پادشاہزادی عندلیب
کہانی کی کہانی
ایک سپاہی زادے کی کہانی جس نے ایک مغویہ پادشاہزادی کو محل واپس لانے کا عزم کیا اور محیر العقول منزلوں سے گزرتا گیا اور آخر میںجب منزل کے قریب پہنچ گیا تو ۔۔۔
(حصہ اول)
اے عزیزانِ جہانِ پر خوبان خوب کان دھر کر سنو۔
رات کویہ فقیر ایک لق و دق، صحرائے پر وبا میں جا پہنچا وسعت جس کی میدان خیال سے بھی کہیں زیادہ تھی۔حدِنظر تک اس خرابے میں ریگ پر خار۔۔جہاں قدم پڑے، کانٹاگڑے۔ جاننا چاہیئے کہ اس ریت کا رنگ سبز تھا اور اس دشتِ بیکراںمیں پہاڑ نما ٹیلے کچھ یوں تھے کہ ان پر نقش ہائے روِش افعی جا بہ جا ثبت تھے جسے دیکھ گمان یوں ہوتا تھا جیسے یہ صحرا نہ ہو بلکہ پر قہر سانپوں کا ایک شہرِ بے مہر ہو، دھڑکا جہاںموت کا ہر پہر ہو۔ مختصر بیان تو یہ ہے کہ اس مقام خطرات و آفات میں نہ آدم نہ آدم کی ذات۔۔ مسکن جنات و بلیات ۔۔تا حد امکان وہاں بچھا دام فریب و شبہات ۔
عزیزو باتمیزو!
جب میں نے اس دشتِ سبز ریگ کو دیکھا تو مجھ پرخوف نے غلبہ ایسا پایا کہ قدم میرے بوجھل ہوگئے اور بدن پر لرزہ طاری ہوا کہ بے شک اس مقام کی ہیبت ہزار عفریتوں سے زیادہ تھی۔ سوئے آسماں دیکھ، اپنے اوسان بحال کرکر صحرا میں داخل ہونے سے پہلے میں نے اللہ کا نام لیا کہ وہ کائنات کا خالق و مالک ہے اور ہر ناموس کی حفاظت کا ضامن ہے۔ اس امر سے عاجز کے دل کو تقویت بے پناہ ملی اور یوں میں نے اپنے گھوڑے کو صحرا کی حد سے پہلے جنگل میں کھلا چھوڑ، اس میں پہلا قدم رکھا۔
بموجب فرمانے کے جنوب کی جانب دس کوس چل کر منتظر رہا کہ رات گہری ہو تو ستاروں کی رہنمائی سے مینار ِفلک آثارکے مقام کاتعین کرکراسے مفقود سے موجود لاوں، اس میں آویزاں زینہ حیات پر چڑھ کر طلسم ِہوشربا کے اس برج کی کلید حاصل کر وں جہاںرہائی سے مایوس گل نما پادشاہزادی عندلیب محبوس تھی اور جس پر چڑیلوں اور پریزادوں کا کڑا پہرہ تھا۔ ارادہ فقیر کا یہ تھا کہ اسے وہاں سے رہائی دلوا، سلطان عالی شان کے محل پہنچا ، حاصل مقدور انعام پاوں۔
دس روزقبل قسطان دیو نے، جو ملکہ حیرت کی بہن بہار جادوکا معتمدِخاص تھا اور ظلم میں صاحب اختصاص تھا، گل صورت پادشاہزادی عندلیب کو رات کے پچھلے پہر،جب اللہ کی مخلوق نیند کی آغوش میں بیہوش یا شب خیز عبادت میں مشغول سجدہ ریز تھی،محل ہزار دریچہ کے یاقوتی دروازے سے بزورِ سحرِسامری اٹھا لیا۔ یہ جا وہ جا،ثانیوں میں سلیمانی قالین پر بٹھا، طلسم ہوش ربا کی شمالی سرحد میں سنگلاخ پہاڑوں کے لا متناہی سلسلے میں ایک وسیع وعریض محل کے ایک برجِ بے رحم میں قید کیا۔
پادشاہزادی عندلیب جوگرم کمروں،روشن فانوسوں، عنبریں شمعوں،، مخملیں قالینوں، ریشمی پردوں، نرم مسہریوں اور ملائم تکیوں کی عادی تھی اس سنگین حصار کی تاریکیوں اور صعوبتوں سے گھبرائی، تڑپی، تلملائی اور بے اندازہ دل گیر ہوئی مگر قہر درویش بر جان درویش ۔۔ قصہ مختصر رو بہ گریہ ، سر جھکا ، راضی بہ تقدیر ہوئی۔
بے شک اس نے گریہ و زاری کی پر عبث کی کہ نہ تو اس کی حالت زار کا کسی کو پتا چلا اور نہ ہی پادشاہزادی کو ان کی ناگفتہ بہ حالت کی خبر ہوئی جواس کی جدائی میں رنجیدہ، رنگِ رو چوں طائر پریدہ، دامن صبر و ضبط کشیدہ ، گریباں دریدہ ، ازیں مصائب بے حد ترسیدہ، تڑپے، دل گیر ہوئے ، اس سبب رنجور ہوئے اورتلملا کر گریہ و زاری پر مجبور ہوئے۔
بیت
نہ خبر می رسد مرا از ایشان*
نہ بدیشان ہمی رسد خبرم
تو دیو نے جہاں گل صورت پادشاہزادی کو محصور کیا، وہاں اس کی بازیابی کا ہر سبب بھی حتی المقدور دور کیا اور محل کے چاروں طرف مستعد جنوں، چڑیلوں اور پریزادوں کو پہرے پر مامورکیا ۔ ان سب کی سردار گھاجن چڑیل تھی جو حد درجہ بد خصلت، بد کردار، اور مکار تھی۔ اس سے بڑھ کر وہ ہمہ وقت بیدار، پہرے میں ہوشیار اور واسطے کشت و خون کے ہر دم تیار تھی۔
مبرہن رہے کہ اس مقفل برج کی دو کلیدیں تھیں۔ایک سالم ،جو قسطان دیو کے گلے میں طلسمی دھاگے سے بندھی تھی اور دوسری منقسم۔ ثانی الذکر کلید کا ایک حصہ جنگلوں، صحراوں اور سرنگوں کے اس پار مینار فلک آثارمیں تھا جبکہ دوسرا حصہ شہر مردگان کے گورستان میں تھا۔ عاجز منقسم کلید کے حصول میں بر سر پیکار تھا کہ اول الذکرکے حصول کا خیال بھی بیکار تھا۔
اے مردان باصفا !
جان لو کہ نو دن پہلے نیشا پور کے والی نے ہم سب کو حکم دیا کہ اس کے واسطے دو امور فی الفورانجام دئے جاویں اولاً یہ کہ ملک توران کے شہنشاہ کو سلطان ایرا ن کا فرمان پہنچا دیا جاوے اور اس کو اطاعت پر مجبور کرکے اس سے خراج بے حساب لیا جاوے اور ثانیاً یہ کہ قسطان دیو کی قید میں محبوس پادشاہزادی کو رہا کیا جاوے۔
والی نیشاپور یوسف بن سکندر ترمذی ، خدا ان پر اپنی رحمت تمام کرے،نے بتلایا کہ پادشاہزادی کے والد اور سلطان ایران وخوارزم اپنی بیٹی کے ہجر میں نڈھال ہیں اور جب سے وہ اس ملعون دیو کے قبضے میں ہے اسی لمحے سے بدحال ہیں۔۔ کم آمیز ہیں، شب خیز ہیں اور اللہ کے حضور پیہم سجدہ ریز ہیں۔۔ نہ کھانے کی خبر نہ آرام کا خیال اور عین ممکن ہے اس حالت ِحزن و ہیجان میں یہ عادل سلطان اپنی جان دے دے تو ہے کوئی جو اس مہم کو لِوجہِ اللہ تعالیٰ سرانجام دے اور یوں سلطان کے دل کو قرار آجائے کہ بے شک امام کون مکانﷺ نے فرمایا اور بلا شبہ انہوں نے تو ہمیشہ سچ ہی فرمایا
’’اللہ تعالی اس وقت تک اپنے بندے کے کام میں (مدد کرتا)رہتا ہے جب تک بندہ اپنے مسلمان بھائی کے کام میں مدد کرتا رہتا ہے‘‘
ہم میں جو کمزور دل تھے اور بز دل تھے انہوں نے دوسرے کام کو انجام دینے سے حد درجہ اجتناب برتا مگر عاجز نے، جو اِن سب میں زیادہ ذہین و فطین و متین تھا،خطروں سے ہرگز نہ گھبراتا تھا اور مہم جوئی کا بھی از حد شوقین تھا، دوسرے کام کا بیڑہ اٹھایاور اسی سبب وادیِ طلسمِ ہوشربا کی راہ لی۔
فقیر نے چرچا البتہ پادشاہزادی کے حسن کا یوں سن رکھا تھا کہ جوان تھی، طویل قامت تھی اور نازک اندام تھی۔ اس پری رو کا چہرہ کتابی اورسرخی مائل رخسار گلہائے بہار تھے۔ عارضِ پر نور خلق سے مستور، گویا جام ِشراب تھا کہ بادہ گل رنگ سے پر بے حساب تھا۔ اس کے دانت موتیوں مشابہ، ہونٹ یاقوت، منہ’’ ن‘‘کا نقطہ اور کنج دہن پر خال مشکین ایسا جو دلوں کو موہ لے۔
آنکھیں اس پری پیکر کی چشمِ آہو سے کہیں تیرہ تر تھیں۔ مژگان لمبے جاروب رخسار، ابروئیں پر خمار گویا دو شمشیر یں برہنہ آبدار، جیسے دوگنبدخوبصورت پایئدار، یا دو ساغر مے مقلوب، گویا نیم کش دو کمان، جیسے جوڑا قوس قزح کا رنگ برنگ، یا دو دریا خم بہ خم یا جیسے لبان شیرین گل رویان۔
اس کے بال طویل ریشمی سیاہ جیسے شب دیجور، مانگ سیدھی تاباں جیسے وسعتِ سما میں کہکشاں۔اس نازنین خندہ جبین کی گردن لمبی صراحی دار تھی،کمر ’’الف‘‘ صورت، خالق کے تخلیق کا شاہکار تھی اور ہاتھ سیمیں ایسے کہ جو کسی شے کو چھو لیں تو وہ سونا بنے۔
قدم ایسے جیسے بادِخنک، سبک رفتار جیسے موجِ ہوا پر سوار، سانس ایسی کہ از جان رفتہ لوگوں میں جان ڈال دے۔ غرض یہ کہ پورا وجود گویا نسیم سحر کامعطر جھونکا، جو لہر لہر آتے شب گرفتہ،درد مند، پر ہیجان و پر آشوب،آزردہ وحزیں اوررو بہ گریہ دلوں کو قرار بے شماردے۔
آرائش جمال میں لاثانی اس پری وش کا لباس بے داغ اوربے شکن تھا، جسم سے چپکا جیسے جزو بدن تھا۔ گردن میں زنجیر طلائی جس میں جڑا نگ یاقوتی، کانوں میں آویزے سیمیں، ہاتھوں پر تحریر حنا کی موہوم اور انگشت حلقہ میں ختم ِمرجان۔ پائوں میں پازیب نقرئی سبک، جوتے طاوس کے پروں سے بنے اس سے کہیں سبک تر۔
عزیزو! اس کی باتوں کا سحر ایسا لاجواب تھا کہ سراب نخلستان بنے اور نخلستان سراب،آب شراب ہو، عالم بیداری خواب ہو اور مسخر آفتاب ہو۔ جو گفتگو کرے تو موسیقی سے اس کے پہاڑ وجد میں آجائیں، طیور دم بخود پرواز سے بے خبر گر پڑیں اور خلق انگشت بدنداں، متحیر، تصویر صورت، سانس لینا بھول جائے۔
ابیات
تجھ لب کی صفت لعل بد خشاں سوں کہوں گا
جادو ہیں تیرے نین غزالاں سوں کہوں گا
اک نقطہ ترے صفحہ رخ پر نئیں بے جا
اس مکھ کو ترے صفحہ قرآں سوں کہوں گا
اس پر مستزاد وہ ماہ طلعت علمِ شعر میں طاق، ذکاوت و دانائی میں یکتا، طرزِ تکلم میں فقید المثال، جواب اور رد الجواب میں بے مثل،طرزِنشست و برخاست میں بے نظیر، جملہ آداب محفل میں یگانہ مثال، غواصی اور شہسواری میں لاجواب، شمشیر زنی، تیر اندازی و دیگر فنون ِ حرب میں منفرد اور مصوری میں لاثانی تھی۔
مختصر یہ کہ اگر بیان اس زہر ہ جبین کا تفصیل سے گوش گذار کروں تو خفتہ دل بیدار کروں اوربے شک اس سعی میں جو حد درجہ بھی اختصار کروں تو سارے جہان کی سیاہی تصرف میں لاوں اور ختم کاغذ کے انبار کروں۔اسی سبب اس گل رخ، نازک بدن، پری پیکر، فتنہ خیز، خوش شکل و کم امیز نازنینِ مہ جبین کو پالینے کی خواہش اس عاجز کے دل میں ایک عرصے سے پلتی تھی۔ اب جب یہ موقع دیکھا تودل میں خیال آیا کہ کیوں نہ پادشاہزادی کو قسطان دیو کی قید سے چھڑا کر سلطانِ ایران ِعالی مقام کے پاس پہنچا دوں۔
