی تو قمر کے بال دیکھ کر اس قدر ہول گئیں کہ انہوں نے پہلی بار شوہر کو کٹ گھرے میں کھڑا کرنے کی ہمت کی جو ان کے لیے مجازی خدا کا درجہ رکھتے تھے اور جن پر الزام تراشی کفر تھی۔ ویسے بھی اماں نیک اور فطرتاً ڈرپوک انسان تھیں۔ اپنے وقت کی زیادہ تر شریف بی بیوں کی طرح، جن کا ہیاؤ عموماً اسی وقت کھلتا جب وہ ادھیڑ عمر ہوکر ساس کے مرتبے پر فائز ہوجاتیں اور ایک انہیں کی طرح کی کمزور لڑکی بہو بن کر گھر میں آجاتی۔ لیکن اس دن انہوں نے بڑی ہمت کی۔ شوہر کے سامنے تن کر کھڑی ہوگئیں۔
’’قمر کو آپ نے بگاڑا ہے۔ بی اے کرلیا تھا، بہت کافی تھا۔ سلمان چچا اتنا اچھا رشتہ لائے تھے آپ نے میرے اصرار کے باوجود انکار کردیا اور لڑکی کو بھیج دیا بی ایڈ کرنے۔ پھر یہ بھی نہیں دیکھتے کہ کیا کرتی گھوم رہی ہے۔‘‘
’’کیا کرتی گھوم رہی ہے؟‘‘ ابا نے چونک کر آخری جملہ پکڑا۔ باقی باتیں صفا ٹال گئے۔
’’بال کٹوالیے ہیں اس نے۔‘‘ اماں کا لہجہ ایسا مضطرب تھا جیسے کانے دجال کے نکل آنے کی اطلاع دی رہی ہوں۔
’’اوہ!‘‘ ابا کی رکی ہوئی سانس سینے سے باہرآگئی۔ وہ بڑی زور سے کھٹکے تھے۔ انہیں لگاتھا بیوی خبردیں گی کہ بیٹی کسی لونڈے کے ساتھ گھومتی دیکھی گئی ہے۔ اس لیے ’میموں ‘ جیسے بال کٹوالینے کی خبر خاصی دلدوز ہونے کے باوجود اپنا اثر کھوبیٹھی تھی۔ زور کاجھٹکا دھیرے سے لگا۔
’’اچھا۔ لیکن میں نے تو نہیں دیکھا۔‘‘ ابا کو ایک موہوم سی امید تھی کہ شائد قمر کی اماں کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے یا وہ کچھ مبالغے سے کام لے رہی ہیں۔ لیکن ان کی آواز کمزور ضرور تھی۔
’’آپ کے سامنے آپ کی چالاک بیٹی سرڈھکے رہتی ہے۔ سرکھلا رکھتی ہے تو پیچھے کلپ لگاکر بال سمیٹ لیتی ہے۔‘‘
ابا کے اجلاس میں قمر کی طلبی ہوئی تو اس نے بغیر کسی گھبراہٹ کے وضاحت پیش کی۔ ابا کو یہ اطمینان ضرور ہوا کہ قمر نے بال محض فیشن ایبل لگنے اور ’میموں کی وضع‘ اختیار کرنے کے لیے نہیں کٹوائے ہیں۔
’’بی۔ ایڈ کا کورس ختم ہونے میں بس دوتین مہینے باقی ہیں۔ امتحان ہوجائیں تو پھر بڑھا لینا۔‘‘ ابا نے تحکمانہ لیکن نرم لہجے میں اتنا ہی کہا۔
’’جی ابا۔ ضرور۔‘‘ قمر نے منمناکر جواب دیا لیکن ان کے باہر چلے جانے کے بعد اماں پر الٹ پڑی۔
’’چغلی لگاکے کیا ملاتمہیں؟ لڈو!‘‘
’’خوب تعلیم ہے بھائی تمہاری۔ خاندان میں اور لڑکیاں نہیں ہیں کیا۔ اور کسی نے نہ کٹوالیا چونڈا۔‘‘ ابا نے قمر کی خاطر خواہ سرزنش نہیں کی تھی اس لیے اماں آزردہ خاطر تھیں اور مونہہ ہی مونہہ میں بڑبڑاتی جارہی تھیں۔ ’’اور اسکولوں کالجوں میں یہی سکھایا جا رہا ہے کہ بڑوں سے بدتمیزی کرو۔ اب یہی تم اپنے شاگردوں کو سکھانا۔ رہ گئے تمہارے ابا تو بسنت کی خبرنہیں۔ کون کرے گا پرکٹی سے بیاہ۔‘‘
ایک تو چونڈا کٹوانے جیسا غیر فصیح، اہانت انگیز جملہ اوپر سے جلے پر نمک ’پرکٹی‘ پھر خاندان کی دوسری غبی، کند ذہن گھر بیٹھ کر پرائیوٹ اردو۔ فارسی کے امتحان پاس کرنے والی لڑکیو ں سے موازنہ، قمر کی ایڑی میں لگی اور چوٹی میں بجھی۔ جلبلاکر بولی، ’’اور اسے بھول گئیں۔ تمہارے چچازاد بھائی کی بیٹی ثریا۔ اس نے بال کٹوائے ہی نہیں بلکہ لکھنؤ جاکر ان میں گھونگھر بھی ڈلوائے۔ یہ نہ کہنا کہ تمہیں معلوم نہیں۔ ابھی تو ملی تھی عمرانہ خالہ کے یہاں میلاد میں۔‘‘
’’ثریا کی شادی ہوگئی ہے۔ اب وہ جانے اور اس کا شوہر اور سسرال والے۔ اور ہاں میرے چچازاد بھائی تمہارے ماموں ہوئے۔ خبردار جو یو ں ذکر کیا کہ تمہارے چچازاد بھائی۔‘‘
’’ہاں ہاں۔ چلو نہ بڑے آئے ماموں۔ ایک نمبر کے تگڑم باز، معمولی صورت کی بارہویں پاس بیٹی کے لیے سرکاری نوکری والا لڑکا لے آئے۔ تم نے بھی کردی ہوتی ہماری شادی۔ پھر بلا سے ہم سرہی مونڈ کر رکھ دیتے۔، شادی نہ ہوئی ہر آزادی کا پروانہ ہوگئی۔‘‘ قمر پیر پٹختی وہاں سے چل دی۔
اماں ٹک ٹک ’’دیدم دم نکشیدم‘‘ بت بنی بیٹھی دیکھتی رہ گئیں۔ ایسی خاموش ہوئیں کہ سارا دن گزر گیا اور وہ ہوں، ہاں کے علاوہ کچھ نہ بولیں۔ کتنی بڑی بات بول گئی یہ بدزبان لڑکی۔ تم نے بھی کردی ہوتی ہماری شادی۔ اگر قمر کے ابو نے سلمان چچا کا لایا ہوا رشتہ منظور کرلیا ہوتا تو آج یہ سننے کی نوبت نہ آتی۔ اچھے بھلے لوگ تھے۔ اچھا خاصہ رہن سہن۔ معقول لڑکا۔ یہی نہ کہ خاندان بڑا لانبا چوڑا تھا۔ ’’میری بیٹی قمر اس چڑیا خانے میں پندرہ بیس لوگ کی روٹی ٹھیکنے نہیں جائے گی۔‘‘ ابا نے ایک حتمی جواب دیا تھا اور پھر کیا مجال جو کوئی ان سے حامی بھروالے۔
’’خاصہ پیسہ ہے لیکن گھر میں نوکر چاکر نہیں۔ بس جھاڑو برتن کے لیے ایک عورت آتی ہے۔ باقی کام خواتین خود کرتی ہیں۔ گاڑی بھر تو برتن نکلتے ہیں۔ اگر ملازمہ نے ناغہ کیا تو وہ بھی خود ہی دھوتی ہیں۔ پھر یہ کہ لڑکے کی عمربھی زیادہ ہے۔‘‘ امیرن خالہ نے بتایا تو پھر دادی خاموش ہوگئیں، گرچہ قمر کا اٹھارہواں سال لگتے ہی انہوں نے اس کی شادی کے لیے واویلا مچانا شروع کردیا تھا۔
اماں اس دن چپ چاپ بیٹھی خلا میں کچھ دیکھتی رہیں۔
پندرہ بیس تو نہیں لیکن دس بارہ لوگ گھر میں ضرور تھے جب سترہ برس کی کامنی سی اماں بیاہ کر آئی تھیں۔ ابا کے والد حیات تھے۔ تین بھائی بھی ساتھ ہی رہتے تھے۔ ایک ائرپورٹ میں نوکر تھے۔ ان کی بس علی الصبح آتی تھی۔ تاروں کی چھاؤں میں ان کا ناشتہ بنتا تھا اور ساتھ لے جانے کے لیے ٹفن بھی۔ اماں کا دن صبح چار بجے شروع ہوتا۔ دادی اس وقت خواب خرگوش کے مزے لوٹتی پڑی سناتی رہتیں، گرچہ اس وقت بڑی مضبوط قد کاٹھی کی محض ادھیڑ عمر خاتون تھیں۔ اس وقت کوئی نہ گیس کا چولہا جانتا تھا، نہ فرج نہ پریشر کوکر۔ رات کاکھانا سب ساتھ کھاتے تو اماں کوئی تیس پینتیس چپاتیاں بناکر اٹھتیں۔ چولہے کی آنچ سے چہرہ لال بھبوکا ہوجاتا۔ سب کو کھلاکر خود کھانے کے بعد باورچی خانہ بند کرکے وہ دادی کے پیردباکر سونے کے لیے اپنے کمرے میں آتیں تو رات کے گیارہ بج رہے ہوتے تھے۔ اکثر تو ابا انہیں سوتے ہوئے ملتے۔ وہ خاموشی سے کہ کہیں شوہر کی نیند نہ کھل جائے تو کونے میں سکڑ سمٹ کر لیٹ جاتیں۔
قمر کے ابا کیا تم نے کبھی سوچا کہ میں بھی کسی کی بیٹی تھی؟
اس دن دریبر کی بی بی صبح صبح لوہے کا کرچھل لے کر آگ مانگنے کو آئیں۔ (اور کچھ آگ لگا بھی گئیں۔)
’’اے ہے ابھی تو چولہا نہیں سلگا دریبر کی بی بی۔‘‘ اماں نے ہمدردی کے ساتھ پوچھا۔
’’کل سانجھ کے یہ دیر سے لوٹے۔ سودا سلف کچھ نہیں آیا تھا۔ ابھی جاکے آلو لے کے آئے۔ تیل لے کے آئے۔ سبیرے سبیرے کونو دوکان نہیں کھلی رہی۔‘‘ انہوں نے وضاحت پیش کی۔ اماں سمجھ گئیں۔ رات ڈرائیور نے پھر پی ہوگی۔ گھر میں دانتا کل کل بھی ہوئی ہوگی۔ کیا پتہ دوچار ہاتھ بھی جھاڑ دیے ہوں۔ رمضانی بوا نے چولہے میں لکڑیاں جھاڑ کر کچھ انگارے گرائے ساتھ ہی پوچھا، ’’چائے پیوگی دریبر کی بی بی؟‘‘
دریبر کی بی بی کے میاں نے کبھی کسی زمانے میں ایک انگریز کی جیپ چلائی تھی۔ انہیں فوری بھرتی کے تحت ٹریننگ دی گئی تھی۔ بہت مہارت حاصل نہیں ہوپائی تھی۔ کچھ اول جلول تھے بھی۔ ایک ایکسیڈنٹ ہوگیا تو نکالے گئے اور اپنے خاندانی پیشے یعنی چوڑی بیچنے پر واپس آگئے۔ وہ ذات کے منیہار تھے لیکن ان کے نام سے دریبر (ڈرائیور) چپکا تو بس چپکا ہی رہ گیا۔ انہیں بڑا فخر بھی تھا۔ انہوں نے گورے صاحب کی گاڑی چلائی تھی۔ ان کی اہلیہ دریبر کی بی بی کہلانے لگی تھیں سو کہلاتی رہیں۔ شوہر جب گاڑی چلاتے تھے اس وقت بھی وہ خاص خاص گھروں میں جاکر چوڑی پہناآیا کرتی تھیں۔ ان کی چھوٹی سی ناک عموماً چڑھی ہی رہا کرتی تھی۔ خاصی خوبصورت خاتون تھیں اور اپنی خوبصورتی (ومیاں کی بدصورتی) کاانہیں پورا احساس تھا گرچہ ان کی خوبصورتی بھول کر اکثر دریبر نشے میں انہیں اچھی طرح دھن دیا کرتے تھے۔
رمضانی بوا کی چائے کی پیشکش خاصی قابل اعتنا تھی۔
’’پی لیں گے۔‘‘ انہوں نے بڑے فخر سے جواب دیا جیسے چائے پی کر بوا پر احسان کریں گی۔
بوا نے اپنا تام چینی کا تاملوٹ اسی وقت چائے سے بھرا تھا۔ اس میں سے کچھ چائے ایک چھوٹی پیالی پرچ میں رکھ کر دریبر کی بی بی کو بڑھادی۔ انہوں نے چائے پرچ میں نکال کر سڑپ سڑک کرکے پی لی۔ رمضانی بوا نے دہکتے انگارے کرچھل میں ڈالے اور کرچھل انہیں تھما دیا۔ وہ کرچھل پر پھونکیں مارتی، اٹنگی ساری کا پلو سرپر سنبھالتی سٹر پٹر دروازے کی طرف بڑھیں لیکن پھر یکایک پلٹیں۔ ’’چلتے ہیں باجی۔‘‘ انہوں نے اماں کو مخاطب کیا، ’’اب جلدی بیٹا کے ہاتھ پیلے کرو تو ہم چوڑی کا ٹوکرا لے کے آئیں۔ اب کسی کے یہاں نہیں جاتے مگر آپ کی بات دوسری ہے۔ کب سے آسرا لکھ رہے ہیں۔ (انہوں نے ’کب سے‘ پرخاصہ زور دیا تھا۔) کب ختم ہوگی بٹیا کی پڑھائی۔ اچھا سلامالیکم۔‘‘ وہ سلامالیکم تک پہنچتے پہنچتے دروازے سے باہر ہوچکی تھیں اس لیے سلام بھی ذرا زور سے ادا کیا جسے ص پتھر کھینچ مارا ہو۔
’’بڑی آئیں خیرخواہ۔‘‘ رمضانی بوانے چائے تو پلادی تھی لیکن دریبر کی بی بی کی دریدہ دہنی انہیں پسند نہیں آئی تھی۔ ’’دیکھیے نہ باجی، جتارہی تھیں کہ بیٹا اتنا پڑھ لکھ گئیں اور اب تک شادی بیاہ کی سن گن نہیں ہے، کب سے آسرا لکھ رہے ہیں۔ ارے آسرا تو ہم بھی دیکھ رہے ہیں مگر ہم کچھ بولتے ہیں کیا۔ وہ بھی ایسے۔‘‘ اماں کے جلے پر نمک پڑ گیا۔ اندر ہی اندر تلملا گئیں۔ محلے میں لوگ دو۔ دو، تین۔ تین بیٹیاں بیاہ چکے تھے، یہاں ایک کا نصیب کھلنے میں اتنی دیر۔ او رپڑھاؤ۔ جتنا پڑھیں گی اتنا ہی لڑکا ملنا مشکل ہوتا جائے گا۔
پگلی مہترانی آنگن بہارہی تھی۔ وہ دریبر کی بی بی کے نکلنے کے بعد داخل ہوئی تھی۔ بات بدلنے کو اماں نے اسے بلا وجہ پکارا، ’’بہو، دیکھو ذرا ٹھیک سے جھاڑو لگانا پت جھڑ آگیا ہے۔ چاروں طرف پتے اڑتے پھر رہے ہیں۔ قمر۔۔۔‘‘ انہوں نے قمر کو بھی آواز دی، ’’دیکھو ذرا نالی دھلوادینا۔‘‘
خاصے بڑے آنگن میں امرود کے دونوجوان درخت تھے۔ اور نیم کا پرانا جغادری پیڑ۔ اس کے علاوہ لسوڑہ اور انجیر بھی لگے ہوئے تھے۔ لسوڑے کا کوئی مصرف نہیں تھا سوائے اس کے کہ محلے والے اچار کے لیے مانگ لے جائیں لیکن اماں اسے کٹوانے کو تیار نہیں تھیں۔ انجیر گھر میں کوئی نہیں کھاتا تھا سوائے اماں کے۔ نیم کی ہوا بیماریاں دور کرتی ہے اور انجیر صحت کے لیے مفید ہے۔ خشک لسوڑے کی چائے آنتوں کے لیے فائدہ مند تو تھی ہی ساتھ ہی خشک کھانسی بھی دور کرتی تھی۔ اس معاملے میں اماں کسی کی سننے کو تیار نہیں تھیں۔ وہ حجت نہیں کرتی تھیں۔ بس خاموش ہوجاتیں۔ ان کی ناراضگی، نارضامندی اور دل گرفتگی سب کے اظہار کا ایک ہی ذریعہ تھا۔ ایک پتھرائی ہوئی خاموشی۔
قمر کی کل کی بات کے بعد بھی وہ خاموش ہوگئی تھیں۔ ابھی جو انہوں نے اسے مخاطب کیا تو اسے بڑی راحت کا احساس ہوا۔ اسے اماں کی خاموشی سے بڑی کوفت ہوتی تھی۔ بولتی ہیں تو گھر میں ماحول نارمل اور خوشگوار لگتا ہے۔ ایسا کیاکہہ دیا تھا قمر نے کہ انہیں چپ لگ گئی تھی۔ اس نے بالٹی میں پانی بھرااور آنگن کے کنارے کنارے لمبائی میں گزرتی نالی میں ڈال کر نالی پگلی سے دھلوائی پھر اماں کے پاس آکر ان کی گردن میں ہاتھ ڈال دیے، ’’اماں ہم کل الہ آباد واپس جارہے ہیں۔ تم کو ناراض چھوڑ کر کیسے جائیں۔ تم ہم سے بات نہیں کر رہیں۔‘‘ آنسو اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرنے لگے۔
’’بیٹا۔ ہم سے جو ہو رہاہے تمہارے بیاہ کے لیے کر رہے ہیں۔ اپنی طرف سے تو اچھا ہی چاہتے ہیں۔ لیکن اللہ کی مرضی۔ تمہارے لائق رشتہ نہیں مل رہا ہے۔‘‘ ان کی آواز مدھم تھی۔
قمر ایک دم سے آنسو پونچھ کر بدک کر کھڑی ہوگئی۔ وہ ہکا بکا رہ گئی تھی۔ کیا اماں سوچ رہی ہیں کہ اسے اپنی شادی کی جلدی پڑی ہے۔ وہ لاکھ منہ پھٹ سہی، ایسا کیسے کہہ سکتی تھی۔ پھر یہ کہ وہ ایسا سوچتی بھی نہیں تھی۔ نہ اس کی ایسی عمر آئی تھی نہ ایسی بے شرمی طاری ہوئی تھی۔۔ یہ اور بات تھی کہ جتنی بے شرمی وہ برت لیا کرتی تھی وہ اماں کے حساب سے بہت زیادہ تھی، اس لیے اکثر معنی مطلب پہنا لیتی تھیں۔ قمر تلملاکے کچھ کہنے ہی والی تھی کہ اچانک پگلی آن کے سرپر کھڑی ہوگئی۔ کام ختم کرکے اس نے آنگن میں لگے نلکے پر رگڑ رگڑ کر ہاتھ کہنیوں تک دھولیے تھے۔ دوپٹے میں ہاتھ پونچھتی ہوئی بولی کہ آج وہ بہو سے لڑکر بغیر کھائے پئے نکل کھڑی ہوئی تھی اس لیے اماں اسے فوری طور پر کچھ کھانے کو دے دیں ورنہ اگلی ججمانی میں جاتے جاتے وہ بیہوش ہوکر گرجائے گی۔ دراصل پگلی کا ناشتہ، کھانا کچھ بندھا ہوا نہیں تھا۔ بس مہینے میں دو، کہیں چار روپے تنخواہ کے ملتے تھے۔ کبھی کچھ بچا کھچا ہوا یا ازخود مانگ بیٹھی تو مل جایا کرتا تھا۔ جاڑوں میں کسی کسی گھر میں الگ رکھے ٹوٹے ہوئے یا تام چینی کے چینی جھڑے پیالے میں کبھی کبھار چائے مل جاتی تھی۔
’ہا‘ دکھیا! اماں آنگن پار کرکے باورچی خانے میں چلی گئیں۔
پگلی جاکے نلکے کے پاس بیٹھ گئی اور اطمینان سے آم کے اچار کے ساتھ رات کی باسی روٹیاں ہبڑ ہبڑ کھاتے ہوئے، پھولتی سانسوں کے درمیان اچار جیسی چٹ پٹی خبر بھی سنائی۔
’’حاکم کی سب سے چھٹکی بٹیا الہ آباد ماں پڑھت رہی نا۔ سردارن کا بٹوا بھی وہیں چلا گوا ہے۔‘‘
’’تو کیا ہوا۔ سب لڑکے لڑکیاں پڑھنے کو بڑے شہروں میں نکل رہے ہیں۔ ہوا ہی ایسی چل پڑی ہے کہ بے پڑھے لڑکیوں کا بھی گزر نہیں۔‘‘ اماں ایسی باتوں میں دلچسپی کم لیتی تھیں جن کی صداقت مشکوک ہو اور جن سے خواہ مخواہ کسی پر حرف آئے، ’’اپنے کام سے کام رکھا کر پگلیا۔‘‘ اپنے کام سے کام رکھنے کو پگلی نے نظر انداز کردیا۔
’’کاہوا؟‘‘ پگلی کے گلے میں چاندی کی خلال پڑی رہتی تھی اور ناک میں چاندی کا بڑا سا پھول۔ اس نے خلال سے دانت کریدے اور ناک کاپھول گھمایا۔ ’’ارے ہوئیں نام لکھایا ہے جہاں حاکم کی بٹیا پڑھت ہے کچھ سمجھا کرو دیدی۔‘‘ اماں گھبراگئیں۔ پگلی جنہیں حاکم کہتی تھی وہ مسلمان تھے اور لڑکا سردار۔ ملک کے بٹوارے کو ابھی پندرہ سال بھی نہیں ہوئے تھے۔ جنہوں نے براہ راست کچھ نہیں جھیلا تھا انہیں بھی اس کا بہت کچھ علم تھا اور پھر ایسا کون سا گھر تھا جس کے ٹکڑے نہیں ہوئے تھے۔ اور بھی بہت کچھ دکھائی دیتا رہتا تھا۔ مثلاً پرتاپ گڑھ میں ریلوے ڈپو کے پاس کنکریٹ کے بہت سے چھوٹے چھوٹے چوکور بکسے جیسے لگنے والے کوارٹروں کی ایک پوری کالونی اگ آئی تھی۔ اس میں جو لوگ رہنے کو آئے وہ مقامی لوگوں سے الگ تھے۔ ان کا رہن سہن، ان کی زبان، ان کی عورتیں، ان کے گھر کی تہذیب سب مختلف تھے۔ ایک عجیب بات یہ تھی کہ ان کے گھر کے مرد اردو اخبار خریدتے تھے۔ لوگ انہیں شرنارتھی کہتے تھے لیکن دس سال ہوتے ہوتے وہ عام آبادی میں گھل مل گئے۔ رفتہ رفتہ لوگوں نے انہیں شرنارتھی کہنا بھی بند کردیا۔ پنجابی کہلاتے یا سردار۔
