ماہر نفسیات عزیز شریفی نے بیگم فردوس کے کیس کی پیروی کی فائل اٹھائی اور کیس کا شروع سے مطالعہ کرنے لگے۔ گذشتہ کئی روز سے بیگم فردوس ان کے زیر مشاہدہ تھیں۔ چنانچہ ان کی شخصیت کے بعض خصائل شریفی کی نگاہ میں آ چکے تھے۔ بادی النظر میں بیگم فردوس کا کیس پیچیدہ تو نہ تھا، مگر اس قدر ہموار بھی نہ تھا کہ غور و خوض کے بغیر شریفی کی گرفت میں آ جاتا۔
بیگم فردوس ایک اعلی تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ لہٰذا وہ اپنے مسئلے کو خود بھی خوب سمجھتی تھیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اس حقیقت سے بھی واقف تھیں کہ بغیر کسی ماہر نفسیات کی مدد کے، ان کی ذہنی گتھی سلجھ نہ پائےگی۔ چنانچہ اسی غرض سے انھوں نے شریفی سے براہ راست رابطہ قائم کیا تھا۔
بیگم فردوس کو شکایت یہ تھی کہ دو دو چار چار روز کے وقفے سے انھیں ایک خواب ہانٹ کیا کرتا تھا۔ یہ خواب جس رات بھی انھیں دکھائی دیتا، اس کی صبح بیگم فردوس کے لیے شام غریباں ہوتی۔ اداسی کا یہ عالم ہوتا کہ وہ گھنٹوں بنا کچھ کھائے پئے، گم صم رہا کرتیں۔ یہاں تک کہ اسی کیفیت میں شام ہو جاتی۔ ادھر شام ہو تی ادھر ان پر گریہ طاری ہوتا۔ یہ کیفیت اس قدر شدیدی ہوتی کہ بیگم فردوس اس کی تاب نہ لا پاتیں اور بےہوش ہو جاتیں۔ مگر گھنٹے دو گھنٹے کے بعد جب انھیں ہوش آتا تو قدرتی طور پر ان کی ذہنی کیفیت نارمل ہو چکی ہوتی۔
اس عرصے میں شریفی نے بیگم فردوس سے خواب کی جملہ کیفیات معلوم کرنے بہترتی کوشش کی تھی، مگر افسوس کہ انھیں اپنے مقصد میں کامیابی نہ ہو پائی تھی۔ ہوتا یہ تھا کہ بیگم فردوس کی زبان سے ابھی خواب کے ابتدائی جملے ہی ادا ہوتے کہ وہ نروس ہونے لگتیں۔ مزید کوشش کرتیں تو ان کا دل بھر آتا، جس کے نتیجے میں ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کا تار بندھ جاتا۔
شریفی کو یقین تھا کہ اگر خواب کی ترسیل ان تک ہو چکی ہوتی، تو عین ممکن تھا کہ وہ اس کی نفسیاتی تعبیر کے سہارے بیگم فردوس کو اس خواب کے قنوطی اثر سے باہر نکال لیتے، چونکہ شریفی کی اس سلسلے تمام کوششیں ناکام ہو چکی تھیں، لہٰذا انھوں نے بیگم فردوس کو اپنا خواب تحریر کرنے کا مشورہ دیا۔ ساتھ ہی انھوں نے انھیں یہ ہدایت بھی دی تھی کہ وہ اپنا خواب کسی تامل کے بغیر بلا کم و کاست تحریر کریں۔
اس وقت بیگم فردوس کا خواب تحریری صورت میں شریفی کے ہاتھوں میں تھا، جس کی ابتدا یوں ہوئی تھی۔
جزیرے پر گہرے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے۔ ہوائیں سیٹیاں بجاتی چل رہی تھیں۔
’’سنو۔‘‘
میں چونکتی ہوں۔ یہ آواز کہاں سے آئی۔ میرا وہم تو نہیں!