تب تویہ خیال بھی دل میں راسخ ہوا کہ عین ممکن ہے سلطان اس خدمت سے راضی و خوش ہوکر ولایت اور پادشاہزادی عاجز کے حوالے کرکے خود کنجِ مسجد میں بیٹھ جائے اورجہاں اپنی عاقبت سنوارے وہاں میری دنیا بھی اورکوئی بعید نہیں کہ اس امرسے عاجز کے دن پھر جاویں۔ساتھ ساتھ اس سے البتہ خلق خدا کو بھی فائدہ بے حساب پہنچے کہ بھلا اس سے زیادہ عوام الناس کی خدمت کا اور کیا موقع ملے کہ میں عدل سے ان کے بیچ حکم کروں اور ان پر میرا تسلط بے اندازہ ہو۔بے شک مطلق العنان اور عادل سلطان تواللہ کا سایہ ہے ۔اسی بہانے سے فقیر کے دین اور دنیا دونوںسنور جائیں کہ بے شک خلق کی خدمت میں اللہ نے جنت کے دروازوں کی کنجیاں پنہاں رکھیں ہیں۔
ملنا مصور مسعود شیرازی سے اور مہم کی حقیقت کو سمجھنا
اسی خیال میں گم عاجز سوگیا۔ خواب میں بشارت ملی کہ سیستان میں ایک مصور،کہ اس کا نام مسعودشیرازی ہے ،کے پاس جاوں جو مجھے اس مہم کے متعلق تفاصیل بتا دے گا۔ اگلے روز، دن چڑھے سفر کا آغاز کیا اور ہر ج مرج کھینچتا سیستان جا پہنچا۔کچھ استفسار، کچھ رہنمائی اور پھر جامع مسجد کی عقبی گلی میں مسعودشیرازی سے رو برو ملاقات کی جس نے مجھے یہ بتایا۔
’’اے حسن کے بیٹے یہ جان لے کہ یہ مہم کہ جس کا تو ارادہ مصمم باندھے ہے، اپنی ترکیب میں یکتا ہے پس لازم تو یہ ہے اس کی تدبیر بھی منفرد اور مختلف کی جاوے کہ یہی انصاف کا تقاضہ ہے۔ پہلی بات یہ ازبر کر لے جس کٹھن مہم میں بھی تو اپنی جان کھپائے دیکھ لے کہیں یہ مہم ناممکنات میں سے تو نہیں کہ لاحاصل کی جدو جہد قرین مصلحت و عقل نہیں، نیز وقت کا ضیاع بھی ہے۔ اگر مہم ناممکن نہیں، تو خوا ہ کتنی بھی مشکل کیوں نہیں ہو، اگر جستجو کی جاوے اور اللہ کی مرضی شامل حال ہو تو کامیابی ضرور تمہارے قدم چومے ۔‘‘
میں نے ناممکن مہم کی تفیسر چاہی تو عبداللہ بن عثمان کا واقعہ سنایا جو درج ذیل کرتا ہوں۔
رودادعبداللہ بن عثمانؒ کی اور ناممکن مہم کی تفسیر
’’عبداللہ بن عثمانؒ بصرہ میں اتنے نامی گرامی عالم تھے کہ خلیفہ وقت تک ان کو جانتے تھے اور ان کے عِلم پر توقیر سے بنفس نفیس استفادہ کیا کرتے تھے۔ ایک دن بے خیالی میں ایک کوچے سے آپ کا گزر ہواکہ دفعتاً ایک مغنیہ کی آواز نے زنجیر بن کران کے قدم جکڑ لئے اور بے شک اس آواز کی حلاوت تو ایسی تھی جیسے کسی نے کانوں میں انگبین گھول دی ہو۔
ایک کیفیتِ مدہوش میں وہ اس گھر کے سامنے آن کھڑے ہوے جہاں سے یہ صدا ئے شیریں مانند انگبیں آرہی تھی۔کانوں میں رس گھولتی اس آواز کی چاشنی سے مجبور آپ نے ناچاردروازے پر دستک دی اور اندر آنے کی خواہش ظاہر کی جس پر وہ در بستہ یک دم وا ہوا۔ جب آپ اندر داخل ہوگئے تو بس جیسے بے خود ہو گئے۔
مغنیہ شکل و صورت سے بھی اتنی ہی حسین تھی کہ جتنا سرور اس کی آواز میں تھا۔ آپ نے مقصد آنے کا بیان کرنا چاہا لیکن خوش شکل مغنیہ نے شہادت کی انگلی اپنے ہونٹوں پر رکھ، انہیںاشارے سے کلام کرنے سے روک دیا اور پھر اپنی خوبصورت آنکھوں کے خفیف اشارے اور لب لعلیں پر مسکان سجائے ان کو حجرہ رقص میں اندر آنے کا عندیہ دیا۔ آپ اندر چلے آئے۔
حجرہ رقص میں نرم قالین بچھا تھا جس پر دف، تار، دیوان، ستور، تنبور غرض ہر قسم کا آلہ موسیقی موجودبمطابق دستور تھا۔
مغنیہ نے سلسلہ وہیں سے غنا کا سلسلہ جوڑا جہاں سے منقطع ہوا تھا:
رباعی
کس مشکل اسرار اجل را نکشاد
کس یک قدم از دایرہ بیروں نہ نہاد
من می کرم ز مبتدی تا استاد
عجز است بہ دست ہر کہ از مادر زاد*
رباعی ختم ہوئی تو گل صورت مغنیہ نے اپنا سامان موسیقی لپیٹا اور حضرت سے آنے کا مقصد دریافت کیا۔آپ نے بصد متانت یوں کلام فرمایا
’’بجز اس کے کہ آپ کی صدائے شیریں نے قدم میرے جکڑ لیے اور یوں اب آپ کی آوازکے سحرکا قیدی ہوں، کچھ نہیں۔ کیا کوئی طریق ہے کہ واسطے اس اسیری کے کچھ تعطل پاوں؟‘‘۔
اس پر وہ ماہ لقا مسکرائی
’’بے شک آپ اس عالم میں یکتا ایک عالم ہیں اور کوئی مدِمقابل آپ کا ہے نہیں کہ آپ کو پچھاڑ سکے پھر ایک مغنیہ کی آواز کیوں کر آپ کو سحر زدہ کرے؟ ۔حضرت یہ نکتہ تو تفسیر طلب ہے‘‘۔
آپ کو مزید کچھ نہ سوجھا ۔ کچھ سوچ کر حالتِ کشمکش میں نکاح کی درخواست کر ڈالی۔ مغنیہ نے جواب نہ دیا تو ردائے خجالت اوڑھے،جانے کی اجازت طلب کی۔
اس پرخندہ جبیں لب لعلیں کاٹتے یوں گویا ہوئی۔
’’اے عثمان کے بیٹے کیا میں آپ سے ایک سوال پوچھنے کی جسارت کر سکتی ہوں؟‘‘
حضرت نے اثبات میں سر ہلایا تو اس گل بہارنے یوں استفسار کیا
’’موت کی حقیقت کیا ہے اور اس بھید سے کیونکر پردہ اٹھے ؟ اگر یہ معمہ حل ہوجائے تومیں اسے اپنا مہر نکاح سمجھ لوں یوں آ پ کو اسیری سے نجات اورآپ کی کنیز کو سرور حیات ملے ‘‘۔
حضرت نے نفی میں سر ہلایا اور موت کے راز سے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا اور وہاں سے چل دیے۔ گھر آکر حضرت بہت دیر تک اسی سوال اور اس مہ جبین کے خیال میں گم رہے پر پھر اپنے تئیں کہنے لگے کہ اب تو اس وقت ہی اس کو شکل دکھاوں جب اس سوال کا جواب نکالوں، مہر نکاح دوں اور زندگی کے مزے اٹھاوں۔توسنو انہوں نے باقی تمام عمر سعی کی کہ کسو طریق سے اس گتھی کو سلجھائیں ، موت کا معمہ کامل حل ہو اور حاصل انہیں اس مغنیہ کی قربت کا ہر پل ہو ۔
صاحبِ’’حاصل بلافاصل‘‘، سید حسین کرمانیؒ نے لکھا کہ پھرتو حضرت نے گویا موت کی گھتی کو سلجھانے کی ٹھان لی۔ ملک ملک کا سفر کیا، کونہ کونہ چھان مارا اور ہرعالم سے صلاح لی،ولے اس سر بستہ راز سے پردہ نہ اٹھا سکے اور کیسے اٹھاتے ؟ یہ تو اسرارِ الہی تھا کہ جس کا پانا بالکل ناممکنات میں سے تھا اور اسی عالم میں حالت پیری، ناتوانی، بے کسی، ضعف، عجز و اضمحال اورتجرد میں حضرت کا وصال ہوگیا۔
یہ کہہ کر مسعود شیرازی نے، اللہ ان پر اپنی نعمتیں تمام کرے، فرمایا۔
’’تو سنو اے حسن کے بیٹے !
عبداللہ بن عثمان نے ایسی مہم کا بیڑا اٹھایا جس کی تکمیل کسی صورت بھی ممکن نہیں تھی کہ بے شک موت اسرار ِالہی ہے، راز مستور ہے، اس خبر کی پہنچ بندوںسے دور ہے اور تحقیق یہ راز ہے عالم امر کا جو اللہ کے علم قدیم کی گرفت میں تو مکمل طور پرہے، انسان کو جاننے کا اِذن نہیں اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کب اور کس زمین میں مرے گا تاوقتیکہ وہ اپنے اجل کو خود دیکھ چکے‘‘ ۔
بیت
زندگی اک سوال ہے جس کا جواب موت ہے
موت بھی اک سوال ہے جس کا جواب کوئی نہیں
پھرواسطے سانس لینے رکے اور سلسلہ کلام جاری رکھ، یوں ارشاد فرمایا
’’بیشک اللہ علیم ہے ، خبردار ہے اور ہم بس کسی درجے میں عالم سو لازم ہے کہ ایسی ہر کوشش سے حذر کیا جاوے جو لا حاصل ہو کہ ناکامی اس کا مقدر ہے۔تو اب جب یہ طے ہے کہ تیری یہ جستجو لاحاصل نہیں،تو یہ بھی جان لے کہ جو لاحاصل نہیں اس میں اپناوقت اور طاقت صرف کرنے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لے آیا یہ مہم، جس میں تو جان کھپاتا ہے اس قابل بھی ہے کہ تو اس کی تکمیل کرے۔ یہ اس واسطے کہ تیرے اوپر جبر نہیں کہ جسے پانا تیرے اختیار میں ہے، اسے لامحالہ حاصل ہی کیا جاوے۔ جان لو صرف وہی کام کرنے لائق ہیں جن کا مقصد بلند ہے اور آگاہ رہو صرف وہی مقصد بلند و پرتوقیر ہے جس کی نظیر نہ ہو۔
میں نے بے نظیر مقصد کی تفسیر طلب کی تو ایک حکایت بیان کی جو ضبط تحریر میں لاتا ہوں*
حکایت طاہر بن محمد نجدیؒ کے کتاب لاجواب کی
‘‘طاہر بن محمد نجدی ؒسامانی دور کے ایک عظیم عالم اور مفسر تھے۔ آپ نے صرف اللہ کی رضا کے واسطے ایک کتاب منظوم نماز کی ترتیب پر لکھنے کا اردہ کیا، دن رات ایک کیئے اور اللہ نے انہیں اس مقصد میں سرفراز کیا ۔
یہ لکھا آیا ہے کہ آپ نے اپنے وصال کے دن ہی اس کتاب کو مکمل کیا۔
آپ کے وصال کا واقعہ بھی عجیب ہے جو آپ کے شاگرد عمرو بن مسلم تہامیؒ نے اپنے رسالے میں نقل کیا اور لکھا کہ شیخ نے روز وصال بعد از عصر اپنی کتاب ’’ الصلوۃ خیر من نوم‘‘ کے آخری باب کے آخری جملے رقم ہی کیئے تھے کہ آپ کے دروازے پر دستک ہوئی۔
آپ کی زوجہ محترمہ نے دروازہ نیم واہ کیا تو انہیں دو آدمی، قد بلند ایک چار ہتھیار باندھے اور دوسرا ہاتھ میں ایک کتاب مجلد پکڑے،دروازے کے سامنے کھڑے نظر آئے۔ انہوں نے نظریں جھکائے، بہ پاس ادب، حضرت کے متعلق دریافت کیا، ان سے ملنے کا اشتیاق ظاہر کیا اور اندر آنے کی اجازت بصد احترام طلب کی اور پھر خاموش کھڑے ہوگئے۔ ا ن کی منکوحہ نے قدرے ہچکچاہٹ سے، اوٹ لے کر ان کو اندر آنے کی اجازت مرحمت فرمائی ۔وہ اندر چلے آئے۔
وہ دونوں حضرت کے سامنے با ادب کھڑے ہوگئے اور پھر اس شخص نے، جس کے ہاتھ میں کتاب تھی، حضرت کوبصد تعظیم سلام کیا اور انہیں مخاطب کرکر یوں کلام کیا
’’ اے طاہر، ذولجلال آپ کے درجات بلند کرے، کیا یہ کتاب آپ نے لکھی ہے ؟ ‘‘
آپ نے دیکھا تو دنگ رہ گئے کہ آپ کی تازہ تصنیف جس کے آخری جملے آپ نے ابھی ابھی رقم کیئے تھے ان کے ہاتھ میں بین دفتین کامل موجودتھی۔
آپ پر گھبراہٹ طاری ہو گئی اور آپ نے خیال کیا کہ شاید اس کاوش کی تصنیف میں کوئی کوتاہی سرزد ہوئی ہوگی جو انہیں اس انداز سے مخاطب کیا گیا نیز وہ اپنی نو نوشتہ کتاب، جس کی سیاہی ابھی تر ہی تھی،ان کے ہاتھ میںبین دفتین موجود ہونے کی گھتی البتہ نہ سلجھا سکے۔
آپ اسی خیال پر وبال کے بیچ میں ہی تھے کہ آپ سارا معاملہ بھانپ گئے اور آپ پر لرزہ طاری ہو گیا۔ آپ نے شہادت پڑھی اور درود محمدﷺ اور ان کی آل پر بھیجا اور بے شک جو آنجنابﷺ اور ان کی آل پر درود بھیجتے ہیں اپنا ہی بھلا کرتے ہیں۔