بڑے محنتی لوگ تھے۔ زیادہ تر نے چھوٹے موٹے کاروبار کیے۔ ایک صاحب تھرمس میں رکھ کر گھر کی بنی ہوئی قلفی لوگوں کے یہاں پہنچانے لگے تھے۔ کوئی پانچ سات برس بعد انہوں نے برف بنانے کی فیکٹری کھول لی۔ فرج لوگ ابھی بالکل نہیں جانتے تھے۔ گرمی میں برف کی بڑی بڑی سلیں برادے کی موٹی تہہ سے ڈھک دی جاتی تھیں، پھر اوپر سے موٹا ٹاٹ ڈال دیا جاتا تھا۔ یہ سلیں جگہ جگہ دوکانوں پر رکھی ہوتیں۔ وہاں سے گاہک تولواکر برف لے جاتے۔ کچھ لوگ اپنے تھرمس لے کر آتے تھے۔ ان میں چھوٹے ٹکڑے کراکے بھرکے پہنچاتے۔ یہ برف قریب کے بڑے شہروں سے آتا تھا اور لانے میں کافی ضائع ہوتا تھا۔
شہر میں کارخانہ کھلا تو لوگوں کو بڑی آسانی ہوگئی۔ وہاں آئس کریم بھی جمائی جانے لگی۔ پہلے سردارجی گھر پر گھما گھماکر چلائی جانے والی چھوٹی مشینوں میں قلفی جماتے تھے۔ جن لوگوں نے ذرا ذرا اسے کھوکھوں میں کپڑے اور بساط خانے کی دوکانیں کھولی تھیں ان کی اب بڑی بڑی شیشوں سے مزین دوکانیں ہوگئی تھیں۔ لڑکے بالے پڑھنے جاتے تھے۔ عورتیں گھر میں ایک نوکر نہ رکھتیں۔ سارا کام خود کرتی تھیں۔ مقامی لوگوں کے یہاں تو معمولی متوسط طبقے میں بھی کل وقتی نہیں تو جزوقتی نوکرانیاں ضرور کام کرتی تھیں۔ مسلمانوں کے یہاں بوائیں اور ہندو گھروں میں کہاریاں۔
بڑے جیالے لوگ ہیں۔ اک بار ابا نے کہا تھا۔ لٹ پٹ کے آئے لیکن دیکھو شہر پہ چھا گئے۔ کیا مجال جو کبھی کسی نے کسی کے آگے ہاتھ پھیلایا ہو۔ ان کے یہاں کا کوئی شخص بھیک مانگتا نظر نہیں آیا۔ کاروبار کرنا کوئی ان سے سیکھے۔ مقامی زبان، مقامی لب و لہجے میں بولنے لگے ہیں۔ مقامی آبادی میں پوری طرح گھل مل گئے۔ انہیں جیالے، گھل مل جانے والے لوگوں کے یہاں کا ایک گورا، اونچا، پورا نہایت وجیہہ لڑکا ایس ڈی ایم صاحب کے یہاں آنے جانے لگا تھا۔ افسروں کے یہاں حواری مواریوں کی جو بھیڑ رہتی ہے اسی میں وہ بھی کھپا رہتا۔ آخری پوسٹنگ میں ڈپٹی صاحب کو وطن مل گیا تھا اس لیے رٹائر ہوکر بھی وہ یہیں رہ پڑے تھے۔ رٹائر ہوئے تو کچھ ہی عرصے میں خوشامد خوروں کی بھیڑ چھٹ گئی لیکن وہ لڑکا بنا رہا۔ جب دیکھو تب موجود۔ آنٹی آنٹی کرکے ڈپٹیائن کے پیچھے آگے لگا رہتا۔ گھر کا سودا سلف تک لادیتا۔
اماں نے گھبراکر قمر کو دیکھا اور پھر پگلی کی طرف، ’’اچھا چپ رہا کر۔ بہت بکتی ہے۔‘‘
قمر کی آنکھیں کاغذوں پر تھیں۔ آنسو پونچھ کر وہ برآمدے میں پڑی کرسی پر بیٹھ کر اپنے نوٹس درست کرنے لگی تھی۔ چہرے سے ایسا نہیں محسوس ہو رہا تھا کہ اس نے پگلی کی کوئی بات سنی ہے۔ اماں نے اطمینان کی سانس لی اور رمضانی بوا کو ترکاری لانے کے لیے پیسے نکال کر دینے لگیں گویا پگلی کو بات بالکل ختم ہوجانے کا سگنل دے دیا۔
قمر نے نوٹس پر سے نظریں اوپر اٹھائیں اور جھانجھر بجاتی، پیٹھ پھیر کر باہر نکلتی پگلی کو گھور کر دیکھا، نظریں اگر برما ہوتیں تو پیٹھ میں چھید ہوگئے ہوتے ’’ان لوگوں نے ا ماں کا دماغ اور خراب کر رکھا ہے۔ ہول گئی ہوں گی۔ الہ آباد میں تو میں بھی پڑھتی ہوں کہیں میرے پیچھے تو آکے کسی لونڈے نے وہاں نام نہیں لکھوالیا۔ میرے ہی ڈپارٹمنٹ میں بی ایڈ کرنے کے لیے۔‘‘
’’ایسی باتیں لڑکیوں بالیوں کے کان میں نہیں پڑنی چاہئیں۔‘‘ رمضانی بوا نے باورچی خانے کی کھونٹی سے ٹنگا اور دھواں کھاکے ملگجا ہوا ترکاری لانے کا تھیلا اتارتے ہوئے کہا۔
’’اب تم تو چپ رہو بوا۔‘‘ اماں پھسپھسائیں۔ ’’جو نہ سنا ہو تو اب تم سے سن لے۔ کل وہ چلی آئی تھیں سڑن، امیرن آپا۔ ایسی ہی کچھ اول فول سناتی ہوئی۔ اللہ سے توبہ ہے۔ کیا زمانہ آن لگا ہے۔‘‘ انہوں نے غصے میں چولہے کی جلتی آگ میں بلاوجہ پھکنی اٹھاکر پھونک ماری۔ پھر زور سے بولیں جیسے قمر کو سنارہی ہوں کہ یہاں سبزی ترکاری آٹے دال کے علاوہ اور کوئی بات نہیں ہو رہی ہے۔ ’’آدھا سیر مٹر ضرور لے لینا بوا۔ سنا ہے مٹر آگئی ہے بازار میں اور سیر بھر نئے آلو تلوا لینا۔ اللہ مارے پرانے بڑے مٹھے ہوچلے ہیں۔ ترکاری کا ستیاناس ہوجاتا ہے۔‘‘ قمر زیرلب مسکرائی۔ اماں تم ڈال ڈال تو ہم پات پات۔ ہمیں تو یہ بھی پتہ ہے کہ امیرن خالہ کیا پھسپھساگئی ہیں۔
چھٹیاں ختم ہونے کے بعد اسٹوڈنٹس لوٹتے تو الہ آباد یونیورسٹی کے کئی لڑکے لڑکیاں اکثر بس میں ساتھ سفر کرتے دکھائی دیتے۔ یہ معمول تھا، اتفاق نہیں۔ کئی لڑکیاں گھر سے برقعہ اوڑھ کر نکلتیں اور بس میں اتار دیتیں۔ گھر والے یہ بات جانتے تھے۔ ’حاکم‘ کی بیٹی آمنہ سے تو قمر کی کئی بار بس میں ہی ملاقات نہیں ہوئی بلکہ یونیورسٹی میں بھی آمنا سامنا ہوگیا تھا۔ آج بھی وہ بس میں تھی۔ کئی اور لڑکے بھی تھے۔ جگجیت بھی تھا جوبالکل پیچھے آکر بیٹھ گیا تھا۔ آمنہ اور قمربرابر کی سیٹوں پر تھیں۔
’’ہمارے تمہارے درمیان الہ آباد کے علاوہ ایک اور لنک (Link)بھی ہے‘‘ قمر نے مسکراکر آمنہ سے کہا۔ آمنہ بے حد کم سخن تھی۔ جواب میں اس نے صرف بڑی بڑی، اداس آنکھیں اٹھاکر دیکھنے پر اکتفا کیا، ’پگلی مہترانی‘ قمر نے آمنہ کی خاموش نگاہوں کے سوال کا جواب کچھ یوں دیا کہ وہ کم سخن لڑکی بھی بے اختیار ہنس پڑی۔ پگلی آمنہ کے یہاں بھی کام کرتی تھی مگر شناساؤں کے درمیان اس کا ذکر کبھی یوں نہیں آیا تھا۔ ’’ہنس لو۔‘‘ قمر نے پھر کہا، ’’وہ اماں سے کہہ رہی تھی کہ حاکم کی بٹیا جہاں پڑھتی ہے وہاں سرداروں کے لونڈے نے بھی نام لکھوایا ہے۔‘‘
ایک اضطرابی کیفیت کے تحت آمنہ کا سرپل بھر کو پیچھے گھوما۔ اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر قمر سے خاموش رہنے کی گزارش کی۔ اس کی اچانک آجانے والی ہنسی یوں غائب ہوگئی تھی جیسے سورج کی پہلی کرنوں کے ساتھ گھاس پر پڑی اوس کی بوندیں۔
’’پگلی کو ابھی یہ پتہ نہیں چلا ہے کہ ہماری شادی تقریباً طے ہوچکی ہے ورنہ یہ بھی الم نشرح ہوجاتا۔‘‘ کچھ دیر کے بعد آمنہ نے رسان سے کہا۔ اس کے بعد پورا سفر خاموشی سے گزاردیا۔
فروری کے مہینے میں رٹائرڈ حاکم کے یہاں سے ان کی سب سے چھوٹی بیٹی کی شادی کا کارڈ آیا۔ یہ کارڈ دراصل آمنہ نے قمر سے یاد اللہ کی وجہ سے بھجوایا تھا۔ قمر کے امتحان مارچ میں ہونے والے تھے اس لیے وہ گھر نہیں آسکتی تھی۔ اب ڈپٹی صاحب کے گھر کا بلاوا تھا اس لیے اماں گئیں۔ نہ جانے کیوں انہوں نے راحت کی سانس لی تھی۔ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ۔ کنکھیوں سے انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ ایک اونچا پورا، گورا چٹا خوبصورت سردار لڑکا سارے انتظامات میں پیش پیش ہے اور گھر کے اندر بھی بلاتکلف آجارہا ہے۔
’’سنتے ہیں بٹیا کی ڈولی اٹھی تو بہت رویا۔‘‘ سارے فسانے میں جس بات کا ذکر نہیں تھا یقیناً پگلی نے اپنی طرف سے جوڑی ہوگی۔ اماں نے سوچا لیکن شہر کے کئی گھرانوں خصوصاً سول لائنز کی آبادی میں بات چرچا کا موضوع بنی کہ آمنہ کی ڈولی اٹھی تو جگیت سنگھ بہت رویا تھا۔
’’عورتوں کی طرح ہچکیاں لے لے کر رو رہا تھا۔ کون تھا وہ لڑکا۔‘‘ ایک خاتون نے رخصتی کے فوراً بعد پوچھا تھا۔ آمنہ کی والدہ نے کہا، ’’بہت زمانے سے آتا تھا، بہن کی طرح مانتا تھا منا کو۔‘‘
مقامی ڈاکٹر رام چرن داس کھتری کی دوبیٹیاں بھی الہ آباد یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھیں۔ ایک تو آمنہ کی کلاس فیلو بھی تھی۔ ڈپٹائن نے جب یہ بہن کی طرح ماننے والی بات کہی تو دونوں وہیں موجود تھیں۔ لڑکیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور زیرلب مسکرائیں۔
سوشیالوجی ڈپارٹمنٹ کے سامنے بڑا سا لان تھا۔ اس میں پتھر کے اسٹول بنے ہوئے تھے۔ وہاں وہ دونوں اکثر چپ چاپ بیٹھے دکھائی دیتے۔ ان کے چہروں پر ایسی معصومیت، ایسی اداسی، ایسی خاموشی بکھری ہوئی تھی کہ کسی نے مذاق نہیں اڑایا، کبھی ایک بھی نازیبا جملہ نہیں کسا۔ بس ایک مرتبہ ایک لڑکی نے جو خود جگجیت پر فدا تھی۔ بڑی حسرت سے کہا تھا، ’’آمنہ یہ جگجیتا بڑا خیال رکھتا ہے تمہارا۔‘‘ خفیف سی دھار رقابت کی بھی تھی۔ ’’تمہارے لیے گھر کا کھانا لے کے آتا رہتا ہے۔‘‘
’’ہاں، ماں بھیجتی رہتی ہیں۔‘‘ آمنہ نے ستھری نظریں اٹھاکر سادگی کے ساتھ سادہ سا جواب دیا۔ کس کی ماں، یہ وضاحت اس نے نہیں کی۔ جگجیت ہمیشہ سے آمنہ کے بنگلے پر آتا رہتا تھا۔ الہ آباد اور پرتاپ گڑھ میں فاصلہ اتنا کم تھا کہ اکثر وہ سنیچر کی شام کو گھر بھاگ آتا اور پیر کو علی الصبح واپس لوٹ کر کلاسز کرلیتا۔ لوٹتا تو ڈبوں میں بھرواں پراٹھے کوئی سوکھی سبزی اور آم کااچار لے کر آتا۔ اس کی ماں بڑے عمدہ پراٹھے بناتی تھی۔ ’’گرم اور زیادہ مزے دار ہوتے یں منا۔‘‘ وہ ہر بار کہتا، ’’لیکن میری ماں پراٹھے اتار رہی ہوں اور تم پاس بیٹھ کر کھارہی ہو، یہ سپنا تو سپنا ہی رہ جائے گا۔‘‘ اور آمنہ کی آنکھوں کی اداسی اور گہری ہوجاتی۔
یہ اور ایسے بہت سے سپنے دل میں لیے آمنہ، فرسٹ کلاس ایم۔ اے سوشیالوجی، رٹائرڈ پی سی ایس افسر کی بیٹی خاموش سے کسی اور کی ماں کو پراٹھے تل کر کھلانے کے لیے وداع ہوگئی۔
ایسے قصے خال خال سہی لیکن سننے میں آرہے تھے۔ سنانے والوں کے لہجے میں معنی کی دنیا پنہاں ہوتی۔ کوئی سمجھتا کوئی ٹال جاتا۔ لیکن قمر کی اماں بیٹی کے الہ آباد جانے کے بعد سے ہر وقت خوف زدہ رہاکرتی تھیں۔ امیرن خالہ بتارہی تھیں کہ پرلے محلے کے ایک باعزت کایستھ گھرانے کی بیٹی اپنے سگے چچازادکے ساتھ بھاگ گئی اور شادی رچاکے واپس لوٹی۔ اب بھلے ہی دکن کے کچھ ہندوسگے ماموں بھانجی کی شادی کو افضل قرار دیں لیکن شمالی ہندوستان کا ہر ہندوکسی بھی ’زاد‘ سے شادی کو قبول نہیں کرتا۔
’’ہمارے یہاں یہ شادیاں جائز ہیں اسی لیے ہمارے وقت میں ماموں زاد، خالہ زاد وغیرہ سے بھی زیادہ گھلنے ملنے نہیں دیتے تھے۔ سامنے تو خیر جاتے تھے۔ تھوڑا بہت ہنس بول بھی لیتے لیکن ماں، نانی، دادی، خالہ، پھوپھی کی چیل جیسی نظروں تلے۔ اب دیکھو تو لڑکیاں لڑکوں کے ساتھ پڑھ رہی ہیں۔ قمر کہہ رہی تھی کہ بس میں آرہی تھی تو ساتھ کے دولڑکے بھی تھے۔ راستے بھر ہنستے بولتے چلے آئے۔ بڑے اطمینان سے کہہ گئی جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ اس کے باپ کی مت ماری گئی تھی جو پہلے بی۔ اے اور پھر بی ایڈ کے لیے بھی باہر بھیج دیا۔ پرتاپ گڑھ میں تو مجال نہیں کہ بغیر برقعے کے نکل جائیں لیکن ادھر بس میں چڑھیں یا ٹرین بیٹھیں اور برقعہ جھولے میں۔‘‘ لاکھ قمر چڑتی لیکن اماں اس کے سیاہ رنگ کے بڑے سے اسمارٹ بیگ کو جھولا ہی کہتیں اور بی ایڈ نہ کہہ کر استانیوں والی پڑھائی۔
رزلٹ آنے سے پہلے سے ہی قمر اخباروں پر جھکی، نوکریوں کے اشتہار دیکھتی رہتی تھی۔ دوانگریزی اخبار لگالیے تھے۔ ابا تو سیاست منگایا کرتے تھے۔ ماں بولتی کچھ نہیں تھیں بس گھبراتی رہتی تھیں۔ ’لوجی اب یہ نوکری بھی کریں گی۔ اب تک تو یہ تھا کہ لڑکی پڑھ رہی ہے، لڑکی پڑھ رہی ہے۔ یا مولا مشکل کشا۔ ‘
رزلٹ آیا تو وہ اور شدومد سے خالی جگہوں کے کالم پرنظریں دوڑانے لگی۔
’’ابا‘‘ ایک دن اس نے خبر سے نظریں اٹھائے بغیر باپ کو مخاطب کیا، ’’یہ ملازمت بہت معقول معلوم ہو رہی ہے لیکن درخواست منگائی ہے باکس نمبر کی معرفت۔ اللہ جانے کہاں ہے اسکول۔ کس شہر میں ہے۔ درخواست دیں؟‘‘
’’درخواست دینے میں حرج نہیں۔‘‘ ابا نے جواب دیا۔ ’’جگہ بھی مناسب ہوئی، یعنی آس پاس تو ٹھیک ورنہ چھوڑ دینا۔ مت جانا۔‘‘
’’میں کچھ کہوں تو کانوں تیل ڈال کے بیٹھ جاتے ہیں۔ نوکری کے لیے جھٹ سے بیٹی کی بات سننے کو تیار۔ لڑکا ڈھونڈنے میں مستعدی دکھائیں تو ہم جانیں۔‘‘ اماں منہ میں منہ میں بدبدائیں۔ ابا کے زیادہ مونہہ لگنے کی ہمت نہیں تھی۔ وہ تو کچھ ایسا قائل کرتے رہے تھے کہ جیسے بی ایڈ کرتے ہی لڑکا آسمان سے اب اترا کہ جب اترا، ’’سلمان چچا والے رشتے کو منع نہ کیا ہوتا تو بلا سے روٹیاں پکاتی بیس کہ پچیس کی، آج گود میں ایک دو بچے کھیلتے ہوتے۔ اور اب کون سی روٹیاں پکانے سے فرصت ملے گی۔ عورت کا جنم، ماشٹری بھی کریں گی اور روٹی بھی ٹھیکیں گی۔ ہم سے زیادہ سخت زندتی گزارے گی‘‘ انہوں نے سروتہ چلایا اور کھٹاک سے ڈلی کے دو ٹکڑے کیے۔
اماں کل جبھی تھی کیا؟
قمر نے اپنے گالوں پر تھپڑ لگائے۔ میں کتنی بری بیٹی ہوں۔ میں یہ بھی تو سوچ سکتی تھی کہ اماں کو الہام ہوا تھا یا ان کی زبان پر سرسوتی آن بیٹھی تھی۔ اس نے پیشانی سے پسینہ پوچھا اور پڑوس کے مکان کی کال بیل دبائی۔ دونوں بچیاں اچھلتی ہوئی باہر آئیں۔ پیچھے پیچھے نیک دل، ادھیڑ عمر، تنہا رہنے والی، مہربان پڑوسن جنہیں گویا اللہ میاں نے تعینات کردیا تھا کہ قمر کی نوکری اور گرہستی دونوں چلتی رہیں۔ ’’ہاں بھائی سنبھالو۔‘‘ انہوں نے روز کا جملہ دوہرایا اور شفقت سے مسکراکر دروازہ بند کرلیا۔
بچیوں کا اسکول قمر کے اسکول سے پہلے چھوٹ جایا کرتا تھا۔ وہ کوئی دوگھنٹے بعد آتی تھی۔ اسی دوران بچیاں ان خاتون کے گھر رہتی تھیں جنہیں قمر شانتی آنٹی کہتی تھی اور لڑکیاں شانتی نانی۔
اپنے دروازے کا تالہ کھول کر قمراندر داخل ہوئی۔ دودن سے بوا نہیں آرہی تھی۔ باورچی خانے کا سنک برتنوں سے بھرا ہوا تھا۔ قمر نے جلدی سے ایپرن چڑھایا اور کچھ ضروری برتن دھوکر الگ ہٹائے۔ باقی یونہی رہنے دیے۔ فرج سے گندھا ہوا آٹا اور سبزی نکالی جو وہ سویرے ہی دھو، کاٹ کر رکھ گئی تھی۔ جلدی سے ایک طرف سبزی چڑھا کر توا ڈالا اور پراٹھے سینکنے شروع کیے۔ بچیوں نے فرج کھول کر اپنے لیے کولڈ ڈرنک نکال لیا تھا اور میز پر رکھے کیلوں کے گچھے سے کیلے لے لیے تھے۔ ’’زیادہ کیلے مت کھانا۔‘‘ قمر نے پکار کر کہا، ’’کھانے کا وقت ہے بس ابھی لائی۔ یوں۔‘‘ اس نے چٹکی بجائی۔ پھر اس نے جلدی سے میز پر پراٹھے، سبزی اور دہی کا سادہ سا کھانا لاکر رکھ دیا اور دل میں سوچا کہ آج یہ گیس، پریشر کوکر اور فرج ایک ہاؤس وائف کے لیے کتنی بڑی نعمت ہیں۔ اس نے تولیہ سے ہاتھ پونچھے اور خود بھی پاس بیٹھ گئی۔
’’پھر وہی لوکی!‘‘ بڑی بچی منمنائی
’’چپ چاپ کھالو۔ دیکھ نہیں رہی ہو۔ ممی کتنی تھکی ہوئی لگ رہی ہیں۔‘‘ قمر نے حیرت سے دیکھا۔ چھوٹی کو چھ سال پورے ہونے میں ابھی دو تین مہینے باقی ہی تھے۔ اتنی سمجھ اور ماں کے لیے ایسی ہمدردی؟ قمر کا جی بھر آیا۔ ویسے بڑی صرف گیارہ مہینے بڑی تھی۔ دونوں آگے پیچھے اتنی جلدی ہوگئی تھیں کہ جڑواں جیسی لگتی تھیں۔ پراٹھے کا نوالہ لے کر بڑی لڑکی نے اپنی نکتہ چینی کی تلافی کی، ’’کوئی بات نہیں ممی، دہی بھی تو ہے، ہم دہی شکر کے ساتھ بھی کھالیں گے۔‘‘ قمر نے شکردان اس کے سامنے سرکادیا جو وہیں میز پر رکھا تھا۔ پھر دونوں کی پلیٹ میں کھانا نکال کر اٹھ گئی۔
’’ممی تم؟‘‘
’’میں پہلے کچن صاف کرلوں پھر نہاکر اطمینان سے کھاؤں گی۔‘‘ صفائی کے کوئی گھنٹہ بھر بعد وہ غسل خانے میں داخل ہوئی۔ نہاکر ساری کی جگہ شلوار قمیص پہنی۔ اس نے اپنی پلیٹ میں کھانا نکالا تو نیند سے آنکھیں جھکی جارہی تھی۔ گرمیوں کی سہ پہر تھی۔ ایک گھنٹہ ہلکی جھپکی، پھر اٹھ کر بچیوں کا ہوم ورک کرانا، شام کی چائے کے لیے کچھ تیار کرنا، چھ بجے انیس آجائے گا اس کے حوالے بچیوں کو کرکے وہ بازار جائے گی۔ رات کے کھانے میں کچھ اچھا پکنا چاہیے۔ دال، چاول، ایک سبزی گوشت یا مرغ کا سالن، روٹیاں۔ کبھی کبھی گوشت پکانے کی جگہ وہ کباب لے آتی تھی۔ انیس شاذونادر ہی خریداری کے لیے نکلتا لیکن کھانے میں کمی ہو تو ٹوک ضرور دیتا تھا۔ ایک وقت ہی تو چین سے پورا کھانا کھانے کو ملتا ہے۔ ورنہ آفس میں تو وہی سوکھی روٹی، سوکھی سبزی! ’’کبھی تم بھی کچھ لے آیا کرو‘‘ قمر نے ایک آدھ بار طعنہ دیا تو اس نے ٹکا سا جواب ٹکادیا، ’’یہ تمہارا ڈیپارٹمنٹ ہے۔‘‘ بس کبھی کبھی بیوی اور دونوں بچیوں کو اسکوٹر پربیٹھاکر حضرت گنج لے جاکرآئس کریم کھلا لاتا تھا یا کچھ پھل خرید لیتا۔