’’ادھر دیکھو۔ میں بول رہا ہوں۔‘‘
میں آواز کے رخ دیکھتی ہوں۔ صوفے کی نرم کرسی پر بیٹھا ہوا پرندہ۔ اپنی ننھی منی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہا ہے۔
’’تم.....؟ تم کون ہو؟‘‘ میں سہم کر پوچھتی ہوں۔
’’میں....میں ایک معمولی سا پرندہ ہوں اور تمہارا ممنون ہوں۔‘‘
دو روز قبل یہ پرندہ مجھے زخمی حالت میں سمندر کنارے ملا تھا۔ میں نہیں جانتی کہ لمبی اڑان کی بنا پر اس کے پروں میں زخم آئے تھے، یا راستے میں کسی خوں خوار پرندے سے اس کی مڈ بھیڑ ہوئی تھی۔ خون بازوؤں سے بہہ کر اس کے پنجوں تک آ چکا تھا، لہٰذا میں نے اس کی تیمار داری کی، اسے نرم نرم اناج پکا کر کھلایا۔ ساتھ ہی اس کے لیے گرم اور آرام دہ بستر بھی مہیا کیا۔
اب اس کے زخم مند مل ہو چکے ہیں۔ شریفی صاحب یہ پرندہ کون ہے؟ یہ کیونکر زخمی ہوا؟ مجھے حیرت ہے کہ میں نے پرندے کی نرسنگ کی ہے؟ جب کہ آج تک میں نے کسی کی ڈریسنگ تک نہیں کی۔
’’تم دو روز سے میرے ساتھ ہو، اس عرصے میں کیوں نہیں بولے؟‘‘
’’سچ مانو تو کہوں....میں تمہاری دل آویز شخصیت سے اس قدر متاثر ہوا تھا کہ حلق سے آواز ہی نکل نہ پا رہی تھی۔‘‘
’’تو پھر اب کیوں بولے.... کیا میرے متعلق تمہارا خیال بدل چکا ہے؟‘‘
’’نہیں یہ بات نہیں۔‘‘ پرندہ گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر بولا۔
’’بات دراصل یہ ہے کہ مجھے آج ہی سفر پر روانہ ہونا ہے۔‘‘
’’اتنی تیز ہوا میں.... اس قدر گہری شام کو...!‘‘
’’ہاں، ہوائیں تیز بھی ہیں اور شام بہت گہری۔ مگر پرندے کی زندگی میں اس سے بھی کڑا وقت آتا ہے.... اس سے بھی بھاری شام آتی ہے۔ ان سے بھی سوا ہوائیں چلتی ہیں۔‘‘
جانے کیوں میں اداس ہو جاتی ہوں۔
’’لیکن یہ خطرناک بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔‘‘
شریفی صاحب! میں پرندے میں اس قدر دل چسپی کیوں لینے لگی ہوں؟ وہ جاتا ہے تو جائے۔ شام گہری ہو یا ہوائیں تیز۔ مجھے ان سے کیا سروکار؟
تعجب ہے کہ میں اداس ہو جاتی ہوں؟
آخر کیوں؟
پرندہ کہتا ہے:
’’خطرناک؟ جہاں میرے حق میں یہ ہوائیں یقیناً خطرناک ہو سکتی ہیں۔ لیکن جی جانے کا خطرہ کب نہیں اور کہاں نہیں؟ شاید تمہیں یہ جان کر حیرت ہو کہ مجھے طوفانی رات اور بھری برسات میں سفر کرتے ہوئے بڑا لطف آتا ہے۔‘‘
میں خفگی سے کہتی ہوں:
’’لطف؟ کا ہے کا لطف....جب جان جوکھوں میں پڑی ہو...‘‘
پرندہ کہتا ہے:
ہوا میری اڑان کی سمتیں بدلتی ہے۔ برسات پروں کوتر کر کے بھاری کر دیتی ہے۔ سیاہی مجھے تقریباً اندھا کر دیتی ہے،لیکن میں اپنے وجدان کے سہارے، اپنے حوصلوں کی معرفت، اپنے ذہن کی آنکھ سے راستہ ٹٹولتا ہوا سفر کرتا ہوں۔ مہم جوئی اور معرکہ آرائی میں مجھے نامعلوم سی مسرت ہوتی ہے۔ ایسا سفر اپنی پوشیدہ قوتوں کے اظہار، اپنی خفیہ صلاحیتوں کی تلاش اور خوشگوار نتیجے کی امید میں کیا جانے والا سفر ہوتا ہے۔ میں نے ایسے متعدد سفر کیے ہیں۔‘‘