درود سماعت فرما کر ہتھیار باندھے مرد نے انتہائی ادب سے فرمایا کہ مبارک ہو آپ پر اور مبارک ہو آپ کی آل اولاد پر، کیونکہ جس نے آپ کی تصنیف کو پسندفرمایاہے اس نے آپ کو بعد از مغرب اپنے دربار عالیشان میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ یہ فرما کر وہ دونوں صاحب وہاں سے چل د یئے۔
آپ نے اطمینان کا سا نس لیا اور اپنی منکوحہ سے مخاطب ہو کر یوں گویا ہوئے
’’اے ام حمزہ غور سے سنو، قلم اٹھاو، لکھ رکھو اور یاد رکھو کہ فلاں یہودی کا میرے ذمے دس درہم کا قرضہ ہے جس کو فی الفور ادا کر اور اس کے پاس میری گروی انگوٹھی لوٹ کے لے لو‘‘۔
یہ فرما کر اپنی وصیت کھول کردیکھی، اس میں تغیر کی اور اس پر اپنی مہر ثبت کی۔ اسی شام مغرب کی نماز سے فارغ ہوئے تو مناجات ِصلوات کے بعد وفات پاگئے۔ بے شک ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کے جانا ہے‘‘۔
یہ کہہ کر مسعود شیرازی نے، اللہ ان پر اپنی نعمتیں تمام کرے، فرمایا
’’تو اب جان لو جب مہم قابل حصول ہے، اور اس کا کرنا بھی از روئے شریعت احسن ہے اور وہ بے نظیر بھی ہے تو پھر اس کی جستجو لازم ہے اور جان لو جستجو زندگی سے عبارت ہے اور مہم خوا ہ کتنی بھی کٹھن کیوں نہ ہو اس کے واسطے جستجو کرنا تو بس عبادت ہے۔
جان لو حسن کے بیٹے کمال تو کسی کام کا یہ ہے کہ لِوجہِ اللہ تعالیٰ کیا جاوے اور وہ اس سبب کہ چاہے وہ کام پایہ تکمیل تلک پہنچے یا نہیں، اس کی کامیابی اللہ کے نزدیک مسلم ہے اورجو سعی سعید ہو ، دل سے ہواس کاتو اجر واقعی ہے، چاہے منزل کتنی بعید ہو۔
میں نے ایک کام،جو بالفعل نامکمل ہو لیکن پھر بھی اللہ کے نزدیک مقبول ہو کی تفسیر چاہی تو آپ نے عائشہ بنت عمرو دمشقیؒ کی دعاکا بیان سنایا جو نیچے رقم کرتا ہوں۔
عائشہ بنت عمرو دمشقیؒ کی دعا کا بیان
عائشہ بنت عمرو دمشقیؒ ایک ماہی گیر کی زوجہ تھیں، نیک خصلت نیک کردار جو اولاد کی نعمت سے یکسرمحروم تھیں۔ انہوں نے ہمیشہ اللہ سے دعا کی کہ وہ ان کو صالح اولاد د ے۔ ان کی تمام دعائیں عرش کی طرف گئیں لیکن جواب ندارد۔ اس کے علی الرغم ان کی اللہ سے امید کی کفیت ہمیشہ قائم اوربرقرار رہی۔ وہ تو بس صبر کرتی رہیں، دعائیں کرتی رہیں۔
سننے والے نے ان کی مناجات کو ضرور سنا ہوگا لیکن شاید اس کو ان کا صبر بہت پسندہوگا تو ہی شاید اسی باعث دعا کی قبولیت کے آثار نظر نہ آئے۔ دعا مگر عبادت کی جان ہے اور جیسے جیسے اس نیک خاتون کی طلب میں شدت آتی گئی ویسے ویسے ان کی دعاوں میں سوز آتا گیا۔
ایک دن جب سجدے میں آنسو گرے اور ان کو یوں لگا کہ دامان صبر بس اب ہاتھ سے چھٹا جاتا ہے تو قبول کرنے والے سے شاید وہ آنسو نہ دیکھے گئے۔۔ قصہ مختصر اس رات ان کو حمل ٹھہر گیا۔
کہتے ہیں جس دن عائشہ بنت عمرو کو اندازہ ہوا کہ وہ جس نے دنیامیں آنا ہے، تین پردوں میں لپٹا قرار مکین میں آ چکا ہے ، ملک اس میں روح پھونک چکا ہے تو یہ منت مانگی کہ اگر یہ بیٹا ہو تو میں ہر صورت اس کو اللہ کی راہ میں دوں گی کہ وہ سنت رسولﷺ پر چلے ، دین کا بول بالا کرے۔
یوں انہوں نے وہن پر وہن اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا لیکن جب معاملہ آگے پہنچا تو ان کو ایک مرض نے آن گھیرا کہ سر میں درد رہنے لگا اور دن میں بسا بار دست شوئی کی حاجت ہوئی، سانس میں تکلیف رہی اور دل کی دھڑکن بے ترتیب رہی۔
جب وضع حمل کا وقت قریب ہوا تو درد زہ سے قبل ان کو ناگہاں مرگی نے ایسے تسلسل سے آن گھیرا کہ ان کا وصال ہوگیا ۔ قصہ مختصرجس نے دنیا میں آنا تھا وہ تو نہ آیا ہاں جس نے دنیا میں رہنا تھا وہ چلی گئیں اور جن کو نوازنے کی شتابی ہوتی ہے، ان کو بلایا بھی جلدی جاتا ہے۔
عاتکہ بنت حسین مروندیؒ نے اپنے رسالے ’’ عابدات و صالحات‘‘ ـ ــ میںتحریرکیاہے کہ میں نے اسی خاتون کو خواب میں جنت کے ایک باغ میں طلائی تخت پر درازدیکھا ، اس کے پہلو میں ایک رضیع تھا جو اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھا اور وہ اللہ کی ثناء میں مستغرق تھیں۔
ــ وہاں کسی نے ان سے از راہ تمسخر دریافت کیا
’’اے عمرو کی بیٹی تیرا س مسکن میں ہونا تو بہت عجب ہے ۔تیرے ہاتھوںبھلا ایسا کیا سرانجام ہوا کہ تجھ پر ان نعمتوں کا اتمام ہوا ؟ بے شک ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ نہ تو تو نے کوئی بیٹا جنا جو دین کی خدمت کرتا اور نہ تو خود اس قابل۔ ہاں البتہ دنیا میں بیماری کے سبب تیرا تو بہت ہی برا انجام ہوا‘‘
یہ سن کرآنجنا ب ﷺ پر دورود پڑھی اور پھر تبسم فرما یا
’’میں نے صبر کیا اور سعی کی کہ ایسا بیٹا جنوں جو اللہ کے دین کو سرفراز کرے اور یہ سب تو بس اسی کوشش کا ثمر ہے۔اس نے نیت دیکھی، محنت دیکھی نتیجہ نہیں ۔ بے شک وہ تو دلوں کا رب ہے، اسے نتائج سے کیا غرض اور پھر تجھے کیا غرض انعام کا اتمام تو وہ جس پرچاہے ، جتنا کرے؟‘‘۔
یہ کہہ کر مسعود شیرازی نے، اللہ ان پر اپنی نعمتیں تمام کرے، میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کچھ دیر میری طرف توجہ سے دیکھا اور یوں گویا ہوئے
’’تو اے حسن کے بیٹے کیا ہی کمال ہے کہ جب کوئی کام کیا جاوے تو صدق دل سے اس کے لئے کوشش کی جاوے اور وہ ذات باری تعالی کو پسندبھی آجائے کہ اس کی ستائش کا کوئی بدل نہیں، کوئی نظیر نہیں اوروہ ہر کام کا اجر دیتا ہے۔۔کئی گنا۔۔ چاہے وہ کام ایک ذرہ برابر کیوں نہ ہو یا وہ جو تکمیل سے کوسوں دور ہو ہاں البتہ ارادہ اس کے کرنے کا ضرور ہو۔ تو بس جان لو تمہاری کوشش تمہاری کامیابی ہے۔۔بے شک جس نے ذرہ بھر نیکی کی وہ اس کے اجر کودیکھ کے رہے گا۔
اب جب یہ سب جان چکے ہو تو بس ایک احتیاط کرو کہ قوی دشمن سے دور رہو اور یاد رکھور اس مہم میں اپنے سب سے بڑے قوی دشمن تم خود ہو۔ جان لو تیرا نفس اتنا قوی ہے کہ اگر ایک لحظہ بھی اس سے غافل رہے تو یہ تجھ پر حاوی ہو کر تجھے گمراہ کر دے گا تجھے نصب العین سے جدا کر دے گا اور جو اس سے جدا ہوئے تو خاک بر سر گریباں تار تا رہوگے اور مقصد سے دور، در بہ در خوار رہوگے۔
بیت
گفتا چراست خالی، گفتم ز بیم رہزن
گفتا کہ کیست رہزن، گفتم کہ این ملامت
جان لو حسن کے بیٹے، افراسیاب اب سن رسیدہ اور کمر خمیدہ ہے۔ ارذل العمری کے باعث اس کے دانت جھڑ چکے ہیں، زبان میں لکنت ہے۔ اس کا چہرہ تاثرات سے خالی اور جھریوں سے بھراہے۔ بال کوہ دماوند کی برف، ہاتھوں میں رعشہ، کفیف البصر طلائی پلنگ پر پڑا اپنی اجل کا منتظر ہے، نہ پلک جھپکتا ہے نہ کچھ کلام کرتا ہے۔ اس صورت پر ہے کہ نہ جیتا ہے نہ مرتا ہے۔ ملکہ حیرت، گو اب بھی آب حیات کے اثر سے جوان ہے، اس کے سینے بلند ہیں اور وہ واسطے نیکو کاروں کے فتنہ ہے، امتحان ہے مگر اسے عارضہ نسیان ہے کہ زندہ تو ہے مگر شمار میں بے جان ہے اور بے شک عمر جو گذر جاوے اس کی آرزو رائیگاں ہے۔
بیت
کھوج ملتا ہے ہر مسافر کا
عمر رفتہ کا کچھ سراغ نہیں
تو پھر تو اسی سبب طلِسم کا سب کرتا دھرتا اب اس کی بہن بہار جادو ہے سوجب تم وادی ِطلِسم ہوشربا کی طرف سفر کی ٹھان لو تو پہلے شمال کی طرف نہ جانا جہاں طلِسم کا مقام ہے ورنہ بھٹک جاوگے کیونکہ جو بھی اس سمت کا ارادہ کرتا ہے بہار جادو اپنے سحرِ پر اثرسے گاو زمین کے سینگوں میں کرہ ارض اٹکا کر یوں گھما دیتی ہے کہ قلعے اور برج کا مقام یکلخت تبدیل ہوجاتا ہے۔ پھر وہ ایک پتلا سحر کا، مخفی، اس مہم جو پر ایسا مقرر کرتی ہے جو اسے راستے سے بھٹکا دیتا ہے اورمہم جوعبداللہ بن عثمان کی طرح ایک دائرے میں ہمہ عمر چلتارہتا ہے اور یہ مہم،جو فی الحقیقت قابل حصول ہے، اسے مکمل کرناناممکن اور لاحاصل بنا دیتاہے۔
اب تدبیر اس کی یہ کروکہ پہلے جنوب میں دشت سبز ریگ میں مینار فلک آثار پہنچو اور اور وہاں موجودزینہ حیات چڑھ کر چھٹی منزل کے کمرے کے طاقچے میں زمردی کلید کا پہلا حصہ حاصل کرو۔ جان لو اس منقسم کلید کا ایک حصہ بحکم امیر حمزہ،عمرو عیار نے اس مینار میں چھپا رکھا ہے جبکہ اس کا دوسرا حصہ قصبہ مردگان میں ایک قبر میں گاڑا ہے۔جب دونوں حصے یکجا ہوں کلید مکمل ہو اور طلائی نظر آوے۔خوبی کلید کی یہ ہے کہ جب تک تیری ملکیت میں ہو کوئی دھوکہ، جادو یا فریبِ نظر تجھ کو مات نہ دیوے جب تلک تو خود اس میں شامل نہ ہووے اور کوئی تجھ سے کلید نہیں لے سکتا تا آنکہ تو خود اسے کسی کے سپرد کرے۔توبس یہی طلائی کلید برج کا در وا کرے، عندلیب کو رہا کرے۔
تو ازبر کر لو کہ جب مینارفلک آثار میں داخل ہو تو اس میں پڑے نقارے پر چوٹ مارو۔ اس کی تاثیر سے تو مخفی پتلے کے سحر سے محفوظ رہے گا۔ تو پھرجس سمت آواز زیادہ بلندسنائی دے بس اِسی سمت تیرا راستہ ہے گو یہ شمال ہی کیوں نہ ہو۔
پھر اس نے مجھے ایک دو رنگی طلسمی چھڑی عطا فرمائی اور وادی ِطلسم ہوشربا تلک پہنچنے کی پوری تفصیل مو بہ مو بتائی جو میں نے ازبر کر لی اور جو بخوفِ طوالت ِبیان رقم کرنے سے احتراز برتا ہوں اور یوں عزیزو میںرات کو اپنے پہلے پڑاودشت سبز ریگ میں جا پہنچا۔
روداد مینار فلک آثار میں رات کی اوربات زینہ حیات کی