’’آں۔۔۔‘‘ بڑی لڑکی قمر کی پلیٹ میں جھانکنے لگی تھی۔
’’ہم کو لوکی کھلاکر تم کیا کھارہی ہو۔۔۔؟‘‘ اس نے متجسس نظروں سے ماں کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
’’من و سلویٰ کھاؤگی۔‘‘ قمر نے ہنس کر کہا۔ ’’بے قوف فرج میں پرسوں سے دال پڑی تھی۔ میں نے سوچا کھاکے ختم کروں۔ تمہارے پاپا تو فرج میں رکھی دال کھاتے نہیں۔ اور تمہیں ہری سبزی کھانی چاہئے اس لیے لوکی بنادی۔‘‘ لڑکی اتنا طویل لکچر سننے سے پہلے سانپ سیڑھی کے لوڈو پر جھک گئی تھی۔ دال اسے یوں بھی سخت ناپسندتھی۔ اس سے اچھی تو لوکی کی سبزی تھی۔
میں بالکل اماں جیسی ہوتی جارہی ہوں۔ قمر نے ہول کر سوچا۔ کہیں لڑکیوں کے ساتھ اتنی ہی سخت گیر بھی نہ ہوجاؤں۔ ’ادھرآؤ۔ ‘ اس نے دونوں کو پکارا۔ وہ فوراً پاس آگئیں۔ قمر نے پلیٹ ہاتھ سے رکھ دی۔ انہیں گود میں بیٹھا لیا، پیار سے سرپر ہاتھ پھیرا اور دل ہی دل میں بولی، میرے اور تمہارے بیچ اتنا جنریشن گیپ نہیں ہوگا جتنا میرے اور اماں کے بیچ تھا۔ بھلے ہی ان کی طرح باسی کھانا سوارت لگاتی پھروں۔
’’لوڈو پھر کھیل لینا، کچھ دیر چلو چل کر سوتے ہیں۔ پھر ہوم ورک اور تب کھیل۔‘‘ اس نے پیار سے دونوں کو گود سے ہٹادیا۔ چھوٹی اس سال اپر کے جی ختم کرکے اسٹینڈرڈ ون میں آنے والی تھی اور بڑی آچکی تھی۔ دونوں کو ہوم ورک ملتاتھا۔ انیس تو صفا ہاتھ جھاڑ لیتا۔ ’’تم ٹرینڈ ٹیچر ہو۔ اسکول میں پڑھاتی ہو میں نوبجے سے چھ بجے تک آفس کرتا ہوں۔ میرے دماغ میں یوں بھی طاقت نہیں رہ جاتی۔‘‘ انیس اس بات پر بہت زور دیتا رہتا تھا کہ وہ نو سے چھ تک آفس کرتا ہے جب کہ قمر دو۔ ڈھائی بجے گھر آجاتی ہے اور پھر اسے چھٹیاں بھی بہت ملتی ہیں۔ جب دیکھو تب کسی نہ کسی وجہ سے اسکول بند۔
’’ارے تمہارا کیا ہے، عیش ہیں تمہارے تو، عیش۔ دو مہینے پورے! ہمیں نہ مل جائیں گرمی کی چھٹیاں۔ ارے دس بیس روز کی بھی مل جائیں۔‘‘ گرمی کی چھٹیوں بھر وہ طوطے کی طرح دوہراتا رہتا تھا۔
بظاہر یہ سچ بھی تھا کہ انیس نے یہ سوچنے کی زحمت شاید کبھی نہیں کی تھی کہ ایک بار گھر واپس آجانے کے بعد اسے کچھ نہیں کرنا تھا۔ کبھی کبھار تو اسے بھی چھٹی ملتی تھی۔ پھر اتوار تو تھا ہی اس میں وہ سوتا تھا یا دوستوں کے ساتھ کافی ہاؤس جابیٹھتا۔ گھر پر مزے سے ٹی وی دیکھتا۔ چائے کے ان گنت کپ پیتا جو ظاہر ہے قمر ہی بناتی تھی۔ کبھی کبھی تو محسوس ہوتا کہ وہ قمر کو تنگ کرنے کے لیے اتنی چائے پی رہا ہے۔ قمر نے ایک بہت مہنگی کمپنی کا ہیلتھ ڈرنک خریدا تھا۔ وہ رات میں بچیوں کو دیتی تھی اور اسی وقت ایک کپ بناکر انیس کو بھی۔ خود اس نے کبھی نہیں لیا۔ گھر میں دوتنخواہیں آرہی تھیں لیکن پھر خرچ بھی تو ویسے ہی تھے۔ سب سے بڑھ کر تو بچیوں کا انگریزی اسکول۔ اگر وہ بھی ملازمت نہ کر رہی ہوتی تو بچیاں اس مہنگے اسکول میں کبھی نہیں جاسکتی تھیں۔ انیس چاہتا تھا کہ ان کے یہاں ایک بچہ اور ہو۔ شاید اس بار لڑکا ہوجائے۔ میں اپنے بیٹے کے ساتھ فٹ بال کھیلوں گا اور کرکٹ۔ وہ بڑے ارمان سے کہتا تھا اور اسے اپنی ماں اور قمر کی ماں، دونوں بڑھیوں کی حمایت حاصل تھی۔ لیکن قمر ابھی تک اڑی ہوئی تھی۔
’’تم سب نے مل کر گارنٹی لی ہے کیا کہ اس بار بیٹا ہی ہوگا‘‘ ایک بار اس نے اپنی فطری کٹھ حجتی کے ساتھ چڑکر کہا تھا، ’’اماں کو ایک بیٹی کے بیاہ میں دانتوں تلے پسینہ آگیا۔ میرے پاس دو ہیں۔ تیسری بھی بیٹی ہوگئی تو کہاں ٹھکانے لگاؤں گی۔‘‘ لیکن یہ کہتے ہوئے قمر کو شدت سے محسوس ہوا تھا کہ اماں تو اماں اس میں پگلی جمادارن کی روح کا بھی کچھ حصہ حلول کرچکا ہے۔
اس دن قمر کا ہائی اسکول کا رزلٹ آیاتھا اس لیے وہ صبح اسے اچھی طرح یاد تھی۔ فرسٹ ڈویژن کا نشہ اچھی طرح یاد تھا۔ انٹرمیڈیٹ کے لیے باہر نہ جاسکنے، بوائز اسکول میں نام لکھواکر سائنس نہ پڑھ سکنے کی شدید مایوسی اچھی طرح یاد تھی اور یاد تھی پگلی جماداران جوآنگن میں جھاڑو لگاتے لگاتے یکایک رک کر جھاڑو کے لانبے ڈنڈے پر ٹھڈی ٹکاکر کھڑی ہوگئی تھی اور انتہائی تاسف کے ساتھ ایک ہاتھ کی انگلی ناک پر رکھ کر بولی تھی، ’’ہائے رے دیا، پھن بٹیا!‘‘ (یا مالک، پھر بیٹی ہوگئی!)
ہاتھ میں اخبار لہراتے ابا اور برقعہ پھڑکاتی امیرن خالہ ساتھ ساتھ گھر میں داخل ہوئے تھے۔ امیرن خالہ تو سلام تک کرنا بھول گئیں۔ ’’صبح صبح بٹیا ہوئی ہے شکلائن کے یہاں‘‘ انہوں نے پھولتی سانسوں کے درمیان بتایا۔ ان کے ساتھ ہی ابا نے تقریباً نعرہ لگایا، ’’لو بٹیا آگیا فرسٹ کلاس۔ کتنا ڈری ہوئی تھیں تم۔‘‘ قمر دوڑ کر ابا سے لپٹ گئی۔ انہوں نے ہولے سے سرپر ہاتھ رکھا اور الگ کوہٹ گئے۔ بچوں کو لپٹا چمٹاکر پیار کرنا اس وقت کے بڑوں کا شیوہ نہ تھا۔ سچ پوچھا جائے تو براہ راست پیار کا کسی بھی طرح کا اظہار نہیں تھا۔ چلو جاؤ نفل نماز اداکرو قمر۔ اماں نے اتنا ہی کہا اور امیرن خالہ کی طرف متوجہ ہوگئیں۔ شکلائن سے ان کی بڑی پٹتی تھی، ’’اے ہے تیسری بھی بیٹی ہی ہوگئی۔ کہاں نمٹائیں گے۔ ان لوگوں کے یہاں تو تلک میں بھاری بھاری رقمیں بھی خرچ ہوتی ہیں۔‘‘
’’ہئی ہے۔‘‘ امیرن خانہ نے برقعہ اتار کر تخت پر رکھتے ہوئے کہا۔ ’’شکلاجی کی اماں کہتی تھیں اس بار بھی بیٹی ہوئی تو انہیں کچھ سوچنا پڑے گا۔ دراصل یہ تیسری نہیں چوتھی بیٹی ہے۔ پہلی دوچار دن کی ہوکے سوری میں ہی ختم ہوگئی تھی۔‘‘
’’اماں، ہمارا فرسٹ ڈویزن آیا ہے۔‘‘ قمر نے زچ ہوکر زور سے پکار کر کہا۔
’’جاہل عورتیں۔ وہ پہلے شکلاجی کی بیوی کا ماتم تو کرلیں۔‘‘ بڑبڑاتے ہوئے ابا باہر چلے گئے۔
امیرن خالہ رشتے میں اماں کی بہن لگتی تھیں۔ عمر میں چھوٹی تھیں اس لیے سالی ہونے کے ناطے ابا کے مونہہ لگ کر بول لیا کرتی تھیں۔ ویسے بھی وہ ہڑبڑ ہڑبڑ بولنے کے لیے مشہور تھیں۔ تنک کے بولیں، ’’ہاں بھائی صاحب کہہ لیجیے ہم تو واقعی جاہل ٹھہرے لیکن قمر سے پہلے ہماری آپا نے دو بیٹے نہ جنے ہوتے تو ہم آپ سے پوچھ لیتے کہ آپ کتنے عالم فاضل ہیں اور بیٹے بھی کیسے لائق کہ علی گڑھ میں پڑھ رہے ہیں۔ ’’پھر آواز قدرے نیچی کرکے بولیں، ’’ایک ہی لڑکی ہے اس لیے کانوں میں تیل ڈالے بیٹھے ہیں۔ ارے زیادہ چھانیے مت۔ کہیں خدانخواستہ کر کرانہ کھائیں۔‘‘ ابا ان کی زد سے باہرنکل گئے تھے لیکن اماں تو سب سن رہی تھیں۔ بات بدلنے کو انہوں نے بٹوئے سے دوروپئے نکال کر پگلی کو مٹھائی کھانے کے لیے دیے۔
’’چلو بٹیا کے پاس ہوئے کی مٹھائی تو کھائے کو ملی۔ سوچا تھا اب کی شکلائن سے چاندی کی جھانجھڑ لیں گے۔‘‘ پھر اماں کا دیا ہواڈلی چونا ہاتھ کے پیالے میں لیتی ہوئی بولی، ’’ٹھیک کہت ہیں بڑی شکلائن۔ شکلاجی کا چاہئے کہ دوسرا بیاہ کرلیں۔ اتنی جمین جائداد گاؤں میں ہے۔ سب داماد آکے کھائے جہیں۔ ایک ٹھو بٹواجروری ہے۔‘‘ وہ اپنی گلٹ کی جھانجھریں بجاتی چل دی۔
’’اس کانام یونہی پگلی تھوڑی پڑگیا۔ پاگل تو ہئی ہے۔ خبطی کہیں کی۔‘‘ قمر نے غصے سے کہا۔
’’گھر کے پرانے لگے ہوئے نوکروں سے اس طرح بات نہیں کرتے۔‘‘ اماں نے جھڑکا۔ ’’خواہ وہ جمادارن ہی کیوں نہ ہو۔ اچھا ہے جو سنا نہیں۔‘‘
’’سن لیتی تو کیا کرتی؟‘‘
’’کچھ نہیں کرتی۔ اسے تکلیف ہوتی تو تمہیں گناہ ہوتا۔ پلٹ کے جواب دیتی تو تمہاری بے عزتی ہوتی۔‘‘
’’اماں، تمہارے نزدیک ہم پگلی سے بھی گئے گزرے ہیں۔‘‘ قمر نے پیر پٹخے۔ ’’مہترانی تمہیں زیادہ عزیز ہے۔‘‘
’’کیا ہوگیا ہے آج کل کے بچوں کو‘‘ اماں نے تاسف سے سوچا۔ ’’یہ لڑکی کہاں کھپے گی۔ اس قدر بدزبان۔‘‘
قمر کی ’’کھپتے کھپتے‘‘ عمر شریف اٹھائیس برس ہو رہی تھی اور اماں کو برے برے خواب آنے لگے تھے۔ بڑی خوش فہمی تھی اماں کو، پڑھائی ختم ہوتے ہی شادی کردیں گی۔ لڑکا اب حاضر ہوا کہ تب، لڑکا فوری طو رپر حاضر نہیں ہوا تو نوکری تو ہوجاتی۔ لڑکوں میں سے ایک نے انگریزی میں ایم اے کیا تھا۔ چونکہ گولڈ میڈل حاصل کیا تھا اس لیے وہیں اپنے ہی ڈپارٹمنٹ میں جگہ مل گئی۔ دوسرے نے ایم کام کیا تھا وہ ایل آئی سی میں نوکری پاگیا۔ انٹرویو کے لیے بمبئی بلایا گیا تھا، آرام سے چلا گیا، ناسک میں پوسٹنگ ہوگئی، آرام سے رہ پڑا۔ قمر نے باکس آفس کی معرفت جہاں درخواست بھیجی تھی وہ ایک دور افتادہ شہر تھا۔ اسکول میں بورڈنگ نہیں تھا۔ سیلیکشن ہوجانے کے باوجود قمر نہیں جاسکی۔ پرنسپل نے کہا بھی کہ وہ ایک شریف گھرانے کو جانتے ہیں وہاں بطور پئنیگ گیسٹ رکھوادیں گے لیکن ابا، اماں دونوں نے سختی سے انکار کردیا۔ لڑکی پڑھ رہی ہے یہ لوگ سمجھتے ہیں لیکن نوکری کرنے کے لیے اکیلی لڑکی نہ جانے کہاں، کس کے یہاں رہتی پھر رہی ہے یہ کوئی سمجھنے کو تیار نہیں ہوگا۔
ایک بار سرکاری ملازمت ملی۔ اس میں تو اور بھی کوردہ دیہات میں بھیج دیا گیا۔ قمر نے خود انکار کردیا۔ وہاں جاکر اسکول دیکھنے کے بعد اس کا دل بیٹھنے لگا تھا ’’ابا ہم آفس کی نوکریوں کے لیے درخواست دیں؟‘‘ ایک دن قمر نے پوچھا۔ ’’آخر ہم گریجویٹ تو ہیں ہی۔‘‘ ابا نے صرف گھور کر دیکھا۔ کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ خشمگیں نظریں بذات خود جواب تھیں۔
ملا کی دوڑ مسجد۔ قمر کو آخر اس کے اپنے چھوٹے سے شہر نے ہی پناہ دی۔ وہاں کے ایک پرائیوٹ اسکول میں وہ ڈیڑھ سو روپے ماہوار پر پرائمری درجات کی ٹیچر مقرر ہوئی۔ اماں اس کے ہاتھ پر پچیس روپئے رکھ کر باقی بڑی پابندی سے جمع کردیا کرتی تھیں اور خوش تھیں کہ لڑکی گھر پر ہی ہے۔ کہیں باہر نوکری کے نام سے ان کی جان نکلا کرتی تھی۔ لیکن قمر نے ہار نہیں مانی تھی۔ آس پاس مناسب جگہ مل گئی تو کسی کو اعتراض نہ ہوگا۔ وہ لکھنؤ الہ آباد، بنارس سے کوئی جگہ نکلی دیکھتی جو اس کی تعلیم کے مطابق ہوتی تو پٹ سے درخواست بھیج دیتی۔ تب اماں کی واویلا کا اس پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ ایک دن اس نے بڑے مضبوط لہجے میں کہا تھا، ’’اماں بھول جاؤ کہ کوئی آسمان سے اترنے والا ہے۔ اس لیے نوکری تو ایسی کرنے دو جو کسی معقول اسکول میں معقول تنخواہ کے ساتھ ہو۔ میں یہاں برقعہ پہن کے زنگ کھاتی رہوں؟ ڈیڑھ سو پاکر تین سو پر دستخط کروں؟‘‘
ایک دن قمر نے اعلان کیا، ’’کل ہم لکھنؤ جارہے ہیں۔ ہمارا انٹرویو لیٹر آیا ہے۔ عرشی خالہ کے یہاں ٹھہر جائیں گے اسکول بہت اچھا ہے۔ شاید قسمت ساتھ دے جائے۔‘‘ اماں اب تک قسمت پر شاکر ہونے لگی تھیں۔ زیادہ واویلا نہیں مچائی۔ لکھنؤ پر تو ابا بھی کچھ نہیں بولتے تھے۔ وہاں کئی رشتے دار موجود تھے۔
تب ہی وہ انہونی ہوئی۔
حسب دستور کمپارٹمنٹ میں گستے ہی قمر نے برقعہ اتار کر جھولے میں ڈالنے کے لیے اس کی زپ کھولی ہی تھی کہ اس کی نظر اس پر پڑی۔ وہ لانبے قد کا، سانولا لیکن جاذب نظر نوجوان تھا جو اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ چہرے پر سنجیدگی کے باوجود اس کی آنکھوں میں قمر کی برقعہ بیگ میں ڈالنے کی حرکت سے نہایت محظوظ ہونے والی کیفیت تھی۔ قمر سٹپٹا گئی۔ وہ نوجوان بھی دوسری طرف کو دیکھنے لگا۔ کچھ دیر بعد جھجکتے ہوئے دوچار جملو ں کاتبادلہ ہوا۔ ایک چھوٹے اسٹیشن پر اس نے چائے خریدی تو ایک کوزہ قمر کو بھی پیش کردیا۔ لکھنؤ کے کسی بینک میں اکاؤنٹینٹ تھا۔ پرتاپ گڑھ اس کی بیوی کا میکہ تھا۔ وہ گویا اپنی سسرال آیا ہوا تھا۔
’’تو اہلیہ وہیں رک گئیں؟‘‘ قمر نے چائے قبول کرلی تھی اور بھرتی کا سوال کر رہی تھی۔
’’ان کی دوسری برسی تھی۔‘‘ اس کا چہرہ تاریک ہوگیا۔ (کسی کنواری کے نصیب سے بیاہی مرتی ہے۔ ایک بار امیرن خالہ نے کہا تھا تو کٹھ حجت قمر ہنس پڑی تھی۔ اگر مرحومہ کا شوہر کسی بیوہ سے شادی کرے تو، اس نے امیرن خالہ کو چھیڑا تھا۔ بیوہ سے شادی کون کرے ہے جی؟ کنواری کو جڑتانہیں مطلقہ اور بیوہ کو بر کہاں سے جڑے گا۔ پھر انہوں نے کئی قصے سنائے جن میں پچاس پچپن یہاں تک کہ ساٹھ بر س کے رنڈوے پچیس، زیادہ سے زیادہ تیس کی لڑکیاں لے کر آئے تھے۔ سب کے نام پتے انہوں نے گنوا دیے۔ جھوٹا جانو تو تصدیق کرلو)
’’اوہ۔ معاف کیجیے گا۔‘‘ قمر گڑبڑا گئی۔
’’میں صبح ناشتہ کرکے نہیں چلا تھا۔ مرحومہ کی والدہ نے کچھ پیک کردیا ہے۔ آپ شیئر کریں گی؟‘‘ اس نے اخبار بچھایا اور ڈبہ کھولتے ہوئے قمر سے پوچھا۔ ڈبے میں انڈے اور پراٹھے تھے اور کچھ مٹھائی بھی۔ قمر نے شائستگی سے انکار کردیا۔ وہ یونیورسٹی میں لڑکوں کے ساتھ پڑھ چکی تھی۔ بات چیت میں کوئی جھجھک نہیں تھی لیکن اجنبی مردوں سے بے تکلف ہونا اس کا شیوہ نہیں تھا۔ اس کا ماحول ہی کچھ ایسا رہا تھا۔ پھر یہ کہ اس وقت اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ ناشتہ شیئر کرنے سے تو انکار کردیا تھا لیکن وہ مرحومہ کی والدہ کے داماد کو مرحومہ کے ساتھ شیئر کرنے والی تھی۔
باقی سفر لگ بھگ خاموشی میں کٹ گیا۔ لکھنؤ قریب آرہاتھا تو اس نے بینک کا کارڈ دیا۔ اگر آپ لکھنؤ میں نوکری کریں گی تو اپنا اکاؤنٹ میرے بینک میں کھلوا لیجیے گا۔
قمر ہنس پڑی، ’’آپ کے منہ میں گھی شکر۔ نوکری مل گئی تو ضرور کھلواؤں گی۔‘‘
’’پرتاپ گڑھ میں آپ کس اسکول میں ہیں؟‘‘ قمر نے جھجکتے ہوئے نام بتادیا۔ پھر بولی، ’’آپ تو وہاں سب کو جانتے ہوں گے؟‘‘
’’میرے سسر تحصیلدار ہیں۔ ٹرانسفر ہوکر حال میں وہاں آئے ہیں اس لیے میں مقامی لوگوں کو نہیں جانتا۔‘‘ قمر یکلخت ہنس پڑی۔
’’آپ ہنسیں کیوں؟‘‘ اس نے مشکوک انداز میں بھوئیں چڑھائیں۔
’’ہماری ایک امیرن خالہ ہیں۔ اماں انہیں شہر خبرو کہتی ہیں۔ وہ بتارہی تھیں کہ کوئی مسلمان تحصیلدار شہر میں وارد ہوئے ہیں۔ انہیں کو کہہ رہی ہوں گی۔ دراصل مسلم افسر کم ہی آتے ہیں نا۔‘‘
’’شہر خبرو‘‘ پر وہ بھی خفیف سا مسکرایا۔ ’’ایسی خواتین تقریباً ہر گھر میں ہوتی ہیں۔‘‘ لکھنؤ اسٹیشن پر اترتے وقت وہ خاصی بے تکلفی سے گفتگو کر رہے تھے۔
قمرکو نوکری یہ بھی نہیں ملی لیکن وہ نوجوان بار بار ذہن میں آتا رہا۔ چار سال قبل شادی ہوئی تھی۔ دو سال میں بیوی چٹ پٹ ختم ہوگئی۔ رکشے سے اسکول جاتے وقت کئی بار نادانستہ طور پر وہ سوچ بیٹھتی کہ شاید وہ انسان جس نے اپنا نام انیس احمد بتایا تھا جو لکھنؤ کے ایک بینک میں اکاؤنٹنٹ تھا اور جس کی بائیس سالہ بیوی شادی کے دوبرس بعد ہی گزر گئی تھی، شاید پھر دکھائی پڑجائے۔ لیکن دکھائی پڑنے سے بھی فائدہ کیا تھا۔ کیا وہ نقاب الٹ کر کسی مسلم سوشل فلم کی ہیروئن کی طرح اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ سکتی تھی؟