یہ کہتے کہتے وہ اپنی ننھی منی آنکھوں سے مسکرانے لگتا ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی دکھی ہے۔
بجلی چمکتی ہے۔ بند کھڑکی تیزی سے کھل جاتی ہے۔ سرد ہوا کا جھونکا سمندری لہر کی مانند اندر آتا ہے۔ میں جھٹ سے اٹھ کر کھڑکی بند کر دیتی ہوں۔
شریفی صاحب، اس کی عالمانہ باتیں سن کر میں مسحور ہو چکی ہوں۔ آپ نے کیسا غیر دلچسپ فرض مجھ پر عاید کر رکھا ہے۔ بغیر سوچے سمجھے، لکھے چلی جا رہی ہوں۔
پرندہ کرسی سے پھدک کر فرش پر آ جاتا ہے۔ دو ایک بار اپنے پرکھول کھول کر سمیٹتا ہے۔ میں دیکھتی ہوں کہ اس کے پروں پر موم اور موتی کا ملمع چڑھا ہوا ہے اور ان کی نقرئی سطح پر جو سرخی سی نظر آ رہی ہے وہ ممکن ہے پرندے کی توانا خواہش کا مظہر ہو۔
’’تو میں چلوں۔‘‘
پرندہ اپنے پاکیزہ بازوؤں کو میرے سر پر رکھ کر انتہائی شفقت سے کہتا ہے۔
میں گردن جھکائے سوچ رہی ہوں.... میں کس قدر اکیلی تھی۔ ایسے بھرے پرے ماحول میں میری حیثیت گویا کیں بے جان اور بے مصرف شے کی سی تھی۔ یہ پرندہ نہ جانے کن سمتوں سے اڑتا ہوا پہنچا۔۔۔ دو روز میرے ساتھ رہا۔۔۔ اور اب اپنی جدائی کا ایسا صدمہ دیے جا رہا ہے کہ میرے لیے جینا دوبھر ہوا جا رہا ہے۔ کاش! کہ آج بھی یہ خاموش ہی رہتا۔ چپ چاپ آیا تھا، چپ چاپ چلا جاتا، لیکن اس نے تو کلا م کیا ہے!
’’میں جانتا ہوں تم کیا سوچ رہی ہو۔‘‘
اک۔۔۔ میں اپنے خیالوں سے لوٹ آتی ہوں۔
’’انسان کی زندگی میں کلام کی بڑی اہمیت ہے۔ میں تم سے بنا کوئی بات کیے رخصت ہو سکتا تھا۔ تمہیں کبھی علم ہی نہ ہو پاتا کہ میں بولنے والا پرندہ ہوں۔ لیکن تمہارے باطن کی روشنی اور قلب کی حرارت نے مجھے مجبور کیا کہ میں تم سے دو باتیں کروں۔ بعض اوقات آدمی کے پاس موتی ہوتے ہیں، جنھیں وہ کنکر سمجھ کر جھیل کی نذر کر دیتا ہے۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ اسے اپنی متاع عزیز کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں ہوتا۔ یا پھر وہ جس بازار میں پہنچتا ہے، اس بازار پر ٹھگوں اور لٹیروں کی عمل داری ہوتی ہے۔ چنانچہ نہ تو ان کے ناپ صحیح ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے تول۔ ایسی صورت میں کسی بے غرض کو اس جنس کی قیمت کا صحیح صحیح تعین کر دینا چاہیے، جو کہ ازبس ضروری ہے۔ ایسی آگاہی عموماً ہمیں جینے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔ نامساعد حالات میں نبرد آزمائی کی قوت بخشتی ہے اور زمین پر ثابت قدمی سے سر اٹھا کر چلنے کی ہمت پیدا کرتی ہے۔‘‘
یہ کہہ کر پرندہ خاموش ہو جاتا ہے گویا وہ اپنے خیالات کو سمیٹ رہا ہو۔
’’اچھا۔۔۔ وقت بہت ہو چکا۔ دیکھو آسمان بالکل سیاہ ہو گیا۔‘‘
ہم مکان سے باہر آ جاتے ہیں۔ سرد ہوا میں نمی پیدا ہو چکی ہے۔ میں جدائی کے بے پناہ کرب اور ماحول کی قاتلانہ سنگینی سے کانپنے لگتی ہوں، لیکن جلد ہی مجھے پرندے کی ہدایت یاد آ جاتی ہے اور پرندے کے دشوار سفر کا بھی خیال آتا ہے۔