جب عالم بے مہر، مہر عالمگیر کے نظارے سے محروم ہوا تو ساحر شام کے رنگوں کا کھیل بھی افق پر بتدریج معدوم ہوا ۔تانا بانا لے کرستارے آگے بڑھے اور سطح گردوں پر مستعدی سے سیاہ چادر بنی جسے شب نے اوڑھا، اور شان استغنا سے زینہ زینہ اترنے لگی ۔ جب ایک دو گھڑی رات بیت گئی تو عاجز کی حالت غیر ہوگئی لیکن چھائی ہوئی تاریکی کے شر سے اللہ کے حضور پناہ مانگی اور موجب فرمانے کے طلسمی چھڑی اپنی جیب سے نکالی اور بیچ ستاروں کے دبِ اکبر کو تلاش کیا۔ اس کے ستاروں المغریز، مزار اور القائد کو ایک قوس کی صورت ایک مسلسل لکیر سے جوڑا اور اس لکیر کو قوس کی صورت آگے بڑھاتاگیا تو اِختتام ا س کا برجِ اسد کے ستارے قلب الاسد پر ہوا جس کے اوپر چار ستارے گنے تو فقیر اپنے مطلوبہ ستارے راس الاسد پر پہنچا۔
میں نے حساب لگایا تو مریخ عین طلسمی چھڑی کے اوپر نہ تھا جس کا بین مطلب یہ تھا کہ مریخ راس الاسد سے آگے جا چکا تھا اور یہ ماجرہ دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا اور بے بسی سے بس آہیں بھرتا رہ گیا کہ مجھے کامل یقین تھا کہ اب ایک ہزار تین سال، دو مہینے، چالیس دن، دو ساعتیں، ایک دقیقہ اور دس ثانیے بعد دوبارہ یہی ترتیب فلک میں عین اسی صورت بنے اور مینار فلک آثار عدم سے وجود میں آسکے اور میں حسرت سے ہاتھ ملتا رہ گیا۔
پھر یکایک مجھے اپنے استاد کی بتائی ہوئی بات یاد آ گئی کہ بے شک مریخ اگر ایک ہفتہ آگے جاتا ہے تو کچھ دن پیچھے بھی تو سفر کرتا ہے۔ جب میں نے دوبارہ حساب جوڑا تو یہ مریخ کے پیچھے کے سفر کا وقت تھا اور عین راس الاسد کے مقابل آنے میں ابھی مطلق سترہ پہر باقی تھے اور یوں مسعود شیرازی کی ہر پیشن گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی۔میں نے للہ کا شکر ا ادا کیا ۔
بیت
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
اگلی رات طلسمی چھڑی قلبِ دشت میں اس صورت گاڑی کہ کالا سرا زمین میں جبکہ سرخ سرا آسمان کی طرف تھا۔ کیا نظارہ کرتا ہوں کہ فلک گویا ایک فلک ہے یا ستاروں بھرا کوئی سفینہ ہے اور قدرت کا کیا قرینہ ہے کہ احمریں سیارہ، جلاد فلک، جنگ کا دیوتا،مریخ رو بہ گردش اس صورت آسمان میں ہے گویا ایک نگینہ راس الاسد کے ساتھ عین قران میں ہے۔ جب رات ایک گھڑی اور بیت گئی تو اچانک ایک شعلہ ، تیز، مانندتیرآتشیں طلسمی چھڑی سے بلند ہوا اور وہ اخگر صورت،سرعت رفتار سیدھا مریخ کے قلب میں جا اترا۔مریخ پر لرزہ طاری ہوا اور اس سے گویا مینہ نور کا برسا اور ایک شبیہ مینار کی صحرا میں ہویدا ہوئی۔
میں سرعت رفتار جانب مینار بھاگا اور دروازے پر تین دستک دے کر سورۃ البروج کا ورد کیا۔ دروازہ بے حیل و حجت واہ ہوااور یوں میں نے مینار کے اندرقدم رکھا۔ ثانیوں بعد روشنی کا منبع یکدم بجھ گیا مریخ کی حرکت کچھ ایسے تیز ہوئی گویا شہاب ثاقب، پھر سب کچھ معمول پر آگیا۔ مینار نوری صورت سے خاکی قالب میں آگیااور میں نے اس کا بغورمشاہدہ کیا۔
حیرت کا کارخانہ، عجوبہ زمانہ مینار فلک آثار شفاف اور بنا میں مخروطی تھا ۔ اس کا قاعدہ ایک کامل دائرہ تھا جس پرعمارت اس صورت قائم تھی کہ گویا اپنے اوپر بل کھا رہی ہو۔ نور گذراں اینٹوں سے بنی دیوار میں جابجا روشن مشعلیں گڑی، دھڑ دھڑ جلتی تھیں۔ کیا نظارہ کرتا ہوں مینار کے قلب میں ایک زینہ، معلق، پیچ دار تھا، جو زینہ حیات تھا، اللہ کی قدرت کا شاہکار تھا۔
زینے کے دونوں حصے ایک دوسرے کے متوازی بل کھاتے، خم بہ خم، بیچ میں ایک دوسرے میں ضم، ہوا میں معلق رو بہ گردش تھے گویا دو سانپ ایک دوسرے سے لپٹے پیچ در پیچ،تائو در تائو تھے اور خم کھاتا زینہ دور سے ایسا لگے جیسے کوئی ستون۔جب غور کیا تووہ تو شبیہ معلق اور عکس برجستہ نماتھی لیکن جب ودرد سورۃالکوثر کا کیا تو اس کے اثر سے وہ زینہ شبیہ سے مادی حالت پر آگیا اور مجھے اس پر پیر رکھنے اور جمانے میں دشواری پیش نہ آئی۔
مبرہن رہے کہ ہر پائدان میں دو رنگ اور کل رنگ چار تھے کہ بالترتیب سرخ، سپید، سبز اور جامنی تھے ۔ بل کھاتے زینے میں جامنی رنگ سبز جبکہ سرخ رنگ سپید سے جڑا اور اس کے متوازی تھااور زینہ ہلکے خم کے ساتھ ایک زاویہ خفیف بنا کراوپر کی طرف رو بہ سفر تھا اور ہر دس سیڑھیوں کے بعد ایک چکر مکمل ہوتا تھااور زینہ رفعت میں ایک منزل بلند ہوتا جاتا تھا۔
منازل تعداد میں زمین کو منزل مان کر آٹھ تھے۔ جفت منزلوں کی پہنچ راست جبکہ طاق منزلوں کی پہنچ چپ جانب سے ممکن تھی۔ زینے کی حرکت سے ایک صدایوں پیدا ہوتی تھی کہ گویا کوئی ذکر میں مشغول ہو اور خفیف آواز سے مناجات اپنے رب کی پڑھ رہا ہو کہ بے شک تسبیح کرتا ہے واسطے اللہ کے جو کچھ بھی ہے آسمانوں کی وسعت میں اور زمین کے قلب میں۔
تمام کھلے منازل غیر مقفل تھے سوائے آخری منزل کے، جس کا دروازہ آہنی تھا اور اس پر ایک بھاری زنگ آلود قفل پڑا تھا اور وہیں عمرو عیار کی زنبیل تھی۔ ہر منزل کا نام اجرام فلکی پر تھا اور ترتیب وار زہرہ، ماہ، مریخ، مشتری، زحل، عطارد اور آفتاب تھے۔
میں نے بمطابق فرمانے کے ہمت مجتمع کرکر نام اللہ کا لیا اور اپنا دایاں پاوں پہلے پائیدان پر رکھا۔ ساٹھ قدم گن کر دائیں زینے سے چھٹی منزل میں پہنچاکہ جس میں ایک نقارہ ایسا پڑا تھا کہ محیط میں کم و بیش چھ گز تھا۔ میں نے نقارے کے اوپر دیوار میں ایک طاقچہ دیکھا جولمحہ بہ لمحہ کھلتا اور بند ہوتا تھا اور جس میں زمردی کلید کا پہلا حصہ پڑا تھا ۔ میں نے اسے بسم اللہ پڑھ کر اٹھایا اور وہاں موجب فرمانے کے طلسمی چھڑی رکھ دی جب اس امر سے فارغ ہوا تو نقارے کی طرف متوجہ ہوا اور اس کا بغور مشاہدہ کیا۔
کیا دیکھتا ہو ں ایک نقارہ دھرا ہے جس کے ساتھ ایک منقش چوب پڑاہے۔ نقارے پرسیاہ رنگ سے چار سمتوں کے نام خطِ کوفی میں درج تھے۔میں نے چوب اٹھایا تو نقارے میں صورت ایک ارتعاش کی پیدا ہوئی۔ اس منظر ِحیرت ناک سے دم بخودمیں نے پہلے نقارے کے مشرقی اور پھر مغربی کنارے پر ضرب دی لیکن کوئی صدا نہ آئی۔ شمال پر ضرب پڑی تو ایک صداے دردناک سنائی دی، ارتعاش کے جس سے تمام مینار یکبارگی ایسا ہلے گویا اب گرے۔ اس صدائے پر ہیجان سے اس سمت کا پتہ چلا جہاں سے ایک دن کی مسافت پر قصبہ مردگان کا گورستان تھا جو طلسم ہو شربا سے چند دن کی مسافت پر تھا اور وہیں سے مجھے زمردی کلید کا دوسرا حصہ ملنا تھا۔میں نے دل میں قصد بستی مردگان کے گورستان کا باندھا اور اپنے تئیں عزم بالجزم کیا کہ کل سفر کا آغاز کروں۔
رات مینارِ فلک آثار میں بسر کرکر اگلی صبح، صحرا سے نکل ،اپنے گھوڑے ہشطرب کو ایک سیٹی سے بلایا۔وہ رہوار صاعقہ رفتارچہار نعل رفتار واسطے سفر کے تیار چشم ذدن میں میرے سامنے آن حاضر ہوا۔ میں چلتا چلا گیا، میرا ہدف ہر گام میرے قریب آتا چلا گیا۔ صحرا کی وسعت ہشطرب، غیرت صرصرکے سموں کے نیچے سمٹ گئی اور ریت پر اس کے نشان بنتے اور مٹتے چلے گئے ۔
بیت
نقش پا کی صورتیں وہ دل فریب
تو کہے بت خانہ آ زر کھلا
(حصہ دوم)
پہنچنا بستی مردگان میں اور حاصل کرنا کلید کا دوسرا حصہ
آدھے دن کی مسافت پر فقیرکو اس صحرائے بے آب وگیاہ میں ایک قطعہ سبزے کا نظر آیا جس کو شروع میں عاجزایک سراب سمجھا لیکن قریب پہنچا تووہ ہرا بھرا نخلستان تھا ۔یہ دیکھا تو اللہ کا شکر بے حساب ادا کیا۔ نخلستان کیا تھا بارہ تیرہ کھجوروں کا جھنڈ تھا جس میں ٹھنڈے پانی کا ایک چشمہ رواں تھا اور طیور ثنا میں رب العزت کے مشغول تھے اور مدہوش در درود رسول مقبول ﷺتھے ۔ بھوک سے نڈھال پکی کھجوریں دیکھ کرمیرا دل للچایا اور ارادہ کیا کہ ان کوتوڑکھایا جائے۔
میں ابھی کسی پتھر کی جستجو میں ہی تھا کہ ایک بزرگ، سفید ریش، ہاتھ میں عصا، خضر صورت سے سامنا ہوا۔ میں ان کی تقدیس سے مرعوب ہوا اور سلام کیا۔ میری پیشانی پر میری تہی شکمی لکھی دیکھی تو انہوں نے تبسم فرما کرمجھے ایک پتھر تھما کر، کھجوریں گرا کر، تناول کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔
ٹھنڈا پانی اور میٹھی کھجوریں کھائیں تو میری جان میں جان آئی۔بعد از طعام، اللہ کی حمد پڑھی جس نے مجھے کھلایا پلایا اور مسلمان پیدا کیا اور پھر اس بزرگ کا شکریہ بھی ادا کیا اور ساتھ اپنے سفر کی روداد پر ہیجان مو بہ مو بیان کی۔
پیر مرد عالی صفت نے پورا بیان سنا تو اس پتھر کو،جس سے میں نے کھجوریں گرائیں تھیں، اٹھا کر یوں گویا ہوئے۔
’’اے حسن کے بیٹے طلسم کی سرحدیں بحکم بہار جادو اب اگلے دس ہزار سال کے لئے مقفل ہیں اور اسے صرف قلب فیروزہ سے ہی کھولا جا سکتا ہے‘‘
یہ کہتے ہوئے انہوںنے پتھرمجھے تھمایا تو دیکھا کہ اب اس کا رنگ ہلکا آسمانی مائل تھا۔
’’جب یہ سنگ فیروزہ پھٹ جاوے تو اس کے درمیان سے ایک اور بیضوی پتھر انار کے دانے جتنا نکلے گا اوریہی قلب فیرروزہ ہے۔ اب جب یہ دستیاب ہو تو جنوبی سرحد کے پاس پہنچو، قلب فیروزہ کو آسمان کی طرف اچھالو اور تین بار معوذتین پڑھو پھر دیکھو کلام پاک کی برکت سے تیرے لیے ایک در مخفی نوارنی مخلوق کھول دے گی سو یہی تیرا طلسم میں مقام دخول ہے۔
یاد رکھو جو اس راستے کے بغیر طلسم میں داخل ہونے کی جستجو کی تو بہار جادو کی شریر تلمیذہ فیروزہ جادوگرنی کے سحرکے اثر سے بھسم ہوجاگے‘‘۔
جب میں نے رخصت ہونے کی اجازت طلب کی تو انہوں نے مجھے پینے کو دودھ دیا۔ میں نے نظر بچا کر سنگ فیروزہ اس میں ہلکا سا ڈبو دیا تو دیکھا کہ اس کی تاثیر سے دودھ پھٹ گیااور مجھے یوں اس بزرگ کی بات کی صداقت کا یقین ہوچلا کہ بلاشبہ وہ پتھر فیروزہ ہی تھا۔
عزیزوباتمیزو!