بھائیوں کی شادی کواماں نے بہت دن ٹالا تھا لیکن دونوں پردیس میں تھے۔ آخر ان کی شادیاں کرنی ہی پڑیں۔ اب بہن کو لے کر کتنے دن بیٹھے رہتے۔ پھر اونچ نیچ تو لڑکوں کے ساتھ بھی ہوسکتی ہے نا۔ قمرکی قسمت پر تو جیسے تالہ لگ گیا تھا۔ ایک دن اچانک ایک خاتون وہ تالہ کھولنے وارد ہوئیں۔ دو دن پہلے قمر کا اٹھائیسواں سال مکمل ہوا تھا۔ اماں نے اس کی درازئی عمر کی دعائیں مانگنے کے بعد آنسو بھری آنکھوں سے اتنا اور کہا تھا۔ یا مولامشکل کشا! کتنی بار دہراؤں؟
خاتون قدرے پختہ عمر، نک سک سے درست غرارہ پہنے، بڑی شائستہ اور مہذب تھیں۔ ان کے جانے کے بعد اماں تو مارے خوشی کے پاگل بنی جارہی تھیں۔
’’لڑکا دوہا جو ہے لیکن کم عمر ہے۔ بالکل کنوارا لگتا ہے۔ اے ہے دکھیا کی شادی کو دو برس ہی تو گزرے تھے۔ بال بچہ بھی نہیں ہے۔ ہوتابھی تو کیا تھا۔ کوار کوٹلہ تو بچا رہے چننے سے۔‘‘ قمرکا ماتھا بڑی زور سے ٹھنکا۔ تصویر دیکھی تو دانتوں تلے انگلی دبالی۔ اتفاقات صرف فلموں میں نہیں ہوتے حقیقی زندگی میں بھی رونما ہوتے ہیں۔
’’اماں، ہم ان سے ملے تھے۔ جب ہم لکھنؤ جارہے تھے تب۔‘‘ کہتے ہوئے قمر کاچہرہ سرخ ہوگیا۔
’’میل ملاقات ہے؟‘‘ اماں کا سارا ایکسائٹمنٹ کافور ہوگیا۔ ’’ہئے ہئے!‘‘
’’تمہارا دماغ چل گیا ہے اماں۔‘‘ قمر نے سارا لحاظ بھلادیا، اسے اس قدر غصہ آیا۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ پسند کی شادیاں سننے میں نہیں آرہی تھیں لیکن جہاں ایسی کسی بات کا سوال ہی نہ ہو وہاں بلاوجہ کی ہئے ہئے۔ شادی سے پہلے ماتم۔ وہ پیر پٹختی چل دی لیکن پھر کچھ خیال کرکے پلٹی۔ خردماغ والدین کا کیا ٹھکانہ۔ کیا پتہ اماں محض یہی سوچ کے انکار کردیں کہ صاحبزادی گل کھلاتی رہی ہیں۔ بھلا کہیں لڑکی خود برچنتی ہے۔
’’ہم قسم کھاتے ہیں، ہمارا اس رشتے میں کوئی دخل نہیں ہے۔ لیکن ایک بات ضرور کہیں گے کہ رشتہ بہت اچھاہے۔ انکار مت کردینا۔‘‘ اس نے بغیر آنکھیں ملائے ہوئے کہا اور کمرے میں گھس گئی۔
جب قمر نے کہا ہم قسم کھاتے ہیں تو اس کے لہجے میں بڑی کاٹ تھی۔ وہ اماں پر ضائع نہیں ہوئی۔ انہیں لڑکی پر بڑاترس آیا۔ شاید اسے غلط کٹگھرے میں کھڑا کردیا گیا تھا۔ انہوں نے قمر کے پاس جاکر اس کے سرپر ہاتھ رکھا، ’’بیٹا ہمیں تم پر بھروسہ ہے۔ لیکن ہم جو بھی کہتے ہیں اس کے پیچھے، تمہاری سب کی عزت کاخیال دامن گیر رہتا ہے۔ لڑکی کی عزت سے زیادہ نازک کوئی شیشہ نہیں۔‘‘ قمرنے آنکھیں پٹپٹاکر آنسو پئے۔
حجلۂ عروسی میں قمر نے دولہا سے پوچھا، ’’آپ نے ہمیں ڈھونڈا کیسے؟‘‘
’’بہت آسانی سے۔‘‘ دولہانے مسکراکر جواب دیا۔ ’’آپ کے شہر میں ہماری پہلے سسرال والے تو تھے ہی۔ بڑی آپا کو وہاں بہانے سے بھیج دیا۔ آپ نے اسکول کانام بتایا تھا جہاں آپ پڑھاتی تھیں۔ آپا وہاں بھی ہو آئیں۔ ساری معلومات چپکے چپکے اکٹھاکرلیں۔‘‘
’’ہم نے آپ کی تصویر دیکھی تو ہکا بکا رہ گئے۔ پرتاپ گڑھ کی سڑکوں پرانجانے پر آپ کو ڈھونڈا تھا۔ آپ نے ہم پر بڑا گہرا امپریشن ڈالا تھا۔ ہم نے اماں سے کہہ دیا کہ اس رشتے سے انکار نہ کریں۔‘‘ دولہا بہت خوش ہوا لیکن کہیں کسی چھٹی حس نے خبردار بھی کیا۔ عورت کو پہلے دن ہی اتنا بے تکلف نہیں ہونا چاہیے۔ اٹھائیس، تیس کی ہو رہی ہیں۔ نوکری کر رہی ہیں۔ کھائی کھیلی نہ ہوں۔
’’آپ نے پہلے کسی کو میرا مطلب ہے۔ کسی مرد کو اس نظر سے دیکھا تھا؟‘‘
’’آپ یقین کرنا چاہیں تو کرلیں کہ نہیں۔‘‘
’’اتنی عمر یوں ہی گزاردی ہے؟‘‘
’’یقین کرنا چاہیں تو کرلیں کہ ہاں۔‘‘
’’یونیورسٹی کالج، اسکول؟‘‘
’’جنہیں میں پسند کرسکتی تھی انہوں نے میری طرف نہیں دیکھا، جنہوں نے دیکھا وہ میرے معیار کے نہیں تھے۔‘‘
’’باپ رے۔‘‘ انیس نے سوچا، تو کچھ معاملات تھے۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’مطلب یہ کہ کچھ لوگوں کو آپ نے پسند کیا تھا۔‘‘
’’جو چیزیں میری پہنچ یا بساط سے باہر ہوں، انہیں میں دائرہ خیال میں نہیں لاتی۔ مجھے معلوم ہے میں ہیرے نہیں خرید سکتی۔ بلکہ میں تو بھاری سونا بھی نہیں خریدسکتی۔ اس لیے میں اس کے بارے میں سوچتی بھی نہیں۔ اس موضوع کو یہیں چھوڑ دیجیے۔ ہماری نئی شادی ہوئی ہے ہم بحث میں کیوں پڑیں۔‘‘ اس نے بڑی میٹھی مسکراہٹ کے ساتھ شوہر کو دیکھا۔
’’بولتی بہت ہے۔‘‘ انیس نے سوچا لیکن کافی کریدنے کے باوجود دلہن ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ ضدی بھی معلوم ہوتی ہے۔ اس نے ایک اور رائے قائم کی اور موضوع بدل دیا۔
’’بچوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘
قمر گڑبڑاگئی۔ شادی تو ہو نہیں رہی تھی بچوں کے بارے میں کون سوچتا۔ تھوڑا توقف کے بعد بولی۔۔۔ شادی سے پہلے۔۔۔ شاید کوئی سوچتا ہے کیا؟ اسے کوئی معقول جواب نہیں سوجھا تھا۔
’’اب تو شادی ہوگئی۔‘‘ وہ مسکرایا (کم بخت کی مسکراہٹ بڑی سنجیدہ مسکراہٹ تھی اس لیے بہت پیاری۔)
’’میڈیکل سائنس کہتا ہے کہ عورت کا پہلا بچہ تیس سال سے پہلے ہوجانا بہتر ہوتا ہے۔‘‘
’’مردوں کے لیے کوئی عمر نہیں۔۔۔‘‘ شاید وہ ہنسی۔ ’’شادی کی ہی طرح۔ ساٹھ برس میں بھی کرلیتے ہیں۔‘‘
’’باپ رے۔ بڑی بے تکلف ہیں۔ بزرگ اسی لیے عورتوں کو زیادہ پڑھانے کے حق میں نہیں تھے۔‘‘ انیس نے سوچا پھر بولا، ’’اور کتنے؟‘‘
’’دوسے زیادہ نہیں۔ بائی دے وے ہمیں لڑکا۔ لڑکی کا کوئی hang up نہیں۔‘‘ کہہ کر قمر نے اس موضوع کو بند کردیا۔ اس طرح کی باتوں کے لیے وقت پڑا تھا۔ یہ اس کی سہاگ رات تھی۔ اس نے مہندی رچی ہتھیلیاں دولہا کے سامنے پھیلائیں۔ ’’ہماری اماں بے حد روایتی خاتون ہیں۔ کہتی ہیں سہاگ کی مہندی بالکل سادہ ہونی چاہیے کوئی ڈیزائن، پھول پتی کچھ نہیں۔‘‘
’’آپ نے ضد نہیں کی پھول بنوانے کی۔‘‘ وہ ہنسا اور دلہن کاہاتھ تھام لیا۔
’’اماں کے سامنے ہماری ضد نہیں چلتی۔ شاید ہی کبھی۔۔۔‘‘
’’میرے سامنے بھی نہیں چلے گی۔‘‘ اس نے بات کاٹی۔ وہی سنجیدہ مسکراہٹ، وہی گہری آنکھیں۔
’’دیکھیں گے۔‘‘ وہ بھی ہنسی۔
’’آپ کو ایک دلچسپ قصہ سنائیں۔‘‘
’’ضرور۔ آج آپ کا جتنا جی چاہے بولیے ہم سنیں گے۔ بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔‘‘ اس کے لہجے میں شرارت تھی۔ ’’اماں کی شادی کے وقت ان کے مائیکے میں نوجوان رشتہ دار عورتوں نے ایک رسم کی۔ انہوں نے اماں کی مٹھی میں ایک انگوٹھی بند کرائی اور ابا سے کہا مٹھی کھول کر انگوٹھی نکالیں۔ اماں دھان پان سی تھیں اور صرف سترہ برس عمر۔ ابا کو ڈر رہا ہوگا کہ کہیں کلائی میں موچ نہ آجائے۔ اس کے لیے زیادہ زور آزمائی نہ کی ہوگی۔ نہیں کھلواسکے تو عورتوں نے شور مچایا کہ دولہا کمزور ہے دلہن حاوی رہے گی۔ ابا نے بڑی سنجیدگی سے کہا، کھیل مذاق کی بات اور ہے جہاں تک مٹھی کھلوانے کا سوال ہے تو کہئے ابھی کھلوادیں۔ کھلوائیے، شور بلند ہوا۔ ابا نے نہایت سنجیدگی سے کہا۔ فاطمہ بی بی میں آپ کو آپ کے شوہر کی حیثیت سے حکم دیتا ہو کہ آپ اپنی مٹھی کھول دیں۔ گٹھری بنی اماں نے پٹ سے مٹھی کھول دی جس میں انگوٹھی چمچمارہی تھی۔ محفل پر سناٹا طاری ہوگیا (لیکن شاید کہیں تفریح بھی سناٹے میں گم ہوگئی ہوگی۔) یہ قمر نے دل میں سوچا۔
لمحہ بھر کو تو انیس بھی خاموش رہ گیا۔ وہ شاید اس ’پنچ لائن‘ کے لیے تیار نہیں تھا۔ قدرے توقف کے بعد بولا، ’’حکم دینے کی مجال تو نہیں ہاں درخواست ہے قمرالنساء بیگم کہ ہماری دلہن کی حیثیت سے آپ ہمارے اور قریب آجائیں۔‘‘ اس بار اس کی مسکراہٹ بہت گہری تھی اور اس کی سنجیدگی کی جگہ شرارت نے لے لی تھی۔ قمر شرم سے سرخ ہوگئی (اور دولہا نے سوچا چلو اتنا تو ہے کہ لاج شرم بالکل ہی بیچ نہیں کھائی ہے۔)
انیس کی درخواست اب کچھ حد تک حکم میں بدلتی جارہی تھی اور قمر کی وہی مرغے کی ایک ٹانگ کہ تم نے گاڑنٹی لی ہے کہ ہمارے یہاں بیٹا ہوگا۔
’’ہمارے پڑوس میں وہ تھے نہ دلشاد چچا۔ ان کے یہاں ساتویں بھی بیٹی ہی ہوئی۔ لڑکیاں تو لڑکیاں ماں باپ کے چہرے پر ہمیشہ یتیمی برستی رہی۔ اوپر سے چچا مرے تو دوبیٹیاں ابھی بن بیاہی رہ گئی تھیں۔
’’ہم سات کے لیے تو نہیں کہہ رہے؟ تمہارے دلشاد چچا سے ہمیں کیا لینا دینا۔‘‘
’’تیسری کے لیے بھی کیوں کہہ رہے ہو؟ پالوگے؟ پالنا تو ہیں ں ہی پڑے گا؟‘‘
’’اگر تیسرا بچہ بھی لڑکی ہی ہواتو ہم اسے بھیا کو دے دیں گے۔ بھیا۔ بھابی تو لپک لیں گے گھر کے بچے کو (انیس کے بڑے بھائی لاولد تھے۔)
’’معاف کرنا، سنا ہے ڈاکٹری معائنے سے نقص بھیا میں ظاہر ہوا تھا۔‘‘
انیس بھڑک گیا، ’’یہاں اس کا کیا ذکر ہے کہ نقص کس میں تھا۔ بات تو ٹالو مت او راٹھا کے پھینکو وہ اپنی گولیوں کی شیشی۔ بیٹا ہوا تو ہمارا، لڑکی ہوئی تو بھیا بھابی کی۔‘‘
’’ہرگز نہیں۔ میرے جسم پر صرف میرا حق ہے۔ میری اولاد میری رہے گی۔ اگرمیں نے تیسرا بچہ پیدا کیا بھی تو لڑکا ہو یا لڑکی، اسے میں ہی رکھوں گی تمہاری کسی بات سے میں نے انکارنہیں کیا۔ ہمیشہ مصالحت کاراستہ اپنایا۔ ملازمت کے علاوہ سخت محنت کرکے ٹیوشن بھی کر رہی ہوں کہ بچیاں اچھے اسکول میں پڑھیں۔ گھر کا معیار اونچا رکھنے میں میری محنت بھی شامل ہے۔ اب کہیں کچھ تو ہو جو صرف میرا ہو۔‘‘ اس کی آواز بھراگئی تھی۔ انیس آخری جملے پورے ہونے سے پہلے اٹھ کر جاچکاتھا۔
قمرنے گولیوں کی شیشی نہیں پھینکی لیکن کہیں کچھ تھا جو چھن سے اس کے او رانیس کے درمیان ٹوٹ گیا تھا۔ قمر کے تئیں اس کے اندر ایک سرد مہری گھر کر گئی تھی جو بڑی تکلیف دہ تھی۔ سب ٹھیک ہوجائے گا، وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہوجائے گا، سوچتے سوچتے وقت یونہی گزرتا رہااورکبھی کچھ ٹھیک نہیں ہوا۔ انیس ذرا ذرا سی بات پر جھنجھلاتا، طعنے دیتا۔ اس کے جن کاموں سے ہمیشہ مطمئن رہتا تھا، ان میں بھی عیب نکالتا۔ دانت پردانت بھینچ کر قمر برداشت کرتی رہی۔ اماں قمر کو تتیا مرچ کہا کرتی تھیں۔ لیکن اس کی ساری تیزی انیس کی سرد مہری کے سامنے ہوا ہوگئی تھی۔ اور اب تیسرے بچے کے بارے میں سوچنے کاوقت بھی گزر چکا تھا۔
گھر میں آج کا رولامچاہو تھا۔ رضوانہ نے پلس ٹوکا امتحان دے دیا تھا۔ باپ کی ضد پر اس نے سائنس لے لیا تھا۔ لیکن اب پری میڈیکل امتحانوں میں بیٹھنے سے صفا انکار کر رہی تھی۔
’’ہمیں ڈاکٹر نہیں بننا۔‘‘ بس مرغے کی ایک ٹانگ۔
’’تو کیا بننا ہے؟ آج کل سمپل گریجویٹ کی کہیں کھپت نہیں۔‘‘
’’کھپت تو اس کی بھی ہے پاپا۔ آج کل بہت ایونیوز ہوگئے ہیں لیکن ہاں ہمارا ایک ٹارگٹ ہے۔ ہم اکنامکس اور انگلش لے کر گریجویشن کریں گے اور اس کے بعد لاء پڑھیں گے۔‘‘
لڑکی وکیل بنے گی۔ لوگ سکتے میں آگئے۔ اسے باز رکھنے کی ایک پوری مہم چل پڑی۔ گاؤں سے انیس کی والدہ آگئیں پوتی کو سمجھانے۔ بڑے بھائی اور بھابی تو لکھنو میں ہی رہتے تھے۔ ذرا دور رہاکرتے تھے اس لیے کم آتے تھے لیکن ادھر کئی دن سے روز آرہے تھے۔
’’بیٹا۔ ہمارے کوئی اولاد تو ہے نہیں۔ ایک اچھا خاصہ پلاٹ زمین کا ہے۔ ہم تو سوچتے تھے تم ڈاکٹر بنوگی تو تمہیں وہاں نرسنگ ہوم بنوادیں گے۔‘‘
’’اب بڑے ابا آپ کے اس پلاٹ کواستعمال کرنے کے لیے ہم مرضی کے خلاف ڈاکٹر بن جائیں؟ چلیے اچھا اس پر ہمارا دفتر بنوادیجے گا۔ رضوانہ ایڈووکیٹ کابورڈ لگ جائے گا۔‘‘
’’رضوانہ احمد ایڈووکیٹ سے لڑکے کانوں پہ ہاتھ لگاکے بھاگیں گے۔‘‘ بڑی چچی نے جل کے کہا، وہ اپنی اتنی قیمتی زمین دیور کی اولادوں کو دیے جانے کے خیال سے ہی کبیدہ خاطر ہوجاتی تھیں۔
’’اچھا ہے نا بڑی اماں، لڑکی سے دور ہی رہیں گے۔‘‘
اب کی دادی کود پڑی اور نہایت ناراض ہوکر، ’’کیا بری باتیں منہ سے نکالتی رہتی ہے۔ ارے شادی بیاہ کرنا ہے کہ نہیں۔ چلیں وہاں سے۔ لڑکی ڈاکٹر بن جاتی ہے تو لڑکے والے دوڑکے ہاتھو ں ہاتھ لے جاتے ہیں۔‘‘
’’ہاں اب تو مسلمانوں میں بھی جہیز کا اتنا چلن ہوگیا ہے۔‘‘ قمر نے بھی ٹھنڈی سانس لے کر دبی زبان سے کہا۔
’’اور جہیز ہو نہ ہو، وکیل لڑکی کے نام پر تو لڑکا ویسے بھی نہ ملے گا۔‘‘ یہ انیس تھا۔ ’’لڑکی کی بات چھوڑو میاں۔‘‘ بڑے بھائی کہہ رہے تھے ’’ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ایک دوست ایڈووکیٹ ہیں۔ ارے وہی علی رضا، جانتے ہوگے۔ ان کی لڑکی کی کہیں بات چلائی گئی تو لڑکے کے والد نے کہا نہ بھائی وکیل کی بیٹی نہ لائیں گے۔‘‘
’’وہی مرغے کی ایک ٹانگ۔ سب کی تان شادی پر کیوں ٹوٹتی ہے۔‘‘ رضوانہ نے نہایت خفا ہوکے کہا، ’’نہیں کرنی ہے ہمیں شادی۔‘‘
’’مرغے کی ایک ٹانگ تمہاری کہ دوسروں کی، آخر تم کیوں اڑگئی ہو وکالت پہ۔‘‘
’’ہمیں اس میں دلچسپی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے اندر صلاحیت بھی ہے۔ اچھاگریجویشن تو کرنے دیجیے اس کے بعد بہت کچھ ہے۔ جرنلزم کرلیں گے۔ یو پی ایس سی دے لیں گے۔ کہیں نہ آئے تو بی ایڈ کرکے آپ کی طرح جھک ماریں گے۔ اسکول میں پڑھائیں گے ماسٹرائن بن کے۔‘‘ اس کے لہجے میں استہزا تھا۔ قمر کو کہیں بہت تکلیف پہنچی۔ ’’ماسٹراینیں اگر تمہیں نہ پڑھائیں تو تم آگے آگے اتنا کودوگی کیسے۔‘‘ اس نے دل ہی دل میں کہا لیکن اوپر سے پرسکون رہی۔ یہ مکالمے ایک دن کی بات نہیں تھے۔ کئی دن سے چل رہے تھے۔
آخر لوگوں کو ہار ماننی پڑی۔ رضوانہ کا یونیورسٹی میں آرٹس فیکلٹی میں داخلہ ہوگیا۔ اور لوگوں کو مزید ہاریہ ماننی پڑی کہ ان تین سالوں میں اسے برین واش کرنے کی سب کوششیں بیکار رہیں۔ اس نے بی ایڈ کے بعد علی گڑھ میں لاء کورس جوائن کرلیا۔ قمر کی ساس رہتی تو بارہ بنکی کے گاؤں میں تھیں لیکن اکثر آتی رہتیں اور جب آتیں رضوانہ کو لے کر قمر کو باتیں سناکر جاتیں۔ لڑکی کو بہت آزادی دے رکھی ہے اور پڑھاؤ انگریزی اسکولوں میں۔ یہ کرنٹان، انہوں نے ہماری تہذیب کا ستیاناس کردیا ہے۔ ماں باپ بے فکر ہیں لڑکی دندناتی گھوم رہی ہے۔ پھر انہیں اچانک خیال آتا کہ ’باپ‘ کہہ کر وہ اپنے بیٹے کو بھی بیٹی کو بگاڑنے میں ملوث کر رہی ہیں اس لیے جلدی سے بولیں، ’’اب باپ بے چارہ کرے بھی تو کیا۔ وہ تو دن بھر گھر سے باہر رہتا ہے۔ بچوں کی تربیت تو ماں کا کام ہے۔ انہیں غلط راستے پر چلنے سے روکنا بھی ماں کا ہی کام ہے۔ اور یہ چھوٹی فتنی۔ اری تو کیا کرنے والی ہے ری عمرانہ۔‘‘
’’ماس کوم (Mass com) دادی۔‘‘ چھوٹی فتنی نے نیل فائل سے ناخنوں کو گھس کر حسب مرضی شیپ دیتے ہوئے نہایت اطمینان سے جواب دیا۔
یہ آج کل کی لڑکیاں کتنے اطمینان سے اپنا کریئر طے کر رہی ہیں اور کتنا واضح مقصد ذہن میں رہتا ہے۔ ہوسکتا ہے سب کا نہ بھی ہوتا ہو لیکن اچھے اسکولوں سے جو لڑکیاں پڑھ کرنکل رہی ہیں ان میں سے زیادہ تر نہایت صاف سوچ رکھتی ہیں۔ اور لڑکے بھی تو۔ ہمارے تو اماں ابا بس اسکولوں میں نام لکھواکر بے فکر ہوجایا کرتے تھے۔ نہ کبھی ہوم ورک دیکھیں نہ یہ سوچیں کہ بچے کریں گے کیا۔ بس بے نتھے بیل کی طرح بی اے، ایم اے کرلو، پھر لڑکے جوتیاں چٹخائیں نوکریوں کے لیے اور لڑکیاں شادی کے انتظار میں گھر میں سوکھیں۔ ہم نے لاکھ چاہا تھا کہ سائنس پڑھ لیں لیکن ہمارے شہر میں لڑکیوں کے اسکول میں تھا ہی نہیں اور ہائی اسکول کے فوراً بعد اماں قطعی باہر بھیجنے کو راضی نہیں تھیں۔