پرندے نے دو تین دفعہ زور سے اپنے پر پھڑ پھڑائے ہیں۔ وہ وقت آ چکا ہے، جب جدائی دبے پاؤں سینے کے پنجرے میں داخل ہوتی ہے اور پوری قوت سے دل پر خنجر گاڑھ دیتی ہے۔ ایک چیخ ضرور نکلتی ہے، لیکن وہ حلق میں گھٹی کی گھٹی رہ جاتی ہے۔ الوداع۔۔۔ الوداع۔
’’ال۔۔۔ و۔۔۔داع۔‘‘ لظک ادا نہیں ہو پاتا۔
پرندہ بازو پھیلائے نیچی اڑان بھرتا ہوا چند لمحوں میں سطح سمندر پر پہنچ جاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا وجود روشن ہو جاتا ہے، گویا اس کی پشت پر کوئی چاند اتر آیا ہو۔ وہ آہہت آہستہ اوپر اور اوپر اٹھتا چلا جاتا ہے۔
شریفی صاحب اس کے بعد عموماً میری آنکھ کھل جایا کرتی ہے۔ میرا دم گھٹنے لگتا ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی نے مجھے ایک کھدر کی چادر میں گٹھری کر دیا ہو۔
خواب میں چند ایسے واضح اشارے تھے، جن کی بنیاد پر شریفی نے ان کی شخصیت کا تجزیہ کر لیا تھا۔ جس چکرویو میں وہ داخل ہو چکی تھیں ان کا اس سے باہر نکل آنا تقریباً ناممکن تھا۔ البتہ آٹو سجیشنز (Auto suggestions) کے ذریعے شریفی انھیں حالات سے سمجھوتا کر لینے اور اپنے کیے ہوئے فیصلے کی ندامت کے شدید احساس سے یقیناً چھٹکارہ دلا سکتے تھے۔
اس خیال سے وہ بیگم فردوس کو اگلے روز کا اپائنٹمنٹ (Appointment) دے چکے تھے۔ اس روز وہ نہیں آئیں۔ شریفی نے سمجھا کہ گھریلو مصروفیات کی بنا پر وہ نہ آ پائی ہوں، اگلے روز آ جائیں گی۔ خلاف توقع وہ اگلے روز بھی نہیں آئیں۔ یہ سن کر آپ کو یقیناً تعجب ہوگا کہ اس واقعے کو مہینوں بیت چکے ہیں۔ لیکن آج تک نہیں آئیں۔
شریفی کا خیال تھا کہ بیگم فردوس کو اس افسوس ناک خواب سے نجات مل چکی ہوگی، ورنہ کوئی بھی شخص ایسے عذاب کا اس مدت تک ہر گز متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔ ایک مرتبہ انھوں نے چاہا کہ بیگم فردوس کو فون کریں اور ان کا حال معلوم کریں، لیکن پھر یہ سوچ کر انھوں نے اپنا ارادہ منسوخ کر دیا کہ شہر میں ان سے کہیں بہتر اور تجربےکار ماہرین نفسیات موجود ہیں۔ ممکن ہے کہ بیگم فردوس ان میں سے کسی ماہر نفسیات سے رجوع ہوئی ہوں اور اس کے زیر علاج ہوں۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اب تک مکمل طور پر شفایاب ہو چکی ہوں۔ چنانچہ انھوں نے ایک نیک دل اور خدا ترس بندے کی طرح بیگم فردوس کے حق میں دعا کی کہ وہ جہاں بھی ہوں، سکھی ہوں، جیسی بھی ہوں، پر ذہنی طور پر نارمل ہو چکی ہوں۔
رفتہ رفتہ بیگم فردوس کا تصور شریفی کے شعور سے تحت الشعور اور تحت الشعور سے لا شعور میں جا بسا۔ ایک روز شریفی اپنی کلینک میں بیٹھے ڈاک دیکھ رہے تھے کہ خطوں میں بیگم فردوس کا خط پا کر بوکھلا گئے۔ قدرے لزرتے ہوئے ہاتھوں سے انھوں نے لفافہ چاک کیا۔ لکھا تھا:
’’شرمندہ ہوں کہ ایک عرصے کی غیرحاضری کے بعد آپ سے رجوع ہو رہی ہوں۔ بات دراصل یہ ہے کہ جن دنوں اس خواب سے دو چار تھی، ان دنوں کسی تنکے کا سہارا بھی میرے لیے بہت بڑا سہارا تھا۔ آپ نے نہ صرف میرے کیس میں دل چسپی لی، بلکہ میری جانب خصوصی توجہ فرمائی۔ چنانچہ آپ کی نیک نیتی کا کرشمہ تھا یا محض اتفاق کہ اگلے ہی دن سے اس خواب کی یورش تھم گئی اور ایک مدت تک وہ خواب تو کجا کوئی دوسرا خواب بھی مجھے نہیں آیا۔ چونکہ دل اندیشوں کی آماجگاہ ہے، سو میرے دل سے وہ خطرہ نہ ٹلا۔ مجھے بدستور رات میں سونے سے پہلے دھڑکا لگا رہا کہ اگلی صبح میں کہیں پھر اسی بھنور میں نہ جا پڑوں۔ پر ایک عرصے تک کوئی ایسا منحوس دن طلوع نہ ہوا۔ میں سمجھی کہ اس بلا نے کسی اور کا گھر دیکھ لیا ہے، سو اب میں اس عذاب سے محفوظ ہوں، لیکن یہ کیفیت زیادہ عرصے تک برقرار نہ رہ سکی، بلکہ سراسر میری خوش فہمی ثابت ہوئی۔ سورج کو سوا نیزے پر جھیلنا میرے مقدر میں لکھا جا چکا تھا۔ لہٰذا پچھلے ہفتے وہ بلا کیل کانٹے سے درست ہو کر دوبارہ نازل ہو ئی اور اپنی نوکیلے منقار سے میرے تالو پر مسلسل ٹھوکے لگا رہی ہے۔ اب وہ خواب اس پرندے کی روانگی ہی تک محدود نہیں رہتا بلکہ ایک واقعے کے اضافے کے بعد ایک ا لمیے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ میں پرندے کی روانگی کے سیکو ینس (SEQUENCE) میں دیکھتی ہوں۔
سمندر کے ساحل پر دراز قد سائے جو تعداد میں کئی تھے۔ اچانک یوں نمودار ہوتے ہیں، گویا تاریکی نے انھیں اپنی سرنگ سے اگل دیا ہو۔ میرے اطراف گھوم پھر کر وہ ایسی نظریں دوڑاتے ہیں جیسے کسی اہم چیز کو کھوج رہے ہوں۔ ان میں سے ایک کی نگاہ افق میں اٹھ جاتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ روشن پرندہ لمحہ بہ لمحہ دور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ وہ مسرت سے چیخ کر اپنے تمام ساتھیوں کی توجہ پرندے کی جانب مبذ ول کرتا ہے۔ پلک جھپکتے ہی ان میں سے ایک کسی وزنی آلے کو اپنے شانے پر رکھتا ہے اور ایک زانو فرش پر ٹیک کر شست باندھتا ہے۔ دوسرے ہی لمحے وہ آلہ، بادل سی گرج کے ساتھ بارود اگل دیتا ہے۔ چند ہی سکنڈ بعد، پرندے کا روشن وجود بجھ کر رہ جاتا ہے۔ مارے وحشت کے میری سانس رکنے لگتی ہے اور ہچکی بندھ جاتی ہے۔ جس پر اسرار صورت میں وہ سائے آئے تھے، اسی پر اسرار صورت میں وہ غائب ہو جاتے ہیں۔‘‘
شریفی کے ہاتھ بدستور لرز رہے تھے۔ انھیں یقین ہو چکا تھا کہ بیگم فردوس کے خواب کی تعبیر انھوں نے جن نفسیاتی اصولوں اور تحلیل نفسی کے جن نظریوں کی بنیاد پر کی تھی۔ اب وہ تعبیر، خواب میں اس واقعے کے اضافے کے بعد سراسر غلط ثابت ہو رہی تھی۔ لہٰذا شریفی بیگم فردوس کے خواب کی اس پر اسرار عمارت میں ایک نئے دروازے سے داخل ہونے کے امکانات پر غور کر رہے تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.