میں اب قصبہ مردگان کی طرف چلا کہ میں نے اس بستی کے گورستان سے زمرد ی کلید کا دوسرا حصہ لینا تھا۔ قصبے میں داخل ہوا تو رات ہوچکی تھی۔ مشکل سے ڈھونڈ کر ایک سرائے میں قیام کیا۔
اس بستی کے متعلق یہ سنا تھا کہ پیشتر لوگ اس بستی میں مر کر بھی جیتے تھے، کہ نہ تو مردہ تھے اور نہ زندہ۔ سماعت سے عاری مانند بہائم زندگی بسر کرتے تھے، ظلم ہوتے دیکھ کر آنکھیں بند رکھتے تھے، زبانوں کو قفل دے بیٹھے تھے اور یوں اس طوروہ دنیا اور ما فیہا سے بے خبر زندگی بتاتے تھے۔میں نے فریضہ شب ادا کیا اور مسنون اذکار پڑھ کرسو گیا۔
میں ابھی نیند اور بیداری کے بیچ معلق ہی تھا کہ یکایک ایک غلغلہ بلند ہوا ۔ میں جلدی سے نکلا، اسمائے رد سحر پڑھے، اپنا جڑاو خنجر نیفے میں اڑساکہ دافع نحوست ہے اور ارادہ کیا کہ معلوم کروں کہ نیم شب اس شور و غوغا کاآخرباعث کیا ہے۔ چلتے چلتے عاجز ایک چوراہے میں پہنچا۔
نظارہ کیا کہ چوراہے میں لاکھوں کا مجمع تھا، کوئی پا پیادہ کوئی اسپ سوار اور سب کے سر آسمان کی طرف اور آنکھوں کی پتلیاں چڑھی ہوئی تھیں، آہ وبکاکرتے، جوق در جوق رواں اس کیفیت میں مخمور، شہر سے باہر جانے کی سعی کرنے لگے اور پھر نوحہ ایک آواز مہیب سے کرنے لگے کہ ہنستے بھی تھے اور رو بہ گریہ بھی تھے۔ اس انبوہ کثیر، جمِ غفیر کے اس بے مقصد واویلے سے دل دہل تو گیا اور ایک طرح کا دھڑکا سا بھی لگا رہا کہ مفت میں مصیبت مول لینا قرین مصلحت نہیں پرناچار ان کے ساتھ چلتا چلا گیا کہ شاید اس میں کوئی بھید آفاقی ہو سو کچھ خبر اس کی بھی لینا چاہیے۔ چلتے چلتے سارے لوگ شہر سے باہر ایک وسیع و عریض گورستان میں پہنچ گئے۔
وہاں کا منظر الگ تھا، تمام قبریں شق، ادھڑی پڑیں تھیں، تابوت کھلے اور کتبے بکھرے پڑے تھے۔ تب میں سمجھا کہ اس شہرِ متروک کے تمام باسی مردہ ہیں اور یہ شہر، شہر خموشاں ہے اور رہنے والے اس شہر کے تو مرجانے سے، نیست و نابود ہونے سے بھی کئی گنا بڑا عذاب میں ہیں۔
میں نے مصور کی ہدایت کے مطابق گورستان میں سبز قبر کو جنوبی حصے میں پایا اور اس سے داہنی طرف انتیس قبریں گنیں اور تیسوں قبر کے سامنے رک گیا۔ یکایک وہ قبر شق ہوئی اوروہاں سے کلید کا دوسرا حصہ دستیاب ہوا۔
اب جب دونوں حصوںکو باہم ملایا تو نظارہ کیا کہ مکمل کلید سبز رنگ سے طلائی ہو گئی اور تب میں نے جانا کہ اب مجھے وہ کلید مل چکی ہے جس سے زندان کو واکروں جہاں پادشاہزادی مقید تھی جس کو اذیت حبس سے رہا کروں تو ہی مجھے ولایت اور آغوش گلشن خوبی کی ملے۔ انہی خیالوں میں ڈوبا میں طلسم کی طرف چل پڑا۔
پہنچنا وادی طلسم ہوش ربا میں اور ملنا فیروزہ جادوگرنی سے
چنددن کی مسافت کے بعد میں ایک تاریک تر سرنگ پرخطر میں جا پہنچا۔ اند ھیرے میں ڈوبی یہ سرنگ وادیِ طلسم ہوشربا کا پہلا مقام دخول تھا۔ رات ہوچکی تھی سومیں نے اللہ کا نام لے کر اس کی حدود کے بالکل قریب اپنا خیمہ گاڑا اور رات بسر کی۔ ہمہ شب اس سرنگ سے آوازیں جنوں اور چڑیلوں کی آتی رہیں کہ جسے سن کر زہرہ آب ہوجائے لیکن میں سپاہی زادہ تھا، رستم صفت اور زال خصلت جانبازوں سے لڑا تھا سو ان آوازوں سے ڈرا نہیں بلکہ اس سے میرا حوصلہ اور قوی ہوا۔میں منتظر رہا اور جب فریضہ سحر سے سبکدوش ہوا تو سرنگ میں داخل ہوا۔
اندر گھپ اندھیرا، ہاتھ کو ہاتھ نہ سجھائی دے، میں گھوڑے کے زین کو پکڑے اللہ کے آسرے پر چلتا رہا اور مجھے عجیب مشاہدات کا سامنا ہوا۔یوں لگا جیسے مجھے اپنے جسم پر کسی کے ہاتھ محسوس ہوئے۔ میں نے پروا ہ نہ کی اور ورد کلام پاک جاری رکھا۔ آگے مجھے اپنے چہرے پر کسی کی تعفن زدہ سانسیں محسوس ہوئیں لیکن میں نے خوف کو اپنے اوپر غالب نہ آنے دیا۔ پھر مجھے اپنے جسم پر کسی درندے کے پنجے لگتے محسوس ہوئے لیکن میں نے اللہ کا نام لیا اور اس کے بارے میں کچھ نہ سوچا۔
پھر مجھے یوں لگا کہ میرے دائیں بائیں تِیر گزر رہے ہیں جو بس میرے جسم کو چھو کر گذر رہے ہیں اور تلواریں اور گرز میرے قریب ایسے چل رہے ہیں کہ مجھے دو ٹکڑے کر دیں یا میرا سر پاش پاش کر خشخاش بنا دیں،لیکن میں نے اللہ کا نام لیا اور اس کے بارے میں کچھ خیال نہ کیا۔ آخر کار میں اس تاریک سرنگ سے باہر نکل آیا اور طلسم ِ ہوش ربا کی سرحد تک پہنچ گیا۔
کیا دیکھتا ہوں کہ ایک وادی ہے پر ازکوہسار و مرغزار ہر جا سبزہ بے شمار، درخت بے حساب پھل ناشپاتی، امرود، خوبانی،سیب ،آم،کھجور،آڑو،انجیر،پستہ،بادام،اخروٹ، انگور، انار غرض ہر پھل موسمی اور غیر موسمی لاجواب اور دستیاب۔ گھر وہاں نیلے، پیلے، سرخ، قرمزی، سبز، گلابی، خاکستری، جامنی، سفید، سیاہ، مٹیالے، نقرئی، زریں، کوچے پکے اور ساکنین قدآور حسیں، خندہ جبیں۔
زنان ِوادی پری صورت و خوبصورت، نیم برہنہ ولی خوش پوش،لب یمنی لعل صورت، مسکراہٹیں زہد شکن، خوبصورت نین نقشے والی، نازنین مہ جبین مانند مہ رخان شہر گل رویان، دست و بازو نرم نازک و سپید، قوسیں قاسیں سب برابر،ٖغالیہ مو، کچیں سخت، رانیں بھری سڈول اور ہر ایک گل رخ، رنگ جن کا سرخ و سپید جیسے برف پر برگ گلاب پاشیدہ، رخسار گویا قندھاری انار، گیسو تابدار، قد فلک آثار،ناک ستواں آنکھیں کچھ زمرد رنگ کچھ نیلم رنگ اور بال طلائی یا جیسے بھڑکتی آگ۔میں نے اپنے نگاہوں کی حفاظت کی لیکن کر نہ سکا دوبارہ دیکھنے کی ہوس تھی سو ایک بار جی بھر کے دوبارہ دیکھا اور پھر بھی کن اکھیوں سے دیکھا لیکن سوچا یہ سب کی سب فتنہ ہیں۔
بیت
ظاہر نقرہ گر اسپیدست و نو*
دست و جامہ ہم سیاہ گردد ازو
یکایک سنگ فیروزہ یاد آیا، جیب سے نکالا تو دیکھا کہ وہ اب شق ہو چکا تھا اور اس میں سے ایک انار کے دانے جتنا قلب فیروزہ نکل آیا تھا۔ میں نے اللہ کا نام لیا اور تین بار معوذتین پڑھ کر قلب فیروزہ آسمان کی طرف اچھالا۔ پاک کلام کی برکت سے ایک در ِغیبی نموردار ہوا اور میں اس میں داخل ہوا۔ اب میرے اور ساکنان شہر کے بیچ ایک غیر مرئی دیوار تھی کہ وہ مجھے اور میں انہیں دیکھ سکتا تھا لیکن وہ میرے قریب نہیں آسکتے تھے۔
شروع میں انہوں نے مجھے اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کی لیکن میں نے دل میں ارادہ مصمم باندھا ہوا تھا کہ ہدف پر نگار رکھ کر کلید سے برج کو واہ کروں گاپادشاہزادی کو رہا کروں گا اس سے نکاح کروں گا اور پھر کچھ سوچ کر کسی نازنین سے یہاں نکاح ثانی یا ثالث حتی کہ رابع کروں گا اور ان کو دین اسلام سکھا، تعظیم اہل بیت مطہرین کی بتلا کر راہ راست پر لاوں گا تاکہ یہاں بھی اسلام کا بول بالا ہو اور کچھ مزہ عاجز بھی زیست کا چکھے۔
چشم زدن میں میرے آنے کی خبر فیروزہ جادو کو ہوگئی۔ وہ دوڑتی چلاتی میرے سامنے آگئی۔ اس کے چہرے کی طرف اک نظر کی تو دیکھا کی اس کی ایک آنکھ سیاہ تھی جبکہ دوسری نیلم مشابہ اور ہونٹ دونوں سبز تھے۔ شروع میں مجھ سے باتیں آرام سے کیں، کچھ تعریف کی، ستائش کی، خوشامد کی لیکن فقیر اس کے جال میں نہ آیا اور جب اسے اپنی دال گلتی نہ دِکھائی دی تو پر غیض لہجے میں مجھ سے یہ کلام کیا
’’اے پاگل شخص تو کس جنون میں اپنی جان کو کھپاتا ہے ؟ تجھے کچھ معلوم ہے عندلیب قسطان کی پسند ہے۔ اگروہ تیرے ارادے کا سنے، تو تجھے کچل ڈالے لیکن یہ میں ہو ں جو اسے روکے رکھوں۔ جان لو قسطان جو چاہے کرے، جس کو جہاں سے اٹھا لے وہ آزاد ہے کہ اس کو بہار جادو کی پشت پناہی حاصل ہے۔اب سنو،تو اگر اس سودے سے باز نہ آیا تو ہم تجھے بھسم کر دیں گے‘‘
’’بڑی آئی بھسم کرنے والی، جاو اپنی راہ لو۔ ہمارا ارادہ مصمم ہے اور ضامن ہمارے فرشتے ہیں جو تیرے ناپاک جادو کا توڑ جانتے ہیں‘‘
پھر اس منحوس جادوگرنی نے سحر الاموت کا منتر پڑھا اور میری طرف پھونکا جس کی تاثیر سے میرے قدموں کے نیچے ایک ارتعاش کی صورت پیدا ہوئی، زمین پھٹ گئی اور قعر زمین میں لاوے کا سمندر نظر آیا جس میں آتشیں سانپ تھے۔ میرے قدم ڈگمگائے اور قریب تھا کہ میں گر پڑوںلیکن ایک رسی آسمان سے میرے سامنے معلق ہوا میں آئی اور میں نے اسے پکڑ لیا۔
یکے بعد دیگرے اس جادوگرنی نے اپنے تمام گر جو اس کو آتے تھے مجھ پر آزمائے لیکن اس کی ایک بھی نہ چلی اور میں چلتا رہا۔ ہوتے ہوتے مجھے دور سے برج نظر آگیا اور میرے چہرے پر بشاشت پھیل گئی۔ یہ دیکھا تو اس کو تاو آگیا لیکن کر کچھ بھی نہ سکی، بال نوچتے، دانت پیستے پیر پٹختے، گریباں پھاڑتے، با آواز بلند بین کرتے، نوحہ کناںدائیں بائیں تھوکتی ہوئی چلی گئی۔
میں نے سوچا کہ برج تک پہنچنے سے پہلے ایک را ت آرام کروں تاکہ تازہ دم ہو کر اس سنگلاخ کوہسار پر چڑھ سکوں۔ اس واسطے میں نے ایک سبزہ زار کا انتخاب کیا، خیمہ گاڑا اورہتھیار اتار کر جھاڑیوں میں چھپا دیئے۔ ایک یاقوتی خنجر کہ چشم زدن میں سر تن سے جدا کر دے اور ایک چوبی چاقو واسطے شکار کے اپنے لباس میں البتہ رکھ لیا۔ ایک بڑا سا گڑھا کھود کر اس میں خشک لکڑیاں اور پتے ڈال کر آگ روشن کی کہ دافع جنات وبلیات و حیوانات وموذی حشرات ہو نیز شکار بھی بھون سکوں۔
اس ترکیب سے فراغت حاصل کی تو گھوڑے کو ایک چھاگل پانی کی پلا دی اورکھلا چھوڑ دیا کہ خوب سیر ہو کر چرے۔خود بھی مشکیزے سے جی بھر کے پانی پیا اوروضو کیا۔ وقت نصف النہار سے ایک گھڑی گزر چکا تھا سو ظہرین ادا کی،چھاگل اور مشکیزہ ساتھ لیا کہ کسی جھرنے یا ندی سے تازہ پانی بھر لوں اورکچھ کھانے واسطے شکارکی تلاش کروں۔ میرے گھوڑے کو جنگلی سیب بہت مرغوب تھے توسوچا واپسی پر کچھ جنگلی سیب توڑ لاوں۔
بہار اپنے جوبن پر تھی۔ میں نے سوچا یہ وادیِ طلسم ہوش ربا بھی کیا حسین مقام ہے کہ دنیا کی ہر آسائش یہاں وافر موجود ہے اور میں جہاں ساری عمر رہتا رہا کس قدر بیہودہ جگہ ہے۔وہاں کوئی نازنین اس وادی کی کسی نازنین جیسی حسین نہیں۔ وہاں کوئی جادو نہیں ہر وقت زہر بھری حقیقت کا سامنا ہے۔ وہاں زندگی رینگتی ہے، سسکتی ہے یہاں سرعت ہے، جمال کا کمال ہے، موسیقی ہے مطرب ہیں ساقی کے جلوے ہیں شراب کی مستی برستی ہے شباب کا عروج ہے اور وہاں ہر چیز کا فقدان ہے اور ہر سو پستی ہے۔ پھر سوچا وہاں محبت ہے مٹھاس ہے، یہاں دکھاوہ ہے، وہاں کی مٹی میں خوشبو ہے یہاں کی مٹی میں تلخی ہے، وہاں دل ہیں یہاں پتھر ہیں۔
ابھی میں انہی خیالوں میں گم رواں تھا کہ کسی خاتون کے رونے کی آواز سنائی دی۔ درختوں کے اس پار ایک پیر زن کو دیکھا کہ حجاب اوڑھے رو بہ گریہ ہے۔ میں نے سوچا کہ باز پرس کرنی لازم ہے کہ رمز اس کے رونے کا پاوں اور حتی المقدور مدد کروں۔