ارے یہاں جو پڑھ رہی ہیں وہ گھاس کھود رہی ہیں کیا۔ ان کی یہی ایک دلیل تھی۔ دراصل وہ اس پھیرے میں تھیں کہ انٹر کے بعد قمر کی شادی ہوجائے گی۔ شادی نہ ہونے پر مجبوری میں گریجویشن کے لیے الہ آباد بھیجا۔ دور کی جگہ نوکری کے لیے نہیں جانے دیا۔ قمر نے نظریں اٹھاکر عمرانہ کو دیکھا او رسوچتی رہی کہ ماس کوم کا کورس تو لکھنؤ میں ہے ہی نہیں۔ ایل ایل بی یہاں ہوتے ہوئے بھی رضوانہ علی گڑھ چلی گئی تو ان صاحب زادی کو تو باہر جانا ہی ہے۔ دلی جائیں گی اور کیا۔ کہیں بمبئی نہ چل دیں۔ اس کا دل جیسے ہچکولے کھانے لگا۔ بمبئی تو بھائی ہمیں برداشت نہ ہوگا۔
رضوانہ نے علی گڑھ سے خط لکھا تھا۔ قمر کی جان جل گئی۔ کتنی بار کہا کہ انگریزی میں خط مت لکھا کرو۔ ٹھیک ہے تمہاری ماں پڑھی لکھی ہے، انگریزی داں ہے لیکن اگر اب ہم لوگ بھی آپس میں انگریزی استعمال کرنے لگیں تو اردو کا کیا ہوگا۔ ٹھیک کہتی ہیں انیس کی ماں کہ انگریز چلے گئے، ہم لوگوں کو چھوڑ گئے۔ مارے غصے کے جی چاہا خط واپس لفافے میں ڈال کے اسے بھیج دے لیکن تجسس اور بیٹی کی محبت غالب آگئی۔ ساری زندگی تو معاف کرتے کرتے ہی گزر رہی تھی۔ اس نے خط پڑھنا شروع کردیا۔ مختصر ہی تھا۔ بس دوپیرا گراف۔ آخر تک پہنچتے پہنچتے قمر کے جسم میں کچھ سن سن کرنے لگا۔ تردد، گھبراہٹ، اندیشے۔ کیا بیٹیوں کی پیدائش پر تھالی کٹورا پیٹنے اور بیٹیوں کی پیدائش پر منہ لٹکانے والے لوگ حق بجانب ہوتے ہیں؟ وہ کاغذ ہاتھ میں پکڑے، خلا میں دیکھنے لگی۔
رضوانہ نے لکھا تھا۔ بمبئی کی ایک لاء فرم میں بڑی اچھی ملازمت ملنے کے پورے امکانات ہوگئے ہیں۔ بس رسمیات پوری کرنی ہیں۔ وہ انٹرویو کے لیے بمبئی جارہی ہے۔ بمبئی؟ اکیلے؟ اور اگر نوکری مل گئی تو کہاں رہے گی؟ کیسے رہے گی؟ علی گڑھ میں تو کالج کا اپنا گرلز ہوسٹل تھا دوسرے کہیں تحت الشعور میں ایک موہوم سی امید تھی کہ وہاں مسلمان لڑکے بہت ہیں شاید کہیں وکالت پڑھنے والے کو ہم پیشہ لڑکی پسند آجائے۔ لیکن بمبئی؟ The big bad metro? اسے چکر سا آنے لگا۔
’’کس کا خط ہے؟‘‘ انیس نے قریب آکر پوچھا۔ ’’فکر مند کیوں لگ رہی ہو؟‘‘
اس نے خط شوہر کی طرف بڑھادیا۔
’’دماغ خراب ہوگیا ہے لڑکی کا۔ علی گڑھ جانے دیا تو اور پر نکل آئے۔‘‘ انیس سخت ناراض ہوا تھا۔ مردوں کو شاید ایک ہی جذبے کااظہار کرنا بہت اچھی طرح آتا ہے۔ غصہ۔ نہ پریشانی نہ گھبراہٹ نہ محبت۔ لیکن کیا یہ ناراضگی محبت کا ہی مظہر نہیں تھی؟ محبت کا اور سروکار کا؟ لڑکی کے تحفظ کی فکر، اس کی عزت آبرو کی فکر۔ اس کا گھر بسانے کی فکر، پڑھ لکھ لیا، اس لائق ہوگئیں کہ ضرورت پڑے تو اپنے ساتھ چار اور لوگوں کی کفالت کرلیں۔ اب بھیا اپنے گھر بار کی ہوجاؤ۔ پھر جو جی چاہے کرو۔ قمر دل میں بکتی جھکتی رہی۔
ابھی ای میل اور فیس بک کا زمانہ کچھ دور تھا۔ موبائل خال خال لوگوں کے پاس تھے۔ اس لیے رضوانہ نے اپنی دوست میرا کو بھی خط لکھا جو لکھنو میں ہی تھی، رضوانہ کی ہم عمر تھی لیکن دوسرے بچے کی ماں بننے والی تھی۔
’’میں نے مما سے کہہ دیا ہے بمبئی جارہی ہوں انٹرویو کے لیے۔ وہاں میرے ایک کلاس فیلو کے چچا۔ چاچی ہیں۔ دودن انہیں کے یہاں ٹھہروں گی۔ اگر ملازمت مل گئی تو وہیں پیئنگ گیسٹ کے طور پر رہنے کا انتظام بھی کرادیں گے۔ مجھے معلوم ہے پاپا گھوم گھوم کر مجھے اور مما دونوں کو برا بھلا کہہ رہے ہوں گے۔ مما دعائیں مانگیں گی شاید منت بھی مان لیں کہ نوکری نہ ملی تو حضرت شاہ مینا کی درگاہ پہ جاکے چادر چڑھاکے آئیں گی۔ پتہ ہے میرا۔ مماپکی وہابی تھیں۔ وہابی تو نہیں جانے گی، بس یوں سمجھ لے جو لوگ پیر فقیر دعا تعویذ وغیرہ میں یقین نہیں رکھتے۔ لیکن جب سے میں اور عمرانہ گھر سے باہر نکلے ہیں وہ یہ سب کرنے لگی ہیں اپنی دانست میں پڑھی لکھی، میری روشن خیال ماں۔ قسم سے میرا مجھے ان میں اور نانی میں خاص فرق نظر نہیں آتا۔‘‘
’’اچھا یہ بتا اتنی جلدی دوبارہ کیسے پھنس گئی۔ اور اگر اس بار بھی بٹیا ہوئی تو کیا کرے گی؟ سنجے کا کیا خیال ہے؟ اس کی اماں نے پچھلی بار کتنا واویلا مچایا تھا۔ اس بار کہیں سنجے بھی اماں کے ساتھ مل کر تجھے پیٹے گا تو نہیں دوبارہ بیٹی پیدا کرنے پر؟‘‘
میرا نے جواب دیا، ’’رشک آتا ہے تیرے اوپر۔ جاگھوم چھٹا سانڈبن کے۔ رہا اماں اور نانی میں فرق تو مجھے بڑی ہنسی آئی۔ میری اماں بنارس ہندویونیورسٹی سے اکنامکس میں ایم اے ہیں۔ پاپا کھانا کھاتے ہوتے ہیں تو گرم پھلکا پلیٹ میں ڈالتی ہیں پھر بیچ سے آدھا کھایا پھلکا ہٹاکر کہ ٹھنڈا ہوگیا ہوگا، جلدی سے دوسرا لاکے ڈالتی ہیں۔ بچاہوا آدھا اٹھا کے اپنی پلیٹ میں رکھ لیتی ہیں پھر بیٹھ کے وہ دوتین آدھے آدھے ٹکڑے پر ساد سمجھ کے کھاجاتی ہیں (پرساد سمجھ کے، میں کہہ رہی ہوں۔) پیر فقیر تعویذ گنڈا کرتی گھومتی ہیں۔ تم مسلمان تو ہندوؤں کے سادھو سنتوں کے پاس جاتے نہیں۔ اماں تو سیدھی حضرت شاہ مینا کے یہاں پہنچتی ہیں۔ دلی گئی تھیں تو میری شادی سنجے سے ہوجائے، اس کے لیے حضرت نظام الدین منت مان کے آئی تھیں۔ ان کی رینج زیادہ وسیع ہے۔
ہم کچھ نہیں مانتے ہیں پھر بھی لگتا ہے کہ کہیں کچھ ہوا تو؟ ہم نے بھی منگل کو ہنومان مندر جانا شروع کردیا ہے۔ اس بار بیٹا ہوجائے تو فیملی مکمل ہوجائے گی۔ جھنجھٹ سے بچیں گے۔ ورنہ ایک بار پھر۔۔۔ بچے پل جائیں تو ہم بھی کچھ کریں۔ بڑا غصہ آتا ہے۔ اماں نے ماسٹرز کی ڈگری لی لیکن ہمیں بی اے کا امتحان دینے سے پہلے بیاہ دیا کہ بڑے گھر کا انجینئر لڑکا مل رہا تھا۔ ہم ایسے گئے گزرے تھے۔ پھر نہ ملتا کیا۔ مگر چل ٹھیک ہی ہے جو ہو رہا ہے۔ دوچار سال بعد ضرور ہم کچھ کریں گے۔ جاتیرا کلیان ہو۔ تجھے نوکری مل جائے۔ بول تو جاکے ہم ہنومان جی سے تیرے لیے بھی پرارتھنا کرآئیں۔ مگر بڑی مشکل ہوجائے گی اگر قمر چاچی نے حضرت شاہ مینا کے یہاں جاکے دھاگہ باندھ دیا۔ ہندوستان پاکستان والیTussle ہوجائے گی۔ ہاہاہا۔ اور ہاں، بغیر ٹھوکے بجائے شادی کے لیے ہاں مت کیجئو۔ ایسی قسمت کم ہوتی ہے کہ سنجے جیسا میمنہ مل جائے۔ (ویسے ماں جی آئی ہوئی ہوتی ہیں تو وہ بھی خاصہ شیر بنارہتا ہے۔)
قمر نے بیٹی کو لکھا، ’’بیٹا، ہرچیز کا وقت ہوتاہے۔ تعلیم ہوگئی۔ نوکری کہیں نہیں جائے گی۔ تم تو پریکٹس بھی کرسکتی ہو۔ لکھنؤ میں اچھے اچھے وکیل پاپاکی جان پہچان میں ہیں۔ اب شادی ہونی چاہئے، رشتے سامنے ہیں۔ ایک خوشگوار، ازدواجی زندگی سے زیادہ سکون بخش اور کچھ نہیں۔ دھن دولت سے بھی زیادہ دل کا سکون اہم ہے۔ ساری تحقیقیں سارے سروے اسی مغرب سے آتے ہیں جس کی تعلیم سے تم متاثر ہو۔ تو تم نے پڑھاہی ہوگا کہ کئی سروے ہوئے ہیں اور نتیجہ یہی سامنے آیا ہے کہ کنوارے، طلاق شدہ اور رنڈوے شادی شدہ لوگوں کی بہ نسبت کم عمر پاتے ہیں۔ کبھی سوچا کہ کیوں؟ اس لیے کہ جوڑا بناکر رہنے میں جو طمانیت قلب ملتی ہے وہ عمر تک بڑھادیتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے جھگڑے، اونچ نیچ، سب کے باوجود۔ تو بیٹا گھر آجاؤ۔ ہم نے سوچا تھا ہماری شادی دیر سے ہوئی ہم بیٹی کی شادی وقت سے کریں گے۔ تم ہم سے زیادہ Privileged Position پر ہو۔ دیر تم خود کرا رہی ہو۔ ایک تو تمہاری یہ وکالت۔۔۔‘‘
رضوانہ نے یہاں تک پڑھ کر خط اٹھاکر کتاب تلے دبادیا۔ کتنا بولتی ہوممی۔ کتنا دماغ چاٹتی ہو۔ انٹرویو ہوچکا تھا اور نہایت تشفی بخش۔ اس نے انگڑائی لی اور میرا کو پھر خط لکھنے بیٹھ گئی۔
’’مما ادھ کچری معلومات لے کر میرا دماغ خراب کرتی رہتی ہیں۔ ان سے کوئی پوچھے ان کی ازدواجی زندگی کتنی خوشگوار گزری؟ وہ خوشگوار کسے کہتی ہیں؟ مجھے دل کے لائق لڑکا ملا تو کیا شادی نہیں کروں گی؟ بمبئی جانے اور مردوں کے بیچ مردوں والی نوکری کرنے کو وہ وومنزلب قرار دے رہی ہیں۔ میں کیا بمبئی کے ساحل پر ننگی ہوکر دوڑلگانے والی ہوں۔ میرا ارادہ اپنی برا جلانے کابھی قطعی نہیں ہے۔ برا سے سپورٹ پاکر فگر اور خوبصورت ہوجاتا اور سکسی لگتا ہے، مما سے کہوں؟ ہارٹ اٹیک ہوجائے گا۔ ہاہاہا۔ اور مما کوایک بات سے اور ہارٹ اٹیک ہوجائے گا۔ میں سمیر کے ساتھ پکچر دیکھنے گئی تھی۔
سمیر نام مسلمانوں میں بھی ہوتا ہے لیکن وہ تیرا جات بھائی ہے، ہندو تو ہے ہی، برہمن بھی ہے۔ مزید ہا ہاہا۔ لیکن تو بھی ایسی ویسی بات نہ سوچنا۔ میرا ارادہ تیری بھابی بننے کاقطعی نہیں ہے۔ مما کی سمجھ میں کسی لڑکے اور لڑکی کی ایسی دوستی ہرگز نہیں آئے گی جس میں وہ۔۔۔ ارے وہی۔۔۔ مرد عورت والامعاملہ نہ ہو۔ سمیر اور میں اچھے دوست ہیں۔ ویسے وہ بھی کہہ رہا تھا کہ ماں کو فون کرکے کہہ دوں کہ رضوانہ کے ساتھ ایک بے ہودہ سی انگریزی فلم دیکھ کر آیا ہوں تو واویلا مچاکے رکھ دیں گی۔ لونڈیوں کے ساتھ گھومنا ہوتا ہے وہ بھی میاں مسلمان۔ وہ ویجٹیرین ہیں۔ کرم کانڈی سناتن دھرمی۔ بسنت کی خبر نہیں۔ بیٹا ایک بار اشوکا میں جاکے بیف کھاکے آیا تھا۔ ایک نمبرحرامی۔ اور ہاں انہوں نے الہ آباد سے ہندی میں آنرز کیا ہے۔ مہادیوی ورماکی فین ہیں۔ ارے یار یہ مہادیوی ورما کون ہیں؟ ذرا میں بھی پڑھ کے دیکھوں۔ کبھی ملاقات ہوئی تو کامن ٹاپک تو ہوگا بات کرنے کو۔ ارے جاہل کی بچی۔ بچے کی جنس تو حمل ٹھہرتے ہی طے ہوجاتی ہے۔ اب یہ تو ہنومان جی سے کیا پرارتھنا کرتی گھوم رہی ہے۔ وہ کیا کریں گے؟ لنگوٹ دھاری، برہمچاری، انہیں کیا، تو بیٹی جن کہ بیٹا۔‘‘
میرا نے جواب میں لکھا، ’’سمیر وہی نہ جو ابھی یوپی ایس سی کی تیاری کر رہاہے۔ تو اس کا نام پہلے بھی لے چکی ہے۔ ہونے والی ساس کے بارے میں خاصی معلومات اکٹھا کر رکھی ہیں۔ اچھی بہو بنے گی۔ زیادہ وقت نہیں ہوگی۔ بیٹی لانا آسان ہوتا ہے بیٹی دینا مشکل۔ سبھی جات، برادریوں میں یہی فنڈا ہے۔ قمر چاچی اور انیس چاچا کو زیادہ وقت ہوجائے گی یہ سوچ کے رہنا۔ سمیر کی اماں تیرے منہ میں پنچا مرت ڈال کے شدھی کرائیں گی۔ ذرادھیان رکھنا گوبر اور گوموتر بھی پنچامرت میں آتے ہیں اور مہادیوی ورماکو تو کیا سمجھے گی، انہیں تو میں بھی نہ سمجھ پائی ہاں اپنی ہم نام میرا کو جانتی ہوں۔۔۔ جو ایسا جانتی پریت کیے دکھ ہوئے، نگر ڈھنڈورا پھیرتی مت پریت کرو کوئے۔‘‘
’’تیری توایسی کی تیسی۔‘‘ رضوانہ نے ہنس کر خط تہہ کرکے چائے کے کپ سے دباکر میز پر رکھ دیا۔ وہ انٹرویو میں کامیاب رہی تھی۔ فرم نے جواب دیا تھا کہ تھرڈ ائر مکمل ہونے کے بعد وہ وہاں آکر جوائن کرسکتی ہے۔ وہ بے حد خوش، کامیابی کے نشے میں سرشار علی گڑھ واپس آئی تھی اور تندہی سے پڑھائی میں جٹ گئی تھی۔ میرا بائی تما رے وقت میں لڑکیاں وکالت نہیں پڑھاکرتی تھیں ورنہ زہر بھیجنے والے رانا جی کا گلا دبادیتیں۔ تمہیں عشق حقیقی پریشان کرتا نہ عشق مجازی۔ مزے سے ہماری طرح دندناتی پھرتیں کہ ہم صرف اپنے آپ سے عشق کرتے ہیں۔ ارے ذرا رکو تو۔ ہاں تھوڑا مما سے، ذرا سا پاپا سے، تھوڑا سا اس عمرانہ کی بچی سے اور ایک پاؤ بچا کے رکھا ہے اس میں نانی دادی اور میرا کا حصہ ہے اور اس بے ہودہ سمیر کا بھی مگر ابھی ہمیں ایسا عشق کسی سے نہیں ہے کہ ہم کہیں پریت کیے دکھ ہوئے۔ اس نے خوشی سے کلکاری مار کر بستر پر ایک لوٹ لگائی اور قانون کی موٹی سی کتاب تھپ سے بند کی جو وہ دیر سے پڑھ رہی تھی۔
اس دن قمر سارے دن اتنا پریشان رہی تھی کہ شام کو اسے سردرد کی گولی کھانی پڑی۔ انیس آفس سے ابھی نہیں آیا تھا۔ اس نے چائے کے برتن ٹرے میں لگائے، ناشتے کا انتظام کیا اور اون سلائیا ں اٹھاکر آرام کرسی پرنیم دراز ہوگئی۔ انیس کا سوئٹر نصف مکمل ہوچکا تھا۔ جاڑوں کی آمد آمد تھی۔ فضا میں بڑی پیاری سی خنکی تھی اور گلابی جاڑوں کی خوشبو۔
جاڑوں کااگر رنگ ہوسکتا ہے تو یقیناً ان کی خوشبو بھی ہوسکتی ہے۔ وہ ذہنی پراگندگی کے باوجود مسکرا پڑی۔ ہاں خوشبو ہوتی تو ہے۔ ہرے دھنیے کی، تازہ ہری سبزیوں کی جو گرمیوں میں عنقا ہوجاتی ہیں، رات بھر پک کر صبح صبح تیار ہونے والی نہاری کی، بھوبل میں بھنتی شکرقندیوں کی۔ اور رنگ و بو ہی نہیں۔ جاڑوں کی تو آواز بھی ہوتی ہے۔ کڑک کڑک کرکے دانتوں تلے ٹوٹتی گزک اور ریوڑیوں کی، مونگ پھلیوں اور چلغوزوں کی، گہراتی شام میں دور بجتے کسی درد بھرے نغمے کی، ٹھنڈی یخ راتوں میں سرسر کرکے آتی ہوا کی اور بزرگوں کی شفقت بھری ڈانٹ کی کہ سرڈھکو، سرسے ٹھنڈ زیادہ اثر کرتی ہے اور اس پر بچوں اور نوجوانوں کی ہی ہی ٹھی ٹھی کی کہ کہاں کی ٹھنڈ کون سی ٹھنڈ۔
اس کا دل یکلخت ایک بے وجہ اداسی سے بھر اٹھا۔ جاڑوں کا رنگ گلابی تھا لیکن آس پاس آوازیں نہیں تھیں۔ آوازیں تو انسانوں سے ہوتی ہیں۔ وہ قلقل مینا جیسی ہنسی کہاں تھی، دادی کی کہانیاں کہاں تھیں، ان کی حماقت بھری باتوں اور کبھی کبھی کی بے جا ڈانٹ کے باوجود ان کے سایہ دار وجود کا احساس کہاں تھا؟ بچے کہاں تھے اور جوان کہاں غائب ہوگئے تھے؟
انیس کے کبھی کبھار آنکلنے والے والدین اب زیادہ بوڑھے ہوکر گاؤں میں ہی محدود ہوکر رہ گئے تھے۔ ابا کا انتقال ہوچکاتھا۔ اماں کو تو بیٹی کے یہاں کا پانی پینا بھی گوارا نہیں تھا۔ ایک دوبار دوچار روز کے لیے آئی تھیں کہ عزیز ازجان بیٹی کو گھر شوہر اور بچوں کے ساتھ خوش دیکھ لیں۔ دیکھ لیا۔ بس اب ملنا ہے تو قمر جاکے مل آئے وہ تو بیٹوں تک کے گھر جاکے رہنے کو تیار نہیں تھیں۔ بس زچگی جاپے نمٹادیتیں، ہفتہ دس دن یوں بھی جاکے رہ آتیں کہ بیٹوں کے یہاں بار بار جانے یا ہفتہ دس دن رہ آنے میں کوئی قباحت نہیں تھی۔ کس سے کہے اور کیا کہے۔ رضوانہ نے بے حد سمجھانے اور باپ کے ناراض ہونے کے باوجود بمبئی جاکر ملازمت کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ ویسے انیس کے زیادہ ناراض ہونے پر اس نے یہ وعدہ ضرور کیا تھا کہ وہ کوشش کرے گی کہ بمبئی چھوڑ کر دہلی یا پھر (بادل نخواستہ) لکھنؤ آجائے لیکن فی الحال تو جوائن کرنا ہی ہے۔
کسی دوست کی معرفت ایک کنبے میں پیئنگ گیسٹ بن کر رہنے کا انتظام بھی کرلیا تھا۔ یہ ایک پارسی کنبہ تھا۔ ادھیڑ سے کچھ آگے بڑھتی عمر کے والدین اور ان کی پانچ اولادیں جن میں دوجوان لڑکے تھے۔ قمر نے جس دوست کی معرفت کا ذکر کیا تھا وہ خود بھی لڑکا ہی تھا۔ سمیر اللہ جانے ہندو تھا کہ مسلمان۔ اب یہ نام ایسا دورخا ہے۔ کہ کچھ پتہ نہیں چل رہا کاش کوئی اچھا مسلمان لڑکا ہو۔ لڑکے کی معرفت اس مدد کی بات تو کی لیکن اس کانام قمرانیس سے چھپالے گئی تھی کہہ دیا رضوانہ کا خط کہیں گم ہوگیا ہے۔ یہ رضوانہ اتنی ضدی کیوں ہے؟ ضدی اور بدتمیز۔ کیا میری پرورش میں کہیں کوئی غلطی ہوئی ہے؟ سوچتے اور کرسی آگے پیچھے جھلاتے ہوئے قمر نے آنکھیں بند کرلیں۔
اماں میرے لیے بھی یہی کہتی تھیں کہ میں ضدی اور بدتمیز ہوں۔ شاید خود سے یہی سوال بھی کرتی ہوں گی کہ کیا ان کی پرورش میں کہیں کوئی غلطی ہوئی تھی۔ میں نے بی ایڈ کرنے کی ضد کی تھی۔ بی اے کے بعد گھر بیٹھے رہنے سے انکار کیا تھا۔ بال کٹوادیے تھے۔ ایک موٹے لڑکے سے جو اماں ابا کے حساب سے باقی اور پہلوؤں سے ’صحیح‘ میچ تھا شادی سے انکار کیا تھا، شلوار کی موہریاں تنگ کی تھیں اور قمیص کا گھیر کم کرکے آستین اڑادی تھیں اور ٹیڈی تو نہیں لیکن لگ بھگ ٹیڈی لباس پہنا تھا۔
قمر یکلخت ہنس پڑی۔ ایک بار وہ چھٹیوں میں گھر آئی تو اس نے جھاڑ پونچھ کر سلائی مشین نکالی۔ تیل ڈال کر اسے دن بھر کو چھوڑ دیا۔ اماں خوش ہوئیں کہ بیٹی کچھ سلائی پرائی کرنے جارہی ہے۔ کافی دن سے کہہ رہی تھیں کہ بھائیوں کے لیے پاجامے سی دے لیکن دوسرے دن قمر قینچی اور اپنے کئی جوڑے لے کر بیٹھی تو بڑی ٹیڑھی ٹیڑھی نظروں سے اماں نے اسے دیکھا۔
’’اوئی بیوی کیا کرنے جارہی ہو؟ میں تو سمجھی نیا کچھ سینا ہے۔‘‘
’’اماں ہمارے کپڑے بڑے جھولا جیسے ہیں شلوار کے پائنچے اتنے چوڑے نہیں پہنے جارہے ہیں۔ ہمیں بڑی خفت ہوتی ہے قمیصیں بھی اتنی لانبی چوڑی نہیں رہ گئیں۔‘‘
’’تو؟‘‘
’’تو کیااماں۔ کاٹ کے شلوار کی موہریاں ذرا کم کردیں گے اور قمیصوں کو بھی چھانٹ دیں گے اور اماں اب ہم دوجوڑے کپڑے الہ آباد میں درزی سے سلوائیں گے۔ تم ہمارے کپڑے سیتی ہو یا ہم خود سیتے ہیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ گھر کے سلے ہوئے ہیں، فٹنگ کا نام نہیں۔‘‘
’’جو جی چاہے کرو، بس آپے میں رہنا۔ لباس میں ننگاپن نہ آئے ورنہ ہم سے برا کوئی نہ ہوگا۔‘‘
قمر نے غصے میں قینچی پٹخی، ’’ہر چیز میں الٹا ہی سوچتی ہو۔ اب ننگاپن کہاں سے آگیاَ‘‘
’’ہاں دیکھانہ ننگاپن۔ سنا بغیر آستینوں کی قمیصیں پہنی جارہی ہیں اور ساڑی کے بلاوز بھی۔‘‘
قمر غصہ بھول کر سناٹے میں آگئی۔ ایک قمیص کی آستین اس نے بھی اڑادی تھیں۔ اچھی طرح چھپاکر رکھنا ہوگا۔ یہاں پہننے کا تو سوال نہیں لیکن بھنک نہ لگے کہ الہ آباد میں پہن رہی ہے۔ کونووکیشن کے موقع پرایک سہیلی سے مانگ کر لپ اسٹک لگالی تھی اور اماں کے سامنے اس کا ذکر کردیا تھا کہ سہیلیوں نے کہا قمر لپ اسٹک لگاکے بہت اچھی لگ رہی ہے تو اماں ہول گئیں کہ کنواری لڑکی اور لڑکوں کے بیچ میں ہونٹوں میں لالی لگاکے گھومی۔
ہم نہ جانے کتنی باتوں سے نظریں چراتے رہے۔ لڑکیوں نے جینز پہننا شروع کی۔ انگریزی اسکولوں میں ویسے بھی یونیفارم اسکرٹ بلاوز ہی تھی، پلس ٹو تک اٹھارہ برس کی لڑکیاں اسکرٹ بلاؤز پہن کر جاتی رہیں۔ لڑکیاں لڑکوں سے گھل مل کر بات کرتی تھیں لیکن ہم نے ہائے ہائے نہیں مچائی۔ اب تو لڑکے لڑکی کا فرق ہی مٹ گیا ہے۔ ایک ہم تھے۔ بغل میں لڑکا آکے بیٹھ گیا تو جلدی سے سمٹ گئے۔ معلوم ہو کہ کھاہی تو جائے گا۔ اب لونڈوں سے ابے تبے کرکے باتیں ہو رہی ہیں۔ ہم سمجھتے تھے اماں کم پڑھی لکھی ہیں، ہم پڑھ لکھ گئے ہیں۔ انہیں چھوٹی چھوٹی باتوں سے پروبلم ہوجاتا ہے مگر ہمارے لیے جو چھوٹی چھوٹی باتیں تھیں وہ اماں کے لیے بڑی تھیں اور جو باتیں آج ہمیں بڑی لگ رہی ہیں وہ ہماری بیٹیوں کے لیے چھوٹی ہیں۔
رضوانہ کہتی ہے دلی اور لکھنؤ میں فاصلہ ہے ہی کتنا اور ممی ہم دولڑکیوں کے ساتھ فلیٹ لے کے رہ رہے ہیں۔ ذرا پیسے آجائیں پھر موبائل لے لیں گے جب چاہنا بات کرلینا، اتنا ہولتی کیوں ہو؟ ہولیں کیوں نہیں۔ دلی۔ پھر وہی Big bad metro۔ رضوانہ کے فائنل امتحان ختم ہونے اور بمبئی جاکر ملازمت جوائن کرنے کے درمیان کوئی پندرہ بیس دن کاوقفہ تھا۔ لڑکی اس وقفے میں گھر آرہی تھی ایک آخری کوشش کرلی جائے گی۔ ارے بھائی وکالت پڑھ لی اب کچھ دن گھر میں رہ لو۔ یہیں پریکٹس کرلینا۔ کسی وکیل سے اٹیچ ہوجانا۔ اگرچہ یہ وکالت کی پریکٹس نہایت گڑبڑمعاملہ تھا پھر بھی (بمبئی) جاکر اکیلے رہ کر کسی لاء فرم میں نوکری کرنے کے مقابلے میں تو بہت بہتر تھا۔
چائے کی پیالی قمر کے ہاتھ میں کانپنے لگی۔ کیا رضوانہ سنے گی؟ کیا اپنے کیرئیر کے مقابلے میں والدین کے جذبات اور ایک ایسا مستقبل جس میں شادی ازحد ضروری ہو اسے منظور ہوگا؟
ماں کی طویل گفتگو رضوانہ نے خاموشی اور صبر کے ساتھ سنی۔ اتنے صبر سے کہ قمر کو حیرت ہونے لگی کہ یہ وہی رضوانہ ہے۔ ذرا کی ذرا خیال آیا کہ اس کی طبیعت تو خراب نہیں؟ شاید سست ہو رہی ہے۔ وہ نہ کسی پر جھنجھلائی نہ جواب دیا۔ اطمینان سے ناخن گھس کر، ہاتھ پھیلاکر، مخروطی نازک انگلیاں تکتی رہی، جب قمر خاموش ہوگئی تو اس نے نظریں اٹھاکر ماں کو دیکھا اور بڑی سنجیدگی سے کہا، ’’مما، تمہاری یہ اس ریکارڈ پر اٹکی سوئی جگہ سے کبھی ہٹے گی یا نہیں؟‘‘ اور خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ کچھ دیر بعد باہر نکل کر اس نے اعلان کیا، ’’ہم جارہے ہیں میرا سے ملنے۔ دوپہر کا کھانا اس کے ساتھ کھائیں گے۔ مگر شام کے لیے کچھ انتظام کرکے مت رکھنا آج پورا ڈنر ہم بنائیں گے۔ آج تم آرام کرلو۔ خدا حافظ۔‘‘ اس نے ماں کے جواب کا انتظار بھی نہیں کیا۔ پرس جھلاتی باہر نکل گئی۔
میرا انتظار ہی کر رہی تھی۔ دوڑکر لپٹ گئی۔ اچانک رضوانہ بڑی زور سے چونکی۔
’’اری میرا، تیرا تو ساتواں یا آٹھواں مہینہ ختم ہونے پر ہونا چاہیے تھا۔ کیا ہوا؟ یہ۔ یہ۔۔۔‘‘ اس نے بڑی پریشانی کے ساتھ میرا کے پیٹ کی طرف اشارہ کیا۔
’’صبر، رضوانہ، ذراصبر‘‘ میرا نے ہاتھ اٹھاکر کہا، ’’سب خیریت ہے۔ ذرا دم لے لے اور بیٹھ۔‘‘ رضوانہ بیٹھ گئی۔ اس کا چہرہ متردد تھا۔
’’تین مہینے ہوئے کہ میں نے ایم ٹی پی کرادی۔ چوتھا مہینہ تھا۔‘‘
’’ایم ٹی پی کرادی، کیا مطلب؟‘‘ رضوانہ نے مزید پریشان ہوکر پوچھا۔
’’الٹراساؤنڈ کرایا تھا۔ بیٹی تھی۔‘‘
’’تیرا دماغ خراب ہوگیا تھا کیا ری میرا؟‘‘ رضوانہ سکتے کی کیفیت میں تھی۔
’’ساس اور سنجے دونوں کا دباؤ تھا۔‘‘
’’اور تو دباؤ میں آگئی؟ پڑھ لکھ کر گدھے پر لاد دیا۔‘‘ رضوانہ بے حد خفاتھی۔
’’تجھ سے اچھی تو میری مما ہیں۔ ایک جنریشن پہلے انہوں نے دوبیٹیاں پیدا کرکے کہہ دیا کہ ٹھیک ہے بیٹیاں سہی لیکن اب اور نہیں۔ تو بھی تو یہ کرسکتی تھی۔ یا زیادہ سے زیادہ ایک تیسری بار ٹرائی کرلیتی۔‘‘
’’شاید قمر چاچی پر اتنا دباؤ نہیں پڑا تھا۔ تمہارے پاپا کا کوئی بزنس امپائر بھی نہیں تھا جس کے لیے لڑکے کی چاہ حد پار کرتی۔ اور پھر ہمارے یہاں یہ مکھاگنی والا چکر بھی تو ہے۔ منہ میں آگ نہیں دی تو موکش نہیں ملے گا۔‘‘
’’اور اگلی بار بھی کوکھ میں بیٹی آئی تو؟‘‘
’’دیکھتی ہوں کتنی بار ابارشن کرائیں گے۔ ایک بار کے لیے اور رضامند ہوجاؤں گی اور وہ آخری بار ہوگا۔ پھر بھی بیٹی ہو تو ہو۔‘‘
’’ایک بار اور؟ میرا تیری تو امیج خراب ہو رہی ہے۔ میں تو تجھے بڑا آئیڈیل مانتی تھی۔‘‘ میرا ہنسی۔ ’’اس’اہیروا‘ کے Fiasco کے بعد بھی؟‘‘
’’وہ بات اور تھی۔ تو نے خود ہی سمجھ لیا تھا کہ اس ’اہر وا‘ کے ساتھ تیرا کوئی فیوچر نہیں ہے۔ پھر گھروالوں کو کیوں ناراض کیا جائے۔ گھوم پھر کے تفریح کرکے واپس آگئی تھی کھونٹ پر۔ سچ میرا، اگر تیری محبت سچی ہوتی تو تو اسے چھوڑنے والی نہیں تھی۔‘‘
ایک زمانہ تھامیرا کو چار گھرآگے والے پڑوسی کا بیٹا بہت پسند ہوا کرتا تھا۔ رہی پڑوسی کے بیٹے کی بات تو وہ تو یہاں تک کہہ رہاتھا کہ میرا تیار ہو تو وہ خاموشی سے نکال لے جائے گا۔ پھر شادی کرکے آکے بڑوں کے پیر چھولیں گے۔ لیکن میرا کومعلوم تھا لڑکا یادو تھا۔ ان کے گھر میں اماں کے حساب سے کوئی بھی بات گڑبڑہوتی تو اماں پھٹ سے کہتی تھیں ہیں نہ اہر، بھینس چرانے والے۔ تمیز کہاں سے آئے گی۔ افسر بن گئے تو کیا۔ اوردے گورنمنٹ ریزرویشن۔ نااہل آن آن کے کرسی پہ بیٹھ رہے ہیں۔ اور تو اور ایک بار ٹرین بہت لیٹ ہوگئی تو اماں نے کہا کہ یہ کم ذات نیچ ذات بڑے عہدوں پر چڑھے بیٹھے ہیں، ہرمحکمے کا بھٹہ نہ بیٹھے تو کیا ہو۔ کوئی کھٹک کوئی اہیر ریل ہانک رہا ہوگا۔ اب چلا رہاہے اسے بھینسا گاڑی کی طرح۔ میرا ناراض ہونے کے باوجود ہنسی کے مارے لوٹ گئی تھی۔ تصور کیا کہ ریل کے آگے بھینس جتی ہوئی ہے۔ ارے یہاں تو ملک کے آگے ہی بھینس جتی ہوئی ہے۔ چل رہا ہے ہچر مچر۔
ان دنوں رضوانہ بڑی پریشان رہاکرتی تھی۔ جانے میرا پہ کیاری ایکشن ہو۔ لیکن میرا بہت جلدی سنبھل گئی تھی۔ کچھ گھروالوں کو بھی سمجھ میں آرہا تھا اس لیے اتنی تن دہی سے رشتہ لانے میں جٹے اور یوں پھٹ سے شادی طے کی کہ گریجویشن تک پورا نہیں ہونے دیا۔ میرا کو سوچنے سمجھنے کا موقعہ ہی نہیں ملا پھربھی خوش بھی رہی۔ شوہر اچھاملا تھا۔ گھر والے بھی ٹھیک تھے۔ لیکن ابھی جو حال میں میرا نے خط میں لکھا تھا کہ اپنی ہم نام میرا کو جانتی ہوں جو کہہ گئی تھی جو ایسا جانتی۔۔۔ تو رضوانہ کو کہیں کچھ کھٹکتا ہوا سا محسوس ہوا تھا۔
’’میرا سچ بتانا کیا تو سیریس تھی؟‘‘
’’پرانی بات ہوگئی چھوڑ اسے۔ وہ بتا، وہ میرا جات بھائی، وہ کہاں تک پہنچا؟‘‘ میرا نے بات پلٹ دی۔
’’مائی فٹ میرا۔ اب تو بھی۔‘‘ پھر وہ یکلخت خاموش ہوگئی۔
اسے ایک بار رنجنا سری واستو نے بتایا تھا کہ ان لوگوں کے حلقے میں ایک بڑا اسمارٹ سا مسلمان لڑکا تھا، سلمان قریشی۔ وہ کہہ رہاتھا یار مجھے رضوانہ بہت پسند ہے لیکن کیا کروں۔ She is Sameer’s gal رضوانہ بہت خفا ہوئی۔
پھر دو ایک بار وہ سمیر کے گھر جانکلی تھی تو اس کی ممی ملیں تو خندہ پیشانی سے لیکن بیٹے سے بولیں، ’’ذرا سنبھل کے چلنا۔ لڑکی مسلمان ہے اور گھر تک چلی آرہی ہے ہمیں تو گھبراہٹ ہو رہی ہے۔‘‘
’’کیوں اماں۔ آئی ایس آئی کی ایجنٹ لگ رہی ہے جو گھبراہٹ ہو رہی ہے۔‘‘
’’اوندھی کھوپڑی تیری، ارے بات آگے مت بڑھا۔ رشتہ توڑو تو دکھ ہووے، جوڑو تو جگ ہنسائی۔‘‘
’’اس رشتے سے آگے کچھ سوجھتا ہے اماں؟ ایک رشتہ دوستی کا بھی تو ہوتا ہے۔‘‘
’’لڑکے لڑکی میں کوئی دوستی نہیں ہوتی۔ سلام دعا سے آگے ہو رہاہے تو پھر وہی ہوتا ہے جو بھگوان نے گڑھا ہے۔ استری پرش کارشتہ۔ ہم کوئی جاہل جھپٹ نہیں ہیں۔ پڑھے لکھے ہیں۔‘‘
’’پڑھ لکھ کے گدھے پہ لاد دیا۔‘‘ سمیر منہ ہی منہ میں بھنبھنایا اور آکے پورے ڈائیلاگ رضوانہ کو سنائے۔ خوب ہی تو ہنسا، پھر چڑھانے کے لیے بولا، ’’تورِ جوانہ ڈارلنگ تو آگے کیوں نہ وہی رشتہ ہوجائے جو بھگوان نے گڑھا ہے استری پرش کا رشتہ۔‘‘ (سمیر کی ماں رضوانہ کو رجوانہ کہتی تھیں۔)
’’چپ کیوں ہوگئی؟‘‘ میرا نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں سوچ رہی تھی کہ سمیرکی ماں میں اور تجھ میں کیا فرق ہے۔ مردوں اور عورتوں کے درمیان افلاطونی دوستی کا تصور ابھی تک ہندوستان میں پیدا نہیں ہوسکا ہے۔‘‘ اس کے لہجے میں ناراضگی تھی۔
’’پاکستان اور بنگلہ دیش میں بھی نہیں۔‘‘ میرا مسکرائی۔ ’’میری ایک بنگلہ دیشی فرینڈ ہے۔۔۔‘‘ رضوانہ نے بات کاٹ دی۔
’’ایک ہی گھر میں لوگ رہ رہے ہوں اور دیواریں اٹھاکر آنگن بانٹ دو تو لوگ بدل جائیں گے کیا؟ سارا کچھ تو ایک ہی ہے۔ جب بات کرو اس میں پاکستان گھسادے گی، بنگلہ دیش کو لے آئے گی۔ بجرنگی ہوگئی ہے کیا یادرگا واہنی میں شامل ہوگئی ہے۔‘‘ رضوانہ اور زیادہ خفا ہوئی۔
بجرنگی پر میرا زور سے ہنسی، ’’کیا اب ہم پالیٹکس ڈسکس کریں گے؟‘‘
’’بالکل نہیں کریں گے اس لیے کہ ہم اتنے دن بعد اس کے لیے نہیں ملے ہیں۔ لیکن میرا اس بار میں نے پاکٹ منی سے بچابچاکے دو کھلونے خریدے تھے۔ میرا بیگ دیکھ۔ ایک تیری بیٹا کے لیے اور دوسرا ہونے والے بچے کے لیے۔ تیرا پیٹ دیکھ کر تو میں سناٹے میں آگئی۔ تو نے اس کی اطلاع بھی نہیں دی تھی۔ سچ بتانا میرا کوئی guilt feeling نہیں ہوئی؟ صدمہ نہیں ہوا؟‘‘
’’رضوانہ زخم مت کرید۔ ہم نے کچھ سوچ کر جیسے نیرج یادو کو چھوڑا تھا اسی طرح اس بچے کو بھی۔ اور بچہ کہنا نہیں چاہیے۔ وہ صرف ایک fetus تھا۔‘‘ پھر قدرے توقف کے بعد بولی، ’’تجھ سے تو بہت پرانا رشتہ ہے۔ تیری نانہال میں ہی تو ممی کے چاچا تھے جن کے یہاں چوتھی بیٹی ہوئی تو دادی نے شروع ہی سے دھمکی دینی شروع کی تھی کہ اگلی بار بیٹی ہوئی تو وہ چاچا کی دوسری شادی کرائیں گی۔ لیکن چلو ماما ہوگئے۔ ونئے ماما۔ چھٹی اولاد پھر بیٹی ہی ہوئی۔ دادی کااصرار تھا کہ کم از کم دوبیٹے ضرور ہوں۔ خیر چلو ایک تو آگیا تھا منہ میں آگ لگانے والا۔ اس لیے ممی کی چاچی بچ گئیں۔ اب میں تو پانچ اور چھ کی لائن لگانے سے رہی۔‘‘
رضوانہ ہنسی۔ ممی جب میکے کے قصے سناتی ہیں تو اس میں دو بہت دلچسپ کردار ہوتے ہیں ایک پگلی جمادارن اور ایک امیرن خالہ۔ کہاں کے لوگ کہاں مل جاتے ہیں۔ تیری ممی کی چاچی کو میری مما شکلائن چاچی کہا کرتی تھیں۔ ان کی چوتھی بٹیا پر پگلی جماداران نے بڑے تاسف کااظہار کیا تھا۔ میرا بھی ہنسی، ’’چوتھی بیٹی پیدا کرنے والی عورت ہے ہی اس لائق کہ مہترانی بھی اس پر ترس کھائے۔ 72میں ابارشن کو قانونی اس لیے بھی بنایا گیا کہ لوگ لڑکے کی چاہ میں لڑکیوں کی لائن لگاتے چلے جاتے ہیں۔‘‘
’’اور ہم اکیسویں صدی میں داخل ہونے والے ہیں۔‘‘ رضوانہ نے لقمہ دیا۔
’’مگر ہم جی رہے ہیں اٹھارہویں صدی میں۔ اسے نہ تم بدل سکتی ہو نہ میں۔‘‘
’’میں تو بدل لوں گی۔ تو شاید ڈرپوک ہے۔ تیری بیٹی بدلے گی۔‘‘ رضوانہ کے لہجے میں سرزنش تھی۔
میرا زور سے ہنسی، ’’تیری برادری تو اور بیک ورڈ ہے۔ ایک تو ہی bond بنی پھر رہی ہے۔ ہاں ابھی تیرے یہاں دلہنیں جلائی نہیں جارہیں اور ذات کو لے کے بھی اتنا رولا نہیں مچتا۔‘‘
’’ہاں دلہنیں جلائی نہیں جاتیں یکطرفہ طلاق دے کر گھر بھیج دی جاتی ہیں۔ کھڑے گھاٹ تین طلاق کو لے کے تم جتنی نکتہ چینی کرلو لیکن یہ فائدہ ضرور ہے کہ جان بخش دی جاتی ہے۔ اب اگر کسی لائق ہو تو کھاکمالو۔ زیادہ خوش قسمت ہو تو دوسرا بھی شاید مل جائے ورنہ اماں ابا پر بوجھ بنو، بھائی بھاوج کی چاکری کرو، جوتیاں بھی کھاؤ۔ رہی ذات تو اشرافیہ کی چار ذاتوں سید، شیخ، مغل پٹھان پر اتنا رولا نہیں مچتا۔ سید کی بیٹی جولاہا گھر لاکے دیکھے تو سہی۔‘‘
’’پھر بھی ذات کو لے کر honour killing نہیں ہے جلاکر ماردینے سے تو یہ option بہتر لگتا ہے۔ عورت جاہل ہوئی تو جھاڑو برتن کرے گی۔ مری نہیں تو کسی طرح جی لے گی۔ زندگی ہر حال میں موت سے اچھی لگتی ہے۔‘‘
’’لوگ خودکشی بھی تو کرتے ہیں؟‘‘
’’کٹھ حجت وکیلنی۔ خوب اچھی طرح جانتی ہے کہ ویسا extreme حالات میں کبھی کبھی ہی ہوتا ہے اور یہ لوگ نارمل نہیں رہ جاتے جو اپنی جان لے لیتے ہیں۔ سمیرخودکشی کی دھمکی دے رہاہے کیا؟‘‘ اس نے خفاہوکر کہا۔ رضوانہ قہقہہ مار کے ہنسی، ’’مما جاننا چاہ رہی تھیں کہ وہ مسلمان ہے کہ ہندو۔ ہم صفا ٹال گئے اس لیے نہیں کہ ہندو کہنے پر ہمیں کوئی جھجک تھی مگر مما کا سسپنس قائم رکھنے میں بڑا مزا آرہا ہے۔‘‘
’’رہی بدتمیز کی بدتمیز۔ بے چاری قمر چاچی۔‘‘
’’ارے ہم تو بہت شریف ہیں۔ بالکل مما بلکہ نانی کی جنریشن سے تعلق رکھتے ہیں۔ اصل تو وہ عمرانہ بم پھوڑنے والی ہے۔ وہ انوراگ کا معاملہ ذرا سیرئیس ہوتا جارہا ہے۔‘‘
میرا کھانا لگوانے کے لیے اٹھنے لگی تھی۔ اس نے چلتے چلتے ذرا زور سے کہا، ’’ہمیں بھی کچھ ایسا ہی لگ رہا تھا۔ جب پچھلی بار عمو سے ملے تھے تو اس کے پاس انوراگ کے علاوہ کوئی ٹاپک ہی نہیں تھا۔ عزیز کے یہاں سے مٹن دوپیازہ منگوالیا ہے اور مٹرپلاؤ خود بنایا ہے۔ چلے گا؟‘‘
’’دوڑے گا، دوڑے گا۔‘‘