میں رفتہ رفتہ اس کے قریب گیا اور گرئیے کی بابت استفسار کیا
’’اے نیک مرد میں مسلمان ہوں کہ جب جوان تھی شاہزادہ نورالدہر کے عشق میں قبول اسلام کیاجس کی پاداش میں افراسیاب کا ظلم سہا اور آج تک اس طلسم سے نکلنے کے لئے بیقرارہو ں۔ آج پتہ چلا کوئی دین اسلام کا فرزند یہاں آیا ہے تو چلی آئی کہ اس سے مدد طلب کروں‘‘۔
’’آپ مخمور جادو تو نہیں ہیں؟‘‘
’’ارے ہاں لیکن جادو پر لعنت بھیجتی ہوں اور امت میں رسول امینﷺ کی خوش ہوں‘‘۔
یہ سنا تو اس پر کامل اعتبار کیا اور اس کے ساتھ اس کے گھر چلا ٓیا۔
ذکر مخمور جادو کے گھر کا اور الماس جادو کا دیدار کرنا
مخمور جادو کا گھر، گھر نہیںایک قصر تھا، میلوں پر پھیلا تاحد بصر تھا۔ ایک جنت مثال قطعہ، ہر سو کھجور، بلوط، شیشم، زیتون ، دیودار، کیکر، جامن، توت، املتاس، پھلائی، پیپل، نیم، بیری، شاہ بلوط، خوبانی، انار، ناریل، سیب غرض ہر درخت پھلدار اور غیر پھلدار وہاں بمطابق وافر موجود تھا۔
اس محل کے سات دروازے تھے اور اس میں تین سو پینسٹھ کمرے، بارہ دالان، تیس سبزہ زار، آٹھ ہزار سات سو ساٹھ دریچے اور ساٹھ فوارے تھے۔ خود اس محل میں چوبیس ہزار ستون تھے اور ہر ستون کی اونچائی ساٹھ گز تھی۔اس محل کے سبزہ زارکا سنگ فرش، پیادہ رو، نیمکت، میز و کرسی ِباغ، اور فواروں سے جڑے حوض سب مرمریں تھے جس میں سرخ اور سبز رنگ پانی اس حسن سے جھلکتا تھا کہ آنکھوں کو ترواٹ ملے، جسم میں کفیت خمار کی بنے غرض یہ کہ وہ محل ہر گام جنت نظیر تھا۔
اس محل عالی شان میں ہر گام اغلام پوشاک زریں پہنے، سر پر کلاہ کج، ہاتھ میں پیالے مشروب کے پکڑے، چست و چالاک اور مستعد جملہ احکام بجا لانے میں ہر دم ہوشیار و تیار تھے۔ دیوان خانے میں ہر سو موسمی اور غیر موسمی خشک و تر پھل وافر موجود تھا، پوری فضا معطر تھی اور اس گلشن پر سحر پر گویا خواب کا گماں ہونے لگا۔
پھر مخمور جادو کی بیٹی، الماس جادو آگئی۔
اسے رو بہ رو دیکھ کر میں دم بخود رہ گیا کہ جوان تھی، طویل قامت تھی اور نازک اندام تھی۔ اس پری رو کا چہرہ کتابی اورسرخی مائل رخسار گلہائے بہار تھے۔ عارضِ پر نور خلق سے مستور، گویا جام ِشراب تھا کہ بادہ گل رنگ سے پر بے حساب تھا۔ اس کے دانت موتیوں مشابہ، ہونٹ یاقوت، منہ’’ ن‘‘کا نقطہ اور کنج دہن پر خال مشکین ایسا جو دلوں کو موہ لے۔
آنکھیں اس پری پیکر کی چشمِ آہو سے کہیں تیرہ تر تھیں۔ مژگان لمبے جاروب رخسار، ابروئیں پر خمار گویا دو شمشیر یں برہنہ آبدار، جیسے دوگنبدخوبصورت پایئدار، یا دو ساغر مے مقلوب، گویا نیم کش دو کمان، جیسے جوڑا قوس قزح کا رنگ برنگ، یا دو دریا خم بہ خم یا جیسے لبان شیرین گل رویان۔
اس کے بال طویل ریشمی سیاہ جیسے شب دیجور، مانگ سیدھی تاباں جیسے وسعتِ سما میں کہکشاں۔اس نازنین خندہ جبین کی گردن لمبی صراحی دار تھی،کمر ’’الف‘‘ صورت، خالق کے تخلیق کا شاہکار تھی اور ہاتھ سیمیں ایسے کہ جو کسی شے چھو لیں تو وہ سونا بنے۔ قدم ایسے جیسے بادِخنک، سبک رفتار جیسے موجِ ہوا پر سوار، سانس ایسی کہ از جان رفتہ لوگوں میں جان ڈال دے۔ غرض یہ کہ پورا وجود گویا نسیم سحر کامعطر جھونکا۔۔جو لہر لہر آتے شب گرفتہ،درد مند، پر ہیجان، پر آشوب،آزردہ اوررو بہ گریہ دلوں کو قرار بے شماردے۔
آرائش جمال میں لاثانی اس پری وش کا لباس بے داغ اوربے شکن تھا، جسم سے چپکا جیسے جزو بدن تھا۔ گردن میں زنجیر طلائی جس میں جڑا نگ الماس کا تھا، کانوں میں آویزے سیمیں، ہاتھوں پر تحریر حنا کی موہوم اور انگشت حلقہ میں ختم ِالماس۔ پاوں میں پازیب نقرئی سبک، جوتے طاوس کے پروں سے بنے اس سے کہیں سبک تر۔
عزیزان جہان!
اس کی باتوں کا سحر ایسا لاجواب تھا کہ سراب نخلستان بنے اور نخلستان سراب،آب شراب ہو، عالم بیداری خواب ہو اور مسخر آفتاب ہو۔ جو گفتگو کرے تو موسیقی سے اس کے پہاڑ وجد میں آجائیں، طیور دم بخود پرواز سے بے خبر گر پڑیں اور خلق انگشت بدنداں، متحیر، تصویر صورت، سانس لینا بھول جائے۔
اس پر مستزاد وہ ماہ طلعت علمِ شعر میں طاق، ذکاوت و دانائی میں یکتا، طرزِ تکلم میں فقید المثال، جواب اور رد الجواب میں بے مثل،طرزِنشست و برخاست میں بے نظیر، جملہ آداب محفل میں یگانہ مثال، غواصی اور شہسواری میں لاجواب، شمشیر زنی، تیر اندازی و دیگر فنون ِ حرب میں منفرد اور مصوری میں لاثانی تھی۔یہ دیکھا تو اس پر فدا دِل و جان سے ہو گیا، رہ نہ سکا، واسطے اپنے مطلب کے عرض پرداز ہوا اورمخمور جادوگرنی سے اس کا ہاتھ بہ طریق سنت مانگا
’’ کہاں بے جوڑ کی باتیں کرتے ہو سپاہی زادے، کہاں میری پھول سی بیٹی، اس کی پر سکون زندگی اور کہاں تیری ولولوں سے پر زندگی کہ جب جی چاہا کس کو کہاں سے آزاد کیا۔ میں جیتے جی اپنی بیٹی کو اس آگ میں جھونکوں،یہ تو مجھ سے ہر گزنہ ہوگا‘‘
’’آپ بھی کمال کرتی ہیں قسطان دیو کو تو سبق میں ایک لحظے میں سکھا دوں اور پادشاہزادی کو وہاں سے چھڑا کر، اس کے والد بزرگوار کے پاس پہنچا کر ساری عمر الماس جادو کے ساتھ گزاروں گا‘‘
’’آپ کچھ بھی کہیں، لگتا یہ ہے کہ جتنی جان آپ نے اس مہم میں کھپائی ہے مجھے نہیں لگتا کہ آپ رک کے بیٹھنے والے ہیں۔ میں تو کہوں بھول جامیری بیٹی کو۔ہم تو جب بھی بیٹی کسی کو دیں گے ساتھ اپنی سلطنت، خدام اور سارا سامان بھی دیں گے لیکن مہر اپنی مرضی کا لیں گے‘‘
بہت دیر تک حیل و حجت ہوتی رہی اور جب وہ راضی ہوئی تو میں نے مہر کا پوچھا۔
’’مہر میں تو ہم یہ کلید ہی لیں گے اور وہ بھی معجل اگر منظور ہو تو۔ میں نے دیکھا کہ اس کی نظر میرے گلے میں لٹکی ڈوری میں کلید پر تھی۔
یہ سنا تو میں چونکا ۔ اب میں نے جونگاہ کی تو مشاہدہ کیا کہ مخمور جادو کی ایک آنکھ سیاہ جبکہ دوسری نیلم مشابہ تھی اور ہونٹ دونوں سبز، اس سے مجھے کچھ کھٹکا تو ہوا لیکن پھر یہ کہہ کر اس کی بات مان لی کہ کلید میں جب چاہوں لے سکتا ہوں ۔ یوں اس پر راضی ہو کرترنت نکاح کیا۔
جب اس فریضے سے فارغ ہوا تو اس نے میری بلائیں لیں اور کہاہے ہے کتنے دنوں سے سفر میں ہو۔ میری صلاح ہے کچھ اپنی تھکن اتارکر تازہ دم ہو جاو۔ میں نے بھنویں یوں اٹھائیں جیسے پوچھا کیسے؟ وہ میر ا اشارہ سمجھ گئی اور خدام کو اشارت کی کہ مجھے حمام لے جائیں۔
بیان قصر طلسم کے چار حماموں کا
اس محل میں ایک گوشہ حمام دیکھا، چار کمرے شمال جنوب اور مشرق مغرب کی سمت میں اور ہر کمرے میں لمبا چوڑا، سنگ مرمر سے بنا، مشک وعنبر سے معطر، ہزار مشعلوں سے منور، شفاف پانی سے بھراحوض اور سطح آ ب پر گلاب کی پتیاں نچھاور۔
وہاں ہر سو خدام تولیئے ریشمی، اونی، قطنی، اطلسی ہاتھ میں پکڑے، آنکھیں نیچی کئے کھڑے تھے۔ عاجز نے یہ دیکھا تو بے اختیار اپنا لباس اتارا۔ جسم پر بس ایک لنگوٹ رہ گیاجس کے نیفے میں فقیر نے کلید پنہاں رکھی تھی۔ میں پہلے حمام میں اتر گیا جس کا نام حمام کثیف تھا۔
اس حمام کا پانی نیم گرم تھا اور اس میں اسطوخودوس جیسی تازگی اور عود کی خوشبو ملی جلی تھی۔ گاہے گاہے پانی خون رنگ جیسے شیراز کا بادہ احمریں ہوجاتا تھا اور پھر شفاف ایسے ہوجاتا تھا کہ آئینے کا گمان ہو۔ وسط میںاس حمام کے ایک چوبی تختہ تھا جس پر ایک طرف چرمی تکیہ لگا تھا اورتختے میں جا بجا گول سوراخ تھے۔ جونہی میں نے تکیے پر سر رکھا سوراخوں میں سے فوارے پھوٹ پڑے اور میں اس کے سرور میں گم ہوگیا۔
کنارے پرکھڑے خادم میری طرف متوجہ ہوے
کسی نے ناخن تراشے اور کسی نے میرے بال تراشے اور کسی نے حجامت بنائی اور کسی نے خط۔ ایک نے میری مونچھوں کو تراشا اور دوسرے نے تاو درست کیا۔ ایک خادم نے ناک اور کان کے بال کمال مہارت سے صاف کر ڈالے اور ایک بوتل سے کوئی محلول میری بغلوں میں مل دیا اور زور دار فوارے نے سارے غیر ضروری بال صاف کر ڈالے۔ میں نے نظر بچا کربوتل سے خوب سارامحلول اپنی ہتھیلی پرانڈیلا اور جلدی سے اپنے لنگوٹ میں مل لیا، ایک زوردار فوارے نے اپنا کام کر دکھایا اور یوں اپنے تئیں ہلکا محسوس کیا۔
اسی اثنا میں دو اور خادم میرے پاوں کے ناخن تراشنے اور ایڑی گٹِے کی میل اتارنے میں جت گئے۔ میں نے دیکھا کہ اس نیم گرم پانی کے اثر سے میرے بدن کی کثافت میرے تمام پوروں سے نکل کر پانی میں تحلیل ہوگئی اور عاجز نے محسوس کیا کہ ایک فرحت اور تازگی میرے بدن میںعود کر آئی ، اثر سے جس سے عاجز مخمور ہوگیا۔
اس عالم خمار میں وقت جیسے تھم گیا اوریوں لگا جیسے میں کئی دن اس حمام میں رہا ۔ میں نے اپنے آپ کو ہلکا اور پر سرور اور مخمور محسوس کیا اور اپنے اوپر اللہ کی رحمت اور عنایات کا شکر ادا کیا۔چار خادموں نے مجھے مشک میں تر تولیوں سے صاف کیا اور پھر مجھے دوسرے حمام میں لے گئے جس کا نام حمام لطیف تھا۔اگر چہ دور سے اس حمام میں پانی کا گمان ہوتا تھا لیکن وہ بھاپ کے مرغولے تھے جیسے دھنکی ہوئی روئی کے گالے جس میں عنبر کی خوشبو ملی جلی تھی۔
جب میں حمام پر عنبر میں اترا تو مجھے یوں لگا جیسے میں ہوا میں معلق ہوں اورجب میں نے اس معطر سحاب میں سانس لی تو روح کو فرحت محسوس ہوئی۔یوں لگا جیسے میں سپاہی زادہ نہیں کوئی فلسفی ہوں جس نے دنیا کے عروج و زوال پر تفکر کیا جبر و قدر، وجود کی اہمیت و ثبوت، ذات و صفات کے مابین ربط، علم کی نوعیت اور ماخذ، ان کی تصدیق اور اس کی حدود و افادیت پر سیر حاصل تفکر کیا اور خدا کی حاکمیت اور اس کے وجود پر اپنی دانست میں قوی سوال اٹھائے۔
میں نے سوچا یہ دنیا عدم سے وجود میں خود بخود آئی اور اس کا ثبوت میرا علم اور فہم ہے۔ یہاں میں نے اپنے آپ کو دنیا کا سب سے بڑا عالم محسوس کیا اور اپنے اوپر مخمور جادو کی عنایات کا شکر ادا کیا۔ اگرچہ میں وہاں کچھ ہی لمحے وہاں معلق رہا لیکن مجھے یوں لگا جیسے صدیاں وہاں رہا۔شومئی قسمت وہاں سے نکلتے وقت اللہ کا شکرادا کرنا بھول گیا۔
چار خادموں نے مجھے مشک میں تر تولیوں سے صاف کیا اور پھر مجھے تیسرے حمام میں لے گئے جس کا نام حمام خفیف تھااس حمام کی چھت شفاف تھی اور اس سے پوری وادی کا نظارہ کیا جاسکتا تھا۔ یہاں خدام نے مجھے گائو تکیئے سے آراستہ ایک مخملیں مسند پرلٹایا، دفعتاً دیکھا کہ دور جہاں میرا خیمہ تھا وہاں ہزار شمعیں روشن تھیں اور خیمے پر دو مستعد خادم پہرے دار چاق و چوبند لڑنے کو ہردم تیارکھڑے تھے، میرے گھوڑے کو چاراکھلانے کی سعی کرتے ہیں اور دو اور خادم اسکوکھریرا کرنے کو مستعد لیکن وہ صبا رفتار کہ میرا مطیع تھا اور اس وقت تک چارا نہ کھاتا تھا جب مالک کو پیٹ بھرے نہ دیکھے، اس سے احتراز برتتا تھا۔