میرا کھانے کی بہت شوقین تھی۔ اس کے اپنے گھر میں لوگ ویجیٹرین تھے لیکن سسرال میں مرد گوشت کھاتے تھے۔ شادی سے پہلے میرا چکھ چکی تھی لیکن گھر میں کسی سے بتایا نہیں تھا۔ وہ جب بھی قمر چاچی کے یہاں آتی اور بریانی پکی ہوتی تو گوشت کی بوٹیاں ہٹاکر چاول لے کر کھایا کرتی تھی۔ پھر ایک دن دھیرے سے اس نے ایک چھوٹا سا ٹکڑا مٹن کا بھی لیا۔ بھر پیٹ بریانی کھاکر بولی، ’’چاچی پتہ نہیں یہ ویجیٹرین ازم کہاں سے آگیا۔ اب دیکھو نہ اتنی مزیدار چیز سے اتنے لوگ محروم ہیں۔ ہماری اماں تو پریشان رہتی ہیں کہ ہم آپ کے یہاں ہر وقت بیٹھے رہتے ہیں ضرور گوشت کھاکے آئیں گے۔ آریہ تو گوشت کھایا کرتے تھے۔‘‘
’’آریہ تو پتہ نہیں کیا کیا کھاتے تھے لیکن تو تو چپ ہی رہ۔‘‘ قمر ہنس پڑی۔
’’ہمارا مطلب یہ چاچی کہ یہ ساری food habits ہیں ان کا دھر م سے کیا لینا دینا ہے۔ اگر ہے تو انسانوں نے ہی جوڑا ہے۔‘‘
’’تجھے گوشت کھانا ہے تو کھا بکرے کیوں گن رہی ہے۔‘‘
رضوانہ گرمی کی چھٹی میں گھر آئی ہوئی تھی۔ میرا کی شادی طے ہوچکی تھی۔ وہ دونوں کافی وقت ساتھ گزار رہی تھیں۔ گھوم گھوم کر خریداری کر رہی تھیں۔
’’چاچی۔ اماں کے سامنے بول مت دیجیے گا کہ ہم یہاں آکے بریانی اڑاتے ہیں۔‘‘
دراصل دوستی لڑکیوں میں ہی زیادہ تھی۔ قمر کانانہال اور میرا کی ماں کا دادیہال ایک ہی شہر میں تھا۔ شکلاین کو اماں جانتی تھیں۔ ابو اور شکلاجی میں جان پہچان تھی لیکن خواتین میں آنا جانا بہت کم تھا اب یہاں لکھنؤ میں لڑکیوں میں اتنی دانت کاٹی دوستی ہوگئی تھی۔ میرا کی شادی بہت جلدی طے کردی گئی تھی۔ ویسے قمر کا خیال تھا کہ اچھا ہی ہے۔ رضوانہ کی وجہ سے وہ پریشان رہ رہی تھی۔ انہیں بھی ناتھ دیا جاتا تو اچھاتھا۔
’’ایک تو تمہاری اماں سے ملاقات ہی چھٹے چھ ماہے ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ کسی چوری میں دولوگ شریک ہوں تو دونوں ڈرے رہتے ہیں کون کس کا راز کھولے گا؟‘‘
’’آپ چور کہاں سے ہوگئیں؟‘‘ میرا قہقہہ مار کر ہنس پڑی
’’کیوں۔۔۔ ہمارے اوپر تمہارا دھرم بھرشٹ کرنے کا الزام نہیں لگے گا؟‘‘
’’ہم نے آپ کی پتیلی سے چراکر بریانی کھائی۔ آپ تو منع کرتی ہی تھیں۔‘‘ وہ پھر ہنسی۔
میرا کا مزاج ہی ایسا تھا۔ قمر اسے قلقل مینا کہا کرتی تھی۔ ہنستی ہے تو لگتا ہے چاندی کی تھالی پر چاندی کے کنچے لڑھک رہے ہیں۔ صبح صبح گومتی کے کنارے ہنومان مندر میں پوجا آرتی ہوتی ہے اور دور سے گھنٹوں کی آواز آتی ہے تو لگتا ہے میرا ہنس رہی ہے۔
’’قمرچاچی!‘‘
’’ہاں بولو بیٹا۔‘‘ قمر کے لہجے میں اتنی محبت تھی کہ رضوانہ جل بھن گئی۔
’’مما، کبھی ہم سے بھی ایسا میٹھا بول لیا کرو۔‘‘
’’تم میرا کی طرح تمیزدار بن جاؤ۔‘‘
’’قمر چاچی۔ ابھی تو ہم قطعی تمیز کی بات نہیں کر رہے۔ ہم آپ کو بتارہے ہیں کہ ہمیں لفظ چور نہایت فنی (Funny) لگتا ہے، بلاوجہ ہنسی آتی ہے۔ اور اگر یہ لفظ آپ کے حوالے سے استعمال کریں تب تو ہاہاہا۔۔۔‘‘ وہ اتنی زور سے ہنسی کہ انیس کمرے سے باہر آگیا۔
’’کیا ہو رہاہے لڑکیو!‘‘
میرا جلدی سے دبک گئی۔
’’نمستے چاچا۔‘‘ اس نے چہرہ سنجیدہ بنالیا اور اٹھ کر انیس کے پیر چھوئے۔ وہ واپس لوٹ گیا۔ تینوں خواتین خوش گپیوں میں مصروف ہیں۔ عمرانہ کے امتحان نہیں ہوئے تھے، وہ کمرے میں پڑھ رہی تھی۔ چلتے چلتے پلٹ کر بولا، ’’ذرا دھیرے سے ہنسو عمو پڑھ رہی ہے۔‘‘
میرا نے ہونٹ کاٹے۔ پھر دھیرے سے بولی، ’’چاچی۔ ہم بڑے خوش قسمت ہیں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ رضوانہ نے تیوریاں چڑھائیں۔‘‘ بی اے کرتے سے اٹھاکر شادی کردی جارہی ہے اور یہ خوش قسمت ہیں۔‘‘
’’بی اے تو ہم کرہی لیں گے۔ ایم اے بھی کریں گے۔ اس کے بعد بھاڑ بھی جھونکیں گے۔ فی الحال خوش قسمت اس لیے کہ ہماری سسرال میں گوشت کھایا جاتا ہے۔ مطلب مرد کھاتے ہیں۔ پلیٹ میں سے جھوٹن ہمیں بھی مل جایا کرے گی۔‘‘ وہ مسرور لہجے میں بولی۔
’’ہے ہے بچی، تو جھوٹن کیوں کھائے گی۔ بری باتیں منہ سے نہیں نکالتے۔‘‘ قمر نے خالص اپنی اماں کے انداز میں کہا۔
’’مما ڈونٹ بی سلی۔‘‘ رضوانہ نے کہا، ’’مما سارا مذاق چوپٹ کردیتی ہیں۔‘‘
’’مذاق نہیں۔ سلی تو ہے۔ ارے عورتیں گوشت نہیں کھاتیں تو پھر ہم چپکے سے پلیٹ سے اٹھاکر ہی کھاسکیں گے نا۔ ہاں ساتھ میں چوک جاکے ٹنڈے کے کباب اڑا آئیں یا کسی ہوٹل میں کھالیں وہ الگ بات ہے۔‘‘ قمر نے کہا۔
’’بہت سے گھروں میں عورتیں گوشت نہیں کھاتیں۔ مرد کھاتے ہیں۔‘‘
’’مگر عورتوں کو ان کے لیے بنانا پڑجاتا ہے۔ ہماری ایک دوست کی چاچی ناک پر کپڑا رکھ کے ڈوئی کے ڈنڈے سے گوشت دھوتی تھیں اور بناکر رسوئی سے ہٹ جاتی تھیں۔ ان کے ہسبینڈ کو رات کے کھانے میں تو چاہئے ہی چاہئے۔‘‘
’’لیکن میری ایک کائستھ دوست کہہ رہی تھیں کہ ان کے خاندان میں سہاگن عورتوں کو تھوڑا سا گوشت ضرور کھانا ہوتا تھا۔ ہفتے میں کوئی دو دن۔‘‘
’’سہاگن کو کیوں بیوہ کو کیوں نہیں اور کنواری کو؟‘‘
’’کنواری کو بھی نہیں۔‘‘ قمر ہنسی۔
’’مگر کیوں؟‘‘ رضوانہ جھنجھلائی۔
’’میری مت ماری گئی جو میں تم لڑکیوں کے سامنے یہ بات لے بیٹھی۔ بات میں بات نکل گئی تم کٹھ حجتوں کے سامنے۔ ضروری نہیں ہر بات تم جانو۔‘‘
’’چل رضوانہ۔ میرے لیے چکن کی ساڑیاں لینی ہیں۔ چوک چلتے ہیں۔‘‘ میرا نے بات ختم کرتے ہوئے پرس ٹٹولا۔
’’ہاں پیسے رکھ لیے ہیں۔‘‘
دونوں خوش و خرم لڑکیاں اٹھ کھڑی ہوئیں۔ میرا کے بال بہت گھنے اور لانبے تھے۔ اٹھتے ہوئے اس نے گھنی لانبی چوٹی پیچھے پھینکی تو اس کا دلکش مسرور چہرہ قمر کے دل پر نقش ہوگیا۔ اللہ سب کی بیٹیوں کو خوش رکھے۔ کیسی معصوم بچی ہے۔ اور اللہ میری بیٹیوں کے لیے بھی جلد ہی ایسے لڑکے مہیا کردے کہ ہم خوشی خوشی ان کا بیاہ کردیں۔
میرا کے گھر والے خاصے پیسے والے تھے۔ پہلی بیٹی کی شادی کر رہے تھے اس لیے حیثیت سے بھی بڑھ کر خرچ کر رہے تھے۔ ان دنوں لڑکیوں میں ایک فیشن چل نکلا تھا کہ زیور نہیں پہنیں گی۔ ناک نہیں چھدوائیں گی۔ سندور ڈالیں گی تو چھپاکر مانگ کے اندر ایک ننھی سی بندی لیکن میرا آج کے فیشن میں نہیں بہی تھی۔ اسے یہ سب بہت پسند تھا، ’’شادی کے بعد تو ہم چھمک چھلو بن کر رہیں گے۔‘‘ وہ زیور ٹرائی کر رہی ہوتی تو کانوں کے جھومک ہلاتی ہاتھوں میں سونے کے کنگن بجاتی۔ تھرک تھرک کے سب دکھاتی اور پوچھتی، ’’یہ کیسا لگ رہا ہے۔‘‘ ساڑی کے پلو کو سر پر لیتی۔ کبھی کبھی گھونگھٹ بھی نکال لیتی۔ وہیں دوکان میں ہی ساری نوٹنکی ہوجاتی۔ عمرانہ کو جب موقعہ ملتا تھا وہ بھی ساتھ لگ لیتی تھی۔ میرا کا گھونگھٹ اور آگے کھینچ کر بہت بوڑھی آواز بناکر کہتی، ’’ذرا ٹھیک سے پردہ کرو بہو، سامنے سسر بیٹھے ہیں اماں نے کیا سکھاکے بھیجا ہے۔‘‘ سامنے سسر بیٹھے ہیں کہتے ہوئے ایک بار تو اس نے کہنی مار کر للو لال بمل کشور کی مشہور دوکان میں گدی پر بیٹھے ہوئے تھلتھلے سیٹھ جی کی طرف اشارہ کردیا تھا۔ میرا ہنستے ہنستے وہیں لوٹ گئی۔ ساتھ بیٹھی خریدار عورتیں پلٹ پلٹ کر اسے دیکھنے لگیں۔
للو لال بمل کشور والوں نے میرا کا شادی کا لہنگا راجستھان سے گوٹے کاکام کراکے منگایا۔ میرا نے ڈیزائن خود تیار کرکے اس کااسکیچ ان لوگوں کودیا تھا۔ جب جوڑا بن کے آیا تو فوراً ہی پہن کے بیٹھ گئی۔ پھر بھر ہاتھ چوڑیاں پہن کے کندن کا ٹیکہ لگاکے کمرے سے نکلی تو ماں نے ایک دو ہتھڑ اس کی پیٹھ پر مارا اور دوسرا اپنے ماتھے پر۔
’’اری بے شرم پہلے سے پہلے جوڑا چڑھا لیا۔ اپ شگن ہوتا ہے۔‘‘
میرا نے دوہتڑ کی قطعی پروانہ کی حالانکہ لگا زور سے تھا۔ ’’ارے ممی ہم ٹرائل لے رہے تھے۔ اور دیکھ رہے تھے دولہن بن کے کیسے چپنڈخ لگیں گے۔ ممی ایسا مردانہ ہاتھ ہے تمہارا۔ اچھا مارلو، مارلو۔ پھر ہم نندرانی مشرا کی بہوبن جائیں گے تب مار کے دیکھنا۔ بڑی دبنگ ساس ہیں ہماری۔‘‘
’’شبھ شبھ بول۔ یہ تجھ سے کس نے کہہ دیا کہ نندرانی مشرا بڑی دبنگ ہیں۔‘‘
’’ارے ہمیں سب خبر ہے۔ پوری ریسرچ کرلی ہے ہم نے۔ بڑی بہو کو تو جلانے کی کوشش بھی کرچکی ہیں۔‘‘
’’ہے ہے لڑکی۔ بھگوان سے ڈر۔ سچ ہے کلجگ آیا ہے۔ پہلے ساسیں بہوؤں پر دوش لگاتی تھیں اب بہوئیں۔‘‘ لیکن سچ بات تو یہ ہے کہ اس وقت میرا کی ممی دل ہی دل میں ڈر گئی تھیں۔ کہاں سے ایسا سن لیا لڑکی نے۔ ذرا پتہ لگائیں۔ لیکن ساری ریت رسمیں پوری کرکے سگائی تک ہوچکی تھی۔ انہوں نے ٹوہ لینی شروع کی۔ سگائی ہی تو ہوئی ہے۔ اگر خاندان میں ایسی کوئی افواہ بھی ہے تو میرا کے پاپا سے کہنا ہوگا۔ میرا دل ہی دل میں ہنس ہنس کر لوٹیں لگاتی رہی۔
رکھب داس کے یہاں کندن کا پورا سیٹ آرڈر کردیا گیا۔ کندن کے زیور میرا کو بہت پسند تھے۔ اس کی نانی نے اس کے لیے کشمیر سے شاہ توش کی شالیں منگوائیں۔ چاندی کا ڈنرسیٹ دیا گیا۔ رضوانہ کے گھر سے شادی میں سب لوگ شریک ہوئے۔
’’ارے دلہن بی بی ذرا شرم کرلو۔‘‘ میرا کے زیادہ چھم چھم کرنے پر رضوانہ نے مصنوعی خفگی سے آنکھیں نکال کر اسے کہنی ماری تھی۔
’’جل مت‘‘ اس نے گھونگھٹ اٹھاکر کہا، ’’تیری شادی جلدی ہی کرائیں گے۔‘‘ پاس کھڑا دولہا بھی ہنس پڑا۔ میرا کی کوئی بہن نہیں تھی، وہ اکلوتی لڑکی تھی۔ دولہا نے خوش دلی سے رضوانہ اور عمرانہ کو سالیاں تسلیم کرلیا۔ میرا کی ممی نے جوتا چرائی کی رقم میں میرا کی چاچا، ماما کی لڑکیوں کے ساتھ ان دونوں بہنوں کا برابر کا حصہ لگایا۔
رخصت ہوتے وقت میرا نے گھونگھٹ ذرا لمبا کھینچ لیا تھا اور قدرے جھکے شانوں کے ساتھ اس کے اندر منہ چھپاکے یوں کھی کھی کھی کھی کرتی ہل رہی تھی کہ لوگ سمجھے وہ رو رہی ہے۔ صرف رضوانہ کو بقول خود اس کے ’’یہ کمینہ پن معلوم تھا۔‘‘ بعد میں اس نے کہا تھا، ’’ارے کون سی رخصتی، کہاں کی رخصتی۔ ڈالی گنج سے اٹھ کے ڈالی باغ چلے آئے۔ سسرال والے بھی ڈر کے رہیں گے۔ بہو کو مائیکے بھاگنے میں پل بھر بھی نہ لگے گا۔ یہ بھی نہیں کہ اسٹیشن سے پکڑ کر واپس لے آئے۔ رونے کی بات ہی نہیں رہ گئی تھی۔ اورسن رضوانہ، جل مت جائیو۔ ہمارے سسرال والوں نے یاقوت کا سیٹ چڑھایا ہے۔‘‘
’’جلے ہماری جوتی۔‘‘ رضوانہ چڑھ گئی۔ ’’دیکھا نہیں تھا کیا بری پہ۔‘‘
بچی بہت جلدی ہوگئی تھی لیکن اس سے پہلے میرا نے بی اے مکمل کرلیا تھا۔ پھر کچھ دن کے لیے اس کی پڑھائی میں بریک لگ گیا۔ گرچہ سسرال والوں کا کہنا تھا کہ وہ اسے پڑھائی سے روک نہیں رہے ہیں۔ وہ خود ہی گھر گرہستی اور بچے میں لگ گئی ہے۔ سسر کا بہت بڑا پرنٹنگ پریس تھا۔ اس میں بھی ہاتھ بٹانے لگی تھی۔
’’اری میرا تو لکھنؤ جیسے شہر میں ہے۔ جوائنٹ فیملی میں رہ رہی ہے بچی کو ساس دیکھ لیں گی۔ آگے کی پڑھائی کرلے۔‘‘ رضوانہ کی دیکھا دیکھی یا ازخود میرا کو بھی قانون پڑھنے کا بڑا شوق تھا۔
’’ارے تو لاء کرلے نا۔ لکھنؤ میں تو ہے ہی۔‘‘
’’لاء اور میں؟‘‘ وہ زور سے ہنسی تھی۔ ابھی میں ایک کتاب پڑھ رہی تھی Plain Tales From British Raj اس میں لکھا تھا کہ سولہویں صدی کے وسط میں جب لڑکیاں جہاز میں بھر بھر کر شوہروں کی تلاش میں برٹش انڈیا آیا کرتی تھیں تو انہیں صرف دوباتیں سکھائی جاتی تھیں۔ چار چھ شام کو پہننے کے اچھے لباس رکھ لینا کہ دلکش نظر آؤ اور زیادہ عقلمند اور تیز طرار بننے کی کوشش مت کرنا اس لیے کہ مردوں کو زیادہ ذہین اور زیادہ تعلیم یافتہ بیویاں قطعی پسند نہیں ہیں۔‘‘ اس ایٹی ٹیوڈ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ میرے شوہر اور سسرال والوں کو بی اے سے زیادہ تعلیم یافتہ بہو کی قطعی ضرورت نہیں اور لاء ارے باپ رے۔۔۔‘‘ اس نے آنکھیں پھیلائیں۔ ’’وہ تو تو ہی کر کہ ابھی اونٹ پہاڑ تلے نہیں آیا ہے۔‘‘
’’ارے تو تجھے میوزک کا اتنا شوق تھا۔ سیکھ بھی چکی ہے، وہی جوائن کرلے۔ بھات کھنڈے سنگیت ودیالیہ موجود ہے۔‘‘
’’اور پھر چوک میں جاکے بیٹھ جاؤں امراؤجان ادا بن کے۔‘‘ میرا کا لہجہ تلخ ہواٹھا۔
رضوانہ ہکا بکا رہ گئی۔ میرا منہ پھٹ تھی اور الہڑ بھی جو منہ میں آئے بکتی رہتی تھی لیکن یہ ذرا کچھ زیاد ہ ہوگیا تھا۔
’’مر، جو جی چاہے کر۔‘‘ اب رضوانہ نے میرا جیسی پیاری، زندگی سے بھرپور لڑکی اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ ایک عزیز ترین سہیلی سے سچ مچ تو نہیں کہا تھا کہ مر۔
رضوانہ کو بمبئی کی اس لاء فرم میں کام کرتے کئی سال ہوچکے تھے۔ لوگوں کے پاس اب موبائل فون آگئے تھے۔ رضوانہ نے نمبر دیکھ کر کہا کتنی بار کہا مما سے کہ آفس کے اوقات میں فون نہ کیاکریں۔ پتہ نہیں کیا بات ہے اب انہیں بھی ایک موبائل لے کر دینا پڑے گا کہ زیادہ ضرورت ہو تو میسج کردیں۔ اس نے فون بند کردیا۔ لیکن دوبارہ رنگ آیا تو اٹھانا ہی پڑا۔ قمر چہکو پہکو رو رہی تھی۔ رضوانہ کے پیروں تلے زمین کھسک گئی، ’’کیا بات ہے مما؟‘‘
’’میرا۔۔۔ میرا نہیں رہی۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’میرا نہیں رہی رضوانہ۔‘‘
رضوانہ وہیں دھپ سے زمین پر بیٹھ گئی۔ فائل اس کے ہاتھ سے گرپڑی جو وہ کھڑی ہوکر پلٹ رہی تھی۔ اس کے دماغ کی نسیں پھٹنے لگیں۔ میرا کی بچی آپریشن سے ہوئی تھی پھر ایک اسقاط کرایا تھا۔ پھر ایسا ہی کچھ ہوا ہوگا اور ساری جدید سہولیات کے باوجود کیس بگڑ گیا ہوگا۔ ورنہ میرا تو بڑی صحت مند لڑکی تھی۔ اور عمر کیا۔ یہی تیس ایک سال۔
’’میرا نے خودکشی کی ہے۔‘‘ قمر نے ہچکیوں کے درمیان کہا۔
رضوانہ دوسرے ہی دن ہوائی جہاز سے لکھنؤپہنچ گئی۔ دلی سے عمو بھی آگئی تھی۔ لوگ میرا کے پھول چننے گل لالہ گئے ہوئے تھے (لکھنؤ والوں کی ستم ظریفی: شمشان گل لالہ ہے اور قبرستان عیش باغ)
میرا تو بس اتنی ہی پڑھی لکھی تھی کہ شوہر کے منہ کو نہ آسکے لیکن ساتھ ہی فراٹے سے انگریزی بول کر اس کی عزت افزائی کا سبب بھی بنے۔ وہ بے حد سگھڑ گرہستن تھی گرچہ اس نے کبھی گھر پر کام نہیں کیا تھا اور انیس برس کی عمر میں کھاتے پیتے گھر کی کون سی لڑکی کام کرتی ہوئی جاتی ہے۔ لیکن جب وہ بہو اور بیوی بنی تو اسے سال بھر بھی نہ لگا گھر سنبھالنے میں۔ اس نے نوکروں کے باوجود کچن سنبھالنا بھی سیکھ لیا۔ اس کی ساس نے ’ناج ویج‘ کا چولہا الگ کردیا تھا۔ وہاں وہ شوہر کے لیے گوشت اور مرغ کے نت نئے پکوان بناتی، جن کے لیے اس نے کھانا پکانے کا ایک کورس جوائن کیا تھا، پھر برتن خود مانج کر الگ کردیتی اس لیے کہ اس کی ساس کو اعتراض ہوتا تھا کہ کہارن ادھر کے برتن مانجھ کر پھر ادھر وہی ہاتھ لگائے گی۔
وہ اتنی کم عمر لڑکی اتنی سمجھدار کہ ساس کے سامنے گوشت نہیں کھاتی تھی۔ چپکے سے شوہر کی پلیٹ سے اٹھاکر کھالیتی تھی۔ ’’گوشت پکے تو ٹیبل پر لانے کی اجازت نہیں ہے اس لیے کمرے میں ہی کھاتے ہیں ہمارے تو چھکے پنجے۔ ہم خوب اڑاتے ہیں۔ ممی کو ہمارا گوشت کھانا پسند نہیں ہے۔ کہتی ہیں گوشت کھانے سے لڑکیاں ایگریسیو (Aggressive) ہوجاتی ہیں۔ وہ منہ چھپاکر خوب ہنسی ’’خود تو پیاز لہسن تک نہیں کھاتی ہیں پھر چڈی کا اوتار کیوں بنی رہتی ہیں۔‘‘ اس نے ٹھی ٹھی ٹھی ٹھی شروع کی۔