تب میں نے ایک سیٹی سے اسے خبردار کیا اور اس نے اپنی لمبی گردن اٹھا ئی اور ہنہنایا۔ پھر اپنے سم گھاس پر ہلکے سے مارے اور چارہ کھانے کا آغاز کیا۔
یہاں سب خدام نہایت مستعدی اور مہارت سے اپنا کام کرتے اور کوئی کسی سے غیر ضروری کلام نہیں کرتا تھااور مجھے ان سب کی شکلیں آپس میں ملتی جلتی دکھائی دیتی تھیں مگر مجھے کیا،مجھے اپنے کام سے کام تھا سو آنکھیں کھلی اور زبان بند رکھی۔
اِک خادم جو دیکھنے میں کہنہ مشق لگتا تھاکورنش بجا لایا اور میرے کان کے قریب آ کریوں گویا ہوا
’’حضور کا اقبال بلند ہو اگر اجازت مرحمت فرمائیں تو ہشطرب کو شاہی اصطبل لے جائیں اور آپ کے ہتھیار شاہی دیوان خاص پہنچا دئے جائیں‘‘
میں نے سر کی خفیف سی جنبش سے اسے اثبات میں اشارہ کیا۔
چونکہ عاجز نے دربارِخاص میں اِک عمر گزاری ہے اور بادشاہوں اور شہزادوں کو اسی طرح سر ہلاتے دیکھا ہے اور اب نکاح کے بعد جب میں یہاں کا بادشاہ ٹھہرا سو مجھے نشست و برخاست اور معاملات میں وہی کچھ ملحوظِ خاطررکھنا تھا جو بادشاہوں کے مرتبے کو شایاں ہو۔
حمام خفیف میں میرے سارے بدن پر مختلف اقسام کے سفوف اور محلول کمال مہارت سے یوںمل دیئے گئے کہ سب کے سب جذب ہو گئے اورجِن کی خوشبو اور تراوٹ سے سارا بدن مہک اٹھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں اِک جواں سال شہزادہ ہوں۔
چار خادموں نے مجھے مشک میں تر تولیوں سے صاف کیا اور پھر مجھے چوتھے حمام میں لے گئے جس کا نام حمام ردیف تھا۔اس حمام میں اترا تو موسیقی کا دور شروع ہوا اور عاجز نے ترکمانی زبان میں بہار کے آنے کا گیت سنا جس سے دل باغ باغ ہوا۔خدام اور کنیزیں لگاتار لذیذ تازہ پھلوں کے رس اور خشک و تر میوہ جات سے میری خدمت میں برسر پیکار تھے کہ یکایک ایک طلسمی کھڑکی میں شبیہ اس مغنیہ کی میرے سامنے آئی اور میں اس کے جسم کے خدوخال میں اتنا محو ہوگیا کہ دنیا اور ما فیہابھول گیا اور گویا برسوں اسی حالت میں رہا۔
یہ نظارات دیکھے تو اپنے عقل اور فہم پر تا درجہ غایت متفخر ہوا۔
دیکھا کہ شام اب ڈھل چکی تھی۔سوچا اب شہزادی سے ملاقات کے بعد ہی مغربین ادا کروں۔ حمام سے فارغ ہوا تو کیا دیکھا کہ دو نفیس کنیزیں بڑی بڑی گول طشریاں اٹھائے کھڑی ہیں۔میرے چہرے پر استفسار کے آثار دیکھے تو ابرو کی خفیف جنبش سے اشارت کی اور بغلی کمرے کی جانب چل دیں ۔میں بھی ان کے پیچھے چلا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بڑا سا کمرہ ہے جس کے درودیوار آئینوں سے بنے تھے اور چوبی میزوں پرہرطرح کے عطر و خوشبویات اور آرائش کا سامان تھا، دونوں کنیزیں طشتریاں چوبی میز پر رکھ کر چلی گئیں اور دروازہ بند ہو گیا۔
پوش اٹھایا تو ایک طشتری میں میرے لیے خلعتِ فاخرہ تھی جو ریشم واطلس اور مخمل سے بنی تھی اور اس پرطلائی دھاگے سے دیدہ زیب کڑھائی کی گئی تھی،اس کے بند پکھراج کے تھے، کمخواب کا پائے جامہ جس کے اطراف دل موہ لینے بیل بوٹے بنے تھے، کمر بند اطلس کا جس پربیش قیمت موتی اور جواہر جڑے تھے۔
خِلعت میرے بدن پر یوں سجی جیسے میرے ہی لئے بنی ہو، ایک مخملیں ریشم کی کلاہ تھی جس پر تاج نصب تھا، تاج کے ماتھے پر اک بیضوی فیروزہ جبکہ دونوں اطراف میں لعل و یاقوت جڑے تھے۔اب جو پہن کر اپنے اوپر نگاہ کی تو بے اختیار فاتح ہند محمد بن قاسم کا گمان ہواکہ آئینے میں اِک نوخیز شہزادہ گلفام میرے سامنے کھڑا تھا۔
دوسری طشتری میں اشرفیوں سے بھری چندتھیلیاں تھیں جو میں نے خلعت کی جیبوں میں ڈال لیں۔ ایک نہایت خوبصورت سچے موتیوں کی مالا دیکھی تویکایک کلید یاد آئی جسے مالا میں پرو کر گلے میں لٹکائی۔ جی میں خیال کیا کہ الماس جادو سے ملو ں تو یہ کلید اور چمکتی مالا اسے دوں، اسی خیال سے کمرے سے باہر آیا۔دیکھا تو وہی کہنہ مشق خادم سامنے طلائی گرز لیئے کھڑا تھا،مجھے دیکھتے ہی کورنش بجا لایا، میں نے اشرفیوں کی ایک تھیلی اس کوتھما دی ۔ وہ آ گے چلااور میں اس کے پیچھے۔
چاروں طرف سے فضا میں یکایک موسیقی گونجنا شروع ہو گئی، ہر سو مبارک ہو پادشاہ سلامت کا اقبال بلند ہو، ہٹو بچو وغیرہ وغیرہ کی صدائیں بلند ہوئیں، شہنائیاں بج رہی تھیں اور آتشبازی کی جارہی تھی،تمام راستہ پھولوں سے آراستہ تھا جس کے دونوں اطراف کنیزیں مجھ پر گل پاشی کر رہی تھیں۔میں نے باقی اشرفیاں ان کنیزوں پر نچھاور کردیں اور یوں چلتا ہوا میں شاہی دیوان خانے تک آیا جہاںضیافت کا انتظام کیا گیا تھا۔
کمرہ ضیافت دیکھا جس میں مسندیں لگیں تھیں اور ہر نوع کھانے چنے گئے تھے : ایک طرف بھنے بٹیر، بکرے دم پخت،قتلے، مرغ مسلم، بریانی چہار قسم، کئی قاب زردے کے، کباب، مرغ کے، بکرے کے اور مچھلی کے، باقر خانی اور پراٹھے کئی قسم کے۔
دوسری طرف پلاو چار قسم کے ؛ یخنی، قورما، متنجن، اور کوکو۔ وہیں کئی قاب دھرے دیکھے جن میں دو پیازہ، نرگسی کوفتے، بادامی اورزعفرانی روٹیاں کئی قسم کی، ساتھ نان سادہ، روغی و بیسنی اور تندوری گرم پڑے تھے۔ پاس ہی کھانے میں حلیم، ہریسا، روغن جوش، کوفتے، قورما پلاو، متنجن اور دائیں جانب مرغ کے تکے، خاگینہ، ملغوبہ شب دیگ، سموسے، ورتی، فرنی، شیر برنج، ملائی، حلوہ، فالودہ، پن بھتا، نمش، آب شورہ، ساق عروس، لوزیات، مربہ اچار دان، دہی کی قلفیاں اوراس کے پیچھے پان دان، عطر دان، چنگیریں، پیک دان پڑے تھے۔
دیوان خاص میں ہر طرف ہزاروںمہمان قیمتی لباس زیب تن کئے نہائیت سلیقے سے مسندوں پر براجمان تناول کیلئے میرے منتظر تھے۔ فقیر نے دنوں بعد یہ سب دیکھا تو خوب سیر ہو کر کھایا اور جب ہاتھ کھینچ لیاتودو خوش شکل کنیزوں نے چلمچی اور آفتابہ پیش کیا اور میں نے اپنے ہاتھ دھوئے۔ قائدہ ہے جب شکم پر ہو تو سستی چھا جاتی ہے یوں ارادہ آرام کا کیا۔بعد از استراحت کلید گلے میں لٹکائے ایک عجلت اور طبعیت کے لگاو سے، حجرہ عروسی میں داخل ہوا۔
بیان الماس جادود سے اصل ملاقات کا ، شب عسل کی بات کا
حجرہ عروسی پھولوں سے معطر تھا جس میں ایک قالین اصفہانی بچھا تھا اور چھت سے ایک فانوس طلائی آویزاں تھا جس میں ہزار کافوری شمعیں روشن تھیں۔ کمرہ کیا تھا باغ تھا، باغ میں ایک نو خیز پھول تھا ، ناشگفتہ ، لب لعلیں اس کے بند ۔
عنقا کے پروں سے سجی ایک مسہری اس کمرے کے وسط میں تھی،تکیے جس کے پھولوں اور مخمل سے بنے تھے اور اس پر بیٹھی تھی گلشن حسن اور وہ بھی اس صورت کہ آدھا چہرہ ڈھکا آدھا کھلا، کانوں میں آویزے طلائی، ہاتھوں پر حنا کے بیل بوٹے۔۔ پاوں میں پازیب، لباس گویا جزو بدن، ناخن سے ناخن کھرچتے، ہونٹ کاٹتے اس کی نظریں نیچی ، سانسیں مدھم ، جسم کا انگ انگ اس کے لباس عروسی میں مانند قرص ماہ جھلکتا تھا اور فقیر کی حالت یہ سب دیکھ کر دگرگوں ہوگئی۔
بیت
نور ہی نور تھابدن اس کا
سب کا سب پیرہن سے چھن آیا
میں آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھا تو وہ سمٹی، میں نے ہاتھ تھامنا چاہا تو اس نے اپنے ہاتھ کھینچے اور لجائی، میں نے گھونگٹ اٹھانا چاہا تو منہ دوسری طرف پھیرا اور شرمائی اور باوجود کوشش کے میرے ہاتھ نہ آئی۔اس پر آتش شوق اور بھڑکی اور فقیر نے اصرار بے شمارکیا تو منہ پھیر کر جھوٹ موٹ کی ناراض ہوئی
’’اے ہے،ارے ایسے کیسے، نہ آپ سے جان نہ پہچان، منہ دھو رکھیئے آپ تو پادشاہزادی عندلیب کے شیدائی ہیں اور اس چھنال کی فکر میں مرے جاتے ہیں آپ، میری آپ کو کیا فکر آپ تو اس آوارہ کنچنی کو چھڑانے کے جتن کرتے ہیں اور اس کوشش میں آپ کی جان بھی جائے، آپ کو کیا فکر کون مرے کون جیئے‘‘ ۔
میں، فرط جذبات میں دیوانہ ہوا
’’میرے دل کی قرار وہ تو بس ایک فرض ہے کہ اس کو قسطان دیو کی قید سے چھڑاوں، پھر تو میری تمام عمر آپ کے پہلو میں ہے‘‘
‘‘ آپ کاکیا اعتبار فرض سے سبکدوش ہوتے ہوتے مجھے چھوڑکسی اور کے ہو جائیں‘‘
پھر ایک دم جیسے چونکی
’’اور ہمارا مہر کہاں ہے ؟ کوئی حیل و حجت نہیں چلے گی، ہمارا مہر معجل ہے ؟‘‘
یہ سنا تو دفعتاً یاد آیا اور موتیوں کی مالا اپنے گلے سے اتارکراسے پیش کی،اس نے فورا جھپٹنا چاہی مگر میں ایک سپاہی زادہ اس طرح کے داو پیچ میں ماہر اس کو جھکائی دے کر پیچھے ہو گیااور مسہری کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور کہا
’’اے ہے،ارے ایسے کیسے، نہ آپ سے جان نہ پہچان‘‘
میں نے اس کی بات اسی کو لوٹا دی اور سوچ میں پڑ گیا۔ یکدم خیال آیا اور اس کی طرف نظرکی
’’گلبدن نازنیں کو تو مہرمیں اپنے ہاتھ سے ہی پہناونگا‘‘
یہ سنتے ہی اس نے دونوں شانوں سے اپنے بال سمیٹ کر ایک جانب کئے اور گردن جھکا دی، جو منظر میری آنکھیں دیکھنے کو ترس رہی تھیں وہ اب میرے بالکل سامنے تھا۔ میری گرم سانسیں اس کی گردن پر،جہاں اک حاصل غزل تِل تھا،تیر برسا رہی تھیں۔میں نے اس کے کان کی لو سرخ ہوتی محسوس کی اور سانسیں بے ترتیب سنیں ۔
اس کے بدن سے اٹھتی آنچ کی لو سے میرے گال تمتما اٹھے۔ دیکھا کہ مالا جیسے ہی اس کا جزو بدن بنی اور کلید اس کی صراحی دار گردن سے پھسلتے پھلستے، نشیب و فراز سے بچتے بچاتے وہاں جا لگی جہاں فقیر کا دل، آنکھیں اور دھیان لگا ہوا تھا۔
جب میں نے کلید اس کے قبضے میں دے دی تو مجھے کچھ حوصلہ ہوا اور میں نے اپنا عندیہ دہرایا۔
وہ مسہری سے اتر کر کھڑی ہوئی اور کورنش بجالائی، الماس نے پہلی بار آنکھیں اٹھا کر میری طرف دیکھا تو مسکرا کر بولی
’’ واہ آپ تو بالکل شہزاداہ گلفام لگ رہے ہیں‘‘
میں نے سوچا گو تعلی ہے مگر بات خدا لگتی ہے۔وہ خود ہی آگے بڑھی اور میرے گلے سے لپٹ گئی اور مخمور آواز میں یوں گویا ہوئی۔
’’میرے گلفام مجھے آپ ہی کی تلاش تھی اور اب میں آپ کے سوا زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتی‘‘
اب وہ میری بانہوں میں تھی فقیر اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکا اور نظر اس کے دونوں کندھوں کے درمیان بندِ قبا پر پڑی۔ میری نظریں وہاں گڑی دیکھیں تو وہ شرم سے پانی پانی ہوگئی۔کچھ ناراضگی کچھ منانا، کچھ لجاہٹ کچھ شرماہٹ۔۔ہمارے بیچ حجاب اٹھ
گئے۔ وہ میرا لباس میں اس کا، ہم نے زندگی کے سرور کو چکھا ۔تو محبت کے طالب ، کبھی مغلوب کبھی غالب، یک جان دو قالب ہو گئے۔
عزیزان جہان!