’’بند کریہ پاگلوں والی ہنسی۔‘‘ کہنے کو تو کہہ دیا لیکن رضوانہ خود اس کے ساتھ ہنسنے لگی تھی۔ ’’اچھا یہ بتا پھر تو کھاتی کیسے ہے؟ دوبار کھاتی ہے کیا؟ ساس سسر کے ساتھ ٹیبل پر تو بیٹھنا ہوتا ہوگا۔‘‘
’’یہ عام طور سے دیر سے کھاتے ہیں۔ اس سے پہلے تھوڑا ڈرنک بھی کرتے ہیں۔ اس لیے ہم ٹیبل پر بیٹھ کر تھوڑا سا چکھ کر، کچھ لپاڈگی کرکے اٹھ جاتے ہیں۔ اور بریانی، دوپیازہ دکھائی پڑے تو ہم تو بھرے پیٹ پر کھالیں۔‘‘ وہ پھر ہنسی۔
’’اور یہ تو گنوار کی طرح ان، انہیں، وہ کیا کرنے لگی ہے۔ منگنی کے بعد تو سنجے، سنجے یوں کرتی تھی جیسے سنجے نہ ہوا چھوٹا بھائی ہوا۔‘‘
’’ممی کو ناپسند ہے۔ پہلے ہم نے ان کے سامنے نام لینا بند کیا لیکن اکیلے میں نام لیتے رہنے سے عادت نہیں چھوٹ رہی تھی۔ منہ سے نکل ہی جاتا تھا تو ساس، سسر، آئے گئے، چاچا، چاچی سب گھورنے لگتے تھے۔ اب بھائی ہمیں نندرانی مشرا کی بڑی بڑی آنکھوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔ ہم نے کہا چھوڑ بھائی۔ ٹنٹا ختم۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ رہے گا تو شوہر ہی نام میں کیا رکھا ہے۔‘‘
اس نے ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی بڑوں کی پسند ناپسند کا خیال رکھا تھا۔ (یا اس سے رکھوایا گیا تھا۔)
کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟
لوگ باگ بہت دن بات کرتے رہے۔ رضوانہ نے چھٹیاں سنبھال کر رکھی تھیں اس لیے تیرہویں تک رک گئی تھی۔ ایک دن اس کی چھوٹی سی بیٹی کا منہ دیکھ کر اتنا غصہ آیا کہ اس کا جی چاہا کس کس کے جھاپڑ لگا کے میرا کا بیضوی، گورا چہرہ لال کردے (پھر اپنے خیال کے اتنہائی درجے کے بے تکے پن پر اپنا ہی منہ پیٹ لیا۔) اس بچی کا تو خیال کیا ہوتا۔ بڑھتی عمر والے ماں باپ کا خیال کیا ہوتا۔ خود سارے دکھوں سے بے نیاز ہوگئی۔ مگر ایسے کون سے دکھ تھے۔ ایسا کون سا پاگل کردینے والا لمحہ ذہن پر حاوی ہوگیا تھا جو انسان کی بنیادی کمزوری، اس کی زندہ رہنے کی خواہش کو کہنی مار مار کر پیچھے دکھیل دے۔ میرا کی ہم عمر کزن نے کئی باتیں بتائیں جو کہیں جگ ساپزل (jigsaw puzzle) کے ٹکڑوں کی طرح مل کر ایک تصویر اجاگر کرتی دکھائی دے رہی تھیں۔
’’ہم سے تو اس نے کبھی کچھ نہیں کہا جانہوی۔ ہم تو بچپن سے اس کے رازدار تھے۔ ذرا سابھی شک ہوتا کہ اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے تو کچھ کرتے۔ اس نے موقع ہی نہیں دیا۔‘‘ رضوانہ رونے لگی تھی۔
’’کہا تو ہم سے بھی کچھ نہیں رضوانہ دیدی۔ ہم بس آتے جاتے، ملتے جلتے کچھ سمجھ رہے تھے اور کبھی کبھی دوسطروں کے درمیان، دوشبدوں کے پیچھے لکھی لکھائی پڑھنے کی کوشش کرلیتے تھے۔ آپ تو یہاں تھیں نہیں۔ کبھی کبھی ہی آتی تھیں۔‘‘ اس نے بات جاری رکھی۔
’’میرا آگے پڑھنا چاہتی تھی۔ اس کی اجازت نہیں ملی۔ کہا بی اے کرا تو دیا اب اور کیا کرنا ہے۔ میوزک کلاس کرنے چاہے وہ منع، تھیٹر آرٹس گروپ جوائن کرنا چاہا تو پورا وبال ہی کھڑا ہوگیا۔ کسی زمانے میں اس کے بانی، جب وہ نوجوان تھے، ایک اینگلوانڈین لڑکی کے ساتھ سات سال گھومے، پھراسے چھوڑ کر ایک خودسے پندرہ برس چھوٹی، کسی رجواڑے کی لڑکی سے اچانک شادی رچالی۔ اس لڑکی کے دادا بندوق لے کر ان حضرت کاانتظار کرتے تھے کہ دکھائی دیں تو سیدھے شوٹ کردیں۔ لیکن پھر لڑکی کے یہاں بیٹا ہوگیا تو معافی تلافی ہوگئی۔ اب یہ بوڑھے ہوگئے تھے لیکن نندرانی مشرا سمجھتی تھیں کہ تھیٹرآرٹس گروپ لفنگوں کا اڈہ ہے۔‘‘
رضوانہ خاموشی سے سنتی رہی۔ میراکی بڑی خوبصورت آواز تھی۔ انٹرمیڈیٹ تک اس نے باقاعدہ میوزک سیکھی بھی تھی۔ گھر کی تقریبوں میں، سہیلوں کی محفلوں میں وہ خوب گاتی۔
’’پھر؟‘‘
’’پھر اس نے چار ماہ کاحمل گروایا۔ اس کا اسے بہت رنج تھا۔ آخر دوسرابچہ ہی تو تھا۔ پھر بھی ہنس کر جھیل لے گئی لیکن جب دوسراحمل گروایا گیا، وہ بھی دھوکے سے جس میں شوہر، ساس، سسر، ڈاکٹر سب شامل تھے۔ تو اسے شوہر کے شامل ہونے سے بہت صدمہ پہنچا۔‘‘
’’دھوکے سے مطلب؟‘‘ رضوانہ سخت حیران تھی۔
’’ایک ٹسٹ کے بہانے اسے بے ہوش کردیا گیا تھا۔ ڈاکٹر نے اسے یقین دلایا کہ اندر بچے کی growth رک گئی تھی۔ اس لیے فوری اسقاط ضروری ہوگیا تھا۔ زہر پھیلنے کاڈر تھا۔ بعد میں تو جرح کرنے سے سب ظاہر ہی ہوگیا۔ میرا نے شوہر کو خوب لتاڑا۔ اس کی بندزبان کھل گئی تھی۔ ساس کے سامنے چیخنے چلانے لگی تھی۔ یہ سارا کچھ مجھے ٹکڑوں میں معلوم ہوا۔ کچھ یہاں سے کچھ وہاں سے۔ آپ کوجس طرح بتارہی ہوں اس طرح نہیں۔‘‘
’’بات زیادہ بگڑتی تو میرا علیحدگی اختیار کرسکتی تھی۔ آخر جان دینے کی کیا تک تھی۔ جانہوی، توہی بتا۔‘‘ رضوانہ ہاتھ ملنے لگی تھی۔
’’علیحدگی کی تجویز میں نے رکھی تھی جب مجھے یہ معلوم ہوا تھا کہ سنجے اب اس پر ہاتھ چھوڑنے لگاہے۔ لیکن میرا کے گھروالوں نے اسے فوری طور پر ردکیا۔ دادی نے کہا۔ لڑکی کو اتنی زبان نہیں چلانی چاہیے۔ جو ہوا سو ہوا۔ اب کیا گھر گرہستی اور سہاگ پھونکے گی۔ شاید اسی لیے اس نے خود اپنی جان پھونک کر سب سے انتقام لیا۔‘‘
’’لگتا ہے پہلے کی ساری دادیوں کی تربیت ایک ہی اکیڈمی میں ہوا کرتی تھی۔‘‘ رضوانہ نے زہرخندہ کے ساتھ کہا، ’’ہماری دادی بتاتی ہیں کہ ان کے سسر یعنی پاپا کے دادا کے ایک طوائف سے مراسم تھے۔ وہ لکھنؤ کی نامی گرامی طوائف بدرمنیر تھی۔ پہلا فخر تو اسی بات کا تھا کہ بدر منیر بلانے پر ان کے گھر بھی آجاتی تھی۔ وہ مردان خانے میں بیٹھتی اور دادی اپنے ہاتھ کے مشہور پراٹھے سینک سینک کر شامی کبابوں کے ساتھ قابوں پر قابیں بھجواتیں رہتیں۔ پاپا کے دادا کی بیشتر دولت انہیں بدرمنیر اور ان کی بہن پرنچھاور ہوئی۔ حتی کہ کچھ نہ رہا تو بیوی کی پہونچیاں دے آئے۔ وہ غم و غصے کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اب کیسا غم اور کیا غصہ۔ میرا۔۔۔ میرا۔ یوں ہارنا چاہیے تھا کیا؟‘‘
جانہوی نے جتنا کچھ بتایا تھا اس کے علاوہ بھی پتہ نہیں کیا کیا ہوتا رہاتھا۔ پچھلی بار جب رضوانہ میرا سے ملی تھی تو اسے محسوس ہوا تھا کہ بار بار خوش مزاجی کانقاب سرک کر اندر سے ایک اور چہرہ جھانک رہا ہے۔ تب تک وہ سارے ’ایپی سوڈ‘ ہوچکے رہے ہوں گے لیکن اس نے کچھ بتایا نہیں تھا۔ چلتے وقت بولی تھی، ’’قمر چاچی اور انیس چاچا کے دباؤ میں آکر بیاہ مت کرنا رضوانہ۔ جب جی چاہے اور جب صحیح آدمی ملے تبھی کرنا۔ اور یہ ضرور بات کرلیناکہ تمہیں کتنی اولادیں پیدا کرنی ہیں اور کب۔‘‘
’’ممی کو اب بھیانک خواب آنے لگے ہیں۔ وہ عمو بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ اٹکی ہوئی ہے انوراگ پر۔ ممی کو معلوم ہوچکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاپا کو معلوم ہوا تو ایک اور ’’آنرکلنگ کی خبر میڈیا میں آجائے گی۔‘‘ ویسے عمو کو زیادہ فکر نہیں۔ دونوں ساتھ کام کرتے ہیں۔ شامیں اکٹھی گزارتے ہیں۔
’’ہمارے گھر تو آنرکلنگ کا خطرہ محض ذات الگ ہونے سے ہوگیا تھا دھرم کی تو بات ہی چھوڑ۔ ماں اور دادی کو بھیانک خواب آنے لگے تھے۔ اس لیے جلدی سے جلدی جو لڑکا پکڑ میں آیا۔ اس سے بیاہ دیا۔‘‘
وہ ہنسی، ’’ویسے دیکھا جائے تو لڑکا دیکھنے میں اچھا کماؤ، پڑھا لکھا، جات برادری اونچی۔ اب ہمیں بھی اور کیا چاہئے تھا؟ تو بتارضوانہ ایک عورت کو کچھ اور چاہیے کیا؟‘‘
میرا کی ماں نے رضوانہ سے بتایا ہم ایک دن سمدھن جی کے سامنے کہہ بیٹھے، ’’بھگوان سمجھے اس اہروا سے نہ وہ زندگی میں آتا نہ ہمیں میرا کی شادی کی اتنی جلدی ہوتی۔ تھوڑا رک گئے ہوتے تو رشتوں کی کیا کمی تھی۔ دراصل اس دوسرے ابارشن کے بعد ہماری ہنستی بولتی بیٹی کو چپ لگ گئی تھی اوروہ کمزور بھی بہت ہوگئی تھی۔ دوائیں، ٹانک، سب اٹھاکے پھینک دیتی۔ نان ویج کھاتی تھی وہ چھوڑ دیا۔ اس لیے سمدھن جی سے ملاقات ہوئی اور اس کے باوجود انہوں نے میرا کی شکائتیں شروع کیں تو ہمیں آگیا غصہ۔ اسی لیے شاستروں میں غصے کو چار بڑی برائیوں میں گنا گیا ہے۔ آدمی کی مت ماری جاتی ہے۔ ہم جو وہ انرگل بول گئے تو سمدھن جی کے کان تو خرگوش کے کانوں سے بھی لمبے ہوگئے۔ اب لاکھ ہم لیپاپوتی کریں لیکن انہوں نے جاکے شک کا بیج داماد جی کے دماغ میں بودیا۔ وہ اہیر کون تھا، کب تھا۔ اب کہاں ہے، اب بھی ملتا ہے کیا۔ دراصل انہیں میرا کے الزام سے اپنا بچاؤ کرنے کے لیے برہماستر ہاتھ لگ گیا۔ سراسر ہماری غلطی سے۔
میرا الزام لگاتی تھی کہ اسے دھوکہ دے کر چوتھے مہینے کے آخر میں جیتے جاگتے بچے کو مارا گیا۔ وہ ڈاکٹر کانام سامنے لانے کی دھمکی دینے لگی تھی۔ یوں چپ رہتی تھی لیکن غصے کا دورہ پڑتا تو۔۔۔ شاید وہ ہمیں یہ سب بتاتی بھی نہ لیکن اس دن اس نے اپنا غصہ ہم پر اتارا، ’’اماں تمہاری زبان قابو میں کیوں نہیں رہتی۔ اب بتاؤ اپنے داماد اور اس کی چنڈی ماتا کو کہ وہ کون تھا۔ کب تھا اور کہاں ہے۔ تمہیں کو معلوم ہوگا ہمیں تو خبر نہیں۔‘‘
’’پھر سناداماد ہاتھ چھوڑنے لگے تھے۔ ہم تو جانیں اس لیے کہ اس کی زبان بند رہے۔‘‘
’’اور اس نے اپنی زبان ہمیشہ کے لیے بند کرلی۔ اور چاچی اس میں اس کے سسرال والوں کا ہی نہیں آپ سب کابھی ہاتھ ہے۔ آپ سب جو پڑھے لکھے ہیں۔ اعلیٰ خاندان ہیں۔‘‘ لیکن رضوانہ نے بھی اپنے زبان بند ہی رکھی۔ سوچ کے رہ گئی۔ جو آپ ہی مر رہاہو اسے مار کے کیا ملے گا۔ میرا نے زندہ رہنے کافیصلہ کیا ہوتا تو ان لوگوں سے لڑنے کی سوچی جاسکتی تھی۔ عورتوں کی یہ نسل تعلیم سے بے بہرہ نہیں تھی۔ میرا کی ماں، خود اس کی اپنی ماں، میرا کی ساس۔ اور مرد تو خیر تعلیم یافتہ تھے ہی لیکن یہ کیسی تعلیم تھی کہ ایک سائنس گریجویٹ نے بیوی کو اس لیے مارا تھا کہ اس نے دوسری بار بھی بیٹی پیدا کی تھی۔ سائنس پڑھ کر بھی اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ بیٹی یا بیٹا مرد کی دین ہوتا ہے۔ یہ مما نے بتایا تھا۔ اور ساتھ ہی جوڑ دیا تھا۔
یہ 74 کی بات ہے۔ اس وقت حمل میں بچے کی جنس پتہ کرنا اور اسقاط کرانا عام نہیں ہواتھا۔ ورنہ وہ لڑکی یوں مار نہ کھاتی، ہاں بچی جو پیدا ہوئی وہ ماردی گئی ہوتی۔ نندرانی مشرا کی دلیل اس سلسلے میں کچھ الگ ہی تھی جو میرا نے پہلے اسقاط کے بعد ہنس ہنس کر رضوانہ کو بتائی تھی، عورت کے جسم کے اندر جو کیفیت ہوتی ہے وہی یہ تعین کرتی ہے کہ عورت کا بیج مرد کے ایکس کرو موسوم قبول کرتا ہے۔ یا وائی اس کے لیے عورت ہی ذمہ دار ہے۔
’’یہ آپ نے کہاں پڑھا ممی؟ کس نے بتایا آپ کو؟‘‘ میرا نے ساس سے ملائمیت سے پوچھاتھا۔
’’ہم نوٹس نہیں بناتے پھرتے کہ تمہیں ریفرنس دیں۔ تصدیق کرناچاہتی ہو تو اپنے طور پر ریسرچ کرلو۔‘‘ انہوں نے رکھائی سے جواب دیا تھااور میرا کو بڑی بڑی آنکھوں سے گھورتی، کٹھ حجت قرار دیتی اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔ اور اس کے آفس میں لوگ کم تعلیم یافتہ تھے کیا؟ سب وکیل۔ کئی تو تجربہ کار گھاگھ بھی۔ مجرم کو معصوم بنادیں معصوم کو مجرم۔ جب سے رضوانہ نے عمر کے تیسویں سال کا کیک کاٹا تھا، بیشتر اس کاحوالہ اولڈمیڈ، کہہ کر دینے لگے تھے۔ ایک بار کسی نے کمنٹ کیا تھا، یار کھائی کھیلی لگتی ہیں۔ اب ایسی معصوم بھی نہیں جیسا پوز کرتی ہیں۔
’’کولہے خاصے بھاری ہیں۔ ایسے کولہوں کا مطلب ہے کہ ہر تجربے سے گزرچکی ہیں۔‘‘ جواب ملا، ایک شادی شدہ ہم کار نے براہ راست پروپوز کیا تھا۔ پس منظر میں دی جانے والی موسیقی کے طور پر وہ نہایت لطیف پیرائے میں یہ بتاتے چلے آرہے تھے کہ بیوی سے ان کے تعلقات صحیح نہیں ہیں۔ بغیر نام بتائے انہوں نے ہی رضوانہ پر کی جانے والی چھینٹا کشی کا بھانڈ پھوڑا تھا۔ کچھ ادھر ادھر سے کچھ بالواسطہ تبصروں سے اسے خود بھی پتہ چلتا رہتاتھا اور وہ چومکھی لڑائی لڑتی رہتی تھی۔ اسی لطیف پیرائے، اسی بلاواسطہ اظہار کے ذریعے۔
’’مجھے اپنی زندگی کی راہیں متعین کرنے کا پورا حق ہے۔‘‘ اس نے مضبوطی کے ساتھ اپنے آپ سے کئی بار کہا تھا اور اس پر قائم تھی۔ یہاں تک کہ اس وقت بھی جب کچھ لوگوں نے یہ اشارہ کیا کہ جس لڑکی کے ساتھ وہ فلیٹ میں رہ رہی ہے اس کے ساتھ اس کے لزبئین تعلقات ہیں۔
’’چھی، گھن آتی ہے ہمیں۔‘‘ رضوانہ نے کہا تھا تو اس کی دوست ہنسی تھی۔
’’اتنی سی بات سے گھن آنے لگی۔ اوکھل میں سردیا ہے تو موسل کے دھمکے کھانے سیکھو۔‘‘ وہ مزاج میں میرا جیسی لگتی تھی۔ ہنسوڑ، ہر بات کو چٹکیوں میں اڑانے والی۔ اپنے آپ میں مگن۔ رضوانہ نے سوچا تھا۔
اس سال لکھنؤ میں ٹھنڈ معمول سے زیادہ پڑی تھی۔ کہرے سے سرشام اندھیرا چھا جاتا۔ کئی دن سے سورج نہیں نکلاتھا۔ میرا کی ماں کے یہاں سے آنے کے بعد رضوانہ کو لگ رہا تھا ایک ٹھنڈا اندھیرا اس کے وجود میں بھی اتر آیا ہے۔ میرا کی ماں نے جو کچھ کہا تھا، ان ٹھنڈے اداس لمحوں میں رضوانہ نے اسے قمر کے ساتھ بانٹا۔
’’دنیا اب زیادہ پیچیدہ ہوچکی ہے اور اپنی ساری تعلیم اور ساری تکنیکی ترقی کے باوجود زیادہ سفاک اور بے رحم۔ اب لڑکیاں بول رہی ہیں۔ پہلے بولتی نہیں تھیں۔ کوتوال کے بیٹے سے آنکھ مٹکا ہونے پر جس پہلے لڑکے کے ہاتھ لگنے پر بادشاہ اپنی بیٹی بیاہ دیتا اس کے ساتھ خاموشی سے زندگی گزاردیتی اور مرکھپ کر جنت پہنچ جایا کرتیں۔‘‘ قمر نے لمبی سانس کھینچ کر لمبی بات کی۔ پھر دونوں ماں بیٹی کچھ عرصے خاموش رہیں۔ انگیٹھی کے کوئلوں پر راکھ کی پرت موٹی ہونے لگی تھی۔ قمر نے اسے لوہے کی تیلی سے کریدا (اسے ہیڑکی جگہ انگیٹھی جلانا زیادہ اچھا لگتا تھا۔) اور بات کا سرا دوبارہ پکڑا۔
’’ہم اور تمہارے پاپا، دونوں نے اب تمہاری اور عمرانہ کی زندگی میں دخل دینا بند کردیا ہے۔ لیکن شاید تمہیں معلوم نہیں کہ لوگ ہمیں کیا کیا سناتے رہتے ہیں۔ ایک دن ایک ٹیچر نے ہمیں سناکر اسکول میں کہا، ’’لڑکیاں پڑھ لکھ کر کمانے لگیں تو ماں باپ بے فکر ہوکر بیٹھ جاتے ہیں کہ بر بھی خود ہی ڈھونڈلائیں گی۔ اس کالے کوسوں دور بمبئی سے یہاں آجاؤ تو کم از کم گھر میں آرام اور اطمینان سے رہوگی تو۔ لکھنؤ کوئی دیہات تو نہیں۔‘‘
’’ہاں اس گھونسلے میں بڑی عافیت ہے۔ ماں باپ ہیں۔ ان کی شفقت کا تحفظ ہے۔ لیکن ممی اس دنیا میں ہم جیسے بھی بہت ہیں۔ پرائے پھٹے میں ٹانگ نہ اڑانے والے۔ اپنی آزادانہ زندگی ایسے اصولوں کے تحت گزارنے والے جن سے دوسروں کو نقصان نہ پہنچے۔ تم اٹھائیس برس کی ہوگئی تھیں تو نانی نے سوچا تھا کہ تمہاری شادی اب نہ ہوگی۔ پھر ہوئی نا۔ ہم اکتیس برس کے ہوگئے ہیں تو تم بھی اسی طرح سوچ رہی ہو۔ کتنی ترقی ہوئی تمہاری تعلیم کی وجہ سے؟ صرف دو تین سال کی؟ مما، شادی از ناٹ دی اینڈ آف دی ورلڈ، کوئی ایسا مل گیا جس کے ساتھ پوری زندگی گزارنے کا دل چاہا تو ضرور کریں گے۔ فی الحال تو پرسوں کی فلائٹ کاٹکٹ بک ہے۔ واپس جارہے ہیں۔ ہماری فکر مت کیاکرو مما۔۔۔‘‘ اس کی آنکھیں دور خلا میں کچھ دیکھنے لگی تھیں۔ انگیٹھی پر جمی راکھ کی پرت موٹی ہوگئی تھی اور قمر کے دل پر جمی بے چینی کی بھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.