میں نے اس گلبدن کے ہونٹوں کی مٹھاس کو مانند انگبین پایا کہ ان کی حلاوت سے میرے ہونٹ مصری کی ڈلیاں بن گئے، اس کے بدن کو مانند گلشن پایا جس کی سیر سے دل سیر نہ ہوا، اور اس کی آنکھوں کو مے کے پیالے جانا جس کے سرور سے ساری رات مسرور، مست ومخمور رہا۔
قصہ مختصر شب وصل کوتاہ ہی رہی اور اس سے پہلے کہ صبح صادق ہو سرورومستی اور سکون سے چور نشے میں مخمور ہم دونوںنیند کی آغوش میں جھول رہے تھے
بیت
بس عاشق آشفتہ آسودہ و خوش خفتہ
در سایہ آن زلفی کو حلقہ و خم دارد
جب آنکھ کھلی تو زوال کو دو گھڑیاں بیت چکی تھیں اور میرا دل دھک سے رہ گیا۔۔۔میں اس دن اپنی زندگی میں پہلی بار فریضہ سحر کی ادائیگی سے یکسر محروم رہا۔
الماس کمرے میں موجود نہ تھی۔فرش پر ہر سو گلاب کی پتیاں بکھری پڑی تھیں۔ میں نے بصد سرعت بغلی حمام کا رخ کیا اور خدام کو حکم دیا کہ میرا گھوڑا اور ہتھیار لے آئیں اور الماس کی کنیز خاص کو پیغام دیا جائے کہ الماس مجھے محل کے پچھلے دروازے پر ملے اور اس حکم کی تعمیل بصد سرعت ہوئے۔
خادم کورنش بجا لائے اور حکم کی تعمیل کو لپکے۔
غسل سے فارغ ہوکرمیں نے اللہ کا نام لیا اورگھوڑے پر زین کسی، خود سر پر جمایا، تلوار نیام سے کھینچ کر دوبار اندر کی، خنجر کمر میں حمائل کیا، رکاب میں پیر جما کے گھوڑے پر سوار ہوا اور برج کا قصد کیا۔ محل کے پچھلے دروازے پر الماس میری منتظر تھی،میرے قریب آئی اور گھوڑے کی باگیں تھام، اپنی مخمور انکھوں سے میری طرف دیکھا۔
’’ میں تیرے فراق میں کیسے جیوں؟ تو کس مہم میں جان کھپاتا ہے ؟ تو اگر اس کلید سے اس پچھل پیر عندلیب کو آزاد کرنے کی جتن کرتا ہے، سوکر، لیکن ایک شب میرے ساتھ اور گزار، پھر پتا نہیں یہ خلوت میسر بھی ہو، نہ ہو، مجھ سے محبت کرو گے بھی یا نہیں‘‘
یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے اور میرا دل پگھل گیا۔
گھوڑے سے اتر کر اسے بانہوں میں لیا
’’اے آنکھوں کی نور، دل کی سرور ، مجسم حورکاہے کو تیرے دل میں شک کا یہ بیج پلتا ہے؟ مجھے اس مہم کا آخری زینہ چڑھنے دو، پھر ساری عمر میں تیرے ساتھ گزاروں‘‘
میں نے یہ کہا تو اس نے منہ پھیر لیا اور کلام سے اجتناب برتا۔ میں نے اسے جی بھر کے دلائل دئیے لیکن اس کا کلام ناپید اور منہ دوسری طرف پھیر بیٹھی رہی، میری دلیلیں کار گر نہ ہوئیں۔
میں نے سوچا
اس نازنین سے میں کیا بحث کروں کہ اس کی ایک انگڑائی فلسفے کی ان گنت دلیلوں کا کاری جواب ہے، اس کی ایک مسکراہٹ آہن صورت دلوں کو موم کی مانند پگھلا دے اور پختہ ترین عقلوں کورنگین دھنکی اون کی طرح اڑا دے۔
مجھے خاموش پا کر اس نے محبت سے دیکھا اور پھر آنچل سرکا کر کلید مجھے دکھائی اور آنکھوں ہی آنکھوں میںاشارت کی کہ اٹھا لو۔ میں نے کلید کو چھواتو فقیر کا دل موم ہوگیا۔ میں نے یکبارگی اپنے ہتھیار کھولے اور ایک رات اور اس کے پہلو میں اس مصمم ارداے سے گزارنے کا تہیہ اس شرط پر کیا کہ صبح ہر حالت میں پادشاہزادی عندلیب کو قسطان دیو کے چنگل سے چھڑانے اس برج جاوں گا اور دیو کو تلوار کی ایک ضرب سے جہنم واصل کرکے، پادشاہزادی کو چھڑا کر، اسے محل ہزار دیچے میں پہنچا کر واپس الماس کے پہلو میں آوں۔
المختصر وہ رات بھی اسی قاعدے سے ہنسی خوشی کٹی اور فریضہ سحری سے یکسر غافل رہا۔
عزیزان من!
تب تو یہ حالت ہے کہ میں ہر دوپہریہ مصمم ارادہ کر کے اٹھتا ہوں کہ آج ہی قسطان دیو سے پادشاہزادی عندلیب کو چھڑا لاوں گا۔ سو اسی ارادے سے اپنے ہتھیار باندھتا ہوں، دستِ شمشیر پر ہاتھ رکھتا ہوں، زین باندھتا ہوں، رکاب میں پاوں جما کر گھوڑے پر سواری کا ارادہ کرتا ہوں اور دل میں سوچتا ہوں طلسمی قلعے کابرج بس چند ہی کوس تو دور ہے اور یہ کام تو بس دو پلک جھپکوں ہوجائے ہے اور پھر برج کی کلید اس گلشن حسن سے لینے کا مصمم ارادہ کرتا ہوں۔
پھر اس گل رخ کے میٹھے ہونٹ، ساغر صفت آنکھیں، سینہ گویا باغ، باغ میں کنول کے دو پھول، ان پر بیٹھی دو بیر بہوٹیاں، پیٹ جیسے صندل کی تختی، تختی پر دھرا پیالہ، پیالے میں مے، گویا آب حیات۔ زلفیں حلقہ در حلقہ تاب دار ، عسل میں ڈوبا بدن، شب گذشتہ کی پر خمار حکایت، سدا بہار جوانی او ر اس کی بے لوث محبت سب کے سب میرے پاوں کی زنجیر بن جاتے ہیں۔
تب میں گھوڑے پر سواری کا ارادہ ترک کرتا ہوں، ہتھیار کھول کر صرف ایک رات اورگزارنے کا قصد کرتا ہوں اور اس شب حدتِ آغوش ِمہ وش ِپر آتش و پر شہوت وفتنہ خیز کے جادو کے اثر سے فریضہ سحر سے ضرور کوتاہی برتتاہوں اور پھر صبح اپنے تئیں ملامت کرتا ہوں، کوستا ہوں۔ سوچتا ہوں آخرتا کجا اس گرداب حسن و جمال میں پھنسا اپنے فرض سے غفلت برتوں؟۔
آج بھی اٹھ کر، اپنے آپ کو خوب کوس کر، یہ مصمم ارادہ میں نے دل میں باندھا ہے کہ ہو نہ ہو پادشاہزادی عندلیب کو قسطان دیو کے چنگل سے ضرور آزادی دلوا کر، اسے محل ہزار دریچہ میں بحفاظت پہنچا کر ایران کی سلطنت سلطان ایران سے لیکر، کچھ عرصہ وہاں حکومت کرکے انتظام اپنے قابو میں کرکے، اپنے ایک پر اعتماد وزیر کے حوالے کروں گا۔
اس امر سے فراغت پا کر میں ہند اور عربستان کے قلمرو کی طرف ایک ہوشیار سرہنگ بھیج کر بزور شمشیر ان کی حکومت اپنے ہاتھ میں لوں گا اور ان کے بیش بہا خزانوں کو اپنے تصرف میں لاوں گا۔ اس کے بعد میں جنوں پری زادوں کو ساتھ ملا کر، ایک لشکر عظیم تیار کر کے دنیا میں اللہ کی خلافت کا آغاز کروں گا۔تو یوں ارادہ ہے کہ دین و دنیا کی پوری تدبیر کرکے واپس الماس جادو کے پاس آوں گا اور اس کے ساتھ باقی ماندہ زندگی یک جان دو قالب گزاروں گا۔ دن گزرتے گئے، اور پلک جھپکتے اسی کشمکش میں پورے دس سال اس کی شیریں قربت میں بیت گئے۔
اب میں ایک محل میں رہتا ہوں جہاں میرا حکم چلتا ہے۔۔مجھے ہر چیز ہر سہولت مہیا ہے۔میرے پہلو میں سدا جوان رہنے والی ایک نازنین زہرہ جبین ہے اور پیوست میرے دل میں اس کی التفات کا تیر ہے اور اس کے لبوں میں اتنا خمار ہے کہ مے کہنہ صد سالہ سے ز یادہ پر تاثیر ہے۔ اس خندہ جبین پر سو جان سے فدا یہ فقیر ہے، اس کی زلف گرہ گیرکا دائم اسیر ہے ۔
بیت
فرصت کشمکش مدہ این دل بی قرار ر
یک دو شکن زیادہ کن گیسوئے تابدار را
عزیزو میں کیا کروں؟
اس کی آنکھوں میں وہ جادو ہے کہ ہزاروں جادوگرنیاں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ اس کے جسم میں وہ خوشبو ہے کہ میں جب سانس لیتا ہوں تو اس کی معطر تاثیر سے جیتا ہوں۔ میری ہر سانس اور میرا وجود اس کے وجود سے عبارت ہے۔
سوچتا ہوں بس بہت ہوچکا، بہت ہی زیادہ ہو چکا۔
تو خلاصہ کلام کا یہ ہے کہ ’’ آج خمر کل امر‘‘۔اب یہ میرا مصمم ارادہ ہے اور اس میں کوئی کوتاہی نہیں ہوگی کہ اب توبلکہ اس میں شک کاکوئی امکان ہی نہیں کہ بس آج کی رات گزار کے میں کل ہر صورت ضرور بالضرورگھوڑے پر زین کس کر، خود سر پر جماکر، تلوار نیام میں ، خنجر کمر میں حمائل، رکاب میں پیر جما کے گھوڑے پر سوار ہو کے الماس سے کلید اور اجازت لے کر برج جا وں گا اور عندلیب کو رہائی دلا کے رہوں گا اور یہ ہو کے رہے گا۔
بیت
این نکتہ را شناسد آن دل کہ دردمند است
من گرچہ توبہ گفتم،نشکستہ ام سبو را
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.